• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

دینی امور پر اجر ت کا جواز

ٹائپسٹ

رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
186
ری ایکشن اسکور
987
پوائنٹ
86
دینی امور پر اجر ت کا جواز
آج کل عذابِ قبر کے منکرین نے عذابِ قبر کے علاوہ دینی امور پر اجرت کے مسئلہ کو بھی اپنا ایشو بنا رکھا ہے اور اس بات کی وہ دن رات تبلیغ کر رہے ہیں کہ دینی امور پر اجرت نا جائز ہے اور اس سلسلہ میں انہوں نے کچھ لٹریچر بھی شائع کیا ہے جس میں کچھ روایات سے انہوں نے اجرت کے عدم جواز پر استدلال کیا ہے۔ یہ عجیب طرفہ تماشا ہے کہ عذابِ قبر کی صحیح و صریح اور متواتر احادیث کو تو یہ فرقہ تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔
لیکن دینی امور پر اجرت کے مسئلہ کے لیے ضعیف روایات کو دلیل کے طور پر پیش کیا گیا ہے اور اس سلسلہ میں جو روایت اجرت کے جواز کا ثبوت فراہم کرتی ہیں ان کا دوراز کار قسم کی تاویلات پیش کی گئی ہیں۔ حالانکہ ایسی باطل تاویلات ان محدثین کرام کے وہم و خیال میں بھی نہ تھیں کہ جنہوں نے ان احادیث کو روایت کیا ہے۔ اس سلسلے میں جو صحیح احادیث ہیں انہیں پیش کیا جاتا ہے اور جن ضعیف روایات کو منکرین عذاب القبر نے پیش کیا ہے ان کی حقیقت بھی واضح کی جائے گی۔ ان شاء اللہ تعالیٰ العزیز
دلیل نمبر ۱:
﴿عن ابی سعید  : انطلق نفر من اصحاب النبی ﷺ فی سفرة سافروھا، حتی نزلوا علی حی من احیاء العرب فاستضافوھم فابوا ان یضیفوھم ، فلدغ سید ذلک الحی ، فسعوالہ شیئ، لا ینفعہ شیئ، فاتوھم فقالوا: یا یھاالرھط ان سیدنا الدغ وسعینا لہ بکل شئی لا ینفعہ فھل عند احدمنکم من شئی ؟ فقال بعضھم نعم اللہ ، انی لارقی، ولکن واللہ لقد استضفناکم فلم تضیفونا، فما انا براق لکم حتی تجعلوا لنا جعلا۔ فصالحوھم علی قطیع من الغنم، فانطلق یتفل علیہ ویقراٴ: الحمدللہ رب العالمین فکانما نشط من عقال، فانطلق یمشی وما بہ قلبة۔
قال: فافوھم جعلھم الذی صالحوھم علیہ فقال بعضھم: اقسموا فقال الذی رقی: لا تفعلوا حتی ناٴتی النبی ﷺ فنذکر لہ الذی کان فتئظر ما یاٴمرنا فقد مواعلی رسول اللہ ﷺفذکروا لہ فقال: وما یدریک انھا رقیہ؟ ثم قال: قد اصبتم اقسموا واضربوا الی معکم سھما فضھک رسول اللہ ﷺ قال ابو عبداللہ وقال شعبة: حدثنا ابو بشر سمعت ابا المتوکل بھذا﴾
(رواہ البخاری: ۵۷۴۹،۵۰۰۷)
ترجمہ: (سیدنا ابو سعید خدری  بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ کے کچھ صحابہ  سفر میں تھے۔ دورانِ سفر وہ عرب کے ایک قبیلہ پر اترے۔ صحابہ نے چاہا کہ قبیلہ والے انہیں اپنا مہمان بنالیں۔ لیکن انہوں نے مہمانی نہیں کی بلکہ صافانکار کر دیا۔ اتفاق سے اسی قبیلہ کے سردار کو سانپ نے ڈس لیا۔ قبیلہ والوں نے ہر طرح کوشش کر ڈالی، لیکن ان کا سردار اچھا نہ ہوا۔ ان کے کسی آدمی نے کہا چلو ان لوگوں سے پوچھیں جو یہاں آکر اترے ہیں، ممکن ہے کہ ان کے پاس کوئی چیز موجود ہو۔ چنانچہ قبیلہ والے ان کے پاس آئے اور کہا کہ بھائیو! ہمارے سردار کو سانپ نے ڈس لیا ہے اس کے لیے ہم نے ہر قسم کی کوشش کر ڈالی ہے کچھ فائدہ نہ ہوا۔ کیا تمہارے پاس کوئی چیز موجود ہے؟ ایک صحابی نے کہا کہ قسم اللہ کی میں اسے جھاڑوں گا۔ لیکن ہم نے تم سے میزبانی کے لیے کہا تھا اور تم نے اس سے انکار کر دیا۔ اس لیے اب میں بھی اجرت کے بغیر نہیں جھاڑ سکتا۔ آخر بکریوں کے گلے پر ان کا معاملہ طے ہوا۔ وہ صحابی وہاں گئے اور ’’الحمدللہ رب العالمین‘‘پڑھ پڑھ کر دم کیا۔ ایسا معلوم ہوا جیسے کسی کی رسی کھول دی گئی ہو۔ وہ سردار اٹھ کر چلنے لگا۔ تکلیف و درد کا نام و نشان بھی باقی نہیں تھا۔ پھر انہوں نے طے شدہ اجرت صحابی کو ادا کر دی۔ کسی نے کہا کہ اسے تقسیم کر لو۔ لیکن جنہوں نے جھاڑا تھا وہ بولے کہ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر پہلے ہم آپ سے اس کا ذکر کر لیں اس کے بعد دیکھیں گے کہ آپ ﷺ کیا حکم دیتے ہیں۔ چنانچہ سب صحابہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ سے اس کا ذکر کیا۔ آپ نے فرمایا تم کو کیسے معلوم ہوا کہ سورہٴ فاتحہ بھی ایک رُقیہ ہے؟ اس کے بعد آپ نے فرمایا کہ تم نے ٹھیک کیا۔ اسے تقسیم کر لو اور ایک حصہ میرا بھی لگاؤ۔ یہ فرما کر رسول اللہ ﷺ ہنس پڑے۔) (صحیح بخاری کتاب ۳۷ الاجارة باب ۶ اما یعطی فی الرقیہ علی احیاء العرب بفاتحة الکتاب ۲۲۸۷)

اس حدیث کو امام بخاری نے کتاب ۶۶ فضائل القرآن باب ۹ فضل فاتحة الکتاب (۵۰۰۷) کتاب الطب ۷۶، باب ۳ الرقی بفاتحةا لکتاب (۵۷۳۶) اور باب النفث فی الرقیہ (۵۷۴۷) میں بھی بیان کیا ہے۔ صحیح مسلم کتاب السلام باب جواز اخذ الاجر عن الرقیة والاذکار (۵۷۳۳) ابو داؤد، کتاب البیوع باب کیف الرقی (۳۹۰۰) جامع الترمذی کتاب الطب باب ماجاء فی اخذ الاجرة علی التعویذ (۲۰۶۳) سنن ابن ماجہ کتاب التجارات باب اجرا الراقی (۲۱۰۶) مسند احمد ج۳ص۲، ۱۰،۴۴،۵۰،۸۳ الفتح الربانی لترتیب مسند امام احمد بن حنب الشہیبانی ، ۱۷ ص۱۸۴،۱۸۵۔

اس حدیث سے واضح ہوگیا کہ صحابہ کرام  نے دم پر جو اجرت لی تھی اسے نبی ﷺ نے نہ صرف جائز قرار دیا بلکہ اس میں آپ ﷺ نے اپنا حصہ بھی مقرر کرنے کا حکم دیا۔ تاکہ صحابہ کرام کو اس مال کے حلال و طیب ہونے میں کوئی شک و شبہ باقی نہ رہے علاوہ ازیں آپﷺ نے اس واقعہ پر ہنس کر خوشی کا اظہار بھی فرمایا۔

عام روایات میں دم کرنے والے کا نام ذکر نہیں کیا گیا ہے۔ البتہ مسند احمد (۱۰/۳) اور جامع الترمذی کی روایات میں ہے کہ دم کرنے والے خود راوی حدیث جناب ابو سعید خدری ہی تھے۔ صحیح بخاری، مسند احمد، ترمذی اور ابن ماجہ کی روایات میں بکریوں کی تعداد تیس (۳۰) ذکر کی گئی ہے، اور مسند احمد، ترمذی اور ابن ماجہ کی روایات میں ہے کہ سورة فاتحہ کو ساتھ مرتبہ پڑھ کر اس شخص پر دم کیا گیا اور جو تھوک جمع ہو جاتا ہے اسے صحابی زخم کی جگہ پر تھتکار دیتے۔ بخاری کی اس روایت میں ہے کہ نبی ﷺ نے یہ واقعہ سننے کے بعد فرمایا: ’’قد اصبتم‘‘ (تم نے بالکل ٹھیک کیا) اور ابو داؤد کی روایت میں ہے :’’احسنتم ‘‘ ( تم نے اچھا کیا)مسلم وغیرہ کی روایت میں یہ بھی ہے کہ قبیلہ کی ایک خاتون نے صحابہ کرام کو یہ بتایا کہ انکے سردار کو سانپ نے ڈس لیا ہے۔ نیز قبیلہ والوں نے اجرت کے علاوہ صحابہ کرام کی دودھ سے تواضع بھی کی۔ (مسلم) اور اس طرح انہوں نے صحابہ کرام سے میزبانی کے معاملے میں جو بے اعتنائی برتی تھی اس کا انہوں نے ازالہ کر دیا۔
اس حدیث کی مزید وضاحت سیدنا عبداللہ بن عباس  کی روایت سے ہوتی ہے جسے امام بخاری  نے روایت کیا ہے۔ جس طرح قرآن حکیم کی ایک آیت کی وضاحت دوسری آیت کرتی ہے ، اسی طرح ایک حدیث کی وضاحت بھی دوسری حدیث کرتی ہے۔ سیدنا ابن عباس  کی حدیث یہ ہے:

﴿عن ابن عباس ان نفرا من اصحاب النبی ﷺ مروابماء فیھم لدیغ او سلیم فعرض لہم رجل من اہل الماء فقال: ہل فیکم من راق؟ ان فی الماء رجلا لدیغا او سلیما ما نطلق رجل منہم فقرا بفاتحة الکتاب علی شاء فبراء بالشاءالی اصحابہ فکر ہوا ذالک وقالوا اخذت علی کتاب اللہ اجراء؟ حتی قدموالمدینة فقالوا: یا رسول اللہ اخذ علی کتاب اللہ اجرا فقال رسول اللہ ﷺ ان احق ما اخذتم علیہ اجرا کتاب اللہ﴾
(صحیح بخاری، کتاب الطلب باب الشرط فی الرقیة بفاتحة الکتاب (۵۷۳۷) موارد الظمان (۱۱۳۱) السنن الکبری للبیھقی (۴۳۰/۱) (۱۲۴/۶) ۴۳/۷، شرح السنة للبغوی ۴۵۱/۴ ، الدارقطنی(۶۵/۳) مشکاة (۷۹۸۵)
ترجمہ: (عبداللہ بن عباس بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ کے چند صحابہ ایک پانی سے گزرے جس کے پاس کے قبیلہ میں سانپ یا بچھو کاٹا ہوا (لدیغ یا سلیم راوی کو ان دونوں الفاظ کے متعلق شک ہے۔)ایک شخص تھا۔ قبیلہ کا ایک شخص ان کے پاس آیا اور کہا کیا آپ لوگوں میں کوئی دم کرنے والا ہے۔ ہمارے قبیلہ میں ایک شخص کو سانپ یا بچھو نے کاٹ لیا ہے۔ چنانچہ صحابہ کی اس جماعت میں سے ایک صحابی اس شخص کے ساتھ گئے اور چند بکریوں کی شرط کے ساتھ اس شخص پر سورة فاتحہ پڑھی اس سے وہ اچھا ہوگیا وہ صاحب شرط کے مطابق بکریاں اپنے ساتھیوں کے پاس لائے تو انہوں نے اسے قبول کر لینا پسند نہیں کیا اور کہا کہ اللہ کی کتاب پر تم نے اجرت لی ہے۔ آخر جب سب لوگ مدینہ آئے تو ( پورا واقعہ) عرض کیا اور کہا یا رسول اللہﷺ! ان صاحب نے اللہ کی کتاب پر اجرت لی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: جن چیزوں پر تم اجرت لیتے ہو ان میں سب سے زیادہ اس کی مستحق اللہ کی کتاب ہی ہے۔ ) (کہ اس پر اجرت حاصل کی جائے۔)

اس حدیث سے واضح ہوا کہ جب دم کرنے والے صحابی نے وہ بکریاں لے لیں تو دوسرے صحابہ کرام  نے ان سے اختلاف کیا اور ان سے کہا کہ تم نے کتاب اللہ پر اجرت لی ہے۔ چنانچہ صحابہ کرام نے یہ تمام واقعہ نبی ﷺ کی خدمت میں پیش کیا تو آپ نے ارشاد فرمایا ’’ان حق ما اخذتم علیہ اجرا کتاب اللہ ‘‘ (جن چیزوں پر تم اجرت لیتے ہو ان میں کتاب اللہ سب سے زیادہ مستحق ہے (کہ اس پر اجرت لی جائے))۔ صحابہ کرام کے اس طرز عمل سے معلوم ہوا کہ جب ان میں کسی بات پر اختلاف ہو جاتا تو وہ اس کا فیصلہ رسول اللہ ﷺ سے کروایا کرتے تھے اور رسول اللہ ﷺ کے فیصلہ پر وہ راضی ہو جاتے۔ اور یہی ایمان خالص ہے کہ ایک مومن اللہ اور اس کے فرمان کے سامنے سر تسلیم خم کر لے۔

رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام کے اس عمل کو درست قرار دیا اور فرمایا:
’’قد اصبتم‘‘(تم نے بالکل دست کیا) (بخاری) اور ابو داؤد کی روایت میں ہے ’’احسنتم‘‘ (تم نے اچھا کیا)
اس حدیث سے درج ذیل باتیں ثابت ہوئیں:
 دم پر اجرت لینا جائر ہے اور یہ احادیث اس مسئلہ پر نص قطعی کا درجہ رکھتی ہیں۔
 اس واقعہ کے ضمن میں رسول اللہ ﷺ نے ایک عام اصول اور قاعدہ بھی بیان فرمایا اور وہ یہ ہے :
’’ان احق ما اخذ تم علیہ اجرا کتاب اللہ ‘‘
ترجمہ: (جن چیزوں پر تم اجرت لیتے ہو ان میں اللہ کی کتاب سب سے زیادہ مستحق ہے کہ اس پر اجرت لی جائے۔ )

اس حدیث نے یہ مسئلہ واضح کر دیا کہ دم کے علاوہ تعلیم القرآن وغیرہ پر بھی اجرت لی جا سکتی ہے۔
ان احادیث ،میں لدیغ اور سلیم کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ لدغ= ڈنگ مارنا جیسے لسع ہے۔ بعضوں نے کہا سانپ کے کاٹے کو لسع کہتے ہیں اور بچھو کے کاٹے کو لدغ اور ہر ایک لفظ دوسرے میں مستعمل ہوتا ہے۔ (لغات القرآن ۳۰/۴) عموماً لدغ بچھو کے ڈسنے اور سلم سانپ کے ڈسنے پر استعمال ہوتا ہے ، لیکن کبھی یہ ایک دوسرے کی جگہ بھی استعمال ہوتے ہیں۔

حافظ ابن حجر العسقلانی  اس حدیث کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
﴿واستدل بہ للجمہور فی جواز اخذ الاجرة علی تعلیم القرآن ، وخالف الحنفیة فمنعوہ فی التعلیم واجاز وہ فی الرقی کالدوا قالو لان تعلیم القرآن عبادة والا جر فیہ علی اللہ وہوالقیاس فی الرقی الا انھم اجازو وفیہا لہٰذا الخبر، وحمل بعضہم الاجر فی ہذا الحدیث علی الثواب وسیاق القصة التی فی الحدیث یابی ہذا التاویل۔ وادعی بعضہم نسخہ بالاحادیث الواردہ فی الوعید علی اخذ الاجرة علی تعلیم القرآن وقد رواہا ابو داؤد وغیرہ، وتعقب بانہ اثبات للنسخ بالاحتمال وہو مردود، وبان الاحادیث لیس فیہا تصریح بالمنع علی الاطلاق بل ہی وقائع احوال متحملةللتاویل لتوافق الاحادیث الصحیحة کحدیثی الباب، وبان الاحادیث المذکورة ایضا لیس فیہا ما تقوم بہ الحجة فلا تعارض الاحادیث الصحیحة وسیکون لناعودة الی البحث فی ذلک فی کتاب النکاح فیا لتزویج علی تعلیم القرآن﴾ (فتح الباری کتاب الاجارة ۴/۴۵۴)
ترجمہ: (جمہور علماء کرام نے اس حدیث سے تعلیم القرآن پر اجرت لینے کے جواز پر استدلال کر کے اجرت کو درست قرار دیا ہے۔ اور حنفیہ نے جمہور کی مخالفت کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ تعلیم القرآن پر اجرت لینا درست نہیں ہے۔ البتہ جھاڑ پھونک پر اجرت لینا درست ہے۔ کیونکہ جھاڑ پھونک دوا کی طرح ہے ( اور دوا علاج پر اجرت لی جاتی ہے) حنفیہ کا استدلال یہ ہے کہ تعلیم القرآن عبادت ہے اور اس کا اجر اللہ کے ذمے ہے۔ اور قیاس چاہتا ہے کہ اس سے جھاڑ پھونک پر بھی اجرت نہ لی جائے، لیکن حنفیہ نے اس حدیث کی بنا پر اسے جائز قرار دیا ہے۔ اور بعض نے کہا ہے کہ اس حدیث میں اجر سے مراد ثواب ہے، لیکن اس حدیث کا سیاق اس تاویل کو رد کرتا ہے اور بعض نے دعویٰ کیا ہے کہ یہ احادیث ان احادیث کی وجہ سے منسوخ ہیں کہ جن میں تعلیم القرآن پر اجرت لینے پر وعید آئی ہے۔ اور جسے ابو داؤد وغیرہ نے روایت کیا ہے لیکن ایسے لوگوں کا تعقب کیا گیا کہ انہوں نے نسخ کا دعویٰ صرف احتمال کی بناء پر کیا ہے اور احتمال سے نسخ ثابت کرنا مردود ہے اور ان احادیث میں مطلق منع کی صراحت نہیں ہے۔ بلکہ وہ مختلف اوقات سے متعلق ہیں کہ جو تاویل کا احتمال رکھتی ہیں تاکہ اس طرح وہ روایات صحیح احادیث کے موافق ہو جائیں جیسا کہ اس باب کی حدیث ہے۔ نیز یہ احادیث اس قابل نہیں ہیں کہ ان (ضعیف روایات) کے ذریعے کوئی حجت قائم ہو سکے ، پس وہ روایات احادیث صحیحہ کے معارض نہیں ہیں اور اس کی بحث ہم کتاب النکاح باب التزویج علی تعلیم القرآن (تعلیم القرآن کے عوض نکاح کرنے کا بیان) میں کریں گے۔ )

امام نووی  اس حدیث کی وضاحت کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:
﴿قولہ ﷺ: (خذوا منہم واضربوالی بسھم معکم) ہذا تصریح بجواز اخذ الاجرة علی الرقیة بالفاتحة والذکر وانہا حلال کراہیة فیہا وکذا الاجرة علی تعلیم القرآن وہذامذہب الشافعی ومالک واحمد واسحاق وابی ثور واخرین من السلف ومن بعدہم ومنعہا ابو حنیفہ فی تعلیم القرآن واجاز ہا فی الرقیة۔۔۔ قولہ ﷺ واضربوالی بسھم فانما قالہ تطیبا لقلوبہم ومبالغہم فی تعریفہم انہ حلال لا شبة فیہ ﴾
(شرح صحیح مسلم للامام نووی ۲۲۴/۲)
ترجمہ: (اور رسول اللہ ﷺ کا یہ فرمان کہ اس مال کو لے لو اور اس میں میرا حصہ بھی لگاؤ۔ اس فرمان میں وضاحت ہے کہ سورة فاتحہ اور ذکر کے ذریعے جھاڑ پھونک پر اجرت لینا جائز ہے۔ اور بلا شبہ یہ حلال ہے اور اس میں کوئی کراہت نہیں۔ اس طرح تعلیم القرآن پر بھی اجرت لینا جائز ہے اور یہ مذہب امام شافعی ، امام مالک، امام احمد، امام اسحاق، امام ابو ثور کا سلف میں سے اور ان کے بعد لوگوں کا ہے اور امام ابو حنیفہ نے تعلیم القرآن پر اجرت سے منع کیا ہے اور رقیہ پر اجرت کی اجازت دی ہے(اور آگے فرماتے ہیں) نبی ﷺ کایہ فرمان ہے’’ کہ اس میں میرا حصہ بھی لگاؤ‘‘ صحابہ کرام کے دلوں کو پاک صاف کرنے کے لیے تھا اور اس مال کی تعریف میں مبالغہ کے لیے تھا کہ بلا شبہ یہ مال حلال ہے۔ )

﴿ورخص الشافعی للمعلم ان یاخذ علی تعلیم القرآن اجراویری لہ ان یشترط علی ذلک واحتج بہذا الحدیث ﴾ (جامع ترمذی ۲۰۶۳)
ترجمہ: (اور امام شافعی  نے معلم کو تعلیم القرآن پر اجرت لینے کی رخصت دی ہے، اور اس بات کی بھی کہ وہ اسے مشروط کر سکتا ہے اور انہوں نے اس حدیث سے استدلال کیا ہے۔ )

امام بخاری  نے اس حدیث پر یہ باب قائم کیا ہے:
﴿باب ما یعطی فی الرقیة علی احیاء العرب بفاتحة الکتاب ﴾
یعنی سورة فاتحہ پڑھ کر عربوں پر پھونکنا اور اس پر اجرت لینا۔ اس سے ثابت ہوا کہ امام بخاری  کے نزدیک دم پر شرط لگانا کہ اس کام پر اتنی بکریاں یا مال لوں گا بھی جائز ہے۔
علاوہ ازیں امام بخاری نے کتاب النکاح میں باب التزویج علی تعلیم القرآن (تعلیم القرآن کے عوض نکاح کرنے کا بیان)قائم کیا ہے۔ جس سے انہوں نے یہ مسئلہ ثابت کیا ہے تعلیم القرآن پر اجرت لینا جائز ہے۔ امام بخاری نے کتاب الاجارہ کے باب کے تحت سب سے پہلے سیدنا عبداللہ بن عباس  کی حدیث کے یہ آخری الفاظ نقل کیے ہیں:
﴿ان احق ما اخذتم علیہ اجرا کتاب اللہ ﴾
یعنی رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’کتاب اللہ سب سے زیادہ اس کی مستحق ہے کہ تم اس پر اجرت حاصل کرو۔ ‘‘ پھر امام بخاری نے امام الشعبی کا یہ قول نقل کیا ہے:
﴿لا یشترط المعلم الا ان یعطی شیئا فلیقبلہ ﴾
ترجمہ: (معلم تعلیم پر کوئی شرط نہ لگائے البتہ جو کچھ اسے بن مانگے دیا جائے وہ اسے لے لے۔)
اور امام حاکم کا قول ہے’’لم اسمع احدا کرہ اجر المعلم ‘‘ میں سے کسی (عالم) شخص نے یہ نہیں سنا کہ معلم کی اجرت کو اس نے نا پسند کیا ہو ’’واعطی الحسن دراہم عشرہ ‘‘ اور امام حسن بصری نے (معلم کو) دس درہم اجرت کے دیے۔
ان احادیث اور آثار کو ذکر کرنے سے امام بخاری کا مقصد یہی ہے کہ تعلیم القرآن پر اجرت جائز ہے۔

امام ابن العربی المالکی  (المتوفی ۵۴۳ھ) سیدنا ابو سعید الخدری  کی روایت کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
﴿جواز اخذ الاجرة علی القرآن وقف اتبعہ بقولہ فی الصحیح ان اھق ما اخذتم علیہ اجرا کتاب اللہ﴾
(عارضة الاحوذی بشرح صحیح الترمذی ۸/۱۶۸، طبع دارالکتب العلمیة بیروت)
ترجمہ: (اس حدیث سے قرآن پر اجرت لینے کا جواز ثابت ہوتا ہے اور اس کی تائید صحیح بخاری کی اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جس میں کتاب اللہ سب سے زیادہ مستحق ہے کہ تم اس پر اجرت حاصل کرو۔ )

امام بیہقی اس حدیث کا ذکر کر کے فرماتے ہیں:
﴿وہو عام فی جواز اخذ الاجرة علی کتاب اللہ تعالیٰ بالتعلیم وغیرہ واذا جاز اخذ الاجرة علیہ جاز ان یکون مہر او حدیث ابن عباس اصح من حدیث عبادة۔۔۔۔﴾ (معرفة السنن والآثار ۵/۳۸۱)
ترجمہ: (اور ابن عباس  کی حدیث کتاب اللہ کی تعلیم وغیرہ پر اجرت لینے کے جواز کے سلسلے میں عام ہے اور جب کتاب اللہ کی تعلیم پر اجرت لینا جائز ہے تو جائز ہے کہ تعلیم قرآن مہر مقرر ہو اور حدیث ابن عباس  حدیث عبادہ سے زیادہ صحیح ہے۔ )
امام بیہقی عدم جواز کی ضعیف اور موضوع رویات پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

﴿ویشبہ ان کان شئ من ہذا ثابتا ان یکون منسوخا بحدیث ابن عباس وبماروی فی معناہ عنا بی سعید الخدری ویستدل علی ذلک بذہابة عامة اہل العلم علی ترک ظاہرہ وبان ابا سعید وابن عباس انما حملا الحدیث علی اواخر عہد النبی ﷺ ویشبہ ان یکون عبادة بن الصامت حملہ فی الابتداء واللہ اعلم ﴾ (معرفة السنن والآثار ۵۔ ۳۸۱،۳۸۲)
ترجمہ: (اور اگر عدم جواز کی کوئی روایت ثابت بھی ہو تو وہ ابن عباس  کی حدیث سے منسوخ ہوگی ، اور اسی طرح کی حدیث ابو سعید الخدری  سے بھی مروی ہے اور عام اہل علم نے ان احادیث کے ظاہر کی وجہ سے ان (ضعیف ) روایات کے ترک پر استدلال کیا ہے۔)

امام ابو سلیمان الخطابی  اس حدیث کے تحت رقم طراز ہیں:
﴿وفی ہذا بیان جواز اخذ الاجرة علی تعلیم القرآن ، ولو کان ذلک حراما لامرہم النبی ﷺ برد القطیع ، فلم صوب فعلہم ، وقال لہم ’’احسنتم‘‘ ورضی الاجرة التی اخذو ہالنفسہ ، ’’فقال اضربوالی معکم بسہم ثبت انہ طلق مباح ، وان المذہب الذی ذہب الیہ من جمع بین اخبار بار الاباحة والکراہة فی جواز اخذ الاجرة علی لا یتعین الفرض فیہ علی معلمہ ونفی جوازہ علی ما یتعین فی ا لتعلیم: مذہب سدید، وہو قول ابی سعید الاصطخری۔
وفی الحدیث دلیل: علی جواز بیع المصاحف، واخذ الاجرة علی کتبہا وفیہ: اباحة الرقیة بذکراللہ فی اسمائہ وفیہ: اباحة اجرالطب والمعالج، وذلک ان القراة والرقیة والنفث: فعل من الافعال المباحة وقد ابا حلہ اخذ الاجرة علیہا ، وفکذالک ما یفعلہ الطبیب من قول ووصف علاج: فعل لا فرق بینہا﴾

ترجمہ: (اس حدیث میں تعلیم القرآن پر اجرت لینے کا جواز ثابت ہوتا ہے اور اگر یہ اجرت حرام ہوتی تو رسول اللہ ﷺ انہیں بکریوں کا ریوڑ لوٹانے کا حکم دیتے۔ پس جب آپ نے اسے درست قرار دیا اور ان سے فرمایا کہ تم نے اچھا کیا اور ان کی اس اجرت پر آپ راضی ہوئے جو انہوں نے اپنی ذات کے لیے حاصل کی تھی، اور آپ نے فرمایا اس میں میرا بھی حصہ لگاؤ ، ثابت ہوا کہ یہ حلال اور جائز ہے اور وہ مذہب جس کی طرف وہ علماء گئے ہیں جنہوں نے جواز اور کراہت دونوں طرح کی احادیث میں تطبیق دی ہے اور وہ اس طرح کہ اس معلم کے لیے جس پر سکھانے کا فرض عائد نہیں ہوتا اس کے لیے جائز ہے اور اس معلم کے لیے جاز کی نفی ہے جس پر سکھانے کا فرض عائد ہوتا ہے اور یہی مذہب ٹھیک اور درست ہے اور یہی قول ابو سعید اصطخری کا ہے۔
اور اس حدیث میں دلیل ہے قرآن مجید کو فروخت کرنے اور اس کے لکھنے پر اجرت حاصل کرنا جائز ہے اور اس (حدیث) میں اللہ کے ناموں کے ذکر کے ساتھ رقیہ کرنے کا جواز نیز طبیب اور معالج کی اجرت کا بھی جواز ہے اور اس لیے کہ قراٴت ، رقیہ اور نفث (دم) مباح افعال ہیں اور ان پر اجرت لینی جائز ہے اسی طرح طبیب اپنے قول اور وصف علاج سے جو کام کرتا ہے اس میں کوئی فرق نہیں ہے۔)

حافظ ابن حزم الندلسی فرماتے ہیں:
﴿والاجازة جائزة علی تعلیم القرآن وعلی تعلیم العلم مشاہرة وجملة وکل ذلک جائز، وعلی الرقی ، وعلی نسخ المصاحف، ونسخ کتب العلم، لا نہ لم یاٴت فی النہی عن ذلک نص، بل قد جائت الاباحة کما روینا من طریق البخاری، فقال رسول اللہ ﷺ ان احق ما اخذتم علیہ اجرا کتاب اللہ، والخبر المشہوران رسول اللہ ﷺ زوج امراة من رجل بما معہ من القرآن ای لیعلمہا ایاہ وہو قول مالک، والشافعی وابی سلیمان﴾
ترجمہ: (اور تعلیم قرآن پر اجرت لینا جائز ہے اور علم کی تعلیم پر بھی جائز ہے چاہے ماہانہ لیا جائے اور اکٹھا ہر طرح سے جائز ہے اور دم کرنے قرآن مجید لکھنے یا علمی کتابیں لکھنے پر بھی جائز ہے، اس لیے کہ اس کی ممانعت پر کوئی نص وارد نہیں ہوئی ہے، بلکہ اس بارے میں احادیث میں اباحت (جواز) کا آنا ثابت ہے۔ جیسا کہ ہم نے بخاری کے طریق سے روایت کیا ہے۔ (چنانچہ امام ابن حزم نے عبداللہ بن عباس  کی روایت کو نقل کیا جس کا آخری ٹکڑا یہ ہے) کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’بے شک جن چیزوں پر تم اجرت لیتے ہو ان میں سب سے زیادہ اس کی مستحق اللہ کی کتاب ہے اور مشہور احادیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک خاتون کا نکاح ایک شخص کے ساتھ قرآن پر کر دیا۔ تاکہ وہ صحابی اس خاتون کو قرآن کی وہ سورتیں یاد کرا دے ، اور یہی سورتیں اس کا مہر قرار پائیں۔ اور یہ قول امام مالک ،ا مام شافعی اور ابوسلیمان الخطابی کا ہے۔)

حافظ ابن حزم نے ان روایات کو بھی ذکر کیا ہے کہ جن میں ممانعت کا ذکر ہے اور ایسی تمام روایت پر جرح کی ہے اور فرماتے ہیں:
﴿ اما الاحادیث فی ذلکعن رسول اللہ ﷺ فلا یصح منہا شئ﴾
ترجمہ: (اور اس سلسلہ میں رسول اللہ ﷺ سے جو ممانعت کی روایت آئی ہے ان میں کوئی روایت بھی صحیح نہیں ہے اور آخر میں فرماتے ہیں:
﴿ثم لو صحت لکانت کلہا قد خالفہا ابو حنیفة واصحابہ، لا نہا کلہا انما جاءت فیما اعطی بغیر اجرة ولا مشارطة وہم یجیزون ہذا الوجہ فمو ہوا بایراداحادیث لیس فیہا شئ مما منعوا، وہم مخالفون لما فیہا فبطل کل ما فی ہذا الباب ، والصحابة  قد اختلفوا فبقی الائران الصحیحان عن رسول اللہ ﷺ اللذان اوردنالامعارض لہما وباللہ تعالیٰ التوفیق ﴾
(المحلی بالآثار لابن حزم الندلسی ۷/۲۱)
ترجمہ: (پھر اگر یہ روایات صحیح بھی ثابت ہو جائیں تو امام ابو حنیفہ  اور ان کے اصحاب نے ان کی مخالفت کی ہے۔ کیونکہ ان تمام روایات میں جو تحفہ دینے کا ذکر ہے وہ بغیر اجرت اور بغیر شرط کے ہے ( یعنی ان روایات میں اجرت اور شرط کا کوئی ذکر نہیں ہے) اور وہ اس طریقہ کو جائز قرار دیتے ہیں ۔ پس انہوں نے ملمع سازی کرتے ہوئے ایسی روایات (اس مسئلہ میں) وارد کی ہیں جن میں اس چیز کی ممانعت نہیں جس سے انہوں نے منع کیا اور ان روایات میں جو کچھ ہے وہ خود اس کے مخالف ہیں۔ پس ( اس وضاحت سے) جو اس باب میں ہے سب باطل ہوگیا۔ اور صحابہ کرام  نے اس مسئلہ میں اختلاف کیا ہے، باقی رہ گئیں وہ دو صحیح حدیثیں جو ہم نے وارد کیں ان دونوں کے لیے کوئی معارض نہیں ۔ وباللہ تعالیٰ التوفیق۔)

علامہ سید محمد آلوسی الحنفی (المتوفی ۱۲۷۰ھ) فرماتے ہیں:
﴿والا کثرون من الشافعیة ان ما کان لہ ﷺمن خمس الخمس یصرف لمصالح المسلمین کالثغور وقضاة البلاد والعماء المشتغلین بعلوم الشرع وآلاتہا ولو مبتدئین والائمة والمؤذنین ولو اغنیا وسائر من یشتغل عن نحوکسبہ بمصالح المسلمین لعموم نفعہم ﴾ (روح المعانی ۱۴/۴۶ پ ۲۸)
ترجمہ: (اور اکثر شافعی علماء کا کہنا ہے کہ رسول اللہ ﷺ خمس ( اور مال فے) کو مسلمین کے بھلائی کے کاموں میں استعمال فرمایا کرتے تھے ، جیسے دشمن کی سرحد پر پہرہ دینے والوں اور شہروں میں مقرر کیے گئے قاضی حضرات اور وہ علماء جو شرعی علوم کی تحصیل میں مشغول ہوں اور اس کے آلات اور اگرچہ ان آلات کو ایجاد کیا گیا ہو۔ اور اماموں اور مؤذنین کے لیے اگرچہ وہ امیر ہوں اور وہ تمام لوگ جو مسلمین کے بھلائی کے کاموں میں لگے ہوئے ہوں اور ان کے عمومی نفع کی وجہ سے ان تمام کو مال خمس اور مال فے میں سے وظائف دیے جاتے تھے۔ )

مولانا خلیل احمد سہارنپوری فرماتے ہیں:
﴿وفی الحدیث اعظم دلیل علی ان یجوز الاجرة علی الرقی والطب کما قالہ الشافعی ومالک وابو حنیفہ واحمد واما الاجرة علی تعلیم القرآن فاجازہا الجمہور بہذا الحدیث وبروایة البخاری ان اھق ما اخذتم علیہ اجرا کتاب اللہ وحرمہ ابو حنیفہ قالہ ابن رسلان قلت ولکن اجازہ متاخرو الحنفیہ لضرورة ﴾ (بذل المجہود فی حل ابی داؤد ، ج۶،ص۱۱)
ترجمہ: (اس حدیث میں رقیہ اور طب پر اجرت لینے کی بہت بڑی دلیل ہے جیسا کہ امام شافعی، امام مالک ، امام ابو حنیفہ اور امام احمد نے کہا اور رہی تعلیم القرآن پر اجرت تو جمہور نے اس حدیث کی بناء پر اس کی اجازت دی ہے اور صحیح بخاری کی یہ روایت ’’بیشک جن چیزوں پر تم اجرت لیتے ہو ان میں اللہ کی کتاب اجرت لینے کی زیادہ مستحق ہے۔ ‘‘ (بھی اس کی دلیل ہے) اور امام ابو حنیفہ نے اجرت کو حرام قرار دیا ہے جیسا کہ ابن رسلان نے کہا ۔میں (خلیل احمد) کہتا ہوں لیکن متاخرین حنفیہ نے ضرورت کی بناء پر اجرت کی اجازت دی ہے۔ )

اس وضاحت سے ثابت ہوا کہ رقیہ پر تمام علماء کا اجماع ہے یہاں تک کہ امام ابو حنیفہ بھی اس کے قائل ہیں اور تعلیم القرآن پر جمہور کا اتفاق ہے۔ یعنی امت کے علماء کی اکثریت تعلیم القرآن پر اجرت کی قائل ہے۔ اور اس سلسلے میں جو روایات آئی ہیں ان کے صحیح ہونے پر بھی پوری امت کا اتفاق ہے۔ البتہ جن روایات کو ممانعت کے سلسلے میں پیش کیا جاتا ہے وہ نہ تو صحیح ہیں اور نہ ہی اس مسئلہ میں صریح ہیں جن کا ذکر آگے آرہا ہے۔

احناف کا مؤقف:
امام ابو حنیفہ  دم کے علاوہ دیگر دینی امور پر اجرت کے قائل نہیں تھے۔ چونکہ اس دور میں بیت المال موجود تھا اور دینی امور انجام دینے والوں کو بیت المال سے وظائف ملتے تھے لیکن جب بیت المال کا سلسلہ ختم ہوگیا تو علماء احناف نے بھی اپنے مؤقف میں تبدیلی پیدا کی اور وہ دینی امور پر اجرت کے قائل ہوگئے اور اس طرح اس مسئلہ پر گویا پوری امت کا اجماع ہوگیا۔ چنانچہ احناف کے بہت بڑی وکیل امام قاضی خان الحنفی فرماتے ہیں کہ:
﴿انما کرہ المتقدمون الاستیجار لتعلیم ا لقرآن وکرہوا اخذ الاجر علی ذلک لانہ کان للمعلمین عطیات فی بیت المال فی ذلک الزمان وکان لہم زیادة رغبة فی امر الدین واقامة الحسبة وفی زماننا انقطعت عطیاتہم وانتقصت رغائب الناس فی امر الاخرة فلو اشتغلوا بالتعلیم بالحاجة الی مصالح المعاش لاختل معاشہم قلنا بصحة الاجارة ووجوب الاجرة للمعلم بحیث لوامتنع الوالد عن اعطاء الاجر حبس فیہ ا ھ﴾ (فتاوی قاضی خان ۳/۴۳۴ طبع نو لکشور لکھنؤ)
ترجمہ: (بلاشبہ حضرات متقدمین نے تعلیم قرآن کریم پر کسی کو اجرت دے کر ملازم رکھنا مکروہ سمجھا ہے اور اس پر اجرت لینا بھی مکروہ قرار دیا ہے ، کیونکہ اس زمانہ میں معلمین کے لیے بیت المال میں عطیات مقرر ہوتے تھے ۔ نیز امورِ دین اور للہ فی اللہ کام کرنے میں ان حضرات کی رغبت زیادہ تھی۔ اور ہمارے زمانہ میں عطیات بھی منقطع ہو چکے ہیں اور آخرت کے معاملے میں لوگوں کی رغبتیں بھی کم ہو چکی ہیں سو اگر ایسے لوگ ناداری کی حالت میں تعلیم کا شغل جاری رکھتے ہوئے روزی کمانے میں مصروف ہوئے تو ان کی کمائی میں سخت خلل پڑے گا۔ اس لیے ہم نے یہ کہا کہ یہ اجارہ صحیح ہے اور معلم کے لیے اجرت واجب ہے۔ اب اگر تعلیم پانے والے شاگرد کا والد (اور موجود اصطلاح میں مدرسہ ، ادارہ اور مہتمم)معلم کو تنخواہ دینے سے گریز کرے تو اسے گرفتار کیا جائے گا۔)

علامہ ابن النجیم الحنفی (الملقلب بابی حنیفة الثانی) فرماتے ہیں:
﴿اما علی المختار للفتوی فی زماننا فیجوز اخذ الاجر للامام والمؤذن والمعلم والمفتی ا ھ ﴾ (بحرالرائق ، ج۱، ص۲۵۴)
ترجمہ: (بہرحال ہمارے زمانہ میں فتویٰ کے لیے مختار قول یہ ہے کہ امام اور مؤذن اور معلم اور مفتی کو اجرت لینا جائز ہے۔ )
اور صاحب ہدایہ بھی یہی تصریح فرماتے ہیں کہ اب فتویٰ جواز پر ہے ۔(ہدایہ ، ج ۴ ، ص۱۵)اور اسی طرح علامہ بدرالدین العینی الحنفی صراحت فرماتے ہیں۔ (ملاحظہ ہو بنایہ شرح ہدایہ ،ج ۳ ،ص ۶۵۵)

دوسری دلیل:
جناب سہل بن سعد الساعدی کی روایت ہے جس کا خلاصہ یہ ہے ایک خاتون نے اپنے آپ کو نبی ﷺ سے نکاح کرنے کے لیے پیش کیا لیکن آپ کو اس کی خواہش نہ تھی۔ ایک صحابی نے نبی ﷺ سے اس خاتون کے ساتھ نکاح کی درخواست پیش کی، لیکن اس کے پاس مہر میں دینے کے لیے کچھ بھی نہ تھا۔ بالآخر آپ نے اس سے پوچھا کہ اسے کچھ قرآن یاد ہے؟ آخر میں آپ نے فرمایا:
﴿اذہب فقدم انکحتکھا بما معک من القرآن﴾
(جا میں نے اس خاتون کا نکاح تیرے ساتھ اس قرآن کے عوض کر دیا جو تیسرے پاس ہے) (اور جسے تو مہر کے عوض اسے سکھا دے گا۔)
دوسری روایت میں ہے:
﴿قد زوجتکہا بما معک من القرآن﴾
ایک روایت میں ہے:
﴿وقد زوجنا کہا بما معک من القرآن﴾
ایک اور روایت میں ہے:
﴿اذہب فقد ملکتکہا بما معک من القرآن﴾
(جا میں نے تجھے اس خاتون کا مالک بنایا اس قرآن کے عوض جو تیرے پاس ہے۔)
ایک اور روایت میں ہے:
﴿املکنا کہا بما معک من القرآن﴾
اس حدیث کو امام بخاری نے صحیح بخاری میں تیرہ مقامات پر ذکر کیا ہے اور ہر مقام پر اس حدیث سے کسی مسئلہ کا استخراج کیا ہے۔ ایک مقام پر امام بخاری نے اس حدیث پر یہ باب بھی قائم کیا ہے ’’باب التزویج علی القرآن وبغیر صداق‘‘ (قرآن کے عوض نکاح کرنا اور بغیر مہر کے) حافظ ابن حجر العسقلانی  اس باب کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’مطلب یہ ہے کہ تعلیم القرآن کے عوض اور بغیر ظاہری مال کے نکاح کرنا۔ ‘‘

علامہ سندھی کہتے ہیں’’علی مامعک ای علی تعلیمہا‘‘ یعنی جو قرآن آپ کے پاس ہے اور جس کی آپ اسے تعلیم دیں گے۔
اس روایت کی تخریج ملاحظہ فرمائیں:
صحیح بخاری حدیث نمبر ۷۴۱۷،۵۸۱۷،۵۱۵۰،۵۱۴۹،۵۱۴۱،۵۱۳۵،۵۱۳۲،۵۱۲۶، ۵۱۲۱، ۵۰۸۷، ۵۰۳۰، ۵۰۲۹، ۲۳۱۰۔ صحیح مسلم کتاب النکاح باب الصداق، ابوداؤد کتاب النکاح باب فی التزویج علی العمل یعمل ، الترمذی کتاب النکاح باب فی مہور النساء النسائی کتاب النکاح باب ہبة المراة نفسہا بغیر صداق۔

امام ترمذی فرماتے ہیں:
﴿ہذا حدیث حسن صحیح وقد ذہب الشافعی الی ہذا الحدیث فقال ان لم یکن لہ شئ یصد قہا فتزوجہا علی سورة من القرآن فالنکاح جائز، ویعلمہا سورة من القرآن فالنکاح جائز، ویعلمہا سورة من القرآن و قال بعض اہل العلم النکاح جائز و یجعل لہا صداق مثلہا وہو قول اہل الکوفہ واحمد واسحاق ﴾ ( سنن الترمذی کتاب النکاح باب ماجاء فی مہور النسا)
ترجمہ: (یہ حدیث حسن صحیح ہے اور امام شافعی اس حدیث کی بناء پر فرماتے ہیں کہ اگر مہر موجود نہ ہو تو قرآن کی کسی سورة کے بدلے خاتون کا نکاح ہو سکتا ہے۔ پس یہ نکاح جائز ہے اور وہ شخص اس خاتون کو قرآن کی وہ سورة سکھائے گا اور بعض اہل علم کا کہنا ہے کہ یہ نکاح جائز ہے اور وہ شخص اس خاتون کو مہر مثل دے گا اور یہ قول اہل کوفہ اور امام احمد اور امام اسحاق کا ہے۔ )
اس مسئلہ کو ایک دوسری مثال سے بھی سمجھایا جا سکتا ہے ۔ او وہ مسئلہ یہ ہے کہ مالک اگر اپنی لونڈی کو غلامی سے آزاد کر کے اس سے نکاح کر لے اور اس آزادی کو مہر قرار دے ڈالے تو یہ بھی جائز ہے۔ چنانچہ سیدنا انس  سے روایت ہے:

﴿ان رسول اللہ ﷺ اعتق صفیة وجعل عتقیا صداقہا﴾
ترجمہ: (رسول اللہ ﷺ نے صفیہ  کو آزاد فرمایا اور ان سے نکاح کر لیا اور ان کو آزادی کو ان کا مہر قرار دیا۔)
(صحیح بخاری کتاب المغازی باب اتخاذ السراری، کتاب النکاح باب من اعتق جاریة ثم تزوجہا ، صحیح مسلم کتاب النکاح باب فضیلة اعتاق الامة ثم یزوجہا، ابو داؤد کتاب النکاح باب فی الرجل یعتق امة ثم یزوجہا، الترمذی ابواب النکاح باب ماجاء فی الرجل یعتق الامة ثم یزوجہا، الدارمی کتاب النکاح مسند احمد۳/۲۹۱،۲۸۰،۲۴۶، ۲۴۲، ۲۳۹، ۲۰۳، ۱۸۱، ۱۷۰، ۱۶۵، ۹۹)

لونڈی خود مال ہے اور اسے فروخت کر کے مال حاصل کیا جاتا ہے اور اس کی آزادی کو اس حدیث میں مہر کا بدل قرار دیا گیا ہے۔ اسی طرح تعلیم القرآن کو بھی مہر کا بدل قرار دیا گیا ہے۔ معلوم ہوا کہ تعلیم قرآن پر اجرت جائز ہے۔ امام ترمذی فرماتے ہیں:

﴿حدیث انس حدیث حسن صحیح والعمل علی ہذا عند بعض اہل العلم من اصحاب النبی ﷺ وغیرہ موہو قول الشافعی واحمد واسحاق وکرہ بعض اہل العلم ان یجعل عتقہا صداقہا حتی یجعل لہا مہر ا سوہ العتق والقول الاول اصح﴾
ترجمہ: (انس بن مالک کی حدیث صحیح ہے اور اس پر نبی ﷺ کے صحابہ کرام اور دیگر لوگوں میں بعض اہل علم کا عمل ہے اور یہ امام شافعی اور امام احمد امام اسحاق کا قول ہے۔ اور بعض اہل علم نے اسے نا پسند کیا ہے کہ عورت کا مہر اس کی آزادی کو قرار دیا جائے۔ یہاں تک کہ اس عورت کے لیے مہر مقرر کیا جائے، سوائے آزادی کے، لیکن قول اول زیادہ صحیح ہے۔ )

جناب انس بن مالک  سے ان کے شاگرد جناب ثابت نے دریافت کیا:
﴿یا ابا حمزة ما اصدقہا؟ قال نفسہا اعتقا وتزوجہا﴾ (صحیح بخاری ۳۷۱)
ترجمہ: (اے ابو حمزہ! (یہ انس  کی نیت ہے) صفیہ  کا مہر کیا تھا؟ انہوں نے فرمایا ان کا نفس(جان) رسول اللہ ﷺ نے ان کو آزاد کیا اور ان سے نکاح کر لیا۔ )

ایک روایت میں ہے کہ ام سلیم کا مہر ابو طلحہ  کا اسلام لانا قرار پایا:
﴿عن انس قال تزوج ابو طلحہ ام سلیم فکان صداق ما بینہما الاسلام اسمت ام سلیم قبل ابی طلحة قحطبہا فقالت انی قد اسلمت فان اسلمت نکحتک فاسلم فکان صداق ما بینہا﴾ (نسائی، کتاب النکاح باب التزویج علی الاسلام)
ترجمہ: (انس  فرماتے ہیں کہ ابو طلحہ  نے ام سلیم سے نکاح کیا۔ ان کے درمیان ابو طلحہ  کا اسلام لانا مہر قرار پایا۔ ام سلیم  ابو طلحہ  سے پہلے اسلام لے آئیں تھیں۔ جب ابو طلحہ  نے ان کو نکاح کا پیغام دیا تو انہوں نے جواب دیا کہ میں مسلمان ہو چکی ہوں اگر تم اسلام قبول کر لو تو میں تم سے نکاح کر لوں گی۔ پس ابوطلحہ  نے اسلام قبول کر لیا۔ پس یہی ان کا مہر قرار پایا۔)

﴿عن انس قال خطب ابو طلحة ام سلیم فقالت واللہ ما مثلک یا ابا طلحة یردولکنک رجل کافروانا امراة مسلمة ولا یحل لی ان اتزوجک فان تسلیم فذاک مہری ولا اسالک غیرہ فاسلم فکان ذلک مہرہا ﴾ (ایضاً)
ترجمہ: (سیدنا انس  فرماتے ہیں کہ ابو طلحہ  نے ام سلیم کو نکاح کا پیغام دیا تو انہوں نے کہا کہ اللہ کی قسم ابو طلحہ  تمہاری طرح کے آدمی کو رد نہیں کیا جاتا لیکن تم کافر ہو اور میں مسلمہ اور میرے لیے جائز نہیں کہ تم سے نکاح کروں، ہاں اگر تم اسلام قبول کر لو تو یہی میر مہر ہوگا اور اس کے علاوہ میں تم سے کچھ نہ طلب کروں گی۔ چنانچہ ابو طلحہ  نے اسلام قبول کر لیا اور یہی ان کا مہر رہا۔)

اس روایت سے معلوم ہوا کہ ابو طلحہ  کی راہ میں غربت حائل نہ تھی البتہ ام سلیم  نے خود ہی ان کو اپنا مہر معاف کر دیا تھا اور ان کے اسلام لانے ہی کو ان کا مہر قرار دیا۔ معترض نے اس حدیث پر یہ اعتراض کیا ہے کہ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اسلام قبول کرنے پر مال و دولت لینا جائز ہوا یا مال و دولت کے عوض اسلام قبول کرنا مستحسن قرار پایا۔ (ص۲۰)

اسلام قبول کرنے کی تو کوئی قیمت ہی نہیں لگائی جا سکتی اب یہ ام سلیم  پر ہی منحصر ہے کہ انہوں نے ابو طلحہ  کو مہر کیوں معاف کر دیا اور ان کےا سلام لانے پر کیوں راضی ہوگئیں؟ قرآن کریم میں ایک مقام پر آیا ہے:
’’والمؤلفة قلوبہم ‘‘اس کا موصوف کیا مطلب لیں گے۔ اسلام کی طرف راغب کافرو مشرک یا نیا نیا اسلام قبول کرنے والوں کی اگر مالی اعانت کی جائے تو اس کا یہ مطلب ہوا کہ ان لوگوں نے مال و دولت کے لیے اسلام قبول کیا تھا؟ معترض جیسے لوگوں کو اپنی نیتوں کا علاج کرنا چاہیے۔ معلوم ہوتا ہے کہ خود ان کی اپنی نیتوں میں فتور ہے اور اس کا الزام یہ دوسروں پر لگا رہے ہیں ۔ ایک دور وہ تھا کہ اسلام کے چاہنے والوں نے پیٹ پر پتھر باندھ کر بھی اسلام کو سینہ سے لگائے رکھا اور پھر ایک ایسا دور بھی آیا کہ انہی صحابہ کرام نے اسلامی برکت سے قیصر و کسریٰ کے خزانوں کو حاصل کیا۔ قیصرو کسریٰ کے خزانے لوٹنے والوں کے متعلق معترض کیا فتویٰ لگائیں گے؟ دین کی برکت سے اللہ تعالیٰ اگر اہل ایمان کو مالا مال کر دے تو اس پر آپ کو کیا اعتراض ہے؟ کیا جہاد کے ذریعے جو مال غنیمت حاصل ہوتا ہے معترض اس کے بھی منکر ہیں؟

اس حدیث سے ثابت ہوا کہ نکاح میں اسلام کو بھی بطور مہر مقرر کیا جا سکتا ہے اور اسلام اسی طرح مہر مقرر ہو سکتا ہے جیسا کہ قرآن کو نبی ﷺ نے مہر کے طور پر مقرر فرمایا۔ اور قرآن گویا اس مال کا بدل ہے جو مہر میں مقرر کیا جاتا ہے اور چونکہ قرآن کے سکھانے میں محنت کرنی پڑتی ہے۔ لہٰذا اس محنت کے عوض مال و دولت (تنخواہ) لی جا سکتی ہے۔ اس کی ایک اور مثال جناب موسیٰ  کے واقعہ سے بھی واضح ہوتی ہے۔

جناب موسیٰ کا نکاح:
موسیٰ  کے ہاتھ سے جب ایک قبطی ہلاک ہوگیا تو آپ گرفتار ی کے خوف سے مصر سے نکلے اور مدین جا پہنچے۔ اور آخر کار شعیب  کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ ان کی بیٹیاں موسیٰ  کی قوت و امانت کا مشاہدہ کر چکی تھیں۔ لہٰذا ایک بیٹی کہنے لگی:
﴿ قَالَتْ اِحْدٰىهُمَا يٰٓاَبَتِ اسْتَاْجِرْهُ ۡ اِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْـتَاْجَرْتَ الْقَوِيُّ الْاَمِيْنُ 26؀قَالَ اِنِّىْٓ اُرِيْدُ اَنْ اُنْكِحَكَ اِحْدَى ابْنَـتَيَّ هٰتَيْنِ عَلٰٓي اَنْ تَاْجُرَنِيْ ثَمٰـنِيَ حِجَجٍ ۚ فَاِنْ اَتْمَمْتَ عَشْرًا فَمِنْ عِنْدِكَ ۚ وَمَآ اُرِيْدُ اَنْ اَشُقَّ عَلَيْكَ ۭ سَتَجِدُنِيْٓ اِنْ شَاۗءَ اللّٰهُ مِنَ الصّٰلِحِيْنَ 27؀قَالَ ذٰلِكَ بَيْنِيْ وَبَيْنَكَ ۭ اَيَّمَا الْاَجَلَيْنِ قَضَيْتُ فَلَا عُدْوَانَ عَلَيَّ ۭ وَاللّٰهُ عَلٰي مَا نَقُوْلُ وَكِيْلٌ 28؀ۧ﴾
(القصص: ۲۶۔۲۸)
ترجمہ: (ان میں سے ایک بولی ابا جان! اسے اپنا نوکر رکھ لیجیے بہترین آدمی جسے آپ نوکر رکھنا چاہیں وہی ہو سکتا ہے جو طاقتور اور امین ہو۔ شعیب  نے (موسیٰ  سے ) کہا میں چاہتا ہوں کہ اپنی دونوں بیٹیوں میں سے ایک کا تجھ سے اس شرط پر نکاح کر دوں کہ تم میرے ہاں آٹھ برس ملازمت کرو اور اگر دس سال پورے کر دو تو تمہاری مہربانی۔میں اس معاملے میں تم پر سختی نہیں چاہتا ان شاء اللہ تم مجھ کو ایک خوش معاملہ آدمی پاؤ گے۔ موسیٰ  نے کہا یہ بات میرے اور آپ کے درمیان طے ہوگئی جونسی مدت بھی میں پوری کروں مجھ پر کچھ دباؤ نہ ہوگا اور جو کچھ ہم قول و قرار کر رہے ہیں اس پر اللہ نگہبان ہے۔)

اس بیان سے معلوم ہوا کہ موسیٰ  کا نکاح اس شرط پر ہوا کہ وہ شعیب  کے ہاں آٹھ برس تک ملازمت کریں اور ان کی بکریاں چرائیں گے۔ اور اگر وہ دس سال پورے کریں تو یہ انکا احسان ہوگا۔ گویا موسیٰ  کا مہر شعیب  کے ہاں ملازمت کرنا قرار پایا۔ یہ واقعہ اوپر نقل کردہ احادیث کی پوری طرح وضاحت اور تشریح کرتا ہے اور اس مسئلہ کی اس سے زیادہ وضاحت ممکن نہیں ہے ۔ البتہ جس نے نہ ماننا ہو تو ’’ میں نہ مانوں‘‘ کا علاج کسی کے پاس نہیں۔

بعض اعتراضات اور ان کے جوابات:
عذابِ قبر کے منکرین نے ابو سعید الخدری اور ابن عباس  کی احادیث پر کچھ اعتراضات وارد کیے ہیں اور ان احادیث کے جوانے دینے کی سعی و کوشش کی ہے اور مختلف قسم کی تاویلات پیش کر کے ان احادیث کا مفہوم بدلنے کے لیے پورا زور لگایا ہے۔ چنانچہ ان کے اعتراضات کو پیش کر کے ان کے جوابات بھی پیش کیے جاتے ہیں تاکہ یہ مسئلہ بالکل واضح اور بے غبار ہو جائے۔

پہلا اعتراض:
ڈاکٹر عثمانی لکھتے ہیں: یہ ایک غیر معمولی واقعہ تھا اور اس خاص موقع پر صحابہ کرام نے ان قبیلہ والوں سے اجرت کا معاملہ صرف ان کی بے مروتی سےناراض ہونے کی وجہ سے کیا تھا۔ (تعویزات اور شرک ،ص۱۴)
 

ٹائپسٹ

رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
186
ری ایکشن اسکور
987
پوائنٹ
86
ڈاکٹر موصوف کا ایک مقلد خاص لکھتا ہے:
’’حدیث بالا صاف بتا رہی ہے کہ یہ دینی امور پر اجرت لینے کا معاملہ سرے سے ہے ہی نہیں ، اس حدیث سے دینی امور پر اجرت کا استدلال کرنے والے محض حماقت و جہالت کا شکار ہیں۔ دراصل مال و زر کی ہوش میں دین اور دینداری سے ان کا دور کا بھی واسطہ نہیں رہا۔ دین سے ان کا تعلق محض پیشہ ورانہ ہی رہ گیا ہے۔ ابو سعید خدری کی حدیث میں جو بیان کیا گیا ہے وہ ایک خاص الخاص واقعہ ہے اس زمانے مٰں جب ہوٹل اور ریستوران کا رواج نہیں تھا اور قبیلہ والوں نے ضابطہٴ اخلاق اور معروف رواج کے برعکس ضیافت کرنے سے انکار کر دیا تو اس صورتحال میں اس کے سوا اور کیا چارہ تھا کہ ان سے حق ضیافت کسی بھی طرح وصول کر لیا جاتا یہ تو اضطراری حالات کا تقاضہ تھا اور حالت اضطراری میں ایسا قدم اٹھانے کی اجازت ہے۔

حق ضیافت وصول کر لینے سے متعلق نبی ﷺ کا ارشاد گرام بھی ملاحظہ فرمالیجیے:
﴿عن عقبة بن عامر انہ قال قلنا یا رسول اللہ انک تبعثنا فتنزل بقول فلا یقروننا فما تریٰ فقال لنا رسول اللہ ﷺ ان نزلتم بقول فامروا لکم بما ینبغی للضیف فاقبلوا فان لم یفعلوا فخذوا منہم حق الضیف الذی ینبغی لہم ﴾
(بخاری کتاب الادب باب اکرام الضیف و مسلم، ابو داؤد، ابن ماجہ ، مسند احمد)
ترجمہ: (عقبہ بن عامر  فرماتے ہیں کہ ہم نے کہا کہ اللہ کے رسول ﷺ آپ ہمیں بھیجتے ہیں اور راستے میں ہم بعض قبیلوں کے یہاں پڑاؤ کرتے ہیں لیکن وہ ہماری میزبانی نہیں کرتے۔ آپ بتایئے اس صورتحال میں ہم کیا کریں؟ نبی ﷺ نے فرمایا: جب تم کسی قوم کے یہاں پڑاؤ کرو اور وہ تمہاری مہمان نوازی کریں جو مہمان کے لیے مناسب ہوتی ہے تو اسے قبول کر لو اور اگر وہ ایسا نہ کریں تو ان سے مہمان کا وہ حق وصول کر لو جو ان پر لازم ہے۔ )

کیا فن دینداری کے ان ماہرین نے قرآن کا مطالعہ نہیں کیا؟ موسیٰ  ، خضر  کے ساتھ ایک بستی میں پہنچے اس بستی کے لوگوں نے کہنے کے باوجود ان کے کھانے کے اہتمام نہ کیا۔ خضر  نے جب ان کی ایک دیورا کو جر گرنے والی تھی سیدھا کر دیا تو موسیٰ  نے فوراً ان سے کہا کہ:’’ ۔۔۔۔ لَوْ شِئْتَ لَتَّخَذْتَ عَلَيْهِ اَجْرًا 77؀ ‘‘ (الکھف ۷۷) (اگر آپ چاہتے تو اس پر کچھ اجرت طلب کر لیتے۔ )

اللہ کے برگزیدہ رسول  تو اعلیٰ اخلاق اور اعلیٰ ظرفی میں خود ایک نمونہ ہوتے ہیں اور معمولی فروگذاشت پر انتقامی جذبہ ان کے شایانِ شان نہیں ہوتا۔ لیکن اس دور میں جبکہ ہوٹلوں وغیرہ کا وجود نہ تھا مہمان نوازی نہ کرنا ایک بڑی حق تلفی اور عظیم معاشرتی جرم تصور کیا جاتا تھا، اسی لیے اضطراری حالت میں اپنا حق لینے کے جذبے سے ہی درج بالا الفاظ موسیٰ  کی زبان پر آئے۔ (دین داری یا دکان داری ص۱۴)

الجواب: یہ بات اس حد تک درست ہے کہ صحابہ کرام نے قبیلہ والوں کی بے مروتی کی وجہ سے ان سے دم پر اجرت لی تھی ، لیکن اجرت لینے کے بعد صحابہ کرام کے ذہنوں میں یہ اشکال پیدا ہوا کہ دم پر اجرت لینا جائز ہے یا نہیں؟ چنانچہ صحابہ کرام ( میں سے بعض) نے اس اجرت کو لینا پسند نہیں کیا اور کہا کہ اے اللہ کے رسولﷺ! انہوں نے کتاب اللہ پر اجرت لی ہے؟ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا: جن چیزوں پر تم اجرت لیتے ہو ان میں اللہ کی کتاب اجرت لینے کی زیادہ مستحق ہے۔ (بخاری) اور دوسری روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’قد اصبتم‘‘ (تم نے بالکل درست کام کیا ہے) (بخاری و مسلم) اور ابو داؤد کی روایت میں ’’احسنتم‘‘ (تم نے اچھا کیا)نبی ﷺ کے یہ فرامین تمام عثمانی تاویلات کا بھانڈا بیچ چوراہے میں پھوڑ دینے کے لیے بہت ہی کافی و شافی ہیں اور اس دلیل سے واضح ہوگیا ہے کہ اللہ کی کتاب پر اجرت بالکل جائز ہے اور اجرت کا مال بالکل پاک و طیب ہے۔ جس کے کھانے میں کوئی حرج نہیں۔ لیکن ستم ظریفی ملاحظہ فرمایے کہ ڈاکٹر موصوف نے صحیح بخاری کی اس واضح حدیث کو اور ابو سعید الخدری  کی حدیث کے الفاظ ’’قد اصبتم ‘‘کو نقل تک نہیں کیا، کیونکہ اس طرح ان کے قائم کردہ فلسفہ کا پول کھل جاتا۔ ڈاکٹر موصوف کی ہمیشہ سے یہ عادت رہی ہے کہ وہ احادیث نقل کرنے میں خیانت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ عذابِ قبر کی وہ احادیث جو ان کے عقیدہ کے خلاف ہوتی ہیں ان کا اہم حصہ وہ نقل تک نہیں کرتے ملاحظہ فرمایے ان کا کتابچہ ’’عذابِ برزخ‘‘۔

دین اسلام کے بہت سے مسائل کسی واقعہ کے تحت ہی وجود میں آئے۔ قرآن کریم کی بعض سورتیں یا آیات کسی خاص پس منظر میں نازل ہوئیں لیکن آج تک کسی نے یہ نہیں کہا کہ چونکہ ان آیات کا فلاں واقعہ کے ساتھ تعلق ہے لہٰذا انہیں انہی واقعات کے ساتھ ہی مخصوص سمجھا جائے بلکہ خاص واقعات کے تحت نازل ہونے والی آیات میں جو احکامات نازل کیے گئے وہ قیامت تک آنے والے انسانوں کے لیے مشعل راہ ہیں اور دینا سلام کے اوامر و نواہی کے بہت سے احکامات ان ہی واقعات سے حاصل ہوتے ہیں۔ اسی طرح اس واقعہ کو چاہے خاص واقعہ ہی تسلیم کر لیا جائے (جبکہ یہ دعویٰ بھی دلیل ہے) لیکن اس واقعہ کے نتیجہ میں رسول اللہ ﷺ نے ایک عام حکم صادر فرما دیا اور یہ اہل ایمان کے لیے قیامت تک کے لیے ایک قانون کی شکل اختیار کر گیا۔ اس سلسلے میں دو صحیح احادیث سے یہ مسئلہ بالکل واضح ہو جاتا ہے۔

اولاً: نبی ﷺ نے صحابہ کرام کے دم کرنے اور اس پر بکریاں وصول کرنے اور تیس بکریوں کی شرط لگانے وغیرہ کو درست قرار دیا اور ان الفاظ کے ساتھ صحابہ کرام کے اس عمل کی تائید کی۔ ’’قد اصبتم ‘‘( تم نے بالکل درست کام کیا ) اور ’’احسنتم‘‘ ( تم نے اچھا کیا) بلکہ صحابہ کرام کے اس عمل سے آپ اس قدر راضی ہوئے کہ آپ ہنس پڑے اور فرمایا ’’وما ادراک انہارقیہ؟‘‘ (تمہیں کیسے معلوم ہوا کہ سورةفاتحہ ایک دم ہے۔)

ثانیاً: دوسری روایات میں اس سے بھی زیادہ وضاحت موجود ہے۔ جب صحابہ کرام میں سے بعض نے یہ اعتراض کیا کہ انہوں نے کتاب اللہ پر اجرت لی ہے؟ آپ نے ارشاد فرمایا:
﴿ان احق ما اخذتم علیہ اجرا کتاب اللہ ﴾
ترجمہ: (جن چیزوں پر تم اجرت لیتے ہو ان میں کتاب اللہ اجرت کی زیادہ مستحق ہے۔ )

ڈاکٹر موصوف نے اوپر والی روایت صحیح بخاری کے جس صفحہ سے نقل کی ہے یہ روایت بھی اسی صفحہ پر موجود ہے لیکن تعصب اور ضد کا برا ہو کہ انسان اپنے نظریہ کی وجہ سے احادیث کو بھی جھٹلا دیتا ہے۔ چنانچہ موصوف نے اس حدیث کا ذکر تک نہیں کیا، کیونکہ اس روایت سے موصوف کی تمام تاویلات دھری کی دھری رہ جاتی ہیں۔ اس روایت میں ایک عام قانون بیان کیا گیا ہے اور وہ یہ کہ اللہ کی کتاب پر اجرت وصول کی جا سکتی ہے۔ چاہے تعلیم قرآن و حدیث ہو اور چاہے دم کا معاملہ ہو۔ بہرحال ان تمام امور پر اجرت وصول جا سکتی ہے۔ ان دونوں احادیث سے اس کے علاوہ کچھ ثابت نہیں ہوتا۔

رہا یہ دعویٰ کہ صحابہ کرام نے دراصل ان قبیلہ والوں سے حق ضیافت وصول کیا تھا تو یہ نرا دعویٰ ہی ہے اور اس کی کوئی دلیل ان روایات میں موجود نہیں۔ البتہ قبیلہ والوں نے صحابہ کرام کی ضیافت سے انکار کر دیا تھا۔ اب اللہ تعالیٰ کی قدرت ملاحظہ فرمائیں کہ اسی موقع پر ان کے سردار کو ایک زہریلے سانپ نے ڈس لیا۔ اور جب قبیلہ والے اس کے علاج سے عاجز آگئے تو پھر وہ صحابہ کرام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور صحابہ کرام نے دم کرنے سے پہلے ان سے اجرت طے کر لی اب اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ صحابہ کرام نے یہ بکریاں ان سے ضیافت کے طور پر وصول کی تھیں نبی ﷺ کی خدمت میں جب یہ واقعہ بیان کیا گیا تو آپ ﷺ نے صحابہ کرام کے اس طرز عمل کی تائید فرمائی، اور اس طرح دم پر اور کتاب اللہ پر اجرت کا ایک دائمی قانون آپ نے بیان فرما دیا۔اب صحابہ کرام کے اس سفر میں عدم ضیافت کی بات بیان کی جائے لیکن اس واقعہ کے اختتام پر جو قانون بیان ہوا موصوف اسے بھی نگاہ میں رکھیں۔ اس قانون کو نظر انداز کر دینا درست نہیں ہے۔ بلکہ یہ شیوہ منکریں حدیث کا ہے۔
صحیح مسلم کی روایت میں یہ بھی ہے ان قبیلہ والوں نے صحابہ کرام کی دودھ سے تواضع فرمائی جس سے یہ ثابت ہو گیاکہ قبیلہ والوں کو جب بعد میں اپنی غلطی کا احساس ہوا تو انہوں نے دودھ سے صحابہ کرام کی خاطر مدارت کی اور حق ضیافت کو ادا کیا۔
اور اس وضاحت سے وہ تمام مفروضے غلط ثابت ہو جاتے ہیں کہ جنہیں موصوف نے فلسفیانہ انداز میں خوب بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔

موصوف نے بھی اپنے استاد ڈاکٹر موصوف کی طرح ابو سعید خدری  کی روایت جس میں یہ الفاظ ’’قد اصبتم یا احسنتم ‘‘ کو نقل کرنا گوارہ نہیں کیا۔ کیونکہ اس طرح ان کے بنے ہوئے تانے بانے ارو تاویلات کا سلسلہ ان الفاظ کے ذکر کرنے سے ختم ہو جاتا ہے۔ موصوف نے اگرچہ ابو سعید الخدری  اور ابن عباس  کی روایت کے جوابات دینے کے لیے کئی پینترے بدلے ہیں لیکن اس ساری بحث میں ان الفاظ ’’قد اصبتم ، احسنتم‘‘ کو ذکر کرنا مناسب نہیں سمجھا۔

اس عثمانی مقلد کو جس نے خود جہالت اور تقلید کی پٹی آنکھوں پر باندھ رکھی ہے اور جہالت کے اندھیروں میں ٹامک ٹویاں مار رہا ہے لیکن اس دوسرے تمام علماء اور محدثین جاہل نظر آ رہے ہیں ۔ انگریز کی درسگاہوں میں انگریزی اور جدید تعلیم کے حصول کے لیے زندگیاں وقف کر دینے والے یہ ’’بابو‘‘ دینی علوم اور عربی علوم سے بالکل نا بلد ہوتے ہیں۔ لیکن اس جہالت کے باوجود بھی دوسرے علماء اور محدثین اس کی نگاہ میں جاہل اور بے علم ہیں۔ ان احادیث کے مطلب کو نہ سمجھتے ہوئے اور جہالت کا عظیم الشان مظاہرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’ اس حدیث سے دینی امور پر اجرت کا استدلال کرنے والے محض حماقت و جہالت کا شکار ہیں۔ دراصل مال و زر کی ہوس میں دین اور دینداری سے ان کا دور کا بھی واسطہ نہیں رہا۔ دین سے ان کا تعلق محض پیشہ ورانہ ہی رہ گیا۔ ‘‘۔۔۔۔یہ ہرزہ سرائی کوئی دینی خدمت نہیں محض دکانداری کے کھلے دروازے کو کھلا رکھنے کی ناروا اور احمقانہ کوشش ہے۔۔۔ تو پھر ان تمام چیزوں پر اس سے دلیل لانا احمقانہ کوشش ہے۔‘‘ وغیرہ

موصوف کے نزدیک انگریزوں اور ان کے پٹھو حکمرانوں کے دفاتر میں زندگیاں وقف کر دینے والے اور دنیاوی علوم سکھانے والوں کی تنخواہیں بالکل درست اور حلال و طیب ہیں ، جبکہ دینی علوم کی تعلیم دینے اور قرآن و حدیث سکھانے والوں کی تنخواہیں اور وظیفے نا جائز اور حرام ہیں۔ اور یہ فتویٰ بازی انگریزوں اور یہودونصاری کے پٹھو اس لیے کر رہے ہیں کہ ان کے فتوؤں سے عاجز آ کر علماء کرام یہ دینی درسگاہیں بند کردیں اور قرآن و حدیث کی تعلیم کا یہ سلسلہ ہمیشہ کے لیے بند ہو جائے۔ ظاہر ہے کہ جب علماء قرآن و حدیث کے دروس چھوڑ کر دنیا کی طرف راغب ہو جائیں گے اور دین کی تعلیم دینے والا کوئی باقی نہ رہے گا تو اس طرح دنیا سے قرآن و حدیث کے علوم کے سیکھنے اور سکھانے کا سلسلہ یکسر ختم ہو جائے گا اور یہود و نصاری یہی کچھ چاہتے ہیں ۔ جبکہ قرآن و حدیث کی تعلیم ایک اعلیٰ درجہ کی تعلیم ہے اور اس کے سکھانے والے اجر عظیم کے مستحق ہیں اور جن حضرات کے پاس دنیاوی وسائل موجود ہوں اور وہ صرف اللہ کی رضا اور خوشنودی کے لیے دینی علوم کی تعلیم دیں تو ان کے کیا کہنے۔ البتہ جن کے پاس یہ وسائل موجود نہ ہوں تو اسلام ایسے مخلص علماء کرام کو بھوکا پیاسا مارنا نہیں چاہتا بلکہ ایسے علماء کی کفالت اسلامی حکومت کا کام ہے کہ وہ ایسے علماء کرام بلکہ ایسے تمام دینی اداروں کی بھی کفالت کریں اور ماضی میں یہ کام اسلامی حکومتیں ہی کرتی رہی ہیں۔ ضروری ہے کہ ان علماء کرام کو بھی بھر پور وظائف دیے جائیں تاکہ وہ معاش کے مسائل سے بے فکر ہو کر صرد دین کی محنت میں لگے رہیں اور اس طرح قرآن و حدیث کے علوم کے یہ چشمے جاری و ساری رہیں۔

اور یہ وظائف ان تنخواہوں سے بہتر ہیں کہ جو دفتروں اور دنیاوی اداروں میں پوری زندگی کھپا دینے سے حاصل ہوتی ہیں ۔ مال و دولت کے یہ رسیا صرف دنیاوی دولت و دنیا کی چمک دمک کو حاصل کرنے کے لیے ساری زندگی غیر کی غلامی میں گزار دیتے ہیں جبکہ دینی خدمات انجام دینے والے معمولی وظیفہ حاصل کر کے اور اس پر گزر بسر کر کے دین کے لیے کار ہائے نمایاں انجام دے جاتے ہیں۔ دنیا کے حریص تو بسا اوقات کروڑوں اور کھربوں کے گھپلے کر کے اور فراڈ اور دھوکا کے ذریعے اپنے گھروں کو مال و دولت سے بھر لیتے ہیں جب کہ علماء اپنی آخرت کو سنوارنے کی فکر میں لگی رہتے ہیں۔ نبی ﷺ نے کتاب و سنت کے وارثین کو دنیا کی طرف جانے کے بجائے قرآن و حدیث کی خدمت پر مامور کر دیا تاکہ یہ دین کی تعلیم بھی دیں اور کتاب اللہ سے ان کے معاش کا بھی انتظام ہو جائے۔ اسی لیے فرمایا: ’’اللہ کی کتاب اس کی زیادہ حق دار ہے کہ اس پر اجرت حاصل کی جائے۔ ‘‘ اگر قرآن و حدیث کی تعلیم سے بے رغبتی اختیار کی گئی اور دنیا کے حصول کو مقصد بنا لیا گیا تو پھر دنیا میں جہالت عام ہو جائے گی اور جب قرآن و حدیث کا علم علماء کرام کے اٹھ جانے سے ختم ہو جائے گا تو پھر قیامت انتہائی قریب ہو جائے گی۔ جناب انس بن مالک  سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
﴿ان من اشراط الساعة ان یرفع العلم ویشبت الجہل ویشرب الخمر ویظہر الزنا﴾
(صحیح بخاری ، کتاب العلم باب رفع العلم وظہور الجہل۶۸۰۸،۵۵۷۷،۵۲۳۱،۸۱،۸۰ ، صحیح مسلم کتاب العلم باب رفع العلم قبضہ وظہور الجہل والفتن فی آخر الزماں مسند احمد ۳/۱۷۶، ۲۷۳،۲۱۳،۲۰۲، مشکاة ۵۴۳۷)

ترجمہ: (بے شک قیامت کی نشانیوں میں سے ہے کہ (دین کا) علم اٹھ جائے گا اور جہالت قائم ہو جائے گی اور شراب (کثرت سے) پی جائے گی اور زنا کھلم کھلا (اعلانیہ) ہوگا۔)

دوسری روایت میں ہے:
﴿من اشراط الساعة ان یقل العلم ویظہر الجہل ﴾
ترجمہ: (علم کم ہو جائے گا اور جہالت پھیل جائے گی۔) (بخاری ۸۱)

اس باب کے تحت امام بخاری نے امام ربیعہ کا یہ قول نقل کیا ہے:
﴿لا ینبغی لا حد عندہ شئ من العلم ان یضیع نفسہ﴾
ترجمہ: (جس شخص کو (دین کا) تھوڑا سا بھی علم ہو وہ اپنے تئیں بے کار نہ کر دے)
یعنی اس علم کو لوگوں کو سکھا دی۔

سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص  بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ بیان کرتے ہوئے سنا ہے:
﴿ان اللہ لا یقبض العلم انتزاع ا ینتزعہ من العباد ولکن یقبض العلم بقبض العماء حتی اذا لم یبق عالم اتخذ الناس رؤسا جہالا فسئلوا فافتوا بغیر علم فضلوا واضلوا﴾
(صحیح بخاری کتاب العلم باب کیف یقبض العلم ۷۳۰۷،۱۰۰، صحیح مسلم کتاب العلم باب رفع العلم ترمذی ۲۶۵۲، ابن ماجہ ۹، مسند احمد ۲/۱۹۰،۱۶۲، مشکوة ۲۰۶)

ترجمہ: (اللہ تعالیٰ علم کو (آخری زمانے میں) اس طرح نہیں اٹھائے گا کہ لوگوں کے دل و دماغ سے اس کو نکال لے بلکہ علم کو اس طرح اٹھائے گا کہ علماء (حق) کو اٹھالے گا حتی کہ جب کوئی عالم باقی نہیں رہے گا تو لوگ جاہلوں کو اپنا پیشوا اور مقتداء بنا لیں گے اور ان سے دین کی باتیں پوچھیں گے اور وہ لوگ علم کے بغیر فتویٰ دیں گے۔ (یعنی قرآن و حدیث کے بجائے لوگوں سے اپنی آراء اور خیال کو بیان کریں گے۔) اس طرح وہ خود بھی گمراہ ہوں گے اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے۔ )

لہٰذا علم کی حفاظت کے لیے ضروری ہے کہ دینی اداروں کو تحفظ فراہم کیا جائے اور جاہل اور گمراہ مفتیوں سے بچا جائے۔ اور ان سے دور رہا جائے۔ علماء حق کو معاشرے میں اہم مقام دیا جائے اور ان کی عزت و احترام کو لازم قرار دیا جائے۔ امام بیہقی  قرآن پر نکاح والی حدیث کا ذکر کرنے کے بعد عبداللہ بن عباس  کی حدیث کا ذکر کرتے ہیں اور فرماتے ہیں:
﴿رواہ البخاری فی الصحیح عن سید ان عن یوسف وھو عام فی جواز اخذ الاجرة علی کتاب اللہ تعالیٰ بالتعلیم وغیرہ۔ واذا جاز اخذ الاجرة علیہ جاز ان یکون مہر ﴾ (معرفة السنن والآثار ۵/۳۸۱)
ترجمہ: (امام بخاری نے اس حدیث کو سیدان عن یوسف کی سند سے ذکر کیا اور یہ حدیث کتاب اللہ کی تعلیم وغیرہ پر اجرت کے جواز کے لیے عام ہے اور جب کتاب اللہ پر اجرت جائز ہے تو جائز ہے کہ وہ مہر کا بدل بن سکے۔ ) (یعنی تعلیم القرآن کو مہر کا بدل قرار دیا جا سکتا ہے۔ )

جہاں تک عقبہ بن عامر  کی روایت کا تعلق ہے جس میں حق ضیف وصول کرنے کا ذکر ہے تو یہ ایک الگ مسئلہ ہے۔ امام بخاری نے کتاب الادب باب اکرام الضیف میں اس حدیث کو وارد کیا ہے۔ اگر اس مسئلہ کا کچھ بھی تعلق ان احادیث کے ساتھ ہوتا تو امام بخاری وہاں بھی اس حدیث کو وارد کر دیتے جیسا کہ امام صاحب کی عادت ہے اور وہ ایک حدیث سے کئی مسائل اخذ کرتے ہیں۔ اس باب میں امام بخاری نے ابراہیم  کے مہمانوں کا بھی ذکر کیا ہے جن کا واقعہ قرآن کریم کی مختلف سورتوں میں آیا ہے اور ابراہیم  نے ان کی خاطر مدارت کی تھی اور ابو ہریرہ  کی مشہور حدیث بھی ذکر ہے جس میں یہ بھی ہے:

﴿من کان یؤمن باللہ والیوم الاخر فلیکرم ضیفہ﴾
ترجمہ: (جو شخص اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ وہ مہمان کا اکرام کرے۔ )

حافظ ابن حجر العسقلانی عقبہ بن عامر  کی حدیث کے تحت فرماتے ہیں:
﴿وقال الجمہور: الضیافة سنة مؤکدة واجابوا عن حدیث الباب باجوبہ احد ہاحملہ علی المضطرین ثم اختلفوا ہل یلزم المضطر العوض ام لا؟ وقد تقدم بیانہ فی اواخر ابواب اللقطة واشار الترمذی الی انہ محمول علی من طلب الشراء محتاجا فامتنع صاحب الطعام فلہ ان یاخذہ منہ کرہا قال وروی نحو ذلک فی بعض الحدیث مفسر﴾
(فتح الباری ۵/۱۰۸، کتاب المظالم باب قصاص المظلوم)
ترجمہ: (اور جمہور کہتے ہیں کہ ضیافت سنت موکدہ ہے اور اس حدیث کے انہوں نے کئی جوابات دیے ہیں۔ ایک جاب یہ ہے کہ یہ حدیث مضطر پر محمول ہے ، پھر انہوں نے اس میں اختلاف کیا ہے کہ کیا مضطر کو عوض لازم آتا ہے یا نہیں اور اس کی تفصیل ہم نے ابواب اللقطہ کے آخر میں بیان کر دی ہے اور امام ترمذی نے اشارہ کیا ہے کہ یہ اس شخص پر محمول ہے کہ جو ضرورت کے وقت کھانا خریدنا چاہے اور کھانے والا اسے نہ دے تو طاقت کے ذریعے اس سے کھانا حاصل کر لینا جائز ہے اور یہ مضمون بعض احادیث میں تفصیل سے آچکا ہے۔ )

حافظ صاحب اس حدیث کے بہت سے جوابات نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
﴿واقوی الاجوبة الاول واستدل بہ علی مسالة الظفر وبہا قال الشافعی الخ﴾ (۵/۱۰۹)
ترجمہ: (اور تمام جوابات سے قوی تر جواب پہلا ہے (اور جس کی تفصیل اوپر بیان ہو چکی ہے) اور اس کے ساتھ استدلال کیا گیا ہے ناخن کے مسئلہ پر اور یہی قول امام شافعی کا ہے۔ الخ)

اس تفصیل سے واضح ہوا کہ اس حدیث کا تعلق اضطراری کیفیت سے ہے عام حالات میں اگر قبیلہ والے میزبانی کریں تو درست ہے ورنہ ان سے کوئی زبردستی نہیں۔ لیکن اگر بھوک کی وجہ سے اضطراری حالت پیدا ہو جائے تو ایسے حالات میں حرام کے کھانے کا بھی جواز موجود ہے۔ لہٰذا ایسی صورت میں ان سے زبردستی کی جائے گی۔ عام حالات میں جناب موسیٰ اور جناب خضر نے بھی جب بستی والوں سے کھانا طلب کیا تو انہوں نے ان کی میزبانی سے انکار کر دیا ، لیکن انہوں نے ان بستی والوں پر کوئی زبردستی نہیں کی بلکہ ان پر ایک احسان بھی کر دیا ۔ اور یتیم بچوں کے گھر کی دیوار کو درست کر دیا۔ موسیٰ  نے اس موقع پر فرمایا کہ اگر آپ چاہتے تو اس دیوار کے بنانے پر اجرت لیتے۔ لیکن خضر  نے ان سے اجرت نہیں لی۔ کیونکہ وہ بچے یتیم تھے اور ان کے والد صالح تھے۔ (دیکھیے سورة الکہف آیت ۷۷)

ابو سعید الخدری  کی روایت میں بھی ہے کہ قبیلہ والوں نے ان کی ضیافت سے انکار کر دیا تھا۔ اگر ان لوگوں کو عقبہ بن عامر  کی روایت کا علم ہوتا تو یقیناً ان سے زبردستی اپنا حق ضیافت وصول کرتے۔ اس لیے ممکن ہے کہ عقبہ بن عامر  کی روایت کے مطابق یہ حکم صحابہ کرام کو بعد میں معلوم ہوا ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہ حکم تو موجود ہو لیکن ان صحابہ کرام کو اس کے متعلق معلومات نہ ہوں۔ اسی طرح یہ بھی ممکن ہے کہ ابو سعید الخدری  کی روایت کی وجہ سے عقبہ بن عامر  کی روایت والا حکم منسوخ ہوگیا ہو کیونکہ صحابہ کرام کی جب انہوں نے ضیافت نہ کی تو وہ وہاں سے روانہ ہونے لگے اور پھر دم والا واقعہ پیش آیا اور صحابہ کرام نے دم پر اجرت بھی وصول کی۔ آپ نے صحابہ کرام  کے ان اعمال کے متعلق فرمایا’’قد اصبتم‘‘ (تم نے بالکل درست کیا۔ )

اس واقعہ میں صحابہ کرام کا ان سے زبردستی ضیافت حاصل نہ کرنے کی بھی تائید ہوتی ہے۔ جس سے عقبہ بن عامر  کی روایت کے منسوخ ہونے کا احتمال ہو سکتاہے۔ لیکن چونکہ عقبہ بن عامر  کی روایت کا تعلق اضطراری صورت حال سے ہے جیسا کہ حافظ صاحب نے اس بات کا ذکر کیا ہے اور جس کی تفصیل گذر چکی ہے۔ اور یہی بات موصوف نے بھی تسلیم کی ہے۔ (جاری ہے)
ماخوذ از: دینی امور پر اجرت کا جواز از شیخ ابو جابر عبداللہ دامانوی
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
بہت ہی عمدہ ٹائپسٹ بھائی! اللہ آپ کو جزائے خیر عطا کریں، براہ مہربانی اگلی قسط بھی جلد از جلد پوسٹ کریں، تاکہ خاطر خواہ استفادہ کیا جا سکے۔
 

گڈمسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
1,407
ری ایکشن اسکور
4,912
پوائنٹ
292
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔۔بہت ہی عمدہ پوسٹ ہے اللہ تعالی آپ کو جزائے خیر دے ۔بھائی میں آپ لوگوں کی توجہ تھوڑی سی اس طرف بھی دلانا چاہتا ہوں کہ اس پوسٹ میں جو مسائل ہیں ان کو بھی حل کریدیں تو بہتر ہوگا ۔میرا مطلب ہے کہ صلی اللہ علیہ وسلم ،رضی اللہ:﷤،علیہ السلام وغیرہ کی جگہ پر جو ڈبے بن کے آرہے ہیں ان کو بھی ٹھیک کردیں تاکہ تحریر میں اس سے بھی زیادہ وزن پیدا ہوجائے دیکھنے اور پڑھنے میں بھی مزہ آئے گا۔
 

گڈمسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
1,407
ری ایکشن اسکور
4,912
پوائنٹ
292
اوپرا میں اگر فورم کو اوپن کریں تو یہ مسائل آتے ہیں کہ وہاں صلی اللہ علیہ وسلم وغیرہ شو نہیں ہوتے کیا مسئلہ ہے ؟؟
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,395
پوائنٹ
891
ٹائپسٹ بھائی، اگر عربی عبارات کو منتخب کر کے آپ ایڈیٹر میں موجود عربی بٹن کو دبا دیا کریں تو یقین جانیں پوسٹ پڑھنا بہت آسان اور خوشگوار عمل ہو جاتا ہے۔ ازراہ کرم اگر ممکن ہو تو اپنی پوسٹ میں ترمیم کر کے عربی عبارات کو عربی ٹیگ لگا دیجئے۔ اور اگر آپ کے پاس وقت کی قلت ہو تو ہمیں مطلع کریں ، ہم آپ کی پوسٹ کی فا رمیٹنگ کر دیں گے۔
ویسے فارمیٹنگ کروانے تو لوگ خود آپ کے پاس آتے ہیں۔۔!! :) اپنی پوسٹ کی اچھی فارمیٹنگ کیا کریں تاکہ لوگ متوجہ ہوں!۔
 

ٹائپسٹ

رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
186
ری ایکشن اسکور
987
پوائنٹ
86
جی ضرور آئندہ فارمیٹنگ کا پورا لحاظ رکھا جائے گا۔ کوشش تو اس میں بھی کی تھی لیکن چونکہ فورم نیا ہے اور اس میں مجھے کہیں بھی فانٹ کی لسٹ نہیں ملی تو ایسے ہی کر دیا ہے۔ اب معلومات کے فورم پر جا کر فونٹ اپلائی کرنے کا طریقہ پڑھا ہے تو ان شاء اللہ اب سے پوری فارمیٹنگ کے ساتھ پوسٹ کرنے کی کوشش کروں گا۔
 
Top