’ہمیں معلوم ہے ہاتھ کھینچ لیا گیا ہے‘
BBC Urdu - پاکستان - ’ہمیں معلوم ہے ہاتھ کھینچ لیا گیا ہے‘
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں کشمیری پناہ گزینوں کا کہنا ہے کہ مقامی پولیس ان کے بارے میں کوائف جمع کررہی ہے اور ان سے اپنے گھروں کی واپسی کے بارے میں بھی رائے معلوم کر رہی ہے۔
پناہ گزینوں کا کہنا ہے کہ یہ پہلی مرتبہ ہے کہ مقامی پولیس نے ان کے کیمپوں کا دورہ کیا اور اس طرح کے سوالات پوچھے ہیں۔
مظفرآباد کے نواحی علاقے چہلہ بانڈی میں دریائے نیلم کے کنارے واقع کشمیری پناہ گزینوں کی کئی خمیہ بستیاں ہیں۔
ان ہی میں سے ایک بستی کے سیکریڑی راجہ فیاض نے کہا کچھ دن پہلے مظفرآباد کے صدر تھانے سے دو پولیس اہلکار اور (پولیس کی) سپیشل برانچ کا ایک اہلکار ان کے پاس آیا اور انہیں ایک فارم دیا جس پر فارم پُر کرنے والے کا نام، کوڈ نام، ولدیت اور وادی میں ان کا پتہ پوچھا گیا تھا۔
ان کا کہنا ہے کہ اس کے علاوہ یہ بھی پوچھا گیا تھا کہ آیا وہ وادی کشمیر میں اپنے گھروں کو واپس جانا چاہتے ہیں یا نہیں اور اس جواب کی وجوہات بھی بتائی جائیں۔
فیاض کا کہنا ہے کہ ان اہلکاروں نے اس کی کوئی وجہ نہیں بتائی البتہ یہ کہا کہ وہ ایسا حکامِ بالا کے کہنے پر کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پناہ گزینوں کی دیکھ بھال کرنے والے محمکہ بحالیات نے انہیں پولیس کو کسی قسم کی کوئی تفصیل فراہم کرنے سے منع کیا۔
انہوں نے کہا کہ پولیس اہلکاروں نے تفصیلات کے لیے دو تین مرتبہ ٹیفلیون بھی کیا لیکن ہم نے یہ معلومات دینے سے انکار کردیا۔
اسی بستی کے ساتھ واقع ایک اور بستی کے صدر راجہ اظہار خان نے کہا کہ انہوں نے یہ سارا معاملہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے وزیر اعظم کے سامنے بھی رکھا۔
ان کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم نے ان کی بات کو مذاق میں ٹال دیا اور انہیں اس معاملے پر مزید بات کرنے سے روک دیا۔
کئی کشمیری پناہ گزین اس پیش رفت کو شک کی نظر سے دیکھتے ہیں۔
راجہ اظہار خان کے بھی اس بارے میں تحفظات ہیں۔
’ہم گونگے بہرے نہیں ہیں بلکہ ہم سمجھتے ہیں کہ انہوں ( پاکستان) نے ہاتھ کھینچ لیا ہے۔ وہ لوگ جنہیں ہم رات کے بارہ بجے بھی پکارتے تھے تو ان کے بڑے افسر آجاتے تھے، آج تین ماہ سے ہم درخواست کر رہے ہیں لیکن چھوٹے سے چھوٹے درجے کا افسر بھی نہیں ملتا۔ ہم سمجھتے ہیں انہوں (حکومت پاکستان) نے ہماری آزادی کی تحریک سے ہاتھ کھینچ لیا ہے۔‘
راجہ اظہار خان نے کہا کہ وادی میں ہماری زمینیں، مکان اور جائیداد سب ختم ہوچکی ہیں اور ایسے حالات میں ہم کیسے واپس جاسکتے ہیں۔
انہوں نے کہا ’ہم آزادی کی خاطر آئے ہیں، ہم واپس جا کر لوگوں کو کیا جواب دیں گے، میرے تین عزیز شہید ہوئے ہیں، میں ان کے خاندان والوں کو کیا جواب دوں۔‘
انہوں نے کہا کہ اگر انہیں زبردستی واپس بھیجا گیا تو وہ وہاں جا کر احتجاج کریں گے اور لوگوں کو بتائیں گے اب وہ دوبارہ دوکھہ نہ کھائیں۔‘
کچھ ایسے بھی پناہ گزین ہیں جو موجودہ صورت حال میں واپس جانے کے لیے تیار نظر نہیں آتے ہیں۔
راجہ فیاض نے کہا ’جس مقصد ( کشمیر کی آزادی) کے لیے ہم آئے ہیں اگر وہ حل نہیں ہوتا تو ہمیں عزت، وقار اور کسی معاہدے کے تحت واپس بھیج دیں تاکہ کل ہمیں وہاں کوئی طعنے نہ دے اور ہماری کسی غلطی پر یہ نہ کہا جائے کہ یہ غدار ہیں یہ پار (مظفرآباد) گئے تھے۔‘
کئی پناہ گزین اپنے گھروں کو واپس جانے کے لیے بےتاب ہیں۔
’ہم تحریک آزادی کشمیر کے لیے آئے تھے، اب وہ تحریک ختم کردی گئی ہے، ابھی ہمیں ویسے ہی بند کر رکھا ہے، ہماری ان سے گزارش ہے کہ یہ ہمیں چھوڑ دیں، ہمارے راستے چھوڑ دیں، ہم واپس جانا چاہتے۔‘
مظفرآباد میں پولیس کے سربراہ سردار گلفراز نے کہا کہ لوگوں کے کوائف وغیرہ اکھٹے کرنا پولیس کی معمول کی کارروائی ہے۔
لیکن اس معاملے سے واقف ایک اہلکار نے بی بی سی کو بتایا کہ اس سروے کا مقصد یہ جاننا تھا کہ ایسے کتنے کشمیری پناہ گزین ہیں جو اپنےگھروں کو واپس جانا چاہتے ہیں۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اب اس سروے کو روک دیا گیا ہے تاہم انہوں نے اس کی وجہ نہیں بتائی۔
حکام کا کہنا ہے کہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں تیس ہزار سے زیادہ پناہ گزین آباد ہیں جو سنہ انیس سو اٹھاسی میں بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں مسلح تحریک کے آغاز کے بعد لائن آف کنٹرول عبور کر کے اس جانب آگئے تھے۔