• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

دل کی سختی کو ختم کرنے والے اعمال

توحید

مبتدی
شمولیت
نومبر 25، 2012
پیغامات
16
ری ایکشن اسکور
36
پوائنٹ
13
دل کی سختی کو ختم کرنے والے اعمال

تالیف:…شیخ عبدالرحمن عاید
اردو استفادہ:…عبدالعلام

ہر اس چیز کا اہتمام کرنا بے حد ضروری ہے جس سے نفس پاکیزگی اختیار کرے، دل میں رقت پیدا ہو، یہاں تک کہ یہ دل اللہ جل جلالٰہ کی شریعت کا فرمانبردار بن کر اس کی تابعداری کرنے لگے اور اس کے منع کردہ کاموں سے باز آ جائے۔یہ ایک ایسا کام ہے جو دنیا و آخرت میں خیر و بھلائی کے اسباب میں سے ایک بڑا سبب ہے۔

اگر ہم سعادت اور خوش بختی کی راہ چلنا چاہتے ہیں تو یہ ضروری ہے کہ ہم اپنے دلوں کی اصلاح پر توجہ دیں اور دل کی آلائشو ں اور بیماریوں کا علاج کریں تا کہ دل اپنے رب کا تابعدار بن جائے۔دل ہمیشہ ایسی نصیحت کا حاجت مند ہوتا ہے جواسے حق کی طرف موڑ دے اور شر کو اس سے دور کر دے۔

رقائق کی تعریف:
لفظ رقائق '' رقیقة '' کی جمع ہے اور رقیقہ ہر اس چیز کو کہتے ہیں کہ جو دل میں نرمی پیدا کرنے والی ہو۔امام راغب کہتے ہیں۔''رقت و نرمی کا مقام دل ہے اور اس کا متضاد سختی ہے اس لیے کہا جاتا ہے نرم دل اور سخت دل۔ ''

اس موضوع پر گفتگو کرنے کے اسباب:
١۔ رقائق کا تعلق علم سے ہے اور علم کاحاصل کرنا فرض ہے۔بعض لوگوں کا یہ گمان غلط ہے کہ یہ علم کے دائرہ سے خارج ہیں۔

٢۔ موجودہ زمانے میں لوگ دنیا او راس کی زیب و زینت کی طرف بے حد مائل ہوچکے ہیں یہاں تک کہ حصو ل دنیا ہی لوگوں کی زندگی کامقصد بن کر رہ گیا ہے۔

٣۔ دلوں کی سختی عام ہو چکی ہے۔اس لیے وہ چیز کہ جو دلوں کی سختی کو دور کرے اورانہیں ابلیس کے دھوکہ سے محفوظ کرے اس کی لوگوں کوشدید حاجت ہے۔

٤۔ اس مادہ پرست زمانے کاروح کو مخاطب نہ کرنا اور سائنسی بنیادوں کی تقدیس کا قائل اور عقلی دلائل پر ایمان رکھنا اس زمانے کا بہت بڑا فتنہ ہے۔ایسے میں ایسے موضوع کے بیان کی شدید ضرورت ہے جس میں روح کو مخاطب کیا گیا ہو۔

٥۔ اس موضوع سے آج دین دارطبقہ بھی غفلت برت رہا ہے۔ دینداروں کے اس موضوع سے غافل ہونے کا ایک بڑا سبب یہ ہے کہ دین پر چلنے والے گما ن کرتے ہیں کہ یہ موضوع عام لوگوں کے لیے ہے یا اس کی ضرورت اسے ہے جس نے نئی نئی دینداری اختیار کی ہو۔رہے ہم تو ہمارے کرنے کے اور بہت کام ہیں۔جیسے فکری موضوعات پر بحث و مباحثہ کرنا وغیرہ۔

اسی طرح دین داروں کی یہ سوچ بھی اس غفلت کا سبب ہے کہ اس موضوع سے تعلق رکھنا اور اس کا اہتمام کرنا صوفیاء کا کام ہے لہٰذا ہمیں ایسے موضوع سے لا تعلق ہی رہنا چاہیے جو صوفیا کا موضوع ہو۔بعض طبقوں کے ہاں یہ سوچ بھی پائی جاتی ہے کہ اس مادہ پرست زمانے کی ضرورت عقلی دلائل ہیں۔رہے وہ موضوعات کہ جن کا تعلق جذبات سے ہے اُن کی اس دور میں کوئی حاجت نہیں ہے۔ یہ مختصراً وہ اسباب ہیں کہ جن کی وجہ سے ہم اس موضوع پر گفتگو کررہے ہیں۔

رقائق کی اہمیت:
ہر مسلما ن چاہے وہ عالم ہو یا طالب علم، پڑھا لکھا ہو یاان پڑھ اسے اُ ن اعمال کی شدید حاجت ہے جن کے ذریعہ اس کا دل نرم پڑے اور دلوں میں خشیت الٰہی پیدا ہو۔رقائق ہماری اسی ضرورت کو پورا کرتے ہیں۔رقائق کی اہمیت کو ہم درج ذیل نکات میں بیان کرنے کی کوشش کریں گے۔

١- گناہوں سے بچنے کا ذریعہ:
اسلامی ممالک میں ہم سے پہلے بسنے والے لوگوں میں گناہوں کا ارتکاب چوری چھپے کیا جاتا تھا، جبکہ آج گناہو ں کا ارتکاب سرعام اور علی الاعلان ہوتاہے۔جس کی وجہ سے آج گناہوں میں واقع ہو نے کا خطرہ پچھلے ادوار سے بڑھ کر پایا جاتا ہے۔اس وجہ سے آج رقائق کی اہمیت پہلے کی نسبت بڑھ گئی ہے یہ ایسے ایندھن کا کام دیتے ہیں جس سے ایک مسلمان گناہو ں کا مقابلہ کرنے کی قوت حاصل کرتا ہے۔

٢- اطاعت الٰہ کا راز:
اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی اطاعت اس وقت ممکن ہے جب دل اس کی محبت سے معمور او ر اس کے خوف سے لرزاں ہو۔رقائق مومن کے دل کو وہ قوت عطاء کرتے ہیں جو احکامات الٰہی کو بجالانے اور ممنوعات سے رک جانے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔اسی وجہ سے اللہ سبحانہ وتعالیٰ قرآن کریم میں احکامات کو بیان کرنے سے پہلے رقائق کا ذکر فرماتا ہے۔تاکہ دل کی سختی دور ہو جائے اور وہ اللہ کی اطاعت پر آمادہ ہو جائے۔چنانچہ اللہ تعالیٰ اکثر اپنی صفات اور اپنے افعال کا ذکر کرتا ہے۔اسی طرح وہ اپنی عظیم الشان مخلوقات کا ذکر کرتا ہے جنہیں دیکھ کر انسا ن کے دل میں ان کے خالق کی عظمت و ہیبت بیٹھتی ہے۔اسی طرح کبھی وہ جنت و جہنم کا ذکر کرتا ہے۔

سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں
''قرآن کریم کی سورتوں میں سب سے پہلے جو سورت نازل ہوئی اس میں جنت وجہنم کے ذکر کو تفصیل سے بیان کیا گیا۔یہاں تک کہ جب لوگ اسلام کی طرف پلٹ آئے تو تب اللہ تعالیٰ نے حلال و حرام نازل فرمائے۔اگر اللہ تعالیٰ سب سے پہلے یہ حکم نازل فرماد یتا:''شراب نہ پیو ''تو لوگ کہتے کہ ہم شراب کو کبھی نہ ترک کریں گے۔'' (بخاری :٤٧٠٧)

٣- شہوات کا مقابلہ:
رقائق ہی ایک مومن کو شہوات کا مقابلہ کرنے کے لیے ایمان کی قوت سے نوازتے ہیں۔وگرنہ ان شہوات کا مقابلہ کرنے کی کس میں ہمت ہے کہ جو اچھے خاصے دین دار لوگوں تک کو برباد کر چکی ہیں اور امت کا بڑا حصہ ان کا شکار ہے۔

٤- صرف عقل کو خطاب ناکافی ہے:
جب تک عقل کے ساتھ جذبات کو مخاطب نہ کیا جائے اس وقت تک عقل کو مخاطب کرنا سود مند نہیں ہوتا۔صرف عقل کے خطاب سے سوائے ایسی خشک نظریاتی معلومات کے اور کچھ حاصل نہیں ہوتا کہ جن میں کوئی جان نہیں ہوتی۔البتہ اگر عقل اور جذبات دونوں کو مخاطب کیا جائے تب ایک طرف ذہن و شعور کی تشفی ہوتی ہے تو دوسری طرف عملی زندگی بھی آباد ہوتی ہے۔

٥- داع اور طالب علم کو رقائق کی ضرورت:
ایک داعی اور طالب علم کا مشن یہ ہوتا ہے کہ وہ لوگو ں کو اللہ سے جوڑیں، ان کے دلوں میںاللہ تعالیٰ کا خوف بٹھائیں، اس کی محبت پیدا کریں اورانہیں اللہ کی اطاعت کے راستہ پر لگائیں۔ دعوت کے اس مشن پر نکلے ہوئے شخص کے لیے بے حد ضروری ہے کہ وہ خود بھی اس چیز پر عمل پیرا ہو جس کی وہ دعوت دیتا ہے۔عربی کا معروف مقولہ ہے۔((فاقد الش لا یعطیہ)) ''کوئی شخص دوسروں کو وہ نہیں دے سکتا جس سے وہ خود محروم ہو۔'' رقائق کا علم ایک داعی اور طالب علم کی اس ضرورت کو بخوبی مکمل کرتا ہے۔

طالب علم اور داعی دوسروں کے لیے نمونہ ہوتے ہیں۔لوگ ان کی اقتدا کرتے ہیں۔ یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ کسی کے عمل کی پیروی اس کے قول کی پیروی سے زیادہ موثر ہوتی ہے۔اس لیے ضروری ہے کہ اللہ کی طرف دعوت دینے والا خود اللہ سے گہرا تعلق رکھنے والا ہو۔رقائق کا علم طالب علم کو خود پسندی، حسد، اتباع نفس اور اس جیسی دیگر آلا ئشوں سے محفوظ رکھتا ہے۔

رقائق کا اجمالی تعارف:
رقت قلب کا سبب بننے والے امور درج ذیل ہیں

اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات کی معرفت:
رقائق میں سب سے پہلا درجہ اللہ جلَّ جلالٰہ کے اسماء حسنیٰ اور صفات عالیہ کی معرفت کے ذریعہ اللہ کی پہچان حاصل کر نا اور عبادت پران اسماء و صفات باری تعالیٰ کے مرتب ہونے والے اثرات و آثار کو جاننا ہے۔

اللہ کو جا ن لینے کے بعد یہ کیسے ممکن ہے کہ انسان اللہ کی نافرمانی کرے ؟ جب بندہ یہ جانتا ہے کہ اُسے اللہ کی طرف ہی لوٹنا ہے اور اُسے اپنے رب کے سامنے اس طرح کھڑا ہونا ہے کہ اللہ اور بندے کے درمیان کوئی ترجما ن نہ ہو گا تو یقینا بندہ اللہ کی معصیت سے باز آجاتا ہے۔یہ معصیت تبھی ممکن ہے کہ جب اللہ کی معرفت میں کمزوری واقع ہو۔ مثلًا بندہ جب اللہ کے سمیع و بصیر ہونے پر ایمان لاتا ہے اور یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ اُس کا رب اُسے ہر حال میں دیکھ رہا ہے اور اُس کا کوئی عمل رب تعالیٰ کے علم سے باہر نہیں تب وہ اپنی زبان اور اعضاء حتیٰ کہ دل کے خیالات تک کی حفاظت کرتاہے کہیں ان سے اللہ کی نافرمانی سرزد نہ ہو جائے۔اسی طرح بندہ جب اللہ کے رحمن و رحیم، غفور و کریم، رئوف و وَدود ہونے کی معرفت حاصل کرتا ہے تو پھر وہ اللہ سے شدید محبت کرنے لگتا ہے اور ہر اُس چیز سے محبت کرتا ہے جس سے اللہ محبت کرتا ہے۔یاد رہے اللہ کے اسماء و صفات کی معرفت انسان کو گناہوں سے روکنے والی ہے جو کوئی اللہ کے اسماء و صفات کو بیان کر کے گناہ کرتا ہے وہ درحقیقت اس عظیم علم سے جاہل ہے جیسے گناہ کا ارتکاب کرنے والے کا یہ کہنا کہ 'جی اللہ بڑا معاف کرنے والا ہے، اور پھر گناہ کے کام میں مشغول رہنا۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے گناہ کرنے والے کو جاہل قرار دیا ہے۔

جیسا کہ ارشاد ربانی ہے
اِنَّمَا التَّوْبَةُ عَلَی اللّٰہِ لِلَّذِیْنَ یَعْمَلُونَ السُّوَء َ بِجَہَالَةٍ ثُمَّ یَتُوبُونَ مِن قَرِیْبٍ فَأُوْلَئِکَ یَتُوبُ اللّٰہُ عَلَیْْہِمْ وَکَانَ اللّٰہُ عَلِیْمًا حَکِیْمًا (النسا : ١٧)
''یقینا توبہ کا قبول کرنا تو اللہ کے ذمے انہی لوگوں کے لیے ہے جو برا کام جہالت کی وجہ سے کرتے ہیں، پھر جلد ہی توبہ کر لیتے ہیں پس یہی وہ لوگ ہیں جن کی توبہ اللہ قبول فرماتا ہے اور اللہ بہت جاننے والا اور بڑا حکمت والا ہے۔''

اس شخص کے جاہل ہونے کا یہ معنی نہیں کہ وہ شرعی حکم سے جاہل ہوتا ہے بلکہ ایسا شخص بھی جاہل ہی ہے جو اللہ کے حکم کو جاننے کے باوجود نافرمانی کرتا ہے، حالت گناہ میں اُس کی جہالت دراصل اللہ کی عظمت، ہیبت اور اُس کے مراقبے سے جہالت ہے جیساکہ ابن عباس اور دیگر سلف نے بیان فرمایا ہے۔

جنت اور جہنم کا تذکرہ:
جب انسان جنت اور جہنم کے بارے میں سوچتا ہے تو اس کے دل میں نرمی اور خشیت ومحبت پیدا ہوتی ہے، جب وہ جنت کی لذتوں اورعیش وعشرت کو یاد کرتا ہے کہ اس میں جو داخل ہوگیا اُسے کبھی نکلنا نہیں، موت، بڑھاپا، مرض، تکلیف نہیں، حور و غلمان کا ساتھ اور سب سے بڑھ کر رب تعالیٰ کا دیدار، تو اس کے دل میں جنت کی طلب پیدا ہوتی ہے، اسی طرح جب وہ جہنم کے عذاب و آلام کا تصور کرتا ہے کہ جس میں گرنے والا ایک بڑا پتھر ٧٠ سال بعد اُس کی تہہ میں پہنچتا ہے، عذاب ہی عذاب، ، موت کی تمنا کرو بھی تو موت نہیں، دکھ ایسے جو کبھی سوچے نہ ہوں، تو اُس کے دل میں آخرت کا خوف اور جنت کی طلب پیدا ہوتی ہے۔

موت اور قبر کو یاد کرنا:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے '' لذتوں کو توڑ دینے والی (یعنی موت )کو کثرت سے یاد کیا کرو۔''ترمذی :٢٢٨٤

اس مقصد کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبرستان جانے کی نصیحت فرمائی ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں
''قبروں کی زیارت کیا کرو، یہ تمہیں آخرت کی یاد دلائیں گی اور دنیا میں زہد کا سبب بنیں گی۔

اسی طرح برے خاتمہ کو یاد کرنا اور اس سے پناہ مانگنا بھی نیکیوں کی طرف جانے کا سبب ہے۔

قرآن کریم کی تلاوت اور اس میں غور و تدبر:

قرآن کریم کی تلاوت کرنے اور اس کے معانی سیکھنے سے انسان کے دل میں ایمان کی حلاوت اور آخرت کی فکر پیدا ہوتی ہے، جیسا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کا فرمان ہے

(اللّٰہُ نَزَّلَ اَحْسَنَ الْحَدِیْثِ کِتَابًا مُّتَشَابِہًا مَّثَانِیَ تَقْشَعِرُّ مِنْہُ جُلُودُ الَّذِیْنَ یَخْشَوْنَ رَبَّہُمْ ثُمَّ تَلِیْنُ جُلُودُہُمْ وَقُلُوبُہُمْ اِلٰی ذِکْرِ اللّٰہِ ذَلِکَ ہُدَی اللّٰہِ یَہْدِیْ بِہِ مَنْ یَشَائُ وَمَن یُضْلِلِ اللّٰہُ فَمَا لَہُ مِنْ ہَادٍ (الزمر: ٢٣))
اللہ نے بہترین کلام نازل کیا جو ایسی کتاب ہے جس کے مضامین ملتے جلتے ہیں جو اپنے رب سے ڈرتے ہیں ان کے جسم اور دل نرم ہو کر اللہ کے ذکر کی طرف راغب ہوتے ہیں یہی اللہ کی ہدایت ہے، وہ جسے چاہتا ہے قرآن کے ذریعے ہدایت دیتا ہے اور جسے اللہ گمراہ کر دے اسے کوئی ہدیت دینے والا نہیں۔

سابقہ گناہوں کو یاد کرنا:
انسان کا پنے گناہوں کو نہ بھولنا اور انہیں یاد کر کے اللہ سے معافی کا طلب کرتے رہنا بھی دلوں کو نرم کرتا ہے۔

دنیا کی حقیقت کو یاد رکھنا:
دنیا کی زندگی سوائے کھیل کود، متاعِ غرور کے اور کچھ نہیں، چار دن کی اس زندگی کےبعد آخرت کی زندگی کا سامنا کرنا ہے جو ہمیشہ ہمیشہ کی زندگی ہے۔اس حقیقت کو جو بھی یاد رکھے گا وہ دنیا کی گندگیوں سے اپنے آپ کو بچا لے گا۔اس لیے رب تعالیٰ نے قرآن مجید میں دنیا کی بے ثباتی کا کثرت سے تذکرہ کیا ہے۔

اللہ کی آیات کونیہ میں تفکر کرنا:
عصر حاضر میں اللہ تعالیٰ کی بے شمار ایسی آیات اور نشانیاں انسان پر ظاہر ہوئی ہیں جنہیں شاید پچھلے ادوار میں انسان نہیں جانتا تھا۔اللہ کی مخلوقات میں غور و تدبر سے انسان کے دل میں خالق کی ہیبت اور عظمت بیٹھتی ہے۔اللہ تعالیٰ اپنی ان نشانیوں کے ذریعے لوگوں پر حق واضح کرتا ہے۔ارشاد ربانی ہے

(سَنُرِیْہِمْ آیَاتِنَا فِیْ الْآفَاقِ وَفِیْ اَنفُسِہِمْ حَتَّی یَتَبَیَّنَ لَہُمْ اَنَّہُ الْحَقُّ ) (فصلت:٥٣)
''عنقریب ہم انھیں اپنی نشانیاں دنیا کے کناروں میں اور ان کے نفسوں میں دکھلائیں گے، یہاں تک کہ ان کے لیے واضح ہو جائے کہ یقینا یہی حق ہے ۔''

نیکوکاروں کی مصاحبت اختیار کرنا:
جن میں سب سے پہلے اہل علم کی مجالس آتی ہیں، جہاں اللہ کی رحمت اترتی ہے اور دین و دنیا کی بھلائی حاصل ہوتی ہے۔انسان کو چاہیے کہ وہ اہل سنت کے علماء سے علم حاصل کرے اوراہل بدعت کے ساتھ بیٹھنے سے بچے۔آخرت کو یاد کرنے والے، دیندار لوگوں کے ساتھ دوستی رکھنا آخرت کو یاد رکھنے کا اہم سبب ہے۔اسی طرح بے دینوں کی دوستی آخرت کو بھلانے کا سبب ہے۔

[MENTION]اللہ سے دعا اور استغفار کرنا:[/MENTION]
اللہ سے تعلق کی اہم ترین بنیاد اُس سے دعا کرنا ہے۔اس عمل کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ نبی ۖ نے دعا کو عبادت قرار دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ اُس بندے سے خوش ہوتا ہے جو اللہ کو پکارتا ہے اور اُس سے اپنے گناہوں کی معافی مانگتا ہے اور اُس پر غضب ناک ہوتا ہے جو اللہ سے دعا نہیں کرتا اور تکبر کرتا ہے۔

سیرت اور زہد پر لکھی گئی کتب کا مطالعہ کرنا:
انبیاء کی سیرت کا مطالعہ بالخصوص نبی مکرم محمد ۖکی زندگی پر غور و فکر انسان کے دل کو نرم کرتا ہے۔اسی طرح صحابہ اور صالحین کی سیرت سے ایمان کو جلا ملتی ہے۔انسان جب اُن کی عبادت، نیکی، دعوت وجہاد اور صبر کے واقعات پڑھتا ہے تو اُس کے دل میں اُنکی اتباع کرنے کی خواہش پیدا ہوتی ہے۔اسی طرح زہد ورقائق پر کتب کا مطالعہ بھی انسان کو سرکشی سے باز رکھنے میں مدد دیتا ہے۔

ہم نے اختصار سے رقت قلب کا سبب بننے والے بعض امور کا ذکر کیا ہے۔رقائق کا علم بھی علم کے ابواب میں سے ایک ہے اسے افراط و تفریط سے بچتے ہوئے سیکھنا اور اس پر عمل کرنا چاہیے۔دین کی دیگر واجبات سے بے پرواہ ہو کر زہد اختیار کرنا یا نبی ۖ سے بڑھ کر عمل کرنے کا سوچنا گمراہی کا دروازہ کھولنا ہے۔

اللھم انا نعوذ بک من علم لا ینفع ومن قلب لا یخشع ومن نفس لا تشبع ومن دعوة لا یستجاب لھا

وصلی اللہ علی نبینا محمد وعلی آلہ وصحبہ أجمعین
 
Top