نصر اللہ خالد
رکن
- شمولیت
- اگست 23، 2012
- پیغامات
- 188
- ری ایکشن اسکور
- 143
- پوائنٹ
- 70
بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
مضمون کا موضوع دیکھ کر آپ تھوڑے سے متجسس تو ہوئے ہوں گے کہ یہ کیا بات ہے ؟؟
تو سنیے جناب ویسے تو یہ بات مجھے رمضان کے شروع میں ہی شئیر کرنی چاہئے تھی لیکن افسوس کہ خیال ہی نہیں آیا گزشتہ دنوں کسی تھریڈ میں بات چلی کے لوگ موسم کی شدت کو دیکھ کر روزہ نہیں رکھتے تو یہ بات میرے دماغ میں ایک بار پھر سے تازہ ہوگئی تو سوچا آپ سے شئیر کروں کہتے ہیں نہ دیر آید درست آید۔
گزشتہ سال بھی موسم میں خوب شدت تھی اور میں جامعہ میں گیا (جامعہ تعلیم الا سلام ماموں کانجن) وہاں پر کچھ مستری اور مزدور کام کر رہے تھے اور سب ہی بیٹھے پانی پینے میں مشغول تھےسوائے باؤ اکرم کے (باؤ اکرم 45 سالہ ایک مزدور ہیں جامعہ میں مستری مزدور الیکٹریشن،پلمبر وغیرہ سب ہی ماہوار تنخواہ پر ہر وقت دستیاب ہوتے ہیں) خیر میں وہاں رک گیا اور کھڑےہو کر پوچھنے لگا باؤ اکر م آپ کام کر رہے ہیں روزہ ہے کیا؟ جب کہ باقی سب تو پانی پی رہے ہیں اور ان کا کہنا یہ ہے کہ روزے میں محنت مزدوری نہیں ہوتی۔ باؤاکرم گویا ہوئےاور کہنے لگے حافظ جی رمضان اللہ کی نعمت اور روزہ مہمان ہے جو سال میں ایک ماہ کےلئے ہمارے لئے ہی ہمارے پاس آتا ہے۔پھر ہم اس کو کیسے چھوڑ دیں؟ میں نے جب سے ہوش سنبھالا ہے آج تک روزہ نہیں چھوڑا رہی بات گرمی،پیاس اور کام کی تو حافظ جی یہ تو بس "دل کو سمجھانے کی بات ہے"۔ اگر ہم دل کو سمجھا لیں تو نہ گرمی لگتی ہے اور نہ پیاس اور نہ ہی کام کچھ کہتاہے۔
میں ان کی یہ بات سن کر خاموش ہو گیااور باؤ جی کام میں مصروف ہوگئے تب میں حیران تھا اور سوچ رہاتھا کہ اس بندے کو اللہ سے کیسی اعلیٰ قسم کی محبت ہے اور اس قدر خوبصورت سوچ کا پہلو، کہ بس اتنی بات ہی بھوک،پیاس اور موسم کی شدت کےلئے کافی ہے کہ
اللہ ہم سب کے لئے ہر معاملہ میں آسانی کردیں (آمین)
تو سنیے جناب ویسے تو یہ بات مجھے رمضان کے شروع میں ہی شئیر کرنی چاہئے تھی لیکن افسوس کہ خیال ہی نہیں آیا گزشتہ دنوں کسی تھریڈ میں بات چلی کے لوگ موسم کی شدت کو دیکھ کر روزہ نہیں رکھتے تو یہ بات میرے دماغ میں ایک بار پھر سے تازہ ہوگئی تو سوچا آپ سے شئیر کروں کہتے ہیں نہ دیر آید درست آید۔
گزشتہ سال بھی موسم میں خوب شدت تھی اور میں جامعہ میں گیا (جامعہ تعلیم الا سلام ماموں کانجن) وہاں پر کچھ مستری اور مزدور کام کر رہے تھے اور سب ہی بیٹھے پانی پینے میں مشغول تھےسوائے باؤ اکرم کے (باؤ اکرم 45 سالہ ایک مزدور ہیں جامعہ میں مستری مزدور الیکٹریشن،پلمبر وغیرہ سب ہی ماہوار تنخواہ پر ہر وقت دستیاب ہوتے ہیں) خیر میں وہاں رک گیا اور کھڑےہو کر پوچھنے لگا باؤ اکر م آپ کام کر رہے ہیں روزہ ہے کیا؟ جب کہ باقی سب تو پانی پی رہے ہیں اور ان کا کہنا یہ ہے کہ روزے میں محنت مزدوری نہیں ہوتی۔ باؤاکرم گویا ہوئےاور کہنے لگے حافظ جی رمضان اللہ کی نعمت اور روزہ مہمان ہے جو سال میں ایک ماہ کےلئے ہمارے لئے ہی ہمارے پاس آتا ہے۔پھر ہم اس کو کیسے چھوڑ دیں؟ میں نے جب سے ہوش سنبھالا ہے آج تک روزہ نہیں چھوڑا رہی بات گرمی،پیاس اور کام کی تو حافظ جی یہ تو بس "دل کو سمجھانے کی بات ہے"۔ اگر ہم دل کو سمجھا لیں تو نہ گرمی لگتی ہے اور نہ پیاس اور نہ ہی کام کچھ کہتاہے۔
میں ان کی یہ بات سن کر خاموش ہو گیااور باؤ جی کام میں مصروف ہوگئے تب میں حیران تھا اور سوچ رہاتھا کہ اس بندے کو اللہ سے کیسی اعلیٰ قسم کی محبت ہے اور اس قدر خوبصورت سوچ کا پہلو، کہ بس اتنی بات ہی بھوک،پیاس اور موسم کی شدت کےلئے کافی ہے کہ
" دل کو سمجھانے کی بات ہے"
آج بھی موسم کی شدت بہت ہے اور ہم اگر اپنے اردگرد نظر ڈورائیں تو بہت سے روزے کی نعمت سے محروم لوگ نظرآئیں گے ۔جو یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ روزہ رکھا ہی نہیں جاتا کام بڑا سخت ہے اور موسم بڑا گر م ہے ۔جبکہ حقیقت میں ایسے لوگ دل کو سمجھانے والی حکمت ونعمت سے عاری ہیں۔یہ جملہ بڑا ہی مفید ثابت ہوتا ہے جب ہم کسی دنیاوی سخت حالات سے بھی گزر رہے ہوں ۔آزما کر دیکھئے گا۔اللہ ہم سب کے لئے ہر معاملہ میں آسانی کردیں (آمین)