عقیدہ وحدت الوجود اور اکابرین دیوبند
لغت کی ایک مشہور کتاب میں ’’وحدت الوجود‘‘ کے بارے میں لکھا ہے:
’’ (صوفیوں کی اصطلاح) تمام موجودات کو صرف اعتباری اور فرضی ماننا۔ اصل میں تمام چیزیں وجود خدا ہی ہیں جیسے کہ پانی کہ وہی بلبلہ ہے وہی لہر اور وہی سمندر، وحدہ لا شریک خدا ایک ہے اس کا کوئی شریک نہیں۔‘‘
[ جامع نسیم اللغات: ص ۱۲۱۵]
لغت کی ایک اور کتاب میں لکھا ہے:
’’تمام موجودات کو اللہ کا وجود خیال کرنا ۔ اور وجود ماسویٰ کو محض اعتباری سمجھناجیسے قطرہ،حباب ،موج اور قعر وغیرہ سب کو پانی معلوم کرنا۔‘‘
[ حسن اللغات فارسی اردو: ص ۹۴۱]
وارث سر ہندی کہتے ہیں:
’’صوفیوں کی اصطلاح میں تمام موجودات کو خدا تعالیٰ کا وجود ماننا اور ما سوا کے وجود کو محض اعتباری سمجھنا۔‘‘
[علمی اردو لغات:ص۱۵۵۱]
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ ؒ فرماتے ہیں:
’’ اور اتحاد مطلق اسے کہتے ہیں جو وحدت الوجود والوں کا قول ہے، جو سمجھتے ہیں کہ مخلوق کا وجود عین خالق (یعنی اﷲ) کا وجود ہے۔‘‘
ان تمام تعریفات سے معلوم ہوا کہ صوفیوں کے نزدیک یہ عقیدہ کہ اصل میں جتنی چیزیں ہیں بشمول بندوں کے اللہ ہی کا وجود ہیں،وحدت الوجود کہلاتا ہے۔ یعنی ان لوگوں کے نزدیک اصل میں بندہ خدا اور خدا بندہ ہے ،فرق محض اعتباری اور ظاہری ہے ۔اس تمہید کے بعد عرض ہے کہ علماء و اکابرین دیوبند بھی اسی کفریہ عقیدے وحدت الوجود کے قائل ہیں ۔
چنانچہ اشرف علی تھانوی اپنے حاجی امداد اللہ مہاجر مکی کے متعلق لکھتے ہیں:
’’ ایک دن ایک شخص نے مسئلہ وحدت الوجود کا سوال کیا (تو حاجی صاحب نے) فرمایاکہ یہ مسئلہ حق و صحیح مطابق للواقع ہے۔‘‘
[امداد المشتاق: ص ۴۳، شمائم امدادیہ: ص ۳۰]
اس سے معلوم ہوا کہ دیوبندی اکابرین کے مطابق وحدت الوجود کا عقیدہ بالکل حق و صحیح ہے ۔اب اس کے بعد وہ حوالہ جات پیش خدمت ہیں جن سے یہ بات ثابت ہو جائے گی کہ دیوبندی بھی وحدت الوجود کے اسی عقیدے کو حق اور صحیح جانتے ہیں جس کے مطابق خالق و مخلوق میں،عابد و معبود میں اورخدا و بندے میںکوئی فرق نہیں۔
۱)حاجی امداد اللہ مہاجر مکی صاحب تصوف و سلوک کی منزلیں طے کرنے والوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’غرض سالک کو اپنے افعال وصفات و وجود کو جناب باری ِکے صفات افعال اور وجود سمجھنا چاہیئے۔۔۔۔۔‘‘
[ کلیاتِ امدادیہ: ص ۳۲]
مزید فرماتے ہیں:
’’اگر یہ اس کے دل میں ٹھہر جائے گا ۔اور قرار پکڑ لے گا تو اس کا ارادہ اور کام خدا کا ارادہ اور کام ہو جائے گا۔۔۔۔۔دیکھناسننا غرض اس کے تمام افعال خدا ہی سے ہوں گے اور تمام چیزوں میں خدا کے وجود کو پائے گا۔‘‘
[ کلیاتِ امدادیہ: ص ۳۲]
اپنے وجود کو اللہ کا وجود سمجھنا اور تمام چیزوں میں خدا کا وجود ماننا جیسے نظریات اسی وحدت الوجودی عقیدے کے برگ و بار ہیں جس کو دیوبندی اکابرین صحیح سمجھ کر پھیلاتے رہے ہیں۔
۲)حاجی امداد اللہ مہاجر مکی لکھتے ہیں:
’’ اور اس کے بعد اس کو ہو ‘ ہو‘ کے ذکر میں اسقدر منہمک ہو جا نا چاہیئے کہ خود مذکور یعنی (اللہ) ہو جائے اور فنا در فنا کے یہی معنی ہیںاس حالت کے حاصل ہو جانے پر وہ سراپر نور ہو جائے گا۔‘‘
[ کلیاتِ امدادیہ: ص ۱۸]
بریکٹ میں لفظ (اللہ) خود اسی کتاب ’’کلیاتِ امدادیہ‘‘ میں لکھا ہوا ہے۔اس سے معلوم ہوا کہ کثرت ذکر کی وجہ سے ان حضرات کے نزدیک ذکر کرنے والا خود اللہ بن جاتا ہے۔نعوذ باللہ ،استغفر اللہ۔
۳)آلِ دیوبند کے پیر ومرشد حاجی امداد اللہ مہاجر مکی مزید فرماتے ہیں:
’’اس مرتبہ میں خدا کا خلیفہ ہو کر لوگوں کو اس تک پہونچاتا ہے اور ظاہر میں بندہ اور باطن میں خدا ہو جاتا ہے اس مقام کو برزخ البرازخ کہتے ہیں اور اس میں وجوب و امکان مساوی ہیں کسی کو کسی پر غلبہ نہیں۔‘‘
[ کلیاتِ امدادیہ: ص ۳۵۔۳۶]
ظاہر میں بندہ اور باطن میں خداکے اسی کفریہ و شرکیہ وحدت الوجودی عقیدے کواکابرین دیوبند حق سمجھتے رہے ہیں۔
۴)دیوبندیوں کے امامِ ربانی رشید احمد گنگوہی نے اپنے پیر حاجی اداد اللہ مہاجر مکی صاحب کو ایک خط لکھا جس کے آخر میں اللہ تعالیٰ کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں:
’’ یا اللہ معاف فرماناکہ حضرت کے ارشاد سے تحریر ہوا ہے۔جھوٹاہوں، کچھ نہیں ہوں۔ تیرا ہی ظل ہے۔ تیرا ہی وجود ہے مَیں کیاہوں،کچھ نہیں ہوں۔ اور وہ جو مَیں ہوں وہ تُو ہے اور مَیں اور تُوخود شرک در شرک ہے۔ استغفر اللہ۔۔۔۔‘‘
[فضائلِ صدقات،حصہ دوم:ص ۵۵۸،مکاتیب رشیدیہ:ص۱۰]
مَیں(گنگوہی) اور تُو(اللہ) کاایک ہونا، وہی کفریہ اور شرکیہ عقیدہ ہے جسے وحدت الوجود کہا جاتا ہے اور جس میں مَیں اور تُو کا الگ سمجھا جانا شرک در شرک قرار دیا جاتا ہے۔ نعوذ باللہ۔
۵)خلیل احمد سہارنپوری صاحب نے جب رشید احمد گنگوہی صاحب سے ایک شخص ضامن علی جلال آبادی کے متعلق پوچھا تو گنگوہی صاحب نے مسکرا کر ارشاد فرمایا:
’’ضامن علی جلال آبادی تو توحید میں غرق تھے۔‘‘
[ تذکرۃ الرشید :ج۲ ص ۲۴۲]
یہ ضامن علی جلال آبادی کس توحید میں غرق تھے؟ اس کے متعلق رشید احمد گنگوہی صاحب خود فرماتے ہیں:
’’ ضامن علی جلال آبادی کی سہارنپور میں بہت رنڈیاں مرید تھیں ایکبار یہ سہارنپور میں کسی رنڈی کے مکان پر ٹھیرے ہوئے تھے سب مریدنیاں اپنے میاںصاحب کی زیارت کیلئے حاضر ہوئیں مگر ایک رنڈی نہیں آئی میاں صاحب بولے کہ فلانی کیوں نہیں آئی رنڈیوں نے جواب دیا’’ میاں صاحب ہم نے اس سے بہیترا کہا کہ چل میاں صاحب کی زیارت کو اس نے کہا میں بہت گناہگار ہوں اور بہت روسیاہ ہوں میاں صاحب کو کیا منہ دکھائوں میں زیارت کے قابل نہیں۔‘‘میاں صاحب نے کہا نہیں جی تم اسے ہمارے پاس ضرور لاناچنانچہ رنڈیاں اسے لیکر آئیں جب وہ سامنے آئی تو میاں صاحب نے پوچھا’’ بی تم کیوں نہیں آئی تھیں؟‘‘ اس نے کہا حضرت روسیاہی کی وجہ سے زیارت کو آتی شرماتی ہوں۔میاں صاحب بولے’’ بی تم شرماتی کیوں ہوکرنے والا کون اور کرانے والا کون وہ تو وہی ہے۔‘‘ رنڈی یہ سن کر آگ ہو گئی اور خفا ہو کر کہا لا حول ولا قوۃ اگر چہ مَیں روسیاہ و گنہگارہوں مگر ایسے پیر کے منہ پرپیشاب بھی نہیں کرتی۔‘‘ میاں صاحب تو شرمندہ ہو کر سرنگوںرہ گئے اور وہ اٹھکر چلدی۔‘‘
[ تذکرۃ الرشید : ج۲ ص ۲۴۲]
اس طویل عبارت اور قصے سے معلوم ہوا کہ اس خبیث پیر کا عقیدہ یہ تھا کہ زنا کرنے والا اور کرانے والا وہی یعنی خدا ہے،معاذ اللہ ثم معاذ اللہ۔مگر دیوبندیوں کے امام ربانی گنگوہی صاحب کے نزدیک یہ عقیدہ اس کا ہے جو توحید میں غرق تھا۔
۶)کسی شخص نے حاجی امداد اللہ مہاجر مکی سے ان کی لکھی ہوئی کتاب ’’ضیاء القلوب‘‘ کی ایک عبارت سے متعلق سوال کیا:
’’اس مضمون سے معلوم ہوا کہ عابد و معبود میں فرق کرنا شرک ہے۔‘‘
اس کے جواب میں حاجی امداد اللہ مہاجر مکی فرماتے ہیں:
’’کوئی شک نہیں ہے فقیر نے یہ سب ضیاء القلوب میں لکھا ہے۔‘‘
[شمائم امدادیہ:ص۳۴]
ان صاف اور صریح عبارات سے وہ تمام تاویلات دھری کی دھری رہ جاتی ہیں جو لوگوں کو دھوکہ دینے کے لیئے وحدت الوجود کے کفریہ اور شرکیہ مفہوم پر پردہ ڈالتے ہوئے موجودہ دیوبندی علماء کرتے ہیں۔ اوپر بیان کی گئی عبارات ببانگ دہل اعلان کر رہی ہیں کہ دیوبندی اکابرین کا وحدت الوجود کے اسی عقیدے پر ایمان تھا جس کا مطلب یہ ہے کہ عابد و معبود،خالق و مخلوق اور خداو بندے میں فرق کرنا شرک ہے۔
سرفراز خان صفدر دیوبندی ایک بریلوی شاعرمحمد یار فریدی کے وحدت الوجودی اشعار کو پیش کرنے سے پیشترلکھتے ہیں:
’’معاذ اللہ تعالیٰ خدا اور رسول کو۔رسول اور پیر کو حتیٰ کہ خدا اور پیر کو گڈ مڈ کرنے پر ادھار کھائے بیٹھے ہیں۔‘‘
[گلدستہ توحید: ص ۷۱]
وحدت الوجودپر مبنی کفریہ اشعار کو پیش کرتے ہوئے سرفراز خان صفدر دیوبندی مزید لکھتے ہیں:
’
’معاذ اللہ یہ سب کچھ کہہ کر بھی یہ لوگ نہ صرف یہ کہ اپنے آپ کو مسلمان کہلاتے ہیں بلکہ مسلمانوں کے پیشوا بنے ہوئے ہیںاور اہل حق ان کے نزدیک گستاخ ہیں۔اللہ تعالیٰ بچائے اور محفوظ رکھے ان کے باطل نظریات سے اور اہل حق کا ساتھ نصیب فرمائے آمین۔‘‘
[گلدستہ توحید: ص ۷۲]
اگر دنیا سے انصاف ختم نہیں ہو گیا تو خود فیصلہ کیجئے کہ جو لوگ خدا اور رسول یا پیر اور خدا کو گڈ مڈ کرنے پر ادھار کھائے بیٹھے ہیں انہیں مسلمان کہلانے کا حق نہیں اور یقینا نہیں تو جو علماء و اکابرین خود کے وجود کو خدا کا وجود سمجھیں، خدا اور اپنے میں فرق کو شرک در شرک قرار دیں ، خالق و مخلوق، عابد و معبود کوایک سمجھیں ،ظاہر میں بندہ اور باطن میں خدا باور کروائیںتوان کا حکم بھی یہی ہونا چاہیئے یا نہیں۔۔۔؟؟؟ کیا ایسوں کو بھی مسلمانوں کا پیشوا بننے کاکوئی حق حاصل ہے۔۔۔؟؟؟
بے شک ہمیں بھی یہی دعا کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ بچائے اور محفوظ رکھے ایسے باطل نظریات سے اورقرآن و سنت کے مطابق سلف صالحین کے راستے پر چلنے کی توفیق عنایت فرمائے جو خالص توحید اور سنت پر چلنے والے تھے، آمین یا رب العالمین۔