• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

دین میں تقلید کا مسئلہ

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
یہ بات تو درج بالا تعریفات سے طے ہے کہ نص پر عمل کرنا اتباع ہے، تقلید نہیں۔
لہٰذا کسی عالم سے مسئلہ دریافت کیا جائے اور وہ عالم مسئلہ دلیل کے ساتھ بتائیں تو اس پر عمل کرنا تقلید نہیں۔
اسی طرح اگر کسی عالم سے مسئلہ دریافت کیا جائے اور وہ مسئلہ بغیر دلیل ذکر کیے بتا دیں، بعد میں مستفتی کو خود پڑھ کر یا کہیں اور سے دلیل کا علم بھی ہوجائے تو یہ بھی تقلید نہیں۔
تقلید صرف اور صرف یہ ہے کہ کوئی شخص کسی دوسرے (جس کا قول حجت نہ ہو) کی بات کو بغیر دلیل مانے۔ اگر دلیل کا فوری یا بعد میں پتہ لگ گیا تو بھی یہ تقلید نہیں، بلکہ اتباع ہوگی۔

تو!!!
درج ذيل آیت کریمہ میں اگر اس کی مذمت نہیں ہو رہی تو پھر مجھے نہیں معلوم کہ کس کی مذمت ہو رہی ہے؟؟!!!

﴿ اتَّخَذُوا أَحْبَارَ‌هُمْ وَرُ‌هْبَانَهُمْ أَرْ‌بَابًا مِّن دُونِ اللَّـهِ وَالْمَسِيحَ ابْنَ مَرْ‌يَمَ وَمَا أُمِرُ‌وا إِلَّا لِيَعْبُدُوا إِلَـٰهًا وَاحِدًا ۖ لَّا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ ۚ سُبْحَانَهُ عَمَّا يُشْرِ‌كُونَ ٣١ ﴾ ۔۔۔ سورة التوبة

(انہوں نے اللہ کو چھوڑ کر اپنے علماء اور مشائخ کو رب بنا رکھا ہے اور مسیح ابن مریم کو بھی۔ حالانکہ ان کو صرف یہ حکم کیا گیا ہے کہ فقط ایک معبود کی عبادت کریں جس کے سوا کوئی معبود ِحقیقی نہیں ،وہ ان کے شرک سے پاک ہے)

اللہ تعالیٰ نے متبوعین کو رب کا نام دیا کیوں کہ متبعین نے انہیں اللہ تعالیٰ کے ساتھ قانون ساز بنا لیا تھا، اور متبعین کو پجاری کا نام دیا ہے کیوں کہ انہوں نے متبوعین کے سامنے ذلت کا اظہار کیا اور اللہ کے حکم کے خلاف ان کی اطاعت کی۔
عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ سے کہا تھا:"حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے ان کی عبادت نہیں کی تھی"۔ تو نبی ﷺ نے فرمایا تھا:" کیوں نہیں، انہوں نے ان کے لئے حلال کو حرام اور حرام کو حلال کیا اور لوگوں نے ان کی اتباع کی، یہی ان کی طرف سے ان کی عبادت تھی"(رواه الترمذي وحسنه، كتاب التفسير سورة التوبة، 5/262.)

مزید تفصیل کیلئے یہ پوسٹ ملاحظہ کریں!

نص (وحی) کو چھوڑ کر کسی اور شے کی پیروی کی اجازت تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریمﷺ کو بھی نہیں دی، عام امتیوں کو کیسے ہوگی؟
فرمانِ باری ہے:
﴿ ثُمَّ جَعَلْنَاكَ عَلَىٰ شَرِ‌يعَةٍ مِّنَ الْأَمْرِ‌ فَاتَّبِعْهَا وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَ الَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ ١٨ ﴾ ۔۔۔ سورة الجاثية
پھر ہم نے آپ کو دین کی (ظاہر) راه پر قائم کردیا، سو آپ اسی پر لگے رہیں اور نادانوں کی خواہشوں کی پیروی میں نہ پڑیں (18)

﴿ اتَّبِعْ مَا أُوحِيَ إِلَيْكَ مِن رَّ‌بِّكَ ۖ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ ۖ وَأَعْرِ‌ضْ عَنِ الْمُشْرِ‌كِينَ ١٠٦ ﴾ ۔۔۔ الأنعام
آپ خود اس طریق پر چلتے رہئے جس کی وحی آپ کے رب تعالیٰ کی طرف سے آپ کے پاس آئی ہے، اللہ تعالیٰ کے سوا كوئی لائق عبادت نہیں اور مشرکین کی طرف خیال نہ کیجئے (106)

﴿ وَاتَّبِعْ مَا يُوحَىٰ إِلَيْكَ مِن رَّ‌بِّكَ ۚ إِنَّ اللَّـهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرً‌ا ٢ ﴾ ۔۔۔ سورة الأحزاب

جو کچھ آپ کی جانب آپ کے رب کی طرف سے وحی کی جاتی ہے اس کی تابعداری کریں (یقین مانو) کہ اللہ تمہارے ہر ایک عمل سے باخبر ہے (2)

تو عالم تو بذات خود نص کو پہچانتا ہے، لہٰذا اس کی پیروی کر لیتا ہے، جبکہ جاہل بذاتِ خود نص کو نہیں پہچان سکتا، لہٰذا فرمانِ باری ﴿ فاسئلوا أهل الذكر إن كنتم لا تعلمون ﴾ کے مطابق اہل علم سے معلوم کرکے اس کی پیروی کرتا ہے، اور یہ دونوں عین اتباع ہیں۔
اللہ تعالیٰ ہماری اصلاح فرمائیں!
اللهم أرنا الحق حقا وارزقنا اتباعه وأرنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابه ولا تجعله ملتبسا علينا فنضل واجعلنا للمتقين إماما
 

گڈمسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
1,407
ری ایکشن اسکور
4,912
پوائنٹ
292

نام نہاد مقلدین ابی حنیفہ کی طرف سے اب دو باتیں منظر عام پر آنی شروع ہوئی ہیں
1۔تقلید بے دلیل نہیں بلکہ با دلیل ہوتی ہے لیکن بس دلیل طلب نہیں کی جاتی
2۔نص پر عمل بھی تقلید کہلاتا ہے۔جس طرح مقلد ابن جوزی نے دعویٰ کر رکھا ہے۔
تقلید با دلیل یا بے دلیل
میرے ان الفاظ ’’تقلید با دلیل یا بے دلیل‘‘ کا مطلب ہے کہ تقلید میں دلیل طلب کی جاتی ہے یا نہیں تو قارئین لغوی اور اصطلاحی تعریفات سے یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہوچکی ہے کہ تقلید بے دلیل، بلا دلیل ہی ہوتی ہے۔یعنی اس میں دلیل طلب نہیں کی جاتی۔
تقلید دلیل پر یا بغیر دلیل پر
ان الفاظ ’’تقلید دلیل پر یا بغیر دلیل پر‘‘ کا مطلب ہےکہ جن جن مسائل میں تقلید کی جاتی ہے۔دلیل کی موجودگی میں یعنی دلیل کے ہوتے ہوئے کی جاتی ہے یا بغیر دلیل یعنی دلیل سرے سے ہوتی ہی نہیں لیکن مجتہد کی بات مان کر عمل کرلیا جاتا ہے۔چاہے اس مجتہد کی بات قرآن کے موافق ہو یا مخالف۔
باقی بیان کی گئی تعریفات کو چھوڑ کر صرف ہم حنفیوں کی معتبر کتاب ’’مسلم الثبوت‘‘ کے حوالے سے بات کریں گے۔
مسلم الثبوت میں تقلید کی اصطلاحی تعریف کچھ یوں کی گئی ہے
’’مسلم الثبوت::تقلید (نبی کے علاوہ) غیر (یعنی امتی) کے قول پر بغیر حجت (دلیل) کے عمل (کانام) ہے۔جسے عامی (جاہل) اپنےجیسے عامی اور مجتہد کا قول لے لے۔پس نبی کریمﷺ اور اجماع کی طرف رجوع کرنا اس (تقلید) میں سے نہیں ہے۔اور اسی طرح عامی کا مفتی کی طرف رجوع کرنا اور قاضی کا گواہوں کی طرف رجوع کرنا تقلید میں سے نہیں ہے۔کیونکہ اسے نص (دلیل) نے واجب کیا ہے۔‘‘
اب ہم اس تعریف کو سامنے رکھتے ہوئے تقلید کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔اسی تعریف کی سمجھ آگئی تو ان شاءاللہ باقی تعریفات سمجھانے کی ضرورت ہی نہیں ہوگی۔
اس تعریف میں مسلم الثبوت والے نے کہا ہے
1۔’ العمل بقول الغیر‘ کہہ کر نبی کی تقلیدسے خارج کردیا مطلب تقلید نبی کی نہیں بلکہ غیر نبی کی کی جاتی ہے۔اور یہاں ان لوگوں کو کچھ عقل کرنی چاہیے کہ جو یہ کہتے پھرتے ہیں کہ نص پر عمل بھی تقلید کہلاتا ہے۔
2۔’من غیر حجۃ‘ (حجت کے معنی دلیل، برہان، ثبوت، سند) کہہ کر دلیل کو خارج کردیا۔اور یہاں غیر حجت اس بات کا واضح متقاضی ہے کہ تقلید بے دلیل بات کو ماننے کو کہا گیا ہے۔کیونکہ اگر مقصود غیر حجت سے یہ ہوتا کہ ’’تقلید غیر کے قول کو بلا مطالبہ دلیل تسلیم کرنے کو کہتے ہیں‘‘ تو پھر مسلم الثبوت والا آگے یہ الفاظ ’’نبی کریمﷺ اور اجماع کی طرف رجوع تقلید نہیں‘‘ کبھی نہ کہتے۔اور اس کی تصدیق ’’کاخذ العامی‘‘ کے الفاظ سے بھی ہوتی ہے کہ تقلید بے دلیل بات ماننے کا نام ہے۔
3۔اس تعریف سے یہ بھی ثابت ہورہا ہے کہ نص کی طرف رجوع تقلید نہیں بلکہ اتباع کہلاتا ہے۔اور بھائی ابن جوزی پر اس کا ثبوت پیش کرنا ہے کہ نص پر عمل کرنے کو بھی تقلید کہا جاتا ہے۔
ثبوت
اب مقلدین میں سے جو یہ دعویٰ کرتے پھرتے ہیں کہ تقلید دلیل پر ہی ہوتی ہے لیکن بلا مطالبہ دلیل تو وہ یہ اصول کہاں سے اخذ کررہے ہیں اس کا ثبوت پیش کریں۔
ضروری وضاحت
اگر ہم کچھ دیر کےلیے مان بھی لیں کہ تقلید بلا مطالبہ دلیل پر ہی ہوتی ہے یعنی جس مسئلہ میں تقلید کی جارہی ہے اس پر شریعت میں دلیل موجود ہے لیکن مسئلہ پوچھتے تک وقت دلیل کامطالبہ نہیں کیا جارہا۔تو پھر مسلم الثبوت کی روشنی میں ہی اس کو تقلید کا نام ہی نہیں دے سکتے بلکہ صاحب مسلم الثبوت تو کہہ رہا ہے کہ ’’نبی کریمﷺ اور اجماع کی طرف رجوع کرنا اس (تقلید) میں سے نہیں ہے۔‘‘ اور بلا مطالبہ دلیل یعنی حقیقت میں تو دلیل موجود ہے لیکن دلیل مانگی ہی نہیں جارہی تو یہ تقلید کے زمرے میں آتا ہی نہیں تو پھر تقلید تقلید کا نام کیوں لیا جاتا ہے؟
اور پھر کیا حکمت ہے کہ دلیل کا مطالبہ نہیں کیاجاتا ؟ کیا اس تعریف ’’تقلید دلیل پر ہی ہوتی ہے لیکن بلا مطالبہ دلیل‘‘ کی زد میں پوری مقلدیت نہیں آ جاتی ؟ مجھے تو سب غیر مقلد ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔
نوٹ
مولانا ابن جوزی صاحب نے تمام لغوی واصطلاحی تعریفات نقل کرکے خلاصہ یہ نکالا کہ
’’ ان سب تعریفات سے پتہ چلا کہ تقلید غیر کے قول کو بلا مطالبہ دلیل تسلیم کرنے کو کہتے ہیں جبکہ غیر مقلد مولوی زبیر علی زئی نے یہ تمام تعریفات ذکر کرنے کے بعد ان سے اپنا من بھاتا من گھڑت نتیجہ کچھ ایسے الفاظ میں کشید کیا ہے کہ تقلید بغیر دلیل والی بات ماننے کو کہتے ہیں اس سے اس کا مقصد سوا ئے اپنے مقلدین کا دھوکے میں ڈالنے کے کچھ نہیں ہو سکتا۔ سارے مضمون کو انہوں نے اس جھوٹ کی بنیاد پراٹھایا ہے۔ جس بات کے ہم قائل نہیں اسکو زبردستی ہمارے سر تھوپنے کی ناکام کوشش کی ہے ‘‘
جناب من تھوپنے کی کوشش نہیں کی گئی صرف مسلم الثبوت کی تعریف کے حوالے سے ہی ثابت کردیا ہے کہ تقلید بے دلیل ہی ہوتی ہے۔آپ کا یہ فلسفہ کہ ’’تقلید دلیل پر ہی ہوتی ہے لیکن بلا مطالبہ دلیل‘‘ فضول، بودا ہے۔
اب ابن جوزی بھائی سے گزارش ہے کہ
تقلید کیا ہے؟
کی طرف متوجہ ہوں ان شاءاللہ یہ سب باتیں وہاں زیر بحث آئیں گی
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
مسلم الثبوت میں تقلید کی اصطلاحی تعریف کچھ یوں کی گئی ہے
اب ہم اس تعریف کو سامنے رکھتے ہوئے تقلید کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔اسی تعریف کی سمجھ آگئی تو ان شاءاللہ باقی تعریفات سمجھانے کی ضرورت ہی نہیں ہوگی۔
اس تعریف میں مسلم الثبوت والے نے کہا ہے
’’مسلم الثبوت::تقلید (نبی کے علاوہ) غیر (یعنی امتی) کے قول پر بغیر حجت (دلیل) کے عمل (کانام) ہے۔جسے عامی (جاہل) اپنےجیسے عامی اور مجتہد کا قول لے لے۔پس نبی کریمﷺ اور اجماع کی طرف رجوع کرنا اس (تقلید) میں سے نہیں ہے۔اور اسی طرح عامی کا مفتی کی طرف رجوع کرنا اور قاضی کا گواہوں کی طرف رجوع کرنا تقلید میں سے نہیں ہے۔کیونکہ اسے نص (دلیل) نے واجب کیا ہے۔‘‘


درج بالا تعریف سے سورج کی طرح واضح ہے کہ
1۔ عامی کا مجتہد کے قول کو بلا دلیل لینا تو تقلید ہے۔ (گویا اہمیت دلیل (نص) کی نہیں بلکہ بذات خود مجتہد کی ہے، کیا یہ علماء کو رب بنانا اور تشریع کا حق دینا نہیں؟؟؟)
2۔ عامی کا حق جاننے کیلئے مفتی کی طرف رجوع کرنا تقلید نہیں کہ اس کا نص نے حکم دیا ہے۔
 
شمولیت
دسمبر 28، 2011
پیغامات
153
ری ایکشن اسکور
420
پوائنٹ
57
جیسا کہ میں پہلے عرض کرچکا تھا کہ میرے پوسٹ کا مقصد صرف غیر مقلد زبیر علیزئی کے دھوکے کو سامنے لانا ہے۔ مجھے انداذہ نہیں تھا کہ آپ لوگ اپنے مولوی کی غلط بات کو صحیح ماننے پر بضد ہونگے اور اس قدر اندھی تقلید کا مظاہرہ آپ کی طرف سے دیکھنے کو ملے گا۔ آپ کیا اپنے مولوی کو خطا سے (اور یہاں تو جان بوجھ کر دھوکہ کی کوشش کی گئی ہے) مبرا سمجھتے ہو؟؟

تقلید صرف اور صرف یہ ہے کہ کوئی شخص کسی دوسرے (جس کا قول حجت نہ ہو) کی بات کو بغیر دلیل مانے۔ اگر دلیل کا فوری یا بعد میں پتہ لگ گیا تو بھی یہ تقلید نہیں، بلکہ اتباع ہوگی۔

تو!!!
درج ذيل آیت کریمہ میں اگر اس کی مذمت نہیں ہو رہی تو پھر مجھے نہیں معلوم کہ کس کی مذمت ہو رہی ہے؟؟!!!

﴿ اتَّخَذُوا أَحْبَارَ‌هُمْ وَرُ‌هْبَانَهُمْ أَرْ‌بَابًا مِّن دُونِ اللَّـهِ وَالْمَسِيحَ ابْنَ مَرْ‌يَمَ وَمَا أُمِرُ‌وا إِلَّا لِيَعْبُدُوا إِلَـٰهًا وَاحِدًا ۖ لَّا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ ۚ سُبْحَانَهُ عَمَّا يُشْرِ‌كُونَ ٣١ ﴾ ۔۔۔ سورة التوبة

(انہوں نے اللہ کو چھوڑ کر اپنے علماء اور مشائخ کو رب بنا رکھا ہے اور مسیح ابن مریم کو بھی۔ حالانکہ ان کو صرف یہ حکم کیا گیا ہے کہ فقط ایک معبود کی عبادت کریں جس کے سوا کوئی معبود ِحقیقی نہیں ،وہ ان کے شرک سے پاک ہے)
بالکل اہل قرآن والا سوال !!! یہ سوال آپکی طرف بھی لوٹتا ہے اللہ کو چھوڑ کراپنے علماء و شیوخ اور نبی کو اگر آپ نے رب بنایا ہے تو پھر آپکا سوال بنتا ہے۔
 
شمولیت
دسمبر 28، 2011
پیغامات
153
ری ایکشن اسکور
420
پوائنٹ
57
باقی بیان کی گئی تعریفات کو چھوڑ کر صرف ہم حنفیوں کی معتبر کتاب ’’مسلم الثبوت‘‘ کے حوالے سے بات کریں گے۔
مسلم الثبوت میں تقلید کی اصطلاحی تعریف کچھ یوں کی گئی ہے
اب ہم اس تعریف کو سامنے رکھتے ہوئے تقلید کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔اسی تعریف کی سمجھ آگئی تو ان شاءاللہ باقی تعریفات سمجھانے کی ضرورت ہی نہیں ہوگی۔
اہم نکتہ:

ایک ہے مجتھد یا مفتی کی طرف رجوع کرنا اور ایک ہے رجوع کے بعد اسکی بات کو لے لینا۔
مجتھد یا مفتی کی طرف رجوع تقلید نہیں البتہ مجتھد یا مفتی جو بتا ئے اس کو مان کر عمل کرنا تقلید ہے

یہی بات مسلم الثبوت میں بھی ہے۔ دیکھئے

تقلیدغیر کے قول پر بغیر حجت کے عمل (کانام) ہے۔جسے عامی اپنےجیسے عامی اور مجتہد کا قول لے لے۔ پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور اجماع کی طرف رجوع کرنا اس (تقلید) میں سے نہیں ہے۔اور اسی طرح عامی کا مفتی کی طرف رجوع کرنا اور قاضی کا گواہوں کی طرف رجوع کرنا تقلید میں سے نہیں ہے۔کیونکہ اسے نص نے واجب کیا ہے۔ لیکن عرف یہ ہے کہ عامی مجتھد کا مقلد ہے
اس تعریف سے کئی باتیں صاف ہوجاتی ہیں
١۔ مجتھد یا مفتی کی طرف رجوع تقلید نہیں۔ جیسا کہ تعریف میں کہا گیا ہے
اسی طرح عامی کا مفتی کی طرف رجوع کرنا اور قاضی کا گواہوں کی طرف رجوع کرنا تقلید میں سے نہیں ہے۔
٢۔ مجتھدیا مفتی کی طرف رجوع کے بعد اسکی بات ماننا تقلید ہے جیسا کہ تعریف میں کہا گیا ہے۔
تقلیدغیر کے قول پر بغیر حجت کے عمل (کانام) ہے۔جسے عامی اپنےجیسے عامی اور مجتہد کا قول لے لے۔
٣۔ رجوع نص سے ثابت ہے اور اس نص سے ثابت بات پر عمل کو عرف میں تقلید کہا گیا ہے جیسا کہ تعریف میں موجود ہے
عامی کا مفتی کی طرف رجوع کرنا اور قاضی کا گواہوں کی طرف رجوع کرنا تقلید میں سے نہیں ہے۔کیونکہ اسے نص نے واجب کیا ہے۔ لیکن عرف یہ ہے کہ عامی مجتھد کا مقلد ہے
٤۔ عامی کا مجتھد کی طرف رجوع نص سے ثابت ہے۔ لہٰذا مقلد کا مجتھد کے بتائے ہوئے مسئلےپر عمل کرنا نص کی پیروی ہے۔ نص پر عمل پیرا ہونا محمود و مطلوب ہے۔
 

گڈمسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
1,407
ری ایکشن اسکور
4,912
پوائنٹ
292
اہم نکتہ:

ایک ہے مجتھد یا مفتی کی طرف رجوع کرنا اور ایک ہے رجوع کے بعد اسکی بات کو لے لینا۔
مجتھد یا مفتی کی طرف رجوع تقلید نہیں البتہ مجتھد یا مفتی جو بتا ئے اس کو مان کر عمل کرنا تقلید ہے
اوکے گڈ جوزی بھائی آپ نے جو اہم نکتہ بیان کیا ہے۔اس پر ایک سوال ہے کہ ایک عامی مولانا سے آکر سوال کرتا ہے اور کہتا ہے کہ مولانا صاحب کیا نماز مقررہ وقت پر فرض کی گئی ہے؟ تو مولانا اس کو جواب میں یہ آیت پیش کردیتے ہیں
إِنَّ الصَّلَاةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَّوْقُوتًا
یقیناً نماز مومنوں پر مقرره وقتوں پر فرض ہے
تو كيا وه عامی اس مولوی کا مقلد ہوجائے گا ؟ کیونکہ آپ نے نکتہ میں اس بات کو اجاگر کیا ہے کہ رجوع الی المفتی تقلید نہیں لیکن مفتی جو کہے اس کو مان لینا تقلید ہے۔تو اگر مفتی دلیل کے ساتھ بھی مسئلہ ذکر کردے توتب بھی تقلید کہلائے گی ؟

ذرا اس کی وضاحت کردیں۔جزاکم اللہ خیرا
 

گڈمسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
1,407
ری ایکشن اسکور
4,912
پوائنٹ
292
میرے پوسٹس کو بار بار پڑھو
والسلام
میرے سوال کو بھی بار بار پڑھو
کیوں
جس نقطے کو بنیاد بناکر جو بات مولانا آپ نے پیش کی ہے میں نے بھی اسی بات کا پوچھا ہے۔ اس لیے گزارش ہے کہ میرے سوال کو بار بار بلکہ کئی بار بغور پڑھیں اور پھر اس کا جواب لکھیں۔ شکریہ
 
Top