• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

الرحیق المختوم دوسرا مرحلہ : کھلی تبلیغ

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
اَخْنَس بن شُرَیق ثَقَفی بھی رسول اللہ ﷺ کے ستانے والوں میں تھا۔ قرآن میں اس کے نو اوصاف بیان کیے گئے ہیں۔ جس سے اس کے کردار کا اندازہ ہوتا ہے۔ ارشاد ہے:
وَلَا تُطِعْ كُلَّ حَلَّافٍ مَّهِينٍ ﴿١٠﴾ هَمَّازٍ مَّشَّاءٍ بِنَمِيمٍ ﴿١١﴾ مَّنَّاعٍ لِّلْخَيْرِ‌ مُعْتَدٍ أَثِيمٍ ﴿١٢﴾ عُتُلٍّ بَعْدَ ذَٰلِكَ زَنِيمٍ ﴿١٣﴾ (۶۸: ۱۰ تا ۱۳)
''تم بات نہ مانو کسی قسم کھانے والے ذلیل کی، جو لعن طعن کرتا ہے، چغلیاں کھاتا ہے، بھلائی سے روکتا ہے، حد درجہ ظالم، بد عمل اور جفاکار ہے اور اس کے بعد بد اصل بھی ہے۔''
ابو جہل کبھی کبھی رسول اللہ ﷺ کے پاس آ کر قرآن سنتا تھا، لیکن بس سنتا ہی تھا، ایمان و اطاعت اور ادب و خشیت اختیار نہیں کرتا تھا۔ وہ رسول اللہ ﷺ کو اپنی بات سے اذیت پہنچاتا اور اللہ کی راہ سے روکتا تھا۔ پھر اپنی اس حرکت اور برائی پر ناز اور فخر کرتا ہوا جاتا تھا۔ گویا اس نے قابل ذکر کارنامہ انجام دے دیا ہے قرآن مجید کی یہ آیات اسی شخص کے بارے میں نازل ہوئیں:
فلَا صَدَّقَ وَلَا صَلَّىٰ ﴿٣١﴾ وَلَـٰكِن كَذَّبَ وَتَوَلَّىٰ ﴿٣٢﴾ ثُمَّ ذَهَبَ إِلَىٰ أَهْلِهِ يَتَمَطَّىٰ ﴿٣٣﴾ أَوْلَىٰ لَكَ فَأَوْلَىٰ ﴿٣٤﴾ ثُمَّ أَوْلَىٰ لَكَ فَأَوْلَىٰ ﴿٣٥﴾
(۷۵: ۳۱ تا ۳۵)
''نہ اس نے صدقہ دیا نہ نماز پڑھی، بلکہ جھٹلایا اور پیٹھ پھیری، پھر وہ اکڑتا ہوا اپنے گھر والوں کے پاس گیا۔ تیرے خوب لائق ہے۔ خوب لائق ہے۔''
اس شخص نے پہلے دن جب نبی ﷺ کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا تو اسی دن سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز سے روکتا رہا۔ ایک بار نبی ﷺ مقام ابراہیم کے پاس نماز پڑھ رہے تھے کہ اس کا گزر ہوا۔ دیکھتے ہی بولا: محمد! کیا میں نے تجھے اس سے منع نہیں کیا تھا؟ ساتھ ہی دھمکی بھی دی۔ رسول اللہ ﷺ نے بھی ڈانٹ کر سختی سے جواب دیا۔ اس پر وہ کہنے لگا: اے محمد! کاہے کی دھمکی دے رہے ہو، دیکھو، اللہ کی قسم! اس وادی (مکہ) میں میری محفل سب سے بڑی ہے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: فَلْيَدْعُ نَادِيَهُ (۹۶: ۱۷) (اسے ابن جریر نے تفسیر میں روایت کیا ہے۔ اسی کے مثل ترمذی نے بھی ابواب التفسیر تفسیر سورہ اقراء، آیت نمبر ۱۷، ۱۸ (حدیث نمبر ۳۳۴۹) ۵/۴۱۴ میں روایت کیا ہے۔)
اچھا! تو بلائے اپنی محفل کو (ہم بھی سزا کے فرشتوں کو بلائے دیتے ہیں)
ایک روایت میں مذکورہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس کا گریبان گلے کے پاس پکڑ لیا اور جھنجوڑتے ہوئے فرمایا:
أَوْلَىٰ لَكَ فَأَوْلَىٰ ﴿٣٤﴾ ثُمَّ أَوْلَىٰ لَكَ فَأَوْلَىٰ ﴿٣٥﴾ (۷۵: ۳۴،۳۵)
''تیرے لیے بہت ہی موزوں ہے۔ تیرے لیے بہت ہی موزوں ہے۔''
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
اس پر اللہ کا دشمن کہنے لگا : اے محمد! مجھے دھمکی دے رہے ہو؟ اللہ کی قسم! تم اور تمہارا پروردگار میرا کچھ نہیں کر سکتے۔ میں مکے کی دونوں پہاڑیوں کے درمیان چلنے پھرنے والوں میں سب سے زیادہ معزز ہوں۔ (دیکھئے: تفسیر ابن کثیر ۴/۴۷۷، الدر المنثور ۶/۴۷۸ وغیرہ)
بہرحال اس ڈانٹ کے باوجود ابو جہل اپنی حماقت سے باز آنے والا نہ تھا۔ بلکہ اس کی بد بختی میں کچھ اور اضافہ ہی ہو گیا۔چنانچہ صحیح مسلم میں ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ (ایک بار سردارانِ قریش سے) ابو جہل نے کہا کہ محمد آپ حضرات کے رُو برو اپنا چہرہ خاک آلود کرتا ہے؟ جواب دیا گیا: ہاں۔ اس نے کہا: لات و عزیٰ کی قسم! اگر میں نے (اس حالت میں) اسے دیکھ لیا تو اس کی گردن روند دوں گا اور اس کا چہرہ مٹی پر رگڑ دوں گا۔ اس کے بعد اس نے رسول اللہ ﷺ کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھ لیا اور اس زعم میں چلا کہ آپ کی گردن روند دے گا لیکن لوگوں نے اچانک کیا دیکھا کہ وہ ایڑی کے بل پلٹ رہا ہے، اور دونوں ہاتھ سے بچاؤ کر رہا ہے۔ لوگوں نے کہا: ابو الحکم! تمہیں کیا ہوا؟ اس نے کہا: میرے اور اس کے درمیان آگ کی ایک خندق ہے۔ ہولناکیاں ہیں اور پَر ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اگر وہ میرے قریب آتا تو فرشتے اس کا ایک ایک عضو اچک لیتے۔ (صحیح مسلم: کتاب صفات المنافقین واحلامہم حدیث نمبر ۳۸ (۴/۲۱۵۴ ))
یہ اس ظلم و جور کا ایک نہایت مختصر خاکہ ہے جو اہل اللہ اور سکان حرم ہونے کا دعویٰ رکھنے والے سرکش مشرکین کے ہاتھوں رسول اللہ ﷺ اور مسلمانوں کو سہنا پڑ رہے تھے۔
اس سنگین صورت حال کا تقاضا یہ تھا کہ رسول اللہ ﷺ ایسا محتاط اور حزم و تدبیر پر مبنی موقف اختیار کریں کہ مسلمانوں پر جو آفت ٹوٹ پڑی تھی اس سے بچانے کی کوئی صورت نکل آئے اور ممکن حد تک اس کی سختی کم کی جا سکے۔ اس مقصد کے لیے رسول اللہ ﷺ نے دو حکیمانہ قدم اٹھائے۔ جو دعوت کا کام آگے بڑھانے میں بھی مؤثر ثابت ہوئے:
ارقم بن ابی الارقم مخزومی کے مکان کو دعوت و تربیت کے مرکز کے طور پر اختیار فرمایا۔
"مسلمانوں کو ہجرت حبشہ کا حکم فرمایا۔
دار ارقم:
یہ مکان سرکشوں کی نگاہوں اور ان کی مجلسوں سے دور کوہ صفا کے دامن میں الگ تھلگ واقع تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے اسے اس مقصد کے لیے منتخب فرمایا کہ یہاں مسلمانوں کے ساتھ خفیہ طور پر جمع ہوں۔ چنانچہ آپ یہاں اطمینان سے بیٹھ کر مسلمانوں پر اللہ کی آیات تلاوت فرماتے، ان کا تزکیہ کرتے اور انھیں کتاب و حکمت سکھاتے اور مسلمان بھی امن وسلامتی کے ساتھ اپنی عبادت اور اپنے دینی اعمال انجام دیتے اور اللہ کی نازل کی ہوئی وحی سیکھتے، جو آدمی اسلام لانا چاہتا بھی یہاں آ کر خاموشی سے مسلمان ہو جاتا اور ظلم و انتقام پر اترے ہوئے
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
سرکشوں کو اس کی خبر نہ ہوتی۔
یہ بات یقینی ہے کہ اگر رسول اللہ ﷺ اس کے بجائے مسلمانوں کے ساتھ کھلم کھلا اکٹھا ہوتے تو مشرکین اپنی پوری قوت و شدت کے ساتھ اس بات کی کوشش کرتے کہ آپ تزکیۂ نفس اور تعلیم کتاب و سنت کا جو کام کرناچاہتے ہیں اسے نہ ہونے دیں۔ اس کے نتیجہ میں فریقین کے درمیان تصادم ہو سکتا تھا۔ بلکہ عملاً ایسا ہو بھی چکا تھا، چنانچہ ابن اسحاق کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کرامؓ گھاٹیوں اکٹھے ہو کر نماز پڑھا کرتے تھے۔ایک بار کفار قریش کے کچھ لوگوں نے دیکھ لیا تو گالم گلوچ اور لڑائی جھگڑے پر اتر آئے۔ جواباً حضرت سعد بن ابی وقاص نے ایک شخص کو ایسی ضرب لگائی کہ اس کا خون بہہ پڑا اور یہ پہلا خون تھا جو اسلام میں بہایا گیا۔ (ابن ہشام ۱/۲۶۳)
معلوم ہے کہ اس طرح کا ٹکراؤ بار بار ہوتا اور طول پکڑ جاتا تو مسلمانو ں کے خاتمے کی نوبت آ سکتی تھی۔ لہٰذا حکمت کا تقاضا یہی تھا کہ کام پس پردہ کیا جائے۔ چنانچہ عام صحابہ کرامؓ اپنا اسلام، اپنی عبادت، اپنی تبلیغ اور اپنے باہمی اجتماعات سب کچھ پس پردہ کرتے تھے۔ البتہ رسول اللہ ﷺ تبلیغ کا کام بھی مشرکین کے رُو برُو کھلم کھلا انجام دیتے تھے، اور عبادت کا کام بھی۔ کوئی چیز آپ ﷺ کو اس سے روک نہیں سکتی تھی۔ تاہم آپ بھی مسلمانوں کے ساتھ خود ان کی مصلحت کے پیش نظر خفیہ طور سے جمع ہوتے تھے۔ ادھر اَرقَم بن ابی الارقم مخزومی کا مکان کوہِ صفا پر سرکشوں کی نگاہوں اور ان کی مجلسوں سے دور الگ تھلگ واقع تھا۔ اس لیے آپ نے پانچویں سنہ نبوت سے اسی مکان کو اپنی دعوت اور مسلمانوں کے ساتھ اپنے اجتماع کا مرکز بنا لیا۔ (مختصر السیرۃ محمد بن عبدالوہاب ص ۶۱)
پہلی ہجرتِ حَبْشَہ:
جور و ستم کا مذکورہ سلسلہ نبوت کے چوتھے سال کے درمیان یا آخر میں شروع ہوا تھا اور ابتداءََ معمولی تھا مگر دن بدن اور ماہ بماہ بڑھتا گیا۔ یہاں تک کہ نبوت کے پانچویں سال کا وسط آتے آتے اپنے شباب کو پہنچ گیا۔ حتیٰ کہ مسلمانوں کے لیے مکہ میں رہنا دوبھر ہو گیا اور انہیں ان پیہم ستم رانیوں سے نجات کی تدبیر سوچنے کے لیے مجبور ہو جانا پڑا۔ ان ہی سنگین اور تاریک حالات میں سورۂ زُمَر کا نزول ہوا۔ اور اس میں ہجرت کی طرف اشارہ کیا گیا اور بتایا گیا کہ اللہ کی زمین تنگ نہیں ہے۔
لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هَـٰذِهِ الدُّنْيَا حَسَنَةٌ ۗ وَأَرْ‌ضُ اللَّـهِ وَاسِعَةٌ ۗ إِنَّمَا يُوَفَّى الصَّابِرُ‌ونَ أَجْرَ‌هُم بِغَيْرِ‌ حِسَابٍ (۳۹: ۱۰)
''جن لوگوں نے اس دنیا میں اچھائی کی ان کے لیے اچھائی ہے اور اللہ کی زمین کشادہ ہے۔ صبر کرنے والوں کو ان کا اجر بلا حساب دیا جائے گا۔''
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
ادھر رسول اللہ ﷺ کو معلوم تھا کہ اَصحَمَہ نجاشی شاہ حبش ایک عادل بادشاہ ہے۔ وہاں کسی پر ظلم نہیں ہوتا۔ اس لیے آپ ﷺ نے مسلمانو ں کو حکم دیا کہ وہ فتنوں سے اپنے دین کی حفاظت کے لیے حبشہ ہجرت کر جائیں۔ (دیکھئے: السنن الکبریٰ للبیہقی ۹/۹) اس کے بعد ایک طے شدہ پروگرام کے مطابق رجب ۵ نبوی میں صحابہ کرامؓ کے پہلے گروہ نے حبشہ کی جانب ہجرت کی۔ اس گروہ میں بارہ مرد اور چار عورتیں تھیں۔ حضرت عثمان بن عفانؓ ان کے امیر تھے اور ان کے ہمراہ رسول اللہ ﷺ کی صاحبزادی حضرت رقیہ ؓ بھی تھیں۔ رسول اللہ ﷺ نے ان کے بارے میں فرمایا کہ حضرت ابراہیم اور حضرت لوط علیہما السلام کے بعد یہ پہلا گھرانہ ہے جس نے اللہ کی راہ میں ہجرت کی۔ (زاد المعاد ۱/۲۴)
یہ لوگ رات کی تاریکی میں چپکے سے نکل کر اپنی نئی منزل کی جانب روانہ ہوئے۔ رازداری کا مقصد یہ تھا کہ قریش کو اس کا علم نہ ہو سکے۔ رُخ بحر احمر کی بندرگاہ شُعَیْبَہ کی جانب تھا۔ خوش قسمتی سے وہاں دو تجارتی کشتیاں موجود تھیں، جو انہیں اپنے دامنِ عافیت میں لے کر سمندر پار حبشہ چلی گئیں۔ قریش کو کسی قدر بعد میں ان کی روانگی کا علم ہو سکا۔ تاہم انہوں نے پیچھا کیا اور ساحل تک پہنچے لیکن صحابہ کرام ؓ آگے جا چکے تھے، اس لیے نامراد واپس آئے۔ ادھر مسلمانوں نے حبشہ پہنچ کر بڑے چین کا سانس لیا۔ (زاد المعاد ۱/۲۴)
مسلمانوں کے ساتھ مشرکین کا سجدہ اور مہاجرین کی واپسی:
لیکن اسی سال رمضان شریف میں یہ واقعہ پیش آیا کہ نبی ﷺ ایک بار حرم تشریف لے گئے۔ وہاں قریش کا بہت بڑا مجمع تھا۔ ان کے سردار اور بڑے بڑے لوگ جمع تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دم اچانک کھڑے ہو کر سورۂ نجم کی تلاوت شروع کر دی۔ ان کفار نے اس سے پہلے عموماً قرآن سنا نہ تھا۔ کیونکہ ان کا دائمی وطیرہ قرآن کے الفاظ میں یہ تھا کہ:
لَا تَسْمَعُوا لِهَـٰذَا الْقُرْ‌آنِ وَالْغَوْا فِيهِ لَعَلَّكُمْ تَغْلِبُونَ (۴۱: ۲۶)
''اس قرآن کو مت سنو اور اس میں خلل ڈالو۔ (اودھم مچاؤ) تاکہ تم غالب رہو۔''
لیکن جب نبی ﷺ نے اچانک اس سورۂ کی تلاوت شروع کر دی اور ان کے کانوں میں ایک ناقابل بیان رعنائی و دلکشی اور عظمت لیے ہوئے کلام الٰہی کی آواز پڑی تو انہیں کچھ ہوش نہ رہا۔ سب کے سب گوش بر آواز ہو گئے کسی کے دل میں کوئی خیال ہی نہ آیا۔ یہاں تک کہ جب آپ نے سورہ کے اواخر میں دل ہلا دینے والی آیات فرما کر اللہ کا یہ حکم سنایا کہ:
فَاسْجُدُوْا لِلَّہِ وَاعْبُدُوْا (۵۳: ۶۲ )
''اللہ کے لیے سجدہ کرو اور اس کی عبادت کرو۔''
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
اور اس کے ساتھ ہی سجدہ فرمایا تو کسی کو اپنے آپ پر قابو نہ رہا، اور سب کے سب سجدے میں گر پڑے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس موقع پر حق کی رعنائی و جلال نے متکبرین و مستہزئین کی ہٹ دھرمی کا پردہ چاک کر دیا تھا۔ اس لیے انہیں اپنے آپ پر قابو نہ رہ گیا تھا اور وہ بے اختیار سجدے میں گر پڑے تھے۔ (صحیح بخاری میں اس سجدے کا واقعہ ابن مسعود اور ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مختصراً مروی ہے، دیکھئے: باب سجدۃ النجم اور باب سجود المسلمین والمشرکین ۱/۱۴۶ اور باب ما لقی النبی ﷺ واصحابہ بمکۃ ۱/۵۴۳)
لیکن بعد میں جب انہیں احساس ہوا کہ کلامِ الٰہی کے جلال نے ان کی لگام موڑ دی اور وہ ٹھیک وہی کام کر بیٹھے جسے مٹانے اور ختم کرنے کے لیے انہوں نے ایڑی سے چوٹی تک کا زور لگا رکھا تھا اور اس کے ساتھ ہی اس واقعے میں غیر موجود مشرکین نے ان پر ہر طرف سے عتاب اور ملامت کی بوچھاڑ شروع کی تو ان کے ہاتھ کے طوطے اُڑ گئے اور انہوں نے اپنی جان چھڑانے کے لیے رسول اللہ ﷺ پر یہ افتراء پردازی کی اور یہ جھوٹ گھڑا کہ آپ نے ان بتوں کا ذکر عزت و احترام سے کرتے ہوئے یہ کہا تھا کہ :
تلک الغرانیق العلی، وان شفاعتھن لترتجی
''یہ بلند پایہ دیویاں ہیں اور ان کی شفاعت کی امید کی جاتی ہے۔''
حالانکہ یہ صریح جھوٹ تھا جو محض اس لیے گھڑ لیا گیا تھا تاکہ نبی ﷺ کے ساتھ سجدہ کرنے کی جو ''غلطی'' ہو گئی ہے اس کے لیے ایک ''معقول'' عذر پیش کیا جا سکے اور ظاہر ہے کہ جو لوگ نبی ﷺ پر ہمیشہ جھوٹ گھڑتے اور آپ کے خلاف ہمیشہ دسیسہ کاری اور افتراء پردازی کرتے رہے تھے، وہ اپنا دامن بچانے کے لیے اس طرح کا جھوٹ کیوں نہ گھڑتے۔
بہرحال مشرکین کے سجدہ کرنے کے اس واقعے کی خبر حبشہ کے مہاجرین کو بھی معلوم ہوئی لیکن اپنی اصل صورت سے بالکل ہٹ کر۔ یعنی انہیں یہ معلوم ہوا کہ قریش مسلمان ہو گئے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے ماہ شوال میں مکہ واپسی کی راہ لی لیکن جب اتنے قریب آ گئے کہ مکہ ایک دن سے بھی کم فاصلے پر رہ گیا تو حقیقت حال آشکارا ہوئی۔ اس کے بعد کچھ لوگ تو سیدھے حبشہ پلٹ گئے اور کچھ لوگ چھپ چھپا کر یا قریش کے کسی آدمی کی پناہ لے کر مکے میں داخل ہوئے۔ (زاد المعاد ۱/۲۴، ۲/۴۴، ابن ہشام ۱/۳۶۴)
دوسری ہجرت حبشہ:
اس کے بعد ان مہاجرین پر خصوصاً اور مسلمانوں پر عموماً قریش کا ظلم و تشدد، جور و ستم اور بڑھ گیا اور ان کے خاندان والوں نے انہیں خوب ستایا۔ کیونکہ قریش کو ان کے ساتھ نجاشی کے حسن و سلوک کی جو خبر ملی تھی اس پر وہ نہایت چیں بہ جبیں تھے۔ ناچار رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام ؓ کو پھر ہجرت حبشہ کا مشورہ دیا لیکن دوسری ہجرت
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
پہلی ہجرت کے بالمقابل اپنے دامن میں زیادہ مشکلات لیے ہوئے تھی۔کیونکہ اب کی بار قریش پہلے سے ہی چوکنا تھے اورایسی کسی کوشش کو ناکام بنانے کا تہیہ کیے ہوئے تھے لیکن مسلمان ان سے کہیں زیادہ مستعد ثابت ہوئے اور اللہ نے ان کے لیے سفر آسان بنا دیا۔ چنانچہ وہ قریش کی گرفت میں آنے سے پہلے ہی شاہ حبش کے پاس پہنچ گئے۔
اس دفعہ کل ۸۲ یا ۸۳ مردوں نے ہجرت کی (حضرت عمار کی ہجرت مختلف فیہ ہے) اور اٹھارہ یا انیس عورتوں نے۔ (زاد المعاد ۱/۲۴ )
علامہ منصور پوری ؒ نے جزم کے ساتھ عورتوں کی تعداد اٹھارہ لکھی ہے۔ (رحمۃ للعالمین)
مہاجرینِ حبشہ کے خلاف قریش کی سازش:
مشرکین کو سخت قلق تھا کہ مسلمان اپنی جان اور اپنا دین بچا کر ایک پُر امن جگہ بھاگ گئے ہیں۔ لہٰذا انہوں نے عَمرو بن عاص اور عبداللہ بن ربیعہ کو جو گہری سوجھ بوجھ کے مالک تھے اور ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے۔ ایک اہم سفارتی مہم کے لیے منتخب کیا اور ان دونوں کو نجاشی اور بطریقوں کی خدمت میں پیش کرنے کے لیے بہترین تحفے اور ہدیے دے کر حبش روانہ کیا۔ ان دونوں نے پہلے حبش پہنچ کر بطریقوں کو تحائف پیش کیے۔ پھر انہیں اپنے ان دلائل سے آگاہ کیا، جن کی بنیاد پر وہ مسلمانوں کو حبش سے نکلوانا چاہتے تھے۔ جب بطریقوں نے اس بات سے اتفاق کر لیا کہ وہ نجاشی کو مسلمانوں کے نکال دینے کا مشورہ دیں گے تو یہ دونوں نجاشی کے حضور حاضر ہوئے اور تحفے پیش کر کے اپنا مُدّعا عرض کیا۔ کہا:
''اے بادشاہ! آپ کے ملک میں ہمارے کچھ ناسمجھ نوجوان بھاگ آئے ہیں۔ انہوں نے اپنی قوم کا دین چھوڑ دیا ہے لیکن آپ کے دین میں بھی داخل نہیں ہوئے ہیں۔ بلکہ یہ ایک نیا دین ایجاد کیا ہے جسے نہ ہم جانتے ہیں نہ آپ۔ ہمیں آپ کی خدمت میں انہی کی بابت ان کے والدین چچاؤں اور کنبے قبیلے کے عمائدین نے بھیجا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ آپ انہیں ان کے پاس واپس بھیج دیں۔ کیونکہ وہ لوگ ان پر سب سے اونچی نگاہ رکھتے ہیں اور ان کی خامی اور عتاب کے اسباب کو بہتر طور پر سمجھتے ہیں۔'' جب یہ دونوں اپنا مدعا عرض کر چکے تو بطریقوں نے کہا: بادشاہ سلامت! یہ دونوں ٹھیک ہی کہہ رہے ہیں۔ آپ ان جوانوں کو ان دونوں کے حوالے کر دیں۔ یہ دونوں انہیں ان کی قوم اور ان کے ملک میں واپس پہنچا دیں گے۔
لیکن نجاشی نے سوچا کہ اس قضیے کو گہرائی سے کھنگالنا اور اس کے تمام پہلوؤں کو سننا ضروری ہے۔ چنانچہ اس نے مسلمانوں کو بلا بھیجا۔ مسلمان یہ تہیہ کر کے اس کے دربار میں آئے کہ ہم سچ ہی بولیں گے، خواہ نتیجہ کچھ بھی ہو۔ جب مسلمان آ گئے تو نجاشی نے پوچھا: یہ کونسا دین ہے جس کی بنیاد پر تم نے اپنی قوم سے علٰیحدگی اختیار کر لی ہے؟ لیکن میرے دین میں بھی داخل نہیں ہوئے ہو اور نہ ان ملتوں ہی میں سے کسی کے دین میں داخل ہوئے ہو ؟ مسلمانو ں کے ترجمان حضرت جعفر بن ابی طالبؓ نے کہا: اے بادشاہ! ہم ایسی قوم تھے جو جاہلیت میں مبتلا
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
تھی۔ ہم بُت پوجتے تھے ، مردار کھاتے تھے، بد کاریاں کرتے تھے۔ قرابتداروں سے تعلق توڑتے تھے۔ ہمسایوں سے بد سلوکی کرتے تھے اور ہم میں سے طاقتور کمزور کو کھا رہا تھا، ہم اسی حالت میں تھے کہ اللہ نے ہم ہی میں سے ایک رسول بھیجا اس کی عالی نسبی، سچائی، امانت اور پاکدامنی ہمیں پہلے سے معلوم تھی۔ اس نے ہمیں اللہ کی طرف بلایا اور سمجھایا کہ ہم صرف ایک اللہ کو مانیں اور اسی کی عبادت کریں اور اس کے سوا جن پتھروں اور بتوں کو ہمارے باپ دادا پوجتے تھے انہیں چھوڑ دیں۔ اس نے ہمیں سچ بولنے، امانت ادا کرنے، قرابت جوڑنے، پڑوسی سے اچھا سلوک کرنے اور حرام کاری و خونریزی سے باز رہنے کا حکم دیا اور فواحش میں ملوث ہونے، جھوٹ بولنے، یتیم کا مال کھانے اور پاکدامن عورت پر جھوٹی تہمت لگانے سے منع کیا۔ اس نے ہمیں یہ بھی حکم دیا کہ ہم صرف اللہ کی عبادت کریں۔ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں۔ اس نے ہمیں نماز، روزہ، اور زکوٰۃ کا حکم دیا... اسی طرح حضرت جعفرؓ نے اسلام کے کام گنائے، پھر کہا: ہم نے اس پیغمبر کو سچا مانا، اس پر ایمان لائے اور اس کے لائے ہوئے دینِ الٰہی میں اس کی پیروی کی۔ چنانچہ ہم نے صرف اللہ کی عبادت کی۔ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کیا اور جن باتوں کو اس پیغمبر نے حرام بتایا انہیں حرام مانا اور جن کو حلال بتایا انہیں حلال جانا۔ اس پر ہماری قوم ہم سے بگڑ گئی۔ اس نے ہم پر ظلم و ستم کیا اور ہمیں ہمارے دین سے پھیرنے کے لیے فتنے اور سزاؤں سے دوچار کیا۔ تاکہ ہم اللہ کی عبادت چھوڑ کر بُت پرستی کی طرف پلٹ جائیں اور جن گندی چیزوں کو حلال سمجھتے تھے انہیں پھر حلال سمجھنے لگیں۔ جب انہوں نے ہم پر بہت قہر و ظلم کیا، زمین تنگ کر دی اور ہمارے درمیان اور ہمارے دین کے درمیان روک بن کر کھڑے ہو گئے تو ہم نے آپ کے ملک کی راہ لی اور دوسروں پر آپ کو ترجیح دیتے ہوئے آپ کی پناہ میں رہنا پسند کیا اور یہ امید کی کہ اے بادشاہ! آپ کے پاس ہم پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔
نجاشی نے کہا: وہ پیغمبر جو کچھ لائے ہیں اس میں سے کچھ تمہارے پاس ہے؟
حضرت جعفر ؓ نے کہا: ہاں!
نجاشی نے کہا: ذرا مجھے بھی پڑھ کر سناؤ۔
حضرت جعفرؓ نے سورہ مریم کی ابتدائی آیات تلاوت فرمائیں۔ نجاشی اس قدر رویا کہ اس کی ڈاڑھی تر ہو گئی۔ نجاشی کے تمام اسقف بھی حضرت جعفر ؓ کی تلاوت سن کر اس قدر روئے کہ ان کے صحیفے تر ہو گئے۔ پھر نجاشی نے کہا کہ یہ کلام اور وہ کلا م جو عیسیٰ علیہ السلام لے کر آئے تھے دونوں ایک ہی شمع دان سے نکلے ہوئے ہیں۔ اس کے بعد نجاشی نے عَمرو بن عاص اور عبد اللہ بن ربیعہ کو مخاطب کر کے کہا کہ تم دونوں چلے جاؤ۔ میں ان لوگوں کو تمہارے حوالے نہیں کر سکتا اور نہ یہاں ان کے خلاف کوئی چال چلی جا سکتی ہے۔
اس کے حکم پر وہ دونوں وہاں سے نکل گئے، لیکن پھر عمرو بن عاص نے عبد اللہ بن ربیعہ سے کہا: اللہ کی قسم! کل ان کے متعلق ایسی بات لاؤں گا کہ ان کی ہریالی کی جڑ کاٹ کر رکھ دوں گا۔ عبد اللہ بن ربیعہ نے کہا: نہیں۔ ایسا نہ کرنا۔ ان لوگوں نے اگرچہ ہمارے خلاف کیا ہے لیکن ہیں بہر حال ہمارے اپنے ہی کنبے قبیلے کے لوگ۔ مگر عَمر و بن عاص اپنی رائے پر اَڑ ے رہے۔
اگلا دن آیا تو عَمرو بن عاص نے نجاشی سے کہا: اے بادشاہ! یہ لوگ عیسیٰ ؑ بن مریم کے بارے میں ایک بڑی بات کہتے ہیں؟ اس پر نجاشی نے مسلمانوں کو پھر بلا بھیجا۔ وہ پوچھنا چاہتا تھا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں مسلمان کیا کہتے ہیں۔ اس دفعہ مسلمانوں کو گھبراہٹ ہوئی لیکن انہوں نے طے کیا کہ سچ ہی بولیں گے۔ نتیجہ خواہ کچھ بھی ہو۔ چنانچہ جب مسلمان نجاشی کے دربار میں حاضر ہوئے اور اس نے سوال کیا تو حضرت جعفرؓ نے فرمایا:
ہم عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں وہی بات کہتے ہیں جو ہمارے نبی ﷺ لے کر آئے ہیں۔ یعنی حضرت عیسیٰ ؑ اللہ کے بندے، اس کے رسول، اس کی روح اور اس کا کلمہ ہیں جسے اللہ نے کنواری پاکدامن حضرت مریم علیہا السلام کی طرف القا کیا تھا۔
اس پر نجاشی نے زمین سے ایک تنکا اٹھایا اور بولا: اللہ کی قسم! جو کچھ تم نے کہا ہے حضرت عیسیٰ علیہ السلام اس سے اس تنکے کے برابر بھی بڑھ کر نہ تھے۔ اس پر بطریقوں نے ''ہونہہ'' کی آواز لگائی۔ نجاشی نے کہا: اگرچہ تم لوگ ''ہونہہ'' کہو۔
اس کے بعد نجاشی نے مسلمانوں سے کہا: جاؤ! تم لوگ میرے قلمرو میں امن و امان سے ہو۔ جو تمہیں گالی دے گا اس پر تاوان لگایا جائے گا۔ مجھے گوارا نہیں کہ تم میں سے مَیں کسی آدمی کو ستاؤں اور اس کے بدلے مجھے سونے کا پہاڑ مل جائے۔
اس کے بعد اس نے اپنے حاشیہ تشینوں سے مخاطب ہو کر کہا: ان دونوں کو ان کے ہدیے واپس کر دو۔ مجھے ان کی کوئی ضرورت نہیں۔ اللہ کی قسم! اللہ تعالیٰ نے جب مجھے میرا ملک واپس کیا تھا تو مجھ سے کوئی رشوت نہیں لی تھی کہ مَیں اس کی راہ میں رشوت لوں۔ نیز اللہ نے میرے بارے میں لوگوں کی بات قبول نہ کی تھی کہ مَیں اللہ کے بارے میں لوگوں کی بات مانوں۔
حضرت ام سلمہ ؓ جنہوں نے اس واقعے کو بیان کیا ہے، کہتی ہیں اس کے بعد وہ دونوں اپنے ہدیے تحفے لیے بے آبرو ہو کر واپس چلے گئے اور ہم نجاشی کے پاس ایک اچھے ملک میں ایک اچھے پڑوسی کے زیر سایہ مقیم رہے۔ (ابن ہشام ملخصاً ۱/۳۳۴تا ۳۳۸)
یہ ابن اسحاق کی روایت ہے۔ دوسرے سیرت نگاروں کا بیان ہے کہ نجاشی کے دربار میں حضرت عَمرو بن عاصؓ کی حاضری جنگ بدر کے بعد ہوئی تھی۔ بعض لوگوں نے تطبیق کی یہ صورت بیان کی ہے کہ حضرت عَمرو بن عاص ؓ نجاشی کے دربار میں مسلمانوں کی واپسی کے لیے دو مرتبہ گئے تھے لیکن جنگ بدر کے بعد کی حاضری کے ضمن
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
میں حضرت جعفرؓ اور نجاشی کے درمیان سوال و جواب کی جو تفصیلات بیان کی جاتی ہیں وہ تقریباً وہی ہیں جو ابن اسحاق نے ہجرت حبشہ کے بعد حاضری کے سلسلے میں بیان کی ہیں۔ پھر ان سوالات کے مضامین سے واضح ہوتا ہے کہ نجاشی کے پاس یہ معاملہ ابھی پہلی بار پیش ہوا تھا۔ اس لیے ترجیح اس بات کو حاصل ہے کہ مسلمانوں کو واپس لانے کی کوشش صرف ایک بار ہوئی تھی اور وہ ہجرت حبشہ کے بعد تھی۔
ایذاء رسانی میں شدت اور رسول اللہ ﷺ کے قتل کی کوشش:
جب مشرکین اپنی چال میں کامیاب نہ ہو سکے، اور مہاجرینِ حبشہ کو واپس لانے کی کوشش میں منہ کی کھانی پڑی تو آپے سے باہر ہو گئے اور لگتا تھا کہ غیظ و غضب سے پھٹ پڑیں گے، چنانچہ ان کی درندگی اور بڑھ گئی۔ ان کا دست جور رسول اللہ ﷺ تک بڑھ آیا اور ان کی نقل و حرکت سے یہ محسوس ہونے لگا کہ وہ آپ ﷺ کا خاتمہ کیا چاہتے ہیں، تاکہ ان کے خیال میں جس فتنے نے ان کی خوابگاہوں کو خار زار بنا رکھا ہے اسے بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکیں۔
جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے تو اب مکہ میں جو مسلمان بچے کھچے رہ گئے تھے وہ بہت ہی تھوڑے تھے اور پھر صاحب شرف و عزت بھی تھے۔ یا کسی بڑے شخص کی پناہ میں تھے۔ اس کے ساتھ ہی وہ اپنے اسلام کو چھپائے ہوئے بھی تھے اور حتی الامکان سرکشوں اور ظالموں کی نگاہوں سے دور رہتے تھے۔ مگر اس احتیاط اور بچاؤ کے باوجود بھی وہ ظلم و جور اور ایذاء رسانی سے مکمل طور پر محفوظ نہ رہ سکے۔
جہاں تک رسول اللہ ﷺ کا تعلق ہے تو آپ ظالموں کی نگاہوں کے سامنے نماز پڑھتے اور اللہ کی عبادت کرتے تھے اور خفیہ اور کھلم کھلا دونوں طرح اللہ کے دین کی دعوت دیتے تھے۔ اس سے آپ کو نہ کوئی روکنے والی چیز روک سکتی تھی اور نہ موڑنے والی چیز موڑ سکتی تھی۔ کیونکہ یہ اللہ کی رسالت کی تبلیغ کا ایک حصہ تھا اور اس پر آپ اس وقت سے کار بند تھے
جب سے اللہ کا یہ حکم نازل ہوا تھا: یعنی آپ کو جو حکم دیا جاتا ہے اسے ببانگ دہل بیان کیجیے اور مشرکین سے منہ پھیر ے رکھئے۔
چنانچہ اس صورتِ حال کی بناء پر مشرکین کے لیے ممکن تھا کہ آپ سے جب چاہیں چھیڑ چھاڑ کر بیٹھیں۔ بظاہر کوئی چیز نہ تھی جو ان کے، اور ان کے عزائم کے درمیان روک بن سکتی تھی۔ اگر کچھ تھا تو وہ نبی ﷺ کا اپنا ذاتی شکوہ و وقار تھا۔ ابو طالب کا ذمہ و احترام تھا۔ یا اس بات کا اندیشہ تھا کہ اگر انہوں نے کوئی غلط حرکت کی تو انجام اچھا نہ ہو گا اور سارے بنو ہاشم ان کے خلاف ڈٹ جائیں گے۔
مگر ان کے دلوں میں ان ساری باتوں کا مطلوبہ اثر بر قرار نہ رہ گیا تھا اور جب سے انہیں یہ محسوس ہو چلا تھا کہ آپ ﷺ کی دعوت کے سامنے ان کی دینی چودھراہٹ اور بت پرستانہ نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوا چاہتا ہے۔ تب سے انہوں نے آپ کے ساتھ اوچھی حرکتیں کرنی شروع کر دی تھیں۔ جو واقعات کتب حدیث و سیرت میں مروی ہیں اور قرائن شہادت دیتے ہیں کہ وہ اسی دور میں پیش آئے، ان کے ایک دو نمونے یہ ہیں کہ ایک روز ابو لہب کا بیٹا عتیبہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور بولا:
وَالنَّجْمِ إِذَا هَوَىٰ ﴿١﴾ (۵۳: ۱) میں اور ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّىٰ (۵۳:۸) کے ساتھ کفر کرتا ہوں۔ اس کے بعد وہ آپ پر ایذا رسانی کے ساتھ مسلط ہو گیا، آپ کا کرتا پھاڑ دیا اور آپ کے چہرے پر تھوک دیا۔ اگر چہ تھوک آپ پر نہ پڑا۔ اسی موقع پر نبی ﷺ نے بد دعا کی کہ اے اللہ! اس پر اپنے کتوں میں سے کوئی کتا مسلط کر دے۔ نبی ﷺ کی یہ بد دعا قبول ہوئی۔ چنانچہ عُتیبہ ایک بار قریش کے کچھ لوگوں کے ہمراہ سفر میں گیا۔ جب انہوں نے ملک شام کے مقام زَرْقاء میں پڑاؤ ڈالا تو رات کے وقت شیر نے ان کا چکر لگایا۔ عُتیبہ نے دیکھتے ہی کہا: ہائے میری تباہی! واللہ! یہ مجھے کھا جائے گا۔ جیسا کہ محمد نے مجھ پر بد دعا کی ہے، دیکھو میں شام میں ہوں لیکن اس نے مکہ میں رہتے ہوئے مجھے مار ڈالا۔ احتیاطا لوگوں نے عتیبہ کو اپنے اور جانوروں کے گھیرے کے بیچوں بیچ سلایا لیکن رات کو شیر سب کو پھلانگتا ہوا سیدھا عُتَیبہ کے پاس پہنچا اور سر پکڑ کر ذبح کر ڈالا۔ (مختصر السیرۃ شیخ عبد اللہ ص ۱۳۵، استیعاب، اصابہ، دلائل النبوۃ، الروض الانف)
ایک بار عقبہ بن ابی مُعَیْط نے رسول اللہ ﷺ کی گردن حالتِ سجدہ میں اس زور سے روندی کہ معلوم ہوتا تھا دونوں آنکھیں نکل آئیں گی۔ (ایضاً مختصر السیرۃ ص ۱۱۳)
جہاں تک قریش کے دوسرے بد معاشوں کا تعلق ہے تو ان کے دلوں میں بھی نبی ﷺ کے خاتمے کا خیال برابر پک رہا تھا۔ چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص ؓ سے ابن اسحاق نے ان کا یہ بیان نقل کیا ہے کہ ایک بار مشرکین حَطِیْم میں جمع تھے، میں بھی موجود تھا۔ مشرکین نے رسول اللہ ﷺ کا ذکر چھیڑا اور کہنے لگے: اس شخص کے معاملے میں ہم نے جیسا صبر کیا ہے اس کی مثال نہیں۔ درحقیقت ہم نے اس کے معاملے میں بہت ہی بڑی بات پر صبر کیا ہے۔ یہ گفتگو چل ہی رہی تھی کہ رسول اللہ ﷺ نمودار ہو گئے۔ آپ نے تشریف لا کر پہلے حجر اسود کو چوما۔ پھر طواف کرتے ہوئے مشرکین کے پاس سے گزرے۔ انہوں نے کچھ کہہ کر طعنہ زنی کی۔ جس کا اثر میں نے آپ کے چہرے پر دیکھا۔ اس کے بعد دوبارہ آپ کا گزر ہوا تو مشرکین نے پھر اسی طرح لعن طعن کی۔ میں نے اس کا بھی اثر آپ کے چہرے پر دیکھا اس کے بعد آپ سہ بارہ گزرے تو مشرکین نے پھر آپ پر لعن طعن کی۔ اب کی بار آپ ٹھہر گئے اور فرمایا:
قریش کے لوگو! سن رہے ہو ؟ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! میں تمہارے پاس ذبح
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
لے کر آیا ہوں۔
آپ کے اس ارشاد نے لوگوں کو پکڑ لیا۔ (ان پر سکتہ طاری ہوا کہ) گویا ہر آدمی کے سر پر چڑیا ہے۔ یہاں تک کہ جو آپ پر سب سے زیادہ سخت تھا وہ بھی بہتر سے بہتر لفظ جو پا سکتا تھا اس کے ذریعے آپ سے طلب گارِ رحمت ہونے لگا۔ کہتا کہ! ابو القاسم! واپس چلے جایئے۔ اللہ کی قسم! آپ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی بھی نادان نہ تھے۔
دوسرے دن قریش پھر اسی طرح جمع ہو کر آپ کا ذکر کر رہے تھے کہ آپ نمودار ہوئے۔ دیکھتے ہی سب (یکجان ہو کر) ایک آدمی کی طرح آپ پر پل پڑے اور آپ کو گھیر لیا، پھر میں نے ایک آدمی کو دیکھا کہ اس نے گلے کے پاس سے آپ کی چادر پکڑ لی۔ (اور بل دینے لگا) ابو بکر ؓ آپ کے بچاؤ میں لگ گئے۔ وہ روتے جاتے تھے اور کہتے جاتے تھے:
تم لوگ ایک آدمی کو اس لیے قتل کر رہے ہو کہ وہ کہتا ہے میرا رب اللہ ہے؟ اس کے بعد وہ لوگ آپ کو چھوڑ کر پلٹ گئے ...عبد اللہ بن عمرو بن عاص ؓ کہتے ہیں کہ یہ سب سے سخت ترین ایذا رسانی تھی جو میں نے قریش کو کبھی کرتے ہوئے دیکھی۔ (ابن ہشام ۱/۲۸۹، ۲۹۰) ملخصًا صحیح بخاری میں حضرت عُروہ بن زُبیرؓ سے ان کا بیان مروی ہے کہ میں نے عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے سوال کیا کہ مشرکین نے نبی ﷺ کے ساتھ جو سب سے سخت ترین بد سلوکی کی تھی آپ مجھے اس کی تفصیل بتایئے؟ انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ خانہ کعبہ کے پاس حَطیم میں نماز پڑھ رہے تھے کہ عقبہ بن ابی معیط آ گیا، اس نے آتے ہی اپنا کپڑا آپ کی گردن میں ڈال کر نہایت سختی کے ساتھ آپ کا گلا گھونٹا۔ اتنے میں ابو بکر ؓ آ پہنچے اور انہوں نے اس کے دونوں کندھے پکڑ کر دھکا دیا اور اسے نبی ﷺ سے دور کرتے ہوئے فرمایا:
تم لوگ ایک آدمی کو اس لیے قتل کر رہے ہو کہ وہ کہتا ہے میرا رب اللہ ہے۔ (صحیح بخاری باب ذکر مالقی النبی ﷺ من المشرکین بمکۃ ۱/۵۴۴)
حضرت اسماء ؓ کی روایت میں مزید تفصیل ہے کہ حضرت ابو بکر ؓ کے پاس یہ چیخ پہنچی کہ اپنے ساتھی کو بچاؤ۔ وہ جھٹ ہمارے پاس سے نکلے، ان کے سر پر چار چوٹیاں تھیں۔ وہ یہ کہتے ہوئے گئے کہ تم لوگ ایک آدمی کو محض اس لیے قتل کر رہے ہو کہ وہ کہتا ہے میرا رب اللہ ہے؟ مشرکین نبی ﷺ کو چھوڑ کر ابو بکر ؓ پر پل پڑے۔ وہ واپس آئے تو حالت یہ تھی کہ ہم ان کی چوٹیوں کا جو بال بھی چھوتے تھے، وہ ہماری (چٹکی) کے ساتھ چلا آتا تھا۔ (مختصر السیرۃ شیخ عبد اللہ ص ۱۱۳)
حضرت حمزہؓ کا قبولِ اسلام:
مکہ کی فضا ظلم و جور کے ان سیاہ بادلوں سے گھمبیر تھی کہ اچانک ایک بجلی چمکی اور مقہوروں کا راستہ روشن
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
ہو گیا۔ یعنی حضرت حمزہؓ مسلمان ہو گئے۔ ان کے اسلام لانے کا واقعہ ۶ نبوی کے اخیر کا ہے اور اغلب یہ ہے کہ وہ ماہ ذی الحجہ میں مسلمان ہوئے تھے۔
ان کے اسلام لانے کا سبب یہ ہے کہ ایک روز ابو جہل کوہِ صفا کے نزدیک رسول اللہ ﷺ کے پاس سے گزرا تو آپ کو ایذا پہنچائی اور سخت سست کہا۔ رسول اللہ ﷺ خاموش رہے اور کچھ بھی نہ کہا لیکن اس کے بعد اس نے آپ کے سر پر ایک پتھر دے مارا، جس سے ایسی چوٹ آئی کہ خون بہہ نکلا۔ پھر وہ خانہ کعبہ کے پاس قریش کی مجلس میں جا بیٹھا۔ عبد اللہ بن جُدعان کی ایک لونڈی کوہِ صفا پر واقع اپنے مکان سے یہ سارا منظر دیکھ رہی تھی۔ حضرت حمزہؓ کمان حمائل کیے شکار سے واپس تشریف لائے تو اس نے ان سے ابو جہل کی ساری حرکت کہہ سنائی۔ حضرت حمزہ ؓ غصے سے بھڑک اٹھے ... یہ قریش کے سب سے طاقتور اور مضبوط جوان تھے۔ ماجرا سن کر کہیں ایک لمحہ رکے بغیر دوڑتے ہوئے اور یہ تہیہ کیے ہوئے آئے کہ جوں ہی ابو جہل کا سامنا ہو گا، اس کی مرمت کر دیں گے۔ چنانچہ مسجد حرام میں داخل ہو کر سیدھے اس کے سر پر جا کھڑے ہوئے اور بولے: او اپنے چوتڑ سے پاد نکالنے والے! تو میرے بھتیجے کو گالی دیتا ہے۔ حالانکہ میں بھی اسی کے دین پر ہوں۔ اس کے بعد کمان سے اس زور کی مار ماری کہ اس کے سر پر بد ترین قسم کا زخم آ گیا۔ اس پر ابو جہل کے قبیلے بنو مخزوم اور حضرت حمزہ ؓ کے قبیلے بنو ہاشم کے لوگ ایک دوسرے کے خلاف بھڑک اٹھے لیکن ابو جہل نے یہ کہہ کر انہیں خاموش کر دیا کہ ابوعمار ہ کو جانے دو۔ میں نے واقعی اس کے بھتیجے کو بہت بری گالی دی تھی۔ (ابن ہشام ۱/۲۹۱، ۲۹۲)
ابتداءََ حضرت حمزہؓ کا اسلام محض اس حمیت کے طور پر تھا کہ ان کے عزیز کی توہین کیوں کی گئی لیکن پھر اللہ نے ان کا سینہ کھول دیا اور انہوں نے اسلام کا کڑا مضبوطی سے تھام لیا (اس کا اندازہ مختصر السیرۃ شیخ عبد اللہ میں مذکور ایک روایت سے ہوتا ہے۔ دیکھئے: ص ۱۰۱)
اور مسلمانوں نے ان کی وجہ سے بڑی عزت و قوت محسوس کی۔
حضرت عمر ؓ کا قبولِ اسلام:
ظلم و طغیان کے سیاہ بادلوں کی اسی گھمبیر فضا میں ایک اور برقِ تاباں کا جلوہ نمودار ہوا۔ جس کی چمک پہلے سے زیادہ حیرت کن تھی۔ یعنی حضرت عمرؓ مسلمان ہو گئے۔ ان کے اسلام کا واقعہ ۶ نبوی کا ہے۔ (تاریخ عمر بن الخطاب لابن جوزی ص ۱۱)
وہ حضرت حمزہ ؓ کے صرف تین دن بعد مسلمان ہوئے تھے اور نبی ﷺ نے ان کے اسلام لانے کے لیے دعا کی تھی۔ چنانچہ امام ترمذی ؒ نے ابن عمر سے روایت کی ہے اور اسے صحیح بھی قرار دیا ہے۔ اسی طرح طبرانی نے حضرت ابن مسعود اور حضرت انس ؓ سے روایت کی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
 
Top