- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,585
- ری ایکشن اسکور
- 6,762
- پوائنٹ
- 1,207
ابن عباسؓ کی ایک روایت ہے کہ نضر نے ایک لونڈی خرید رکھی تھی جب وہ کسی آدمی کے متعلق سنتا کہ وہ نبی ﷺ کی طرف مائل ہے تو اس کو اس لونڈی کے پاس لیجا کر کہتا کہ اسے کھلاؤ پلاؤ اور گانے سناؤ۔ یہ تمہارے لیے اس سے بہتر ہے جس کی طرف تم کو محمد بلاتے ہیں۔ (الدر المنثور تفسیر سورۂ لقمان آیت ۶) اسی کے بارے میں یہ ارشاد الٰہی نازل ہوا:
وَمِنَ النَّاسِ مَن يَشْتَرِي لَهْوَ الْحَدِيثِ لِيُضِلَّ عَن سَبِيلِ اللَّـهِ (۳۱: ۶)
''کچھ لوگ ایسے ہیں جو کھیل کی بات خریدتے ہیں تاکہ اللہ کی راہ سے بھٹکا دیں۔''
جب قریش اپنی اس گفت و شنید میں ناکام ہو گئے اور ابو طالب کو اس بات پر مطمئن نہ کر سکے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کو روکیں، اور انہیں دعوت الیٰ اللہ سے باز رکھیں تو انہوں نے ایک ایسا راستہ اختیار کرنے کا فیصلہ کیا جس پر چلنے سے وہ اب تک کتراتے رہے تھے اور جس کے انجام و نتائج کے خوف سے انہوں اب تک دور رہنا ہی مناسب سمجھا تھا اور وہ راستہ تھا رسول اللہ ﷺ کی ذات پر ظلم و جور کا راستہ۔
رسول اللہ ﷺ پر ظلم و جور:
چنانچہ قریش نے بالآخر وہ حدیں توڑ دیں جنہیں ظہور دعوت سے اب تک عظیم سمجھتے اور جن کا احترام کرتے آ رہے تھے۔ درحقیقت قریش کی اکڑ اور کبریائی پر یہ بات بڑی گراں گزر رہی تھی کہ وہ لمبے عرصے تک صبر کریں۔ چنانچہ وہ اب تک ہنسی اور ٹھٹھے، تحقیر اور استہزاء، تلبیس اور تشویش اور حقائق کو مسخ کرنے کا جو کام کرتے آرہے تھے اس سے ایک قدم آگے بڑھ کر رسول اللہ ﷺ کی طرف ظلم و تعدی کا ہاتھ بھی بڑھا دیا اور یہ بالکل فطری بات تھی کہ اس کام میں بھی آپ کا چچا ابو لہب سر فہرست ہو۔ کیونکہ وہ بنو ہاشم کا ایک سردار تھا، اسے وہ خطرہ نہ تھا جو اوروں کو تھا اور وہ اسلام اور اہل اسلام کا کٹر دشمن تھا۔ نبی ﷺ کے متعلق اس کا موقف روز اول ہی سے، جبکہ قریش نے اس طرح کی بات ابھی سوچی بھی نہ تھی، یہی تھا۔ اس نے بنو ہاشم کی مجلس میں جو کچھ کیا، پھر کوہ صفا پر جو حرکت کی اس کا ذکر پچھلے صفحات میں آ چکا ہے۔
بعثت کے پہلے ابو لہب نے اپنے دو بیٹوں عُتْبہ اور عُتَیْبہ کی شادی نبی ﷺ کی دو صاحبزادیوں رقیّہ اور ام کلثوم سے کی تھی لیکن بعثت کے بعد اس نے نہایت سختی اور درشتی سے ان دونوں کو طلاق دلوا دی۔ (اسے طبری نے قتادہ سے ذکر کیا ہے۔ ابن اسحاق کی روایت یہ بھی بتلاتی ہے کہ قریش نے بھی اس بارے میں دوڑ دھوپ کی تھی۔ دیکھئے: ابن ہشام ۱/۶۵۲)
اسی طرح جب نبی ﷺ کے دوسرے صاحبزادے عبد اللہ کا انتقال ہوا تو ابو لہب کو اس قدر خوشی ہوئی کہ وہ دوڑتا ہوا اپنے رفقاء کے پاس پہنچا اور انہیں یہ ''خوشخبری'' سنائی کہ محمد ﷺ ابتر (نسل بریدہ) ہو گئے ہیں۔ (یہ عطاء سے مروی ہے۔ تفسیر ابن کثیر، سورۃ الکوثر ۴/۵۹۵)
وَمِنَ النَّاسِ مَن يَشْتَرِي لَهْوَ الْحَدِيثِ لِيُضِلَّ عَن سَبِيلِ اللَّـهِ (۳۱: ۶)
''کچھ لوگ ایسے ہیں جو کھیل کی بات خریدتے ہیں تاکہ اللہ کی راہ سے بھٹکا دیں۔''
جب قریش اپنی اس گفت و شنید میں ناکام ہو گئے اور ابو طالب کو اس بات پر مطمئن نہ کر سکے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کو روکیں، اور انہیں دعوت الیٰ اللہ سے باز رکھیں تو انہوں نے ایک ایسا راستہ اختیار کرنے کا فیصلہ کیا جس پر چلنے سے وہ اب تک کتراتے رہے تھے اور جس کے انجام و نتائج کے خوف سے انہوں اب تک دور رہنا ہی مناسب سمجھا تھا اور وہ راستہ تھا رسول اللہ ﷺ کی ذات پر ظلم و جور کا راستہ۔
رسول اللہ ﷺ پر ظلم و جور:
چنانچہ قریش نے بالآخر وہ حدیں توڑ دیں جنہیں ظہور دعوت سے اب تک عظیم سمجھتے اور جن کا احترام کرتے آ رہے تھے۔ درحقیقت قریش کی اکڑ اور کبریائی پر یہ بات بڑی گراں گزر رہی تھی کہ وہ لمبے عرصے تک صبر کریں۔ چنانچہ وہ اب تک ہنسی اور ٹھٹھے، تحقیر اور استہزاء، تلبیس اور تشویش اور حقائق کو مسخ کرنے کا جو کام کرتے آرہے تھے اس سے ایک قدم آگے بڑھ کر رسول اللہ ﷺ کی طرف ظلم و تعدی کا ہاتھ بھی بڑھا دیا اور یہ بالکل فطری بات تھی کہ اس کام میں بھی آپ کا چچا ابو لہب سر فہرست ہو۔ کیونکہ وہ بنو ہاشم کا ایک سردار تھا، اسے وہ خطرہ نہ تھا جو اوروں کو تھا اور وہ اسلام اور اہل اسلام کا کٹر دشمن تھا۔ نبی ﷺ کے متعلق اس کا موقف روز اول ہی سے، جبکہ قریش نے اس طرح کی بات ابھی سوچی بھی نہ تھی، یہی تھا۔ اس نے بنو ہاشم کی مجلس میں جو کچھ کیا، پھر کوہ صفا پر جو حرکت کی اس کا ذکر پچھلے صفحات میں آ چکا ہے۔
بعثت کے پہلے ابو لہب نے اپنے دو بیٹوں عُتْبہ اور عُتَیْبہ کی شادی نبی ﷺ کی دو صاحبزادیوں رقیّہ اور ام کلثوم سے کی تھی لیکن بعثت کے بعد اس نے نہایت سختی اور درشتی سے ان دونوں کو طلاق دلوا دی۔ (اسے طبری نے قتادہ سے ذکر کیا ہے۔ ابن اسحاق کی روایت یہ بھی بتلاتی ہے کہ قریش نے بھی اس بارے میں دوڑ دھوپ کی تھی۔ دیکھئے: ابن ہشام ۱/۶۵۲)
اسی طرح جب نبی ﷺ کے دوسرے صاحبزادے عبد اللہ کا انتقال ہوا تو ابو لہب کو اس قدر خوشی ہوئی کہ وہ دوڑتا ہوا اپنے رفقاء کے پاس پہنچا اور انہیں یہ ''خوشخبری'' سنائی کہ محمد ﷺ ابتر (نسل بریدہ) ہو گئے ہیں۔ (یہ عطاء سے مروی ہے۔ تفسیر ابن کثیر، سورۃ الکوثر ۴/۵۹۵)