• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

الرحیق المختوم دوسرا مرحلہ : کھلی تبلیغ

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
ابن عباسؓ کی ایک روایت ہے کہ نضر نے ایک لونڈی خرید رکھی تھی جب وہ کسی آدمی کے متعلق سنتا کہ وہ نبی ﷺ کی طرف مائل ہے تو اس کو اس لونڈی کے پاس لیجا کر کہتا کہ اسے کھلاؤ پلاؤ اور گانے سناؤ۔ یہ تمہارے لیے اس سے بہتر ہے جس کی طرف تم کو محمد بلاتے ہیں۔ (الدر المنثور تفسیر سورۂ لقمان آیت ۶) اسی کے بارے میں یہ ارشاد الٰہی نازل ہوا:
وَمِنَ النَّاسِ مَن يَشْتَرِ‌ي لَهْوَ الْحَدِيثِ لِيُضِلَّ عَن سَبِيلِ اللَّـهِ (۳۱: ۶)
''کچھ لوگ ایسے ہیں جو کھیل کی بات خریدتے ہیں تاکہ اللہ کی راہ سے بھٹکا دیں۔''
جب قریش اپنی اس گفت و شنید میں ناکام ہو گئے اور ابو طالب کو اس بات پر مطمئن نہ کر سکے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کو روکیں، اور انہیں دعوت الیٰ اللہ سے باز رکھیں تو انہوں نے ایک ایسا راستہ اختیار کرنے کا فیصلہ کیا جس پر چلنے سے وہ اب تک کتراتے رہے تھے اور جس کے انجام و نتائج کے خوف سے انہوں اب تک دور رہنا ہی مناسب سمجھا تھا اور وہ راستہ تھا رسول اللہ ﷺ کی ذات پر ظلم و جور کا راستہ۔
رسول اللہ ﷺ پر ظلم و جور:
چنانچہ قریش نے بالآخر وہ حدیں توڑ دیں جنہیں ظہور دعوت سے اب تک عظیم سمجھتے اور جن کا احترام کرتے آ رہے تھے۔ درحقیقت قریش کی اکڑ اور کبریائی پر یہ بات بڑی گراں گزر رہی تھی کہ وہ لمبے عرصے تک صبر کریں۔ چنانچہ وہ اب تک ہنسی اور ٹھٹھے، تحقیر اور استہزاء، تلبیس اور تشویش اور حقائق کو مسخ کرنے کا جو کام کرتے آرہے تھے اس سے ایک قدم آگے بڑھ کر رسول اللہ ﷺ کی طرف ظلم و تعدی کا ہاتھ بھی بڑھا دیا اور یہ بالکل فطری بات تھی کہ اس کام میں بھی آپ کا چچا ابو لہب سر فہرست ہو۔ کیونکہ وہ بنو ہاشم کا ایک سردار تھا، اسے وہ خطرہ نہ تھا جو اوروں کو تھا اور وہ اسلام اور اہل اسلام کا کٹر دشمن تھا۔ نبی ﷺ کے متعلق اس کا موقف روز اول ہی سے، جبکہ قریش نے اس طرح کی بات ابھی سوچی بھی نہ تھی، یہی تھا۔ اس نے بنو ہاشم کی مجلس میں جو کچھ کیا، پھر کوہ صفا پر جو حرکت کی اس کا ذکر پچھلے صفحات میں آ چکا ہے۔
بعثت کے پہلے ابو لہب نے اپنے دو بیٹوں عُتْبہ اور عُتَیْبہ کی شادی نبی ﷺ کی دو صاحبزادیوں رقیّہ اور ام کلثوم سے کی تھی لیکن بعثت کے بعد اس نے نہایت سختی اور درشتی سے ان دونوں کو طلاق دلوا دی۔ (اسے طبری نے قتادہ سے ذکر کیا ہے۔ ابن اسحاق کی روایت یہ بھی بتلاتی ہے کہ قریش نے بھی اس بارے میں دوڑ دھوپ کی تھی۔ دیکھئے: ابن ہشام ۱/۶۵۲)
اسی طرح جب نبی ﷺ کے دوسرے صاحبزادے عبد اللہ کا انتقال ہوا تو ابو لہب کو اس قدر خوشی ہوئی کہ وہ دوڑتا ہوا اپنے رفقاء کے پاس پہنچا اور انہیں یہ ''خوشخبری'' سنائی کہ محمد ﷺ ابتر (نسل بریدہ) ہو گئے ہیں۔ (یہ عطاء سے مروی ہے۔ تفسیر ابن کثیر، سورۃ الکوثر ۴/۵۹۵)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
ہم ذکر کر چکے ہیں کہ ایام حج میں ابو لہب نبی ﷺ کی تکذیب کے لیے بازاروں، اجتماعات میں آپ کے پیچھے پیچھے لگا رہتا تھا۔ طارق بن عبد اللہ مُحَاربی کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ شخص صرف تکذیب ہی پر بس نہیں کرتا تھا، بلکہ پتھر بھی مارتا رہتا تھا جس سے آپ کی ایڑیاں خون آلود ہو جاتی تھیں۔ (کنز العمال ۱۲/۴۴۹)
ابو لہب کی بیوی اُم جمیل، جس کا نام اَرْویٰ تھا، اور جو حَرب بن اُمیہ کی بیٹی اور ابو سفیان کی بہن تھی، وہ نبی ﷺ کی عداوت میں اپنے شوہرسے پیچھے نہ تھی۔ چنانچہ وہ نبی ﷺ کے راستے میں اور دروازے پر رات کو کانٹے ڈال دیا کرتی تھی۔ خاصی بد زبان اور مفسدہ پرداز بھی تھی۔ چنانچہ نبی ﷺ کے خلاف بد زبانی کرنا، لمبی چوڑی دَسِیسَہ کاری و افتراء پردازی سے کام لینا، فتنے کی آگ بھڑکانا، اور خوفناک جنگ بپا رکھنا اس کا شیوہ تھا۔ اسی لیے قرآن میں اس کو وَامْرَ‌أَتُهُ حَمَّالَةَ الْحَطَبِ (۱۱۱: ۴) (لکڑی ڈھونے والی) کا لقب عطا کیا۔
جب اسے معلوم ہوا کہ اس کی اور اس کے شوہر کی مَذَمت میں قرآن نازل ہوا ہے تو وہ رسول اللہ ﷺ کو تلاش کرتی ہوئی آئی۔ آپ خانہ کعبہ کے پاس مسجد حرام میں تشریف فرما تھے۔ ابو بکر صدیقؓ بھی ہمراہ تھے۔ یہ مُٹھی بھر پتھر لیے ہوئے تھی۔ سامنے کھڑی ہوئی تو اللہ نے اس کی نگاہ پکڑ لی اور وہ رسول اللہ ﷺ کو نہ دیکھ سکی۔ صرف ابو بکرؓ کو دیکھ رہی تھی۔ اس نے سامنے پہنچتے ہی سوال کیا: ابو بکر تمہارا ساتھی کہاں ہے؟ مجھے معلوم ہوا ہے کہ وہ میری ہجو کرتا ہے۔ واللہ! اگر میں اسے پا گئی تو اس کے منہ پر یہ پتھر دے ماروں گی۔ دیکھو! اللہ کی قسم! میں بھی شاعرہ ہوں، پھر اس نے یہ شعر سنایا:
مذمماً عصینا وأمرہ أبینا ودینہ قلینا
''ہم نے مذمم کی نافرمانی کی۔ اس کے امر کو تسلیم نہ کیا اور اس کے دین کو نفرت و حقارت سے چھوڑ دیا۔''
(مشرکین جل کر نبی ﷺ کو محمد کے بجائے مُذمم کہتے تھے جس کا معنی محمد کے معنی کے بالکل عکس ہے محمد: وہ شخص ہے جس کی تعریف کی جائے۔ مذمم: وہ شخص ہے جس کی مذمت اور برائی کی جائے۔ وہ چونکہ مذمم کی برائی کرتے تھے اس لیے ان کی برائی نبی ﷺ پر لاگونہ ہوتی۔ تاریخ بخاری ۱/۱۱، صحیح بخاری مع الفتح ۷/۱۶۲، مسند احمد ۲/۲۴۴، ۳۴۰ ، ۳۶۹۔)
اس کے بعد واپس چلی گئی۔ ابو بکرؓ نے کہا: یا رسول اللہ! کیا اس نے آپ کو دیکھا نہیں تھا؟ آپ نے فرمایا: نہیں، اس نے مجھے نہیں دیکھا۔ اللہ نے اس کی نگاہ پکڑ لی تھی۔ (ابن ہشام ۱/۳۳۵، ۳۳۶)
ابو بکر بَزّار نے بھی یہ واقعہ روایت کیا ہے اور اس میں اتنا مزید اضافہ کیا ہے کہ جب وہ ابو بکرؓ کے پاس کھڑی ہوتی تھی تو اس نے یہ بھی کہا: ابوبکر! تمہارے ساتھی نے ہماری ہجو کی ہے۔ ابو بکر ؓ نے کہا: نہیں اس عمارت کے رب کی قسم، نہ وہ شعر کہتے ہیں نہ اسے زبان پر لاتے ہیں۔ اس نے کہا: تم سچ کہتے ہو۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
ظلم و جور:
۴ نبوت میں اسلامی دعوت کے منظر عام پر آنے کے بعد مشرکین نے اس کے خاتمے کے لیے سابقہ کارروائیاں رفتہ رفتہ انجام دیں۔ مہینوں اس سے آگے قدم نہیں بڑھایا اور ظلم و زیادتی شروع نہیں کی لیکن جب دیکھا کہ یہ تدبیریں اسلامی دعوت کو ناکام بنانے میں مؤثر نہیں ہو رہی ہیں تو باہمی مشورے سے طے کیا کہ مسلمانوں کو سزائیں دے دے کر ان کو ان کے دین سے باز رکھا جائے۔ اس کے بعد سردار نے اپنے قبیلے کے ماتحت لوگوں کو جو مسلمان ہو گئے تھے۔ سزائیں دینی شروع کیں اور ہر مالک اپنے ایمان لانے والے غلاموں پر ٹوٹ پڑا اور یہ بات تو بالکل فطری تھی کہ دم چھلے اور اوباش اپنے سرداروں کے پیچھے دوڑیں اور ان کی مرضی اور خواہش کے مطابق حرکت کریں، چنانچہ مسلمانوں اور بالخصوص کمزوروں پر ایسے ایسے مصائب توڑے گئے اور انہیں ایسی ایسی سزائیں دی گئیں جنہیں سن کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور دل پھٹ جاتا ہے۔ ذیل میں محض ایک جھلک دی جا رہی ہے۔
ابو جہل جب کسی معزز اور طاقتور آدمی کے مسلمان ہونے کی خبر سنتا تو اسے برا بھلا کہتا۔ ذلیل و رسوا کرتا اور مال کو سخت خسارے سے دوچار کرنے کی دھمکیاں دیتا اور اگر کوئی کمزور آدمی مسلمان ہوتا تو اسے خود بھی مارتا اور دوسروں کو بھی بر انگیختہ کرتا۔ (ابن ہشام ۱/۳۲۰)
حضرت عثمان بن عفانؓ کا چچا انہیں کھجور کی چٹائی میں لپیٹ کر نیچے سے دھواں دیتا۔ (رحمۃ للعالمین ۱/۵۷)
حضرت مصعب بن عمیرؓ کی ماں کو ان کے اسلام لانے کا علم ہوا تو ان کا دانہ پانی بند کر دیا اور گھر سے نکال دیا، یہ بڑے ناز و نعمت میںپلے تھے۔ شدت سے دوچار ہو ئے تو کھال اس طرح ادھڑ گئی جیسے سانپ کچلی چھوڑتا ہے۔ (اسد الغابہ ۴/۴۰۶، تلقیح الفہوم ص۶۰)
صہیب بن سنان رومیؓ کو اس قدر سزا دی جاتی کہ ہوش و حواس جاتا رہتا اور انہیں یہ پتہ نہ چلتا کہ وہ کیا بول رہے ہیں۔ (الاصابہ ۳،۴/۲۵۵، ابن سعد ۳/۲۴۸)
حضرت بلالؓ امیہ بن خلف جحمی کے غلام تھے۔ امیہ ان کی گردن میں رسی ڈال کر لڑکوں کے حوالے کر دیتا اور وہ انہیں مکہ کے پہاڑوں میں گھماتے اور کھینچتے پھرتے۔ یہاں تک کہ گردن پر رسی کا نشان پڑ جاتا۔ پھر بھی أحد أحد کہتے رہتے۔ خود بھی انہیں باندھ کر ڈنڈے مارتا، اور چلچلاتی دھوپ میں جبراً بٹھائے رکھتا۔ کھانا پانی بھی نہ دیتا، بلکہ بھوکا پیاسا رکھتا اور ان سب سے بڑھ کر یہ ظلم کرتا کہ جب دوپہر کی گرمی شباب پر ہوتی تو مکہ کے پتھریلے کنکروں پر لٹا کر سینے پر بھاری پتھر رکھوا دیتا۔ پھر کہتا: واللہ! تو اسی طرح پڑا رہے گا یہاں تک کہ مر جائے یا محمد کے ساتھ کفر کرے اور لات و عزیٰ کی پوجا کرے۔ حضرت بلالؓ اس حالت میں بھی کہتے: أحد، أحد اور فرماتے: اگر مجھے کوئی ایسا کلمہ معلوم ہوتا جو تمہیں اس سے بھی زیادہ ناگوار ہوتا تو میں اسے کہتا۔ ایک روز یہی کارروائی جاری تھی کہ حضرت ابو بکرؓ کا گزر ہوا۔ انہوں نے حضرت بلالؓ کو ایک کالے غلام کے بدلے اور کہا جاتا ہے کہ دو سو درہم (۷۳۵ گرام چاندی) یا دو سو اسی درہم (ایک کلو سے زائد چاندی) کے بدلے خرید کر آزاد کر دیا۔ (ابن ہشام ۱/۳۱۷، ۳۱۸، تلقیح الفہوم ص۶ تفسیر ابن کثیر سورۂ النحل ۳/۶۴۸)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
حضرت عمار بن یاسرؓ بنو مخزوم کے غلام تھے۔ انہوں نے اور ان کے والدین نے اسلام قبول کیا تو ان پر قیامت ٹوٹ پڑی۔ مشرکین، جن میں ابو جہل پیش پیش تھا۔ سخت دھوپ کے وقت پتھریلی زمین پرلے جا کر اس کی تپش سے سزا دیتے۔ ایک بار انہیں اسی طرح سزا دی جا رہی تھی کہ نبی ﷺ کا گزر ہوا۔ آپ نے فرمایا: آل یاسر! صبر کرنا۔ تمہارا ٹھکانہ جنت ہے۔ آخر کار یاسر ظلم کی تاب نہ لا کر وفات پا گئے اور حضرت سمیہؓ ، جو حضرت عمارؓ کی والدہ تھیں۔ ابو جہل نے ان کی شرمگاہ میں نیزہ مارا اور وہ دم توڑ گئیں۔ یہ اسلام میں پہلی شہیدہ ہیں۔ ان کے والد کا نام خیاط تھا اور یہ ابو حذیفہ بن مغیرہ بن عبد اللہ بن عمر بن مخزوم کی لونڈی تھیں۔ بہت بوڑھی اور ضعیف تھیں۔
حضرت عمار پر سختی کا سلسلہ جاری رہا۔ انہیں کبھی دھوپ میں تپایا جاتا تو کبھی ان کے سینے پر سرخ پتھر رکھ دیا جاتا اور کبھی پانی میں ڈبویا جاتا یہاں تک کہ وہ ہوش حواس کھو بیٹھتے۔ ان سے مشرکین کہتے تھے کہ جب تک تم محمد کو گالی نہ دو گے، یا لات و عزیٰ کے بارے میں کلمۂ خیر نہ کہو گے ہم تمہیں نہیں چھوڑیں گے۔ مجبوراً انہوں نے مشرکین کی بات مان لی۔ پھر نبی ﷺ کے پاس روتے اور معذرت کرتے ہوئے تشریف لائے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی:
''جس نے اللہ پر ایمان لانے کے بعد کفر کیا (اس پر اللہ کا غضب اور عذاب عظیم ہے) لیکن جسے مجبور کیا جائے اور اس کا دل ایمان پر مطمئن ہو'' (اس پر کوئی گرفت نہیں) (۱۶: ۱۰۶) (ابن ہشام ۱/۳۱۹، ۳۲۰، طبقات ابن سعد ۳/۲۴۸، ۲۴۹، آخری ٹکڑا طوفی نے ابن عباسؓ سے روایت کیا ہے۔ ابن کثیر اور الدرالمنثور تفسیر سورۂ نحل آیت ۲۰۶۔)
حضرت ابو فکیہہ جن کا نام افلح تھا۔ جو اصلاً قبیلہ ازد سے تھے اور بنو عبد الدار کے غلام تھے، ان کے دونوں پاؤں میں لوہے کی بیڑیاں ڈال کر دوپہر کی سخت گرمی میں باہر نکالتے اور جسم سے کپڑے اتار کر تپتی ہوئی زمین پر پیٹ کے بل لٹادیتے اور پیٹھ پر بھاری پتھر رکھ دیتے کہ حرکت نہ کرسکیں۔ وہ اسی طرح پڑے پڑے ہوش حواس کھو بیٹھتے۔ انہیں اسی طرح کی سزائیں دی جاتی رہیں، یہاں تک کہ دوسری ہجرتِ حبشہ میں وہ بھی ہجرت کر گئے۔ ایک بار مشرکین نے ان کا پاؤں رسی میں باندھ، اور گھسیٹ کر تپتی ہوئی زمین پر ڈال دیا، پھر اس طرح گلا دبا یا کہ سمجھے یہ مر گئے ہیں۔ اسی دوران وہاں حضرت ابو بکر کا گزر ہوا۔ انہوں نے خرید کر اللہ کے لیے آزاد کر دیا۔ (اسد الغابہ ۵/۲۴۸، الاصابہ ۷،۸/۱۵۲ وغیرہ)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
خباب بن ارت قبیلہ خزاعہ کی ایک عورت ام انمار کے غلام تھے اور لوہاری کا کام کرتے تھے۔ مسلمان ہوئے تو ان کی مالکہ انھیں آگ سے جلانے کی سزا دیتی۔ وہ لوہے کا گرم ٹکڑا لاتی اور ان کی پیٹھ یا سر پر رکھ دیتی۔ تاکہ وہ محمد ﷺ کے ساتھ کفر کریں۔ مگر اس سے ان کے ایمان اور تسلیم و رضا میں اور اضافہ ہوتا۔ انھیں مشرکین بھی طرح طرح کی سزائیں دیتے۔ کبھی سختی سے گردن مروڑتے تو کبھی سر کے بال نوچتے۔ ایک بار تو انھیں دہکتے ہوئے انگاروں پر ڈال دیا۔ اسی پر گھسیٹا اور دبائے رکھا، یہاں تک کہ ان کی پیٹھ کی چربی پگھلنے سے آگ بچھی۔ (اسد الغابہ ۱/۵۹۱، ۵۹۳، تلقیح الفہوم ص ۶ وغیرہ)
حضرت زنیرہ رومی لونڈی تھیں۔ وہ مسلمان ہوئیں تو انھیں اللہ کی راہ میں سزائیں دی گئیں۔ اتفاق سے ان کی آنکھ جاتی رہی۔ مشرکین نے کہا: دیکھو! تم پر لات و عزیٰ کی مار پڑ گئی ہے۔ انہوں نے کہا: نہیں، واللہ! یہ لات و عزیٰ کی مار نہیں ہے، بلکہ یہ اللہ کی طرف سے ہے اور اگر وہ چاہے تو دوبارہ بحال کر سکتا ہے۔ پھر اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ دوسرے دن نگاہ پلٹ آئی، مشرکین کہنے لگے: یہ محمد کا جادو ہے۔ (طبقات ابن سعد ۸/۲۵۶، ابن ہشام ۱/۱۳۸)
ام عبیس بنو زہرہ کی لونڈی تھیں۔ وہ اسلام لائیں تو مشرکین نے انھیں بھی سزائیں دیں۔ خصوصاً ان کا مالک اسود بن عبد یغوث انھیں سزائیں دیتا۔ وہ رسول اللہ کا بڑا کٹر دشمن تھا اور آپ کا مذاق اڑایا کرتا تھا۔ (الاصابہ ۷،۸/۲۵۸)
بنو عدی کے عمرو بن مؤمل کی لونڈی مسلمان ہوئیں تو عمر بن خطاب انھیں سزائیں دیتے۔ وہ ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے۔ انھیں اس قدر مارتے کہ مارتے مارتے تھک جاتے۔ پھر کہتے: واللہ! میں نے تجھے (کسی مروت کی بنا پر نہیں، بلکہ محض) تھک کر چھوڑا ہے۔ وہ کہتیں: تیرے ساتھ تیرا پروردگار بھی ایساہی کرے گا۔ (ابن ہشام ۱/۳۱۹، طبقات ابن سعد ۸/۲۵۶)
حضرت نہدیہ اور ان کی صاحبزادی بھی بنو عبد الدار کی ایک عورت کی لونڈی تھیں۔ اسلام لے آئیں تو انہیں بھی سزاؤں سے دوچار ہونا پڑا۔ (ابن ہشام ۱/۳۱۸، ۳۱۹)
غلاموں میں عامر بن فہیرہ بھی تھے، اسلام لانے پر انھیں بھی اس قدر سزائیں دی جاتیں کہ وہ اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھتے اور انھیں پتہ نہ چلتا کہ کیا بول رہے ہیں۔ (7 طبقات ابن سعد ۳/۲۴۸)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
حضرت ابو بکرؓ نے ان سارے غلاموں اور لونڈیوں کو خرید کو آزاد کر دیا۔ اس پر ان کے والد ابو قحافہ نے ان کو عتاب کیا۔ کہنے لگے: (بیٹا) میں تمہیں دیکھتا ہوں کہ کمزور گرد نیں آزاد کر رہے ہو۔ توانا لوگوں کو آزاد کرتے تو وہ تمہارا بچاؤ بھی کرتے۔ انہوں نے کہا: میں اللہ کی رضا چاہتا ہوں اس پر اللہ نے قرآن اتارا۔ حضرت ابو بکرؓ کی مدح کی اور ان کے دشمنوں کی مذمت کی۔ فرمایا: فَأَنذَرْ‌تُكُمْ نَارً‌ا تَلَظَّىٰ ﴿١٤﴾ لَا يَصْلَاهَا إِلَّا الْأَشْقَى (۹۲: ۱۴ تا ۱۶) میں نے تمہیں بھڑکتی ہوئی آگ سے ڈرایا ہے جس میں وہی بد بخت داخل ہو گا جس نے جھٹلایا اور پیٹھ پھیری۔ اس سے مراد امیہ بن خلف اور اس کے ہم نوا ہیں پھر فرمایا: وَسَيُجَنَّبُهَا الْأَتْقَى ﴿١٧﴾ الَّذِي يُؤْتِي مَالَهُ يَتَزَكَّىٰ ﴿١٨﴾ وَمَا لِأَحَدٍ عِندَهُ مِن نِّعْمَةٍ تُجْزَىٰ ﴿١٩﴾ إِلَّا ابْتِغَاءَ وَجْهِ رَ‌بِّهِ الْأَعْلَىٰ ﴿٢٠﴾ وَلَسَوْفَ يَرْ‌ضَىٰ ﴿٢١﴾ (۹۲: ۱۷ تا ۲۱) اور اس آگ سے وہ پرہیزگار آدمی دور رکھا جائے گا جو اپنا مال پاکی حاصل کرنے کے لیے خرچ کر رہا ہے۔ اس پر کسی کا احسان نہیں ہے جس کا بدلہ دیا جا رہا ہو۔ بلکہ محض اپنے رب اعلیٰ کی مرضی کی طلب ہے۔ اس سے مقصود حضرت ابو بکر صدیقؓ ہیں۔ (ابن ہشام ۱/۱۳۸، ۳۱۹، طبقات ابن سعد ۸/۲۵۶ کتب تفسیر آیت مذکورہ)
خود ابو بکر صدیقؓ کو بھی اذیت دی گئی۔ انھیں اور ان کے ساتھ طلحہ بن عبید اللہ کو نوفل بن خویلد عدوی نے پکڑ کر ایک ہی رسی میں باندھ دیا۔ تاکہ انھیں نماز نہ پڑھنے دے، بلکہ دین اسلام سے بھی باز رکھے۔ مگر انہوں نے اس کی بات نہ سنی، اس کے بعد اسے یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ وہ دونوں بندھن سے آزاد اور نماز میں مشغول ہیں۔ اس واقعہ کے بعد ان دونوں کو قرینین...ایک ساتھ بندھے ہوئے... کہا جاتا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ یہ کام نوفل کے بجائے طلحہ بن عبید اللہؓ کے بھائی عثمان بن عبید اللہ نے کیا تھا۔ (اسد الغابہ ۲/۴۶۸)
خلاصہ یہ کہ مشرکین کو جس کسی کے متعلق بھی معلوم ہوا کہ وہ مسلمان ہوگیا ہے تو اس کی ایذا رسانی کے درپے ضرور ہوئے اور کمزور مسلمانوں بالخصوص غلاموں اور لونڈیوں کے متعلق یہ کام آسان بھی تھا۔ کیونکہ کوئی نہ تھا جو ان کے لیے غصہ ہوتا اور ان کی حمایت کرتا بلکہ ان کے سردار اور مالک انھیں خود ہی سزائیں دیتے تھے اور اوباشوں کو بھی ورغلاتے تھے۔ البتہ بڑے لوگوں اور اشراف میں سے کوئی مسلمان ہوتا تو اس کی ایذا رسانی ذرا آسان نہ ہوتی۔ کیونکہ وہ اپنی قوم کی حفاظت اور بچاؤ میں ہوتا، اس لیے ایسے لوگوں پر خود ان کے اپنے قبیلے کے اشراف کے سوا کم ہی کوئی جرأت کرتا تھا، وہ بھی بہت بچ بچا کر، اور سوچ سمجھ کر۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
رسول اللہ ﷺ کے بارے میں مشرکین کا موقف:
جہاں تک رسول اللہ ﷺ کے معاملہ کا تعلق ہے تو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ آپ پُر شکوہ باوقار اور منفرد شخصیت کے مالک تھے۔ دوست دشمن سبھی آپ کو تعظیم کی نظر سے دیکھتے تھے۔ آپ جیسی شخصیت کا سامنا اکرام و احترام ہی سے کیا جا سکتا تھا اور آپ کے خلاف کسی نیچ اور ذلیل حرکت کی جرأت کوئی رذیل اور احمق ہی کر سکتا تھا۔ اس ذاتی عظمت کے علاوہ آپ کو ابو طالب کی حمایت و حفاظت بھی حاصل تھا اور ابو طالب مکہ کے ان گنے چنے لوگوں میں سے تھے جو اپنی ذاتی اور اجتماعی دونوں حیثیتوں سے اتنے باعظمت تھے کہ کوئی شخص بڑی مشکل سے ان کے عہد توڑنے اور ان کے خانوادے پر ہاتھ ڈالنے کی جسارت کر سکتا تھا۔ اس صورت حال نے قریش کو سخت پریشانی اور کشمکش سے دوچار کر رکھا تھا جو تقاضا کر رہی تھی کہ کسی ناپسند یدہ دائرے میں پڑے بغیر اس مشکل سے نکلنے کے لیے سنجیدگی سے غور کریں۔ بالآخر انہیں یہ راستہ سمجھ میں آیا کہ سب سے بڑے ذمہ دار ابو طالب سے بات چیت کریں لیکن خاصی حکمت اور واقعیت پسندی کے ساتھ اور ایک گونہ چیلنج اور پوشیدہ دھمکی لیے ہوئے، تاکہ جو بات کہی جائے اسے وہ تسلیم کر لیں۔
قریش کا وفد ابو طالب کی خدمت میں:
ابن اسحاق کہتے ہیں کہ اشراف قریش سے چند آدمی ابو طالب کے پاس گئے اور بولے: ابو طالب! آپ کے بھتیجے نے ہمارے معبودوں کو برا بھلا کہا ہے۔ ہمارے دین کی عیب چینی کی ہے۔ ہماری عقلوں کو حماقت زدہ کہا ہے اور ہمارے باپ دادا کو گمراہ قرار دیا ہے۔ لہٰذا یا تو آپ انہیں اس سے روک دیں، یا ہمارے اور ان کے درمیان سے ہٹ جائیں۔ کیونکہ آپ بھی ہماری طرح ان سے مختلف دین پر ہیں۔ ہم ان کے معاملے میں آپ کے لیے بھی کافی رہیں گے۔
اس کے جواب میں ابو طالب نے نرم بات کہی اور روادارانہ لب و لہجہ اختیار کیا۔ چنانچہ وہ واپس چلے گئے اور رسول اللہ ﷺ اپنے سابقہ طریقہ پر رواں دواں رہتے ہوئے اللہ کا دین پھیلانے اور اس کی تبلیغ کرنے میں مصروف رہے۔ (ابن ہشام ۱/۲۵۶)
لیکن جب قریش نے دیکھا کہ آپ دعوت الیٰ اللہ کے کام میں حسب سابق مصروف عمل ہیں تو زیادہ دیر تک صبر نہ کر سکے۔ بلکہ آپس میں خاصی چہ میگوئی کی اور ناگواری کا اظہار کیا۔ حتیٰ کہ ابو طالب سے دوبارہ زیادہ سخت اور سنگین لہجے میں گفتگو کرنے کا فیصلہ کیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
ابو طالب کو قریش کی دھمکی:

اس فیصلے کے بعد سرداران قریش ابو طالب کے پاس پھر حاضر ہوئے اور بولے: ابو طالب! آپ ہمارے اندر سن و شرف اور اعزاز کے مالک ہیں، ہم نے آپ سے گزارش کی تھی کہ آپ اپنے بھتیجے کو روکیے لیکن آپ نے انہیں نہیں روکا۔ آپ یاد رکھیں ہم اسے برداشت نہیں کر سکتے کہ ہمارے اباء و اجداد کو گالیاں دی جائیں۔ ہماری عقل و فہم کو حماقت زدہ قرار دیا جائے اور ہمارے معبودوں کی عیب چینی کی جائے۔ آپ روک دیجیے ورنہ ہم آپس ے اور ان سے ایسی جنگ چھیڑ دیں گے کہ ایک فریق کا صفایا ہو کر رہے گا۔
ابو طالب پر اس زور دار دھمکی کا بہت زیادہ اثر ہوا اور انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو بلا کر کہا: بھتیجے! تمہاری قوم کے لوگ میرے پاس آئے تھے اور ایسی ایسی باتیں کہہ گئے ہیں۔ اب مجھ پر اور خود اپنے آپ پر رحم کرو۔ اور اس معاملے میں مجھ پر اتنا بوجھ نہ ڈالو جو میرے بس سے باہر ہے۔
یہ سن کر رسول اللہ ﷺ نے سمجھا کہ اب آپ کے چچا بھی آپ کا ساتھ چھوڑ دیں گے اور وہ بھی آپ کی مدد سے کمزور پڑ گئے ہیں۔ اس لیے فرمایا: چچا جان! اللہ کی قسم! اگر یہ لوگ میرے داہنے ہاتھ میں سورج اور بائیں ہاتھ میں چاند رکھ دیں کہ میں اس کام کو اس حد تک پہنچائے بغیر چھوڑ دوں کہ یا تو اللہ اسے غالب کر دے یا مَیں اسی راہ میں فنا ہو جاؤں تو نہیں چھوڑ سکتا۔
اس کے بعد آپ کی آنکھیں اشکبار ہو گئیں، آپ روپڑے۔ اور اٹھ گئے۔ جب واپس ہونے لگے تو ابو طالب نے پکارا اور سامنے تشریف لائے تو کہا: بھتیجے! جاؤ جو چاہو کہو۔ اللہ کی قسم! میں تمہیں کبھی بھی کسی بھی وجہ سے نہیں چھوڑ سکتا۔ (ابن ہشام۱/۲۶۵، ۲۶۶) اور یہ اشعار کہے:
واللّٰہ لن یصلوا الیک بجمعہم
حتی أوسد فی التراب دفیناً
فاصدع بآمرک ما علیک غضاضۃ
وابشر وقر بذاک منک عیونًا
"واللہ! وہ لوگ تمہارے پاس اپنی جمعیت سمیت بھی ہرگز نہیں پہنچ سکتے۔ یہاں تک کہ میں مٹی میں دفن کر دیا جاؤں۔ تم اپنی بات کھلم کھلا کہو۔ تم پر کوئی قدغن نہیں، تم خوش ہو جاؤ اور تمہاری آنکھیں اس سے ٹھنڈی ہو جائیں۔'' (مختصر السیرۃ شیخ محمد بن عبد الوھاب ص ۶۸)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
قریش ایک بار پھر ابو طالب کے سامنے:
پچھلی دھمکی کے باوجود جب قریش نے دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ اپنا کام کیے جا رہے ہیں تو ان کی سمجھ میں آ گیا کہ ابو طالب رسول اللہ ﷺ کو چھوڑ نہیں سکتے۔ بلکہ اس بارے میں قریش سے جدا ہونے اور ان کی عداوت مول لینے کو تیار ہیں۔ چنانچہ وہ لوگ ولید بن مغیرہ کے لڑکے عُمَارَہ کو ہمراہ لے کر ابو طالب کے پاس پہنچے اور ان سے یوں عرض کیا:
اے ابو طالب! یہ قریش کا سب سے بانکا اور خوبصورت نوجوان ہے ، آپ اسے لے لیں۔ اس کی دیت اور نصرت کے آپ حق دار ہوں گے، آپ اسے اپنا لڑکا بنا لیں ، یہ آپ کا ہو گا اور آپ اپنے اس بھتیجے کو ہمارے حوالے کر دیں جس نے آپ کے آباء و اجداد کے دین کی مخالفت کی ہے۔ آپ کی قوم کا شیرازہ منتشر کر رکھا ہے اور ان کی عقلوں کو حماقت سے دوچار بتلایا ہے، ہم اسے قتل کریں گے۔ بس یہ ایک آدمی کے بدلے ایک آدمی کا حساب ہے۔
ابو طالب نے کہا: اللہ کی قسم! کتنا بُرا سودا ہے جو تم لوگ مجھ سے کر رہے ہو۔ تم اپنا بیٹا مجھے دیتے ہو کہ میں اسے کھلاؤں پلاؤں۔ پالوں پوسوں اور میرا بیٹا مجھ سے طلب کرتے ہو کہ اسے قتل کر دو۔ اللہ کی قسم! یہ نہیں ہو سکتا۔
اس پر نوفَل بن عبد مناف کا پوتا مُطْعِم بن عَدِی بولا: اللہ کی قسم! اے ابو طالب! تم سے تمہاری قوم نے انصاف کی بات کہی ہے اور جو صورت تمہیں ناگوار ہے اس سے بچنے کی کوشش کی ہے، لیکن دیکھتا ہوں کہ تم ان کی کسی بات کو قبول نہیں کرنا چاہتے۔
جواب میں ابو طالب نے کہا: واللہ! تم لوگوں نے مجھ سے انصاف کی بات نہیں کی ہے بلکہ تم بھی میرا ساتھ چھوڑ کر میرے مخالف لوگوں کی مدد پر تُلے بیٹھے ہو تو ٹھیک ہے جو چاہو کرو۔ (ابن ہشام ۱/۲۶۶، ۲۶۷)
ابو لہب اس کے باوجود یہ ساری حرکتیں کر رہا تھا کہ رسول اللہ ﷺ کا چچا اور پڑوسی تھا۔ اس کا گھر آپ کے گھر سے متصل تھا۔ اسی طرح آپ کے دوسرے پڑوسی بھی آپ کو گھر کے اندر ستاتے تھے۔
ابن اسحاق کا بیان ہے کہ جو گروہ گھر کے اندر رسول اللہ ﷺ کو اذیت دیا کرتا تھا وہ یہ تھا۔ ابو لہب، حَکم بن ابی العاص بن امیہ، عقبہ بن ابی مُعیط، عَدِی بن حمراء ثقفی، ابن الاصداء ہذلی۔ یہ سب کے سب آپ ﷺ کے پڑوسی تھے اور ان میں سے حکم بن ابی العاص (یہ اموی خلیفہ مروان بن الحکم کے باپ ہیں) کے علاوہ کوئی بھی مسلمان نہ ہوا۔ ان کے ستانے کا طریقہ یہ تھا کہ جب آپ ﷺ نماز پڑھتے تو کوئی شخص بکری کی بچہ دانی اس طرح ٹکا کر پھینکتا کہ وہ ٹھیک آپ ﷺ کے اوپر گرتی۔ چولھے پر ہانڈی چڑھائی جاتی تو بچہ دانی اس طرح پھینکتے کہ سیدھے ہانڈی میں جا گرتی۔ آپ ﷺ نے مجبور ہو کر ایک گھروندا بنا لیا تاکہ نماز پڑھتے ہوئے ان سے بچ سکیں۔
بہر حال جب آپ ﷺ پر یہ گندگی پھینکی جاتی تو آپ ﷺ اسے لکڑی پر لے کر نکلتے اور دروازے پر کھڑے ہو کر فرماتے: اے بنی عبد مناف! یہ کیسی ہمسائیگی ہے؟ پھر اسے راستے میں ڈال دیتے۔ (یہ ساتواں شخص عمارہ بن ولید تھا۔ خود صحیح بخاری حدیث نمبر ۵۲۰ میں اس کی صراحت آگئی ہے)
عُقبہ بن ابی مُعیط اپنی بد بختی اور خباثت میں اور بڑھا ہوا تھا۔ چنانچہ صحیح بخاری میں حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ بیت اللہ کے پاس نماز پڑ ھ رہے تھے اور ابو جہل اور اس کے کچھ رفقاء بیٹھے ہوئے تھے
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
کہ اتنے میں بعض نے بعض سے کہا : کون ہے جو بنی فلاں کے اونٹ کی اوجھڑی لائے اور جب محمد سجدہ کریں تو ان کی پیٹھ پر ڈال دے؟ اس پر قوم کا بد بخت ترین آدمی...عقبہ بن ابی معیط (ابن ہشام ۱/۴۱۶)...اٹھا اور اوجھ لا کر انتظار کرنے لگا۔ جب نبی ﷺ سجدے میں تشریف لے گئے تو اسے آپ کی پیٹھ پر دونوں کندھوں کے درمیان ڈال دیا۔ میں سارا ماجرا دیکھ رہا تھا، مگر کچھ نہیں کرسکتا تھا۔ کاش! میرے اندر بچانے کی طاقت ہوتی۔
حضرت ابن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ اس کے بعد وہ ہنسی کے مارے ایک دوسرے پر گرنے لگے اور رسول اللہ ﷺ سجدے میں ہی پڑے رہے، سَر نہ اٹھایا۔ یہاں تک کہ فاطمہؓ آئیں اور آپ کی پیٹھ سے اوجھ ہٹا کر پھینکی، تب آپ نے سَر اٹھایا۔ پھر تین بار فرمایا: اللّٰھم علیک بقریش ''اے اللہ تو قریش کو پکڑ لے۔'' جب آپ نے بدعا کی تو ان پر بہت گراں گزری۔ کیونکہ ان کا عقیدہ تھا کہ اس شہر میں دعائیں قبول کی جاتی ہیں۔ اس کے بعد آپ نے نام لے لے کر بد دعا کی: اے اللہ! ابو جہل کو پکڑ لے اور عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ، ولید بن عتبہ، امیہ بن خلف اور عقبہ بن ابی معیط کو پکڑ لے ...
انہوں نے ساتویں کا بھی نام گنایا لیکن راوی کو یاد نہ رہا...(خود صحیح بخاری ہی کی ایک دوسری روایت میں اس کی صراحت آگئی۔ دیکھئے ۱/۵۴۳) ابن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! میں نے دیکھا کہ جن لوگوں کے نام رسول اللہ ﷺ نے گن گن کر لیے تھے۔ سب کے سب بدر کے کنویں میں مقتول پڑے ہوئے تھے۔ (صحیح البخاری کتاب الوضوء باب اذا ألقی علی المصلی قذر أو جیفۃ ۱/۳۷)
اُمَیہ بن خلف کا وطیرہ تھا کہ وہ جب رسول اللہ ﷺ کو دیکھتا تو لعن طعن کرتا۔ اسی کے متعلق یہ آیت نازل ہوئی۔ وَيْلٌ لِّكُلِّ هُمَزَةٍ لُّمَزَةٍ (۱۰۴: ۱) ''ہر لعن طعن اور برائیاں کرنے والے کے لیے تباہی ہے۔'' ابن ہشام کہتے ہیں ہُمَزَہ وہ شخص ہے جو علانیہ گالی بکے اور آنکھیں ٹیڑھی کر کے اشارے کرے اور لُمَزَہ وہ شخص جو پیٹھ پیچھے لوگوں کی برائیاں کرے اور انہیں اذیت دے۔ (ابن ہشام ۱/۳۵۶، ۳۵۷)
اُمیہ کا بھائی اُبی بن خلف، عُقبہ بن ابی معیط کا گہرا دوست تھا۔ ایک بار عقبہ نے نبی ﷺ کے پاس بیٹھ کر کچھ سنا۔ اُبی کو معلوم ہوا تو اس نے سخت سست کہا، عتاب کیا اور اس سے مطالبہ کیا کہ وہ جا کر رسول اللہ ﷺ کے منہ پر تھوک آئے۔
آخر عُقبہ نے ایسا ہی کیا خود اُبی بن خَلف نے ایک مرتبہ ایک بوسیدہ ہڈی لا کر توڑی اور ہوا میں پھینک کر رسول اللہ ﷺ کی طرف اڑا دی۔ (ابن ہشام ۱/۳۶۱، ۳۶۲)
 
Top