- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,585
- ری ایکشن اسکور
- 6,762
- پوائنٹ
- 1,207
اَخْنَس بن شُرَیق ثَقَفی بھی رسول اللہ ﷺ کے ستانے والوں میں تھا۔ قرآن میں اس کے نو اوصاف بیان کیے گئے ہیں۔ جس سے اس کے کردار کا اندازہ ہوتا ہے۔ ارشاد ہے:
وَلَا تُطِعْ كُلَّ حَلَّافٍ مَّهِينٍ ﴿١٠﴾ هَمَّازٍ مَّشَّاءٍ بِنَمِيمٍ ﴿١١﴾ مَّنَّاعٍ لِّلْخَيْرِ مُعْتَدٍ أَثِيمٍ ﴿١٢﴾ عُتُلٍّ بَعْدَ ذَٰلِكَ زَنِيمٍ ﴿١٣﴾ (۶۸: ۱۰ تا ۱۳)
''تم بات نہ مانو کسی قسم کھانے والے ذلیل کی، جو لعن طعن کرتا ہے، چغلیاں کھاتا ہے، بھلائی سے روکتا ہے، حد درجہ ظالم، بد عمل اور جفاکار ہے اور اس کے بعد بد اصل بھی ہے۔''
ابو جہل کبھی کبھی رسول اللہ ﷺ کے پاس آ کر قرآن سنتا تھا، لیکن بس سنتا ہی تھا، ایمان و اطاعت اور ادب و خشیت اختیار نہیں کرتا تھا۔ وہ رسول اللہ ﷺ کو اپنی بات سے اذیت پہنچاتا اور اللہ کی راہ سے روکتا تھا۔ پھر اپنی اس حرکت اور برائی پر ناز اور فخر کرتا ہوا جاتا تھا۔ گویا اس نے قابل ذکر کارنامہ انجام دے دیا ہے قرآن مجید کی یہ آیات اسی شخص کے بارے میں نازل ہوئیں:
فلَا صَدَّقَ وَلَا صَلَّىٰ ﴿٣١﴾ وَلَـٰكِن كَذَّبَ وَتَوَلَّىٰ ﴿٣٢﴾ ثُمَّ ذَهَبَ إِلَىٰ أَهْلِهِ يَتَمَطَّىٰ ﴿٣٣﴾ أَوْلَىٰ لَكَ فَأَوْلَىٰ ﴿٣٤﴾ ثُمَّ أَوْلَىٰ لَكَ فَأَوْلَىٰ ﴿٣٥﴾
(۷۵: ۳۱ تا ۳۵)
''نہ اس نے صدقہ دیا نہ نماز پڑھی، بلکہ جھٹلایا اور پیٹھ پھیری، پھر وہ اکڑتا ہوا اپنے گھر والوں کے پاس گیا۔ تیرے خوب لائق ہے۔ خوب لائق ہے۔''
اس شخص نے پہلے دن جب نبی ﷺ کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا تو اسی دن سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز سے روکتا رہا۔ ایک بار نبی ﷺ مقام ابراہیم کے پاس نماز پڑھ رہے تھے کہ اس کا گزر ہوا۔ دیکھتے ہی بولا: محمد! کیا میں نے تجھے اس سے منع نہیں کیا تھا؟ ساتھ ہی دھمکی بھی دی۔ رسول اللہ ﷺ نے بھی ڈانٹ کر سختی سے جواب دیا۔ اس پر وہ کہنے لگا: اے محمد! کاہے کی دھمکی دے رہے ہو، دیکھو، اللہ کی قسم! اس وادی (مکہ) میں میری محفل سب سے بڑی ہے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: فَلْيَدْعُ نَادِيَهُ (۹۶: ۱۷) (اسے ابن جریر نے تفسیر میں روایت کیا ہے۔ اسی کے مثل ترمذی نے بھی ابواب التفسیر تفسیر سورہ اقراء، آیت نمبر ۱۷، ۱۸ (حدیث نمبر ۳۳۴۹) ۵/۴۱۴ میں روایت کیا ہے۔)
اچھا! تو بلائے اپنی محفل کو (ہم بھی سزا کے فرشتوں کو بلائے دیتے ہیں)
ایک روایت میں مذکورہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس کا گریبان گلے کے پاس پکڑ لیا اور جھنجوڑتے ہوئے فرمایا:
أَوْلَىٰ لَكَ فَأَوْلَىٰ ﴿٣٤﴾ ثُمَّ أَوْلَىٰ لَكَ فَأَوْلَىٰ ﴿٣٥﴾ (۷۵: ۳۴،۳۵)
''تیرے لیے بہت ہی موزوں ہے۔ تیرے لیے بہت ہی موزوں ہے۔''
وَلَا تُطِعْ كُلَّ حَلَّافٍ مَّهِينٍ ﴿١٠﴾ هَمَّازٍ مَّشَّاءٍ بِنَمِيمٍ ﴿١١﴾ مَّنَّاعٍ لِّلْخَيْرِ مُعْتَدٍ أَثِيمٍ ﴿١٢﴾ عُتُلٍّ بَعْدَ ذَٰلِكَ زَنِيمٍ ﴿١٣﴾ (۶۸: ۱۰ تا ۱۳)
''تم بات نہ مانو کسی قسم کھانے والے ذلیل کی، جو لعن طعن کرتا ہے، چغلیاں کھاتا ہے، بھلائی سے روکتا ہے، حد درجہ ظالم، بد عمل اور جفاکار ہے اور اس کے بعد بد اصل بھی ہے۔''
ابو جہل کبھی کبھی رسول اللہ ﷺ کے پاس آ کر قرآن سنتا تھا، لیکن بس سنتا ہی تھا، ایمان و اطاعت اور ادب و خشیت اختیار نہیں کرتا تھا۔ وہ رسول اللہ ﷺ کو اپنی بات سے اذیت پہنچاتا اور اللہ کی راہ سے روکتا تھا۔ پھر اپنی اس حرکت اور برائی پر ناز اور فخر کرتا ہوا جاتا تھا۔ گویا اس نے قابل ذکر کارنامہ انجام دے دیا ہے قرآن مجید کی یہ آیات اسی شخص کے بارے میں نازل ہوئیں:
فلَا صَدَّقَ وَلَا صَلَّىٰ ﴿٣١﴾ وَلَـٰكِن كَذَّبَ وَتَوَلَّىٰ ﴿٣٢﴾ ثُمَّ ذَهَبَ إِلَىٰ أَهْلِهِ يَتَمَطَّىٰ ﴿٣٣﴾ أَوْلَىٰ لَكَ فَأَوْلَىٰ ﴿٣٤﴾ ثُمَّ أَوْلَىٰ لَكَ فَأَوْلَىٰ ﴿٣٥﴾
(۷۵: ۳۱ تا ۳۵)
''نہ اس نے صدقہ دیا نہ نماز پڑھی، بلکہ جھٹلایا اور پیٹھ پھیری، پھر وہ اکڑتا ہوا اپنے گھر والوں کے پاس گیا۔ تیرے خوب لائق ہے۔ خوب لائق ہے۔''
اس شخص نے پہلے دن جب نبی ﷺ کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا تو اسی دن سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز سے روکتا رہا۔ ایک بار نبی ﷺ مقام ابراہیم کے پاس نماز پڑھ رہے تھے کہ اس کا گزر ہوا۔ دیکھتے ہی بولا: محمد! کیا میں نے تجھے اس سے منع نہیں کیا تھا؟ ساتھ ہی دھمکی بھی دی۔ رسول اللہ ﷺ نے بھی ڈانٹ کر سختی سے جواب دیا۔ اس پر وہ کہنے لگا: اے محمد! کاہے کی دھمکی دے رہے ہو، دیکھو، اللہ کی قسم! اس وادی (مکہ) میں میری محفل سب سے بڑی ہے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: فَلْيَدْعُ نَادِيَهُ (۹۶: ۱۷) (اسے ابن جریر نے تفسیر میں روایت کیا ہے۔ اسی کے مثل ترمذی نے بھی ابواب التفسیر تفسیر سورہ اقراء، آیت نمبر ۱۷، ۱۸ (حدیث نمبر ۳۳۴۹) ۵/۴۱۴ میں روایت کیا ہے۔)
اچھا! تو بلائے اپنی محفل کو (ہم بھی سزا کے فرشتوں کو بلائے دیتے ہیں)
ایک روایت میں مذکورہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس کا گریبان گلے کے پاس پکڑ لیا اور جھنجوڑتے ہوئے فرمایا:
أَوْلَىٰ لَكَ فَأَوْلَىٰ ﴿٣٤﴾ ثُمَّ أَوْلَىٰ لَكَ فَأَوْلَىٰ ﴿٣٥﴾ (۷۵: ۳۴،۳۵)
''تیرے لیے بہت ہی موزوں ہے۔ تیرے لیے بہت ہی موزوں ہے۔''