• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

دین اور مذہب میں فرق

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
شریعت وفقہ میں فرق:

۱۔ان دونوں میں عام وخاص کی نسبت ہے۔ جہاں فقیہ کا اجتہاد حکم الٰہی کے مطابق ہوتا ہے وہاں شریعت اور فقہ ایک ہی ہوجاتے ہیں۔اور جہاں مجتہد کا اجتہاد خطا کرجاتا ہے وہاں شریعت، فقہ سے الگ ہوجاتی ہے۔اسی طرح شریعت ان احکام میں بھی فقہ سے علیحدہ ہوجاتی ہے جن کا تعلق عقیدہ واخلاق سے ہو یا گذشتہ اقوام کے واقعات ہوں۔

۲۔ شریعت کے مصادر صرف قرآن وسنت ہیں۔ مگر فقہ کے مصادر قرآن وسنت اجماع اور قیاس ہیں۔

۳۔ شریعت عقائد، عبادات اخلاق اور اقوام ماضیہ کے واقعات پر مشتمل ہے جبکہ فقہ صرف عبادات ومعاملات پر۔

۴۔شریعت کامل ہے اور ہر قسم کے تغیر وتبدل سے محفوظ۔کیونکہ یہ قاعدوں اور عام اصولوں پر مشتمل ہے جن سے ہماری زندگی کے ان احکام کو لیا جاتا ہے جن کے بارے میں نص خاموش ہے۔رہی فقہ یہ امت کے مجتہدین حضرات کی آراء ہیں جو شرعی ضرورت کے تحت حالات واقعات کی تبدیلی کے ساتھ قابل تغییر بھی ہیں۔

۵۔ شریعت ، مختلف علوم پر مشتمل ہے اور علم فقہ ان علوم میں کا ایک ہے۔جس کے مباحث صرف مکلفین کے افعال اور ان کا حکم ہیں یعنی واجب ہے یا مندوب، مباح ، حرام یا مکروہ ۔یہی افعال ہی تو ہیں جنہیں علم فقہ کا موضوع کہا جاتا ہے۔

۶۔ شریعت عام ہے جسے عموماً شریعت، اس کے مقاصد، اس کی نصوص میں اس وقت محسوس کیا جاسکتا ہے جب وہ عالم بشریت سے مخاطب ہوتی ہے۔اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول محترم سے فرمایا:

{وما أرسلنک إلا کافۃ للناس بشیرا ونذیرا}

سبأ:۲۸۔ ہم نے آپ جو سبھی انسانوں کے لئے بشیر ونذیر بنا کر بھیجا ہے۔

جبکہ فقہ کے احکام عام بھی ہوسکتے ہیں اور خاص بھی۔

۷۔ شریعت تمام انسانیت کے لئے ضروری ہے کیونکہ ہر انسان جس میں تکلیف کی شروط پائی جائیں اس کے لئے لازمی ہے کہ وہ اس کے عقیدہ، عبادت، اخلاق وسلوک کو مانے۔ جبکہ فقہ آراء مجتہدین کا نتیجہ ہے۔ ایک مجتہد کی رائے دوسرے مجتہد کو پابند نہیں کرتی بلکہ اس کے مقلد کو بھی ۔کیونکہ جب وہ کسی دوسرے مجتہد کی رائے کو بہتر پاتا ہے تو وہ اسے ہی مانتا ہے۔اسی وجہ سے یہ ایک اصول ہے:
العَامِیُّ لاَ مَذْہَبَ لَہُ، وَإنَّمَا مَذْہَبُہُ مَذْہَبُ مَنْ یُفْتِیْہِ۔
ایک عام آدمی کا کوئی مذہب نہیں ہوا کرتا اس کا مذہب وہی ہے جو اسے فتوی دے دے۔

یعنی وہ ضروری نہیں سمجھتا کہ میں کسی خاص مذہب کا دائمی پیرو کار بن کر رہوں۔ کیونکہ وہ کبھی کسی مسئلہ میں ایک مفتی کا کہنا مان رہا ہوتا ہے اور کبھی دوسرے مسئلہ میں کسی دوسرے مفتی کا۔

۸۔ شریعت ایک جامع ومکمل اور ہر زمان ومکان میں رہنے والی ہے ۔ رہی فقہ جو مجتہد کا استنباط ہے اور جو کبھی معاشرے کے مسائل کا علاج بھی کسی زمانہ یا حالت میں پیش کردیتی ہے مگر ایسا بھی ہے کہ وہ دوسرے مقام وزمان میں حل پیش کرنے سے قاصر ہو۔ مثلاً امام شافعی رحمہ اللہ نے عراق میں قدیم مذہب کے مطابق کچھ کہا اور لکھا بھی۔مگر عراق سے واپسی پر مصر کے لئے جب براستہ مکہ گذرے اور دیگر علماء ومحدثین کرام سے ان کی ملاقات ہوئی تو بہت سے ان مسائل سے رجوع کرلیا جن کا اظہار وہ عراق میں کیا کرتے۔ اسے مذہب جدید کہاجانے لگا۔مگر اپنی کتب کو انہوں نے مصر میں لکھا اور وہیں اصول بھی لکھے۔اس لئے وہ اپنی عراقی کتب کو مٹا ڈالنے اور ان کی روابت کو حرام قرار دیتے۔ فرمایا کرتے: لَیْسَ فِی حِلٍّ مَنْ رَوَی عَنِّی الْقَدِیمَ۔ یہ حلال ہی نہیں کہ کوئی مجھ سے قدیم مذہب روایت کرے۔(البحر المحیط از زرکشی: ۴؍۵۸۴) ۔

۹۔ شرعی احکام صائب اور دائمی ہیں ہیں جن میں کوئی خطأ نہیں مگر فقہاء ومجتہدین کے احکام کبھی کبھار خطا والے ہوتے ہیں۔
 
Last edited:

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
فقہ اور اصول فقہ میں فرق:

تعریف ، موضوع اور غرض وغایت میں دونوں ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ہر ایک کی اپنی تاریخ و نشو ونما ہے۔ان کا موازنہ اور باہمی فرق ان کتب کا مطالعہ کرکے پہچانا جاسکتا ہے۔

انتباہ: : شریعت کے لئے" محمڈن لاء "کی اصطلاح استعمار نے اسلام دشمنی کی بناء پر خود گھڑی ہے جو دیگر اصطلاحات کی طرح ہمارے ہاں تسلیم شدہ ہے۔ دراصل یہ اصطلاح ،شریعت کے وحی الٰہی اور آئین الٰہی کو تسلیم نہ کرنے کا اظہار ہے اور اسی کی دعوت ہے۔ استعمار نے اپنے مذموم مقاصد کے لئے یہ اصطلاح وضع کی اور اپنے سمجھنے کے لئے بنائی مگر ہمارے ہاں اس کا استعمال ایک غلامی کی یادگار بن گیا ہے۔ لاء کالجز میں پڑھائی جانے والی ہماری قانونی کتب(law books) کے عنوانات اسی سوچ کے غماز ہیں۔ اس اصطلاح سے استعمار نے یہ باور کرایا کہ میں شریعت کو وحی الٰہی نہیں مانتا بلکہ اسے محمد ﷺ کی خود ساختہ کہتا ہوں اور جو دیگر قوانین کی طرح وقت کے ساتھ ساتھ قابل تغیر بھی ہے۔ جب کہ مسلمان اپنے ایمان وعقیدے کی بنیاد پر اسے محض ایک بڑ سمجھتا ہے اور یہ بھی اعتراف کرتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی بعثت، قرآن کا آپ ﷺ پر نزول، پھر آپ کا معلم کتاب ہونا ، اس کے گوہر حکمت کو چن کر آپ کا امت کو دینا نیز آپ ﷺ کا قرآن کے ذریعے فرد وسوسائٹی کا تزکیہ کرنا یہ سب مسلمان پر اس کے رب کا فضل وکرم ہے جس نے اپنی اہمیت ،افادیت اور ہمہ گیریت کی بناء پرتمام خود ساختہ قوانین کو زیرکردیا ہے۔

مقام عبرت :
شریعت اپنے نفاذ کے لئے اپنی تدریس وتبلیغ بھی چاہتی ہے۔ہمارے تدریسی مناہج میں سب کچھ ہے مگر شریعت نہیں۔ افسوس یہ ہے کہ اس کی تدریس وتبلیغ میں اہل دین ہی بٹ گئے۔ ہماری تعبیرات شریعت نے اہل وطن کو شریعت کے محاسن سے بہرہ مند ہونے کے ہر نادرموقع سے محروم کردیا۔فاضلین ومفتی حضرات کے اژدحام کے باوجود معاشرے نے انہیں وہ مقام نہ دیا جو ایک انگریزی قانون پڑھنے والے کو دیا گیا۔شاید اس کاسبب نئے دور اور اس کے تقاضوں سے ان فاضلین کی رجعت قہقری تھی۔ وکلاء کی اکثریت تو حسرت سے اپنی اس خواہش کی تکمیل چاہتی رہی کہ کسی طرح اسلام کے عدالتی نظام کو اہل دین سمجھا اور پڑھا سکیں تاکہ اس کی تنفیذ کی کوشش میں وہ پیش پیش رہیں مگر ایسا نہ ہوسکا۔ اس کی وجوہات میں ایک بنیادی اور اہم وجہ وسعت نظری سے محرومی اور حزبیت سے لگاؤ ہے۔ ہر قیادت اور جماعت، اصلاح امت کے لئے اپنے آپ کو ناگزیر سمجھنے لگی۔اسے صرف اپنے اتباع ہی سب سے زیادہ عزیز ہوگئے۔ملزم بھی وہی بنے۔شریعت کے دائرے میں جب تک ہم رہے خوش نصیبی اور برکتیں ہمارا ساتھ دیتی رہیں اور جب سے ہم نے شریعت سے منہ موڑا ذلت وادبار نے مستقل بسیرا کرلیا۔کیسی عبرت ہے ہماری تاریخ میں؟ یہ شریعت ہی تھی جس نے مسلمانوں کو اقوام عالم میں سرفراز کیا مگر شریعت کو ترک کرنے سے ہر قسم کی ترقی ان سے روٹھ گئی اور زندگی کے ہر میدان میں پسپائی ان کا مقدر بن گئی۔ {ورفعنا فوقکم الطور} جیسے حالات ہمارے بھی بن گئے۔ ضعف دو چند ہوگیا۔ ملت اسلامیہ ٹکڑوں ٹکڑوں میں بکھر گئی۔ دل پراگندگی اور انتشار کا شکار ہیں ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
سیاست کا معنی ومفہوم:
لفظ سیاست عربی زبان میں قیادت کرنا یا راہنمائی کرنا کے آتے ہیں۔ سائِس گھوڑا سدھارنے والے کوکہتے ہیں۔قوم کو سدھارنا اور اسے خطرات سے آگاہ کرتے ہوئے آگے بڑھانا ایک سائس کا کام ہوتا ہے۔ اس لئے سائس بمعنی قائد وراہنما کے بھی آتا ہے۔ سیکولر سیاست اور اسلامی سیاست میں صرف فرق اتنا ہے کہ اسلامی سیاست میں ایک مثالی راہنما دین اسلام کے اصولوں کو اپنا کر افراد وقوم کی راہنمائی کرتا ہے۔وہ وقتی نعروں یا افواہوں کو خاطر میں نہیں لاتا بلکہ اس کی تمام تر طاقت اور علم کا محور، دین اور اس کا عقیدہ ہی ہوتا ہے۔ اپنے اس ٹھوس نظریے سے اس کی وابستگی نظریہ ضرورت کے تحت نہیں بلکہ ایمانی حد تک ہوتی ہے۔اس کا اخلاق اور کردار خداخوفی کا مظہر ہوتا ہے۔وہ مسلمان قائد ہوتے ہوئے اپنی گفتگو وبیانات میں منفرد ہوتا ہے۔اسلامی سیاست کی اساس کلمہ توحید ہے جو دنیا کے ہر غیر مسلم کی راہنمائی اور اپنے نظریے کی برتری و عمدگی کو اجاگر کرتی ہے۔آپ ﷺ لیڈر ، ٹیچر، امام تھے مگر دینی اعتبار سے آپ ﷺ کا رول بطور ایک قائد وراہنما کے زیادہ تھا۔اس دینی سیاست کو آپ ﷺ نے ہر لمحہ اور ہر مقام پر اپنایا ہر فرد کے دل میں گھربنایا ۔نتیجتاً سیکولر سیاست شکست کھاگئی اور آپ ﷺ بالآخر کامیاب ہوئے۔ خلفاء راشدین نے بھی اسی انداز سیاست کو اپنا کر بحیثیت امام اور لیڈر کے اپنا رول ادا کیا ۔

سیکولر سیاست میں دنیا وشہرت طلبی، اخلاق باختگی، ذاتی مفادات اور عوامی ضرورت مقدم ہوتی ہے۔دھوکہ دہی، منافقت، ہنگامہ آرائی اور حرص وآز اس کی روح ہے۔ فرعون، نمرود، شداد اور ہامان وقارون کی سیاست ظالمانہ، آمرانہ، مال ودولت سمیٹنے اور عوام کا استحصال کرنے پر مبنی تھی۔جس میں چالاک مشیروں کا کردار بھی نمایاں تھا۔ ان کے ہاں دین ثانوی حیثیت رکھتا تھا۔ بلکہ ان سیکولر سیاستدانوں و راہنماؤں کی نگاہ میں دین، ترقی وذاتی عروج کی راہ میں زبردست رکاوٹ ہوتا ہے۔ سیکولر سیاست چونکہ نظریہ ضرورت کی بھی قائل ہوتی ہے اس لئے اکثر اوقات قیادت بھی لوٹا گردی، لالچ ، ضمیر فروشی اور غداری کا شکار ہوجاتی ہے۔اس سیاست کا ایک اہم اصول یہ ہے کہ قوم اور عوام کوہانکی ہوئی بھیڑ بکریاں سمجھا جاتاہے ۔انہیں بے وقوف بنایا جاتاہے مگر اپنی سیاست کی آکاس بیل اس طرح بنائی ہوتی ہے کہ اقتدار میں ہوں تب بھی مزے لوٹیں اور اگر محروم ہوں تو بھی پانچوں انگلیاں گھی میں ہوں۔ قوم کو حزب اختلاف اور حزب اقتدار کی جذباتی اصطلاحات دی جاتی ہیں تاکہ وہ سمجھے کہ ہم اپنے مقصد اور لڑائی میں مخلص ہیں۔ مگردر حقیقت ایک ہی میز پر کھانا کھانے کے علاوہ ایسی سیاست رشتہ داریاں جوڑنا اور آپس میں شادیاں بھی کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔ سیکولر سیاست کا لب ولہجہ قوم کے اخلاق وکردار پر گہرا اثر ڈالتا ہے جس کے منفی اثرات میں سے ایک اثر محراب ومنبر اور ان کے محافظین میں بھی دیکھا جاسکتا ہے۔

 
شمولیت
اپریل 18، 2020
پیغامات
37
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
40
ایک
فقہ اور اصول فقہ میں فرق:

تعریف ، موضوع اور غرض وغایت میں دونوں ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ہر ایک کی اپنی تاریخ و نشو ونما ہے۔ان کا موازنہ اور باہمی فرق ان کتب کا مطالعہ کرکے پہچانا جاسکتا ہے۔

انتباہ: : شریعت کے لئے" محمڈن لاء "کی اصطلاح استعمار نے اسلام دشمنی کی بناء پر خود گھڑی ہے جو دیگر اصطلاحات کی طرح ہمارے ہاں تسلیم شدہ ہے۔ دراصل یہ اصطلاح ،شریعت کے وحی الٰہی اور آئین الٰہی کو تسلیم نہ کرنے کا اظہار ہے اور اسی کی دعوت ہے۔ استعمار نے اپنے مذموم مقاصد کے لئے یہ اصطلاح وضع کی اور اپنے سمجھنے کے لئے بنائی مگر ہمارے ہاں اس کا استعمال ایک غلامی کی یادگار بن گیا ہے۔ لاء کالجز میں پڑھائی جانے والی ہماری قانونی کتب(law books) کے عنوانات اسی سوچ کے غماز ہیں۔ اس اصطلاح سے استعمار نے یہ باور کرایا کہ میں شریعت کو وحی الٰہی نہیں مانتا بلکہ اسے محمد ﷺ کی خود ساختہ کہتا ہوں اور جو دیگر قوانین کی طرح وقت کے ساتھ ساتھ قابل تغیر بھی ہے۔ جب کہ مسلمان اپنے ایمان وعقیدے کی بنیاد پر اسے محض ایک بڑ سمجھتا ہے اور یہ بھی اعتراف کرتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی بعثت، قرآن کا آپ ﷺ پر نزول، پھر آپ کا معلم کتاب ہونا ، اس کے گوہر حکمت کو چن کر آپ کا امت کو دینا نیز آپ ﷺ کا قرآن کے ذریعے فرد وسوسائٹی کا تزکیہ کرنا یہ سب مسلمان پر اس کے رب کا فضل وکرم ہے جس نے اپنی اہمیت ،افادیت اور ہمہ گیریت کی بناء پرتمام خود ساختہ قوانین کو زیرکردیا ہے۔

مقام عبرت :
شریعت اپنے نفاذ کے لئے اپنی تدریس وتبلیغ بھی چاہتی ہے۔ہمارے تدریسی مناہج میں سب کچھ ہے مگر شریعت نہیں۔ افسوس یہ ہے کہ اس کی تدریس وتبلیغ میں اہل دین ہی بٹ گئے۔ ہماری تعبیرات شریعت نے اہل وطن کو شریعت کے محاسن سے بہرہ مند ہونے کے ہر نادرموقع سے محروم کردیا۔فاضلین ومفتی حضرات کے اژدحام کے باوجود معاشرے نے انہیں وہ مقام نہ دیا جو ایک انگریزی قانون پڑھنے والے کو دیا گیا۔شاید اس کاسبب نئے دور اور اس کے تقاضوں سے ان فاضلین کی رجعت قہقری تھی۔ وکلاء کی اکثریت تو حسرت سے اپنی اس خواہش کی تکمیل چاہتی رہی کہ کسی طرح اسلام کے عدالتی نظام کو اہل دین سمجھا اور پڑھا سکیں تاکہ اس کی تنفیذ کی کوشش میں وہ پیش پیش رہیں مگر ایسا نہ ہوسکا۔ اس کی وجوہات میں ایک بنیادی اور اہم وجہ وسعت نظری سے محرومی اور حزبیت سے لگاؤ ہے۔ ہر قیادت اور جماعت، اصلاح امت کے لئے اپنے آپ کو ناگزیر سمجھنے لگی۔اسے صرف اپنے اتباع ہی سب سے زیادہ عزیز ہوگئے۔ملزم بھی وہی بنے۔شریعت کے دائرے میں جب تک ہم رہے خوش نصیبی اور برکتیں ہمارا ساتھ دیتی رہیں اور جب سے ہم نے شریعت سے منہ موڑا ذلت وادبار نے مستقل بسیرا کرلیا۔کیسی عبرت ہے ہماری تاریخ میں؟ یہ شریعت ہی تھی جس نے مسلمانوں کو اقوام عالم میں سرفراز کیا مگر شریعت کو ترک کرنے سے ہر قسم کی ترقی ان سے روٹھ گئی اور زندگی کے ہر میدان میں پسپائی ان کا مقدر بن گئی۔ {ورفعنا فوقکم الطور} جیسے حالات ہمارے بھی بن گئے۔ ضعف دو چند ہوگیا۔ ملت اسلامیہ ٹکڑوں ٹکڑوں میں بکھر گئی۔ دل پراگندگی اور انتشار کا شکار ہیں ۔
تصیح فرمالیں۔ محمڈن لا نامی اصطلاح کا استعمال اب گو کم ہوتا جارہا ہے۔ اس کی بجائے مسلم لا یا مسلم پرسنل لا کی اصطلاح عام ہے۔ لیکن اس اصطلاح کا مطلب ضروری نہیں وہی ہے جو آپ بیان کر رہے ہیں۔ انگریز مسلمانوں کو محمڈن کہتے تھے۔ ایسے کہا جاسکتا ہے کہ جیسے کرائسٹ سے کرسچن بنایا گیا ویسے ہی محمڈن ایک اصطلاح تھی۔ اس کو بھی انگریز دور کی پیداوار کہا جاسکتا ہے۔ ذاتی طور پر مجھے یہ اصطلاح پسند نہیں۔ اس کی بجائے مسلم عائلی قانون/مسلم پرسونل لا کی اصطلاح بہتر ہے۔
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
760
پوائنٹ
290
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

یہ آپکی پسند کا معاملہ ھوا ، آپ کس حقیقت کو کیا نام دینا چاہیں ۔ ویسے آپ نے اس سنجیدہ و حساس موضوع پر پیش کردہ اس مدلل اور بلیغ مضمون پر کوئی تبصرہ نہیں کیا !
 
Top