- شمولیت
- مارچ 03، 2011
- پیغامات
- 4,178
- ری ایکشن اسکور
- 15,351
- پوائنٹ
- 800
یہ بات تو درج بالا تعریفات سے طے ہے کہ نص پر عمل کرنا اتباع ہے، تقلید نہیں۔
لہٰذا کسی عالم سے مسئلہ دریافت کیا جائے اور وہ عالم مسئلہ دلیل کے ساتھ بتائیں تو اس پر عمل کرنا تقلید نہیں۔
اسی طرح اگر کسی عالم سے مسئلہ دریافت کیا جائے اور وہ مسئلہ بغیر دلیل ذکر کیے بتا دیں، بعد میں مستفتی کو خود پڑھ کر یا کہیں اور سے دلیل کا علم بھی ہوجائے تو یہ بھی تقلید نہیں۔
تقلید صرف اور صرف یہ ہے کہ کوئی شخص کسی دوسرے (جس کا قول حجت نہ ہو) کی بات کو بغیر دلیل مانے۔ اگر دلیل کا فوری یا بعد میں پتہ لگ گیا تو بھی یہ تقلید نہیں، بلکہ اتباع ہوگی۔
تو!!!
درج ذيل آیت کریمہ میں اگر اس کی مذمت نہیں ہو رہی تو پھر مجھے نہیں معلوم کہ کس کی مذمت ہو رہی ہے؟؟!!!
﴿ اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللَّـهِ وَالْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا إِلَـٰهًا وَاحِدًا ۖ لَّا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ ۚ سُبْحَانَهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ ٣١ ﴾ ۔۔۔ سورة التوبة
(انہوں نے اللہ کو چھوڑ کر اپنے علماء اور مشائخ کو رب بنا رکھا ہے اور مسیح ابن مریم کو بھی۔ حالانکہ ان کو صرف یہ حکم کیا گیا ہے کہ فقط ایک معبود کی عبادت کریں جس کے سوا کوئی معبود ِحقیقی نہیں ،وہ ان کے شرک سے پاک ہے)
اللہ تعالیٰ نے متبوعین کو رب کا نام دیا کیوں کہ متبعین نے انہیں اللہ تعالیٰ کے ساتھ قانون ساز بنا لیا تھا، اور متبعین کو پجاری کا نام دیا ہے کیوں کہ انہوں نے متبوعین کے سامنے ذلت کا اظہار کیا اور اللہ کے حکم کے خلاف ان کی اطاعت کی۔
عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ سے کہا تھا:"حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے ان کی عبادت نہیں کی تھی"۔ تو نبی ﷺ نے فرمایا تھا:" کیوں نہیں، انہوں نے ان کے لئے حلال کو حرام اور حرام کو حلال کیا اور لوگوں نے ان کی اتباع کی، یہی ان کی طرف سے ان کی عبادت تھی"(رواه الترمذي وحسنه، كتاب التفسير سورة التوبة، 5/262.)
مزید تفصیل کیلئے یہ پوسٹ ملاحظہ کریں!
نص (وحی) کو چھوڑ کر کسی اور شے کی پیروی کی اجازت تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریمﷺ کو بھی نہیں دی، عام امتیوں کو کیسے ہوگی؟
فرمانِ باری ہے:
﴿ ثُمَّ جَعَلْنَاكَ عَلَىٰ شَرِيعَةٍ مِّنَ الْأَمْرِ فَاتَّبِعْهَا وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَ الَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ ١٨ ﴾ ۔۔۔ سورة الجاثية
پھر ہم نے آپ کو دین کی (ظاہر) راه پر قائم کردیا، سو آپ اسی پر لگے رہیں اور نادانوں کی خواہشوں کی پیروی میں نہ پڑیں (18)
﴿ اتَّبِعْ مَا أُوحِيَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ ۖ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ ۖ وَأَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِكِينَ ١٠٦ ﴾ ۔۔۔ الأنعام
آپ خود اس طریق پر چلتے رہئے جس کی وحی آپ کے رب تعالیٰ کی طرف سے آپ کے پاس آئی ہے، اللہ تعالیٰ کے سوا كوئی لائق عبادت نہیں اور مشرکین کی طرف خیال نہ کیجئے (106)
﴿ وَاتَّبِعْ مَا يُوحَىٰ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ ۚ إِنَّ اللَّـهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًا ٢ ﴾ ۔۔۔ سورة الأحزاب
جو کچھ آپ کی جانب آپ کے رب کی طرف سے وحی کی جاتی ہے اس کی تابعداری کریں (یقین مانو) کہ اللہ تمہارے ہر ایک عمل سے باخبر ہے (2)
تو عالم تو بذات خود نص کو پہچانتا ہے، لہٰذا اس کی پیروی کر لیتا ہے، جبکہ جاہل بذاتِ خود نص کو نہیں پہچان سکتا، لہٰذا فرمانِ باری ﴿ فاسئلوا أهل الذكر إن كنتم لا تعلمون ﴾ کے مطابق اہل علم سے معلوم کرکے اس کی پیروی کرتا ہے، اور یہ دونوں عین اتباع ہیں۔
اللہ تعالیٰ ہماری اصلاح فرمائیں!
اللهم أرنا الحق حقا وارزقنا اتباعه وأرنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابه ولا تجعله ملتبسا علينا فنضل واجعلنا للمتقين إماما
لہٰذا کسی عالم سے مسئلہ دریافت کیا جائے اور وہ عالم مسئلہ دلیل کے ساتھ بتائیں تو اس پر عمل کرنا تقلید نہیں۔
اسی طرح اگر کسی عالم سے مسئلہ دریافت کیا جائے اور وہ مسئلہ بغیر دلیل ذکر کیے بتا دیں، بعد میں مستفتی کو خود پڑھ کر یا کہیں اور سے دلیل کا علم بھی ہوجائے تو یہ بھی تقلید نہیں۔
تقلید صرف اور صرف یہ ہے کہ کوئی شخص کسی دوسرے (جس کا قول حجت نہ ہو) کی بات کو بغیر دلیل مانے۔ اگر دلیل کا فوری یا بعد میں پتہ لگ گیا تو بھی یہ تقلید نہیں، بلکہ اتباع ہوگی۔
تو!!!
درج ذيل آیت کریمہ میں اگر اس کی مذمت نہیں ہو رہی تو پھر مجھے نہیں معلوم کہ کس کی مذمت ہو رہی ہے؟؟!!!
﴿ اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللَّـهِ وَالْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا إِلَـٰهًا وَاحِدًا ۖ لَّا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ ۚ سُبْحَانَهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ ٣١ ﴾ ۔۔۔ سورة التوبة
(انہوں نے اللہ کو چھوڑ کر اپنے علماء اور مشائخ کو رب بنا رکھا ہے اور مسیح ابن مریم کو بھی۔ حالانکہ ان کو صرف یہ حکم کیا گیا ہے کہ فقط ایک معبود کی عبادت کریں جس کے سوا کوئی معبود ِحقیقی نہیں ،وہ ان کے شرک سے پاک ہے)
اللہ تعالیٰ نے متبوعین کو رب کا نام دیا کیوں کہ متبعین نے انہیں اللہ تعالیٰ کے ساتھ قانون ساز بنا لیا تھا، اور متبعین کو پجاری کا نام دیا ہے کیوں کہ انہوں نے متبوعین کے سامنے ذلت کا اظہار کیا اور اللہ کے حکم کے خلاف ان کی اطاعت کی۔
عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ سے کہا تھا:"حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے ان کی عبادت نہیں کی تھی"۔ تو نبی ﷺ نے فرمایا تھا:" کیوں نہیں، انہوں نے ان کے لئے حلال کو حرام اور حرام کو حلال کیا اور لوگوں نے ان کی اتباع کی، یہی ان کی طرف سے ان کی عبادت تھی"(رواه الترمذي وحسنه، كتاب التفسير سورة التوبة، 5/262.)
مزید تفصیل کیلئے یہ پوسٹ ملاحظہ کریں!
نص (وحی) کو چھوڑ کر کسی اور شے کی پیروی کی اجازت تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریمﷺ کو بھی نہیں دی، عام امتیوں کو کیسے ہوگی؟
فرمانِ باری ہے:
﴿ ثُمَّ جَعَلْنَاكَ عَلَىٰ شَرِيعَةٍ مِّنَ الْأَمْرِ فَاتَّبِعْهَا وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَ الَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ ١٨ ﴾ ۔۔۔ سورة الجاثية
پھر ہم نے آپ کو دین کی (ظاہر) راه پر قائم کردیا، سو آپ اسی پر لگے رہیں اور نادانوں کی خواہشوں کی پیروی میں نہ پڑیں (18)
﴿ اتَّبِعْ مَا أُوحِيَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ ۖ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ ۖ وَأَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِكِينَ ١٠٦ ﴾ ۔۔۔ الأنعام
آپ خود اس طریق پر چلتے رہئے جس کی وحی آپ کے رب تعالیٰ کی طرف سے آپ کے پاس آئی ہے، اللہ تعالیٰ کے سوا كوئی لائق عبادت نہیں اور مشرکین کی طرف خیال نہ کیجئے (106)
﴿ وَاتَّبِعْ مَا يُوحَىٰ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ ۚ إِنَّ اللَّـهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًا ٢ ﴾ ۔۔۔ سورة الأحزاب
جو کچھ آپ کی جانب آپ کے رب کی طرف سے وحی کی جاتی ہے اس کی تابعداری کریں (یقین مانو) کہ اللہ تمہارے ہر ایک عمل سے باخبر ہے (2)
تو عالم تو بذات خود نص کو پہچانتا ہے، لہٰذا اس کی پیروی کر لیتا ہے، جبکہ جاہل بذاتِ خود نص کو نہیں پہچان سکتا، لہٰذا فرمانِ باری ﴿ فاسئلوا أهل الذكر إن كنتم لا تعلمون ﴾ کے مطابق اہل علم سے معلوم کرکے اس کی پیروی کرتا ہے، اور یہ دونوں عین اتباع ہیں۔
اللہ تعالیٰ ہماری اصلاح فرمائیں!
اللهم أرنا الحق حقا وارزقنا اتباعه وأرنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابه ولا تجعله ملتبسا علينا فنضل واجعلنا للمتقين إماما