• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

دیوبندیت اپنی کتابوں کے آئینہ میں، (یونیکوڈ )

ناصر رانا

رکن مکتبہ محدث
شمولیت
مئی 09، 2011
پیغامات
1,171
ری ایکشن اسکور
5,454
پوائنٹ
306
شیخ عبدالقادر جیلانی مرتبہ الوہیت پر(معاذ اللہ)
چنانچہ اکابرین ِ دیوبند کے شیخ المشائخ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی نے ایک واقعہ کی وضاحت میں فرمایا:
’’معلوم ہوتا ہے کہ حضرت غوث(شیخ عبدالقادر جیلانی) اس وقت مرتبہ الوہیت میں تھے۔‘‘
[شمائم امدادیہ: ص۴۳]
استغفر اللہ، معاذ اللہ۔
 

ناصر رانا

رکن مکتبہ محدث
شمولیت
مئی 09، 2011
پیغامات
1,171
ری ایکشن اسکور
5,454
پوائنٹ
306
دنیا و آخرت کا سہارا،پیر و مرشد
حاجی امداد اللہ مہاجر مکی نے اپنے پیر و مرشد میانجی نور محمدجھنجھانوی کی مدح میںکچھ اشعار کہے تھے ان میں سے چند اشعار بیان کرتے ہوئے دیوبندیوں کے حکیم الامت اشرف علی تھانوی صاحب لکھتے ہیں:
’’اے شہ نو ر ِ محمد وقت ہے امداد کا
آسر ا دنیا میں ہے ا ز بس تمھاری ذات کا
تم سوا اوروں سے ہرگز نہیں ہے التجا
بلکہ دن محشر کے بھی جس وقت قاضی ہو خدا
آپ کا دامن پکڑ کر یہ کہوں گا برملا
اے شہ نو ر ِ محمد وقت ہے امداد کا‘‘
[امداد المشتاق : ص ۱۲۲]​
اپنے بزرگوں کو دنیا و آخرت میں سہارا و مدد گار سمجھ کر پکارنے والے اورروزِ قیامت جب انبیاء کرام بھی اللہ کے سامنے سفارش کے لیئے تیار نہ ہوں گے، اپنے پیر کے دامن کو تھام کر امداد کی دہائیاںدینے والے یہ حضرات اکابرین دیوبندہیں۔
 

ناصر رانا

رکن مکتبہ محدث
شمولیت
مئی 09، 2011
پیغامات
1,171
ری ایکشن اسکور
5,454
پوائنٹ
306
پیر کی قبرکی زیارت گویا دیدارِ خدا(نعوذ باللہ)
حاجی امداد اللہ مہاجر مکی نے اپنے پیر و مرشد میانجی نور محمد کی قبر کے سرہانے چند اشعار کا ایک کتبہ نصب کروایا۔مشہور تبلیغی دیوبندی شیخ الحدیث محمد زکریا کاندھلوی ان اشعار کو بیان کرتے ہوئے ایک جگہ لکھتے ہیں:
’’جس کو ہوئے شوق دیدارِ خدا ان کے مرقد کی زیارت کو وہ جا
یعنی پیر و مرشد مولا مرے حضرت نو ر محمد نیک پے‘‘
[تاریخ مشائخ چشت: ص ۲۳۵]
گویا ان حضرات کے نزدیک اگر کسی کو خدا کی زیارت کا شوق ہو تو چاہیئے کہ حاجی امدادا للہ مہاجر مکی کے پیر و مرشد میانجی نور محمدکی قبر کی زیارت کر لے ،نعوذ باللہ، استغفر اللہ ثم استغفر اللہ۔
 

ناصر رانا

رکن مکتبہ محدث
شمولیت
مئی 09، 2011
پیغامات
1,171
ری ایکشن اسکور
5,454
پوائنٹ
306
اکابرین ِدیوبندکے حیا سوز واقعات و ملفوظات​
۱)دیوبندیوں کے حکیم الامت اشرف علی تھانوی اپنے ایک حیدرآبادی ماموں کا قصہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’ اس حفاظت شریعت کا ایک واقعہ ان ہی ماموں صاحب کا اور یاد آیا۔۔۔۔ماموں صاحب بولے کہ میں بالکل ننگا ہو کر بازار میں ہو کر نکلوں اس طرح کہ ایک شخص تو آگے سے میرے عضو تناسل کو پکڑ کر کھینچے اور دوسرا پیچھے سے انگلی کرے ساتھ میں لڑکوں کی فوج ہو اور وہ یہ شور مچاتے جائیں بھڑوا ہے رے بھڑوا بھڑوا ہے رے بھڑوا ۔۔۔۔‘‘
[ملفوظاتِ حکیم الامت:ج۹ص۲۱۲]​

۲) تھانوی صاحب نے ایک حافظ جی کا قصہ سناتے ہوئے فرمایا:
’’شاگردوں نے کہا حافظ جی نکاح میں بڑا مزہ ہے۔ حافظ جی نے کوشش کر کے ایک عورت سے نکاح کر لیا شب کو حافظ جی پہنچے اور روٹی لگا لگا کر کھاتے رہے بھلا کیا خاک مزا آتا صبح کو خفا ہوتے ہوئے آئے کہ سُسرے کہتے تھے کہ نکاح میں بڑا مزا ہے ہمیں تو کچھ بھی مزا نہ آیا ۔لڑکے بڑے شریر ہوتے ہیں کہنے لگے اجی حافظ جی یوں مزا نہیں آیا کرتا مارا کرتے ہیں تب مزا آتا ہے۔۔۔۔مارنے کے یہ معنی ہیں اسکے موافق عمل کیا تب حافظ جی کو معلوم ہوا کہ واقعی مزہ ہے۔‘‘
[ملفوظاتِ حکیم الامت:ج۱ص۳۴۷]

۳)عاشق الٰہی میرٹھی دیوبندی اپنے امامِ ربانی رشید احمد گنگوہی صاحب کی نادر تعلیم و تربیت کا نمونہ ر وایت کرتے ہیں:
’’ایکبار بھرے مجمع میں حضرت (رشید احمد گنگوہی) کی کسی تقریر پر ایک نو عمر دیہاتی بے تکلف پوچھ بیٹھا کہ حضرت جی عورت کی شرمگاہ کیسی ہوتی ہے؟ اﷲ ری تعلیم سب حاضرین نے گردنیں نیچے جھکا لیں مگر آپ مطلق چیں بہ جبیں نہ ہوئے بلکہ بیساختہ فرمایا جیسے گیہوں(گندم) کا دانہ۔‘‘
[تزکرۃ الرشید:ج۲ص ۱۰۰]

۴)خواجہ عزیز الحسن صاحب نے ایک دفعہ نہایت شرماتے ہوئے اپنے پیر و مرشد اشرف علی تھانوی صاحب سے فرمایا:
’’ میرے دل میں بار بار یہ خیال آتا ہے کہ کاش میں عورت ہوتا حضور کے نکاح میں۔ اس اظہارِ محبت پر حضرت والا(تھانوی صاحب) غایت درجہ مسرور ہو کر بے اختیار ہنسنے لگے اور یہ فرماتے ہوئے مسجد کے اندر تشریف لے گئے (کہ) ’’یہ آپ کی محبت ہے ثواب ملے گا ۔ثواب ملے گا ۔ انشاء اﷲ تعالیٰ۔‘‘
[ اشرف السوانح :ج۲ ص۶۴]


۵) یہی دیوبندی حکیم الامت ایک اور جگہ اپنے حضرت مولانا محمد یعقوب کے حوالے سے گوبر فشانی کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’عوام کے عقیدہ کی بالکل ایسی حالت ہے کہ جیسے گدہے کا عضو مخصوص بڑھے تو بڑھتا ہی چلا جائے اور جب غائب ہو تو بالکل پتا ہی نہیں۔‘‘
[ملفوظاتِ حکیم الامت:ج۳ص۲۹۲]

۶)رشید احمد گنگوہی صاحب نے ارشاد فرمایا:
’’ میں نے ایکبار خواب دیکھا تھا کہ مولوی محمد قاسم(نانوتوی) صاحب عروس کی صورت میں ہیں اور میرا ان کے ساتھ نکاح ہوا ہے سو جس طرح زن و شوہر میں ایک کو دوسرے سے فائدہ پہنچتا ہے اسی طرح مجھے ان سے اور انہیں مجھ سے فائدہ پہنچاہے۔‘‘
[تزکرۃ الرشید:ج۲ص ۲۸۹]​
ہو سکتا ہے کوئی یہ اعتراض کر ے کہ یہ تو خواب کا واقعہ ہے ۔حالانکہ گنگوہی صاحب کا اس خواب کواستدلالی صورت میں بر سرِ عام بیان کرنا ہمیں بھی اتنی اجازت تو دیتا ہے کہ ہم بھی اس نیک خواب کو دوسروں کے سامنے پیش کر سکیں۔نیزضروری ہے کہ ہم اس خواب کی کچھ عملی تعبیراور نمونہ بھی آپ کے سامنے رکھ دیںتاکہ آلِ دیوبند کے لیئے سند رہے اور بوقتِ ضرورت کام آئے۔

۷)دیوبندیوںکی مرتب شدہ کتاب ’’ارواحِ ثلاثہ ‘‘میں لکھا ہے:
’’ ایک دفعہ گنگوہ کی خانقاہ میں مجمع تھا ۔ حضرت گنگوہی اور حضرت نانوتوی کے مرید و شاگرد سب جمع تھے۔ اور یہ دونوں حضرات بھی وہیں مجمع میں تشریف فرما تھے۔ کہ حضرت گنگوہی نے حضرت نانوتوی سے محبت آمیز لہجہ میں فرمایا کہ یہاں ذرا لیٹ جائو۔ حضرت نانوتوی کچھ شرما گئے۔ مگر حضرت (گنگوہی) نے پھر فرمایا تو مولانا (نانوتوی)بہت ادب کے ساتھ چت لیٹ گئے۔ حضرت (گنگوہی)بھی اسی چارپائی پر لیٹ گئے اور مولانا (نانوتوی)کی طرف کروٹ لے کر اپنا ہاتھ ان کے سینے پر رکھ دیاجیسے کوئی عاشق صادق اپنے قلب کی تسکین کرتا ہے۔ مولانا (نانوتوی) ہر چند فرماتے کہ میاں کیا کر رہے ہو یہ لوگ کیا کہیں گے۔ حضرت (گنگوہی) نے فرمایا کہ لوگ کہیں گے کہنے دو۔‘‘
[ارواحِ ثلاثہ: ص ۲۳۳۔ ۲۳۲]
عشق معشوقی کا یہ کھیل بھرے مجمع کے سامنے کھیلا گیا تھا،جس پر نانوتوی صاحب بار بار شرما جاتے تھے اور لوگوں کی موجودگی کا احساس بھی گنگوہی صاحب کو دلاتے تھے۔ مگر عشق تو اندھا ہوتا ہے اور گنگوہی صاحب نے اس مقولے کو صحیح ثابت کرنے کی ٹھان لی تھی۔یہ سب چونکہ لوگوں کے سامنے کی کاروائی ہے اس لیئے ہم نے بھی بیان کر دی ہے۔ اب خلوت و تنہائی میں کیا کیا ہوتا تھا؟ اس کے متعلق ہم کچھ نہیں کہہ سکتے۔لہٰذا ہم نے صرف اسی بات کو بیان کیا ہے جو سب کے سامنے ہوئی اور جس کے بیان کی اجازت خود گنگوہی صاحب نے دے رکھی ہے کہ لوگ کہیں گے تو کہنے دو۔
 

ناصر رانا

رکن مکتبہ محدث
شمولیت
مئی 09، 2011
پیغامات
1,171
ری ایکشن اسکور
5,454
پوائنٹ
306
عقیدہ وحدت الوجود اور اکابرین دیوبند
لغت کی ایک مشہور کتاب میں ’’وحدت الوجود‘‘ کے بارے میں لکھا ہے:
’’ (صوفیوں کی اصطلاح) تمام موجودات کو صرف اعتباری اور فرضی ماننا۔ اصل میں تمام چیزیں وجود خدا ہی ہیں جیسے کہ پانی کہ وہی بلبلہ ہے وہی لہر اور وہی سمندر، وحدہ لا شریک خدا ایک ہے اس کا کوئی شریک نہیں۔‘‘
[ جامع نسیم اللغات: ص ۱۲۱۵]
لغت کی ایک اور کتاب میں لکھا ہے:
’’تمام موجودات کو اللہ کا وجود خیال کرنا ۔ اور وجود ماسویٰ کو محض اعتباری سمجھناجیسے قطرہ،حباب ،موج اور قعر وغیرہ سب کو پانی معلوم کرنا۔‘‘
[ حسن اللغات فارسی اردو: ص ۹۴۱]​
وارث سر ہندی کہتے ہیں:
’’صوفیوں کی اصطلاح میں تمام موجودات کو خدا تعالیٰ کا وجود ماننا اور ما سوا کے وجود کو محض اعتباری سمجھنا۔‘‘
[علمی اردو لغات:ص۱۵۵۱]
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ ؒ فرماتے ہیں:
’’ اور اتحاد مطلق اسے کہتے ہیں جو وحدت الوجود والوں کا قول ہے، جو سمجھتے ہیں کہ مخلوق کا وجود عین خالق (یعنی اﷲ) کا وجود ہے۔‘‘
ان تمام تعریفات سے معلوم ہوا کہ صوفیوں کے نزدیک یہ عقیدہ کہ اصل میں جتنی چیزیں ہیں بشمول بندوں کے اللہ ہی کا وجود ہیں،وحدت الوجود کہلاتا ہے۔ یعنی ان لوگوں کے نزدیک اصل میں بندہ خدا اور خدا بندہ ہے ،فرق محض اعتباری اور ظاہری ہے ۔اس تمہید کے بعد عرض ہے کہ علماء و اکابرین دیوبند بھی اسی کفریہ عقیدے وحدت الوجود کے قائل ہیں ۔

چنانچہ اشرف علی تھانوی اپنے حاجی امداد اللہ مہاجر مکی کے متعلق لکھتے ہیں:
’’ ایک دن ایک شخص نے مسئلہ وحدت الوجود کا سوال کیا (تو حاجی صاحب نے) فرمایاکہ یہ مسئلہ حق و صحیح مطابق للواقع ہے۔‘‘
[امداد المشتاق: ص ۴۳، شمائم امدادیہ: ص ۳۰]​
اس سے معلوم ہوا کہ دیوبندی اکابرین کے مطابق وحدت الوجود کا عقیدہ بالکل حق و صحیح ہے ۔اب اس کے بعد وہ حوالہ جات پیش خدمت ہیں جن سے یہ بات ثابت ہو جائے گی کہ دیوبندی بھی وحدت الوجود کے اسی عقیدے کو حق اور صحیح جانتے ہیں جس کے مطابق خالق و مخلوق میں،عابد و معبود میں اورخدا و بندے میںکوئی فرق نہیں۔


۱)حاجی امداد اللہ مہاجر مکی صاحب تصوف و سلوک کی منزلیں طے کرنے والوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’غرض سالک کو اپنے افعال وصفات و وجود کو جناب باری ِکے صفات افعال اور وجود سمجھنا چاہیئے۔۔۔۔۔‘‘
[ کلیاتِ امدادیہ: ص ۳۲]​
مزید فرماتے ہیں:
’’اگر یہ اس کے دل میں ٹھہر جائے گا ۔اور قرار پکڑ لے گا تو اس کا ارادہ اور کام خدا کا ارادہ اور کام ہو جائے گا۔۔۔۔۔دیکھناسننا غرض اس کے تمام افعال خدا ہی سے ہوں گے اور تمام چیزوں میں خدا کے وجود کو پائے گا۔‘‘
[ کلیاتِ امدادیہ: ص ۳۲]​
اپنے وجود کو اللہ کا وجود سمجھنا اور تمام چیزوں میں خدا کا وجود ماننا جیسے نظریات اسی وحدت الوجودی عقیدے کے برگ و بار ہیں جس کو دیوبندی اکابرین صحیح سمجھ کر پھیلاتے رہے ہیں۔

۲)حاجی امداد اللہ مہاجر مکی لکھتے ہیں:
’’ اور اس کے بعد اس کو ہو ‘ ہو‘ کے ذکر میں اسقدر منہمک ہو جا نا چاہیئے کہ خود مذکور یعنی (اللہ) ہو جائے اور فنا در فنا کے یہی معنی ہیںاس حالت کے حاصل ہو جانے پر وہ سراپر نور ہو جائے گا۔‘‘
[ کلیاتِ امدادیہ: ص ۱۸]​
بریکٹ میں لفظ (اللہ) خود اسی کتاب ’’کلیاتِ امدادیہ‘‘ میں لکھا ہوا ہے۔اس سے معلوم ہوا کہ کثرت ذکر کی وجہ سے ان حضرات کے نزدیک ذکر کرنے والا خود اللہ بن جاتا ہے۔نعوذ باللہ ،استغفر اللہ۔

۳)آلِ دیوبند کے پیر ومرشد حاجی امداد اللہ مہاجر مکی مزید فرماتے ہیں:
’’اس مرتبہ میں خدا کا خلیفہ ہو کر لوگوں کو اس تک پہونچاتا ہے اور ظاہر میں بندہ اور باطن میں خدا ہو جاتا ہے اس مقام کو برزخ البرازخ کہتے ہیں اور اس میں وجوب و امکان مساوی ہیں کسی کو کسی پر غلبہ نہیں۔‘‘
[ کلیاتِ امدادیہ: ص ۳۵۔۳۶]
ظاہر میں بندہ اور باطن میں خداکے اسی کفریہ و شرکیہ وحدت الوجودی عقیدے کواکابرین دیوبند حق سمجھتے رہے ہیں۔

۴)دیوبندیوں کے امامِ ربانی رشید احمد گنگوہی نے اپنے پیر حاجی اداد اللہ مہاجر مکی صاحب کو ایک خط لکھا جس کے آخر میں اللہ تعالیٰ کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں:
’’ یا اللہ معاف فرماناکہ حضرت کے ارشاد سے تحریر ہوا ہے۔جھوٹاہوں، کچھ نہیں ہوں۔ تیرا ہی ظل ہے۔ تیرا ہی وجود ہے مَیں کیاہوں،کچھ نہیں ہوں۔ اور وہ جو مَیں ہوں وہ تُو ہے اور مَیں اور تُوخود شرک در شرک ہے۔ استغفر اللہ۔۔۔۔‘‘
[فضائلِ صدقات،حصہ دوم:ص ۵۵۸،مکاتیب رشیدیہ:ص۱۰]​
مَیں(گنگوہی) اور تُو(اللہ) کاایک ہونا، وہی کفریہ اور شرکیہ عقیدہ ہے جسے وحدت الوجود کہا جاتا ہے اور جس میں مَیں اور تُو کا الگ سمجھا جانا شرک در شرک قرار دیا جاتا ہے۔ نعوذ باللہ۔

۵)خلیل احمد سہارنپوری صاحب نے جب رشید احمد گنگوہی صاحب سے ایک شخص ضامن علی جلال آبادی کے متعلق پوچھا تو گنگوہی صاحب نے مسکرا کر ارشاد فرمایا:
’’ضامن علی جلال آبادی تو توحید میں غرق تھے۔‘‘
[ تذکرۃ الرشید :ج۲ ص ۲۴۲]​
یہ ضامن علی جلال آبادی کس توحید میں غرق تھے؟ اس کے متعلق رشید احمد گنگوہی صاحب خود فرماتے ہیں:
’’ ضامن علی جلال آبادی کی سہارنپور میں بہت رنڈیاں مرید تھیں ایکبار یہ سہارنپور میں کسی رنڈی کے مکان پر ٹھیرے ہوئے تھے سب مریدنیاں اپنے میاںصاحب کی زیارت کیلئے حاضر ہوئیں مگر ایک رنڈی نہیں آئی میاں صاحب بولے کہ فلانی کیوں نہیں آئی رنڈیوں نے جواب دیا’’ میاں صاحب ہم نے اس سے بہیترا کہا کہ چل میاں صاحب کی زیارت کو اس نے کہا میں بہت گناہگار ہوں اور بہت روسیاہ ہوں میاں صاحب کو کیا منہ دکھائوں میں زیارت کے قابل نہیں۔‘‘میاں صاحب نے کہا نہیں جی تم اسے ہمارے پاس ضرور لاناچنانچہ رنڈیاں اسے لیکر آئیں جب وہ سامنے آئی تو میاں صاحب نے پوچھا’’ بی تم کیوں نہیں آئی تھیں؟‘‘ اس نے کہا حضرت روسیاہی کی وجہ سے زیارت کو آتی شرماتی ہوں۔میاں صاحب بولے’’ بی تم شرماتی کیوں ہوکرنے والا کون اور کرانے والا کون وہ تو وہی ہے۔‘‘ رنڈی یہ سن کر آگ ہو گئی اور خفا ہو کر کہا لا حول ولا قوۃ اگر چہ مَیں روسیاہ و گنہگارہوں مگر ایسے پیر کے منہ پرپیشاب بھی نہیں کرتی۔‘‘ میاں صاحب تو شرمندہ ہو کر سرنگوںرہ گئے اور وہ اٹھکر چلدی۔‘‘
[ تذکرۃ الرشید : ج۲ ص ۲۴۲]​
اس طویل عبارت اور قصے سے معلوم ہوا کہ اس خبیث پیر کا عقیدہ یہ تھا کہ زنا کرنے والا اور کرانے والا وہی یعنی خدا ہے،معاذ اللہ ثم معاذ اللہ۔مگر دیوبندیوں کے امام ربانی گنگوہی صاحب کے نزدیک یہ عقیدہ اس کا ہے جو توحید میں غرق تھا۔

۶)کسی شخص نے حاجی امداد اللہ مہاجر مکی سے ان کی لکھی ہوئی کتاب ’’ضیاء القلوب‘‘ کی ایک عبارت سے متعلق سوال کیا:
’’اس مضمون سے معلوم ہوا کہ عابد و معبود میں فرق کرنا شرک ہے۔‘‘
اس کے جواب میں حاجی امداد اللہ مہاجر مکی فرماتے ہیں:
’’کوئی شک نہیں ہے فقیر نے یہ سب ضیاء القلوب میں لکھا ہے۔‘‘
[شمائم امدادیہ:ص۳۴]​

ان صاف اور صریح عبارات سے وہ تمام تاویلات دھری کی دھری رہ جاتی ہیں جو لوگوں کو دھوکہ دینے کے لیئے وحدت الوجود کے کفریہ اور شرکیہ مفہوم پر پردہ ڈالتے ہوئے موجودہ دیوبندی علماء کرتے ہیں۔ اوپر بیان کی گئی عبارات ببانگ دہل اعلان کر رہی ہیں کہ دیوبندی اکابرین کا وحدت الوجود کے اسی عقیدے پر ایمان تھا جس کا مطلب یہ ہے کہ عابد و معبود،خالق و مخلوق اور خداو بندے میں فرق کرنا شرک ہے۔

سرفراز خان صفدر دیوبندی ایک بریلوی شاعرمحمد یار فریدی کے وحدت الوجودی اشعار کو پیش کرنے سے پیشترلکھتے ہیں:
’’معاذ اللہ تعالیٰ خدا اور رسول کو۔رسول اور پیر کو حتیٰ کہ خدا اور پیر کو گڈ مڈ کرنے پر ادھار کھائے بیٹھے ہیں۔‘‘​
[گلدستہ توحید: ص ۷۱]​
وحدت الوجودپر مبنی کفریہ اشعار کو پیش کرتے ہوئے سرفراز خان صفدر دیوبندی مزید لکھتے ہیں:
’معاذ اللہ یہ سب کچھ کہہ کر بھی یہ لوگ نہ صرف یہ کہ اپنے آپ کو مسلمان کہلاتے ہیں بلکہ مسلمانوں کے پیشوا بنے ہوئے ہیںاور اہل حق ان کے نزدیک گستاخ ہیں۔اللہ تعالیٰ بچائے اور محفوظ رکھے ان کے باطل نظریات سے اور اہل حق کا ساتھ نصیب فرمائے آمین۔‘‘
[گلدستہ توحید: ص ۷۲]​
اگر دنیا سے انصاف ختم نہیں ہو گیا تو خود فیصلہ کیجئے کہ جو لوگ خدا اور رسول یا پیر اور خدا کو گڈ مڈ کرنے پر ادھار کھائے بیٹھے ہیں انہیں مسلمان کہلانے کا حق نہیں اور یقینا نہیں تو جو علماء و اکابرین خود کے وجود کو خدا کا وجود سمجھیں، خدا اور اپنے میں فرق کو شرک در شرک قرار دیں ، خالق و مخلوق، عابد و معبود کوایک سمجھیں ،ظاہر میں بندہ اور باطن میں خدا باور کروائیںتوان کا حکم بھی یہی ہونا چاہیئے یا نہیں۔۔۔؟؟؟ کیا ایسوں کو بھی مسلمانوں کا پیشوا بننے کاکوئی حق حاصل ہے۔۔۔؟؟؟
بے شک ہمیں بھی یہی دعا کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ بچائے اور محفوظ رکھے ایسے باطل نظریات سے اورقرآن و سنت کے مطابق سلف صالحین کے راستے پر چلنے کی توفیق عنایت فرمائے جو خالص توحید اور سنت پر چلنے والے تھے، آمین یا رب العالمین۔
 

ناصر رانا

رکن مکتبہ محدث
شمولیت
مئی 09، 2011
پیغامات
1,171
ری ایکشن اسکور
5,454
پوائنٹ
306
علماء و اکابرین دیوبنداورتبلیغی جماعت
تبلیغی جماعت اسی فرقہ کی ایک شاخ کا نام ہے جو دیوبندی جماعت کے نام سے معروف ہے بلکہ اس تبلیغی جماعت کے بنانے کا مقصد بھی صرف یہ تھا کہ دیوبندی علماء و اکا برین کی ان کفریہ و شرکیہ اور من گھڑت تعلیمات کو فضائل اور تبلیغ کے نام پر پھیلایا جائے جس کو تفصیل سے پہلے پیش کر دیا گیا ہے۔اس ضمن میں چند حوالہ جات پیشِ خدمت ہیں:

۱)رشید احمد گنگوہی صاحب کے متعلق تبلیغی جماعت کے بانی مولانا محمد الیاس فرماتے ہیں:
’’ حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ اس دور کے قطب ارشاد اور مجدد تھے ، لیکن مجدد کے لیئے ضروری نہیں ہے کہ سارا تجدیدی کام اسی کے ہاتھ پر ظاہر ہوبلکہ اس کے آدمیوں کے ذریعہ جو کام ہو وہ سب بھی بالواسطہ اسی کا ہے۔۔۔۔‘‘
[ملفوظات حضرت مولانا محمد الیاس: ص ۱۲۲۔۱۲۳]
۲)اشرف علی تھانوی صاحب کے متعلق تبلیغی جماعت کے بانی مولانامحمد الیاس نے فرمایا:
’’حضرت مولانا تھانوی (رحمۃ اللہ علیہ) نے بہت بڑا کام کیا ہے،بس میرا دل یہ چاہتا ہے کہ تعلیم توان کی ہو اور طریقہ تبلیغ میرا ہو کہ اس طرح ان کی تعلیم عام ہو جائے گی۔‘‘
[ملفوظات حضرت مولانا محمد الیاس: ص ۵۸]
۳)ایک دوسری جگہ اپنے حکیم الامت اشرف علی تھانوی کے متعلق بانی تبلیغی جماعت مولانامحمد الیاس نے فرمایا:
’’ حضرت (تھانوی) رحمۃ اللہ علیہ سے تعلق بڑھانے ،حضرت کی برکات سے استفادہ کرنے اور ساتھ ہی حضرت کے ترقی درجات کی کوششوں میں حصہ لینے اور حضرت کی روح کی مسرتوں کو بڑھانے کا سب سے اعلیٰ اور محکم زریعہ یہ ہے کہ حضرت کی تعلیمات ِ حقہ اور ہدایات پر استقامت کی جائے اور ان کو زیادہ سے زیادہ پھیلانے کی کوشش کی جائے۔‘‘
[ملفوظات حضرت مولانا محمد الیاس: ص ۶۹]​
یہ حوالہ جات اس بات کو ثابت کرنے کے لیئے کافی ہیں کہ تبلیغی جماعت کی اصلیت صرف یہ ہے کہ دیوبندی علماء و اکابرین کی تعلیمات کو زیادہ سے زیادہ پھیلایا جائے اور دیوبندی علماء و اکابرین کی تعلیمات جن توہین آمیز عبارات، غلو آمیز نظریات اور کفریہ و شرکیہ عقائدسے بھری پڑی ہیں اس کے کافی ثبوت پیش کیئے جا چکے ہیں۔
نیز اس ضمن میں پیچھے کافی حوالے خود تبلیغی جماعت کے شیخ الحدیث زکریا کاندھلوی صاحب کی کتابوں سے بھی پیش کر دیئے گئے ہیں جو ان کے عقائد واضح کرنے کے لیئے کافی ہیں۔
 

ناصر رانا

رکن مکتبہ محدث
شمولیت
مئی 09، 2011
پیغامات
1,171
ری ایکشن اسکور
5,454
پوائنٹ
306
آخری گزارش
آخر میں ایک بار پھر عرض ہے کہ اس تفصیلی مضمون کو لکھنے کا مقصد کسی پر کیچڑ اچھالنا یا خوامخواہ تنقید کرنا ہرگز نہیں بلکہ ان حقائق کو سامنے لانے کا مقصد صرف یہ ہے کہ غلط کو غلط، کفر کو کفر اور شرک کو شرک تسلیم کرتے ہوئے ایسی باطل باتوں سے برا ء ت اور بیزاری کا اظہار کر دیا جائے اور خالص قرآن و حدیث پر مبنی شفاف تعلیمات کو اپنا عقیدہ و منہج بنایا جائے۔علماء و اکابرین کی صریح خلافِ اسلام باتوں کا دفاع کرنا بلکہ الٹا انہیں باطل باتوں کو اسلام باور کروانا انتہائی مذموم اور گمراہ کن رویہ ہے۔اللہ اپنی پناہ میں رکھے اور ہم سب کو کتاب و سنت کا داعی و عامل بنا دے، آمین یا رب العالمین۔

’’ اور حج اکبر کے دن اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے لوگوں کو آگاہ کیا جاتا ہے کہ اللہ شرک کرنے والوں سے بیزار ہے اور اس کا رسول بھی۔‘‘ [التوبہ: ۳]

’’یقینا تمھارے لیئے بہترین نمونہ ہے ابراہیم (علیہ السلام) اور ان لوگوں میں جو اس کے ساتھ تھے جب انہوں نے اپنی قوم سے کہا تھا کہ بے شک ہم تم سے اور ان سے بری ہیں جن کی تم اللہ کے سوا پوجتے ہو۔ ہم تم سے منکر ہوئے ، ہمارے اور تمھارے درمیان ہمیشہ کے لیئے دشمنی اور بغض ظاہر ہو گیا۔‘‘ [ الممتحنہ: ۴]
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
جزاک اللہ خیرا ناصر بھائی
اللہ تعالیٰ ان لوگوں کے گندے عقائد سے ہمیں محفوظ رکھے آمین۔
 
Top