السلام علیکم ورحمۃ اللہ
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ نے بھی عورتوں کو مسجد جانے سے نہیں روکا بلکہ اس وقت کے کچھ افعال جو خواتین میں تھے اس پر سخت تنبیہ کی ہے!
اب جو چاہے وہ دین محمدی پر عمل کرے ، اور جو چاہے وہ بنی اسرائیل کی شریعت پر عمل کرے،
محترم! بات یہ ہے کہ ترغیب کسی حدیث سے نہیں ملتی۔ آجکل جو یہ شور مچایا جاتا ہے کہ مساجد میں خواتین کے لئے بھی الگ سے جگہ متعین ہونی چاہیئے یہ کسی حدیث سے ثابت نہیں۔ مسجد حرام اور مسجد نبوی میں اس کا التزام اس لیئے ہے کہ یہاں زائرات نے بھی آنا ہوتا ہے لہٰذا ان کے لئے نماز پڑھنے کی جگہ کا انتظام لازم ہے۔ اسی طرح راستوں پر سڑکوں کے کنارے بھی خواتین کے لئے الگ انتظام ہو نا چاہئے۔ مگر رہائشی علاقوں میں اس کی ضرورت نہیں اور نہ ہی آقا علیہ السلام کی حیات میں اس کا انتظام تھا۔
لیکن یہ باتیں اسے سمجھ آئیں گی جسے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بتلائے ہوئے دین و شریعت پر ایمان ہوگا!
جسے کوفہ میں گھڑی گئی شریعت سازی پر اعتماد ہے وہ تو اس مکہ و مدینہ میں نازل شدہ دین میں ہزار حجت بازیاں پیش کر سکتا ہے!
محترم! یہ تو اللہ تبارک و تعالیٰ بہتر جانتےہیں کہ ہمیں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بتلائے ہوئے
دین و شریعت پر ایمان ہے کہ نہیں البتہ دین و شریعت کی سمجھ اللہ تعالیٰ نے وافر مقدار میں عطا کررکھی ہے۔
محترم! کوفہ میں شریعت سازی نہیں ہوئی بلکہ تفہیم شریعت ہوئی اور یہ مخفی نہیں۔
والسلام