• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

دیوبندیت اپنی کتابوں کے آئینہ میں، (یونیکوڈ )

ناصر رانا

رکن مکتبہ محدث
شمولیت
مئی 09، 2011
پیغامات
1,171
ری ایکشن اسکور
5,454
پوائنٹ
306
بزرگوںکی نظر بصیرت اور روحانی تصرف و اختیار
۱)اشرف علی تھانوی اپنے پیر و مرشد حاجی امداد اﷲسے روایت کرتے ہیں:
’’ایک دن حضرت غوث الاعظم سات اولیاء اﷲکے ہمراہ بیٹھے ہوئے تھے نا گاہ نظر بصیرت سے ملاحظہ فرمایا کہ ایک جہاز قریب غرق ہونے کے ہے آپ نے ہمت وتوجہ باطنی سے اس کو غرق ہونے سے بچا لیا۔‘‘
[امداد المشتاق : ص ۴۶،شمائم امدادیہ:ص۴۳]​
دیکھا آپ نے ان دیوبندی علماء و اکابرین کا شیخ عبد القادر جیلانی کے بارے میں عقیدہ و اعتقاد کہ آپ نے نہ صرف ایک جہاز کا ڈوبنا اپنی نگاہ بصیرت سے دیکھ لیا بلکہ اس ڈوبتے جہاز کو اپنی باطنی قوت اور توجہ کو بروئے کار لا کر ڈوبنے سے بچا بھی لیا۔اب اس سلسلے میں حاجی امداد اللہ صاحب کی کار گزاری بھی ملاحظہ فرما ئیں۔

۲)محبوب علی نقاش بیان کرتے ہیں:
’’ہمارا آگبوٹ تباہی میں تھامَیں مراقب ہو کر آپ (یعنی حاجی امداد اللہ) سے ملتجی ہواآپ نے مجھے تسکین دی اور آگبوٹ کو تباہی سے نکال دیا۔‘‘
[شمائم امدادیہ:ص۸۸]​
ماشاء اللہ، کیسا زبردست عقیدہ ہے۔۔۔! مشرکین مکہ بھی جب طوفان میں پھنس جاتے تھے تو صرف اللہ ہی کو پکارتے تھے مگریہ دیوبندی اکابرین کے فیض یافتہ ہیں جو ایسے حالات میں بھی اپنے بزرگوں سے ہی التجائیں کرتے ہیں۔

۳)محدثِ دارالعلوم دیوبند سید اصغر حسین صاحب لکھتے ہیں:
’’۱۳۲۲ء کے آخر میں دیوبند میں شدید طاعون ہوا ۔ چند طلبہ بھی مبتلا ہوئے ایک فارغ التحصیل طالب علم محمد صالح ولایتی جو صبح و شام میں سند فراغت لے کر وطن واپس ہونے والے تھے اسی مرض میں مبتلا ہوئے اورحالت آخری ہو گئی وفات سے کسی قدر پہلے انہوں نے ایسی گفتگو شروع کی کہ گویا شیطان سے مناظرہ کر رہے ہیں۔ اس کے دلائل کو توڑتے اپنے استدلال پیش کرتے اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ انہوں نے مناظرہ میں شیطان کو بخوبی شکست دیدی پھر کہنے لگے افسوس اس جگہ کوئی ایسا خدا کا بندہ نہیں ہے جو مجھ سے اس خبیث کو دفع کرے یہی کہتے کہتے دفعۃً بول اٹھے کہ واہ سبحان اللہ دیکھو میرے استاد حضرت مولانا محمود حسن دیوبندی تشریف لائے دیکھو وہ شیطان بھاگا۔ ارے خبیث کہا ںجاتا ہے۔
ایک ساعت بعد طالب علم صاحب کا انتقال ہو گیا۔ حضرت مولانا اس واقعہ کے وقت وہاں موجود نہ تھے ۔ مگر روحانی تصرف سے امداد فرمائی۔۔۔‘‘
[حیاتِ شیخ الہند: ص ۲۵۵]​

۴)عاشق الٰہی میرٹھی دیوبندی لکھتے ہیں:
’’حاجی دوست محمد خان صاحب کے صاحبزادہ عبدالوہاب خان ایک شخص کے معتقد ہو گئے اور بیعت کا قصد کیا وہ شخص جن سے بیعت ہونا چاہتے تھے محض صورت کے درویش تھے اور واقع میں پکے دنیا دار اسلئے دوست محمد خان کو صاحبزادہ کی یہ کجی پسند نہ آئی اور کئی بار منع کیا کہ اس شخص سے مرید نہو(مگر) عبد الوہاب بعض خوارق دیکھکر ایسے ریجھے کہ باپ کا کہنا ناگوار گزرا ،ماننا تو درکنار۔ ادھر پیر صاحب کو فخر تھا کہ دوست محمد خان کا لڑکا پولیس کا کوتوال مرید ہوتا ہے آخرحاجی صاحب نے جب بیٹے کا اصرار دیکھا تو باقتضائے محبت بدست بدعا ہوئے اور مراقب ہو کر حضرت(گنگوہی) کی جانب متوجہ ہوکر خلوت میں جا بیٹھے۔‘‘
[ تزکرۃ الرشید:ج ۲ص۲۱۶۔۲۱۵]​
ادھر حاجی دوست محمد خان صاحب اپنے امام ربانی رشید احمد گنگوہی صاحب کی جانب متوجہ ہوئے ادھر اس کا اثر یہ ہوا کہ ان کے بیٹے عبدالوہاب خان کے دنیا دار پیر نے ان کو بیعت کرنے سے یہ کہہ کر انکار کر دیاکہ باپ سے اجازت لے کر آئو۔چنانچہ حاجی دوست محمد خان فرمایا کرتے:
’’ جسوقت مَیں امام ربانی کی طرف متوجہ ہوا تو دیکھا حضرت غایت شفقت کے ساتھ عبد الوہاب کا ہاتھ پکڑ کر میرے ہاتھ میں پکڑاتے اور یوں فرماتے ہیں’’لو اب یہ اسکا مرید نہوگا‘‘ یہ وہی وقت تھا کہ انہوں نے عبدالوہاب کا ہاتھ چھوڑ ا اور یہ کہہ کر بیعت سے انکار کیا کہ باپ سے اجازت لے آئو۔‘‘
[ تزکرۃ الرشید:ج ۲ص۲۱۶]​
دیکھا کس طرح یہ دیوبندی حضرات مشکل پیش آنے پر اپنے بزرگوں کی طرف متوجہ ہوتے ہیں انہیں’’بدست بدعا‘‘ ہو کر پکارتے ہیں ۔مرید نے اپنے پیر و مرشد گنگوہی صاحب کی طرف توجہ کی اور گنگوہی صاحب نے اپنے مرید کو مایوس نہیں کیا۔ گنگوہی صاحب نے نہ صرف اپنے مرید کی مشکل کا احساس کیا بلکہ اس کی غائبانہ امداد بھی کر دی۔ آخر یہ کیوں نہ ہوتا کہ یہ وہی رشید احمد گنگوہی ہیں جن کے متعلق عاشق الٰہی میرٹھی دیوبندی لکھتے ہیں:
’’اس لیئے آپ کی قوتِ قدسیہ کے سامنے قریب و بعید اور حاضر و غائب اس انتفاع میں یکساں تھے۔‘‘
[تزکرۃ الرشید:ج۲ص ۱۴۰]​
اللہ کی پناہ! ایسے صریح شرکیہ عقائد و نظریات سے۔

’’ اے لوگو! ایک مثال بیان کی جا رہی ہے ذرا کان لگا کر سن لو۔اللہ کے سوا جن جن کو تم پکار رہے ہو وہ ایک مکھی بھی تو پیدا نہیں کر سکتے گویا سارے کے سارے ہی جمع ہو جائیں بلکہ اگر مکھی ان سے کوئی چیز لے بھاگے تو یہ اسے بھی اس سے نہیں چھین سکتے،مانگنے والا اور جس سے مانگا جا رہا ہے دونوں ہی کمزور ہیں۔‘‘
[الحج: ۷۳]​
 

ناصر رانا

رکن مکتبہ محدث
شمولیت
مئی 09، 2011
پیغامات
1,171
ری ایکشن اسکور
5,454
پوائنٹ
306
بعد از وفات دیوبندی بزرگوں کی کاروائیاں
۱)خواجہ عزیز الحسن اپنے حکیم الامت اشرف علی تھانوی صاحب کے پردادا کا واقعہ نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’پردادا صاحب تو کیرانہ اور شاملی کے درمیان جہاں پختہ سڑک ہے شہید ہوئے۔۔۔۔کسی بارات میں تشریف لے جا رہے تھے کہ ڈاکوئوں نے آ کر بارات پر حملہ کر دیا ۔۔۔۔یہ مقابلہ میں شہید ہو گئے۔۔۔۔
شہادت کے بعد ایک عجیب واقعہ ہوا ۔شب کے وقت اپنے گھر مثل زندہ کے تشریف لائے اور اپنے گھر والوں کو مٹھائی لا کر دی اور فرمایا کہ اگر تم کسی پر ظاہر نہ کرو گی تو روز اسی طرح آیا کریں گے لیکن ان کے گھر کے لوگوں کو اندیشہ ہوا کہ گھر والے جب بچوں کو مٹھائی کھاتا دیکھیں گے تو معلوم نہیں کیا شبہ کریں اس لیے ظاہر کر دیا اور پھر آپ تشریف نہیں لائے ۔یہ واقعہ خاندان میں مشہور ہے۔‘‘
[اشرف السوانح: ج۱ص۳۹۔۴۰]

۲)دیوبندی تبلیغی جماعت کے شیخ الحدیث زکریا کاندھلوی صاحب لکھتے ہیں:
’’فرمایا کہ ایک صاحب کشف حضرت حافظ صاحب رحمتہ اللہ علیہ کے مزار پر فاتحہ پڑھنے گئے ۔ بعد فاتحہ کہنے لگے بھائی یہ کون بزرگ ہیں بڑے دل لگی باز ہیں ۔جب میں فاتحہ پڑھنے لگا تو مجھ سے فرمانے لگے کہ جائو کسی مردہ پر پڑھو، یہاں زندوں پر فاتحہ پڑھنے آئے ہو یہ کیا بات ہے؟ تب لوگوں نے بتایا یہ شہید ہیں۔‘‘
[امداد السلوک(مقدمہ):ص۲۷]​

۳)زکریا کاندھلوی دیوبندی لکھتے ہیں:
’’حضرت ابو سعید خزازؒ فرماتے ہیں کہ میں مکہ مکرمہ میں تھا ۔۔۔۔کہ میں نے ایک نوجوان کی نعش رکھی ہوئی دیکھی جو نہایت حسین چہرہ والا تھا میں نے جو اسکے چہرہ کو غور سے دیکھا تو وہ تبسم کرتے ہوئے کہنے لگا ابو سعید تمھیں معلوم نہیں کہ عشاق مرتے نہیں بلکہ وہ زندہ ہی رہتے ہیں اگر چہ ظاہر میں مر جائیں انکی موت ایک عالم سے دوسرے عالم میں انتقال ہوتا ہے۔‘‘
[فضائل حج: ص ۲۵۶]​

۴) زکریا کاندھلوی صاحب مزید روایت کرتے ہیں:
’’ شیخ ابو یعقوب سنوسیؒ فرماتے ہیں کہ میرے پاس ایک مرید مکہ مکرمہ میںآیا اور کہنے لگاکہ اے استاد میں کل ظہر کے وقت مر جائوں گا۔۔۔۔جب دوسرے دن ظہر کا وقت آیا وہ مسجد حرام میں آیا اور طواف کیا اور تھوڑی دور جا کر مر گیا ۔۔۔۔جب اس کو قبر میں رکھا تو اس نے آنکھیں کھولدیں میں نے کہا کیا مرنے کے بعد بھی زندگی ہے؟ کہنے لگا ہاں میں زندہ ہوں،اور اللہ جل شانہ کا ہر عاشق زندہ ہوتاہے(روض)۔‘‘
[فضائل حج: ص ۲۵۶​
]
 

ناصر رانا

رکن مکتبہ محدث
شمولیت
مئی 09، 2011
پیغامات
1,171
ری ایکشن اسکور
5,454
پوائنٹ
306
بعد از وفات دیوبندی اکابرین کا تصرف و امداد
۱)دیوبندی تبلیغی جماعت کے شیخ الحدیث محمد زکریا کاندھلوی اپنے شیخ المشائخ شاہ عبد القدوس گنگوہی کے متعلق لکھتے ہیں:
’’حضرت نے اپنی کتاب انوار العیون میں تحریر فرمایا ہے کہ حضرت احمد عبد الحق کے منجملہ اور تصرفات کے ایک یہ بھی ہے کہ اپنے وصال سے پچاس سال بعد اس ناچیز کی اپنے روحانی فیض سے تربیت فرمائی۔‘‘
[تاریخ مشائخ چشت:ص ۱۹۳]
اپنے شیخ المشائخ شاہ عبد القدوس گنگوہی کی اس کتاب انوار العیون کے بارے میں زکریا کاندھلوی صاحب لکھتے ہیں:
’’آپ کی مئولفات میں ایک کتاب انوار العیون ہے جس کے سات فن ہیں جن میں حقائق و وقائق تصوف کو جمع فرمایا ہے۔‘‘
[تاریخ مشائخ چشت:ص ۲۰۴]
معلوم ہوا کہ دیوبندی علماء کے نزدیک یہ بات حقیقت ہے کہ ان کے بزرگ و اکابرین فوت شدہ لوگوں سے فیض اور امداد حاصل کرتے رہے ہیں۔ فوت شدہ لوگوں کا زندوں کی تربیت کرنا دیوبندی بزرگوں کامحض ایک تصرف ہے ورنہ منجملہ اس کے اور بھی کافی تصرفات پر وہ قادر ہیں۔انا للہ و انا الیہ راجعون۔

۲)مولانا حبیب الرحمٰن دیوبندی مدرسہ دیوبند کا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’ مولوی احمد حسن صاحب امروہوی اور مولوی فخر الحسن صاحب گنگوہی میں باہم معاصرانہ چشمک تھی اور اس نے بعض حالات کی بنا پر ایک مخاصمہ اور متنازعہ کی صورت اختیار کر لی اور مولانا محمود حسن صاحب گو اصل جھگڑے میں شریک نہ تھے نہ انہیں اس قسم کے امور سے دلچسپی تھی۔مگر صورت حالات ایسی پیش آئی کہ مولانا بھی بجائے غیر جانبدار رہنے کے کسی ایک جانب جھک گئے اور یہ واقعہ کچھ طول پکڑ گیا اور اسی دوران میں ایک دن علی الصباح بعد نماز فجر مولانا رفیع الدین صاحب نے مولانا محمود حسن صاحب کو اپنے حجرے میں بلایا(جو دارالعلوم دیوبند میں ہے) مولانا حاضر ہوئے اور بند حجرے کے کواڑ کھول کر اندر داخل ہوئے موسم سخت سردی کا تھا۔ مولانا رفیع الدین صاحب نے فرمایا کہ پہلے میرا یہ روئی کا لبادہ دیکھ لو ۔ مولانا نے لبادہ دیکھا تو تر تھا اور خوب بھیگ رہا تھا فرمایا کہ واقعہ یہ ہے کہ ابھی ابھی مولانا نانوتوی جسد عنصری کے ساتھ میرے پاس تشریف لائے تھے۔ جس سے میں ایک دم پسینے پسینے ہوگیا اور میرا لبادہ تر بتر ہو گیا اور فرمایاکہ محمود حسن کو کہہ دو کہ وہ اس جھگڑے میں نہ پڑے پس میں نے یہ کہنے کے لیئے بلایا ہے مولانا محمود حسن صاحب نے عرض کیا کہ حضرت میں آپ کے ہاتھ پر توبہ کرتا ہوں کہ اس کے بعد اس قصہ میں کچھ نہ بولوں گا۔‘‘
[ ارواحِ ثلاثہ :ص ۱۹۹]
قاسم نانوتوی صاحب کے اس طرح بعد از وفات دیوبند تشریف لانے پر اشرف علی تھانوی صاحب لکھتے ہیں:
’’ یہ واقعہ روح کا تمثل تھا اور اس کی دو صورتیں ہو سکتی ہیں ۔ایک یہ کہ جسد مثالی تھا ۔مگر مشابہ جسد عنصری کے، دوسری صورت یہ کہ روح نے خود عناصر میں تصرف کر کے جسد عنصری تیار کر لیا ہو۔‘‘
[ ارواحِ ثلاثہ :ص ۲۰۰]

معلوم ہوا کہ دیوبندی علماء و اکابرین کے نزدیک بزرگوں کو مرنے کے بعد بھی دنیا کے حالات کی خبر رہتی ہے اورمرنے کے بعد روح کو یہ قدرت بھی حاصل ہوتی ہے کہ وہ چاہے تو خود تصرف کر کے ایک جسم تیار کرے اور حالات کے پیشِ نظر دنیا میں تشریف لا کر مشاورت و امداد کے فرائض انجام دے۔یاد رہے کہ بعد وفات تصرف کایہ مظاہرہ ایک بار ہی نہیں ہوا بلکہ متعدد مواقع پراس کا ثبوت دیا گیا۔ چنانچہ ایک اور دیوبندی عالم مناظر احسن گیلانی لکھتے ہیں:
’’ایسی صورت میں کیوں اصرار کیا جاتا ہے اس کی’’ موت ‘ ‘ کے بعد ہم اس کو مُردوں میں شمار کریں ،یاد ہو گا کہ ایک دفعہ نہیں ، متعدد مواقع پر مشاہدہ کرنے والوں نے بعد وفات دیکھا کہ ’’مولٰنا نانوتوی رحمتہ اللہ علیہ جسد عنصری کے ساتھ میرے پاس تشریف لائے تھے ‘‘۔‘‘
[سوانح قاسمی،حصہ سوم:ص ۱۴۹۔۱۵۰]

۳)اسی طرح کا ایک اور لمبا واقعہ’’ سوانح قاسمی‘‘ میں موجود ہے جس میں دارالعلوم دیوبند کے انتہائی مشکل میں پھنسے ایک طالبعلم کی مدد اچانک نمودار ہونے والی ایک شخصیت نے کی جو بعد میں اچانک ہی غائب بھی ہو گئی۔ اس طالبعلم نے اس واقعہ کو اپنے استادشیخ الہند محمود حسن دیوبندی سے بیان کیا ۔ سوانح قاسمی کے مصنف مناظر احسن گیلانی دیوبندی اس پر لکھتے ہیں:
’’حضرت شیخ الہند فرماتے تھے ، میں نے ان مولوی صاحب سے دریافت کیا کہ اچانک نمودار ہو کر غائب ہو جانے والی شخصیت کا حلیہ کیا تھا،حلیہ جو بیان کیا فرماتے تھے کہ سنتا جاتا تھا اور حضرت الاستاذ کا ایک ایک خال و خط نظر کے سامنے آتا چلا جا رہا تھا۔، جب وہ بیان ختم کر چکے تو میں نے ان سے کہا یہ تو حضرت الاستاذ (قاسم نانوتوی) رحمتہ اللہ علیہ تھے ۔ جو تمھاری امداد کے لیئے حق تعالیٰ کی طرف سے ظاہر ہوئے ۔‘‘
[سوانح قاسمی ،حصہ اول:ص ۳۳۲]
گویا قاسم نونوتوی صاحب نے اپنی وفات کے بعدمشکل میں پھنسے اس دیوبندی طالبعلم کی امداد کی۔اس واقعہ کی توجیہ میں مناظر احسن گیلانی دیوبندی اس دیوبندی عقیدہ کی وضاحت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ بس بزرگوں کی ارواح سے مدد لینے کے ہم منکر نہیں ہیں۔‘‘
[سوانح قاسمی ،حصہ اول:ص ۳۳۲]

۴)مناظر احسن گیلانی دیوبندی ایک اور جگہ اپنے الامام الکبیر قاسم نانوتوی کے متعلق فرماتے ہیں:
’’لیکن قلبی اور باطنی طریقہ پر قلب اس درجہ اولاد پر شفقت سے بھرپور رہتا تھا کہ زندگی ہی کی حد تک نہیں بعد وفات بھی اولاد پر آپ کی وہی نگاہ شفقت قائم رہی۔‘‘
[سوانح قاسمی ،حصہ اول :ص ۵۶۰]

ماشاء اللہ یہ ہیں دیوبندی بزرگ جو مرنے کے بعد بھی پچھلوں کو اپنی نگاہِ شفقت میں رکھتے ہیں۔ ان کے حالات کی خبر رکھتے ہیں اور مشکل میں پھنسے حضرات کی مدد کو پہنچتے ہیں۔
 

ناصر رانا

رکن مکتبہ محدث
شمولیت
مئی 09، 2011
پیغامات
1,171
ری ایکشن اسکور
5,454
پوائنٹ
306
توہین آمیز عبارات اور گستاخیاں
۱)دیوبندیوں کے مجدد الملت اشرف علی تھانوی صاحب فرماتے ہیں:
’’شیطان جو جناب رسول اللہ ﷺ کی صورت بن کر خواب میں نہیں آ سکتا اس کی وجہ یہ ہے کہ حضور ﷺ محض مظہر ہدایت ہیں اور شیطان محض مظہر ضلالت ہے اور ہدایت و ضلالت ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتیں بخلاف حق تعالیٰ کے کہ وہ مظہر ہدایت بھی ہے اور مظہر ضلالت دونوں ہیں اس لیئے شیطان خواب میں اللہ تعالیٰ کی صورت بن کر نمودار ہو سکتا ہے۔‘‘
[تقریر ترمذی:ص۴۴۳]
گھٹیا درجے کی منطق استعمال کرتے ہوئے یہ کہنا کہ شیطان خواب میں اللہ کی صورت بن کر آ سکتا ہے ،اللہ تعالیٰ کی شان میں سخت گستاخی اور توہین ہے۔

۲)اشرف علی تھانوی اپنے اعلیٰ حضرت حاجی امداداللہ کے متعلق لکھتے ہیں:
’’ایک دن اعلیٰ حضرت نے خواب دیکھا کہ آپ کی بھاوج آپ کے مہمانوں کا کھانا پکا رہی ہیں کہ جناب رسول مقبول ﷺ تشریف لائے اور آپ کی بھاوج سے فرمایااٹھ تو اس قابل نہیں کہ امداد اللہ کے مہمانوں کا کھانا پکائے اس کے مہمان علماء ہیں اس کے مہمانوں کا کھانا میں پکائوں گا۔‘‘
[امداد المشتاق:ص۲۰]
نیز دیکھئے امداد السلوک(ص۴۰ )،تاریخ مشائخ چشت(ص۲۴۸)
صرف اپنے آپ کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کے لیئے اس من گھڑت خواب کے سہارے نبی ﷺ کی صریح گستاخی کی گئی ہے۔ تھانوی صاحب کے پیر صاحب کا مقام اتنا اونچا ہے کہ ان کااور ان کے مہمانوں کا کھانا رسول اللہ ﷺ پکانے کے لیئے تشریف لاتے ہیں(استغفراللہ)۔ ہو سکتا ہے کہ اس پر کوئی یہ اعتراض کرے کہ یہ ایک خواب کا واقعہ ہے تو عرض ہے کہ اگر طاہر القادری خواب میں نبی ﷺ کا اس سے ٹکٹ مانگنا ،بیان کرے تو گستاخی ہے تو اپنے پیر کا نبی ﷺسے کھانا پکوانا گستاخی نہیں۔۔۔؟

۳)دیوبندی حکیم الامت اشرف علی تھانوی فرماتے ہیں:
’’ایک مرتبہ شاہ فضل الرحمٰن صاحب فرماتے تھے کہ مَیں بیمار ہوااور ڈرا کہ کہیں مر نہ جائوں مجھے مرنے سے بڑا ڈر لگتا ہے پھر آرام ہونے کے بعد فرمایاکہ حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہاخواب میں تشریف لائیں اور انہوں نے مجھے سینے سے لگا لیا۔اچھا ہو گیا۔‘‘
[قصص الاکابر:ص۵۷۔۵۶]
استغفر اللہ، اس من گھڑت خواب میں نبی مکرم ﷺ کی لختِ جگر اورسیدنا علی ؓ کی اہلیہ محترمہ سیدہ فاطمہ ؓکی جس قدر شدید توہین کی گئی ہے وہ محتاجِ بیان نہیںہے۔صرف اپنی جھوٹی بڑائی ظاہر کرنے کے لیئے خواب کے نام پر ان حضرات نے کس طرح پاک باز ہستیوں کی عزت پر کیچڑ اچھالنے کی کوشش کی ہے ۔ تف افسوس کہ اس سنگین گستاخی کو بھی خواب کے نام پر برداشت کرنے کی ترغیب دی جائے۔
اگر کوئی یہ کہے کہ مَیں نے خواب میں خود کو اشرف علی تھانوی کی اہلیہ کے ساتھ، رشید احمد گنگوہی کی بیٹی کے ساتھ فلاں فلاں حالت میں ملوث پایا تو اسے فقیہان دیوبند ضرور گستاخ قرار دیں گے بلکہ ہو سکتا ہے کہ اس جسارت پر کافر کہنے سے کم ہرگز تسلی نہ ہو۔ مگر ایسی ہی غلیظ بات خواب کے نام پر اللہ کے رسول ﷺکے گھرانے کے لیئے ان کے ہاں جائزہے،(نعوذ باللہ و من ذالک) ۔
تنبیہ:۔
قادیانی فتنہ کے خلاف محمد متین خالد نے ’’ثبوت حاضر ہیں!‘‘ کے نام سے ایک بہترین کتاب ترتیب دے رکھی ہے ۔جس پر مولانا یوسف لدھیانوی اور مولانا اللہ وسایا سمیت کئی دیوبندی علماء کی تقاریظ موجود ہیں۔ اس کتاب میں(ص ۳۱۱ پر) ’’حضرت فاطمہؓ کی شرمناک توہین‘‘ کا عنون دے کر متین خالد صاحب مرزا غلام احمد قادیانی کی یہ عبارت نقل کرتے ہیں:
’’ حضرت فاطمہ ؓ نے کشفی حالت میں اپنی ران پر میرا سر رکھا اور مجھے دکھایا کہ میں اس میں سے ہوں؟‘‘
( ایک غلطی کا ازالہ (حاشیہ)ص۱۱ از مرزا غلام احمد قادیانی)
مرزا غلام احمد قادیانی کی یہ عبارت سیدہ فاطمہؓ کی شرمناک توہین ہے اور اشرف علی تھانوی کے شاہ فضل الرحمٰن گنج مراد آبادی کی سیدہ فاطمہؓ سے متعلق بات اس سے بھی کہیں بڑھ کرشرمناک توہین اور گستاخی ہے۔

۴)صحیح حدیث میں نبی کریم ﷺ سے ثابت ہے کہ آپ سری نمازوں میں بعض اوقات ایک یا دو آیتیں جہراً پڑھ دیتے تھے ۔ دیکھئے صحیح بخاری (حدیث: ۷۵۹، ۷۶۲،۷۷۶،۷۷۸،۷۷۹) و صحیح مسلم(۴۵۱)۔
اس کے متعلق دیوبندیوں کے حکیم الامت اشرف علی تھانوی صاحب فرماتے ہیں:
’’اور میرے نزدیک اصل وجہ یہ ہے کہ آپ(ﷺ) پر ذوق و شوق کی حالت غالب ہوتی تھی جس میں یہ جہر واقع ہو جاتا تھا اور جب کہ آدمی پر غلبہ ہوتا ہے تو پھر اس کو خبر نہیں رہتی کہ کیا کر رہا ہے۔‘‘
[تقریر ترمذی: ص۸۳]
گویا تھانوی صاحب کے نزدیک نبی ﷺ کو نمازمیں ذوق و شوق کی ایسی حالت طاری ہوتی تھی کہ آپ کو پتا ہی نہیں چلتا تھا کہ کیا کر رہے ہیں۔۔۔نعوذ باللہ ۔ہم اللہ کی پناہ چاہتے ہیں اس توہین آمیز کفرسے۔



۵)ایک صحیح حدیث میں آیا ہے کہ : کتا سامنے سے گذر جائے تو نماز ٹوٹ جاتی ہے(صحیح مسلم:۱؍۱۹۷)۔اس صحیح حدیث کا مذاق اڑاتے ہوئے دیوبندیوں کے مناظر اسلام امین صفدر اوکاڑوی لکھتے ہیں:
’’لیکن آپ ؐ نماز پڑھاتے رہے اور کتیا سامنے کھیلتی رہی اور ساتھ گدھی بھی تھی ، دونوں کی شرمگاہوں پر بھی نظر پڑتی رہی۔‘‘
[غیر مقلدین کی غیر مستند نماز:ص۳۸،تجلیاتِ صفدر:ج۵ص۴۸۸]

دیوبندی مناظر امین او کاڑوی کی یہ بات نہ صرف سید الانبیاء ﷺ پر سخت جھوٹ اور بہتان ہے بلکہ نبی ﷺ کی شدید توہین اور گستاخی بھی ہے ۔ کسی حدیث میں ایسی کوئی بات موجود نہیں کہ نبی ﷺ نمازمیں گدھی اور کتیا کی شرمگاہوں پر نظر ڈالتے رہے ہوں (معاذ اللہ)۔جو بات ایک عام مسلمان کے لیئے بھی نماز کی حالت میں سوچی نہیں جا سکتی کس دیدہ دلیری سے نبی ﷺ کی جانب منسوب کی جا رہی ہے۔
 

ناصر رانا

رکن مکتبہ محدث
شمولیت
مئی 09، 2011
پیغامات
1,171
ری ایکشن اسکور
5,454
پوائنٹ
306
ما فوق الاسباب طے الارض
دیوبندی تبلیغی جماعت کے شیخ الحدیث زکریا کاندھلوی اپنے خواجہ مودود چشتی کے متعلق لکھتے ہیں:
’’آپ کو طے الارض بھی حاصل تھا۔چنانچہ جب طواف کو دل چاہتا تھا ہوا کے زریعے سے مکہ مکرمہ پہنچ جاتے تھے۔‘‘
[تاریخ مشائخ چشت:ص۱۵۹]
مولوی محمود حسن صاحب نگینوی نے فرمایا:
’’میری خوشدامن صاحبہ جو اپنے والد کے ہمراہ مکہ معظمہ میں بارہ سال تک مقیم رہیں ۔۔۔۔۔انہوں نے مجھ سے فرمایاکہ بیٹا حضرت (گنگوہی) کے بہت شاگرد و مرید ہیں مگر کسی نے حضرت کو نہیں پہچاناجن ایام میں میرا قیام مکہ معظمہ میں تھا روزانہ میں نے صبح کی نماز حضرت کو حرم شریف میں پڑھتے دیکھا ہے اور لوگوں سے سنا بھی ہے کہ یہ حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی ہیں گنگوہ سے تشریف لایا کرتے ہیں۔‘‘
[ تذکرۃ الرشید:ج۲ ص ۲۱۲]
یہ بھی غنیمت ہے کہ یہ دیوبندی بزرگ و اکابرین جب دل چاہتاخود مکہ مکرمہ پہنچ جاتے ورنہ ان کے ہاں تو ایسے بزرگ بھی رہے ہیں جن کی زیارت کو خود کعبہ آ جا تا تھا۔
چنانچہ زکریا کاندھلوی صاحب لکھتے ہیں:
’’بعض لوگ تو ایسے ہوتے ہیں کہ خود کعبہ ان کی زیارت کو جاتا ہے۔‘‘
[فضائل حج:ص ۱۰۵]
انا للہ و انا علیہ راجعون۔
 

ناصر رانا

رکن مکتبہ محدث
شمولیت
مئی 09، 2011
پیغامات
1,171
ری ایکشن اسکور
5,454
پوائنٹ
306
بارش برسانے کا دیوبندی طریقہ
زکریا کاندھلوی تبلیغی دیوبندی اپنے میانجیونور محمد کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’ایک مرتبہ بارش کی سخت ضرورت تھی چند حضرات حضرت میانجیو کیخدمت میں بغرض دعا حاضر ہوئے ،حضرت اس وقت گنا چوس رہے تھے۔ جب انہوں نے حضرت سے بارش نہ ہونے کی شکایت اور دعا کی درخواست کی۔ان آنیوالوں میں سے جو صاحب حضرت سے انتہائی بے تکلف تھے آپ نے ان سے فرمایا کہ اگر تم میرے چوسے ہوئے یہ چھلکے چوس لو تو انشاء اللہ بارش ہو جائیگی ۔۔۔۔ان صاحب نے حضرت کے چوسے ہوئے چھلکوں کو جوں ہی چوسا فوراً ابر رحمت اٹھا اور خوب زور شور سے بارش ہوئی۔‘‘
[تاریخ مشائخ چشت: ص ۲۳۷]
 

ناصر رانا

رکن مکتبہ محدث
شمولیت
مئی 09، 2011
پیغامات
1,171
ری ایکشن اسکور
5,454
پوائنٹ
306
مرید کی قبر میں پیر کی حاضری وسفارش
زکریا کاندھلوی تبلیغی دیوبندی لکھتے ہیں:
’’کسی جرم میں صاحب قبر کے پاس عذاب کے فرشتے آئے ۔ تو حضرت شیخ خواجہ عثمان ہارونی بھی تشریف لائے اور عرض کیا کہ میرے سے تعلق رکھنے والوں میں ہے ۔حضرت کی سفارش سے اس کا عذاب ملتوی ہو گیا۔‘‘
[تاریخ مشائخ چشت:ص۱۶۵]
انا للہ و انا الیہ راجعون۔یہ ہیں ان حضرات کے عقائد جو فضائل کے نام پر دین پھیلانے کے دعویدار ہیں۔
 

ناصر رانا

رکن مکتبہ محدث
شمولیت
مئی 09، 2011
پیغامات
1,171
ری ایکشن اسکور
5,454
پوائنٹ
306
ایک ہی وقت میں کئی جگہ پر حاضری
دیوبندی علماء و اکابرین کے اعلیٰ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی صاحب فرماتے ہیں:
’’مَیں نے دہلی میں ایک ابدال کو دیکھا تھا ایک آن واحد میں مختلف مقامات پر دیکھا جاتا تھا۔‘‘
[ امداد المشتاق: ص ۹۸]
 

ناصر رانا

رکن مکتبہ محدث
شمولیت
مئی 09، 2011
پیغامات
1,171
ری ایکشن اسکور
5,454
پوائنٹ
306
بوقت میلاد نبیﷺ کی حاضری
حاجی امداد اللہ مہاجر مکی صاحب نے فرمایا:
’’ہمارے علماء مولد شریف میں بہت تنازع کرتے ہیں تاہم علماء جواز کی طرف بھی گئے ہیں جب صورت جواز کی موجود ہے پھر کیوں ایسا تشدد کرتے ہیں اور ہمارے واسطے اتباع حرمین کافی ہے۔ البتہ وقت قیام کے اعتقاد تولد کا نہ کرنا چاہیے اگر احتمال تشریف آوری کا کیا جائے تو مضائقہ نہیں کیونکہ عالم خلق مقید بزمان و مکان ہے لیکن عالم امر دونوں سے پاک ہے پس قدم رنجہ فرمانا ذات بابرکاتہ کا بعید نہیں۔‘‘
[ امداد المشتاق: ص ۵۸]
دیوبندی حضرات کے اعلیٰ حضرت کے اس قول کا لب لباب یہ ہے کہ:
۱) میلاد کے مسئلے پر جو علماء بہت سختی سے روکتے ہیں یہ صحیح نہیں کہ کچھ علماء جواز کی طرف بھی گئے ہیں۔
۲) قیام میلاد کے وقت یہ عقیدہ تو نہیں ہونا چاہئے کہ نبیﷺ تشریف فرما ہیں۔ ہاں اگر صرف یہ احتمال رکھا جائے کہ آپﷺ تشریف لا سکتے ہیں تو کچھ مضائقہ نہیںکیونکہ آپﷺ کی ذات برکات کا تشریف لے آنا کچھ بعیدبھی نہیں۔
 

ناصر رانا

رکن مکتبہ محدث
شمولیت
مئی 09، 2011
پیغامات
1,171
ری ایکشن اسکور
5,454
پوائنٹ
306
رسول اﷲﷺ اور سیدنا علی ؓ کو’’ مشکل کشا‘‘ ماننا
دیوبندی علماء و اکابرین کے پیر و مرشد حاجی امداد اﷲ مہاجر مکی فرماتے ہیں:
’’یا رسول کبریا فریاد ہے یا محمد مصطفیٰ فریاد ہے آپ کی امداد ہو میرا یا نبی حال ابتر ہوا فریاد ہے
سخت مشکل میں پھنسا ہوں آج کل اے میرے مشکل کشا فریاد ہے ‘ ‘
[کلیاتِ امدادیہ : ص ۹۰۔۹۱]
اس سے معلوم ہوا کہ ان کے نزدیک بریلویوں کی طرح رسول اﷲ ﷺ ’’مشکل کشا ‘‘ہیں۔

ایک اور جگہ یہی حاجی صاحب فرماتے ہیں:
’’ دور کر دے حجاب ِجہل و غفلت میرے رب کھولدے دل میں درِ علم حقیقت میرے اب
ہادی عالم علی مشکل کشا کے واسطے ‘‘
[کلیاتِ امدادیہ : ص ۱۰۳]
اس سے معلوم ہوا کہ ان کے نزدیک بریلوی اور شیعہ حضرات کی طرح سیدنا علی ؓ بھی ’’ مشکل کشا‘‘ ہیں۔یہاں یہ بھی یاد رہے کہ خود دیوبندی حضرات کے نزدیک بھی ’’مشکل کشا ‘‘کا مطلب’’الٰہ‘‘ ہوتا ہے۔چنانچہ سرفراز خان صفدر دیوبندی لکھتے ہیں:
’’الٰہ کا معنی فریاد رس ، حاجت روا اور مشکل کشا بھی ہے۔‘‘​
[دل کا سرور: ص ۶۲]​
دیوبندیوں کی اس اپنی تشریح سے ثابت ہو ا کہ دیوبندیوں کے اکبر الاکا برین نے یہاں نبیﷺ اور سیدنا علیؓ کو مشکل کشا قرار دے کر اپنا الٰہ بنا رکھا ہے۔(استغفر اللہ)اور پھر نبی ﷺ اور سیدنا علی ؓ پر ہی کیا مخصوص ،ان کے نزدیک تو شیخ عبدالقادر جیلانی بھی الوہیت کے درجے پر پہنچ جاتے تھے۔
 
Top