بزرگوںکی نظر بصیرت اور روحانی تصرف و اختیار
۱)اشرف علی تھانوی اپنے پیر و مرشد حاجی امداد اﷲسے روایت کرتے ہیں:’’ایک دن حضرت غوث الاعظم سات اولیاء اﷲکے ہمراہ بیٹھے ہوئے تھے نا گاہ نظر بصیرت سے ملاحظہ فرمایا کہ ایک جہاز قریب غرق ہونے کے ہے آپ نے ہمت وتوجہ باطنی سے اس کو غرق ہونے سے بچا لیا۔‘‘
[امداد المشتاق : ص ۴۶،شمائم امدادیہ:ص۴۳]
دیکھا آپ نے ان دیوبندی علماء و اکابرین کا شیخ عبد القادر جیلانی کے بارے میں عقیدہ و اعتقاد کہ آپ نے نہ صرف ایک جہاز کا ڈوبنا اپنی نگاہ بصیرت سے دیکھ لیا بلکہ اس ڈوبتے جہاز کو اپنی باطنی قوت اور توجہ کو بروئے کار لا کر ڈوبنے سے بچا بھی لیا۔اب اس سلسلے میں حاجی امداد اللہ صاحب کی کار گزاری بھی ملاحظہ فرما ئیں۔۲)محبوب علی نقاش بیان کرتے ہیں:
’’ہمارا آگبوٹ تباہی میں تھامَیں مراقب ہو کر آپ (یعنی حاجی امداد اللہ) سے ملتجی ہواآپ نے مجھے تسکین دی اور آگبوٹ کو تباہی سے نکال دیا۔‘‘
[شمائم امدادیہ:ص۸۸]
ماشاء اللہ، کیسا زبردست عقیدہ ہے۔۔۔! مشرکین مکہ بھی جب طوفان میں پھنس جاتے تھے تو صرف اللہ ہی کو پکارتے تھے مگریہ دیوبندی اکابرین کے فیض یافتہ ہیں جو ایسے حالات میں بھی اپنے بزرگوں سے ہی التجائیں کرتے ہیں۔۳)محدثِ دارالعلوم دیوبند سید اصغر حسین صاحب لکھتے ہیں:
’’۱۳۲۲ء کے آخر میں دیوبند میں شدید طاعون ہوا ۔ چند طلبہ بھی مبتلا ہوئے ایک فارغ التحصیل طالب علم محمد صالح ولایتی جو صبح و شام میں سند فراغت لے کر وطن واپس ہونے والے تھے اسی مرض میں مبتلا ہوئے اورحالت آخری ہو گئی وفات سے کسی قدر پہلے انہوں نے ایسی گفتگو شروع کی کہ گویا شیطان سے مناظرہ کر رہے ہیں۔ اس کے دلائل کو توڑتے اپنے استدلال پیش کرتے اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ انہوں نے مناظرہ میں شیطان کو بخوبی شکست دیدی پھر کہنے لگے افسوس اس جگہ کوئی ایسا خدا کا بندہ نہیں ہے جو مجھ سے اس خبیث کو دفع کرے یہی کہتے کہتے دفعۃً بول اٹھے کہ واہ سبحان اللہ دیکھو میرے استاد حضرت مولانا محمود حسن دیوبندی تشریف لائے دیکھو وہ شیطان بھاگا۔ ارے خبیث کہا ںجاتا ہے۔
ایک ساعت بعد طالب علم صاحب کا انتقال ہو گیا۔ حضرت مولانا اس واقعہ کے وقت وہاں موجود نہ تھے ۔ مگر روحانی تصرف سے امداد فرمائی۔۔۔‘‘
[حیاتِ شیخ الہند: ص ۲۵۵]
۴)عاشق الٰہی میرٹھی دیوبندی لکھتے ہیں:
’’حاجی دوست محمد خان صاحب کے صاحبزادہ عبدالوہاب خان ایک شخص کے معتقد ہو گئے اور بیعت کا قصد کیا وہ شخص جن سے بیعت ہونا چاہتے تھے محض صورت کے درویش تھے اور واقع میں پکے دنیا دار اسلئے دوست محمد خان کو صاحبزادہ کی یہ کجی پسند نہ آئی اور کئی بار منع کیا کہ اس شخص سے مرید نہو(مگر) عبد الوہاب بعض خوارق دیکھکر ایسے ریجھے کہ باپ کا کہنا ناگوار گزرا ،ماننا تو درکنار۔ ادھر پیر صاحب کو فخر تھا کہ دوست محمد خان کا لڑکا پولیس کا کوتوال مرید ہوتا ہے آخرحاجی صاحب نے جب بیٹے کا اصرار دیکھا تو باقتضائے محبت بدست بدعا ہوئے اور مراقب ہو کر حضرت(گنگوہی) کی جانب متوجہ ہوکر خلوت میں جا بیٹھے۔‘‘[ تزکرۃ الرشید:ج ۲ص۲۱۶۔۲۱۵]ادھر حاجی دوست محمد خان صاحب اپنے امام ربانی رشید احمد گنگوہی صاحب کی جانب متوجہ ہوئے ادھر اس کا اثر یہ ہوا کہ ان کے بیٹے عبدالوہاب خان کے دنیا دار پیر نے ان کو بیعت کرنے سے یہ کہہ کر انکار کر دیاکہ باپ سے اجازت لے کر آئو۔چنانچہ حاجی دوست محمد خان فرمایا کرتے:
’’ جسوقت مَیں امام ربانی کی طرف متوجہ ہوا تو دیکھا حضرت غایت شفقت کے ساتھ عبد الوہاب کا ہاتھ پکڑ کر میرے ہاتھ میں پکڑاتے اور یوں فرماتے ہیں’’لو اب یہ اسکا مرید نہوگا‘‘ یہ وہی وقت تھا کہ انہوں نے عبدالوہاب کا ہاتھ چھوڑ ا اور یہ کہہ کر بیعت سے انکار کیا کہ باپ سے اجازت لے آئو۔‘‘
[ تزکرۃ الرشید:ج ۲ص۲۱۶]
دیکھا کس طرح یہ دیوبندی حضرات مشکل پیش آنے پر اپنے بزرگوں کی طرف متوجہ ہوتے ہیں انہیں’’بدست بدعا‘‘ ہو کر پکارتے ہیں ۔مرید نے اپنے پیر و مرشد گنگوہی صاحب کی طرف توجہ کی اور گنگوہی صاحب نے اپنے مرید کو مایوس نہیں کیا۔ گنگوہی صاحب نے نہ صرف اپنے مرید کی مشکل کا احساس کیا بلکہ اس کی غائبانہ امداد بھی کر دی۔ آخر یہ کیوں نہ ہوتا کہ یہ وہی رشید احمد گنگوہی ہیں جن کے متعلق عاشق الٰہی میرٹھی دیوبندی لکھتے ہیں:’’اس لیئے آپ کی قوتِ قدسیہ کے سامنے قریب و بعید اور حاضر و غائب اس انتفاع میں یکساں تھے۔‘‘
[تزکرۃ الرشید:ج۲ص ۱۴۰]
اللہ کی پناہ! ایسے صریح شرکیہ عقائد و نظریات سے۔’’ اے لوگو! ایک مثال بیان کی جا رہی ہے ذرا کان لگا کر سن لو۔اللہ کے سوا جن جن کو تم پکار رہے ہو وہ ایک مکھی بھی تو پیدا نہیں کر سکتے گویا سارے کے سارے ہی جمع ہو جائیں بلکہ اگر مکھی ان سے کوئی چیز لے بھاگے تو یہ اسے بھی اس سے نہیں چھین سکتے،مانگنے والا اور جس سے مانگا جا رہا ہے دونوں ہی کمزور ہیں۔‘‘
[الحج: ۷۳]