ایک فکاہیہ تحریر:
ایک اخبار میں خبر چھپی ہے کہ معروف سینئر اداکار محمود اسلم نے، کہ جنھوں نے دو شادیاں کر رکھی ہیں، ایک ٹی وی پروگرام میں میزبان شائستہ لودھی سے گفتگو کرتے ہوئے اس امر کا اعتراف کیاہے کہ:
''دو بیویاں رکھنا بہت مشکل کام ہے، ایک ہی کافی ہوتی ہے''۔
بعض لوگوں کو تو چار بھی ناکافی محسوس ہوتی ہیں اور بعضے ایسے ہیں کہ اُنھیں اپنی ایک بیوی بھی 'اضافی' ہی محسوس ہوتی ہے، جیسا کہ فرمایا ڈاکٹر انعام احسن حریفؔ نے:
جو شریکِ حیات ہوتی ہے
وہ بڑی واہیات ہوتی ہے
ڈاکٹر صاحب ماہر امراضِ چشم تھے۔ ہماری چشم پر جو چشمہ لگاہوا ہے، اُن ہی کا تجویز کردہ ہے۔مگر حیرت ہوتی ہے کہ ڈاکٹر صاحب کی اپنی چشم بینا اُن کے کچھ کام نہ آئی۔ وہ دیکھتی آنکھوں جیتی مکھی ۔۔۔ معاف کیجیے گا ۔۔۔ جیتی بیوی نگل گئے۔ ڈاکٹر صاحب تو ایسے نہ تھے، مگر حقیقت یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جو چشم بینا نہیں رکھتے 'چشم بنیا' رکھتے ہیں۔جہیز دیکھ کر بیوی پسند کرتے ہیں۔ تو ایسے لوگوں کا گھر جہیز سے بھر جانے کے بعد بیوی 'اضافی' نہ محسوس ہوگی تو کیا کافی محسوس ہوگی؟
اداکار محمود اسلم صاحب نے بیویوں کے لیے 'رکھنے' کا لفظ استعمال کیا ہے، جو مناسب معلوم نہیں ہوتا۔بیویاں 'رکھی' نہیں جاتیں۔وہ تو ایسا جادو ہوتی ہیں جو سر چڑھ کر بولتی ہیں۔بشرطے کہ اس جادو کا شکار ہونے والے کا سر پی ٹی وی کے سربراہ محمد مالک صاحب کے سر جیسا نہ ہو۔ جو 'رکھی' جائے اُسے اُردو میں 'رکھیل' اور فارسی میں 'داشتہ' (یعنی رکھی ہوئی چیز) کہا جاتا ہے۔فارسی کا ایک محاورہ ہے: 'داشتہ آید بکار' (یعنی رکھی ہوئی چیز کام آہی جاتی ہے)۔ محترم مختار مسعود کے 'خان صاحب' کا خیال ہے کہ 'داشتہ' کے ساتھ صرف 'نابکار' کا لفظ جچتا ہے۔ خیر یہ اپنے اپنے تجربے کی بات ہے۔ جب کہ ضمیر جعفری صاحب اپنے مشاہدے کے مطابق دونوں کا فرق یوں بیان کرتے ہیں کہ:
'بیویاں آیند بہ رکشا، داشتہ آید بہ کار'
آج کل ہمارے ذرائع ابلاغ میں بات بات پر بیویوں کی بات ہو رہی ہے۔ بیش تر تو یہ ذرائع ابلاغ پر بیٹھی ہوئی بیبیاں ہیں جو بیویوں کی بابت سوال کرتی ہیں۔کچھ ہیجان ۔۔۔ بالخصوص ہمارے ذرائع ابلاغ میں ۔۔۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے ایک اعلان نے بھی پیدا کر دیا ہے، جس کے سربراہ مولانا شیرانی ہیں۔ اُنھوں نے فرمایا ہے کہ دوسرے نکاح کے لیے پہلی منکوحہ سے اجازت لینا از رُوئے شرع ضروری نہیں۔ کیا غلط کہا ہے؟ آپ کسی بھی میاں (اور اُس کی بیوی سے بھی) پوچھ کر دیکھ لیجیے کہ: '' میاں جی کون کون سے کام (پہلی) بیوی سے اجازت لے کر کرتے ہیں؟''جو جواب آئے اُس سے ہمیں بھی مطلع کیجیے گا۔ جب یہی سوال پروفیسر عنایت علی خان نے اسلامی نظریاتی کونسل کے ایک ناقد سے کیا تووہ ہنسا اور اُس نے جواب دیا:''کس کس سے اجازت لیجیے؟''
گھر میں بیوی ہے، آفس میں سِکریٹری
نور اپنی جگہ، نار اپنی جگہ
سچ پوچھیے تو تعدد ازواج اُن کا مسئلہ ہی نہیں جو اس پر چیخ پکارکر رہے ہیں۔اُن کا مسئلہ کچھ اور ہے۔مسلمانوں پر اعتراض غیر مسلموں کو ہے کہ اُنھیں قرآن مجید بیک وقت چار بیویاں رکھنے کی اجازت کیوں دیتا ہے؟ یہ تو بڑا ظلم ہے۔ (کس پر؟)۔ مگرجن معاشروں میں ایک بیوی کی موجودگی میں دوسری بیوی لانا قانوناً جرم ہے، اُن میں سے کسی بھی معاشرے میں جا کر جانچ لیجیے کہ کیا اُس معاشرے کے ہر مرد نے اپنی اکلوتی بیوی کے سوا کسی سے تعلقات نہیں رکھے ہوئے ہیں؟ اعداد و شمار کا جائزہ لیجیے اور فیصد نکالیے کہ اُن معاشروں کے کتنے مرد ایسے ہیں جو صرف اپنی ذاتی اور سگی بیوی سے ہی تعلقات رکھتے ہیں؟
اب آئیے ہمارے معاشرے کی طرف۔ اجازت کے باوجود پورے معاشرے میں آپ کو کتنے مرد ایسے ملتے ہیں جن کی ایک سے زائد بیویاں ہیں؟ یقیناخود آپ بھی ایسے ہزاروں عام مسلمانوں سے واقف ہوں گے جن کی ایک ہی بیوی ہے اورخوفِ خدا کی وجہ سے اُن کے کسی دوسری خاتون سے ناجائز تعلقات بھی نہیں۔ بیک وقت چار خواتین سے جائز تعلق رکھنے کی سہولت ملنے کے باوجود عام مسلمانوں کی اکثریت فقط ایک ہی بیوی پر گزارہ کرتی ہے اور اُسی کے ساتھ تمام عمر گزار دیتی ہے۔ کیا ایسا اُس معاشرے میں بھی ہوتا ہے جہاں ایک بیوی کی موجودگی میں دوسری بیوی ہر مرد پر حرام ہے؟
اداکار محمود اسلم صاحب نے مذکورہ ٹیلی وژن پروگرام میں بڑی تفصیل سے بتایا کہ اُن کی پہلی شادی 'محبت کی شادی' ہے۔ (ممکن ہے کہ کوئی شادی 'نفرت کی شادی' بھی ہوتی ہو)۔ اُنھوں نے اپنی محبت کے تمام مراحل، قدم بہ قدم، بیان فرمائے۔ پھر یہ بتا یا کہ اُن کی دوسری شادی 'ضرورت کی شادی' تھی۔مگر اس ضمن میں اُنھوں نے صرف اتنا کہاکہ:
''کام کے سلسلے میں کراچی میں کافی رہنا ہوا۔گھر سے دور رہا تو میں نے کراچی میں بھی شادی کر لی۔پہلی بیوی لاہور اور دوسری کراچی میں ہے۔ کچھ چیزیں نہ چاہتے ہوئے بھی ہو جاتی ہیں۔میں نے سوچا کہ گناہ سے بہتر ہے کہ دین کی تعلیمات کے مطابق دوسری شادی کر لی جائے''۔
محمود اسلم صاحب کا یہ معذرت خواہانہ رویہ صرف اس وجہ سے ہے کہ اُنھوں نے 'گناہ کرنے' کی بجائے 'دوسری شادی' کر لی۔ اگر گناہ کر لیتے تو کسی ٹی وی پروگرام میں اُن سے کسی کو یہ باز پُرس کرنے کی جرأت نہ ہوتی کہ تم نے گناہ کیوں کر لیا؟ دوسری شادی کیوں نہ کی؟ بہت سے لوگ دوسری شادی کرنے کو 'گناہ کر لینے ' سے بڑا جرم تصور کرتے ہیں۔کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی ٹی وی پروگرام میں 'گناہ کرلینے' کی مذمت کی گئی ہو۔دوسری شادی کے خلاف البتہ متعدد 'مذموم' پروگرام نشر ہو چکے ہیں۔
دوسری شادی کے خلاف ایک دلیل یہ بھی دی جاتی ہے کہ یہ 'انصاف کرنے' سے مشروط ہے۔ دلیل بالکل ٹھیک ہے۔انصاف کی شرط عائد کی گئی ہے۔ لیکن اگر کوئی 'گناہ کر لے' تو اُس سے کوئی 'انصاف کرنے' کا مطالبہ بھی نہیں کرتا۔بھلا'گناہگار' سے انصاف کی توقع کیسی؟ تو کیا یہ دوسری شادی کرنے والے کے ساتھ 'نا انصافی' نہیں ہے کہ وہ تو 'شادی' کرکے مہر اور نان نفقہ سمیت بہت سی 'عمرقید' قسم کی ذمہ داریاں اپنے سر لے لیتا ہے۔ جب کہ 'گناہ کرلینے' کے نتائج عموماًمرد کو نہیں بھگتنے پڑتے۔ لیکن تعجب کی بات یہ ہے کہ 'دوسری شادی' کی مخالفت زیادہ تر خود خواتین کی طرف سے ۔۔۔ اور بالخصوص 'خواتین کے حقوق کی جنگ' لڑنے والی خواتین کی طرف سے۔۔۔ کی جاتی ہے۔ حالاں کہ 'نکاح' سے حقوق ملتے ہیں اور 'گناہ' سے کچھ بھی نہیں ملتا۔بقول حضرتِ بیدلؔ جونپوری:
میری جاں تجھ کو گراں بارِ محبت کر کے
ہو گیا غیر جو روپوش تو پھر کیا ہوگا