• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

دین کی بنیاد کیا ہے؟

شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
509
ری ایکشن اسکور
167
پوائنٹ
77
دین کی بنیاد

بسم اللہ الرحمن الرحیم


امام محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

اسلام کی بنیاد دو چیزوں پر ہے یعنی اسلام میں دو چیزوں کی بڑی اہمیت ہے ۔

(۱) اکیلے اللہ کی عبادت کا حکم اور یہ کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا جائے اس بات پر دوسرے مسلمانوں کو بھی آمادہ کیا جائے یہ کام کرنے والوں سے دوستی رکھنا اور جو شخص اس (توحید) کو چھوڑ دے اسے کافر شمار کرنا۔

(۲) اللہ کی عبادت میں شرک کرنے سے لوگوں کو ڈرانا خبردار کرنا اس کام میں سختی کرنا شرک کرنے والوں سے دشمنی رکھنا اور انہیں کافر سمجھنا ۔

ان دونوں اعمال کی مخالفت بھی لوگ کرتے ہیں اور یہ مخالفت کرنے والوں کی کئی اقسام ہیں سب سے زیادہ سخت مخالفین وہ ہیں جو تمام مطلوبہ امور کی مخالفت کرتے ہیں پھر درجہ بدرجہ ہیں مثلاً
  • ایسے لوگ جو ایک اللہ کی عبادت کرتے ہیں مگر شرک کا انکار نہیں کرتے اور نہ مشرکوں سے دشمنی رکھتے ہیں۔
  • شرک کرنے والوں سے دشمنی رکھتے ہیں مگر انہیں کافر نہیں سمجھتے ۔
  • توحید سے محبت نہیں کرتے مگر اس سے نفرت بھی نہیں کرتے۔
  • شرک کرنے والوں کو کافر قرار دیتے ہیں مگر ساتھ ہی یہ بھی خیال کرتے ہیں کہ یہ نیک لوگوں کو گالی دینے کے مترادف ہے۔
  • شرک سے نہ بغض نہ محبت رکھنے والے ۔
  • شرک کو جانتے نہ اسکا انکار کرتے ہیں ۔
  • توحید کو نہیں جانتے نہ اسکا انکار کرتے ہیں ۔
  • سب سے زیادہ نقصان دہ بات یہ ہے کہ توحید پر عمل تو کیا جائے مگر یہ پتہ نہ ہو کہ توحید کیا ہے؟ اور توحید کو چھوڑنے والوں سے بغض نہ رکھے اور ان کو کافر نہ سمجھے ۔
  • جو شرک کو چھوڑ دے اس سے نفرت کرے اس کی قدر نہ جانے شرک کرنے والوں سے نہ دشمنی رکھے نہ انہیں کافر سمجھے تو یہ لوگ انبیاء کی لائی ہوئی شریعتوں کے مخالفین شمار ہوں گے۔
شیخ الاسلام رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں :

جس شخص پر اللہ نے یہ احسان کیا ہے کہ اسے مسلمان پیدا کیا یا اسلام لانے کی توفیق دی اور وہ شخص یہ جانتا ہے کہ اللہ کے علاوہ کوئی الٰہ نہیں ہے تو ایسا شخص یہ نہ سمجھے کہ صرف یہی باتیں حق ہیں میں انہیں اپناتا ہوں مگر میں مشرکین کے خلاف کچھ نہیں کہوں گا۔ اس طرح کہنے والا یہ نہ سمجھے کہ وہ اسلام میں داخل ہوگیا ہے بلکہ مشرکین سے دشمنی اور بغض اور ان مشرکین سے محبت رکھنے والوں سے بغض و دشمنی لازمی ہے جیسا کہ ابراہیم علیہ السلام نے اپنے والد اور اس کے ساتھیوں سے کہا تھا ۔

اِنَّا بُرَاءَ ؤُا مِنْکُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اﷲِ کَفَرْنَا بِکُمْ وَ بَدَا بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمْ الْعَدَاوَةُ وَالْبَغْضَآءُ اَبَدًا حَتّٰی تُؤْمِنُوْا بِاﷲِ وَحْدَہ، [الممتحنہ: ۴]

ہم تم سے اور اللہ کے علاوہ تمہارے معبودوں سے بری ہیں ہم تمہارے ان اعمال (اور عقائد) سے انکار کرتے ہیں ہمارے اور تمہارے درمیان نفرت اور دشمنی ظاہر ہوچکی ہمیشہ کے لئے جب تک کہ تم ایک اللہ پر ایمان نہ لاؤ۔


دوسری جگہ فرمایا:

فَمَنْ یَّکْفُرْ بِالطَّاغُوْتِ وَیُؤْمِنْ بِاﷲِ فَقَدِ اسْتَمْسَکَ بِالْعُرْوَةُِ الْوُثْقٰی

جس نے طاغوت کا انکار کیا اور اللہ پر ایمان لایا تو اس نے مضبوط کڑا تھام لیا [البقرہ: ۲۵۶]


ارشاد باری تعالیٰ ہے :

وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ کُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوْا اﷲَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ۔ [النحل: ۳۶]

ہم نے ہر امت میں رسول بھیجا (وہ ان سے کہتا تھا) اللہ کی عبادت کرو طاغوت سے اجتناب کرو۔


اگر کوئی شخص یہ کہے کہ میں نبی ﷺ کی اتباع کرتا ہوں اور آپ ﷺ حق پر ہیں لیکن میں لات اور عزی یا ابو جہل وغیرہ کے بارے میں کچھ نہیں کہتا ان کے بارے میں کچھ کہنا یا کسی قسم کی رائے میرے لئے اہم نہیں یا میری ذمہ داری نہیں تو ایسے شخص کا اسلام صحیح نہیں ہے۔

[مجموعۃ الفتاوی، ص : ۱۲۶ رسالہ دوم]
 
Top