فاکس نیوز کی ویب سائٹ پر شائع ہونے والے اس انٹرویو میں شکیل آفریدی نے کہا کہ انہیں یہ ضرور معلوم تھا کہ ایبٹ آباد کے اس مکان میں چند دہشت گرد مقیم ہیں تاہم ان کی شناخت سے وہ ناواقف تھے۔
انہوں نے کہا کہ ’مجھے جو کام دیا گیا تھا اس کے علاوہ کسی مخصوص ہدف کا علم نہیں تھا۔ مجھے دھچکا لگا اور یقین نہیں آیا کہ میں اس(اسامہ) کی ہلاکت سے جڑا ہوا تھا‘۔
ڈاکٹر آفریدی کا کہنا تھا کہ انہیں نہیں لگا تھا کہ انہیں اسامہ کی ہلاکت کے بعد پاکستان چھوڑنے کی ضرورت ہے لیکن پھر انہیں آئی ایس آئی نے اغوا کر لیا۔’
ان کے مطابق سی آئی اے نے انہیں افغانستان چلے جانے کو کہا تھا۔ تاہم وہ سرحدی علاقوں کی صورتحال کی وجہ سے خدشات کا شکار تھے اور ان کے خیال میں چونکہ وہ بن لادن کی ہلاکت میں ملوث نہیں تھے اس لیے انہیں ملک چھوڑنے کی ضرورت نہیں تھی۔
شکیل آفریدی نے بات چیت کے دوران اسلام آباد کے علاقے آبپارہ میں واقع آئی ایس آئی کے حراستی مرکز میں ہونے والے تشدد کا بھی ذکر کیا جہاں انہیں ابتدائی تفتیش کے لیے رکھا گیا تھا۔
ان کے مطابق تفتیش کے دوران ان کے جسم پر سگریٹ بجھائے گئے، انہیں بجلی کے جھٹکے دیے گئے اور انہیں پرانے بوسیدہ کپڑے پہنا کر زمین پر پڑی پلیٹ سے ’کتے‘ کی طرح کھانے پر مجبور کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ تفتیش کے دوران آئی ایس آئی کے اہلکار انہیں کہتے رہے کہ
’امریکی ہمارے بدترین دشمن ہیں، بھارتیوں سے بھی برے دشمن‘۔
پشاور سنٹرل جیل سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ
آئی ایس آئی بلاشبہ حقانی نیٹ ورک کی مالی امداد کرتی ہے۔ امریکہ کافی عرصے سے پاکستان پر دباؤ ڈال رہا ہے کہ اس کے قبائلی علاقوں خاص کر شمالی وزیرستان میں حقانی نیٹ ورک کے خلاف آپریشن کیا جائے۔
ڈاکٹر آفریدی نے الزام عائد کیا کہ،
پاکستانی خفیہ ادارہ اکثر امریکہ کو حراست میں لیے گئے بہت سے اہم مسلح شدت پسندوں سے تفتیش نہیں کرنے دیتا اور اکثر ان شدت پسندوں کو افغانستان میں نیٹو افواج پر حملے کرنے کے لیے رہا بھی کر دیتا ہے۔
ماضی میں پاکستان ان الزامات کی کئی بار تردید کر چکا ہے۔
ڈاکٹر آفریدی کا کہنا تھا کہ
پاکستان کی شدت پسندی کے خلاف جنگ ایک ڈھونگ اور امریکہ سے پیسے نکلوانے کا ایک طریقہ ہے۔
اس انٹرویو میں انہوں نے انکشاف کیا ہے کہ ،
آئی ایس آئی بہت سے مسلح شدت پسندوں کو امریکی تفتیشی افسران سے جھوٹ بولنے اور غلط معلومات فراہم کرنے کی ہدایات دیتا ہے۔
تجزیہ کار شوکت قادر نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ عین ممکن ہے کہ سکیورٹی اداروں میں ایسے لوگ ہوں جو اس موقف کے حامی ہوں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ اکثریت ایسا ہی سوچتی ہے۔
القاعدہ کے سابق سربراہ اسامہ بن لادن کی تلاش میں مدد دینے والے پاکستانی ڈاکٹر شکیل آفریدی کا کہنا ہے کہ
پاکستانی خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے حکام امریکہ کو اپنا ’بدترین دشمن‘ مانتے ہیں۔
ڈاکٹر آفریدی کو اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بیس دن بعد گزشتہ برس بائیس مئی کو پشاور کے علاقے حیات آباد سے حراست میں لیا گیا تھا۔ انہیں بعدازاں ایک شدت پسند تنظیم کی حمایت اور مالی امداد کے جرم میں تینتیس برس قید کی سزا سنائی گئی اور اب وہ پشاور کی جیل میں قید ہیں۔
نجی امریکی ٹی وی چینل فاکس نیوز کے مطابق حراست میں لیے جانے کے بعد پہلی مرتبہ جیل سے دیے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں ڈاکٹر آفریدی نے یہ بھی بتایا کہ وہ نہیں جانتے تھے کہ امریکی آپریشن کا ہدف کون ہے۔
ڈاکٹر آفریدی نے مزید بتایا کہ آبپارہ جیل میں کئی مغربی سیاہ فام باشندے بھی قید ہیں جو کہ اسلام قبول کرنے کے بعد افغانستان میں جہاد کے مقاصد سے آئے تھے اور ایسے افراد کو خاص طور پر تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے
جبکہ
عرب قیدیوں کے ساتھ بہتر سلوک کیا جاتا ہے۔
یہ باور کیا جا رہا ہے کہ ڈاکٹر آفریدی نے یہ انٹرویو موبائل فون کی مدد سے دیا ہے۔
پشاور جیل کے حکام نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ وہ انٹرویو کی اطلاعات پر حیران ہیں تاہم ان کا کہنا تھا کہ اس امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا کہ ڈاکٹر شکیل کو ان کے قید خانے میں موبائل فون پہنچایا گیا ہو۔
شکیل آفریدی کی جانب سے لگائے گئے الزامات پر پاکستانی حکام کی جانب سے تاحال کوئی سرکاری موقف سامنے نہیں آیا ہے