• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

دہشت گردی کے انتہائی وسائل حیاتیاتی اور کیمیائی ہتھیار​

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
علم اللہ اصلاحی​
انسانی سماج کے لئے نہ تو جنگ کوئی نیا لفظ ہے اور نہ ہی دہشت گردی۔شاید انسانی سماج کے آغاز اور مختلف تہذیبوں کی ترقی اور تباہی کے تقریبا ہر صفحے پر اس کی مہر لگی ہوئی ہے۔یہاں تک کہ انسانیت، محبت، امن اور خدا پر ایمان و یقین رکھنے والے افراد اور ان کے ٹھیکیداروں نے بھی ،جن کا کوئی مذہب ہی نہیں ان کی بات ہی الگ ہے، نے اپنے اپنے مذہب کی تبلیغ کرنے ،فکر و فلسفہ کی ترویج نیزاپنے ابلیسی نظام کی اشاعت کے لئے وقتاً فوقتاً اس کا سہارا لینے سے گریز نہیں کیاہے اور نہ کر رہے ہیں۔اس کی تازہ مثال شام میں ظالموں کے ذریعہ کیمیائی گیس سے ہزاروں لوگوں کا جابرانہ اور وحشیانہ قتل ہے۔
اس نام نہاد فتح و کامرانی کی خواہش نے انسانوں کو ہر دور میں جنگ کے نئے نئے وسائل کی تلاش میں لگائے رکھا ہے۔جسمانی جنگ، مہارت میں کارکردگی، تیر، تفنگ ، تلوار، برچھی ، گولی ، بندوق،توپ ، بارود، بم وغیرہ کی حدیں پار کرتے ہوئے آج انسان کیمیائی ہتھیاروں اور میزائل کے ذخیرے پر کھڑا نہ صرف خود اپنی ہلاکت کا سامان کر رہا ہے بلکہ نسل انسانی کی تباہی کی جانب ایک قدم اور بڑھاتے ہوئے اب تباہ کن حیاتیاتی اور کیمیائی ہتھیاروں کی تلاش میں لگا ہوا ہے ۔ایسے حیاتیاتی اور کیمیائی ہتھیار جن کی مدد سے ہزاروں لاکھوں لوگوں کو پل بھر میں موت کی نیند سلایا جا سکتا ہے یا پھر طرح طرح کی بیماریوں کی زد میں لا کر سسک سسک کرجینے مرنے کے لئے مجبور کیا جا سکتا ہے۔
جب تک لوگوں کو اس قسم کے حملے کی معلومات ہوگی تب تک شاید بہت دیر ہو چکی ہوگی۔مجھے حیرت تو سب سے زیادہ اس بات کی ہے کہ جو قوم ان کی تلاش میں سب سے آگے آگے دوڑ رہی ہے وہی آج اس سے سب سے زیادہ ڈرے اور سہمے ہوئے ہے اور اس کے لئے اس قدر معصوموں کا خون کرنے میں مصروف ہے کہ کہیں دہشت گردی کے خاتمہ کی آڑ میں تو کہیں انسانیت کے تحفظ کا ریاکارانہ سہارا لے کرمعصوموں کا بے دریغ قتل کرنے سے بھی گریزاں نہیں ہے۔انھیں خوف ہے کہ کوئی نام نہاد غیر ذمہ دار حکومت یا دہشت گرد گروہ ایسے ہتھیاروں کو نہ تیار کر لے یا کہیں سے انہیں قبضہ میں نہ لے لے۔
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
اس سلسلہ میں یہ بات کسی سے مخفی نہیں ہے کہ خلیج کی جنگ کے وقت امریکہ جیسی سپر پاور کو عراق کے نام نہاد حیاتیاتی اور کیمیائی ہتھیاروں کا ڈر سب سے زیادہ ستا رہا تھا کیونکہ ان کی خفیہ نظام کی معلومات کے مطابق عراق نے ایسے ہتھیاروں کے سلسلے میں وسیع تحقیق کی تھی اور ان کو بڑی مقدار میں جمع کر رکھا تھا۔ تاہم اس جنگ میں ان کا خوف بے بنیاد ثابت ہوا۔اسی معاملہ کو لے کر ایران اور بعض دوسرے ممالک کو بھی دھمکیاں دی جاتی رہتی ہیں۔اور یہ بات بھی اپنی جگہ بالکل مسلم ہے کہ 2009 میں مبینہ طور پر 11 ستمبر کو ورلڈ ٹریڈ سینٹر پرکی تباہی کے بعد حیاتیاتی اور کیمیائی ہتھیاروں کے حملے کا خوف امریکہ کوزیادہ ستانے لگاہے۔ اس کو سب سے بڑا ڈر عراق جیسے ممالک سے تھا کیوں کہ اس کا خیال تھا کہ یہ ملک دہشت گردوں کو پناہ دیتا ہے اور ان کو ایسے ہتھیار بھی دے سکتا ہے یا پھر خود اس کا غلط استعمال کر سکتا ہے۔اسی خوف کی وجہ سے عراق پر حملہ بھی کیا گیا اور ایسے ہتھیاروں کی تلاش وہاں آج بھی چل رہی ہے، جس میں فی الحال کوئی قابل ذکر کامیابی نہیں ملی ہے۔
ان تباہ کن تمام صورتحال کو دیکھ اور سن کر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر یہ ہتھیارکیا ہیں ، یہ کس طرح کام کرتے ہیں؟ اور لوگ ان سے کیوں ڈرے ہوئے ہیں ؟۔یہ بھی سب ہی جانتے ہیں اس کے باوجود اس کا استعمال دھڑلے سے کیوں ہو رہا ہے ؟جب ہم اس کی گہرائی میں جاتے ہیں تو پتہ چلتا ہے۔اپنا مفاد ،اپنا فائدہ اور اپنے مقصد کی حصولیابی کے لئے یہ سب کیا جاتا ہے۔اس سلسلہ میں جب ہم تاریخ کے اوراق کو پلٹ کر دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ سب سے پہلے، کیمیائی ہتھیار کے طور پر کلورین گیس کا غلط استعمال جرمنی نے پہلی عالمی جنگ عظیم میں مؤثر طور پر کیا تھا۔ اس میں جرمنی کا کیا مقصد پوشیدہ تھا یہ بھی سب پر عیاں ہے۔
بتایا جاتا ہے کہ یہ گیس آسانی سے کسی بھی فیکٹری میں عام نمک کی مدد سے بنائی جا سکتی ہے اور اس کے ضمنی اثرات براہ راست پھیپھڑوں پر پڑتے ہیں۔ یہ گیس پھیپھڑوں کے ٹشوز کو جلا کر تباہ کردیتی ہے۔ جرمنی نے اس گیس کی کئی ٹن مقدار ماحول میں چھوڑ کر ایک قسم کا مصنوعی بادل بنانے میں کامیابی حاصل کی اور ہوا کے بہاوکے ساتھ اسے وہ دشمن کی طرف بھیجنے میں کامیاب ہوئے۔ اس گیس کی خوفناک طاقت کو ذہن میں رکھ کر 1925 میں اس جیسے کسی بھی زہریلے کیمیکل اور بیماریاں پھیلانے والے جراثیم کے ہتھیار کے طور پر غلط استعمال کو محدود کرنے کے لئے ایک معاہدے پر دنیا کے زیادہ تر ممالک نے دستخط کئے۔ پھر بھی اس سلسلے میں چوری چھپے تحقیقی کام جاری رہا تاکہ ان کا استعمال اور بھی موثر اور منظّم طور پر کیا جا سکے۔ اس بابت تمام قانون و قائدہ کی دھجیاں اڑانے والے دوسری عالمی جنگ کے وقت جرمنی میں ہٹلر کے بدنام زمانہ گیس چیمبرس سے بھلا کون ناواقف ہوگا؟
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
آج کل سائنسدان کیڑے مارنے والے ادویات میں پائے جانے والے بہت سے زہریلے کیمیکلز کو بھی موثر ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کے لئے تجربات کر رہے ہیں ۔ ان کیمیکلز کے ضمنی اثرات کی شدت کا اندازہ ہم ہندوستان میں بھوپال گیس حادثہ سے لگا سکتے ہیں،جہاں ادویات بنانے والی کاربائیڈ فیکٹری میں حادثہ کی صورت میں 2 دسمبر 1984 کے دن ٹاکسک اور بیماریاں پھیلانے والے بیکٹیریا کی شدت سے لگا سکتے ہیں۔ کچھ ہی لمحوں میں ہزاروں کی جانیں سوتے سوتے ہی چلی گئیں اور لاکھوں افراد آج بھی اس کے ضمنی اثرات کو جھیل رہے ہیں۔اسی طرح چھوٹے پیمانے پر 1995 میں ''مسنر و ''نامی دہشت گرد تنظیم کے لوگوں نے ٹوکیو شہر کے ایکاس میں اعصابی نظام کو متاثر کرنے والی گیس کا رساؤکر کے ہزاروں لوگوں کو پل بھر میں زخمی کر دیا اور بارہ لوگوں کو موت کی نیند سلا دیاتھا۔ کہا جاتا ہے کہ صدام حسین کے سپہ سالاروں نے عراق میں کردوں کی بغاوت کو دبانے کے لئے شاید ایسے ہی کسی کیمیائی ہتھیار کا استعمال کر کے ہزاروں بے گناہوں کو موت کی آغوش میں پہنچا دیا تھا۔
فی زمانہ ہتھیاروں کے معاملے میں تکنیکی ترقی نے ایسے حالات پیدا کر دیئے ہیں، جہاں انسانیت کے خلاف عمل کرنے والے لوگوں کو تازہ ترین ہتھیار قبضہ کرنے کا موقع مل جاتا ہے اور وہ زیادہ سے زیادہ بربادی اور دہشت پھیلا سکتے ہیں اور پھیلا رہے ہیں۔ بدقسمتی سے اب تک وسیع قتل عام والے ہتھیاروں کی پیداوارکے ذخیرہ اور استعمال پر پابندی نہیں ہے۔ اگرچہ بعض ممالک نے ان ہتھیاروں پر کنٹرول کے لئے اور ایٹمی ہتھیاروں کے قوانین کے لئے قرارداد بھی منظور کی ہوئی ہے۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے کئی طرح کی کانفرنسیں کی گئیں وہ بھی سب پر واضح ہے۔ خبریں بتاتی ہیں کہ پوری دنیا میں تقریبا 36000 ایٹمی ہتھیار ہیں۔ ان میں روس کے پاس سب سے زیادہ 22،500 ہتھیار ہیں جبکہ امریکہ کے پاس 12070، فرانس کے پاس 500، چین کے پاس 450، برطانیہ کے پاس 380، ہندوستان کے پاس 65 اور پاکستان کے پاس 25 جوہری ہتھیار ہیں۔ ان سب کے علاوہ دنیا کے 80 ممالک نے وسیع قتل عام والے کیمیائی اور حیاتیاتی ہتھیار بنا لئے ہیں۔ امریکہ نے 1200 سے زیادہ جوہری ٹیسٹ کیے ہیں تو روس نے تقریبا 1000، برطانیہ نے تقریبا 45، فرانس نے 210، چین نے 50 اور ہندوستان نے تقریبا 10 جوہری ٹیسٹ کیے ہیں۔ پاکستان نے بھی تقریبا 10 کے آس پاس جوہری ٹیسٹ کیے ہیں، ایران، عراق، شمالی کوریا جنوبی کوریا اور لیبیا نے بھی رپورٹ کے مطابق ایٹمی ہتھیار پروگرام چلا رکھے ہیں۔ یہی بات اسرائیل کے تناظر میں بھی کہی جا رہی ہے بلکہ اس نے تو تمام حدود کو پار کر دیا ہے۔
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
لیکن انسانیت کے لئے اس کی زہر ناکی اور خطرناکی کی جانب کوئی توجہ نہیں دے رہا ہے۔حالانکہ تحقیقات بتاتی ہیں کہ یہ حیاتیاتی کیمیائی عناصر جاندار کو جیسے ہی مس کرتی یا اس کے جسم میں داخل ہوتی ہے اپنا عمل شروع کر دیتی ہے اور اس کا انجام آخر کار زندگی سے خاتمہ ہی ہوتا ہے۔یہ کس طرح عمل کرتی ہے اس بابت ماہرین کا کہنا ہے کہ اولین صورت میں یہ عضلات کے معلومات کے نظام کی خلیات کے لئے "ایسی ٹل کولین " نامی کیمیکل کا اخراج کرتی ہیں۔ اور چونکہ پٹھوں کا بھی نظام کی ترسیل پر ہی انحصارہوتا ہے۔اس لئے اگر اعصاب نظام کے خلیات سے ایسی ٹل کولین کو نہ ہٹایا جائے تو ہمارے جسم کااعصابی نظام پورے طور سے مسلسل تنگ ہونے لگتا ہے۔ اور اگر ایساسینہ اور پیٹ کو الگ کرنے والے ڈائی فرام کے پٹھوں کے ساتھ ہوا توانسان گھٹ کر مر جائے گا۔ایسی ٹل کولین کو اعصابی نظام کے خلیات سے دور کرنے کے لئے کولینسٹریز نامی اینزائم کی ضرورت پڑتی ہے ۔جبکہ سیرین اور وی ایکس ' جیسی زہریلی گیسیں مندرجہ بالا اینزائم سے رد عمل کر کے ایسی ٹل کولین کو ہٹانے کے کام میں رکاوٹ پیدا کرتی ہیں، نتیجہ میں مبتلا شخص کی موت کچھ ہی لمحات میں دم گھٹنے سے ہو جاتی ہے۔ ہمارے پھیپھڑوں میں مندرجہ بالا گیسوں کی ایک ملی گرام کی مقدار ہی زندگی کو ختم کرنے کے لئے کافی ہے۔مسٹرڈ اور لیوسائٹ جیسی گیسوں کے ضمنی اثرات جلد پر چھالے اور پھیپھڑوں کے ٹشو کی تباہی کے طور پر دیکھی جا سکتی ہیں۔مسٹرڈ گیس کا استعمال تو پہلی عالمی جنگ کے وقت سے ہی ہے۔ اس کی دس ملی گرام کی مقدار ہی موت کے لئے کافی ہے۔ ویسے تو بہت سے زہریلے کیمیکل ہیں جن کا غلط استعمال کیمیائی ہتھیاروں کے طور پر ہو سکتا ہے، لیکن مندرجہ بالا کیمیکل سب سے زیادہ خطرناک ہوتے ہیں۔
ماہرین بتاتے ہیں کہ زیادہ تر بیماریوں کی جڑ میں جراثیم ہوتے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ بایوٹکس اور اسی طرح کی دیگر ادویات کی تلاش سے پہلے طاعون اورہیضہ جیسی بیماریوں نے سینکڑوں ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کی جانیں لی ہیں اور آج بھی انسان ایڈز،کینسراور سارس جیسی بیماریوں سے نجات حاصل کا راستہ تلاش کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ یہ کیسی ستم ظریفی ہے کہ دوسری طرف انسان انہیں بیکٹیریا کو ہتھیار کے طور استعمال کر کے ہزاروں لاکھوں جاندار کی جان لینے کی فکر میں الجھا ہوا ہے۔اس بات سے سے واقف ہوتے ہوئے بھی کہ یہ صورتحال نیوکلئیر اور کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال سے تباہ کن اور خطرناک ہے۔ جو ممالک دشمن کی دہائی کا رونا رو کر یا اپنی دادا گیری دکھا کراس کی افزونی میں لگی ہوئی ہیں اگر خدا نخواستہ کچھ ہو گیا تو وہ کیا کریں گے ؟کیونکہ سے حملے کے لئے کسی جدیداسلحہ کی ضرورت نہیں ہوگی۔ انہیں تو بس چھوٹے موٹے جانوروں، پرندوں، ہوا، پانی، انسان وغیرہ کسی بھی ذریعہ سے پھیلایا جا سکتا ہے۔ سارس کو پھیلانے میں انسانی دماغ کس طرح ذرائع کا کام کر رہا ہے ۔ یہ اس عمل کا محض ایک مثال بھر ہے۔
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
سائنسداں کھاد پر بھی تحقیق میں لگے ہوئے ہیں جبکہ یہ ثابت شدہ ہے کہ اگر ہم انسانی یا حیوانی فضلہ سے بنی کھاد کو کنویں، تالاب، پانی کی ٹنکی میں ملا دیں تو اس پانی کو انجانے میں پینے والے طرح طرح کی خطرناک اور جان لیوا بیماریوں کا شکار ہو جائیں گے کیوں کہ کھاد میں طرح طرح کے خطرناک اور جان لیوا جراثیم پلتے ہیں۔ نتیجہ کے طور پر ان کا استعمال کسی دشمن ملک نے کب کیا، یہی معلوم کرنا مشکل ہوگا تو بھلا ہم ان سے لڑیں گے کس طرح۔ اور اگر کسی طرح ان کے بارے میں پتہ بھی کر لیں تو بھی کوئی فائدہ فائدہ ہو گا اس کی ضمانت کون دے گا ،یہ کبھی نہ ختم ہونے والا حادثہ ہوگا اس لئے کہ یہ کوئی بیماری پھیلانے والے عام بیکٹیریا تو ہیں نہیں، بلکہ جینیاتی طور پرتباہ کرنے والے ہیں، جن کے خلاف عام اینٹی بائٹک بھی کام نہیں کر پائیں گے۔ کیونکہ یہ جوہری پورے ماحول کو ہی خراب کرنے والے ہوں گے اور اس کی وجہ سے جو ہوا ہم سانس لیتے ہیں، جو کھانا ہم کھاتے ہیں اور جو پانی ہم پیتے ہیں سب آلودہ ہو چکا ہوگا۔جب تک ہم ان کے خلاف کارگر دوا کی تلاش کریں گے تب تک شاید بہت دیر ہو چکی ہوگی اور شاید پورے انسانیت ہی تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہوگی۔
حالانکہ یہ حیاتیاتی ہتھیار کے استعمال کا سب سے سستا لیکن بھونڈا طریقہ ہے۔ اب ذرا کچھ ایسے مثالوں پر توجہ دیتے ہیں جو اصل میں خطرناک ہیں اور لوگ جن سے سب سے زیادہ ڈرتے ہیں۔اینتھریکس(Anthrax) پھیلانے والا بیسلس اینتھریسس (Bacillus anthracis) نامی بیکٹیریا کو حیاتیاتی ہتھیار کے طور پر آسانی سے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ تاہم یہ بکٹریا متعدی نہیں ہے اور بنیادی طور پر جانوروں میں پھیلتا ہے، پھر بھی کھانے پینے سے سانس کے ساتھ اس کے جراثیم ہمارے جسم کے مسامات میں پہنچ کرجان لیواثابت ہو سکتے ہیں۔یہاں تک کہ ہماری جلد میں بھی اگر کوئی زخم ہے تو وہاں بھی یہ اثر انداز ہو سکتے ہیں اور کچھ ہی وقت میں اس بیماری کی جان لیوا علامات پیدا ہو سکتی ہیں۔سانس کے ساتھ ہمارے جسم میں آئے'' سپورس ''(Spores)سات سے دس دن کے اندداخل ہو کر بیماری کی علامات ظاہر لگتے ہیں۔ بخار، کھانسی، سردرد، قے، جاڑا، کمزوری، پیٹ اور سینے میں درد، سانس لینے میں دقت وغیرہ اس کی ابتدائی علامات ہیں، جو کچھ گھنٹے سے لے کر کچھ دن تک رہتے ہیں۔ پھر یہ علامات کچھ وقت کے لئے غائب بھی ہو سکتے ہیں۔ دوسری بار ان علامات سے سانس کی تکلیف، پسینے کے ساتھ بخار کے علاوہ جلد پر نیلے دھبوں کے ساتھ نتیجہ بالآخر موت کے طور پر ظاہر ہوتی ہیں۔
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
کھانے پینے کے ساتھ اینتھریکس کے اسپورس ہماری غذائی نالی میں پہنچ کرمتلی ، خونی قے، خونی اسہال، پیٹ درد وغیرہ کی علامات پیدا کرتے ہیں۔ 25 سے 60 فیصد لوگوں کی موت بھی ہو جاتی ہے۔ جلد پر اس کا اثر چھوٹے چھوٹے دانوں کے طور پر نظر آتا ہے جو جلد ہی پھوڑے کی شکل اختیار کر لیتا ہے جس سے پانی کی طرح پیپ بہتی رہتی ہے۔ ابتدائی علامات کے وقت اس کی تشخیص " سپرو فلاکسیسین (Ciprofloxacin) نامی " اینٹی بایو ٹک " کے ذریعے سے کیا جا سکتا ہے لیکن بعد میں صرف اس " ببیکٹیریا " کو تباہ کیا جا سکتا ہے، اس بیماری کو نہیں۔
ادھر اکیسویں صدی کے اوائل سے اس بیکٹریا کے ا سپورس کو پاوڈر کی شکل میں پوسٹ کے ذریعہ سے پھیلانے کی کوشش بھی دیکھنے میں آئی ہے ۔ جس سے امریکہ کے لوگ کافی دہشت زدہ ہو گئے تھے۔ اسمال پاکس جسے ہم چیچک کے نام سے بھی جانتے ہیں، صدیوں سے ایک جان لیوا بیماری کے طور میں بدنام رہی ہے۔ اس کی زد میں آکر لاکھوں لوگ اپنی جان گنوا بیٹھے اور اس سے بھی کئی گنا زیادہ لوگ اپنی آنکھیں گنوا چکے۔ کتنے تو چہرے اور جسم پر مستقل طور پر خوفناک داغ کے ساتھ بدصورتی کی زندگی گزارنے کے پابند ہوئے۔ انیسویں اور بیسویں صدی میں ویری ولا نامی وائرس سے پھیلنے والی اس بیماری سے ویویکسی نیشن کی مدد سے پوری دنیا کو نجات مل گئی۔ 1975 کے بعد اس بیماری کا کوئی مریض سامنے نہیں آیا ہے پھر بھی لوگوں کو خوف ہے کہ کہیں کوئی دہشت گرد گروہ یا کوئی سرپھرا فوجی ڈکٹیٹر اس وائرس کے کسی رد عمل کے طور پرجارحیت کا استعمال کبھی حیاتیاتی ہتھیار کی طرح نہ کر دے۔
اسی طرح'' ہیموریجک ''(Haemorrhagic)بخار پیدا کرنے والا آر اے نئے قسم کا ابولا وائرس بھی حیاتیاتی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس وائرس میں مبتلا مریض کی شناخت سب سے پہلے 1975 میں ڈیموکریٹک ریپبلک آف کانگو میں ہوئی تھی۔اس کے انفیکشن کے اثرات 2 سے 21 دنوں کے اندر نظر آتا ہے۔ بخار، سر درد، جوڑوں اور پٹھوں میں درد وغیرہ اس کی ابتدائی علامات ہیں. بعد میں دست، قے اور پیٹ درد کی علامات بھی پیدا ہوتے ہیں۔ کچھ مریضوں میں جلد پر ددورے، لال آنکھیں اور بیرونی اور اندرونی کمزوری وغیرہ علامات بھی دیکھنے کو ملتی ہیں۔اس بیماری سے کچھ مریض خود ٹھیک ہو جاتے ہیں تو کئی مر بھی جاتے ہیں۔بلکہ اس سے تو لاکھوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
''باٹیولن بیکٹیریا ''(Botyulin bacteria)کے ذریعہ سے پیدا زہر کے ایک گرام کا اربواں حصہ ہی ہمارے جسم میں' لقوہ ' فالج پیدا کرنے کے لئے کافی ہے۔یہ زہر اعصابی خلیوں سے ان کیمیکلز کا اخراج روک دیتا ہے جن کی طرف سے پٹھوں کا داخلہ ہوتا ہے۔ جانوروں میں کھر پکا بیماری پھیلانے والا ببیکٹیریا بھی حیاتیاتی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ساتھ ہی، ان وسائل کا استعمال دہشت گرد سرگرمیوں، ہتھیاروں کے لئے تحقیق اور تعمیر پر خرچ کیا جا رہا ہے،جب کہ ان کا استعمال دوسرے مثبت کاموں میں کیا جا سکتا ہے۔ دہشت گرد حملے نہ صرف زندگی چھینتے ہیں، بلکہ صحت،کی امید اور لوگوں کی توقعات کا بھی قتل کر دیتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی وہ مادی حقائق، رہن سہن اور رہائش، کھیتی، پل، ، ہسپتال اور باقی سہولیات کو بھی بگاڑ دیتے ہیں۔اس سے بنیادی ضروریا ت جیسے بجلی، پانی وغیرہ کی ترسیل میں بھی رکاوٹ پیدا ہو جاتی ہیں۔ کھیتی کی زمین زہریلی ہو جاتی ہے، سڑکوں اور گلیوں میں بیریر لگا دیے جاتے ہیں اور لوگوں تک ان کی رسائی مشکل ہو جاتی ہے۔اس طرح کے حملوں کا سیدھا مطلب تو یہ ہوتا ہے کہ لوگوں کو کھانا بھی نصیب نہیں ہوگا۔ پانی پینے کے قابل نہیں ہو گا، عمارتیں بری حالت میں اور ٹوٹی پھوٹی ہوں گی۔صحت کی سہولیات کا ملنا دوبھر ہو جائے گا اور دشمنی ختم ہونے کے بعد بھی لوگوں کی زندگی قابل رحم ہوگی۔
کیونکہ اس سے ہزاروں بچے جنگ اور دہشت گردانہ سرگرمیوں کی وجہ سے یتیم ہو جاتے ہیں۔ وہ غذائی قلت، بھوک اور بیماری کا بھی شکار ہوتے ہیں۔جوہری، کیمیائی اور حیاتیاتی ہتھیار پوری دنیا کی ماحولیات کو برباد کر سکتے ہیں۔ماحولیات اور ماحولیات یا آب و ہوا کو سرحدوں میں بانٹ کر نہیں رکھا جا سکتا۔ اسی طرح بین الاقوامی دہشت گردی کو بھی پوری دنیا کے ممالک کو مل کر ہی نپٹانا ہوگا۔ اگر دہشت گردی کا خاتمہ ہو گیا، تو ہم آنے والی نسلوں کو ایک صاف اور صحت مند ماحول اورآب و ہوا دے سکیں گے۔
ان سب کو دیکھتے ہوئے سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان کیمیائی اور حیاتیاتی ہتھیاروں کے حملے سے بچنے کے لئے ہمارے پاس کوئی طریقہ ہے۔ ظاہر ہے جواب نفی میں ہوگا ،حالانکہ اب اس بات پر بھی توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے۔جہاں تک کیمیائی ہتھیاروں کے حملے سے بچنے کا سوال ہے، اصل میں ہمارے پاس کوئی ٹھوس اور موثر طریقہ کارموجود نہیں ہے۔ جنگ کے علاقے میں فوجی گیس ماسک اور جلد کو پوری طرح صاف رکھنے والے سوٹ پہن کر اپنا دفاع کچھ حد تک کر سکیں گے۔ مندرجہ بالا ملبوسات کے علاوہ مختلف قسم کے ویکسین اور مختلف قسم کی بایوٹکس کی بھاری خوراک حیاتیاتی ہتھیاروں کے حملے سے بھی بچاو میں ممد و مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔ لیکن کسی ملک کی ساری عوام، خاص کر غریب اور ترقی پذیر یا پسماندہ ملک کی عوام، اپنا دفاع کس طرح کر پائے گی؟ کیا وہ ملک اپنی عوام کی حفاظت کے مندرجہ بالا اقدامات کا خرچ برداشت کر سکے گا؟ چلیے، ایک لمحے کے لئے مان بھی لیا جائے کہ ایسا ممکن ہے تو کیا مندرجہ بالا اقدامات کافی ہوں گے؟ نہیں، ہرگز نہیں۔ کیمیکل کے نئے اقسام اور بیکٹیریا کے نئے جینیات کی انتہائی قسم بڑی آسانی سے مندرجہ بالا سیکورٹی اقدامات کوزک پہنچا سکتی ہے۔ اور یہی وجہ ہے ان کیمیائی اور حیاتیاتی ہتھیاروں سے ڈرنے کی۔ فی الحال ہم صرف دعا ہی کر سکتے ہیں کہ خدا وند کریم انسان کوعقل دے ،بصارت دے اورانھیں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت دے کہ وہ خود کوہلاکت میں ڈالنے سے روک سکیں۔آمین الہم آمین یا الہ العالمین۔
 
Top