• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

دنیا کا سب سے برُا ملک……؟

ایم اسلم اوڈ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
298
ری ایکشن اسکور
965
پوائنٹ
125
ہم نے یہ ایک عجیب غلط فہمی قائم کر لی ہے کہ پاکستان دنیا کا کوئی ایسا انوکھا ملک ہے جہاں ہولناک کرپشن ہے، جرائم پیشہ سیاست دان ہیں، ڈوبتی معیشت ہے اور ٹوٹا ہوا ریاستی ڈھانچہ ہے۔ ہم نے کسی طوطے کی طرح یہ رٹ لیا ہے کہ ہمارے ہاں سب کچھ ہی زوال پذیر ہے جبکہ باقی پوری دنیا تو چین کی بانسری بجا رہی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان کے علاوہ دنیا میں جتنے بھی ممالک ہیں وہاں قانون کی بالادستی قائم ہے۔عام آدمی بازار میں سونا اچھالتا گزر جاتا ہے اور کسی کی مجال نہیں کہ آنکھ اٹھا کے دیکھے، لوگ دکانوں کو تالے لگائے بغیر بے فکری سے لمبی تان کے سو جاتے ہیں، ان کی نیند کے دوران اگر کوئی گاہک آ جائے تو وہ خود ہی چیز خرید کر پیسے مالک کے گلے میں ڈال کر چلا جاتا ہے۔ کوئی سڑک پر سوتا ہے نہ کسی کا بچہ بھوک سے مرتا ہے۔ ہر ملک میں یکساں نصاب تعلیم رائج ہے، وہاں کا ہر اسٹوڈنٹ آئن سٹائن اور نیوٹن بن کر نکلتا ہے۔ سرکاری دفاتر میں سائل کا مسئلہ چٹکی بجاتے حل کر دیا جاتا ہے، وغیرہ وغیرہ۔ ہمیں ناکام ریاستوں کی عالمی درجہ بندی کا بھی شدت سے انتظار رہتا ہے کیونکہ اس نام نہاد درجہ بندی میں پاکستان ٹاپ ٹین کے آس پاس فال کرتا ہے۔ اس اشاریئے سے ہمیں اپنے موقف کے حق میں ایک اور دلیل مل جاتی ہے اور ہم خوشی سے پھولے نہیں سماتے کہ پاکستان تو فیل ہو گیا لیکن ہم پاس ہو گئے!
حقیقت خاصی دلچسپ ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ ہمیں پاکستان کا موازنہ اپنے ہمسایوں سے کرنا چاہئے نہ کہ امریکہ اور یورپ سے کیونکہ جو شخص کچی آبادی میں رہتا ہو وہ اپنے ساتھ والی جھونپڑی سے مقابلہ کرے گا نہ کہ ڈیفنس کے خواب دیکھے گا۔ اس لئے امریکہ اور یورپ کی مثالیں رہنے دیں تاکہ ہم اتنا ضرور کہہ سکیں کہ وہاں بھی ملٹی نیشنلز کی بدمعاشیوں سے لے کر بچوں سے زیادتی تک اور آزادی کے نام پر عورتوں کی تذلیل سے لے کر کنزیومر فراڈ تک ہر قسم کا اعلیٰ پائے کا جرم ہوتا ہے، ہمیں نہ جانے کیوں یہ ’’خوش فہمی‘‘ ہے کہ ایسا صرف پاکستان میں ہی ہوتا ہے۔
انڈیا کی بات کرتے ہیں۔ ہم انڈیا کو صرف اس کی فلموں کی نظر سے دیکھتے ہیں، یہ نہیں جانتے کہ جس ممبئی میں یہ فلمیں بنتی ہیں وہاں کی طوائفوں کی مفلسی کا یہ حال ہے کہ وہ جسم کے بعد اب اپنے ہونے والے بچے بھی بیچ رہی ہیں تاکہ اس ’’ایڈوانس‘‘ سے اپنے لئے روٹی خرید سکیں۔ شاید کسی نے انہیں مدرز ڈے کی افادیت کے بارے میں نہیں بتایا! اسی ممبئی میں دنیا کی سب سے بڑا slum ہے جبکہ دلی میں اڑھائی لاکھ لوگ فٹ پاتھ پر سوتے ہیں، پاکستان میں یہ تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔ جو لوگ بھارت کی معیشت اور اداروں کی مثالیں دیتے نہیں تھکتے، وہ شاید یہ بھول جاتے ہیں کہ بھارت میں ریاستی عملداری کا یہ حال ہے کہ 10 ریاستوں کے 182 اضلاع میں مائو باغی سرگرم ہیں اور بھارت کے جنگلات کے پانچویں حصے پر ان کا قبضہ ہے، دیگر علاقوں میں چلنے والی آزادی کی تحاریک اس کے علاوہ ہیں۔ بھارت میں 41.6 فیصد لوگ (50 کروڑ زندہ انسان) خط غربت سے نیچے محض سوا ڈالر فی دن کے حساب سے زندہ ہیں اور رہی یہ دلیل کہ پچھلی دہائیوں میں بھارت اور چین میں خط غربت سے نکلنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے تو Global Hunger Index کی رپورٹ کے مطابق انڈیا ان تین ملکوں میں سے ایک ہے جہاں 1996ء سے 2011ء کے دوران یہ اشاریہ 22.9 سے 23.7 تک بڑھ گیا جبکہ پاکستان نے اس دوران بہتری دکھائی۔ بھارتی حکومت کی تمام تر کوششوں کے باوجود اب بھی شائننگ انڈیا میں 16 لاکھ ایڈز کے مریض ہیں۔
ہمارے جو سیکولر دوست اس بات پر بھنگڑے ڈالتے ہیں کہ بھارت میں اقلیتوں کا حال پاکستان سے بہتر ہے انہیں چاہئے کہ مشہور زمانہ ’’سچر رپورٹ‘‘ ایک مرتبہ دوبارہ پڑھ لیں تاکہ انہیں اندازہ ہو سکے کہ محض اقلیتی صدر لگا دینے سے حقائق کی پردہ پوشی نہیں ہو سکتی۔ ریاستی سطح پر گجرات اور سمجھوتہ ایکسپریس جیسے قابل فخر کارنامے تو انڈیا کے ماتھے کا جھومر ہیں ہی لیکن اس کے علاوہ یہ بات بھی خاصی ’’دلچسپ‘‘ ہے کہ مسلمانوں کی حالت زار دیگر اقلیتوں سے بھی گئی گزری ہے، بھارتی سول سروس میں ان کا حصہ فقط 3 فیصد ہے۔ ہمیں پاکستان میں بیٹھے ہوئے ٹی وی پر صرف شاہ رخ خان یا سیف علی خان ایسے ’’مسلمان‘‘ نظر آتے ہیں جبکہ ان کا حال یہ ہے کہ اگر ان کے گھروں میں مورتیوں کی پوجا نہ ہو تو بال ٹھاکرے خود ان کی مزاج پرسی کرے (جنہیں یقین نہ ہو وہ شاہ رخ خان کی زندگی پر بنی فلم دیکھ لے)۔ بھارتی ریاست اتر پردیش جس کی آبادی پاکستان کی کل آبادی سے بھی زیادہ ہے، کی اسمبلی کے 403 ارکان میں سے 189 کے خلاف جرائم کے مقدمات درج ہیں اور یہی حال پوری بھارتی پارلیمنٹ کا ہے۔ وہاں کے کرپشن سیکنڈل، ٹیلی کام اور بوفورس، دیگ کے دو ایسے دانے ہیں جن پر پاکستانی بھائی فقط رشک ہی کر سکتے ہیں۔
آج کل ہمیں بنگلہ دیش کی ترقی پر بھی بڑا پیار آیا ہوا ہے، ذرا اس کی بات بھی کر لیتے ہیں۔ ڈھاکہ شہر میں 6 لاکھ سائیکل رکشہ ہیں جسے دو پسلی والا غریب بنگالی ایک دھوتی اور بنیان پہن کر چلاتا ہے اور 4 آدمیوں کا وزن ڈھوتا ہے۔ وہاں ٹریفک، سائیکل رکشا کی وجہ سے بلاک ہوتا ہے اور ہمارے ہاں گاڑیوں کی وجہ سے۔ بنگلہ دیش کا کل بجٹ پاکستان سے آدھا بھی نہیں، وہاں بجلی کی مانگ 6000 میگا واٹ اور پیداوار 4000 میگا واٹ جبکہ ہماری مانگ 16,000 میگا واٹ سے بھی زیادہ ہے۔ وہاں تیل کی مانگ ایک لاکھ بیرل یومیہ جبکہ پاکستان میں 4.25 لاکھ بیرل روزانہ۔ ہم یہاں لیپ ٹاپ مفت بانٹ رہے ہیں اور بنگالی بھائی سائیکل رکشے میں جتے ہوئے ہیں۔
ناکام ریاستوں کے اشاریے کا لطیفہ بھی سن لیں۔ جن ممالک کو پاکستان کے ساتھ بریکٹ کیا جاتا ہے ان میں خانہ جنگی ہو رہی ہے اور وہاں ریاستی عملداری نام کی کوئی چیز نہیں جیسے کہ صومالیہ، چاڈ، سوڈان، ڈی آر کونگو، ہیٹی، زمبابوے وغیرہ۔ اگر پاکستان کو کراچی یا بلوچستان کی ٹارگٹ کلنگ کی وجہ سے ان ممالک کے ساتھ نتھی کیا گیا ہے تو عرض ہے کہ ان دو ٹکے کے ملکوں میں تو کراچی جیسا جدید اور میٹروپولیٹن شہر تو دور کی بات سیالکوٹ کے پائے کا بھی کوئی شہر نہیں۔ حد یہ ہے کہ اس اشاریئے میں پاکستان کا مقام یمن، نائیجریا، برما، ایتھوپیا، یوگنڈا، بنگلہ دیش اور نیپال سے بھی گیا گزرا دکھایا جاتا ہے جبکہ پاکستان کا میڈیا، عدلیہ اور سول انتظامیہ کا تانا بانا ان ممالک کے مقابلے میں قابل رشک ہے۔
(حقیقت یہ ہے کہ اگر آج ہم امریکہ کی دہشت گردی کی جنگ اور اس کی جبری دوستی میں نہ پڑتے تو ہمارا حال کہیں بہتر ہوتا لیکن اب بھی پریشانی کی کوئی بات نہیں فکر کرنے اور آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ )
(ادارہ)
(اقتباسات ،بشکریہ روزنامہ جنگ)


بشکریہ ۔۔۔ ہفت روزہ جرار
والسلام ،،، علی اوڈ راجپوت
ali oadrajput
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
ہم نے یہ ایک عجیب غلط فہمی قائم کر لی ہے کہ پاکستان دنیا کا کوئی ایسا انوکھا ملک ہے جہاں ہولناک کرپشن ہے، جرائم پیشہ سیاست دان ہیں، ڈوبتی معیشت ہے اور ٹوٹا ہوا ریاستی ڈھانچہ ہے۔ ہم نے کسی طوطے کی طرح یہ رٹ لیا ہے کہ ہمارے ہاں سب کچھ ہی زوال پذیر ہے جبکہ باقی پوری دنیا تو چین کی بانسری بجا رہی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان کے علاوہ دنیا میں جتنے بھی ممالک ہیں وہاں قانون کی بالادستی قائم ہے۔عام آدمی بازار میں سونا اچھالتا گزر جاتا ہے اور کسی کی مجال نہیں کہ آنکھ اٹھا کے دیکھے، لوگ دکانوں کو تالے لگائے بغیر بے فکری سے لمبی تان کے سو جاتے ہیں، ان کی نیند کے دوران اگر کوئی گاہک آ جائے تو وہ خود ہی چیز خرید کر پیسے مالک کے گلے میں ڈال کر چلا جاتا ہے۔ کوئی سڑک پر سوتا ہے نہ کسی کا بچہ بھوک سے مرتا ہے۔ ہر ملک میں یکساں نصاب تعلیم رائج ہے، وہاں کا ہر اسٹوڈنٹ آئن سٹائن اور نیوٹن بن کر نکلتا ہے۔ سرکاری دفاتر میں سائل کا مسئلہ چٹکی بجاتے حل کر دیا جاتا ہے، وغیرہ وغیرہ۔ ہمیں ناکام ریاستوں کی عالمی درجہ بندی کا بھی شدت سے انتظار رہتا ہے کیونکہ اس نام نہاد درجہ بندی میں پاکستان ٹاپ ٹین کے آس پاس فال کرتا ہے۔ اس اشاریئے سے ہمیں اپنے موقف کے حق میں ایک اور دلیل مل جاتی ہے اور ہم خوشی سے پھولے نہیں سماتے کہ پاکستان تو فیل ہو گیا لیکن ہم پاس ہو گئے!
حقیقت خاصی دلچسپ ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ ہمیں پاکستان کا موازنہ اپنے ہمسایوں سے کرنا چاہئے نہ کہ امریکہ اور یورپ سے کیونکہ جو شخص کچی آبادی میں رہتا ہو وہ اپنے ساتھ والی جھونپڑی سے مقابلہ کرے گا نہ کہ ڈیفنس کے خواب دیکھے گا۔ اس لئے امریکہ اور یورپ کی مثالیں رہنے دیں تاکہ ہم اتنا ضرور کہہ سکیں کہ وہاں بھی ملٹی نیشنلز کی بدمعاشیوں سے لے کر بچوں سے زیادتی تک اور آزادی کے نام پر عورتوں کی تذلیل سے لے کر کنزیومر فراڈ تک ہر قسم کا اعلیٰ پائے کا جرم ہوتا ہے، ہمیں نہ جانے کیوں یہ ’’خوش فہمی‘‘ ہے کہ ایسا صرف پاکستان میں ہی ہوتا ہے۔
انڈیا کی بات کرتے ہیں۔ ہم انڈیا کو صرف اس کی فلموں کی نظر سے دیکھتے ہیں، یہ نہیں جانتے کہ جس ممبئی میں یہ فلمیں بنتی ہیں وہاں کی طوائفوں کی مفلسی کا یہ حال ہے کہ وہ جسم کے بعد اب اپنے ہونے والے بچے بھی بیچ رہی ہیں تاکہ اس ’’ایڈوانس‘‘ سے اپنے لئے روٹی خرید سکیں۔ شاید کسی نے انہیں مدرز ڈے کی افادیت کے بارے میں نہیں بتایا! اسی ممبئی میں دنیا کی سب سے بڑا slum ہے جبکہ دلی میں اڑھائی لاکھ لوگ فٹ پاتھ پر سوتے ہیں، پاکستان میں یہ تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔ جو لوگ بھارت کی معیشت اور اداروں کی مثالیں دیتے نہیں تھکتے، وہ شاید یہ بھول جاتے ہیں کہ بھارت میں ریاستی عملداری کا یہ حال ہے کہ 10 ریاستوں کے 182 اضلاع میں مائو باغی سرگرم ہیں اور بھارت کے جنگلات کے پانچویں حصے پر ان کا قبضہ ہے، دیگر علاقوں میں چلنے والی آزادی کی تحاریک اس کے علاوہ ہیں۔ بھارت میں 41.6 فیصد لوگ (50 کروڑ زندہ انسان) خط غربت سے نیچے محض سوا ڈالر فی دن کے حساب سے زندہ ہیں اور رہی یہ دلیل کہ پچھلی دہائیوں میں بھارت اور چین میں خط غربت سے نکلنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے تو Global Hunger Index کی رپورٹ کے مطابق انڈیا ان تین ملکوں میں سے ایک ہے جہاں 1996ء سے 2011ء کے دوران یہ اشاریہ 22.9 سے 23.7 تک بڑھ گیا جبکہ پاکستان نے اس دوران بہتری دکھائی۔ بھارتی حکومت کی تمام تر کوششوں کے باوجود اب بھی شائننگ انڈیا میں 16 لاکھ ایڈز کے مریض ہیں۔
ہمارے جو سیکولر دوست اس بات پر بھنگڑے ڈالتے ہیں کہ بھارت میں اقلیتوں کا حال پاکستان سے بہتر ہے انہیں چاہئے کہ مشہور زمانہ ’’سچر رپورٹ‘‘ ایک مرتبہ دوبارہ پڑھ لیں تاکہ انہیں اندازہ ہو سکے کہ محض اقلیتی صدر لگا دینے سے حقائق کی پردہ پوشی نہیں ہو سکتی۔ ریاستی سطح پر گجرات اور سمجھوتہ ایکسپریس جیسے قابل فخر کارنامے تو انڈیا کے ماتھے کا جھومر ہیں ہی لیکن اس کے علاوہ یہ بات بھی خاصی ’’دلچسپ‘‘ ہے کہ مسلمانوں کی حالت زار دیگر اقلیتوں سے بھی گئی گزری ہے، بھارتی سول سروس میں ان کا حصہ فقط 3 فیصد ہے۔ ہمیں پاکستان میں بیٹھے ہوئے ٹی وی پر صرف شاہ رخ خان یا سیف علی خان ایسے ’’مسلمان‘‘ نظر آتے ہیں جبکہ ان کا حال یہ ہے کہ اگر ان کے گھروں میں مورتیوں کی پوجا نہ ہو تو بال ٹھاکرے خود ان کی مزاج پرسی کرے (جنہیں یقین نہ ہو وہ شاہ رخ خان کی زندگی پر بنی فلم دیکھ لے)۔ بھارتی ریاست اتر پردیش جس کی آبادی پاکستان کی کل آبادی سے بھی زیادہ ہے، کی اسمبلی کے 403 ارکان میں سے 189 کے خلاف جرائم کے مقدمات درج ہیں اور یہی حال پوری بھارتی پارلیمنٹ کا ہے۔ وہاں کے کرپشن سیکنڈل، ٹیلی کام اور بوفورس، دیگ کے دو ایسے دانے ہیں جن پر پاکستانی بھائی فقط رشک ہی کر سکتے ہیں۔
آج کل ہمیں بنگلہ دیش کی ترقی پر بھی بڑا پیار آیا ہوا ہے، ذرا اس کی بات بھی کر لیتے ہیں۔ ڈھاکہ شہر میں 6 لاکھ سائیکل رکشہ ہیں جسے دو پسلی والا غریب بنگالی ایک دھوتی اور بنیان پہن کر چلاتا ہے اور 4 آدمیوں کا وزن ڈھوتا ہے۔ وہاں ٹریفک، سائیکل رکشا کی وجہ سے بلاک ہوتا ہے اور ہمارے ہاں گاڑیوں کی وجہ سے۔ بنگلہ دیش کا کل بجٹ پاکستان سے آدھا بھی نہیں، وہاں بجلی کی مانگ 6000 میگا واٹ اور پیداوار 4000 میگا واٹ جبکہ ہماری مانگ 16,000 میگا واٹ سے بھی زیادہ ہے۔ وہاں تیل کی مانگ ایک لاکھ بیرل یومیہ جبکہ پاکستان میں 4.25 لاکھ بیرل روزانہ۔ ہم یہاں لیپ ٹاپ مفت بانٹ رہے ہیں اور بنگالی بھائی سائیکل رکشے میں جتے ہوئے ہیں۔
ناکام ریاستوں کے اشاریے کا لطیفہ بھی سن لیں۔ جن ممالک کو پاکستان کے ساتھ بریکٹ کیا جاتا ہے ان میں خانہ جنگی ہو رہی ہے اور وہاں ریاستی عملداری نام کی کوئی چیز نہیں جیسے کہ صومالیہ، چاڈ، سوڈان، ڈی آر کونگو، ہیٹی، زمبابوے وغیرہ۔ اگر پاکستان کو کراچی یا بلوچستان کی ٹارگٹ کلنگ کی وجہ سے ان ممالک کے ساتھ نتھی کیا گیا ہے تو عرض ہے کہ ان دو ٹکے کے ملکوں میں تو کراچی جیسا جدید اور میٹروپولیٹن شہر تو دور کی بات سیالکوٹ کے پائے کا بھی کوئی شہر نہیں۔ حد یہ ہے کہ اس اشاریئے میں پاکستان کا مقام یمن، نائیجریا، برما، ایتھوپیا، یوگنڈا، بنگلہ دیش اور نیپال سے بھی گیا گزرا دکھایا جاتا ہے جبکہ پاکستان کا میڈیا، عدلیہ اور سول انتظامیہ کا تانا بانا ان ممالک کے مقابلے میں قابل رشک ہے۔
(حقیقت یہ ہے کہ اگر آج ہم امریکہ کی دہشت گردی کی جنگ اور اس کی جبری دوستی میں نہ پڑتے تو ہمارا حال کہیں بہتر ہوتا لیکن اب بھی پریشانی کی کوئی بات نہیں فکر کرنے اور آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ )
(ادارہ)
(اقتباسات ،بشکریہ روزنامہ جنگ)


بشکریہ ۔۔۔ ہفت روزہ جرار
والسلام ،،، علی اوڈ راجپوت
ali oadrajput
شاید ان لوگوں کو یہ بھی نہیں پتہ کہ اگر نیو یارک میں چند منٹس کے لیے لائیٹ بند ہو جاے تو وہاں کیا ہوتا ہے ؟ کتنے لوگوں کی چوری ہوتی ہے اور کتنے ریپ ہوتے ہیں اور کتنے بچوں سے زیادتی ہوتی ہے اس امریکہ میں 5000 سیریل کلر موجود ہیں جو لوگوں کو قتل کر کے پیسے لیتے ہیں اور انڈیا دنیا کا وہ واحد ملک ہے جہاں پر اقلیتوں پر ہتیا چار ہوتا ہے نا ان کی عزت محفوظ ہے اور نہ ہی مال اور اس میں اب اقلیتیں شامل ہیں
 

اخت ولید

سینئر رکن
شمولیت
اگست 26، 2013
پیغامات
1,792
ری ایکشن اسکور
1,297
پوائنٹ
326
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
مضمون نگار کی باتیں اپنی جگہ درست مگر کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرنا بھی عقل مندی نہیں!!!
یہ بات بالکل بجا ہے کہ بعض افراد صرف پاکستان کی برائیاں اچھالنے میں اپنی قوت و طاقت صرف کیے ہوئے ہیں تو دوسری جانب بعض ’’سب ٹھیک ہے‘‘ کا راگ الاپتے ہیں۔ ۔ اکثر حکومتی اہلکار اپنی شرمندگی چھپانے کو اردگرد جھانکتے ہیں تا کہ الزام نہ آئے۔ ۔ کنویں کے مینڈک کی طرح کنویں میں ہی دیکھتے رہے تو ہم ترقی کر چکے!!حکومت آنکھیں نہ چرائے،اپنی ذمہ داری نبھائے۔ ۔
مشکلات ہر جگہ ہیں ،کوئی ملک اس سے مبرا نہیں۔ ۔ جہاں مسائل ہیں،انکی نشاندہی کے بعد انفرادی و اجتماعی کوشش ہونے چاہیے محض تنقید کرنا سود مند نہیں۔۔
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
السلام علیکم

شاید ان لوگوں کو یہ بھی نہیں پتہ کہ اگر نیو یارک میں چند منٹس کے لیے لائیٹ بند ہو جاے تو وہاں کیا ہوتا ہے ؟ کتنے لوگوں کی چوری ہوتی ہے اور کتنے ریپ ہوتے ہیں اور کتنے بچوں سے زیادتی ہوتی ہے اس امریکہ میں 5000 سیریل کلر موجود ہیں جو لوگوں کو قتل کر کے پیسے لیتے ہیں اور انڈیا دنیا کا وہ واحد ملک ہے جہاں پر اقلیتوں پر ہتیا چار ہوتا ہے نا ان کی عزت محفوظ ہے اور نہ ہی مال اور اس میں اب اقلیتیں شامل ہیں
ان ممالک میں تو کیا مڈل ایسٹ میں بھی لائٹ بند نہیں ہوتی۔ مڈل ایسٹ میں شٹ ڈاؤن پر ہر بلڈنگ کے مالکان تک نوٹیفکیشن بھیج دیا جاتا ھے کہ فلاں دن اتنے وقت سے اتنے وقت تک کام کی وجہ سے شٹ ڈاؤن ہو گا، اور ان ممالک میں لوکل اخبارات جو فری میں ملتے ہیں اور لوکل ٹی وی چینل کے ذریعے اطلاع دی جاتی ھے۔

اس کے علاوہ باقی باتیں جو آپ نے لکھی ہیں اس پر کوئی بھی ملک محفوظ نہیں، چوری ہونے پر سیکوڑٹی سسٹم لوگوں نے لگووائے ہوئے ہیں اور جن گھروں میں یہ سسٹم نہیں وہاں چوری ہو سکتی ھے پھر بھی بینکوں کے علاوہ بھی لاکرز موجود ہیں اور کچھ چوریاں ایسی ہیں کہ کچھ لوگ اپنے قیمتی سامان کی انشورنس کروا لیتے ہیں اور خود ہی اس پر ہاتھ صاف کرتے ہیں اور انشورس کمپنی سے پیسے لے لیتے ہیں۔

آبروریزی پر اگر بیوی بھی پولیس کو کال کر کے یہ کہہ دے کہ اس نے میری مرضی کے خلاف یہ کام کیا ھے تو اس پر کورٹ کا سامنا کرنا پڑتا ھے اس کے علاوہ ان کا ملک ھے اور وہ یہاں کے قانون کے مطابق 18 سال تک والدین کے ساتھ رہنے کے پابند ہیں اس کے بعد وہ جو بھی کریں وہ ان کا ذاتی فعل ھے اور اس کے وہ خود ذمہ دار ہیں۔

سیریل کلر تو پاکستان میں بھی ہیں اس پر کیا کیا جا سکتا ھے۔

بغیر سوال کئے یہ معلومات ھے اگر اچھی نہ لگے تو اگنور کر دیں۔

والسلام
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
لندن: برطانیہ کی ایک فرشتہ صفت سمجھی جانے والی خاتون ملک کی بدترین سیریل کلر کے طور پر سامنے آئی ہے، اس نے400 بچوں کو قتل کیا۔
ڈیلی میل نے یہ روح فرسا انکشاف نیشنل آرکائیوز کے حوالے سے کیا۔ تفصیلات کے مطابق اس ادارے نے 1770ء سے 1934ء کے دوران ہونے والے جرائم کے بارے میں آن لائن دستاویزات میں اس ظلم سے پردہ اٹھاتے ہوئے بتایا ہے کہ19ویں صدی میں ایمیلیاڈائر نامی عورت کے ہولناک جرائم نے برطانیہ کو لرزاکر رکھ دیا تھا۔ ایمیلیا غیرشادی شدہ ماؤں سے رابطہ کرتی اور ان کے گناہوں کا بوجھ خود اٹھانے کی پیشکش کرتی۔
بن بیاہی مائیں اس موقع کو نعمت اور اپنے بچے کے بہتر مستقبل کا سودا سمجھتے ہوئے، اپنا بچہ گود لینے پر اس کی نہ صرف شکرگزار رہتیں بلکہ اسے اپنی استطاعت سے بڑھ کر ادائیگی بھی کرتیں۔ ایمیلیا رقم لے کر بچوں کو اچھی طرح لپیٹ کر دریائے تھیمز کی تہہ کے حوالے کر دیتی۔ ایمیلیا نے اپنا یہ سفاکانہ کاروبار30 برس تک کامیابی سے جاری رکھا اور اس دوران 400 بچوں کو زندگی سے محروم کر دیا
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
السلام علیکم



ان ممالک میں تو کیا مڈل ایسٹ میں بھی لائٹ بند نہیں ہوتی۔ مڈل ایسٹ میں شٹ ڈاؤن پر ہر بلڈنگ کے مالکان تک نوٹیفکیشن بھیج دیا جاتا ھے کہ فلاں دن اتنے وقت سے اتنے وقت تک کام کی وجہ سے شٹ ڈاؤن ہو گا، اور ان ممالک میں لوکل اخبارات جو فری میں ملتے ہیں اور لوکل ٹی وی چینل کے ذریعے اطلاع دی جاتی ھے۔

اس کے علاوہ باقی باتیں جو آپ نے لکھی ہیں اس پر کوئی بھی ملک محفوظ نہیں، چوری ہونے پر سیکوڑٹی سسٹم لوگوں نے
والسلام
اس کا مطلب ہے وہاں اور یہاں صرف بجلی کا فرق ہے باقی سب ایک جیسا ہے یہ تو کوئی فرق نہیں ہے
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
السلام علیکم

ارسلان بھائی آپ نے جو لنکس پیش کئے ہیں انہیں پڑھنے سے تو رہے آپکو اگر کوئی معلومات حاصل کرنی ہیں تو اس پر سوال پوچھ سکتے ہیں جیسے عمران بھائی نے لکھا اور میرے جواب پر اھلحدیث عتیق بھائی سے اس کی تصدیق بھی کر سکتے ہیں۔

والسلام
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
السلام علیکم

ارسلان بھائی آپ نے جو لنکس پیش کئے ہیں انہیں پڑھنے سے تو رہے آپکو اگر کوئی معلومات حاصل کرنی ہیں تو اس پر سوال پوچھ سکتے ہیں جیسے عمران بھائی نے لکھا اور میرے جواب پر اھلحدیث عتیق بھائی سے اس کی تصدیق بھی کر سکتے ہیں۔

والسلام
وعلیکم السلام
بھائی یہ بھی معلومات ہے، اس کو بھی پڑھیں۔
 
Top