• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

دین میں جبر نہیں؟

Wearewahid

مبتدی
شمولیت
اپریل 24، 2021
پیغامات
1
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
17
کسی کافر ( اہل کتاب) کو جبراً مسلمان بنانا جائز نہیں ٹھیک ہے
مگر کیا مسلمان کو جبراً مسلمان رکھنا ضروری ہے ؟
ہندوں کو جبراً مسلمان بنانا جائز ہے؟
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,121
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
محترم
میں پھر اپنی بات کا اعادہ کروں گا کہ اگر دوسرے مذاہب کے لوگ اسی طرح اپنے دین کو ساری دنیا میں پھیلانے کی ایسی ہی کوشش کریں یا کرتے ہیں تو وہ تو اپنے تئیں اس کو صحیح سمجھتے ہیں پھر ان پر اعتراض کیوں؟
اور میں نے یہ عرض کیا تھا کہ کیا ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عرب کے باہر ان تین آپشن کے تحت کوئی جنگ لڑی؟ میرے ناقص علم میں نہیں ہے اس لئے آپ لوگوں کو زحمت دیتا ہوں باقی اگر میرے سوال اور طرز تحریر سے کسی کو تکلیف پہنچ رہی ہے تو میں اس بات یہی ختم کردیتا ہوں۔ کیوں کہ میری سوچ لوگوں کے خیال میں ہندوؤں سے بھی
زیادہ گئی گزری ہے۔
اقامت ِ دین کا صحیح طریقہ مسلح جہاد وقتال کے ذریعے شریعت کا نفاذ نہیں ہے بلکہ پہلے دعوتِ اسلام کو لوگو ں تک پہنچانا ہے ۔ اگر لوگ اس کو قبول کر لیں تو ٹھیک ورنہ ا ن کو بزورِ شمشیر مسلمان نہیں بنایا جائے گا اور نہ ان کے ملک پر قبضہ کیا جائے گا کیونکہ قرآن مجید کہتا ہے کہ لا اکراہ فی الدین۔کیونکہ اگر ان کے ساتھ زبردستی کی جائے تو یہ ان کے اختیارِ کفر پر ایک حملہ ہے جو کہ اسلامی فلسفۂ جہاد و قتال کے منافی ہے۔ اس کے علاوہ ہم دیکھتے ہیں کہ متعدد آیات ایسی ہیں جو لوگوں کو ایمان و کفر میں سے کسی ایک کو منتخب کرنے کا اختیار دیتی ہیں۔

مزید برآں یہ کہ ، ہم بذریعہ قلم و زبان ان کو دعوتِ اسلام پہنچانے کا طریقہ اپنائیں گے لیکن ان کے اصرارِ کفر پر ان کو زبر دستی ذمی نہیں بنائیں گے۔

البتہ اگر اسلامی ر یاست و حکومت وجود میں آتی ہے تو دین و شریعت کا نفاذ فرضِ عین ہوگا اور جو لوگ اس کی مخالفت کریں گے ان کے خلاف قتال فی سبیل اللہ کا جواز ثابت ہو جا ئے گا۔
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,121
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
دین میں جبر نہیں کا مفہوم ہے کہ اللہ تعالٰی نے واضح دلائل کے ساتھ حق و باطل میں فرق بیان کر دیا ہے لہذا جو انسان آزادانہ طور سے دین ِ اسلام پر غور و فکر کرے گا اس پر حق واضح ہو جائے گا ۔ لیکن اگر کوئی انسان اس کے با وجود اپنے ارادہ و اختیار سے اسلام قبول نہیں کرتا تو اسے طاقت کے ذریعے اسلام لانے پر مجبور نہیں کیا جائے گا بلکہ اس کا معاملہ اخروی عدالت کے سپرد کیا جائے گا ۔
جزیہ صرف مفتوح اقوام کی غیر مسلم آبادی سے لیا جاتا ہے ۔ غیر محارب غیر مسلم ریاستوں سے جزیہ نہیں لیا جا سکتا ۔ ان کو صرف دعوتِ حق پہنچانے کا ذمہ مسلمانوں پر عائد ہوتا ہے۔ اگر غیر مسلمین ریاستوں کو صرف تین ہی اختیار دیئے جائیں کہ جنگ، جزیہ یا اسلام قبول کرنے میں سے کسی ایک کا انتخاب کو لو تو یہ اس آزادی پر قدغن لگانے کے مترادف ہے جو قرآن مجید ان کو فراہم کرتا ہے۔ غیر محارب غیر مسلم ریاست سے جزیہ کا مطالبہ کرنا ہی تو جبر ہے ۔ اگر یہ جبر نہیں تو پھر جبر کیا ہے ؟
 
شمولیت
مارچ 02، 2023
پیغامات
683
ری ایکشن اسکور
26
پوائنٹ
53
آپ جو بات کہہ رہے ہیں اس کی کوئی مثال نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی زندگی سے مل سکتی ہےکہ آپ نے خطہ عرب سے باہر نکل کر انہی بنیادوں پر کسی سے جنگ کی ہو۔
محترم بھائی جان
اسلام میں جہاد کی دو قسمیں ہیں
1۔ جہاد الدفع
2۔ جہاد الطلب
جہاد الدفع سے مراد یہ ہے کہ کافر مسلمانوں پر حملہ آور ہوں اور مسلمان دفاع کریں جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ احد اور احزاب میں کیا
جہاد الطلب سے مراد یہ ہےکہ مسلمان کسی کافر ملک پر حملہ آور ہوں جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ حنین اور تبوک میں کیا
دونوں قسم کا جہاد اسلام میں ضرور ی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام نے کیا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سید نا ابوبکر وعمر عثمان وعلی ومعاویہ رضی اللہ عنہم وغیرہ نے زیادہ تر جہاد الطلب ہی کیا ہے اس لیے تو اتنے علاقے فتح ہوئے اور لاکھوں لوگ حلقہ بگوش اسلام ہوئے اللہ تعالی کا حکم بھی یہی ہے جیسا کہ فرمان باری تعالی ہے ( قاتلوا الذین لا یؤمنون باللہ ولا بالیوم الآخر ولا یحرموں ما حرم اللہ ورسولہ ....الآیۃ (التوبۃ:29)اور بہت ساری آیات اور احادیث ہیں جو جہاد کے بارے میں ہیں
اصل میں اسلام نے جہاد کا حکم دیا ہے تا کہ کافر ملکوں کی بھاگ دوڑ مسلمانوں کےہاتھ میں ہو قتل و غارت مقصد نہیں ہے اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اتنے غزوات کیے لیکن تمام غزوات میں مسلمان اور کافر جو شہید یا قتل ہوئے کی تعداد ایک ہزار بھی نہیں ہے کیونکہ قتل کرنا مقصد نہیں ہے اصل مقصد حکومت کی بھاگ دوڑ سنبھالنا ہے کیونکہ جب حکومت مسلمانوں کی ہو گی تو ما تحت کافر رعایا کو اسلام کو اختیار کرنے کا مکمل اختیار ہو گا (سورہ السبا آیت نمبر 33 کا مطالعہ کیجیے)
کافر حکمران اور کافروں کے بڑے اپنے ماتحت افراد تک اسلام کی صحیح دعوت پہنچنے میں رکاوٹ بنتے ہیں اس لیے اسلام نے جہاد کو ضروری قرار دے کر اس رکاوٹ کا خاتمہ چاہا ہے تا کہ رب کے بندے رب کی زمین پر رب کی عبادت کرنے میں آزاد ہوں کیونکہ زمین و آسمان کا رب اللہ تعالی ہے اور عبادت اسی کا حق ہے۔
اس لیے اسلام نے جہاد کے بہت سارے آداب بیان کیے ہیں جو کسی مذہب اور دین میں نہیں ہیں
بچوں عو رتوں بوڑھوں راہبوں کو قتل کرنا منع ہے
مثلہ کرنا منع ہے
جو کلمہ پڑھ لے چاہے آپ کو لگے کہ وہ ظاہری طور پر کلمہ پڑھ رہا ہے اسے قتل کرنا منع ہے
کیونکہ اصل مقصد قتل نہیں ہے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (( من قاتل لتکون کلمۃ اللہ هي العليا فهو في سبيل الله)) (صحیح البخاری :2810)جو شخض اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے جہاد کرتا ہو وہ فی سبیل اللہ ہے
واللہ اعلم
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,121
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
قرآن و سیرت ِ رسول ﷺ سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی ﷺ نے اپنی دس سالہ زندگی میں صلح پر آمادہ قوم سے قتال نہیں کیا۔ قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ جنگ کا آغاز اہلِ مکہ کی طرف ہی سے ہوا تھا۔(سورۃ التوبۃ)

انہوں نے ہی مسلمانوں پر مذہبی تشدد اور جبر کیا تھا جس کے نتیجے میں ان کو اپنا گھر بار، مال و دولت اور اولاد کو چھوڑ کر مدینہ ہجرت کرنا پڑی۔ ہجرت ِ مدینہ کے بعد بھی اہلِ مکہ نے مسلمانوں کو چین سے نہیں بیٹھے دیا بلکہ وہ مدینہ میں شب خون اور لوٹ مار کی کاروایاں جاری رکھے ہوئے تھے۔ اس کے علاوہ اہلِ مکہ نے مدینہ کے یہود اور دیگر غیر مسلم عربوں کو بھی مسلمانوں سے لڑنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کی۔ مزید یہ کہ غریب مہاجرین جن کا گزر بسر ہی تجارت پر تھا وہ بھی مدینہ میں محصور ہو کر رہ گئے گویا مسلمانوں پر مذہبی آزادی کے ساتھ ساتھ ان کی معاشی زندگی بھی متاثر ہوئی۔ یہی وجہ تھی جو رسول ﷺ نے اہلِ مکہ کے خلاف جنگ کی۔ (سورۃ البقرۃ)

مدینہ کے یہود نبیﷺ سے ایک معاہدے کے تحت معزز شہریوں کی طرح رہ رہے تھے اس معاہدے میں یہود کے حقوق و فرائض اور دیگر امتیازات کو برقرار رکھا گیا ۔ یہی وجہ تھی جو یہود نے بالاتفاق نبیﷺ کو حاکم ِ اعلیٰ تسلیم کر لیا۔ بنو قینقاع نے سب سے پہلے غداری کی اور جنگ کا اعلان کیا۔

اس کے بعد بنو نضیر نے نبیﷺ کو نبیﷺ کو نعوذ باللہ قتل کرنے کا اقدام اٹھایا لیکن اس کے با وجود ان سے صرفِ نظرکر کے تجدید معاہدہ کا کہا گیا۔ لیکن جب بنو نضیر جنگ پر آمادہ رہے تو ان کے خلاف جنگ کی گئی جبکہ بنی قریظہ نے نیا معاہدہ کر لیا۔

بنی قریظہ کی غزوۂ خندق پر عہد شکنی اور دشمنوں کی امداد کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔

قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ عرب کے مشرک قبائل جو قریش کے ساتھ تھے سب مسلمانوں کے خلاف جنگ پر آمادہ تھے۔ اس متعلق قرآن مجید کہتا ہے :

وقاتلو المشرکین کافۃ کما یقاتلون کافۃ

ترجمہ : اور تم تمام مشرکین سے قتال کرو کیونکہ وہ سب تم سے قتال کر رہے ہیں۔(سورۃ التوبۃ)

نجدی قبائل عرینہ و عکل اور بنو سلیم کی مکاری و غداری بھی تاریخ کا حصہ ہے۔ جبکہ بنو مصطلق پہلے سے ہی مکہ والوں سے مل کر مدینہ پر حملہ آور ہونے والے تھے کیونکہ ان کے سردار کے متعلق بذریعہ بریدہ اسلمی رضی اللہ تعالٰی عنہ تصدیق ہو چکی تھی کہ وہ فوجیں جمع کر رہا ہے ۔یہی وجہ تھی جو رسول اللہ ﷺ نے ان پر اچانک حملہ کیا۔(سیرت ابن ہشام و طبقات ابن سعد)

یہی مؤقف امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالٰی کا بھی ہے:

رسول اللہ ﷺ کی سیرت شاہد ہے کہ جن کفار نےصلح آپ ﷺ نےان سے جنگ نہیں کی۔سیرت ، حدیث، تفسیر، فقہ ، مغازی کی کتب یہی بات بتلاتی ہیں۔یہ بات رسول اللہ ﷺ کی سیرت سے متواتر ثابت ہے۔(قاعدۃ فی قتال الکفار)

امام ابن القیم رحمہ اللہ تعالٰی کا بھی یہی کہنا ہے:

جو رسول اللہ ﷺ کی سیرت میں غور و فکر کرے گا اسے معلوم ہو جائے گا کہ آپ ﷺ نے صرف ان طاقتوں سے قتال کیا جو آپﷺ سے قتال کرتے تھے۔ جن لوگوں نے آپ ﷺ سے صلح کی ان کے خلاف جنگ نہیں کی گئی۔(ہدایۃ الحیاریٰ)

اس ساری تفصیل سے بخوبی معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان طاقتوں سے جنگ کی تھی جو پہلے سے ہی جنگ کے لیے تیار تھے ۔رسول اللہ ﷺ نے صلح اور امن پر آمادہ کسی طاقت سے ہرگز جنگ نہیں کی۔
 
Top