حافظ عمران الہی
سینئر رکن
- شمولیت
- اکتوبر 09، 2013
- پیغامات
- 2,100
- ری ایکشن اسکور
- 1,460
- پوائنٹ
- 344
سوال: ایک شخص نے اپنی بیوی کو حیض میں طلاق دی پھر صلح ہو گئی تقریباً ایک سال بعد جھگڑے کے دوران میں پھر طلاق دے دی۔ خاندان والوں نے پھر رجوع کروا دیا۔ اب کچھ دن پہلے لڑائی کے دوران میں پھر طلاق کہہ دی ہم دونوں بہت پریشان ہیں کسی نے کہا کہ حیض والی طلاق واقع نہیں ہوئی، کیا یہ صحیح ہے؟
کتاب و سنت کی روشنی میں جلد جواب دے کر ممنون فرمائیں۔
جواب: سوال کے اندر پیش کی گئی صورت میں تینوں طلاقیں واقع ہو چکی ہیں۔ اور یہ عورت طلاق دینے والے پر حرام ہو چکی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دو مرتبہ طلاق دے کر رجوع کرنے کے بعد تیسری طلاق دینے والے کے متعلق فرمایا: (۔۔۔ پھر اگر وہ اسے (تیسری) طلاق دے دے تو اس کے بعد وہ اس کے لیے حلال نہیں ہو گی یہاں تک کہ اس کے علاوہ کسی اور خاوند سے نکاح کرے پھر وہ اگر اسے طلاق دے دے تو (پہلے) دونوں پر کوئی گناہ نہیں کہ دونوں آپس میں رجوع کر لیں اگر سمجھیں کہ اللہ کی حدیں قائم رکھیں گے اور یہ اللہ کی حدیں ہیں اور وہ انہیں ان لوگوں کے لیے کھول کر بیان کرتا ہے جو جانتے ہیں)۔(البقرۃ:۰۳۲)
حیض کی حالت میں دی گئی طلاق کے شمار نہ ہونے کا فتویٰ صحیح نہیں ہے۔ کیونکہ اس کی کوئی صریح دلیل کتاب و سنت میں موجود نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اگرچہ حیض میں دی گئی طلاق بدعی طلاق ہے اور گناہ کا کام ہے لیکن وہ دوسری سنت کے مطابق دی گئی طلاقوں کے ساتھ شمار ہو گی۔
عبداللہ بن عمرw نے اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دے دی تو عمر بن الخطابt نے اس کا تذکرہ رسول اللہe کے پاس کیا تو رسول اللہeسخت ناراض ہوئے اور فرمایا: ’’اسے حکم دو کہ وہ اپنی بیوی کے ساتھ رجوع کرے۔‘‘ (مسلم ، کتاب الطلاق، باب تحریم طلاق الحائض۔۔۔ الخ، ح:۷۵۶۳)
رسول اللہe کا ابن عمرw کے لیے رجوع کا حکم صادر کرنا صریح دلیل ہے کہ حیض میں دی گئی طلاق واقع ہوئی ہے۔۔۔ اگر طلاق واقع ہی نہ ہوئی ہوتی تو رجوع کا حکم کیوں دیا جاتا؟ خود عبداللہ بن عمرt نے بھی اس کی صراحت کی ہے کہ حیض میں دی گئی طلاق کو شمار کیا گیا تھا۔ (بخاری، کتاب الطلاق، باب اذا طلقت الحائض تعتدّ بذلک الطلاق، ح:۳۵۲۵)
امام بیہقی صحیح سند کے ساتھ روایت لائے ہیں عبداللہ بن عمرw کہتے ہیں کہ انہوں نے اپنی بیوی کو حیض میں طلاق دے دی، تو سیدنا عمرt رسول اللہe کے پاس آئے اور اس کا تذکرہ رسول اللہ e کے پاس کیا تو آپe نے اسے ایک طلاق قرار دیا۔(السنن الکبریٰ للبیہقی، کتاب الطلاق و الخلع، باب الطلاق علی الحائض و ان کان بدعیاً، ج:۷، ص:۶۲۳) حافظ ابن حجرh فرماتے ہیں کہ یہ حدیث حائضہ عورت کی طلاق کے واقع ہونے میں نص ہے۔ اس مسئلہ میں اختلاف کی صورت میں اسی کی طرف لوٹنا واجب ہے۔ (فتح الباری، ج:۹ ، ص:۸۳۴)
Last edited: