• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

دنیا کی سب سے اچھی جگہ مسجد ہے اور بری جگہ بازار

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
ذاتی پیغام میں محترم بھائی جناب @غفران صاحب نے سوال کیا ہے کہ :
ـــــــــــــــــــــ
السلامُ و علیکم
شیخ محترم و حدیث چاہیے تھی ایک دیہاتی نبی سے سوال کرتا ہے کی دنیا کی سب سے اچھی جگہ اور بری جگہ
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
مستدرک حاکم (2149 ) میں یہ روایت مفصل موجود ہے :
حدَّثَنَاهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ مُوسَى الْعَدْلُ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَيُّوبَ، أَنْبَأَ عَلِيُّ بْنُ الْحَسَنِ الْهِسِنْجَانِيُّ، وَيَحْيَى بْنُ الْمُغِيرَةِ السَّعْدِيُّ، قَالَا: حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ مُحَارِبِ بْنِ دِثَارٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَيُّ الْبِقَاعِ خَيْرٌ؟ فَقَالَ: «لَا أَدْرِي» قَالَ: فَأَيُّ الْبِقَاعِ شَرٌّ؟ فَقَالَ: «لَا أَدْرِي» فَأَتَاهُ جِبْرِيلُ فَقَالَ: «سَلْ رَبَّكَ» فَقَالَ جِبْرِيلُ: مَا نَسْأَلُهُ عَنْ شَيْءٍ فَانْتَفَضَ انْتِفَاضَةً، كَادَ أَنْ يُصْعَقَ مِنْهُمَا مُحَمَّدٌ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا صَعِدَ جِبْرِيلُ قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: سَأَلَكَ مُحَمَّدٌ أَيُّ الْبِقَاعِ خَيْرٌ؟ فَقُلْتَ: لَا أَدْرِي. وَسَأَلَكَ: أَيُّ الْبِقَاعِ شَرٌّ؟ فَقُلْتَ: لَا أَدْرِي. قَالَ: فَقَالَ: نَعَمْ. قَالَ: فَحَدِّثْهُ أَنَّ «خَيْرَ الْبِقَاعِ الْمَسَاجِدُ، وَأَنَّ شَرَّ الْبِقَاعِ الْأَسْوَاقُ»
[التعليق - من تلخيص الذهبي] 2149 - صحيح "
ترجمہ :
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ (ایک روز) ایک آدمی سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا آپ سے پوچھا کہ بہترین جگہ کون سی ہے ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں نہیں جانتا ،اس آدمی نے پوچھا اچھا بتلایئے سب سے بری جگہ کون سی ہے ؟ فرمایا میں نہیں جانتا ۔ چناچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے۔ پھر جب جناب جبرائیل آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا کہ یہ بات آپ اپنے رب سے پوچھیں وہ کہنے لگے ہم خود سے اللہ تعالی سے کچھ نہیں پوچھتے ،یہ کہہ کر وہ کانپنے لگے قریب تھا کہ غشی طاری ہوجاتی ،
پھر جناب جبریل اوپر چلے گئے ، تو اللہ عزوجل نے ان سے فرمایا کہا کہ ہمارے نبی ﷺ آپ سے پوچھا کہ بہترین جگہ کون سی ہے ؟ اور آپ نے کہا تھا کہ میں نہیں جانتا ، اسی طرح انہوں نے​
آپ سے پوچھا کہ بدترین جگہ کون سی ہے ؟ اور آپ نے کہا تھا کہ میں نہیں جانتا ، جناب جبریل نے عرض کیا جی ہاں ایسے ہی ہوا،
اللہ تعالیٰ نے فرمایا :انہیں بتادیں کہ بہترین مقامات مساجد ہیں ،اوربد ترین مقامات بازار ہیں ۔"
ــــــــــــــــــــ
مشہور عظیم محدث علامہ الذھبیؒ نے اسے صحیح کہا ہے ، اور علامہ شعیب الارناؤط نے صحیح ابن حبان کی تعلیق میں اسے " حسن" لکھا ہے :
[تعليق شعيب الأرنؤوط]
حديث حسن، رجاله ثقات، إلا أن عطاء بن السائب رمي بالاختلاط، وجرير بن عبد الحميد: ممن روى عنه بعد الاختلاط، لكن يشهد له حديث أبي هريرة الآتي، فيتقوى به.


اس کا شاہد صحیح مسلم اورصحیح ابن حبان کی یہ روایت ہے :
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «أَحَبُّ الْبِلَادِ إِلَى اللَّهِ مَسَاجِدُهَا، وَأَبْغَضُ الْبِلَادِ إِلَى اللَّهِ أَسْوَاقُهَا».
[تعليق شعيب الأرنؤوط] إسناده صحيح على شرط مسلم
یعنی​
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے راویت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”شہروں میں پیاری جگہ اللہ کے نزدیک مسجدیں اور سب سے بری جگہ اللہ کے نزدیک بازار ہیں۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــ
اور اس موضوع پر سب سے صحیح اور معتبر صحیح مسلم کی حدیث ہے :
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " أَحَبُّ البِلَادِ إِلَى اللَّهِ، مَسَاجِدُهَا، وَأَبْغَضُ البِلَادِ إِلَى اللَّهِ، أَسْوَاقُهَا "(صحيح مسلم ،كتاب المساجد ومواضع الصلاة وصحيح ابن خزيمة 129، وصحيح ابن حبان 1600)
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”شہروں میں پیاری جگہ اللہ کے نزدیک مسجدیں اور سب سے بری جگہ اللہ کے نزدیک بازار ہیں۔“
٭٭٭٭٭
 
Last edited:

غفران

رکن
شمولیت
دسمبر 12، 2017
پیغامات
14
ری ایکشن اسکور
3
پوائنٹ
32
جزکاللہ ہو خیر شیخِ محترم اللہ آپکے علم میں مزید اضافہ کرے
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
اسلام میں مساجد کی اہمیت و فضیلت
(Abdul Bari Shafique Salafi, Mumbai)

اسلام ایک آفاقی و ہمہ گیر دین ہے جس کی تعلیمات ہم انسانوں کے لئے مشعل راہ اور رشد و ہدایت کا منبع و سر چشمہ ہیں ۔ انسانو ں کی تخلیق اس دارفانی میں اسی لئے کی گئی ہے کہ وہ ایک اللہ کی عبادت اور قرآن و حدیث کے احکامات پر عمل کر کے اپنے اخروی زندگی کو کامیاب و کامراں بناسکیں ، اور اس دنیا میں بھیجے جانے کے مقصد حقیقی کو حاصل کر لیں ، اسی مقصد عظیم کے تحت اللہ رب العالمین نے ہمارے مابین اپنے معز ز و مکرم انبیا ء کر ام کو مبعو ث فرمایا اور ساتھ ہی اپنی مقدس و آسمانی کتابو ں کو بھی نا زل کیا ۔ جن میں ہمیں توحید پر قائم رہنے اور شرک کی غلاظتوں سے دور رہنے کی تاکید کی ، اور اپنی عبادت و ریا ضیت اور بندگی کے خاطر مساجد کو قائم و دائم اور آباد کر نے کا تاکیدی حکم صادر فرمایا ، جو دنیا والو ں کے لئے خیر و برکت کا منبع وسر چشمہ اور امن و امان کی جگہیں ہیں ، اسی لئے اللہ رب العالمین نے ان میں صر ف اپنی عبادت کرنے کا حکم دیتے ہو ئے ارشاد فر مایا کہ
’’وَأَنَّ الْمَسَاجِدَ لِلَّهِ فَلَا تَدْعُوا مَعَ اللَّهِ أَحَدًا‘‘ ( سو رُۃ الجن : ۱۸)
ترجمہ : بلاشبہ مساجد صر ف اللہ تعالی (کی عبا دت ) کے لئے ہیں لہذا ان میں اللہ کے ساتھ کسی دو سرے کو نہ پکارو "
دنیا کی ان مساجد کو اللہ تبارک و تعالی ٰ نے’’ بیت اللہ‘‘ کے لقب سے یاد کیا ہے، اور ان کی دیکھ ریکھ ، تعمیر و ترقی اور آباد کر نے والو ں کو مو منین کے خطاب و سرٹیفکٹ سے سرفراز فرمایا ہے ، جیساکہ اللہ رب العالمین نے قرآن مجید کے اند ر ارشاد فرماتاہے کہ
’’ إِنَّمَا يَعْمُرُ مَسَاجِدَ اللَّهِ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَأَقَامَ الصَّلَاةَ وَآتَى الزَّكَاةَ وَلَمْ يَخْشَ إِلَّا اللَّهَ فَعَسَى أُولَئِكَ أَنْ يَكُونُوا مِنَ الْمُهْتَدِينَ ‘‘ ( التو بہ : ۱۸)
ترجمہ : اللہ کی مسجدوں کو و ہی لو گ آباد کر تے ہیں جو اللہ اور یو م آخرت پر ایما ن لاتے ہیں نماز قائم کر تے ہیں اور زکاۃ اداکر تے ہیں اور اللہ کے سواکسی اور سے نہیں ڈرتے ہیں تو قع ہے کہ یہی لو گ یقینا ہدایت یافتہ اور راہ راست پر گامزن ہیں ۔
اس کے علاوہ جو لوگ نماز ،رو زہ ، حج و زکوۃ اور دیگر دینی امو ر میں کوتا ہی کر تے ہیں ان کے لئے دنیا و آخرت میں خسارہ اوور نقصان ہے ، اور خاص طور جو لو گ مساجد کوبے آباد و بر باد کر نے و الے اورمساجد میں آنے والوں کو رو کتے اور ان کے لئے رو کاٹیں اور پریشانیاں کھڑی کر تے ہیں ، ایسے لو گ ظالم و جابر ہیں اور ان کے لئے دنیا میں ذلت ور سوائی اور آخرت میں درد ناک عذاب ہے ، جیسا کہ اللہ تعالی ٰ نے ارشاد فرمایا کہ :
’’ وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ مَنَعَ مَسَاجِدَ اللَّهِ أَنْ يُذْكَرَ فِيهَا اسْمُهُ وَسَعَى فِي خَرَابِهَا أُولَئِكَ مَا كَانَ لَهُمْ أَنْ يَدْخُلُوهَا إِلَّا خَائِفِينَ لَهُمْ فِي الدُّنْيَا خِزْيٌ وَلَهُمْ فِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ‘ ( بقر ۃ : ۱۱۴)
ترجمہ : اس شخص سے بڑ ھ کر ظالم کو ن ہے جو اللہ تعالی ٰ کی مسجدوں میں اللہ تعالیٰ کے ذکر کئے جانے کو رو کے اور ان کی بر بادی کی کو شش کر ے ، ایسے لو گو ں کو خو ف کھاتے ہو ئے ہی اس میں جاناچاہئے ایسے ظالمو ں کے لئے دنیا میں بھی رسوائی ہے اور آخرت میں بھی بڑے بڑے عذاب ہیں ۔
حافظ صلاح الدین یو سف حفظہ اللہ ’’ و سعیٰ فی خرابھا ‘‘(اور ان کی بر باد ی کی کو شش کر ے)کی تفسیر میں رقمطرازہیں کہ ’’ تخریب اور بر بادی یہی نہیں ہے کہ اسے ڈھادیا جائے اور عمارت کو نقصان پہنچایا جائے ، بلکہ ان میں اللہ کی عبادت اور ذکر سے روکنا،اقامت شریعت اور مظاہر شرک سے پاک کرنے سے منع کرنا بھی تخریب اور اللہ کے گھروں کو بر باد کر نا ہے ۔ ( تفسیر احسن البیا ن ۔ سورۃ بقرۃ : ۱۱۴۔ ص:۹۵)۔

چنانچہ انہی مساجد کی اہمیت و فضیلت کے پیش نظر نبی آخرالزماں حضرت محمد مصطفی ﷺ نے جگہ جگہ ، قریہ قریہ اور بستی بستی بذات خود مسجد وں کے تعمیر کرنے اور دو سروں کو بھی تعمیر کرنے و کروانے اور صاف ستھر ا ء رکھنے کا حکم دیا ہے ۔ عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: «أَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِبِنَاءِ الْمَسَاجِدِ فِي الدُّورِ وَأَنْ تُنَظَّفَ وَتُطَيَّبَ» ‘‘ ( صحیح ابوداؤدللالبانی : ۴۳۶)

ترجمہ :۔ حضرت عا ئشہ رضی اللہ عنھا بیان فرماتی ہیں کہ رسو ل اللہ ﷺ نے محلو ں میں مساجد بنانے انہیں پاک صاف اور خو شبو دار رکھنے کا حکم دیا ہے ۔ اور اللہ رب العالمین کی رضا و خشنو دی کے خاطر مسجد تعمیر کر نے والے کے اجر و ثواب کے بارے میں ذکر کرتے ہوئے ارشادفر ماتا ہے کہ:
’’" مَنْ بَنَى مَسْجِدًا يَبْتَغِي بِهِ وَجْهَ اللَّهِ بَنَى اللَّهُ لَهُ مِثْلَهُ فِي الجَنَّةِ "
‘‘( بخاری : ۴۵۰)
یعنی جس نے اللہ کی رضاکے لئے مسجد تعمیر کی تو اللہ تعالیٰ اسکے لئے جنت میں ویسا ہی گھر بنائے گا ۔
اور دوسر ی روایت میں ہے کہ اس سے بڑا گھر بنائیں گے ( احمد:۴۵۔ ۲۷۶۱۲)
اورحضر ت عمر بن خطاب ؓ روایت کر تے ہیں کہ
’’ قال سمعت رسو ل اللہ یقو ل :من بنی مسجدایذکر فیہ اسم اللہ بنی اللہ لہ بیتا فی الجنۃ‘‘( صحیح ابن ماجہ : ۶۰۱)ترجمہ : حضرت عمر بن خطاب ؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسو ل اللہ ﷺ کو فرماتے ہو ئے سناہے کہ ’’ جس نے مسجد بنائی جس میں اللہ کو یاد کیا جاتا ہے تو اللہ تعالی ٰ اس کے لئے جنت میں گھر بناتا ہے ۔
چنانچہ اسی اجر و ثواب کے حصو ل کے لئے رسول اکر م ﷺ نے صحابہ کر ام رضو ان اللہ علیھم اجمعین کے ساتھ مسجد نبو ی کی تعمیر میں بذات خو د ایک مزدور ( نو کر ) کی طر ح کا م کیا ۔
حضر ت عائشہ ؓکی لمبی روایت ہے جس میں ذکر ہے کہ قبا ء سے رخصت ہو تے و قت مدینہ الرسو ل میں جہاں آپ ﷺ کی او نٹنی بیٹھی تھی وہاں آپ نے ایک مسجد بنائی ، اسی روایت میں آگے ہے کہ ’’ ۔۔۔۔۔ثم بناہ مسجداوطفق رسول اللہ ﷺینقل معھم اللبن فی بنیانہ و یقول ،وھو ینقل اللبن : ( ھذاالاحمال لا حمال خیبر ، ھذا ابر ربنا و اطھر۔۔۔۔۔‘‘ ( بخاری : ۳۹۵۶)یعنی : وہاں ایک مسجد کی بنیاد رکھی اور اس مسجد کی تعمیر میں رسول اکرم ﷺ سب لو گوں کے ساتھ انٹیں اٹھاتے اور ساتھ ساتھ یہ فرماتے ’’ یہ بو جھ اٹھانا کوئی خیبر کا بو جھ اٹھا نا نہیں ہے ،بلکہ یہ تو باعث اجر و ثواب اور پاکیز ہ کا م ہے ۔
اور اسی مسجد( نبو ی،قباء) کی فضیلت کے بارے میں اللہ رب العالمین نے ارشاد فرمایا کہ:
’’ لَمَسْجِدٌ أُسِّسَ عَلَى التَّقْوَى مِنْ أَوَّلِ يَوْمٍ أَحَقُّ أَنْ تَقُومَ فِيهِ فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَنْ يَتَطَهَّرُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ ‘‘ ( التو بہ :۱۰۸)ترجمہ :۔ جس مسجد کی بنیاد اول دن سے تقو ی پر رکھی گئی ہے وہ اس لاائق ہے کہ آپ اس میں کھڑے ہو ں ، اس میں ایسے آدمی ہیں کہ وہ خوب پاک ہو نے کو پسند کر تے ہیں ، اور اللہ تعالیٰ خو ب پاک ہو نے والو ں کو پسند کرتاہے ۔

مذکورہ آیت کے ’’لمسجد اسس ‘‘کے بارے میں گرچہ اختلاف ہے کہ آیا اس سے مراد مسجد نبوی ہے یا مسجد قباء ۔لیکن بہر حال اس سے مسجد کی تعمیر و ترقی کی فضیلت واضح اور ثابت ہے ۔
یقینا یہ مساجد جنت کے باغو ں میں سے ایک باغ اور اللہ کے گھروںمیں سے ایک گھر ہیں ،

جیسا کہ حضرت ابو ہریرۃ ؓ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا کہ:
’’اذامررتم بریاض الجنۃفارتعوا، یعنی جب تمہارا گذرجنت کے باغوں میں سے ہو تو اس کے میوہ کھایا کرو ، تو حضرت ابو ہریرہ ؓ نے عر ض کیا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ ’’وما ریا ض الجنۃ ‘‘جنت کے باغ کو ن سے ہیں تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ مساجدہیں ۔( ترغیب و ترھیب :۲۳۲۳)
یعنی یہ مساجد جن ہم پانچو قتہ نمازیں اداکرتے ہیں اور دن میں پانچ مرتبہ اللہ رب العالمین کی کبریائی و بڑائی او ربزرگی کا ببانگ دہل اعلان کر تے اور نبی محترمﷺ کے سچے نبی ہو نے کی شہادت و گواہی دیتے ہیں اور راہ راست سے بھٹکے اور خواب غفلت میں بد مست لو گوں کو ایک اللہ کی وحدانیت اور عبادت و بندگی کی پرخلو ص دعوت دیتے ہیں ، چنانچہ انہی مساجد کو اللہ کے رسول ﷺ نے اللہ رب العالمین کے نزدیک دنیا کی سب سے بہترین و متبرک اور مقدس و پاکباز اور پسندیدہ و امن و امان کی جگہیں قراردیا ہے اوربازاروں و چو راہو ں کو سب سے نا پسندیدہ جگہ قرار دیا ہے۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «أَحَبُّ الْبِلَادِ إِلَى اللهِ مَسَاجِدُهَا، وَأَبْغَضُ الْبِلَادِ إِلَى اللهِ أَسْوَاقُهَا» ‘‘(مسلم :۱۵۲۸) ترجمہ :حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان فرماتے ہیں کہ رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالی کو شہروں میں سے سب سے زیادہ محبوب جگہیں مساجد ہیں اور شہروں میں سب سے زیادہ نا پسندیدہ جگہیں بازار ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
 
Last edited:
Top