گڈمسلم
سینئر رکن
- شمولیت
- مارچ 10، 2011
- پیغامات
- 1,407
- ری ایکشن اسکور
- 4,912
- پوائنٹ
- 292
ديوبنديوں کے چند خطرناک عقائد
ہندستان کا ايک شہر ديوبند ہے۔ جس کی نسبت تين قسم کے لوگ ہيں:
پہلا ذکر ميری اس بحث سے خارج ہے، دوسرا ذکر اگر علماء ديوبند کا ہم عقيدہ و ہم مسلک نہيں ہے تو وہ بھی اس بحث سے خارج ہے اور اگر وہ ہم عقيدہ و ہم مسلک ہے تو وہ بھی اس ميں شامل ہے۔ تيسرے کا اور علماء ديوبند کا ايک ہی حکم ہے۔1۔ديوبند کا رہنے والا، چاہے ہندو ہو يا مسلمان
2۔مدرسہ ديوبند کا پڑھا ہوا يا فارغ تحصيل
3۔علماء ديوبند کا ہم عقيدہ و ہم مسلک شخص
ميں علماء ديوبند کے چند خطرناک عقائد پر روشنی ڈال رہا ہوں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ ديوبنديں کی بد اعتقادى اوركفر وشرك بر مبنى عقائد دين ميں انتہائی شديد اور خطرناک ہيں۔
1۔عقيدہ وحدت الوجود
حاجی امداد اللہ (مہاجر مکی) نے کہا ہے کہ:
وحدت الوجود کا مطلب ہے کہ:" نکتہ شناسا مسئلہ وحدت الوجود حق و صحيح ہے۔ اس مسئلے ميں کوئی شک و شبہ نہيں ہے۔ فقير و مشائخ فقير اور جن لوگوں فقير سے بیعت کی ہے سب کا اعتقاد يہی ہے مولوی قاسم مرحوم و مولوی رشيد احمد و مولوی يعقوب، مولوی احمد حسن صاحب ہم فقير کے عزيز ہيں اور فقير سے تعلق رکھتے ہيں۔ " ( شمائم امداديہ ص 32 و کليات امداديہ ص 218)
تمام موجودات کو اللہ کا وجود خيال کرنا۔ اور وجود ماسوی کو محض اعتباری سمجھنا، جيسے قطرہ حباب ، موج اور قعر وغيرہ سب کو پانی معلوم کرنا۔ (حسن اللغات فارسی اردو ص 641)
حاجی امداداللہ مہاجر مکی کے بارے ميں اشرف علی تھانوی فرماتے ہيں کہ:صوفيوں کی اصطلاح ميں تمام موجودات کو اللہ کا وجود ماننا اور ماسوا کے وجود کو محض اعتباری سمجھنا۔ ( علمی اردو لغت، تصنيف وارث سرہندی ص 1551)
حاجی امداد اللہ صاحب لکھتے ہيں کہ:"حضرت صاحب کے وہی عقائد ہيں جو اہل حق کے ہيں" (امداد فتاوی ج5 ص270)
حاجی صاحب مزيد لکھتے ہيں کہ:"اس مرتبے ميں خدا کا خليفہ ہو کر لوگوں کو اس تک پہنچا تاہے اور ظاہر ميں بندہ اور باطن ميں خدا ہوجاتا ہے اس مقام کو برزخ البرازخ کہتے ہيں" ( کليات امداديہ/ ضياء القلوب ص 35،36)·
رشيد احمد گنگوہی نے اللہ پاک کو مخاطب ہوتے ہوئے لکھا ہے:اور اس کے بعد اس کو ہوہوہو کے ذکر ميں اس قدر منہک ہوجانا چاہئے کہ خود مذکور (اللہ) ہو جا ئے۔(کليات امداديہ ص18)
ضامن علی جلال آبادی نے ايک زانيہ عورت کو کہا:"يا اللہ معاف فرمانا کہ حضرت کے ارشاد سے تحرير ہوا ہے۔ جھوٹا ہوں کچھ نہيں ہوں۔ تيرا ضل ہے۔ تيرا ہی وجود ہے، ميں کيا ہوں، کچھ نہيں ہوں اور جو ميں ہوں وہ تو ہے اور ميں اور توخود شرک در شرک ہے"۔ استغفراللہ (مکاتب رشيديہ ص10 و فضائل صدقات حصہ دوم ص 556)
اس ضامن علی کے بارے ميں رشيد احمد گنگوہی نے مسکرا کر فرمايا:" بی تم شرماتی کيوں ہو؟ کرنے والا کون اور کرانے والا کون؟ وہ تو وہی ہے" استغفراللہ (تذکرۃ الرشيديہ ج2 ص 242)
خلاصہ يہ ہے کہ ديوبندی حضرات اس وحدت الو جود کے قائل ہيں جس ميں خالق و مخلوق، عابد و معبود، اور خدا اور بندے کے درميان فرق مٹا ديا جاتا ہے۔" ضامن علی جلال آبادی تو توحيد ہی ميں غرق تھے" (ايضا`` ص 242)
2۔شرکيہ عقائد
حاجی امداد اللہ اپنے پير نور محمد کے بارے ميں فرماتے ہيں:
آسرا دنيا ميں ہے ازبس تمہاری ذات کا
تم سوا اوروں سے ہرگز نہيں ہے التجا
بلکہ دن محشر کے بھی جس وقت قاضی ہو خدا
آپ کا دامن پکڑ کر يہ کہوں گا برملا
اے شہ نور محمد وقت ہے امداد کا
تم سوا اوروں سے ہرگز نہيں ہے التجا
بلکہ دن محشر کے بھی جس وقت قاضی ہو خدا
آپ کا دامن پکڑ کر يہ کہوں گا برملا
اے شہ نور محمد وقت ہے امداد کا
(شمائم امداديہ ص83،84 امداد المشتاق، فقرہ: 288 )
حاجی صاحب نے رسول اللہﷺ کے بارے ميں فرمايا ہے:يا رسول کبريا فرياد ہے يا محمد مصطفی فرياد ہے
آپ کی امداد ہو ميرا يا نبیۖ حال ابتر ہو فرياد ہے
سخت مشکل ميں پھنسا ہوں آج کل
اے ميرے مشکل کشا فرياد ہے
آپ کی امداد ہو ميرا يا نبیۖ حال ابتر ہو فرياد ہے
سخت مشکل ميں پھنسا ہوں آج کل
اے ميرے مشکل کشا فرياد ہے
( کليات امداديہ ص 90،91)
محمد يوسف لدھيانوی ديوبندی لکھتے ہيں کہ:ظاھر ہے اگر دونوں کے عقائد ہی ايک جيسے ہيں تو يہ جھگڑا اور تماشا کس بات کا،؟ کيا يہ سيدھے سادھے مسمانوں کو بيو قوف بنانے کا طريقہ نہيں ہے! اللہ بچائے ان صوفيوں اور بدعتيوں سے۔آمينيہی عقيدہ بريلويوں کا ہے ليکن ديوبندی اور بريلوی اختلاف کی کوئی بنياد ميرے علم ميں نہيں ہے۔ (اختلاف امت اور صراط مسطقيم ج 1 ص 38 )
3۔اکابر پرستی اور غلو
ديوبندی حضرات اپنے اکابر کے بارے ميں سخت غلو کرتے ہيں، مولوی محمد الياس ديوبندی، بانی جماعت تبليغ کی نانی کے بارے ميں لکھتے ہيں:
اس گندگی کے بارے ميں عاشق الهى ديوبندی ميرٹھی نے لکھا ہے کہ:" جس وقت انتقال ہوا تو ان کپڑوں ميں کہ جن ميں آپ کا پاخانہ لگ گيا تھا عجيب و غريب مہک تھی کہ آج تک کسی نے ايسی خوشبو نہيں سونگھی" (تزکرہ مشائخ ديوبند ص 96، تصنيف مفتی عزيز الرحمان)
پا خانہ کو ديوبنديوں کا تبرک بنا کر رکھنا تو آپ نے پڑھ ليا۔ اب آئیے ان کی نبیﷺ کے شان ميں گستاخيوں پر بھی نظر کار فرما ئیے۔" پوتڑے نکالے گئے جو نيچے رکھہ ديے جاتے تھے تو ان ميں بدبو کی جگہ خوشبو اور ايسی نرالی مہک پھوٹتی تھی کہ ايک دوسرے کو سونگھتا اور ہر مرد اور عورت تعجب کرتا تھا چنانچہ بغير دھلوائے ان کو تبرک بنا کر رکھہ ديا گيا۔ (تزکرۃ الخليل ص 96،97)
4۔ گستاخياں
ماسٹر امين اوکاڑوی ديوبندی ايک صحيح حديث کا مذاق اڑاتے ہوئے لکھتے ہيں:
بعض اوقات نبیﷺ سری نمازوں میں ايک دو آيات جہراً پڑھ ليتے تھے اس کے بارے ميں اشرف علی تھانوی لکھتے ہيں کہ:" ليکن آپﷺ نماز پڑھتے رہے اور کتيا سامنے کھيلتی رہی، اور ساتھ گدھی بھی تھی، دونوں کی شرمگاہوں پر بھی نظر پڑتی رہی" ( مجموعہ رسائل ج3 ص 350 طبع ستمبر 1994)
يہ دو حوالے بطور نمونہ لکھے گئے ہيں ورنہ ديوبنديوں کی گستاخياں بہت زيادہ ہيں۔" اور ميرے نزديک اصل وجہ یہ ہے کہ آپ پر ذوق کی حالت غالب ہوئی تھی جس ميں یہ جہر واقع ہوجاتا تھا اور جب کہ آدمی پر غلبہ ہوتا ہے تو پھر اس کو خبر نہيں رہتی کہ کيا کر رہا ہے" ( تقرير ترمزی ص 711)
5۔ختم نبوت پر ڈاکہ
ہميں مسجدوں سے نکالنے والوں کا ختم نبوت کے بارے ميں عجيب و غريب عقيدہ ہے۔ محمد قاسم نانوتوی بانی مدرسہ ديوبند صاحب لکھتے ہيں کہ:
قاری محمد طيب ديوبندی نے لکھا ہے کہ:" بلکہ اگر بالفرض بعد زمانہ نبی صلعم بھی کوئی نبی پيدا ہوتو پھر بھی خاتميت محمّد ميں فرق نہيں آئے گا۔ (تحذيرال...ناس ص 34)
حالانکہ صحيح حديث ميں آيا ہے کہ:"تو یہاں ختم نبوت کا يہ معنی سن لينا کہ نبوت کا دروازہ بند ہو گيا تو يہ دنيا کو دھوکہ دينا ہے۔ نبوت مکمل ہو گئی وہی کام دے گی قيامت تک، نہ يہ کہ منقطع ہو گئی اور دنيا ميں اندھيرا چھاگيا۔ ( خطبات حکيم الااسلام ج1 ص39)
رہا يہ کہنا کہ" اندھيرا پھيل گيا" تو يہ طيب صاحب کی گپ ہے جس کا حقيقت سے کوئی تعلق نہيں۔’’ ان الرسالة والنبوة قد انقطعت ‘‘( الترمزی 2272 وقال صحيح غريب)
بيشک رسالت و نبوت منقطع ہو گئی