• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

دیوبندیوں اور اہل حدیث سے ایک اہم سوال

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,497
پوائنٹ
964
اس اتحاد کی بات بھی صرف اسی وقت کی جاسکتی ہے جب اختلاف کرنے والوں کے اختلافات سنگین نوعیت کے نہ ہوں۔ جیسے اہل حدیثوں کے درمیان ایک اختلافی مسئلہ رکوع سے کھڑے ہونےپر ہاتھوں کی کیفیت کا ہے کہ کھلے رکھیں جائیں یا باندھ لئے جائیں۔ اگرچہ وضع الیدین بعد الرکوع والے بڑی شدت سے اس مسئلہ پر عمل پیرا ہیں اور دوسرے بھائیوں کے ساتھ اکثر اس مسئلہ پر زور شور سے بحث ومباحثہ اور اختلاف کرتے ہیں لیکن اسکے باوجود فریقین کے آپس کے برادرانہ تعلقات میں فرق نہیں آتا۔کیونکہ دونوں طرف کے لوگ ہی اپنے مطابق حدیثوں پر عمل کررہے ہوتے ہیں صرف حدیث کو سمجھنے میں فہم کا اختلاف واقع ہوتا ہے لیکن ان میں سےکوئی بھی فریق دوسرے فریق کے دلائل کو جان بوجھ کر نہیں ٹھکراتا۔

اسکے برعکس حنفیوں،دیوبندیوں اور بریلویوں سے اختلافات انتہائی سنگین نوعیت کے ہیں بلکہ عقائد کے باب میں بھی ان سے اختلافات ہی اختلافات ہیں۔اور ہر اختلافی مسئلہ میں انکا مذہبی تعصب انہیں احادیث پر عمل سے باز رکھتا ہے۔ اس لئے ان سے تو برادرانہ تعلقات کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا بلکہ ان سے بغض اور براءت ضروری ہے۔
اوپر امام شافعی رحمہ اللہ کے اقتباس میں جملہ ’’ بھائی بھائی ‘‘کیوجہ سے شاید بات ذرا واضح نہیں ہوسکی ۔
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ فریق مخالف کے حوالے سے حتی الامکان کوشش کر کے ’’ جذبات ‘‘ پر قابو پانے کی ضرورت ہے ۔
لہذا :
1۔ہر غلط کام پر ’’ کفر ‘‘ ’’ شرک ‘‘ ’’ بدعت ‘‘ میں سے کوئی ایک فتوی ضروری نہیں ہوتا ۔
2۔ کسی بھی جماعت پر عمومی حکم لگانا درست نہیں مثلا یہ کہنا کہ ’’ حنفی ‘‘ یا دیوبندی یا بریلوی وغیرہ ایسے ایسے ہیں ۔ کیونکہ ایک جماعت کے اندر سب لوگ ایک طرح کے نہیں ہوتے ۔
3۔ دو جماعتوں کا آپس میں تقابل کرتےہوئے عدل و انصاف کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوٹنا چاہیے ۔ اس بے انصافی کا ایک عام مظہر یہ ہے کہ جب اپنی جماعت یا گروہ کا مسئلہ ہوتا ہے تو بطور مثال علماء کو یا علماء کے متفقہ مسائل کو پیش کیاجاتا ہے ۔ جب مخالف جماعت کی باری آتی ہے توان کے عوام کے رویے یا بعض علماء کے شذوذ کو پیش کیاجاتا ہے ۔
حالانکہ ایسے مواقع پر علماء کا علماء کے ساتھ ۔ عوام کا عوام کے ساتھ ۔ تقابل ہونا چاہیے ۔
4۔ جس طرح ہم مختلف فیہ مسائل کو بڑے شد و مد سے بیان کرتے ہیں اسی طرح کسی دوسری جماعت کے ساتھ متفق علیہ مسائل کے اظہا رکی بھی کوشش کرنی چاہیے ۔
یہ کام ہم سب کی ذمہ داری ہے ۔ صرف ایک جماعت یا گروہ اس پر عمل پیرا ہونا بھی چاہیے تو نہیں ہوسکتا ۔
 
Top