عبد الرشید
رکن ادارہ محدث
- شمولیت
- مارچ 02، 2011
- پیغامات
- 5,402
- ری ایکشن اسکور
- 9,991
- پوائنٹ
- 667
علم اللہ اصلاحی
انسانی سماج کے لئے نہ تو جنگ کوئی نیا لفظ ہے اور نہ ہی دہشت گردی۔شاید انسانی سماج کے آغاز اور مختلف تہذیبوں کی ترقی اور تباہی کے تقریبا ہر صفحے پر اس کی مہر لگی ہوئی ہے۔یہاں تک کہ انسانیت، محبت، امن اور خدا پر ایمان و یقین رکھنے والے افراد اور ان کے ٹھیکیداروں نے بھی ،جن کا کوئی مذہب ہی نہیں ان کی بات ہی الگ ہے، نے اپنے اپنے مذہب کی تبلیغ کرنے ،فکر و فلسفہ کی ترویج نیزاپنے ابلیسی نظام کی اشاعت کے لئے وقتاً فوقتاً اس کا سہارا لینے سے گریز نہیں کیاہے اور نہ کر رہے ہیں۔اس کی تازہ مثال شام میں ظالموں کے ذریعہ کیمیائی گیس سے ہزاروں لوگوں کا جابرانہ اور وحشیانہ قتل ہے۔اس نام نہاد فتح و کامرانی کی خواہش نے انسانوں کو ہر دور میں جنگ کے نئے نئے وسائل کی تلاش میں لگائے رکھا ہے۔جسمانی جنگ، مہارت میں کارکردگی، تیر، تفنگ ، تلوار، برچھی ، گولی ، بندوق،توپ ، بارود، بم وغیرہ کی حدیں پار کرتے ہوئے آج انسان کیمیائی ہتھیاروں اور میزائل کے ذخیرے پر کھڑا نہ صرف خود اپنی ہلاکت کا سامان کر رہا ہے بلکہ نسل انسانی کی تباہی کی جانب ایک قدم اور بڑھاتے ہوئے اب تباہ کن حیاتیاتی اور کیمیائی ہتھیاروں کی تلاش میں لگا ہوا ہے ۔ایسے حیاتیاتی اور کیمیائی ہتھیار جن کی مدد سے ہزاروں لاکھوں لوگوں کو پل بھر میں موت کی نیند سلایا جا سکتا ہے یا پھر طرح طرح کی بیماریوں کی زد میں لا کر سسک سسک کرجینے مرنے کے لئے مجبور کیا جا سکتا ہے۔
جب تک لوگوں کو اس قسم کے حملے کی معلومات ہوگی تب تک شاید بہت دیر ہو چکی ہوگی۔مجھے حیرت تو سب سے زیادہ اس بات کی ہے کہ جو قوم ان کی تلاش میں سب سے آگے آگے دوڑ رہی ہے وہی آج اس سے سب سے زیادہ ڈرے اور سہمے ہوئے ہے اور اس کے لئے اس قدر معصوموں کا خون کرنے میں مصروف ہے کہ کہیں دہشت گردی کے خاتمہ کی آڑ میں تو کہیں انسانیت کے تحفظ کا ریاکارانہ سہارا لے کرمعصوموں کا بے دریغ قتل کرنے سے بھی گریزاں نہیں ہے۔انھیں خوف ہے کہ کوئی نام نہاد غیر ذمہ دار حکومت یا دہشت گرد گروہ ایسے ہتھیاروں کو نہ تیار کر لے یا کہیں سے انہیں قبضہ میں نہ لے لے۔