ابن قدامہ
مشہور رکن
- شمولیت
- جنوری 25، 2014
- پیغامات
- 1,772
- ری ایکشن اسکور
- 428
- پوائنٹ
- 198
دم دار تارے – منجمد آوارہ گرد جہاں
آسمان پر نمودار ہوتی ہوئی ایک ڈرامائی روشنی کی لکیر ہمارے قریب سے گذرتے ہوئے دم دار تارے کا شاندار نظارہ ہوتا ہے۔ یہ دھندلی سی روشن گیندیں جن کے پیچھے ایک دم سی موجود ہوتی ہے نظر آنے میں بہت خوبصورت ہوتے ہیں۔اس طرح کے فلکی اجسام ہمیں زیادہ نظر نہیں آتے ۔ دم دار تارے غیر معمولی ہوتے ہیں ۔ اگر آپ کسی دم دار تارے کو پہلی دفہ دیکھیں تو یہ نظارہ آپ کو ساری زندگی یاد رہے گا۔ دم دار تارے کا نظام شمسی کا سفرکسی بھی کسی بھی دوسرے اجرام فلکی کے مقابلے میں شروع سے آخر تک بہت شاندار ہوتا ہے ۔
یہ سورج کے گرد حلقہ بناتے ہوئےآتے ہیں ان میں سے کئی ایک کا سورج کی طرف کا سفر دسیوں لاکھوں برسوں پر محیط ہوتا ہے۔ان میں سے کئی زمین کے قریب سے ایسے گذرتے ہیں جیسے کہ وہ اس کے پرانے دوست ہوں۔ ہر دم دار تارا کئی میلوں پر محیط منجمد برف اور چٹانوں کا ڈھیر ہوتا ہے جب یہ ہمارے قریب سے گزرتے ہیں تو ہمیں روشنی کی دمکتی ہوئی گیندیں سی لگتی ہیں جن کی ایک لمبی سی دم ہوتی ہے۔ ہمارے لئے یہ دم دار تارے آسمانی آتش بازی کےشاندار نظارے سے بڑھ کر ہیں ۔
سائنس دان یہ بات جاننے کے لئے ہمیشہ سے کوشاں رہے ہیں کہ ہماری ابتداء کہاں سے ہوئی ۔یہ بات جاننا اتنی سادی سی بات نہیں ہے اس کا مطلب ہے کہ ہم نظام شمسی میں زندگی کی کی شروعات سے لے کر کائنات کی ابتداء تک کو سمجھیں ۔ دم دار ستارے اس بات کو سمجھنے کے لئے ہماری رہنمائی کرتے ہیں ۔ یہ ہمیں اس بارے میں اشارے دیتے ہیں کہ کس طرح سے نظام شمسی وجود پایا۔ اگر ہم ان دم دار تاروں کو سمجھ نہیں پائیں گے تو اس بات کو سمجھنا بہت مشکل ہوجائے گا کہ ہم زمین پر کیسے پہنچے۔ دم دار ستارے خود ہی حیات کا سوتا ہو سکتے ہیں۔ ہمیں ان کا احسان مند ہونے چاہئے کہ ارب ہا سال پہلے انہوں نے زمین پر حیات کی شروعاتی بنیاد کی اساس کے لئے اجزاء ترکیبی فراہم کئے۔
یہ اتنی زبردست تباہی پھیلا سکتے ہیں کہ ہم سب کو فنا کر سکتے ہیں۔ خدانخواستہ اگر کوئی دم دار ستارہ زمین سےمتصادم ہوا تویہ زمین پر زبردست دھماکے سے ٹکرائے گا اور زمین پر موجود تمام حیات کا خاتمہ کر دے گا۔ ان دم دار تاروں کے بارے میں جان کرنہ صرف ہم ان کی تباہ کاریوں سے بچنا سیکھ سکتے ہیں بلکہ کائنات کو بھی سمجھنا شروع کرسکتے ہیں۔
جب ہم ان کا مشاہدہ کرتے ہیں تونا صرف ہم اس بات کو سمجھنا شروع کردیتے ہیں کہ ہمارا نظام شمسی اپنی پیدائش کے وقت کیسا رہا ہوگا بلکہ ہم دوسرے نظام ہائے شمسی کی پیدائش کے بارے میں بھی اندازہ لگا سکتے ہیں ۔ سائنس دان پر امید ہیں کہ ان کے مطالعہ و مشاہدہ سے نا صرف ہمیں ستاروں، سیاروں بلکہ خود ان دم دار ستاروں کے بارے میں زبردست معلومات حاصل ہوں گی۔
چلیں ہم اب ٤۔٥ ارب سال پہلے کے دور میں چلتے ہیں جہاں یہ دم دار ستارے اسی قوّت ثقل کی بدولت وجود میں آرہے ہیں جس کے طفیل اس پورے نظام شمسی نے وجود پایا ہے۔ ان کی شروعات بھی اسی افراتفری والے ماحول میں ہوئی تھی جس میں ایک جناتی حجم کے بادل نے منہدم ہوتے ہوئے ایک گھومتی ہوئی قرص بنائی تھی۔ سورج سے نزدیک جھلسا دینے والی گرمی تھی جبکہ سورج سے دور اتنی ٹھنڈ تھی جس میں گیس کے بادل آسانی کے ساتھ گاڑھے ہو کر جم سکیں۔ برف کی قلمیں گرد کے ذرّات کے ساتھ مل گئیں تھیں اور آہستہ آہستہ انہوں نے بڑے اجسام میں ڈھالنا شروع کیا ۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ برف کی ان گیندوں نے بالکل اس برف کی گیند کی طرح جو کسی برف کی پہاڑی سے گرتے ہوئی اپنا حجم بڑھاتی ہے ،بڑھانا شروع کیا اور آ س پاس کے مادّے کو کھینچنا شروع کردیا اور آخر میں انہوں نے مشتری اور زحل جیسی گیسی دیوہیکل سیاروں کی شکل اختیار کر لی۔ مگر اس ٹکیہ میں موجود سارا گرد و غبار کا بادل سیاروں کی شکل اختیار نہیں کر سکا۔ بچ جانے والے دسیوں کھرب برف کے گندے ڈھیلے دم دار ستاروں کی شکل میں وجود میں آ گئے ۔ یہ نظام شمسی کے سورج اور اس کے گرد چکر لگانے والے سیاروں کی پیدائش کے بعد بچ جانے والے مادّے سے وجود میں آئے اور جب سے یہ بالکل ویسے ہی ہیں۔ یہ بالکل ان پراچینی کیپسولوں کی طرح ہیں کہ اگر ہم ان کو کھول کر دیکھ سکیں تو ہم یہ جان پائیں گے کہ نظام شمسی اپنی پیدائش کے وقت کس چیز سے بنا تھا۔یہ واقعی ایک غیر معمولی بات ہے۔
دم دار تارے ایک جگہ پر قید نہیں رہے ۔نظام شمسی کی پیدائش کے کچھ کروڑں سال بعداس میں پھر سے اودھم مچنے لگا تھا۔ گرد و غبار کے تصادموں نے گیسی دیو ہیکل سیاروں کو ان کو اپنی پہلی والی جگہ سے نکال کر دوسری جگہ ڈال دیا تھا۔ ان جناتی سیاروں کی زبردست قوّت ثقل نے دم دار ستاروں کو خلاء میں ہر جگہ پھیلا دیا تھا اور نظام شمسی کی ابتداء میں بنے ہوئے اس مادّے کو دور ٹھنڈے حصّے میں روانہ کردیا تھا ۔ کچھ دم دار تارے سورج سے دور خلاء کے اس حصّہ میں جاکر رک گئے جس کا سورج سے فاصلہ لگ بھگ ٤ ارب میل تھا جس کو ہم اب کائپر کی پٹی کے نام سے جانتے ہیں۔ مگر زیادہ تر اس سے بھی زیادہ دور تک اچھال دیے گئے اور وہاں جا کر انہوں نے نظام شمسی کے گرد ایک جناتی کرۂ بنا دیا جس کو ہم اورٹ کا بادل کہتے ہیں۔ یہ نظام شمسی کا سب سے دور دراز کا حصّہ ہے۔ سورج یہاں سے بالکل ایک چھوٹے سے نقطہ کی طرح جیسے ہمیں آسمان پر دوسرے ستارے دیکھتے ہیں نظر آتا ہے اور اس سے آگے کا حصّہ بالکل خالی ہی ہے۔ وہاں بہت معمولی چیزیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ کبھی کبھار ہم دیکھتے ہیں کہ وہاں دور دراز، تاریکی میں ڈوبی ہوئی ، ٹھنڈی خلاء سے کوئی اکیلا دم دار ستارہ تیرتا ہوا ہماری طرف نکل آتا ہے۔
اس دور دراز ٹھنڈ کے بادل میں دس کھرب سے بھی زیادہ دم دار ستارے موجود ہیں۔ سورج کے گرد مدار میں چکر پورا کرنے کے لئے ان کو دسیوں لاکھوں سال لگ جاتے ہیں۔ ہر دم دار ستارے کا مدار نہایت نازک ثقلی توازن پر قائم ہوتا ہے۔ کوئی ہلکا سا ٹہوکا بھی اس نازک توازن میں گڑ بڑ کر سکتا ہے ۔ زیادہ تک دم دار ستارے سورج سے ارب ہا میل دور ساکن ، غیر فعال اس انتظار میں رہتے ہیں کہ کہیں کچھ ایسا ہو جو انہیں متحرک کرے۔ جب کہیں کوئی ایسا تصادم رونما ہوجاتا ہے جس سے سورج کی قوّت ثقل ان میں سے کسی کو اندر کی طرف کھینچ لیتی ہے۔
قوّت ثقل کی جس طاقت نے ان دم دار ستاروں کو پیدا کر کے خلاء کے اس حصّے میں دھکیلا تھاوہ انہیں اب واپس کھینچنا شروع کردیتی ہے جس سے ان کا نظام شمسی میں تخلیق و تباہی پھیلانے والاسخت اور لمبا سفر شروع ہو جاتا ہے۔ سورج کے گرد نظام شمسی کے اس دور دراز کے کنارے میں جما دینے والی سردی میں رہنے والے ان کھرب ہا دم دار ستاروں میں سے کچھ یہاں رکنے کو تیار نہیں ہوتے ہیں۔ ایک ہلکی سی بھی ثقلی کشش ان کو موجودہ مدار سے باہر نکال دیتی ہے۔ چاہئے کوئی دور جاتا ہوا ستارہ ہو یا ہمارا اپنی کہکشاں کا کسی ایسی جگہ کا سفر جو ثقلی قوّت میں ہلکی سی ہلچل مچا دے۔ کوئی بھی ایسی چیز جو ثقلی قوّت کو ہلکا سا ٹہوکا دے وہ اس بات کا سبب بن سکتی ہے کہ دم دار ستارہ سورج کے اندرونی حصّے کی طرف دوڑا آئے ۔
خلل کھائے ہوئی دم دار ستارے پر سورج کی قوّت ثقل غالب آجاتی ہے۔ اس بات کو یوں زیادہ بہتر انداز میں سمجھ سکتے ہیں کہ جس طرح سے ہم پہاڑی پر سے اترتے ہوئی پہلے آہستہ اور پھر تیزی سے نیچے آتے ہیں بالکل اسی طرح سورج کی ثقلی قوّت کام کرتی ہے۔ یوں سمجھ لیں کہ نیچے سورج موجود ہےاور دم دار تارا پہاڑ کی چوٹی پر ہے جیسے ہی وہ اپنی جگہ سے نکالا جاتا ہے اس کے پاس جانے کے لئے صرف ایک ہی راستہ ہوتا ہے۔اس کو سورج کی طرف ہی بھاگنا پڑتا ہے۔وہ سورج کی طرف تیزی سے دوڑ پڑتا ہےمگر کیونکہ اس کا راستہ سورج سے بہت دور ہوتا ہےلہٰذا راستے میں آتے ہوئے سیاروں کی قوّت ثقل یا تو اس کی رفتار کو اور تیز کردیتی ہے یا پھر اس کو نظام شمسی سے باہر نکال پھینکتی ہے۔ اگر یہ سیاروں کو چکمہ دینے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو اپنا سفر سورج کی جانب جاری رکھتے ہیں اور ان میں اس دوران وہ غیر معمولی تبدیلی جو سائنس کی دنیا اب تک جانتی ہے رونما ہوتی ہے۔
وہ کائنات میں موجود سب سے شاندار نظاروں میں سے ایک نظارہ دکھانا شروع کردیتے ہیں۔(تصویر نمبر ١)
- See more at: http://sciencekidunya.com/دم-دار-تارے-منجمد-آوارہ-گرد-جہاں/#sthash.H4TDTErh.dpuf
- 2nd August 2015 : مورخہ
- مصنف : زہیر عباس
- کوئی تبصرہ نہیں
آسمان پر نمودار ہوتی ہوئی ایک ڈرامائی روشنی کی لکیر ہمارے قریب سے گذرتے ہوئے دم دار تارے کا شاندار نظارہ ہوتا ہے۔ یہ دھندلی سی روشن گیندیں جن کے پیچھے ایک دم سی موجود ہوتی ہے نظر آنے میں بہت خوبصورت ہوتے ہیں۔اس طرح کے فلکی اجسام ہمیں زیادہ نظر نہیں آتے ۔ دم دار تارے غیر معمولی ہوتے ہیں ۔ اگر آپ کسی دم دار تارے کو پہلی دفہ دیکھیں تو یہ نظارہ آپ کو ساری زندگی یاد رہے گا۔ دم دار تارے کا نظام شمسی کا سفرکسی بھی کسی بھی دوسرے اجرام فلکی کے مقابلے میں شروع سے آخر تک بہت شاندار ہوتا ہے ۔
یہ سورج کے گرد حلقہ بناتے ہوئےآتے ہیں ان میں سے کئی ایک کا سورج کی طرف کا سفر دسیوں لاکھوں برسوں پر محیط ہوتا ہے۔ان میں سے کئی زمین کے قریب سے ایسے گذرتے ہیں جیسے کہ وہ اس کے پرانے دوست ہوں۔ ہر دم دار تارا کئی میلوں پر محیط منجمد برف اور چٹانوں کا ڈھیر ہوتا ہے جب یہ ہمارے قریب سے گزرتے ہیں تو ہمیں روشنی کی دمکتی ہوئی گیندیں سی لگتی ہیں جن کی ایک لمبی سی دم ہوتی ہے۔ ہمارے لئے یہ دم دار تارے آسمانی آتش بازی کےشاندار نظارے سے بڑھ کر ہیں ۔
سائنس دان یہ بات جاننے کے لئے ہمیشہ سے کوشاں رہے ہیں کہ ہماری ابتداء کہاں سے ہوئی ۔یہ بات جاننا اتنی سادی سی بات نہیں ہے اس کا مطلب ہے کہ ہم نظام شمسی میں زندگی کی کی شروعات سے لے کر کائنات کی ابتداء تک کو سمجھیں ۔ دم دار ستارے اس بات کو سمجھنے کے لئے ہماری رہنمائی کرتے ہیں ۔ یہ ہمیں اس بارے میں اشارے دیتے ہیں کہ کس طرح سے نظام شمسی وجود پایا۔ اگر ہم ان دم دار تاروں کو سمجھ نہیں پائیں گے تو اس بات کو سمجھنا بہت مشکل ہوجائے گا کہ ہم زمین پر کیسے پہنچے۔ دم دار ستارے خود ہی حیات کا سوتا ہو سکتے ہیں۔ ہمیں ان کا احسان مند ہونے چاہئے کہ ارب ہا سال پہلے انہوں نے زمین پر حیات کی شروعاتی بنیاد کی اساس کے لئے اجزاء ترکیبی فراہم کئے۔
یہ اتنی زبردست تباہی پھیلا سکتے ہیں کہ ہم سب کو فنا کر سکتے ہیں۔ خدانخواستہ اگر کوئی دم دار ستارہ زمین سےمتصادم ہوا تویہ زمین پر زبردست دھماکے سے ٹکرائے گا اور زمین پر موجود تمام حیات کا خاتمہ کر دے گا۔ ان دم دار تاروں کے بارے میں جان کرنہ صرف ہم ان کی تباہ کاریوں سے بچنا سیکھ سکتے ہیں بلکہ کائنات کو بھی سمجھنا شروع کرسکتے ہیں۔
جب ہم ان کا مشاہدہ کرتے ہیں تونا صرف ہم اس بات کو سمجھنا شروع کردیتے ہیں کہ ہمارا نظام شمسی اپنی پیدائش کے وقت کیسا رہا ہوگا بلکہ ہم دوسرے نظام ہائے شمسی کی پیدائش کے بارے میں بھی اندازہ لگا سکتے ہیں ۔ سائنس دان پر امید ہیں کہ ان کے مطالعہ و مشاہدہ سے نا صرف ہمیں ستاروں، سیاروں بلکہ خود ان دم دار ستاروں کے بارے میں زبردست معلومات حاصل ہوں گی۔
چلیں ہم اب ٤۔٥ ارب سال پہلے کے دور میں چلتے ہیں جہاں یہ دم دار ستارے اسی قوّت ثقل کی بدولت وجود میں آرہے ہیں جس کے طفیل اس پورے نظام شمسی نے وجود پایا ہے۔ ان کی شروعات بھی اسی افراتفری والے ماحول میں ہوئی تھی جس میں ایک جناتی حجم کے بادل نے منہدم ہوتے ہوئے ایک گھومتی ہوئی قرص بنائی تھی۔ سورج سے نزدیک جھلسا دینے والی گرمی تھی جبکہ سورج سے دور اتنی ٹھنڈ تھی جس میں گیس کے بادل آسانی کے ساتھ گاڑھے ہو کر جم سکیں۔ برف کی قلمیں گرد کے ذرّات کے ساتھ مل گئیں تھیں اور آہستہ آہستہ انہوں نے بڑے اجسام میں ڈھالنا شروع کیا ۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ برف کی ان گیندوں نے بالکل اس برف کی گیند کی طرح جو کسی برف کی پہاڑی سے گرتے ہوئی اپنا حجم بڑھاتی ہے ،بڑھانا شروع کیا اور آ س پاس کے مادّے کو کھینچنا شروع کردیا اور آخر میں انہوں نے مشتری اور زحل جیسی گیسی دیوہیکل سیاروں کی شکل اختیار کر لی۔ مگر اس ٹکیہ میں موجود سارا گرد و غبار کا بادل سیاروں کی شکل اختیار نہیں کر سکا۔ بچ جانے والے دسیوں کھرب برف کے گندے ڈھیلے دم دار ستاروں کی شکل میں وجود میں آ گئے ۔ یہ نظام شمسی کے سورج اور اس کے گرد چکر لگانے والے سیاروں کی پیدائش کے بعد بچ جانے والے مادّے سے وجود میں آئے اور جب سے یہ بالکل ویسے ہی ہیں۔ یہ بالکل ان پراچینی کیپسولوں کی طرح ہیں کہ اگر ہم ان کو کھول کر دیکھ سکیں تو ہم یہ جان پائیں گے کہ نظام شمسی اپنی پیدائش کے وقت کس چیز سے بنا تھا۔یہ واقعی ایک غیر معمولی بات ہے۔
دم دار تارے ایک جگہ پر قید نہیں رہے ۔نظام شمسی کی پیدائش کے کچھ کروڑں سال بعداس میں پھر سے اودھم مچنے لگا تھا۔ گرد و غبار کے تصادموں نے گیسی دیو ہیکل سیاروں کو ان کو اپنی پہلی والی جگہ سے نکال کر دوسری جگہ ڈال دیا تھا۔ ان جناتی سیاروں کی زبردست قوّت ثقل نے دم دار ستاروں کو خلاء میں ہر جگہ پھیلا دیا تھا اور نظام شمسی کی ابتداء میں بنے ہوئے اس مادّے کو دور ٹھنڈے حصّے میں روانہ کردیا تھا ۔ کچھ دم دار تارے سورج سے دور خلاء کے اس حصّہ میں جاکر رک گئے جس کا سورج سے فاصلہ لگ بھگ ٤ ارب میل تھا جس کو ہم اب کائپر کی پٹی کے نام سے جانتے ہیں۔ مگر زیادہ تر اس سے بھی زیادہ دور تک اچھال دیے گئے اور وہاں جا کر انہوں نے نظام شمسی کے گرد ایک جناتی کرۂ بنا دیا جس کو ہم اورٹ کا بادل کہتے ہیں۔ یہ نظام شمسی کا سب سے دور دراز کا حصّہ ہے۔ سورج یہاں سے بالکل ایک چھوٹے سے نقطہ کی طرح جیسے ہمیں آسمان پر دوسرے ستارے دیکھتے ہیں نظر آتا ہے اور اس سے آگے کا حصّہ بالکل خالی ہی ہے۔ وہاں بہت معمولی چیزیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ کبھی کبھار ہم دیکھتے ہیں کہ وہاں دور دراز، تاریکی میں ڈوبی ہوئی ، ٹھنڈی خلاء سے کوئی اکیلا دم دار ستارہ تیرتا ہوا ہماری طرف نکل آتا ہے۔
اس دور دراز ٹھنڈ کے بادل میں دس کھرب سے بھی زیادہ دم دار ستارے موجود ہیں۔ سورج کے گرد مدار میں چکر پورا کرنے کے لئے ان کو دسیوں لاکھوں سال لگ جاتے ہیں۔ ہر دم دار ستارے کا مدار نہایت نازک ثقلی توازن پر قائم ہوتا ہے۔ کوئی ہلکا سا ٹہوکا بھی اس نازک توازن میں گڑ بڑ کر سکتا ہے ۔ زیادہ تک دم دار ستارے سورج سے ارب ہا میل دور ساکن ، غیر فعال اس انتظار میں رہتے ہیں کہ کہیں کچھ ایسا ہو جو انہیں متحرک کرے۔ جب کہیں کوئی ایسا تصادم رونما ہوجاتا ہے جس سے سورج کی قوّت ثقل ان میں سے کسی کو اندر کی طرف کھینچ لیتی ہے۔
قوّت ثقل کی جس طاقت نے ان دم دار ستاروں کو پیدا کر کے خلاء کے اس حصّے میں دھکیلا تھاوہ انہیں اب واپس کھینچنا شروع کردیتی ہے جس سے ان کا نظام شمسی میں تخلیق و تباہی پھیلانے والاسخت اور لمبا سفر شروع ہو جاتا ہے۔ سورج کے گرد نظام شمسی کے اس دور دراز کے کنارے میں جما دینے والی سردی میں رہنے والے ان کھرب ہا دم دار ستاروں میں سے کچھ یہاں رکنے کو تیار نہیں ہوتے ہیں۔ ایک ہلکی سی بھی ثقلی کشش ان کو موجودہ مدار سے باہر نکال دیتی ہے۔ چاہئے کوئی دور جاتا ہوا ستارہ ہو یا ہمارا اپنی کہکشاں کا کسی ایسی جگہ کا سفر جو ثقلی قوّت میں ہلکی سی ہلچل مچا دے۔ کوئی بھی ایسی چیز جو ثقلی قوّت کو ہلکا سا ٹہوکا دے وہ اس بات کا سبب بن سکتی ہے کہ دم دار ستارہ سورج کے اندرونی حصّے کی طرف دوڑا آئے ۔
خلل کھائے ہوئی دم دار ستارے پر سورج کی قوّت ثقل غالب آجاتی ہے۔ اس بات کو یوں زیادہ بہتر انداز میں سمجھ سکتے ہیں کہ جس طرح سے ہم پہاڑی پر سے اترتے ہوئی پہلے آہستہ اور پھر تیزی سے نیچے آتے ہیں بالکل اسی طرح سورج کی ثقلی قوّت کام کرتی ہے۔ یوں سمجھ لیں کہ نیچے سورج موجود ہےاور دم دار تارا پہاڑ کی چوٹی پر ہے جیسے ہی وہ اپنی جگہ سے نکالا جاتا ہے اس کے پاس جانے کے لئے صرف ایک ہی راستہ ہوتا ہے۔اس کو سورج کی طرف ہی بھاگنا پڑتا ہے۔وہ سورج کی طرف تیزی سے دوڑ پڑتا ہےمگر کیونکہ اس کا راستہ سورج سے بہت دور ہوتا ہےلہٰذا راستے میں آتے ہوئے سیاروں کی قوّت ثقل یا تو اس کی رفتار کو اور تیز کردیتی ہے یا پھر اس کو نظام شمسی سے باہر نکال پھینکتی ہے۔ اگر یہ سیاروں کو چکمہ دینے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو اپنا سفر سورج کی جانب جاری رکھتے ہیں اور ان میں اس دوران وہ غیر معمولی تبدیلی جو سائنس کی دنیا اب تک جانتی ہے رونما ہوتی ہے۔
وہ کائنات میں موجود سب سے شاندار نظاروں میں سے ایک نظارہ دکھانا شروع کردیتے ہیں۔(تصویر نمبر ١)
- See more at: http://sciencekidunya.com/دم-دار-تارے-منجمد-آوارہ-گرد-جہاں/#sthash.H4TDTErh.dpuf