محمد عامر یونس
خاص رکن
- شمولیت
- اگست 11، 2013
- پیغامات
- 17,117
- ری ایکشن اسکور
- 6,800
- پوائنٹ
- 1,069
دوران عدت بيوہ سے شادى كر لى ------------
ايك شخص نے بيوہ عورت سے دوران عدت ہى شادى كر لى ابھى اس كے خاوند كے فوت ہونے كى عدت مكمل نہيں ہوئى تھى، اور يہ واقعہ آج سے تقريبا تيس برس قبل شريعت سے لاعلمى كى بنا پر پيش آيا تھا، ا ب ان دونوں كى اولاد بھى ہے، اللہ تعالى آپ كو جزائے خير عطا فرمائے، برائے مہربانى يہ بتائيں كہ اب كيا كيا جائے ؟
الحمد للہ:
- اول:
{ اور تم ميں سے وہ لوگ جو فوت ہو جائيں اور اپنى بيوياں چھوڑ جائيں تو وہ عورتيں چار ماہ دس دن انتظار كريں }البقرۃ ( 234 ).
اور اگر بيوى حاملہ ہو تو اس كى عدت وضع حمل سے ختم ہوگى؛ كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
{ اور حمل واليوں كى عدت يہ ہے كہ وہ اپنے حمل وضع كر ليں }الطلاق ( 4 ).
اس ليے اگر عورت نے دوران عدت نكاح كر ليا تو علماء كرام كے متفقہ فيصلہ كے مطابق اس كا نكاح باطل ہوگا، اور ان دونوں كے مابين عليحدگى كرانا ضرورى ہے.
- ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
اور ا گر وہ دوران عدت شادى كر لے تو اس كا نكاح باطل ہے " انتہى{ جب تك عدت ختم نہ ہو جائے تم عقد نكاح كا ارادہ مت كرو }.
ديكھيں: المغنى ( 8 / 100 ).
اس ليے اس عورت اور اس كے دوسرے خاوند كے مابين عليحدگى كرانا ضرورى ہے، پھر وہ اپنى پہلے خاوند سے عدت مكمل كريگى، اور جب پہلے كى عدت سے فارغ ہو جائے تو دوسرے شخص كے ليے نيا عقد كرنا جائز ہوگا.
- ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
لہذا جب وہ پہلے كى عدت پورى كر لے تو اس پر واجب ہے كہ وہ دوسرے كى عدت بھى پورى كرے، دونوں عدتيں آپس ميں ايك دوسرے ميں داخل نہيں ہونگى؛ كيونكہ يہ دو مردوں سے ہيں، امام شافعى رحمہ اللہ كا يہى مسلك ہے.
پھر انہوں نے يہى قول عمر بن خطاب اور على بن ابى طالب رضى اللہ تعالى عنہما سے نقل كرتے ہوئے كہا ہے:
پھر پہلے كى عدت ختم ہونے پر دوسرے شخص كے ليے نكاح كرنا جائز ہے، عدت ختم ہوتے ہى وہ نكاح كر سكتا ہے." خلفاء ميں سے دو خلفاء كے يہى دو قول ہيں ان اقوال كا صحابہ كرام ميں كوئى مخالف نہيں، اور اس ليے بھى كہ يہ دو آدميوں كا حق ہے، لہذا ايك دوسرے ميں داخل نہيں ہو سكتا " انتہى
ديكھيں: المغنى ( 8 / 101 ).
- ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
ديكھيں: المغنى ( 8 / 100 ).
- اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
ديكھيں: الشرح الممتع ( 13 / 383 ).
دوم:
اگرچہ يہ نكاح باطل ہے مگر يہ ہے كہ نكاح شبہ ہونے كى بنا پر اس كى اولاد اسى كى طرف منسوب ہوگى، يہاں شبہ نكاح حكم شرعى سے جہالت ہے.
- ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
ليكن اگر وہ عدت سے جاہل ہوں يا اس كى حرمت كا علم نہ ركھتے ہوں، تو نسب ثابت ہوگا، اور حد نہيں لگائى جائيگى، اور مہر دينا واجب ہوگا " انتہى
ديكھيں: المغنى ( 8 / 103 ).
واللہ اعلم .
الاسلام سوال وجواب