• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

دل صاحب ایمان سے انصاف طلب ہے

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
دل صاحب "ایمان" سے انصاف طلب ہے!
بجواب
دل صاحب اولاد سے انصاف طلب ہے

ماروی میمن نے بچیوں کی شادی کی کم از کم عمر 18 سال مقرر کرنے کے لیے ایک بل پیش کیا , جسے ڈاکٹر عبد الکریم صاحب حفظہ اللہ نے خلاف شریعت کہہ کر مسترد فرما دیا ۔ لیکن شاید حافظ صاحب حفظہ اللہ کا اس خلاف شریعت بل کو رد کرنا کچھ لوگوں کو ہضم نہ ہوسکا تو انہوں نے اپنے دل کی بھڑاس نکالنا شروع کر دی۔ اسی سلسلہ میں محترم قاری حنیف ڈار صاحب کی ایک تحریر بعنوان"دل صاحب اولاد سے انصاف طلب ہے" نظروں سے گزری جس میں موصوف نے اصح الکتب بعد کتاب اللہ صحیح البخاری کی اس حدیث پر طعن کیا جس میں ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ ﷟ نے نکاح کے وقت اپنی عمر مبارک چھ سال ذکر فرمائی ہے۔آپ فرماتی ہیں :
«أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَزَوَّجَهَا وَهِيَ بِنْتُ سِتِّ سِنِينَ، وَأُدْخِلَتْ عَلَيْهِ وَهِيَ بِنْتُ تِسْعٍ، وَمَكَثَتْ عِنْدَهُ تِسْعًا»
نبی ﷺ نے ان سے جب نکاح کیا تو وہ چھ سال کی تھیں اور جب انکی رخصتی ہوئی تو وہ نو سال کی تھیں۔ اور وہ آپ ﷺ کے پاس نو سال تک رہیں۔ [صحیح البخاری:5133]
موصوف نے اس عمر میں شادی کو شرمناک فعل قرار دے کرایک طرف تو امام الانبیاء جناب محمد مصطفى ﷑ کی توہین کا ارتکاب کیا ہے اور دوسری طرف کتاب اللہ کے بعد صحیح ترین کتاب صحیح البخاری کی اصحیت پر کیچڑ اچھال کر امت کےاتفاق کو پارہ پارہ کرنے کی مذموم کوشش کی ہے۔
موصوف اس بات پہ مصر ہیں کہ کمسن بچیوں کی شادی نہیں ہوسکتی۔ اور نبی مکرم ﷑ کی شادی بھی سیدہ عائشہ ﷞ سے چھ سال کی عمر میں نہیں ہوئی, بلکہ یہ بات رسول مکرم ﷑ کی طرف غلط منسوب ہے۔ اپنے ان نظریات کا اظہار واضح لفظوں میں کرنے کی بجائے رقمطراز ہیں :
"نہ تو اپنی بیٹی ، پوتی ،نواسی کوئی چھ سال کی عمر میں کسی 53 سال کے مفتی صاحب کو دیتا ھے اور نہ ھی کوئی مفتی 53 سال کی عمر میں کسی 6 سال کی بچی سے نکاح کرتا ھے ،، سب کو اپنا اپنا امیج بہت عزیز ھے ،، اس سے بڑھ کر کوئی نفاق نہیں ھے کہ جس کام کو خود شرمناک سمجھتے ھیں اسے نبی کریم ﷺ کی طرف منسوب کرتے ھوئے ان کو شرم محسوس نہیں ھوتی ھے ،، ایک راوی نے قرآن کی نکاح کے لئے رشد کی عمر کی شرط کو ساقط کر دیا ھے ،، اور اسی ایک حدیث کو بنیاد بنا کر قرآن کو معطل کر کے رکھ دیا گیا ھے"
موصوف کی اس عبارت سے درج ذیل باتیں صاف جھلکتی ہیں:
1- سیدہ عائشہ صدیقہ ﷞ کے چھ سال کی عمر میں نکاح اور نو سال کی عمر میں رخصتی سے متعلق روایات جھوٹی اور غلط ہیں۔
2- ایک راوی(جس نے مذکورہ روایت بیان کی) کی وجہ سے یہ سب ہوا ہے۔
3- مذکورہ روایت کی وجہ سے قرآن کا حکم معطل کر دیا گیا۔
4- کمسنی کی شادی شرمناک فعل ہے۔
ہم سب سے پہلے روایت پر بات کریں گے کیونکہ تمام تر باتیں اسی کے گرد گھوم رہی ہیں ۔تو اس روایت کے صحیح ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ یہ روایت دو ایسی کتابوں میں موجود ہے جنہیں امت نے صحیح ترین کتب قرار دیا ہے۔ یعنی صحیح البخاری(5133) اور صحیح مسلم(1422)۔ اور یہ روایت صرف انہی دو کتب میں نہیں بلکہ انکے سوادیگر کتب میں بھی موجود ہے۔
اور پھر موصوف کے اس فرمان کہ " ایک راوی نے قرآن کی نکاح کے لئے رشد کی عمر کی شرط کو ساقط کر دیا ہے" سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ شاید یہ روایت کسی ایک ہی راوی نے بیان کی ہے۔ جبکہ صرف انہیں دو کتب کو ہی سامنے رکھا جائے تو معلوم ہوتا ہےکہ اس روایت کو سیدہ عائشہ صدیقہ ﷞ سے روایت کرنے والے دو مختلف اشخاص ہیں ایک کانا م اسود ہے اور دوسرے کا عروہ , عروہ سے انکے بیٹے ہشام اور امام زہری روایت کرتے ہیں تو اسود سے انکے شاگرد رشید ابراہیم , پھر ابراہیم سے یہ روایت نقل کرنے والے اعمش ہیں اور زہری سے معمر, اور ہشام سے عبدہ بن سلیمان , سفیان, علی بن مسہر,وہیب وغیرہ ہیں۔ یعنی یہ روایت کسی "ایک" راوی کی مرہون نہیں ہے۔ اس صحیح حدیث پر طعن کرنےکے لیے موصوف نے قرآن مجید فرقان حمید کی ایک آىت کو بنیاد بنانے کی کوشش کی ہے۔ جو درج ذیل ہے:
وَابْتَلُواْ الْيَتَامَى حَتَّىَ إِذَا بَلَغُواْ النِّكَاحَ فَإِنْ آنَسْتُم مِّنْهُمْ رُشْداً فَادْفَعُواْ إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ
اور یتیموں کو آزماؤ حتى کہ وہ نکاح کی عمر کو پہنچ جائیں, تو اگر تم ان میں کوئی بھلائی دیکھو تو انکے مال انکے سپرد کر دو۔ [النساء : 6]
اس آیت کو بنیاد بناتے ہوئے موصوف رقمطراز ہیں:
"تقسیمِ وراثت میں تو نکاح کی عمر کو فرض سمجھ لیا گیا ھے جو کہ شعور کے ساتھ مشروط ھے ،مگر نکاح 6 ماہ کی بچی کا بھی کیا جا سکتا ھے گویا نکاح کی وہ عمر ھی سراب ٹھہری جس کو اللہ نے تقسیمِ وراثت کا پیمانہ بنایا تھا "
موصوف کی درج بالا عبارت سے واضح ہوتا ہے کہ
1- موصوف "تقسیم وراثت" کے لیے نکاح کی عمر کو فرض سمجھتے ہیں۔اور اسے "رشد" سے مشروط کرکے تقسیم وراثت کا پیمانہ قرار دیتے ہیں۔
2- بلوغت سے قبل نکاح کو ناجائز قرار دیتے ہیں۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ مذکورہ بالا آیت مبارکہ میں اللہ﷯ نے نکاح کی عمر کو "تقسیم وراثت" کے لیے شرط نہیں قرار دیا بلکہ آیت کے الفاظ سے کسی بھی ادنی شعور رکھنے والے کو یہ بات واضح سمجھ آسکتی ہے کہ نکاح کی عمر کو جس کام کے لیے شرط قرار دیا گیا ہے وہ ہے "مال سپرد کرنا" ۔ یعنی یہ ضروری نہیں ہے کہ جب ورثاء سب نکاح کی عمر کو پہنچ جائیں اور ان میں رشد بھی آ جائے تو تب مال وراثت تقسیم کیا جائے۔ بلکہ اس سے قبل بھی وراثت تقسیم کی جاسکتی ہے ۔ اور ایسے بچوں کے حصص جو ابھی سمجھدار نہیں ہوئے انکےسپرد کرنے کی بجائے ان کے سرپرست اپنے پاس محفوظ رکھیں اور جب بچے سمجھدار ہو جائیں تو پھر وراثت میں انکا جو حصہ تھا وہ انکے سپرد کر دیا جائے۔
اور دوسری بات یہ ہے کہ مال کی حوالگی کے لیے اللہ تعالى نے محض "نکاح" کی عمر کو شرط قرار نہیں دیا بلکہ اس عمر نکاح کے ساتھ "رشد" یعنی سمجھدار ہونے کو بھی شامل کیا ہے۔ جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ نکاح سمجھدار ہونے سے پہلے بھی کیا جاسکتا ہے! کیونکہ اگر نکاح کے صحیح ہونے کے لیے سمجھدار ہونا شرط ہوتا تو اللہ تعالى صرف عمر نکاح کا تذکرہ فرماتے کہ سمجھداری اس میں ضمناً ہی موجود ہے۔ لیکن چونکہ ایسا نہیں تھا اس لیے اللہ ﷯ نے بَلَغُواْ النِّكَاحَ کے بعد ایک اور شرط فَإِنْ آنَسْتُم مِّنْهُمْ رُشْداً کہہ کر لگائی کہ جب یہ دونوں کام ہو جائیں بچے نکاح کی عمر کو بھی پہنچ جائیں اور ان میں سمجھداری بھی آ جائے تو تب انکے مال انکے سپرد کر دیے جائیں۔ اس بات کو سمجھتے ہی یہ مسئلہ بھی واضح ہو جاتا ہے کہ موصوف جس آیت سے کمسنی میں نکاح کا عدم جواز کشید فرما رہے تھے , وہی آیت انکے موقف کے خلاف دلیل ہے! کیونکہ کتاب اللہ یعنی قرآن مجید فرقان حمید ایسی معجز کتاب ہے کہ :
لَا يَأْتِيهِ الْبَاطِلُ مِن بَيْنِ يَدَيْهِ وَلَا مِنْ خَلْفِهِ تَنزِيلٌ مِّنْ حَكِيمٍ حَمِيدٍ
باطل نہ اسکے سامنے سے آسکتا ہے اور نہ پیچھے سے , (یہ قرآن) نہایت دانا, بہت زیادہ تعریف کی گئی ذات کی طرف سے نازل شدہ ہے۔ [فصلت : 42]
رہا یہ سوال کہ شادی کی عمر کیا ہے؟ تو اسکی بابت عرض ہے کہ شادی کے دو بڑے حصے ہیں ایک نکاح محض اور دوسرا رخصتی ۔ جہاں تک نکاح کا تعلق ہے تو وہ عمر کے کسی بھی حصہ میں ہوسکتا ہے۔ نومولود بچے کا نکاح بھی ہوسکتا ہے اور اسکی طرف سے اسکے اولیاء وکیل بن کر قبول کریں گے۔ اور جہاں تک رخصتی کا معاملہ ہے تو اسکے لیے ہمبستری کے قابل ہونا ضروری ہے۔ کیونکہ اس میں یہی مقصودِ اصلی ہے۔ اور اس بات کا فیصلہ صحت کو دیکھ کر کیا جاتا ہے۔ شریعت اسلامیہ نے اس بارہ کوئی پابندی نہیں لگائی۔
اور یہی بات ڈاکٹر حافظ عبد الکریم صاحب حفظہ اللہ نے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے مذہبی امور کے اجلاس میں فرمائی تھی کہ "اگر 18 برس سے کم عمر لڑکی کی شادی مقصود ہو تو اسکے لیے میڈیکل افسر کے سرٹیفکیٹ کی شرط عائد کی جاسکتی ہے, اور سرٹیفیکٹ یہ ہو کہ بچہ پیدا ہونے کی صورت میں لڑکی کی جان کو کوئی خطرہ نہیں ہوگا۔"
حافظ صاحب موصوف نے ماروی میمن صاحبہ کے پیش کردہ بل کو صرف مسترد ہی نہیں کیا بلکہ انکے تحفظات کا علاج بھی مذکورہ بالا مشورہ کے ساتھ فرما دیا ہے۔ اور پھر موصوف حنیف ڈار صاحب کی پیش کردہ وہ آیت جسے وہ اپنے حق میں سمجھ رہے تھے , جب انکے موقف کے خلاف واضح طور پر دلیل ہے ۔اور سمجھداری کی عمر تک پہنچنے سے پہلے ہی نکاح کے قابل ہو جانے پر دلیل ہے تو پھر کمسنی کی شادی کو "شرمناک" قرار دینا نہ صرف رسول اللہ ﷑ کی توہین ہے بلکہ یہ قرآن مجید فرقان حمید کی بھی توہین اور اللہ ﷯ کی شان میں بھی گستاخی ہے۔
اور صرف یہی ایک آیت نہیں , قرآن مجید میں اللہ سبحانہ وتعالى نے ایسی بچیوں کے نکاح کے بعد کے احکامات بھی ذکر فرمائے ہیں جن کی شادی بلوغت سے قبل ہو جاتی ہے اور ازدواجی تعلقات بھی قائم کر لیے جاتے ہیں ۔ اگر یہ سب ناجائز اور غلط ہوتا , تو اللہ ﷯ اپنی پاک کتاب میں اس عمل کو ہی حرام ٹھہراتے نہ کہ اس پر مرتب ہونے والے احکامات ذکر کرتے۔ اللہ رب العالمین نے قرآن مجید فرقان حمید میں طلاق یافتہ عورتوں کی عدت مختلف اعتبارات سے مختلف بیان فرمائی ہے۔ اگر تو کسی عورت کو نکاح کے بعد طلاق دے دی گئی ہے اور رخصتی نہیں ہوئی یا رخصتی بھی ہوئی ہے لیکن ابھی تک انکے خاوندوں نے انکے ساتھ ہمبستری نہیں کی اور پہلے ہی طلاق دے دی ہے تو ایسی عورتوں پر کوئی عدت نہیں ہے وہ طلاق کے فورا بعد چاہیں تو اسی دن ہی کسی بھی دوسرے مرد سے نکاح کر سکتی ہیں :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نَكَحْتُمُ الْمُؤْمِنَاتِ ثُمَّ طَلَّقْتُمُوهُنَّ مِن قَبْلِ أَن تَمَسُّوهُنَّ فَمَا لَكُمْ عَلَيْهِنَّ مِنْ عِدَّةٍ تَعْتَدُّونَهَا "
اے اہل ایمان جب تم مؤمنہ عورتوں سے نکاح کرو اور انہیں چھونے (ہمبستری کرنے ) سے پہلے ہی طلاق دے دو تو تمہاری خاطر ان کے ذمہ کوئی عدت نہیں ہے ۔ " [الأحزاب : 49]
اور وہ عورتیں جنہیں حیض آتا ہے ان کی عدت تین حیض متعین کی گئی ہے :
وَالْمُطَلَّقَاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ ثَلاَثَةَ قُرُوَءٍ "
اور طلاق یافتہ عورتیں تین حیض تک انتظار کریں (یعنی عدت گزاریں ) " [البقرة : 228]
اور وہ خواتین جنہیں حیض نہیں آتا: اگر تو حمل کی وجہ سے حیض کی بندش ہے تو انکی عدت وضع حمل ہے اور اگر وہ بانجھ ہو چکی ہیں یا ابھی انہیں حیض آنا شروع ہی نہیں ہوا یعنی نابالغ ہیں اور انہیں طلاق دے دی گئی ہے تو انکی عدت تین ماہ ہے:
وَاللَّائِي يَئِسْنَ مِنَ الْمَحِيضِ مِن نِّسَائِكُمْ إِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُهُنَّ ثَلَاثَةُ أَشْهُرٍ وَاللَّائِي لَمْ يَحِضْنَ وَأُوْلَاتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَن يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ "
اور وہ عورتیں جو حیض سے مایوس ہو چکی ہیں تو انکی عدت تین ماہ ہے اور ان کی بھی جنہیں ابھی حیض شروع نہیں ہوا , اور حمل والی خواتین کی عدت وضع حمل ہے ۔" [الطلاق : 4]
اللہ رب العالمین کے اس فرمان کی روشنی میں یہ بات نہایت ہی آسانی سے سمجھی جاسکتی ہے کہ عورت اگر نابالغ ہو تو بھی اس سے نکاح کیا جاسکتا ہے , رخصتی ہوسکتی ہے , خاوند اس سے ازدواجی تعلقات قائم کرسکتا ہے ۔ کیونکہ ازوداجی تعلقات قائم کرنے سے پہلے ہی اگر کوئی شخص اپنی منکوحہ کو طلاق دے دے تو اس پر عدت نہیں ہے جیسا کہ اللہ تعالى کے فرمان سے یہ بات واضح کی جاچکی ہے ۔اور اس آخری آیت میں اللہ تعالى نے ان عورتوں کی عدت بیان کی ہے جنہیں حیض نہیں آیا اور طلاق دے دی گئی , اور یہ بات تو ہر کسی کو علم ہے کہ طلاق صرف اسے ہی دی جاسکتی ہے جس سے نکاح کیا گیا ہو , غیر منکوحہ عورت کو طلاق دینے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ اور وہ عورت جسے طلاق دے دی گئی جبکہ اسے ابھی حیض آیا ہی نہیں ہے یعنی وہ بالغ ہوئی ہی نہیں ہے تو اسے تین ماہ تک عدت گزارنے کا حکم دیا جا رہا ہے , جبکہ غیر مدخول بہا عورت کے لیے عدت ہے ہی نہیں , تو اس سے یہ بات واضح طور پر سمجھ آتی ہے کہ یہ ایسی نابالغ عورت کی عدت ہے جس سے بلوغت سے قبل ہی نکاح کیا گیا اور ازدواجی تعلقات بھی قائم کیے گئے اور قبل ازبلوغت ہی اسے طلاق بھی دے دی گئی ۔اگر قبل از بلوغت عورت سے نکاح کرنا اور ازدواجی تعلقات قائم کرنا ناجائز ہوتا تو اللہ سبحانہ وتعالى کبھی اس قسم کی عورت کے لیے طلاق کی عدت مقرر نہ فرماتے ۔جبکہ اللہ تعالى کے فرمان , قرآن مجید فرقان حمید سے یہ بات ثابت ہوچکی کہ نابالغہ عورت سے نکاح کیا جاسکتا ہے , اس سے ازدواجی تعلقات قائم کیے جاسکتے ہیں , اور اگر اسے طلاق ہو جائے تو اسے عدت گزارنے کا بھی حکم ہے ۔
موصوف قاری صاحب نے اس آیت پر بھی اعتراض وارد کیا ہے وہ فرماتے ہیں: "بات عورتوں کی ھو رھی ھے بچیوں کی نہیں ، اور 8 یا 9 یا 10 سال کی بچی کو عربی میں کبھی نساء اور اردو میں کبھی عورت نہیں کہتے"
پہلی بات تو یہ ہے کہ موصوف نے یہاں "پیشہ ورانہ ہیرا پھیری" سے کام لیا ہے ۔ کیونکہ اللہ سبحانہ وتعالى کا فرمان ہے :
وَاللَّائِي يَئِسْنَ مِنَ الْمَحِيضِ مِن نِّسَائِكُمْ إِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُهُنَّ ثَلَاثَةُ أَشْهُرٍ وَاللَّائِي لَمْ يَحِضْنَ وَأُوْلَاتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَن يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ "
اور وہ عورتیں جو حیض سے مایوس ہو چکی ہیں تو انکی عدت تین ماہ ہے اور ان کی بھی جنہیں ابھی حیض شروع نہیں ہوا , اور حمل والی خواتین کی عدت وضع حمل ہے ۔" [الطلاق : 4]
یعنی لفظ "نساء" ان کے لیے استعمال کیا ہے جو حیض سے مایوس ہو چکی ہوں, یعنی عمر رسیدہ خواتین کے لیے ۔ اور پھر اسکے ساتھ ساتھ انکی عدت کا بھی تذکرہ فرمایا ہے جنہیں کبھی حیض آیا ہی نہیں, اور انکے لیے اللہ تعالى نے لفظ وَاللَّائِي استعمال فرمایا ہے۔ اور یہ لفظ عورتوں , بچیوں سب کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ چونکہ جنہیں حیض کبھی نہ آیا ہو وہ بچیاں بھی ہوسکتی ہیں اور بیمار لڑکیاں اور عورتیں بھی, سو ان سب کے لیے ایک ہی مشترکہ لفظ استعمال کر لیا گیا ہے۔ دوسری بات ہے کہ جب مختلف عمر کی صنف نازک کا ذکر ایک ہی لفظ میں کرنا ہو تو انکے لیے عربی میں "نساء, نسوۃ" اور اردو میں "عورتیں, خواتین" جیسے الفاظ استعمال ہوتے ہیں۔ مثلا اگر کہیں یہ لکھا ہو کہ مرد اِس کمرہ میں تشریف رکھیں اور عورتیں اُس کمرہ میں, تو بچیاں یا بچے ان کمروں کے علاوہ کوئی تیسرا یا چوتھا کمرہ نہیں تلاش کریں گے بلکہ بچیاں خواتین کے ساتھ داخل ہونگی اور بچے مردوں کے ساتھ۔
رہی موصوف کی یہ بات کہ: " نہ تو اپنی بیٹی ، پوتی ،نواسی کوئی چھ سال کی عمر میں کسی 53 سال کے مفتی صاحب کو دیتا ھے اور نہ ھی کوئی مفتی 53 سال کی عمر میں کسی 6 سال کی بچی سے نکاح کرتا ھے ،، سب کو اپنا اپنا امیج بہت عزیز ھے" تو یہ ہندوانہ معاشرہ کی ذہنیت کی عکاس ہے! وگرنہ آج بھی ہمارے معاشرہ میں چھ سال نہیں بلکہ چھ ماہ کی عمر میں بھی بعض خاندان اپنی بچیوں کا نکاح کر دیتے ہیں اور پھر انکے جوان ہونے کے بعد انکی رخصتی کی جاتی ہے۔
اور پھر جب ایک عمل کو اللہ ﷯ نے حلال قرار دیا , اور امام الانبیا جناب محمد مصطفى ﷑ نے اس پر عمل بھی کرکے دکھایا, اسے تسلیم کرنے سے اگر کسی کے دل میں کچھ تنگی ہے تو اسے اپنے ایمان کی فکر کرنی چاہیے ۔ کیونکہ اللہ سبحانہ وتعالى فرماتے ہیں:
فَلاَ وَرَبِّكَ لاَ يُؤْمِنُونَ حَتَّىَ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لاَ يَجِدُواْ فِي أَنفُسِهِمْ حَرَجاً مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُواْ تَسْلِيماً
پس نہیں!, تیرے رب کی قسم یہ ایمان نہیں لائیں گے! حتى کہ آپ ﷑ کو اپنے اختلافات میں اپنا حاکم نہ تسلیم کرلیں, اور پھر جو فیصلہ آپ ﷑ فرما دیں اسکے بارہ میں اپنے دلوں میں کچھ بھی گھٹن یا تنگی نہ رکھیں اور اسے خوش دلی سے تسلیم کر لیں۔ [النساء : 65]
اب ہماری ان معروضات کے بعد ہر صاحب "ایمان" کو دل تھام کر انصاف کرنا ہوگا کہ نبی مکرم ﷑ کا عمل , اللہ ﷯ کا حکم درست و صحیح ہے , یا مغرب گزیدہ ذہنیت کے خیالات وافکار؟ جبکہ اس معاشرہ میں پانچ سے دس سال کی عمر میں ماں بننے والی عورتوں کی ایک طویل فہرست ہے۔
ایک پانچ سالہ ماں کا مختصر تعارف آپ درج ذیل لنک پر دیکھ سکتے ہیں: http://youngest_mother.tripod.com/
اور اسکے علاوہ پانچ سے دس سالہ ماؤں کی ایک طویل فہرست ویکیپیڈیا کے درج ذیل لنک پر ملاحظہ کی جاسکتی ہے: https://en.wikipedia.org/wiki/List_of_youngest_birth_mothers

بشکریہ: محترم شیخ @رفیق طاھر
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
تحریر مکرر بلکہ سہ کرر ہے ، کل رات کو فورم پر لگ چکی ہے ، خود ہی ڈھونڈیں ۔ ابتسامہ ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
محترم شیخ صاحب!
بالا مضمون کو ارسال کرنے کے بعد دوسرے مراسلات کی ورق گردانی کرتے ہوئے آپ کی ایک پوسٹ جو مذکورہ مضمون پر مشتمل تھی اسے دیکھ کر اول نظر میں یوں محسوس ہوا تھا کہ آپ نے میری ہی پوسٹ کو کاپی کر لیا ہے کیونکہ پوسٹ کی فارمیٹنگ اپنی اپنی سی لگ رہی تھی لیکن جب وقت اشاعت دیکھا تو چپکے سے وہاں سے نکل گیا۔۔۔۔ابتسامہ!
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
محترم شیخ صاحب!
بالا مضمون کو ارسال کرنے کے بعد دوسرے مراسلات کی ورق گردانی کرتے ہوئے آپ کی ایک پوسٹ جو مذکورہ مضمون پر مشتمل تھی اسے دیکھ کر اول نظر میں یوں محسوس ہوا تھا کہ آپ نے میری ہی پوسٹ کو کاپی کر لیا ہے کیونکہ پوسٹ کی فارمیٹنگ اپنی اپنی سی لگ رہی تھی لیکن جب وقت اشاعت دیکھا تو چپکے سے وہاں سے نکل گیا۔۔۔۔ابتسامہ!
و علیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
:)
اچھا ہوا حقوق فارمیٹنگ کا دعوی دائر کرنے سے پہلے تحقیق کر لی ۔ ابتسامہ
میرے خیال میں آپ نے یہ الفاظ اپنی معصومیت ظاہر کرنے کے لیے کہیں ہیں کہ کہیں آپ پر یہ مقدمہ قائم نہ کر دیا جائے ۔۔۔۔ مسکراہٹیں ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
بازگشت - قاری حنیف ڈار صاحب کی تحریر اور پسندیدگیوں کا جواب

لساني صارم لا عيب فيه, وبحري لا تكدره الدلاء
(محترم جناب قاری حنیف ڈار صاحب کی تحریر اور بین السطور خاموشیوں کا جواب)​

ہمارے ممدوح جناب قاری حنیف ڈار صاحب نے میرے مضمون (دل صاحب "ایمان" سے انصاف طلب ہے) کے جواب میں ایک پوسٹ اپنی فیس بک وال پر لگائی ہے۔ جس میں انہوں نے میرے پیش کردہ دلائل میں سے کسی کا بھی جواب نہیں دیا ۔ اور بات کو دلائل کے بجائے جذبات سے سمجھنے سمجھانے کی کوشش میں مصروف ہوتے ہوئے فرمانے لگے :
" یہاں بچیاں زیرِ بحث نہیں ،، اللہ کا رسول ﷺ اور اس رسول ﷺ کا کردار زیر بحث ھے"
اور پھر اسی فکر کا اظہار ان کلمات میں کرنے لگے :
" نبی کریم ﷺ کی طرف اخلاقی پستی پر مبنی واقعات کو درج کرنے والوں میں سے کسی نے بھی ان کے ارتکاب کی جرأت نہیں کی ،، اور نہ آج ان کو پڑھانے اور حفظ کروانے والوں میں سے کوئی چھ سال کی بچی کسی 53 سال کے شیخ الحدیث کو دینے کو تیار ھے اور نہ ھی کوئی 53 سالہ شیخ 6 سال کی بچی سے شادی کرنے کے لئے تیار ھوتا ھے ،یہ تو ان کی بے ضمیری کا حال ھے ،،
" موصوف کی اس عبارت سے اہل خرد ودانش یہ بات بآسانی سمجھ سکتے ہیں کہ موصوف کو 6-9 سالہ بچی کا نکاح کسی 10-20 سالہ لڑکے کے ساتھ کرنے پہ کوئی اعتراض نہیں ہے۔ کیونکہ اگر انہیں 6-9 سالہ بچی کے "نکاح" پہ ہی اعتراض ہوتا تو وہ اس طرح سے عمر کا تقابل نہ فرماتے ۔ اور یہی بات محولہ بالا انکی پہلی عبارت سے بھی مترشح ہوتی ہے کہ وہ 9 سالہ کی رخصتی 53 سالہ کے ساتھ اور 6سالہ کا نکاح 50 سالہ کے ساتھ باعث شرم وعار سمجھتے ہیں اسی لیے تو فرما رہے ہیں " یہاں بچیاں زیرِ بحث نہیں" یعنی نہ بچیاں زیر بحث ہیں اور نہ ہی بچیوں کی کم عمری میں شادی زیر بحث ہے ۔ اب زیر بحث آئی ہے تو کم سن بچی کی معمر شخص کے ساتھ شادی ۔
ویسے گستاخی معاف! میں اپنے ممدوح کو یاد کروانا چاہوں گا کہ جو بل اسمبلی میں پیش کیا گیا اس میں زیر بحث یہی "بچیاں" ہی تھیں! انہی "بچیوں" کی شادی کے بارہ میں بل پیش کیا گیا تھا اور اسے رد کیا گیا تھا نہ کہ "کم سن بچی کی معمر کے ساتھ شادی" کا بل تھا۔ لیکن آنجناب تو محترم ڈاکٹر حافظ عبد الکریم صاحب کے اس بل کو رد کرنے پہ سیخ پا ہوگئے تھے۔ اس وقت آپکو یہ کیوں سمجھ نہیں آسکی کہ بل میں "بچیاں زیر بحث ہیں" نہ کہ بچیوں کی ایک خاص حالت (یعنی کمسنی میں کسی معمر آدمی کے ساتھ شادی والی حالت)!۔ اور بل میں ماروی میمن نے جو باتیں پیش کیں ان میں کہیں وہ نقطہ زیر بحث نہیں تھا جس پر آپ اب پہنچے ہیں !!۔
اس نے ہمارے معاشرہ میں ہونے والی شادیوں کے بارہ میں ہی ایک قانون پاس کروانے کی کوشش کی تھی اور وہ تھا " نکاح کے وقت بچیوں کی کم از کم عمر کی تحدید" کا بل ۔ یعنی ایک کام جو معاشرہ میں ہو رہا ہے , جسے کوئی بھی باعث شرم وعار نہیں سمجھتا‘ اپنے تئیں ایک عورت چند تحفظات کے پیش نظر اسکے بارہ قانون منظور کروانے جا رہی تھی۔
یعنی جب بات چلی تو کسی اور موضوع پہ چلی تھی , لیکن اب ہمارے ممدوح قاری صاحب نے اس موضوع کے وسعتوں سے دستبرداری اختیار کرتے ہوئے ایک خاص نقطہ کو ہی اصل موضوع بنانے کی سعی فرمائی ہے۔اور اس تنگ گلی میں آنے کے لیے موصوف نے اپنی پہلی تحریر میں راستہ رکھ لیا تھا, لیکن چونکہ اس وقت مدعا یہ خاص مسئلہ نہیں تھا , بلکہ بالعموم کم سن بچیوں کی شادی سے متعلق تھا کہ آیا اسلام کمسنی میں نکاح کی اجازت دیتا ہے یا نہیں , سو ہم نے موصوف کی اس عبارت کی طرف زیادہ التفات نہیں کیا۔ اور اب بھی جو باتیں انہوں نے اصل مدعا سے ہٹ کر فرمائی ہیں ان کا جواب نہیں دیں گے تاکہ بات موضوع پر ہی رہے۔
ہم اپنے ممدوح جناب قاری حنیف ڈار سے عرض کرتے ہیں کہ آنجناب کے نزدیک امام الانبیاء جناب محمد مصطفى ﷑ سے نکاح کے وقت ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ ﷞ کی عمر مبارک 16 برس اور رخصتی کے وقت 19 برس تھی۔ یہی بات ہمارے ممدوح سے قبل انکے اکابرین نے بھی اپنی تحریرات میں بیان کی ہے۔ اور آنجناب کے اس موقف کو سامنے رکھتے ہوئے ہم آپ ہی کی عبارت میں صرف اعداد کو تبدیل کرکے آپ سے ہی سوال کرتے ہیں :
" نبی کریم ﷺ کی طرف اخلاقی پستی پر مبنی واقعات کو درج کرنے والوں میں سے کسی نے بھی ان کے ارتکاب کی جرأت نہیں کی ،، اور نہ آج ان کو پڑھانے اور حفظ کروانے والوں میں سے کوئی سولہ سال کی بچی کسی 53 سال کے شیخ الحدیث کو دینے کو تیار ھے اور نہ ھی کوئی 53 سالہ شیخ سولہ سال کی بچی سے شادی کرنے کے لئے تیار ھوتا ھے ،یہ تو ان کی بے ضمیری کا حال ھے ،،
" اور پھر اپنے مداحوں کے جن کمنٹس پر آنجناب نے تعریف کے ڈونگرے برسائے انہی کمنٹس کو ناموں میں ترمیم کرکے آپ سے "لائک" اور "واہ ،،،،،،،،،،،،،، (سمائل)" کی استدعاء کرتے ہیں:
"قاری حنیف ڈارصاحب سے کہیے کہ اپنی بیٹی جاوید احمد غامدی صاحب سے بیاہ دیں۔۔۔ مسئلہ ای مک جائے۔۔۔"
اور ایک مزید جس پر آپ نے صرف لائک کیا اعداد و اسماء کی تبدیلی اور بین القوسین ضروری وضاحت شامل کرکےروئے سخن آنجناب کی جانب موڑتے ہیں:
" نہائیت ادب سے سوال ہے کہ وال پر موجود کوئی بھی شخص اپنی 16 سالہ بیٹی کی شادی اور 19 سال کی عمر میں رخصتی (کسی 53 سالہ شخص کے ساتھ) کر سکتا ہے ۔ حتی کہ یہ قاری حنیف ڈار۔ ..........اگرحنیف ڈار ایسا کرسکتے ہے تو اس کے لئے انتظام موجود ہے ۔ سنت ادا کرنے کا بہترین موقع ہاتھ سے نہ جانے دیں (سمائل) بلکہ میرا پیغام ان تمام مولویان و ٹھیکیدارن اسلام کے لئے ہےجو قاری حنیف ڈار کے ہم خیال ہیں"
کہیے صاحب! ان مذکورہ بالا دونوں تحریروں پہ بھی آپ "واہ,,,,,,,,,,," لکھ کر ایک مسکراتی سمائل پھینکے گے ؟ اور ساتھ ہی لائک کے ڈونگرے بھی برسائیں گے؟؟؟
"دل صاحبِ اولاد سے انصاف طلب ہے"
ذرا دل تھام کر جواب دیجئے گا, کیونکہ آپکے نزدیک بھی یہ شادی ہوئی اور عمر میں فرق صرف دس سال کا تھا یعنی 6-9 نہیں بلکہ 16-19 اور دوسری جانب کی عمر پہ تو آپکو بھی اعتراض نہیں !
اس سے ذرا ایک قدم آگے بڑھتے ہیں کیا آپ اپنی 16 سالہ بیٹی 50 سالہ حافظ عبد الکریم صاحب کو دیں گے؟ کیونکہ دیکھیے ناں ! آپ کی اپنی رائے کے مطابق جب 16 سالہ سیدہ عائشہ ﷞ کا نکاح نبی مکرم ﷑ کے ساتھ 50 سال کی عمر میں ہوا , اور 19 سال کی عمر میں انکی رخصتی ہوئی جبکہ رسول اللہ ﷑ کی عمر مبارک اس وقت 53 سال تھی تو رخصتی کے وقت رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کے عقد میں ایک سے زائد بیویاں تھیں ۔ کیا ہوا کہ ڈاکٹر عبد الکریم صاحب پہلے بھی متعدد الزوجات ہیں, لیکن انکی زوجات کی تعداد رسول معظم ﷑ کی زوجات سے تو کم ہے۔ سو آپ کے لیے یہ امر بھی مانع نہیں ہونا چاہیے!اور پھر یہ کام تو آپکے نزدیک بھی "شرمناک" نہیں ہے کہ دو سے زائد سوکنوں والے 53 سالہ صاحب الدار کے ساتھ 16 سالہ بچی کا نکاح یا 19 سالہ کی رخصتی کر دی جائے!
ذرا جلدی جواب دیجئے گا, اگر ہاں میں ہے تب بھی اور اگر ناں میں ہے تب بھی!
کیونکہ اگر اپنے "زندہ ضمیر" سے آپ اپنے موقف کے مطابق عمل کی دنیا میں کودتے ہیں تو تب آپکو ہاں کرنا پڑے گی اور رشتہ کے لیے آپکی طرف سے ہاں کے بعد ہمیں حافظ صاحب کی نئے نکاح کی تیاریاں کرنی پڑیں گی کیونکہ نیک کام میں دیر نہیں ہونی چاہیے۔
اور اگر آپکا"زندہ ضمیر" اپنے موقف کے مطابق عمل کی دنیا میں آنجناب کو اترنے سے مانع ہے, تو پھر کہہ دیجئیے کہ یہ نکاح 16 سال اور رخصتی 19 سال کی عمر میں بھی نہیں ہوئی تھی ! اور اسے 16 سالہ کے 50 سالہ کے ساتھ نکاح کو بھی "شرمناک فعل" کا ایوارڈ عطاء فرما دیجئے۔ یا پھر کہیے کہ میرا ضمیر "زندہ" نہیں ہے , کیونکہ میں یہ بات رسول اللہ ﷑ کی طرف تو منسوب کر سکتا ہوں لیکن اپنی 16 سالہ بیٹی یا نواسی 50 سالہ حافظ عبد الکریم کو نہیں دے سکتا۔ اور ... اور... الخ
آخر میں ہم قارئین کرام سے معذرت چاہیں گے کہ ہم نے اپنے ممدوح کو انہی کی زبان میں جواب دیا کیونکہ یہ ہمارا مزاج نہیں ہے , اور نہ ہی ہمارے قارئین اس مزاج کو پسند کرتے ہیں ۔ لیکن کیا کہتے ہیں کہ :
بد نہ بولے زیر گردوں گر کوئی میری سنے
ہے یہ گنبد کی صدا جیسی کہے ویسی سنے
اور ویسے بھی میں نے اپنی طرف سے کوئی ایسا لفظ استعمال نہیں کیا ہے جس سے کسی کی دل آزاری ہوتی ہو, بس جن کلمات کو ہمارے ممدوح جناب قاری حنیف ڈار صاحب نے پسند فرمایا انہیں جملوں کو من وعن نقل کرتے ہوئے صرف نام اور اعداد بدل کر اپنے ممدوح کو آئینہ دکھایا ہے کہ اخلاق عالیہ کا درس دینے والے ہمارے ممدوح قاری صاحب اپنے ہمنواؤں کے گھٹیا اور غیر اخلاقی کمنٹس پر مسرت کا اظہار کرکے اپنے عالی اخلاق نہیں کر رہے , اور صرف نام و اعداد بدل کر یہ احساس دلانے کی کوشش کی ہےکہ کسی کے بارہ کچھ لکھنے , بولنے اور کیے گئے تبصرہ پر خوشی کے ڈونگرے برسانے سے قبل یہ سوچنا ضروری ہے کہ وہ بھی سینہ میں دل, منہ میں زباں,ہاتھ میں قلم اور انگلیوں تلے کیبورڈ رکھتے ہیں! ہمارے ممدوح نے جن محولہ بالا پوسٹوں پر کمنٹ اور لائک کرکے اپنے اتفاق کا اظہار فرمایا انکی سکرین شاٹ پیش خدمت ہے:

HANEEFDAAR1 (1).png

HANEEFDAAR2.png

بشکریہ محترم @رفیق طاھر صاحب
 

میرب فاطمہ

مشہور رکن
شمولیت
جون 06، 2012
پیغامات
195
ری ایکشن اسکور
218
پوائنٹ
107
بازگشت - قاری حنیف ڈار صاحب کی تحریر اور پسندیدگیوں کا جواب

لساني صارم لا عيب فيه, وبحري لا تكدره الدلاء
(محترم جناب قاری حنیف ڈار صاحب کی تحریر اور بین السطور خاموشیوں کا جواب)​

ہمارے ممدوح جناب قاری حنیف ڈار صاحب نے میرے مضمون (دل صاحب "ایمان" سے انصاف طلب ہے) کے جواب میں ایک پوسٹ اپنی فیس بک وال پر لگائی ہے۔ جس میں انہوں نے میرے پیش کردہ دلائل میں سے کسی کا بھی جواب نہیں دیا ۔ اور بات کو دلائل کے بجائے جذبات سے سمجھنے سمجھانے کی کوشش میں مصروف ہوتے ہوئے فرمانے لگے :
" یہاں بچیاں زیرِ بحث نہیں ،، اللہ کا رسول ﷺ اور اس رسول ﷺ کا کردار زیر بحث ھے"
اور پھر اسی فکر کا اظہار ان کلمات میں کرنے لگے :
" نبی کریم ﷺ کی طرف اخلاقی پستی پر مبنی واقعات کو درج کرنے والوں میں سے کسی نے بھی ان کے ارتکاب کی جرأت نہیں کی ،، اور نہ آج ان کو پڑھانے اور حفظ کروانے والوں میں سے کوئی چھ سال کی بچی کسی 53 سال کے شیخ الحدیث کو دینے کو تیار ھے اور نہ ھی کوئی 53 سالہ شیخ 6 سال کی بچی سے شادی کرنے کے لئے تیار ھوتا ھے ،یہ تو ان کی بے ضمیری کا حال ھے ،،
" موصوف کی اس عبارت سے اہل خرد ودانش یہ بات بآسانی سمجھ سکتے ہیں کہ موصوف کو 6-9 سالہ بچی کا نکاح کسی 10-20 سالہ لڑکے کے ساتھ کرنے پہ کوئی اعتراض نہیں ہے۔ کیونکہ اگر انہیں 6-9 سالہ بچی کے "نکاح" پہ ہی اعتراض ہوتا تو وہ اس طرح سے عمر کا تقابل نہ فرماتے ۔ اور یہی بات محولہ بالا انکی پہلی عبارت سے بھی مترشح ہوتی ہے کہ وہ 9 سالہ کی رخصتی 53 سالہ کے ساتھ اور 6سالہ کا نکاح 50 سالہ کے ساتھ باعث شرم وعار سمجھتے ہیں اسی لیے تو فرما رہے ہیں " یہاں بچیاں زیرِ بحث نہیں" یعنی نہ بچیاں زیر بحث ہیں اور نہ ہی بچیوں کی کم عمری میں شادی زیر بحث ہے ۔ اب زیر بحث آئی ہے تو کم سن بچی کی معمر شخص کے ساتھ شادی ۔
ویسے گستاخی معاف! میں اپنے ممدوح کو یاد کروانا چاہوں گا کہ جو بل اسمبلی میں پیش کیا گیا اس میں زیر بحث یہی "بچیاں" ہی تھیں! انہی "بچیوں" کی شادی کے بارہ میں بل پیش کیا گیا تھا اور اسے رد کیا گیا تھا نہ کہ "کم سن بچی کی معمر کے ساتھ شادی" کا بل تھا۔ لیکن آنجناب تو محترم ڈاکٹر حافظ عبد الکریم صاحب کے اس بل کو رد کرنے پہ سیخ پا ہوگئے تھے۔ اس وقت آپکو یہ کیوں سمجھ نہیں آسکی کہ بل میں "بچیاں زیر بحث ہیں" نہ کہ بچیوں کی ایک خاص حالت (یعنی کمسنی میں کسی معمر آدمی کے ساتھ شادی والی حالت)!۔ اور بل میں ماروی میمن نے جو باتیں پیش کیں ان میں کہیں وہ نقطہ زیر بحث نہیں تھا جس پر آپ اب پہنچے ہیں !!۔
اس نے ہمارے معاشرہ میں ہونے والی شادیوں کے بارہ میں ہی ایک قانون پاس کروانے کی کوشش کی تھی اور وہ تھا " نکاح کے وقت بچیوں کی کم از کم عمر کی تحدید" کا بل ۔ یعنی ایک کام جو معاشرہ میں ہو رہا ہے , جسے کوئی بھی باعث شرم وعار نہیں سمجھتا‘ اپنے تئیں ایک عورت چند تحفظات کے پیش نظر اسکے بارہ قانون منظور کروانے جا رہی تھی۔
یعنی جب بات چلی تو کسی اور موضوع پہ چلی تھی , لیکن اب ہمارے ممدوح قاری صاحب نے اس موضوع کے وسعتوں سے دستبرداری اختیار کرتے ہوئے ایک خاص نقطہ کو ہی اصل موضوع بنانے کی سعی فرمائی ہے۔اور اس تنگ گلی میں آنے کے لیے موصوف نے اپنی پہلی تحریر میں راستہ رکھ لیا تھا, لیکن چونکہ اس وقت مدعا یہ خاص مسئلہ نہیں تھا , بلکہ بالعموم کم سن بچیوں کی شادی سے متعلق تھا کہ آیا اسلام کمسنی میں نکاح کی اجازت دیتا ہے یا نہیں , سو ہم نے موصوف کی اس عبارت کی طرف زیادہ التفات نہیں کیا۔ اور اب بھی جو باتیں انہوں نے اصل مدعا سے ہٹ کر فرمائی ہیں ان کا جواب نہیں دیں گے تاکہ بات موضوع پر ہی رہے۔
ہم اپنے ممدوح جناب قاری حنیف ڈار سے عرض کرتے ہیں کہ آنجناب کے نزدیک امام الانبیاء جناب محمد مصطفى ﷑ سے نکاح کے وقت ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ ﷞ کی عمر مبارک 16 برس اور رخصتی کے وقت 19 برس تھی۔ یہی بات ہمارے ممدوح سے قبل انکے اکابرین نے بھی اپنی تحریرات میں بیان کی ہے۔ اور آنجناب کے اس موقف کو سامنے رکھتے ہوئے ہم آپ ہی کی عبارت میں صرف اعداد کو تبدیل کرکے آپ سے ہی سوال کرتے ہیں :
" نبی کریم ﷺ کی طرف اخلاقی پستی پر مبنی واقعات کو درج کرنے والوں میں سے کسی نے بھی ان کے ارتکاب کی جرأت نہیں کی ،، اور نہ آج ان کو پڑھانے اور حفظ کروانے والوں میں سے کوئی سولہ سال کی بچی کسی 53 سال کے شیخ الحدیث کو دینے کو تیار ھے اور نہ ھی کوئی 53 سالہ شیخ سولہ سال کی بچی سے شادی کرنے کے لئے تیار ھوتا ھے ،یہ تو ان کی بے ضمیری کا حال ھے ،،
" اور پھر اپنے مداحوں کے جن کمنٹس پر آنجناب نے تعریف کے ڈونگرے برسائے انہی کمنٹس کو ناموں میں ترمیم کرکے آپ سے "لائک" اور "واہ ،،،،،،،،،،،،،، (سمائل)" کی استدعاء کرتے ہیں:
"قاری حنیف ڈارصاحب سے کہیے کہ اپنی بیٹی جاوید احمد غامدی صاحب سے بیاہ دیں۔۔۔ مسئلہ ای مک جائے۔۔۔"
اور ایک مزید جس پر آپ نے صرف لائک کیا اعداد و اسماء کی تبدیلی اور بین القوسین ضروری وضاحت شامل کرکےروئے سخن آنجناب کی جانب موڑتے ہیں:
" نہائیت ادب سے سوال ہے کہ وال پر موجود کوئی بھی شخص اپنی 16 سالہ بیٹی کی شادی اور 19 سال کی عمر میں رخصتی (کسی 53 سالہ شخص کے ساتھ) کر سکتا ہے ۔ حتی کہ یہ قاری حنیف ڈار۔ ..........اگرحنیف ڈار ایسا کرسکتے ہے تو اس کے لئے انتظام موجود ہے ۔ سنت ادا کرنے کا بہترین موقع ہاتھ سے نہ جانے دیں (سمائل) بلکہ میرا پیغام ان تمام مولویان و ٹھیکیدارن اسلام کے لئے ہےجو قاری حنیف ڈار کے ہم خیال ہیں"
کہیے صاحب! ان مذکورہ بالا دونوں تحریروں پہ بھی آپ "واہ,,,,,,,,,,," لکھ کر ایک مسکراتی سمائل پھینکے گے ؟ اور ساتھ ہی لائک کے ڈونگرے بھی برسائیں گے؟؟؟
"دل صاحبِ اولاد سے انصاف طلب ہے"
ذرا دل تھام کر جواب دیجئے گا, کیونکہ آپکے نزدیک بھی یہ شادی ہوئی اور عمر میں فرق صرف دس سال کا تھا یعنی 6-9 نہیں بلکہ 16-19 اور دوسری جانب کی عمر پہ تو آپکو بھی اعتراض نہیں !
اس سے ذرا ایک قدم آگے بڑھتے ہیں کیا آپ اپنی 16 سالہ بیٹی 50 سالہ حافظ عبد الکریم صاحب کو دیں گے؟ کیونکہ دیکھیے ناں ! آپ کی اپنی رائے کے مطابق جب 16 سالہ سیدہ عائشہ ﷞ کا نکاح نبی مکرم ﷑ کے ساتھ 50 سال کی عمر میں ہوا , اور 19 سال کی عمر میں انکی رخصتی ہوئی جبکہ رسول اللہ ﷑ کی عمر مبارک اس وقت 53 سال تھی تو رخصتی کے وقت رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کے عقد میں ایک سے زائد بیویاں تھیں ۔ کیا ہوا کہ ڈاکٹر عبد الکریم صاحب پہلے بھی متعدد الزوجات ہیں, لیکن انکی زوجات کی تعداد رسول معظم ﷑ کی زوجات سے تو کم ہے۔ سو آپ کے لیے یہ امر بھی مانع نہیں ہونا چاہیے!اور پھر یہ کام تو آپکے نزدیک بھی "شرمناک" نہیں ہے کہ دو سے زائد سوکنوں والے 53 سالہ صاحب الدار کے ساتھ 16 سالہ بچی کا نکاح یا 19 سالہ کی رخصتی کر دی جائے!
ذرا جلدی جواب دیجئے گا, اگر ہاں میں ہے تب بھی اور اگر ناں میں ہے تب بھی!
کیونکہ اگر اپنے "زندہ ضمیر" سے آپ اپنے موقف کے مطابق عمل کی دنیا میں کودتے ہیں تو تب آپکو ہاں کرنا پڑے گی اور رشتہ کے لیے آپکی طرف سے ہاں کے بعد ہمیں حافظ صاحب کی نئے نکاح کی تیاریاں کرنی پڑیں گی کیونکہ نیک کام میں دیر نہیں ہونی چاہیے۔
اور اگر آپکا"زندہ ضمیر" اپنے موقف کے مطابق عمل کی دنیا میں آنجناب کو اترنے سے مانع ہے, تو پھر کہہ دیجئیے کہ یہ نکاح 16 سال اور رخصتی 19 سال کی عمر میں بھی نہیں ہوئی تھی ! اور اسے 16 سالہ کے 50 سالہ کے ساتھ نکاح کو بھی "شرمناک فعل" کا ایوارڈ عطاء فرما دیجئے۔ یا پھر کہیے کہ میرا ضمیر "زندہ" نہیں ہے , کیونکہ میں یہ بات رسول اللہ ﷑ کی طرف تو منسوب کر سکتا ہوں لیکن اپنی 16 سالہ بیٹی یا نواسی 50 سالہ حافظ عبد الکریم کو نہیں دے سکتا۔ اور ... اور... الخ
آخر میں ہم قارئین کرام سے معذرت چاہیں گے کہ ہم نے اپنے ممدوح کو انہی کی زبان میں جواب دیا کیونکہ یہ ہمارا مزاج نہیں ہے , اور نہ ہی ہمارے قارئین اس مزاج کو پسند کرتے ہیں ۔ لیکن کیا کہتے ہیں کہ :
بد نہ بولے زیر گردوں گر کوئی میری سنے
ہے یہ گنبد کی صدا جیسی کہے ویسی سنے
اور ویسے بھی میں نے اپنی طرف سے کوئی ایسا لفظ استعمال نہیں کیا ہے جس سے کسی کی دل آزاری ہوتی ہو, بس جن کلمات کو ہمارے ممدوح جناب قاری حنیف ڈار صاحب نے پسند فرمایا انہیں جملوں کو من وعن نقل کرتے ہوئے صرف نام اور اعداد بدل کر اپنے ممدوح کو آئینہ دکھایا ہے کہ اخلاق عالیہ کا درس دینے والے ہمارے ممدوح قاری صاحب اپنے ہمنواؤں کے گھٹیا اور غیر اخلاقی کمنٹس پر مسرت کا اظہار کرکے اپنے عالی اخلاق نہیں کر رہے , اور صرف نام و اعداد بدل کر یہ احساس دلانے کی کوشش کی ہےکہ کسی کے بارہ کچھ لکھنے , بولنے اور کیے گئے تبصرہ پر خوشی کے ڈونگرے برسانے سے قبل یہ سوچنا ضروری ہے کہ وہ بھی سینہ میں دل, منہ میں زباں,ہاتھ میں قلم اور انگلیوں تلے کیبورڈ رکھتے ہیں! ہمارے ممدوح نے جن محولہ بالا پوسٹوں پر کمنٹ اور لائک کرکے اپنے اتفاق کا اظہار فرمایا انکی سکرین شاٹ پیش خدمت ہے:

15929 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں
15930 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں
بشکریہ محترم @رفیق طاھر صاحب
سال پہلے قاری حنیف کے بارے میں سنا تھا کہ دہریت سے متاثر ہیں۔ لگتا ہے کہ سچ ہی سنا تھا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
اپنا تو بن - حنیف ڈار صاحب کی تازہ اُڈاریوں کے جواب میں

اپنا تو بن!
ہم نے اپنے مضمون "بازگشت" میں ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ ﷞ کی عمر مبارک پر عامیانہ اعتراضات کا ایک الزامی سا جواب دیتے ہوئے اپنے ممدوح جناب قاری حنیف ڈار صاحب کے الفاظ اور انہی کے پسند فرمودہ انداز میں "چند سوالات" کیے تھے۔ کافی سوچ بیچار کے بعد موصوف نے کچھ لکھنے کی جرأت فرمائی ہے۔ اور جرأت بھی ایسی کہ ہم یہ کہنے پہ مجبور ہوگئے:​
راہ پہ لے آئے ہم تمکو باتوں ہی باتوں میں
اور کھل جاؤگے دو چار ملاقاتوں میں
محترم جناب قاری حنیف ڈار صاحب فرماتے ہیں:
"ایسی شادیاں ھر دوسرے روز منظرِ عام پر آتی رھتی ھیں جس میں سولہ یا اٹھارہ سالہ لڑکی کسی 50 سال کے بندے کو دی جاتی ھے ،،، اگر کوئی واقعی اس قابل ھو کہ اخلاقی اور مالی لحاظ سے کسی گھرانے کے لئے قابلِ اعتراض نہ ھو تو ایسی شادیاں اب بھی ھو سکتی ھیں ،، وہ مجھ سے رابطہ کرے ان شاء اللہ کرا دونگا ،، مگر چھ سال والی اگر کسی نے سنی ھو تو بتا دیجئے"
اب دیکھیے کہ آپ اپنے اس اصول کی رو سے خود کہاں کھڑے ہیں کہ​
الجھا ہے پاؤں یار کا زلف دراز میں
لو آپ اپنے دام میں صیاد آگیا
تو جناب ! عرض ہے کہ اگر یہی اصول آپ چھ سال والی دلہن اور نو سال کی عمر میں رخصتی کی جانے والی کے بارہ میں بھی اپلائی کر لیں تو مسئلہ ہی ختم ہو جاتا ہے یعنی " اگر کوئی واقعی اس قابل ھو کہ اخلاقی اور مالی لحاظ سے کسی گھرانے کے لئے قابلِ اعتراض نہ ھو تو ایسی شادیاں اب بھی ھو سکتی ھیں" اگر یہ اصول 16 سالہ بچی کا 50 سالہ مرد سے نکاح کے کرنے کے لیے آنجناب اپناتے ہیں تو 9سالہ کی شادی کے لیے کیوں نہیں؟ آخر کیا وجہ ہے کہ آپ اپنے اصولوں میں بھی ٹھہراؤ نہیں رکھ پاتے؟ جب بات آپ پر آتی ہے تو اس طرح کے اصول وضع ہوتے ہیں اور جب دوسرے کی باری آئے تو یہی اصول گدھے کے سر سے سینگ کی طرح غائب ہو جاتے ہیں؟!​
تیری زلف میں پہنچی تو حسن کہلائی
وہی تیرگی جو میرے نامہ سیاہ میں تھی!
باقی رہی یہ بات کہ" 6-9 سال والی کسی نے سنی ہو...الخ" تو اس بارہ میں ہم اپنی مضمون "تاریخ اسلام کی کم عمر دلہنیں" میں آپکے اس مطالبہ کی تکمیل کر چکے ہیں۔ اسکا مطالعہ فرما لیں تاکہ آپکو کمسن دلہنوں کی فہرست میسر آ جائے ۔ لیکن یہ نہ بھولیے گا کہ اس فہرست پر بھی آپ نے اپنے ہی اصول " اگر کوئی واقعی اس قابل ھو کہ اخلاقی اور مالی لحاظ سے کسی گھرانے کے لئے قابلِ اعتراض نہ ھو تو ایسی شادیاں اب بھی ھو سکتی ھیں" کو بھی لاگو کرنا ہے۔ کہ​
ع....... میرا نہیں بنتا نہ بن!, اپنا تو بن!!
اس پہ کہنے کے لیے تو ابھی ہمارے پاس اور بھی بہت کچھ ہے , لیکن نہیں کہتے کہ "خرد منداں را اشارہ کافی است"۔ البتہ یہ ضرور کہیں گے حبیبہء رسول صدیقہ بنت صدیق, ام المؤمنین, سیدہ عائشہ صدیقہ ﷞ نے اپنی جو عمر مبارک خود بیان فرمائی ہے, اس پر زبان طعن دراز کرنے سے قبل بھی کاش آپ نہ یہ اصول سوچا ہوتاتو یہاں تک نوبت نہ آتی۔ اللہ سے دعاء ہے کہ وہ "انانیت, اور عقل پرستی " کے بجائے "حق پرستی"کو شعار بنانے کی توفیق سے نوازے۔ آمین!​
بشکریہ: محترم شیخ @رفیق طاھر
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمر پر مشتمل احادیث کا انکار کیوں شروع ہوا ؟
علامہ سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ کا ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیں :​
’’ مخالفین اسلام کا اعتراض ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اتنی بڑی عمر میں اس قدر کم سن لڑکی سے نکاح کرنا نامناسب تھا ۔ اس اعتراض کے جواب میں مسلمان جواب دینے والوں نے مختلف راہیں اختیار کیں :
1۔ ایک نے کم سنی کی شادی کی نا مناسبت ہی کا انکار کردیا ۔
2۔ دوسرے نے نکاح اور رخصتی کی تاریخوں کو تسلیم کر لیا ، لیکن رخصتی کے اس عمر میں ہو جانے سے تعلقات زن و شوئی کا بھی اسی زمانہ سے شروع ہو جانا ضروری نہیں قرار دیا بلکہ ان کے نویں سال کو صرف رخصتی کی عمر قرار دیا ۔
3۔ لیکن تیسرے صاحب سب سے تیز ثابت ہوئے انہوں نے آج کل کے جدید علم کلام کی پیروی میں سرے سے ان واقعات کی ان تاریخوں ہی سے انکار کردیا ۔ ‘‘
( سیرت سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا ص 273 )

سید صاحب کے اس اقتباس سے یہ توجہ دلانا مقصود ہے کہ انکار حدیث کا اصل لیکن فضول اور بزدلانہ سبب مخالفین کے اسلام پر اعتراضات ہیں ، گویا اگر مخالف اعتراض نہ کرے تو یہ احادیث بھی سب ٹھیک ہیں ، اور راوی بھی بالکل معتبر ۔
اور اس بزدلی کا سبب اسلاف کے علمی تراث سے کٹ جانا ہے ، ورنہ اسلام پر ہر دور میں نت نئے اعتراضات ہوتے رہے ، لیکن علماء نے معذرت خواہانہ انداز کی بجائے ان کا منہ توڑ جواب دیا ، اگر ان منکروں کو مسلمانوں کے علمی ورثے سے استفادے کی توفیق مل جاتی تو یوں غیروں کے سامنے ڈھیر نہ ہوتے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
کمسن ناجائز مائیں

اللہ تعالی نے انسان سمیت تمام تر حیوانات میں جنسی خواہش کو پیدا فرمایا ہے تاکہ انکی نسل بڑھ سکے۔ انسان چونکہ ذی شعور ہے تو اس پر اپنی جنسی ضرورت پورا کرنے کے لیے اللہ تعالی نے کچھ پابندیاں لگائی ہیں ، ان حدود وقیود میں رہتے ہوئے جائز طریقہ سے اپنی یہ ضرورت پوری کرسکتا ہے۔ وہ قید نکاح کی ہے ، کہ جب کوئی انسان بلوغت کو پہنچ جائے تواور اس میں جنسی خواہشات کروٹیں لینے لگیں تو وہ حلال طریقہ سے نکاح کے بندھن میں بندھ جائے اور اپنی اس خواہش کی تسکین کا سمان کرے۔
مختلف علاقوں، قوموں اور آب وہو اور خوارک کی بناء پر بلوغت کو پہنچنے کی عمر ہر انسان میں الگ الگ ہوتی ہے۔ کوئی جلدی بالغ ہوتا ہے تو کوئی دیرسے، اسی لیے اللہ تعالی نے نکاح کو عمر کے ساتھ مقید نہیں فرمایا۔ تاکہ جو جب بھی بالغ ہو، یا اس میں جنسی خواہشات بیدار ہو جائیں تو وہ حرام کاری کرنے کے بجائے نکاح کرے اور اپنی ضرورت پوری کر لے۔
لیکن کچھ فاتر العقل معاشروں نے نکاح کے لیے عمر کی حد بندی کر دی اور پھر اس عمر تک پہنچنے سے پہلے جو جوان ہوا، اور جنسی خواہشات اس میں ابھریں، اس نے غلط راستے اختیار کیے، اور چھوٹی عمر میں ہی بلا نکاح ماں باپ بنے کے ریکارڈ قائم ہونے لگے۔ چونکہ انسانی جسم میں پرورش پانے والے وہ ہارمونز جو جنسی خواہشات کے محرک ہوتے ہیں انکی افزائش کو ماہ وسال کا پابند نہیں کیا جاسکتا، لیکن نکاح کے نتیجہ میں میاں بیوی پہ کچھ ذمہ داریاں عائد ہو جاتی ہیں، سو ان معاشروں نے نکاح پر پابندی لگا کر سفاح(بدکاری) کے دروازے کھلے چھوڑ دیے اور رضامندی سے کیے جانے والے زنا کو 'آزادی' کے نام پر سند جواز فراہم کر دی۔
اور ہمارے ملک میں جو لوگ مغرب گُزیدہ تھے انہوں نے کمسنی کے نکاح پر عائد مغربی پابندیاں اسلامی ملک میں بھی لگادیں، اور گاہے بگاہے اس پابندی کی میعاد میں اضافہ کرنے کی کوشش بھی کی جاتی رہتی ہے۔ ماروی میمن صاحبہ نے بھی حال ہی میں ایسا ہی کچھ کرنے کی کوشش کی، لیکن اس پابندی کا خلاف سنت ہونا انہیں جلد ہی سمجھ آگیا تو وہ اپنے موقف سے دستبردار ہوگئیں۔
لیکن 'لبرل'طبقہ کے پیٹ میں مروڑاٹھنا شروع ہوگیا اور انہوں نے اس غیر فطری پابندی کی راہ ہموار کرنے کے لیے آواز بلند کرنا شروع کردی۔ اور وہ یہ پابندی کمسنی میں نکاح پر لگوانا چاہتے ہیں، تاکہ زنا کے راستے کھل جائیں اور اہل ایمان میں فحاشی پھیل جائے۔
کیونکہ نکاح کے راستے مسدود کرنے کا لازمی نتیجہ بدکاری کا فروغ ہے۔اسلام نے اسی بدکاری کی روک تھام کے لیے نکاح کو نہایت آسان بنایا تھا۔جن معاشروں نے نکاح پر یہ غیر فطری پابندی لگائی ہے ان میں کمسنی کی زنا کاریوں کے نتیجہ میں ماں بننے کی خبریں آئے دن سننے کو ملتی ہیں۔ان میں سے چند خبریں ہم ہدیہ قارئین کرتے ہیں تاکہ نکاح پر پابندیوں کی ہلاکت خیزیاں سمجھنے میں آسانی رہے۔ ملاحظہ فرمائیں:
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
١۔Lina Medina: اسے تا حال دنیا کی کمسن ترین ماں ہونے کا ''اعزاز'' حاصل ہے! ۔جمہوریہ پیروکی یہ پانچ سال سات ماہ میں ماں بننے والی لڑکی، کس کے ساتھ حرامکاری کرکے ماں بنی یہ معلوم نہ ہوسکا۔ بہر حال اس نے ١٤ مئی ١٩٣٩ء کو اپنے بیٹے کو جنم دیا۔ (http://youngest_mother.tripod.com)
٢۔Liza : یہ سوویت یونین (موجودہ یوکرائن)کی رہنے والی کمسن لڑکی تھی جو چھ سال کی عمر میں بچے کو جنم دے کر ماں بنی۔ اس سے بدکاری کرنے والا اسکا 'ستر سالہ دادا' تھا! (http://goo.gl/XmnFpu)
٣۔اسی طرح انڈیاکے دارالحکومت دہلی میں چھ سال سات ماہ کی عمر میں ایک لڑکی ٧جون ١٩٣٢ء کو ایک بچہ کو جنم دے کر ماں بنی۔ اس سے بدکاری کرنے والے اور اس ماں بننے والی ، دونوں کا نام صیغہ راز میں رکھا گیا۔ (http://goo.gl/HrPFO8)
٤۔Anna Mummenthaler: سوئٹزر لیند کی رہائشی اس لڑکی نے آٹھ سال نو ماہ کی عمر میں ٥ دسمبر١٧٥٩ء کو بیٹی کو جنم دیا۔ یہ اپنے کسی قریبی رشتہ دار کی ہوس کا نشانہ بنی ۔ (http://goo.gl/4pv2UZ)
٥۔Zulma Guadalupe Morales : میکسیکو کی رہنے والی یہ لڑکی آٹھ سال کی عمر میں اپنے چچا کے ساتھ زنا کی وجہ سے ١٢جنوری ١٩٩٣ء کو اپنے بیٹے کی ماں بنی۔ (http://goo.gl/yz5vxQ)
٦۔مارچ 1881ء کو برطانیہ میں ایک نوسال سات ماہ کی لڑکی اپنے نہایت قریبی سے زنا کے نتیجہ میں بچی کی ناجائز ماں بنی۔ (http://goo.gl/rlvKOX)
٧۔امریکہ میں١٦مارچ ١٩٠٨ء کونامعلوم شخص سے بدکاری کے نتیجہ میں ایک لڑکی نو سال کی عمر میں بچے کی ناجائز ماں بنی ۔ (http://goo.gl/rhiKoT)
٨۔Mar،a Eulalia Allende :نو سال کی عمر میں ارجنٹینا میں اپنے چچازاد بھائی اور والد کی ہوس کا شکار ہوکر ١٨ اکتوبر ١٩٦٧ء کو ناجائز بیٹے کی ماں بنی۔ (http://goo.gl/T7Blwx)
٩۔ ارجنٹینا ہی کی ایک اور لڑکی نو سال کی عمر میں اپنے بوائے فرینڈسے زنا کے نتیجہ میں ٥دسمبر ١٩٦٨ء کوبچے کی ماں بنی۔ اسکے بوائے فرینڈ نے اس لڑکی کے والدین سے اسکا رشتہ مانگا تھا، مگر انہوں نے انکار کردیا۔ اور دونوں زنا کے مرتکب ہوئے۔ (http://goo.gl/wselYM)
١٠۔اسی طرح نوسال کی عمر میں ہی پیرو کی ایک لڑکی اپنے باپ کی ہوس کا شکار ہو کر ١١جون ١٩٧١ء کو بچہ کی ماں بن گئی ۔ (http://goo.gl/8c46gm)
١١۔جمہوریہ نمیبیا کی رہائشی Venesia Xoagus نوسال کی عمر میں ١٠جولائی ١٩٨٠ء کو بیٹے کی ناجائز ماں بنی۔ (http://goo.gl/gowCGJ)
١٢۔برازیل کی نو سالہ لڑکی Maria Eliane Jesus Mascarenhas اپنے بھائی کے ١٦ سالہ متبنی سے زنا کے نتیجہ میں ناجائز ماں بنی۔ (https://goo.gl/LTah4v)
١٣۔اپریل ١٩٨٦ء کو کینیا کی ایک لڑکی نو سال کی عمر میں بچی کی ماں بنی ۔ (http://goo.gl/1pg728)
١٤۔اسی طرح ١٢ مارچ١٩٩٠ء کو ترکی میں ایک نو سالہ لڑکی بچہ کی ماں بنی ۔ (http://goo.gl/9HMNaW)
١٥۔ ایران کی لیلی نامی لڑکی نو سال کی عمر میں متعہ کے نتیجہ میں نومبر ١٩٩٤ء کو ناجائز بچہ کی ماں بنی۔ (http://goo.gl/IZ0l8J)
١٦۔ وسطی امریکہ کے سب سے چھوٹے مگر سب سے گنجان آباد ملک ایل سیلواڈورمیں اپنے سوتیلے باپ سے زنا کے نتیجہ میں ماریہ نامی لڑکی نے یکم اپریل ٢٠٠٣ء کونو سال کی عمر میں ایک بچہ کو جنم دیا۔ (http://goo.gl/McEzPT)
١٧۔ یکم مارچ ٢٠٠٤ء کو سنگاپور کی ایک لڑکی نوسال کی عمر میں اپنے سکول کے بوائے فرینڈ سے زنا کے نتیجہ میں بچہ کی ماں بنی۔ (http://goo.gl/upTVQ4)
١٨۔کولمبو کی ایک لڑکی نے اپنے نوجوان پڑوسی سے زنا کے نتیجہ میں نو سال گیارہ ماہ کی عمر میں پہلے بچہ کو ٢٥ دسمبر٢٠٠٤ء میں جنم دیا اور پھر دو سال بعد ١٠ فروری ٢٠٠٦ء کو اپنے چالیس سالہ رشتہ دارسے زنا کرکے گیارہ سال ایک ماہ کی عمر میں دوسرے بچہ کو جنم دیا۔ (http://goo.gl/FdgHBl)
١٩۔ وسطی افریقہ کے ایک ملک روانڈامیں دسمبر ٢٠٠٥ء کو ایک نو سالہ لڑکی اپنے گھریلو ملازم سے زنا کے نتیجہ میں ماں بنی۔ چھ سال کی عمر میں ہی اسکی چھاتیاں ابھرنا شروع چکی تھیں اور آٹھ سال کی عمر میں اسے حیض آنا شروع ہوا۔ (http://goo.gl/Rtxr4I)
٢٠۔برازیل کے شہر میناوس میں ٧ جولائی ٢٠٠٦ء کو ایک لڑکی نے نو سال کی عمر میں بچی کو جنم دیا۔ (http://goo.gl/eP5huk)
٢١۔ جنوبی امریکہ کے مغربی ملک پیرو کی 'نویا'اپنے اٹھائیس اور سترہ سالہ دو کزنوں سے زنا کے نتیجہ میں ٢ دسمبر ٢٠٠٦ء کو بچہ کی ماں بنی۔ (http://goo.gl/uYjIJ7)
٢٢۔ہونڈوراس کی نو سالہ لڑکی اپنے ٥٧ سالہ باپ سے زنا کے باعث ٣ مئی ٢٠٠٧ء کو بیٹی کی ماں بنی۔ اسکے باپ نے اس سے جنسی تعلقات اس وقت سے شروع کر رکھے تھے جب ابھی یہ چھ سال کی تھی! (http://archive.is/uDdD)
٢٣۔ اسی ملک کی ایک اور نو سالہ لڑکی اپنے ٣٢ سالہ سوتیلے باپ سے زنا کے باعث ٢٧ جولائی ٢٠٠٨ء کوبچہ کی ماں بنی۔ (http://goo.gl/to2Jao)
٢٤۔ کولمبو کی ایک نو سالہ لڑکی نومبر ٢٠٠٨ء میں بچہ کی ماں بنی ۔ اسکے ساتھ اسکے٣١ سالہ ہمسائے نے زیادتی کی تھی۔ (http://goo.gl/pdzEAp)
٢٥۔ چین کی ایک نو سالہ لڑکی نے ٢٧ جنوری ٢٠١٠ء کو ایک بچہ کو جنم دیا۔ (http://goo.gl/NRCH8b)
٢٦۔ ملائشیا میں ایک نو سالہ چینی لڑکی نے اپنے پڑوسی کے ساتھ زنا کے ارتکاب کے بعد ١٥ مئی ٢٠١٠ء کو ایک صحت مند بچہ کو جنم دیا۔ (http://goo.gl/QHqcwv)
٢٧۔ مغربی افریقہ کے ملک سینیگال کی 'زینہ' اپنی دادی کے کرایہ دار کے ساٹھ سالہ چچا سے زنا کی باعث یکم اکتوبر ٢٠١٠ء کو نو سال گیارہ ماہ کی عمر میں بچی کی ماں بنی۔ (https://goo.gl/0lP3sc، http://goo.gl/iprxX6)
 
Top