• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

دیوبندیوں اور بریلویوں میں فرق؟

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,011
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
بسمہ اللہ الرحمن الرحیم​
دیوبندیوں اور بریلویوں میں فرق؟

نجانے کیوں بہت سے لوگوں کو یہ تلخ حقیقت ہضم نہیں ہوتی کہ دیوبندی حضرات بھی بعینہ اسی طرح کفریہ اور شرکیہ عقائد رکھتے ہیں جیسے کہ بریلوی یا رافضی۔طالب الرحمن شاہ صاحب حفظہ اللہ کی کتاب دیوبندیت تاریخ و عقائد کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ دیوبندی حضرات عقائد میں بریلویوں کے ہم قدم اور قدم بہ قدم ہیں بلکہ بعض اوقات توکفر و شرک میں بریلویوں سے بھی دو قدم آگے ہیں۔پھر بھی ایک گروہ مشرک وکافر اور دوسرا گروہ موحدو توحید پرست؟؟؟ان لوگوں پر حیرت اور افسوس ہے جن کے نزدیک جب کفر اور شرک پر بریلوی یا رافضی ٹھپہ لگا ہو تو وہ واقعی کفر اور شرک ہوتا ہے اور ان لوگوں کے پیچھے نہ تو نماز جائز ہوتی ہے اور نہ ان سے محبت لیکن اسی کفر اور شرک پر اگر دیوبندی ٹھپہ لگا ہو توان کا دل اسے قبول نہیں کرتا اور فوراً تاؤیل کی فکر ہوتی ہے اور ان کے پیچھے نماز بھی جائز ہوتی ہے بلکہ جواز پر اصرار ہوتا ہے اور ان سے محبت بھی ضروری ٹھہرتی ہے۔انا اللہ وانا الیہ راجعون

یہ دوہرے پیمانے درست نہیں۔ دیوبندی جو عقائد رکھتے ہیں اگر وہ کفریہ اور شرکیہ نہیں تو ہمیں بریلویوں اور رافضیوں کو بھی کفریہ اور شرکیہ عقائد سے پاک قرار دینا چاہیے۔ ایک ہی طرح کے عقائد پر بریلوی اور رافضی نفرت اور دیوبندی محبت کے مستحق کیوں؟؟؟

دیوبندیت کی حقیقت کو آشکار کرتی کتاب دیوبندیت سے کچھ اقتباسات ملاحظہ فرمائیں:

سبب تالیف
دیوبندی حضرات کے بارے میں عام اہلحدیث اور اکثر علماء کا بھی یہ نظریہ ہے کہ یہ لوگ موحد ہیں۔جیسا کہ حکیم محمود صاحب دیوبندیوں کے خلاف ’’علمائے دیوبند کا ماضی تاریخ کے آئینے میں‘‘ نامی کتاب لکھتے ہوئے وہ اپنا اور دیوبندیوں کا ناطہ ان الفاظ میں جوڑتے ہیں۔
’’آج ہم اور دیوبندی ایک دوسرے کے بہت قریب ہیں۔اور الحمداللہ عقائدمیں بھی کوئی ایسا بعد نہیں رہا بلکہ ہمارا اور اس مسلک کا مستقبل بھی دونوں کے اتحاد پر موقوف ہے۔‘‘ ایک جگہ لکھتے ہیں:
’’اہل توحید کے ناطے سے ایک تعلق موجود ہے اور اختلاف کے باوجود وہ باقی ہے اور رہے گا اور یہی دکھ کی بات ہے۔‘‘
حکیم صاحب کا یہ معذرت خواہانہ رویہ شاید مصلحانہ ہو، ورنہ دیوبندیوں کے بارے میں عام اہلحدیثوں کا نظریہ ان کے عقائد سے ناواقفی کی وجہ سے ہے۔اسی لئے یہ ان سے رشتہ ناطہ کرنے اور ان کے پیچھے نماز پرھنے میں کوئی حرج محسوس نہیں کرتے۔

حتیٰ کہ باہمی اختلاف کو فروعی اختلاف گردانتے ہیں لیکن بریلویوں سے رشتہ نہ کرنے یا ان کے پیچھے نمازیں نہ ادا کرنے کی وجہ شرک بتلاتے ہیں۔اس کتاب کے لکھنے کی وجہ یہ ہے کہ اہلحدیث حضرات کو یہ بتلانا مقصود ہے کہ جس وجہ سے تم بریلویوں سے نفرت کرتے ہو وہی وجہ دیوبندیو ں میں بدرجہ اتم موجود ہے۔

ہر چمکتی چیز کو سونا سمجھنا عقل مندی نہیں لہذا دیوبندیوں کے دعوؤں اور تقریروں سے دھوکہ کھا کر ان کو موحد شمار کرنا بے عقلی ہے۔ اس کتاب کی تصنیف کا مقصد دیوبندیوں کے اصلی چہرے کو بے نقاب کرنا ہے۔ شاید کچھ سادہ اور ناسمجھ لوگ اس کتاب کی اشاعت کو اہلحدیث اور دیوبندی حضرات کے درمیان اختلاف کا بیج بونا گردانیں ان حضرات سے ادباً عرض ہے کہ اگر آ پ کی محبت و نفرت کے پیمانے اللہ کے لئے ہیں،یعنی ’’الحب فی اللہ والبغض فی اللہ‘‘ تو پھر یا تو بریلوی اور شیعہ حضرات کے لئے بھی دل کے دریچوں کو وا کردیں اور اگر ایسا ممکن نہیں تو انصاف کے تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ان افراد سے بھی براء ت کا اظہار کریں جو رب کی توحید کو شرک کی ناپاکی سے پلید کرنے کی مذموم کوششوں میں ملوث ہیں لیکن کھل کر سامنے نہیں آتے۔اسی طرح اس کتاب کی تصنیف کا دوسرا مقصد بھولے بھالے دیوبندی عوام کو خبردار کرنا ہے کہ دیوبندی علماء کی چکنی چپڑی باتوں اور توحید کے بلند وبانگ دعوؤں سے مرعوب ہوکر ان کی اتباع کر کے کہیں اپنی آخرت برباد نہ کر لینا۔

اگر آپ اس کتاب کو تعصب و حسد کی نظر کی بجائے اصلاح کی نظر سے پڑھیں اور جانچیں گے تو آپ کو یہ بات معلوم ہو جائے گی کہ بریلی کی طرح دیوبند کی طرف پیش قدمی بھی رب کے قرب کے بجائے رب سے دوری کا سبب بن رہی ہے، ان راستوں پر شرک و کفر کی گھاٹیاں ہیں جس میں گر کر انسان ایسے عمیق اندھیروں میں گم ہوجاتا ہے کہ ہدایت کی روشنی کا حصول ناممکن نہیں تو کم ازکم بے حد مشکل ضرور ہو جاتا ہے۔شرک کے ان تاریک راستوں پر چلنے کے بجائے کتاب وسنت کے روشن راستوں کو اختیار کریں۔اور اپنے علماء کے شرکیہ عقائد سے برات کا اظہار کریں اور اپنے عقیدوں کو کتاب وسنت کی روشنی میں سنواریں نجات کا دارومدار توحید سے وابستگی اور شرک سے علیحدگی پر ہے۔ ہماری ان معروضات کو ٹھنڈے دل سے پڑھیں۔اور آخرت کی فکر کریں۔اللہ ہمیں ہدایت دے اور اپنی توحید کو ہمارے دلوں میں راسخ کردے۔تاکہ ہم جہنم کی دھکتی ہوئی آگ سے بچ سکیں۔آمین
پروفیسر سید طالب الرحمن

اصلی چہرہ
آج کل عام لوگوں کے ذہنوں میں یہ بات بری طرح سمائی ہے کہ دیوبندی علماء توحید کے علمبردار ہیں لیکن حقیقت کچھ اور ہے۔شرک کی جتنی قسمیں بریلویوں میں پائی جاتی ہیں جن پر دیوبندی علماء بڑے برستے اور گرجتے ہیں اس سے زیادہ خود دیوبندی مسلک میں ملتی ہیں۔ عقیدہ وحدۃ الوجودپر یقین رکھ کر یہ اسی صف میں کھڑے ہیں جس میں عزیر علیہ السلام کو اللہ کا حصہ بنانے والوں اور عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا بنانے والوں کو آپ کھڑا پاتے ہیں۔اسی طرح اللہ کی صفات میں اوروں کو شریک کرنے میں یہ لوگ بریلویوں سے دو قدم آگے نظر آتے ہیں۔ آپ ان کے حالات جاننے کے لئے ان کے اپنے حنفی مذہب کے ایک بریلوی مولوی ’’علامہ ارشد القادری‘‘ کا تبصرہ ہی کافی پائیں گے۔وہ لکھتے ہیں:۔
’’لوگوں کو دیوبندی علماء کی پرزور تقاریر (جو اللہ کے علاوہ غیب، قدرت و تصرف کے رد میں ہوتی ہیں) اس خوش عقیدگی میں مبتلا کردیں گی کہ یہ لوگ توحید کے سچے علمبردار اور کفر و شرک کے خلاف تیغ بے نیام ہیں۔

لیکن آہ میں کن لفظوں میں اس سر بستہ راز کو بے نقاب کروں اور اس خاموش سطح کے نیچے ایک خوفناک طوفان چھپا ہوا ہے۔تصویر کے اس رخ کی دل کشی اسی وقت تک باقی ہے جب تک کہ دوسرا رخ نگاہوں سے اوجھل ہے۔یقین کرتا ہوں کہ پردہ اٹھ جانے کے بعد توحید پرستی کی ساری گرمجوشیوں کا ایک آن میں بھرم کھل جائے گا۔دیوبندی جماعت دراصل مذہبی تاریخ کا سب سے بڑا اور عجیب طلسم فریب ہے ان کی حرکت رہگذر کے ان ٹھگوں سے کچھ مختلف نہیں جو آنکھوں میں دھول جھونک کر مسافروں کولوٹ لیا کرتے ہیں۔

ورنہ اگر خالص توحید کا جذبہ اس کے پس منظر میں کار فرما ہوتا تو شرک کے سوال پر اپنے اور بیگانے کے درمیان قطعاً کوئی تفریق روا نہ رکھی جاتی۔اسی لئے دیوبندی حضرات کی خود فریبیوں کا جادوتوڑنے کیلئے میرے ذہن میں زیر نظر کتاب کی ترتیب کا خیال پیدا ہوا کہ اصحاب عقل و دانش واضح طور پر محسوس کرلیں کہ جو لوگ دوسروں پر شرک کا الزام عائد کرتے ہیں اپنے نامہ اعمال کے آئینہ میں خود کتنے بڑے مشرک ہیں اور جب میں نے ان اوراق کو پلٹ دیا اور لوگوں نے اسے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا تو توحید کی ساری گرماگرمی یک دم سرد پڑجائے گی۔‘‘(خلاصہ از زلزلہ)

یہ ہے وہ کلام جس سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ جس طرح بریلوی شرک کی پلیدی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ دیوبندی بھی اسی پلیدی میں لت پت ہیں یہ الگ بات ہے کہ وہ مانتے نہیں یعنی ایک چور دوسرا چتر والی بات ہے۔

آئیے اب آپ کو ہم اس وادی کی سیر کراتے ہیں جس میں دیوبندی حضرات کے اپنے کفر کے خار دار اشجار اگے ہوئے ہیں اور وہ اسے دنیا کی نگاہوں سے اوجھل رکھنے کی ناکام سعی کرتے ہیں۔

اللہ پر زنا کی تہمت
نظریہ وحدت الوجود میں ڈوبا ہوا ایک قصہ پڑھیئے جو تذکرۃ الرشیدمیں ص ۲۴۲ پر پیر جیو محمد جعفر صاحب ساڈھوری بیان کرتے ہیں۔(تذکرۃ الرشید ۲۴۲،جلد نمبر۲)
ایک روز حضرت مولانا خلیل احمد صاحب زید مجدہ نے دریافت کیا کہ حضرت یہ حافظ لطافت علی عرف حافظ مینڈھو شیخ پوری کیسے شخص تھے؟حضرت نے فرمایا ’’پکا کافر تھا‘‘ اور اس کے بعد مسکرا کر ارشاد فرمایا کہ ’’ضامن علی جلال آبادی تو توحید ہی میں غرق تھے‘‘

ایک بار ارشاد فرمایا کہ ضامن علی جلا ل آبادی کی سہانپور میں بہت سی رنڈیاں مرید تھیں ایک بار یہ سہانپور میں کسی رنڈی کے مکان پر ٹھہرے ہوئے تھے سب مریدنیاں اپنے میاں صاحب کی زیارت کیلئے حاضر ہوئیں مگر ایک رنڈی نہیں آئی میاں صاحب بولے کہ فلانی کیوں نہیں آئی رنڈیوں نے جواب دیا میاں صاحب ہم نے اس سے بہتیرا کہا کہ چل میاں صاحب کی زیارت کو اس نے کہا میں بہت گناہ گارہوں اور بہت روسیاہ ہوں میاں صاحب کو کیا منہ دکھاؤں میں زیارت کے قابل نہیں میاں صاحب نے کہا نہیں جی تم اسے ہمارے پاس ضرور لانا چناچہ رنڈیاں اسے لیکر آئیں جب و ہ سامنے آئی تو میاں صاحب نے پوچھا بی تم کیوں نہیں آئی تھیں؟ اس نے کہا حضرت روسیاہی کی وجہ سے زیارت کو آتی ہوئی شرماتی ہوں۔ میاں صاحب بولے بی تم شرماتی کیوں ہو کرنے والا کون اور کرانے والا کون وہ تو وہی ہے رنڈی یہ سنکر آگ ہوگئی اور خفا ہو کر کہا لاحول ولا قوۃ اگرچہ میں روسیاہ و گنہگار ہوں مگر ایسے پیر کے منہ پر پیشاب بھی نہیں کرتی۔میاں صاحب شرمندہ ہو کر سرنگوں رہ گئے اور وہ اٹھ کر چلدی۔(از پیر جیو محمد جعفر صاحب ساڈھوری)
استغفراللہ من ھذہ الخرافات الکفریۃ

یہ ہے وحدت الوجود کا عروج۔ چلیں ہم یہ اعتراض نہیں کرتے کہ رنڈیاں ان کی مرید اور وہ ان کے پیر رنڈیاں ان کی زیارت کو آئیں اور وہ رنڈیوں کے گھر قیام کریں۔ہمیں اعتراض تو یہ ہے کہ آج تک مختلف امتوں نے اپنے ابنیاء پر تو شراب خوری و بدکاری کا بہتان باندھا لیکن اپنے رب کے بارے میں تو کسی کی زبان سے ایسی بات نہیں نکلی تھی۔
لیکن یہاں تو ضامن علی جلال آبادی جو توحید(وحدت الوجود) میں غرق تھے اس نے نعوذباللہ زنا کرینوالا اور کروانے والا اور جس کے حکم سے زنا ہورہا ہے اللہ کو قرار دیا۔(نعوذباللہ من ھذا الکفر) نقل کفر کفر نباشد۔
یہ ہے دیوبندیوں کی اصل توحید۔
ان الفاظ کے ساتھ ہی میں اپنی معروضات کا اختتام کرتا ہوں۔
اور مجھے قوی امید ہے کہ اس کتاب کو پڑھ کر ایک اہلحدیث یہ سوچنے پر ضرور مجبور ہوگا کہ جب جرم بریلویوں اور دیوبندیوں کا ایک سا ہے تو پھر ان سے سلوک روا رکھنے میں امتیاز کیوں!
ان کے پیچھے نماز ادا کرنا اور رشتہ ناطہ کرنا بھی ویسے ہی غلط ہے، جیسے بریلویوں سے اور ایک دیوبندی کتاب کو پڑھ کر یہ فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں ہوگا کہ علماء دیوبند کے عقائد میں شرک کی ملاوٹ و افر مقدار میں موجود ہے۔
لہذا ا ن کے ساتھ ایک موحد کا چلنا ناممکن ہے اور اسے قرآن و سنت کا راستہ اختیار کرنے میں ذرا دقت پیش نہ آئے۔اللہ ہم سب کو ہدایت نصیب فرمائے۔آمین۔
ٰ
مزید تفصیل اور مکمل کتاب پڑھیں یہاں : دیوبندیت
 

محمد اقبال

مبتدی
شمولیت
اگست 26، 2012
پیغامات
14
ری ایکشن اسکور
41
پوائنٹ
0
بسمہ اللہ الرحمن الرحیم​

دیوبندیوں اور بریلویوں میں فرق؟

نجانے کیوں بہت سے لوگوں کو یہ تلخ حقیقت ہضم نہیں ہوتی کہ دیوبندی حضرات بھی بعینہ اسی طرح کفریہ اور شرکیہ عقائد رکھتے ہیں جیسے کہ بریلوی یا رافضی۔طالب الرحمن شاہ صاحب حفظہ اللہ کی کتاب دیوبندیت تاریخ و عقائد کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ دیوبندی حضرات عقائد میں بریلویوں کے ہم قدم اور قدم بہ قدم ہیں بلکہ بعض اوقات توکفر و شرک میں بریلویوں سے بھی دو قدم آگے ہیں۔پھر بھی ایک گروہ مشرک وکافر اور دوسرا گروہ موحدو توحید پرست؟؟؟ان لوگوں پر حیرت اور افسوس ہے جن کے نزدیک جب کفر اور شرک پر بریلوی یا رافضی ٹھپہ لگا ہو تو وہ واقعی کفر اور شرک ہوتا ہے اور ان لوگوں کے پیچھے نہ تو نماز جائز ہوتی ہے اور نہ ان سے محبت لیکن اسی کفر اور شرک پر اگر دیوبندی ٹھپہ لگا ہو توان کا دل اسے قبول نہیں کرتا اور فوراً تاؤیل کی فکر ہوتی ہے اور ان کے پیچھے نماز بھی جائز ہوتی ہے بلکہ جواز پر اصرار ہوتا ہے اور ان سے محبت بھی ضروری ٹھہرتی ہے۔انا اللہ وانا الیہ راجعون

یہ دوہرے پیمانے درست نہیں۔ دیوبندی جو عقائد رکھتے ہیں اگر وہ کفریہ اور شرکیہ نہیں تو ہمیں بریلویوں اور رافضیوں کو بھی کفریہ اور شرکیہ عقائد سے پاک قرار دینا چاہیے۔ ایک ہی طرح کے عقائد پر بریلوی اور رافضی نفرت اور دیوبندی محبت کے مستحق کیوں؟؟؟

دیوبندیت کی حقیقت کو آشکار کرتی کتاب دیوبندیت سے کچھ اقتباسات ملاحظہ فرمائیں:

سبب تالیف
دیوبندی حضرات کے بارے میں عام اہلحدیث اور اکثر علماء کا بھی یہ نظریہ ہے کہ یہ لوگ موحد ہیں۔جیسا کہ حکیم محمود صاحب دیوبندیوں کے خلاف ’’علمائے دیوبند کا ماضی تاریخ کے آئینے میں‘‘ نامی کتاب لکھتے ہوئے وہ اپنا اور دیوبندیوں کا ناطہ ان الفاظ میں جوڑتے ہیں۔
’’آج ہم اور دیوبندی ایک دوسرے کے بہت قریب ہیں۔اور الحمداللہ عقائدمیں بھی کوئی ایسا بعد نہیں رہا بلکہ ہمارا اور اس مسلک کا مستقبل بھی دونوں کے اتحاد پر موقوف ہے۔‘‘ ایک جگہ لکھتے ہیں:
’’اہل توحید کے ناطے سے ایک تعلق موجود ہے اور اختلاف کے باوجود وہ باقی ہے اور رہے گا اور یہی دکھ کی بات ہے۔‘‘
حکیم صاحب کا یہ معذرت خواہانہ رویہ شاید مصلحانہ ہو، ورنہ دیوبندیوں کے بارے میں عام اہلحدیثوں کا نظریہ ان کے عقائد سے ناواقفی کی وجہ سے ہے۔اسی لئے یہ ان سے رشتہ ناطہ کرنے اور ان کے پیچھے نماز پرھنے میں کوئی حرج محسوس نہیں کرتے۔

حتیٰ کہ باہمی اختلاف کو فروعی اختلاف گردانتے ہیں لیکن بریلویوں سے رشتہ نہ کرنے یا ان کے پیچھے نمازیں نہ ادا کرنے کی وجہ شرک بتلاتے ہیں۔اس کتاب کے لکھنے کی وجہ یہ ہے کہ اہلحدیث حضرات کو یہ بتلانا مقصود ہے کہ جس وجہ سے تم بریلویوں سے نفرت کرتے ہو وہی وجہ دیوبندیو ں میں بدرجہ اتم موجود ہے۔

ہر چمکتی چیز کو سونا سمجھنا عقل مندی نہیں لہذا دیوبندیوں کے دعوؤں اور تقریروں سے دھوکہ کھا کر ان کو موحد شمار کرنا بے عقلی ہے۔ اس کتاب کی تصنیف کا مقصد دیوبندیوں کے اصلی چہرے کو بے نقاب کرنا ہے۔ شاید کچھ سادہ اور ناسمجھ لوگ اس کتاب کی اشاعت کو اہلحدیث اور دیوبندی حضرات کے درمیان اختلاف کا بیج بونا گردانیں ان حضرات سے ادباً عرض ہے کہ اگر آ پ کی محبت و نفرت کے پیمانے اللہ کے لئے ہیں،یعنی ’’الحب فی اللہ والبغض فی اللہ‘‘ تو پھر یا تو بریلوی اور شیعہ حضرات کے لئے بھی دل کے دریچوں کو وا کردیں اور اگر ایسا ممکن نہیں تو انصاف کے تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ان افراد سے بھی براء ت کا اظہار کریں جو رب کی توحید کو شرک کی ناپاکی سے پلید کرنے کی مذموم کوششوں میں ملوث ہیں لیکن کھل کر سامنے نہیں آتے۔اسی طرح اس کتاب کی تصنیف کا دوسرا مقصد بھولے بھالے دیوبندی عوام کو خبردار کرنا ہے کہ دیوبندی علماء کی چکنی چپڑی باتوں اور توحید کے بلند وبانگ دعوؤں سے مرعوب ہوکر ان کی اتباع کر کے کہیں اپنی آخرت برباد نہ کر لینا۔

اگر آپ اس کتاب کو تعصب و حسد کی نظر کی بجائے اصلاح کی نظر سے پڑھیں اور جانچیں گے تو آپ کو یہ بات معلوم ہو جائے گی کہ بریلی کی طرح دیوبند کی طرف پیش قدمی بھی رب کے قرب کے بجائے رب سے دوری کا سبب بن رہی ہے، ان راستوں پر شرک و کفر کی گھاٹیاں ہیں جس میں گر کر انسان ایسے عمیق اندھیروں میں گم ہوجاتا ہے کہ ہدایت کی روشنی کا حصول ناممکن نہیں تو کم ازکم بے حد مشکل ضرور ہو جاتا ہے۔شرک کے ان تاریک راستوں پر چلنے کے بجائے کتاب وسنت کے روشن راستوں کو اختیار کریں۔اور اپنے علماء کے شرکیہ عقائد سے برات کا اظہار کریں اور اپنے عقیدوں کو کتاب وسنت کی روشنی میں سنواریں نجات کا دارومدار توحید سے وابستگی اور شرک سے علیحدگی پر ہے۔ ہماری ان معروضات کو ٹھنڈے دل سے پڑھیں۔اور آخرت کی فکر کریں۔اللہ ہمیں ہدایت دے اور اپنی توحید کو ہمارے دلوں میں راسخ کردے۔تاکہ ہم جہنم کی دھکتی ہوئی آگ سے بچ سکیں۔آمین
پروفیسر سید طالب الرحمن

اصلی چہرہ

آج کل عام لوگوں کے ذہنوں میں یہ بات بری طرح سمائی ہے کہ دیوبندی علماء توحید کے علمبردار ہیں لیکن حقیقت کچھ اور ہے۔شرک کی جتنی قسمیں بریلویوں میں پائی جاتی ہیں جن پر دیوبندی علماء بڑے برستے اور گرجتے ہیں اس سے زیادہ خود دیوبندی مسلک میں ملتی ہیں۔ عقیدہ وحدۃ الوجودپر یقین رکھ کر یہ اسی صف میں کھڑے ہیں جس میں عزیر علیہ السلام کو اللہ کا حصہ بنانے والوں اور عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا بنانے والوں کو آپ کھڑا پاتے ہیں۔اسی طرح اللہ کی صفات میں اوروں کو شریک کرنے میں یہ لوگ بریلویوں سے دو قدم آگے نظر آتے ہیں۔ آپ ان کے حالات جاننے کے لئے ان کے اپنے حنفی مذہب کے ایک بریلوی مولوی ’’علامہ ارشد القادری‘‘ کا تبصرہ ہی کافی پائیں گے۔وہ لکھتے ہیں:۔
’’لوگوں کو دیوبندی علماء کی پرزور تقاریر (جو اللہ کے علاوہ غیب، قدرت و تصرف کے رد میں ہوتی ہیں) اس خوش عقیدگی میں مبتلا کردیں گی کہ یہ لوگ توحید کے سچے علمبردار اور کفر و شرک کے خلاف تیغ بے نیام ہیں۔

لیکن آہ میں کن لفظوں میں اس سر بستہ راز کو بے نقاب کروں اور اس خاموش سطح کے نیچے ایک خوفناک طوفان چھپا ہوا ہے۔تصویر کے اس رخ کی دل کشی اسی وقت تک باقی ہے جب تک کہ دوسرا رخ نگاہوں سے اوجھل ہے۔یقین کرتا ہوں کہ پردہ اٹھ جانے کے بعد توحید پرستی کی ساری گرمجوشیوں کا ایک آن میں بھرم کھل جائے گا۔دیوبندی جماعت دراصل مذہبی تاریخ کا سب سے بڑا اور عجیب طلسم فریب ہے ان کی حرکت رہگذر کے ان ٹھگوں سے کچھ مختلف نہیں جو آنکھوں میں دھول جھونک کر مسافروں کولوٹ لیا کرتے ہیں۔

ورنہ اگر خالص توحید کا جذبہ اس کے پس منظر میں کار فرما ہوتا تو شرک کے سوال پر اپنے اور بیگانے کے درمیان قطعاً کوئی تفریق روا نہ رکھی جاتی۔اسی لئے دیوبندی حضرات کی خود فریبیوں کا جادوتوڑنے کیلئے میرے ذہن میں زیر نظر کتاب کی ترتیب کا خیال پیدا ہوا کہ اصحاب عقل و دانش واضح طور پر محسوس کرلیں کہ جو لوگ دوسروں پر شرک کا الزام عائد کرتے ہیں اپنے نامہ اعمال کے آئینہ میں خود کتنے بڑے مشرک ہیں اور جب میں نے ان اوراق کو پلٹ دیا اور لوگوں نے اسے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا تو توحید کی ساری گرماگرمی یک دم سرد پڑجائے گی۔‘‘(خلاصہ از زلزلہ)

یہ ہے وہ کلام جس سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ جس طرح بریلوی شرک کی پلیدی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ دیوبندی بھی اسی پلیدی میں لت پت ہیں یہ الگ بات ہے کہ وہ مانتے نہیں یعنی ایک چور دوسرا چتر والی بات ہے۔

آئیے اب آپ کو ہم اس وادی کی سیر کراتے ہیں جس میں دیوبندی حضرات کے اپنے کفر کے خار دار اشجار اگے ہوئے ہیں اور وہ اسے دنیا کی نگاہوں سے اوجھل رکھنے کی ناکام سعی کرتے ہیں۔

اللہ پر زنا کی تہمت

نظریہ وحدت الوجود میں ڈوبا ہوا ایک قصہ پڑھیئے جو تذکرۃ الرشیدمیں ص ۲۴۲ پر پیر جیو محمد جعفر صاحب ساڈھوری بیان کرتے ہیں۔(تذکرۃ الرشید ۲۴۲،جلد نمبر۲)
ایک روز حضرت مولانا خلیل احمد صاحب زید مجدہ نے دریافت کیا کہ حضرت یہ حافظ لطافت علی عرف حافظ مینڈھو شیخ پوری کیسے شخص تھے؟حضرت نے فرمایا ’’پکا کافر تھا‘‘ اور اس کے بعد مسکرا کر ارشاد فرمایا کہ ’’ضامن علی جلال آبادی تو توحید ہی میں غرق تھے‘‘

ایک بار ارشاد فرمایا کہ ضامن علی جلا ل آبادی کی سہانپور میں بہت سی رنڈیاں مرید تھیں ایک بار یہ سہانپور میں کسی رنڈی کے مکان پر ٹھہرے ہوئے تھے سب مریدنیاں اپنے میاں صاحب کی زیارت کیلئے حاضر ہوئیں مگر ایک رنڈی نہیں آئی میاں صاحب بولے کہ فلانی کیوں نہیں آئی رنڈیوں نے جواب دیا میاں صاحب ہم نے اس سے بہتیرا کہا کہ چل میاں صاحب کی زیارت کو اس نے کہا میں بہت گناہ گارہوں اور بہت روسیاہ ہوں میاں صاحب کو کیا منہ دکھاؤں میں زیارت کے قابل نہیں میاں صاحب نے کہا نہیں جی تم اسے ہمارے پاس ضرور لانا چناچہ رنڈیاں اسے لیکر آئیں جب و ہ سامنے آئی تو میاں صاحب نے پوچھا بی تم کیوں نہیں آئی تھیں؟ اس نے کہا حضرت روسیاہی کی وجہ سے زیارت کو آتی ہوئی شرماتی ہوں۔ میاں صاحب بولے بی تم شرماتی کیوں ہو کرنے والا کون اور کرانے والا کون وہ تو وہی ہے رنڈی یہ سنکر آگ ہوگئی اور خفا ہو کر کہا لاحول ولا قوۃ اگرچہ میں روسیاہ و گنہگار ہوں مگر ایسے پیر کے منہ پر پیشاب بھی نہیں کرتی۔میاں صاحب شرمندہ ہو کر سرنگوں رہ گئے اور وہ اٹھ کر چلدی۔(از پیر جیو محمد جعفر صاحب ساڈھوری)
استغفراللہ من ھذہ الخرافات الکفریۃ

یہ ہے وحدت الوجود کا عروج۔ چلیں ہم یہ اعتراض نہیں کرتے کہ رنڈیاں ان کی مرید اور وہ ان کے پیر رنڈیاں ان کی زیارت کو آئیں اور وہ رنڈیوں کے گھر قیام کریں۔ہمیں اعتراض تو یہ ہے کہ آج تک مختلف امتوں نے اپنے ابنیاء پر تو شراب خوری و بدکاری کا بہتان باندھا لیکن اپنے رب کے بارے میں تو کسی کی زبان سے ایسی بات نہیں نکلی تھی۔
لیکن یہاں تو ضامن علی جلال آبادی جو توحید(وحدت الوجود) میں غرق تھے اس نے نعوذباللہ زنا کرینوالا اور کروانے والا اور جس کے حکم سے زنا ہورہا ہے اللہ کو قرار دیا۔(نعوذباللہ من ھذا الکفر) نقل کفر کفر نباشد۔
یہ ہے دیوبندیوں کی اصل توحید۔
ان الفاظ کے ساتھ ہی میں اپنی معروضات کا اختتام کرتا ہوں۔
اور مجھے قوی امید ہے کہ اس کتاب کو پڑھ کر ایک اہلحدیث یہ سوچنے پر ضرور مجبور ہوگا کہ جب جرم بریلویوں اور دیوبندیوں کا ایک سا ہے تو پھر ان سے سلوک روا رکھنے میں امتیاز کیوں!
ان کے پیچھے نماز ادا کرنا اور رشتہ ناطہ کرنا بھی ویسے ہی غلط ہے، جیسے بریلویوں سے اور ایک دیوبندی کتاب کو پڑھ کر یہ فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں ہوگا کہ علماء دیوبند کے عقائد میں شرک کی ملاوٹ و افر مقدار میں موجود ہے۔
لہذا ا ن کے ساتھ ایک موحد کا چلنا ناممکن ہے اور اسے قرآن و سنت کا راستہ اختیار کرنے میں ذرا دقت پیش نہ آئے۔اللہ ہم سب کو ہدایت نصیب فرمائے۔آمین۔
ٰ
مزید تفصیل اور مکمل کتاب پڑھیں یہاں : دیوبندیت
السلام علیکم
یہ کہنا درست ہے کہ بریلویوں اور دیوبندیوں کے عقائد میں کافی حد تک مماثلت ہے لیکن یہ بات مکمل طور صحیح نہیں ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ جیسے ایک تو یہ کہ بریلویوں کا کھلا شرک و کفر جگ ظاہر ہے مثلاقبر پر سجدہ کرنا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم و دیگر بزرگ حضرات کو مدد کے لیے پکارنا وغیرہ لیکن یہ بات دیوبندی عوام میں اس بے شرمی کے ساتھ رائج نہیں بلکہ ان کے امیروں نے چھپا رکھی ہے۔ اور آہستہ آہستہ عوام میں رائج کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر اوقات جب ہم دیوبندیوں سے بات کرتے ہیں تو وہ یقین ہی نہیں کرتے کہ ان کے علما بھی وہی عقائد شرک و کفر رکھتے ہیں جو وحدت الوجود جیسا غلیظ عقیدہ بھی ہو سکتا ہے۔رہا اہل حدیثوں کا دیوبندیوں کے متعلق خیال تو اگر علما کی رہنمائی میں یہ خیال اور رویہ قائم کیا جائے تو صحیح ہوگا ورنہ انسان اکثر افراط و تفریط کا شکار ہو جاتا ہے۔ ایک وضاحتی ویڈیو یہاں دیکھیں جو انگریزی میں ہے ۔
[video=youtube;UpLL-W9tvcg]http://www.youtube.com/watch?v=UpLL-W9tvcg[/video]
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,870
پوائنٹ
157
سلفی العقیدہ علمائے احناف

امام طحاوی حنفی رحمہ اللہ کی عقیدہ پر لکھی جانے والی کتاب’’عقیدہ طحاویہ‘‘اوراس کی شرح(جو امام صدرالدین ابن العز حنفی رحمہ اللہ نے کی)آج اہل سنت کے عقیدہ کی بنیادی کتاب شمار ہوتی ہے۔
اس شرح پر محدث شیخ ناصرالدین البانی،مفتی اعظم ابن باز،ابن عثیمین اور صالح الفوزان رحمۃ اللہ علیہم نے تعلیقات لکھیں اورآج اہل حدیث مدارس میں امام ابن العز الحنفی کی شرح’’عقیدہ طحاویہ‘‘پڑھائی جاتی ہے۔
آج بھی برصغیر کے علمائے احناف میں وہ علمائے کرام موجود ہیں جو عقیدہ طحاویہ سے عقیدہ کے مسائل کو اخذ کرتے ہیں اور علم اکلام کی کتب پر رد کرتے ہیں۔
الشیخ محمد انورالبدخشانی حفظہ اللہ جو الجامعۃ العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن میں استاذ ہیں،انہوں نے امام ابن العز الحنفی رحمہ اللہ کی کتاب شرح عقیدہ طحاویہ کی تلخیص کی۔کتاب کے مقدمے میں لکھتے ہیں:
ہر مسلمان پر واجب ہے کہ وہ ایمان اور عقیدہ کی اصلاح میں کوئی کمی نہ چھوڑےلیکن افسوس ہمارے مدارس اور جامعات میں کوئی ایسی کتاب نہیں جو کتاب و سنت سے ماخوذخالص اسلامی عقیدہ پر مشتمل ہوبلکہ ہمارے علاقوں میں مدت سے جو کتاب معروف ہے اور جس پر ہم فخر کرتے ہیں۔وہ علامہ التفتازانی کی کتاب’’شرح العقائد النسفیہ‘‘ہے۔۔۔۔علامہ صاحب علم الکلام،بلاغہ ومعقول کے امام تھے۔۔۔اس کتاب میں کتاب وسنت پر دلالت کرنے والےخالص اسلامی عقائد نہیں ہیں بلکہ اس میں فلسفی عقائد ہیں۔۔۔
فلسفی عقائد وہ ہیں جو علم الکلام کے علماء نےمعتزلہ اور فلاسفہ کے ساتھ مناظروں میں اختیار کیے تھے۔۔۔۔پس میں نے اللہ کی توفیق سے کتاب و سنت سے ثابت شدہ ضروری عقائد جمع کیے ہیں جن پر اس امت کے سلف کا اجماع ہے‘‘(تلخیص شرح العقیدۃ الطحاویہ)
شیخ یو سف العیری رحمہ اللہ کے ایک سوال کے جواب میں مفتی نظام الدین شامزئی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’عموماً دیوبندی اشعری اور ماتریدی ہیں لیکن ان میں اہل سنت بھی پائے جاتے ہیں۔میں لوگوں کے سامنے حق منہج کو واضح کرتا ہوں جو کہ سلف کامنہج ہےاور میں خلف کے منہج سے انہیں ڈراتا ہوں۔۔۔۔طالبان کے مفتی اعظم میرے شاگردوں میں سے ہیں اور اسی طرح عبداللہ ذاکری جو کہ بڑے علماءمیں سے ہیں وہ بھی اسی منہج پر ہیں۔ہم حق بات بیان کرنے کی کوشش کرتے ہیں‘‘
فضیلۃ الشیخ غلام اللہ رحمتی حفظہ اللہ فرماتے ہیں:
’’رہے ملا عمر نہ تووہ دیوبندی ہیں اور نہ حنفی،بلکہ وہ ایک عام مسلمان ہیں۔ممکن ہے وہ جانتے بھی نہ ہوں کہ اشعریت اور ماتریدیت کیا ہے؟وہ کہا کرتے تھے’’میں وہ حکومت قائم کرنا چاہتا ہوں جو نبی کریمﷺنے مدینہ طیبہ میں قائم کی تھی۔اس حکومت کی بنیاد کتاب و سنت پر ہو گی۔ملا عمر خودعالم نہیں ہیں بلکہ وہ علماء کے فتاوی پر عمل کرتے ہیں،وہ کہتے ہیں:’’علماء کا کام فتویٰ دینا ہے اور کام تطبیق کرنا ہے،وہ نہ صوفی ہے نہ دیو بندی،بلکہ وہ سلفیت سے محبت کرنے والے انسان ہیں‘‘(مجلۃ البیان،سعودی عرب)
مسئلہ’’وحدۃ الوجود‘‘کے متعلق علمائےاحناف کا موقف:

یہ علماء وحدۃ الوجود اور دیگر کفریات کا صریحاً رد کرتے ہیں۔ملاحظہ فرمائیں:
ملاعلی قاری حنفی وحدت الوجود کے رد میں اپنی کتاب کے آخر میں لکھتے ہیں:
’’پھر اگر تم سچے مسلمان اور پکے مومن ہوتو ابن عربی کی جماعت کے کفر میں شک نہ کرو اور اس گمراہ قوم اوربےوقوف گروہ کی گمراہی میں توقف نہ کرو،پھر اگر تم پوچھو:کیا انہیں اسلام کہنے میں ابتداء کی جاسکتی ہے؟میں کہتا ہوں:نہیں اور نہ ان کے سلام کا جواب دیا جائے بلکہ انہیں وعلیکم کا لفظ بھی نہیں کہنا چاہیے کیونکہ یہ یہودیوں اور نصرانیوں سے زیادہ برے ہیں اور ان کا حکم مرتدین کا حکم ہے۔۔۔۔ان لوگوں کی لکھی جانے والی کتب کو جلانا واجب ہے اور ہر آدمی کو چاہیے کہ ان کی فرقہ پرستی اورنفاق کو لوگوں کے سامنے بیان کرے کیونکہ علماءکا سکوت اور بعض رایوں کا اختلاف اس فتنے اورتمام مصیبتوں کا سبب بنا ہے۔۔۔۔(الرد علی القائلین بوحدۃ الوجود،ص155،156)
مفتی نظام الدین شامزئی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’صوفیہ میں بعض تو وہ ہیں جو صحیح راستے پر گامزن ہیں یہ اس راستے پر ہیں کہ جو نبی کریمﷺ اورآپ کے صحابہ کا راستہ ہے۔یہ دنیا سے بے رغبتی اور احسان کے مرتبے کا راستہ ہے،البتہ جو لوگ ابن عربی وغیرہ کے راستہ پر ہیں جو کہ وحدت الوجود کا عقیدہ رکھتا تھا تو یہ تصوف باطل ہے۔یہ عقیدہ طالبان کے ہاں نہیں پایا جاتا بلکہ وہ ایسے نظریات کے خلاف بر سرپیکار ہیں‘‘(المیزان لحرکۃ الطالبان)
حکیم میاں عبدالقادر فاضل دیوبند لکھتے ہیں:
’’وحدۃ الوجودخودکو خدائی مسند پر جلوہ افروز ہونے والوں کا باطل عقیدہ و عمل ہے‘‘(تنزیہ الہٰ،ص125،مطبوعہ بیت الحکمت لوہاری منڈی لاہور)
خان محمدشیرانی پنج پیری دیو بندی(زوب بلوچستان) نے وحدۃ الوجود کے رد میں’’کشف الجحود عن عقیدۃ وحدۃ الوجود‘‘نامی کتاب لکھی ہے جس کے ٹائٹل پر لکھا ہوا ہےکہ’’اور یہ ثابت کیا گیا ہے کہ جن لوگوں کا وحدۃ الوجود اور حلولی کا عقیدہ ہوتا ہے۔وہ صحیح نہیں ہے۔(بحوالہ الحدیث:شمارہ49ص20)
جامع الفتاوی میں یہ فتوی مذکور ہے:
سوال:جو مسلمان عاقل و بالغ وحدت الوجود کا عقیدہ رکھے اور یہ کہے کہ’’سب وہی اللہ تعالیٰ ہے‘‘تو اس کلام سے وہ مسلمان کافر ہوجائے گا یا نہیں؟
جواب:وحدۃ الوجود کا ظاہر معنی خلاف شرع ہے،جو شخص اس کا قائل ہو،اگر اس کا اعتقاد ہو کہ حق تعالیٰ نے تمام چیزوں میں حلول فرمایا ہے،یااس شخص کا عقیدہ ہو کہ تمام اشیاء اس ذات مقدس کے ساتھ متحد ہیں،تو اس کلام سے کفر لازم آتا ہے اور اگر اس کی مراد یہ ہے کہ تمام چیزوں میں اللہ تعالیٰ کی تمام صفتوں کا ظہور ہے،تو ایسی حالت میں اس کے کلام سے کفرلازم نہیں آتا،لیکن اس کلام سے ایسے امر کا گمان ہوتا ہے،جو خلاف شرع ہے،اس واسطے یہ کلام عام مجلسوں میں شائع کرنا مناسب نہیں‘‘(فتاوی عزیزیہ۔ص67بحوالہ جامع الفتاویٰ،جلد اول،ص274)
ڈاکڑ سید شفیق الرحمن حفظہ اللہ کی تصنیف’’اہل بدعت اور معاصر اسلامی تحریکوں کے ساتھ تعامل‘‘​
نوٹ:اب یہ کتاب’’اہل سنت کا منہج تعامل‘‘کے نام سے مارکیٹ میں دستیاب ہے۔
 
شمولیت
اکتوبر 19، 2011
پیغامات
75
ری ایکشن اسکور
410
پوائنٹ
44
وحدت الوجود کے بارے میں تو علمائے اہل حدیث بھی نرم رویہ رکھتے رہے ہیں۔ مثلا مولانا عبداللہ روپڑی رحمہہ اللہ کی فتاوی اھلحدیث ملاحظہ فرما لیں۔ دیوبندیوں میں اور بریلویوں میں فرق نہ روا رکھنے کا رویہ علمیت سے دوری اور فقہ الواقع سے لاعلمی کا نتیجہ ہے۔طالب الرحمن شاہ صاحب والا نقطئہ نظر ہمیشہ علمائے اہل حدیث کے درمیان رہا ہے مگر اسے کبھی بھی اہل حدیث علماٰء کے مین اسٹریم کی تائید حاصل نہیں رہی۔ عرب علماء بھی اس فرق کو روا رکھتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ سعودی مکتب دعوہ جہاں اہل حدیث دعاۃ کو مدارس و مساجد میں مبعوث کرتا ہے وہاں دیوبندی حضرات کو بھی مبعوث کیا جاتا ہے اور اس سارے عمل کوصحیح العقیدہ کبار علمائے حجاز کی حمایت حاصل ہے۔
 

وقاص خان

مبتدی
شمولیت
اگست 14، 2012
پیغامات
27
ری ایکشن اسکور
109
پوائنٹ
0
وحدت الوجود کے بارے میں تو علمائے اہل حدیث بھی نرم رویہ رکھتے رہے ہیں۔ مثلا مولانا عبداللہ روپڑی رحمہہ اللہ کی فتاوی اھلحدیث ملاحظہ فرما لیں۔ دیوبندیوں میں اور بریلویوں میں فرق نہ روا رکھنے کا رویہ علمیت سے دوری اور فقہ الواقع سے لاعلمی کا نتیجہ ہے۔طالب الرحمن شاہ صاحب والا نقطئہ نظر ہمیشہ علمائے اہل حدیث کے درمیان رہا ہے مگر اسے کبھی بھی اہل حدیث علماٰء کے مین اسٹریم کی تائید حاصل نہیں رہی۔ عرب علماء بھی اس فرق کو روا رکھتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ سعودی مکتب دعوہ جہاں اہل حدیث دعاۃ کو مدارس و مساجد میں مبعوث کرتا ہے وہاں دیوبندی حضرات کو بھی مبعوث کیا جاتا ہے اور اس سارے عمل کوصحیح العقیدہ کبار علمائے حجاز کی حمایت حاصل ہے۔
عبداللہ روپڑی کی یہ انفرادی غلطی ہے۔ اس سے پوری جماعت کو قصور وار ٹھہرانا ٹھیک نہیں۔ جنگ آزادی ١٨٥٧ میں بھی تو انہوں نے انگریزوں کی حمایت کی تھی اس کا مطلب یہ تو نہیں لیا جا سکتا کہ ان کی پوری جماعت انگریزوں کے ساتھ تھی۔
 
شمولیت
اکتوبر 19، 2011
پیغامات
75
ری ایکشن اسکور
410
پوائنٹ
44
عبداللہ روپڑی کی یہ انفرادی غلطی ہے۔ اس سے پوری جماعت کو قصور وار ٹھہرانا ٹھیک نہیں۔ جنگ آزادی ١٨٥٧ میں بھی تو انہوں نے انگریزوں کی حمایت کی تھی اس کا مطلب یہ تو نہیں لیا جا سکتا کہ ان کی پوری جماعت انگریزوں کے ساتھ تھی۔
بھائی یہ جنگ آزادی ١٨٥٧ کا کیا قصہ ہے؟ محدث عبداللہ روپڑی رحمہ اللہ کے تواس وقت تھے ہی نہیں!
 

وقاص خان

مبتدی
شمولیت
اگست 14، 2012
پیغامات
27
ری ایکشن اسکور
109
پوائنٹ
0
بھائی یہ جنگ آزادی ١٨٥٧ کا کیا قصہ ہے؟ محدث عبداللہ روپڑی رحمہ اللہ کے تواس وقت تھے ہی نہیں!
سوری بھائی! میں عبد اللہ اچکڑالوی سے نام میں دھوکہ کھا گیا۔ روپڑی اور اچکڑالوی سے بھول ہوگئی۔ معذرت چاہتا ہوں۔
 

طالب نور

رکن مجلس شوریٰ
شمولیت
اپریل 04، 2011
پیغامات
361
ری ایکشن اسکور
2,311
پوائنٹ
220
ہمارے وہ بھائی جو بریلوی و دیوبندی مسالک میں فرق کرتے ہیں ان سے سوال ہے کہ کسی بھی مسلک کا دارومدار و منہج اس کے علماء کے اقوال و افعال کی روشنی میں طے پاتا ہے یا عوام کے اقوال و افعال سے؟ ہر ذی شعور انسان یہی کہے گا کہ کسی بھی مسلک کا منہج اس کے علماء کے اقوال و افعال سے پتا چلتا ہے نہ کہ عوام سے کہ مثل مشہور ہے کہ عوام کالانعام ہوتے ہیں۔ اب اس ضابطے کی روشنی میں خود طے فرمائیں کہ بریلوی و دیوبندی عوام کا فرق نکال کر بریلوی و دیوبندی مسلک کا فرق نکالنے والے کیا خود کو دھوکہ نہیں دے رہے جبکہ عقائد و نظریات میں بریلوی و دیوبندی علماء و اکابرین متفق ہیں محض جند عبارتوں کا جھگڑا ہے۔
مجھے اپنے ان دوستوں پر بڑی حیرانی اور تعجب ہے کہ جو موجودہ دیوبندی مسلک پر تنقید کو حنفی فقہ پر تنقید سمجھ لیتے ہیں اور دفاع میں امام ابن العز حنفی رحمہ اللہ یا امام طحاوی رحمہ اللہ اور ان کی عقیدہ میں موجود کتب کو پیش کر کے دیوبندی مسلک کے دفاع میں مشغول ہیں۔ بھلا یہ کسے معلوم نہیں کہ فقہ حنفی کے مقلدین میں تو بڑے بڑے معتزلی امام بھی گزرے ہیں تو کیا ان معتزلی آئمہ کا حنفی مقلد ہونا انہیں امام طحاوی یا امام ابن العز الحنفی جیسے عقائد والا بھی ثابت کر دے گا؟ جب ان معتزلی آئمہ کا عقیدہ و منہج ان کو حنفی ہونے کے باوجود کوئی فائدہ نہیں دیتا تو بھلا دیوبندی مسلک کے اکابرین کو حنفی ہونا ان کے عقائد و نظریات کی موجودگی میں کیا فائدہ دے گا؟
مفتی نظام الدین شامزئی یا دیگر چند دیوبندی علماء نے اگر مسئلہ وحدت الوجود کو کفر تسلیم بھی کیا ہو تو یہ عمومی رنگ میں ہے اس سے ان کے اکابرین کے ثابت کفریہ عقائد کا انکار نہیں نکالا جا سکتا۔ اس طرح کے چند اقوال تو بریلوی علماء سے بھی مل جائیں گے۔ مثال کے طور پر احمد رضا خان بریلوی نے وحدت الوجود کے اس معانی کو کہ اللہ اور بندے کا اتحاد مانا جائے کفر تسلیم کیا ہے تو کیا اس سے بریلوی مسلک بھی اپنے ان کفریہ و شرکیہ عقائد و نظریات سے بری مان لیا جائے جو ان میں پائیں جاتے ہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ اس طرح کے عمومی حکم بیان کرنے والوں کے سامنے جب عبارات پیش کی جاتی ہیں تو اپنے ان اکابرین کی واضح انہیں عبارات کا دفاع کرتے ہیں جن میں وحدت الوجود و دیگر کفر پایا جاتا ہے نیز ان واضح کفریات سے کبھی اظہار براءت نہیں کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ مفتی نظام الدین شامزئی ساری زندگی انہیں کفریا کے ماننے والوں اور ان کا دفاع کرنے والوں کی گود میں پڑے رہے اور بدستور انہیں کو اپنا امام اور حکیم الامت مانتے رہے جن کے کفریات خود ان پر بھی واضح تھے۔
اللہ ہی سے ہدایت کا سوال ہے، والسلام۔
 

طالب نور

رکن مجلس شوریٰ
شمولیت
اپریل 04، 2011
پیغامات
361
ری ایکشن اسکور
2,311
پوائنٹ
220
وحدت الوجود کے بارے میں تو علمائے اہل حدیث بھی نرم رویہ رکھتے رہے ہیں۔ مثلا مولانا عبداللہ روپڑی رحمہہ اللہ کی فتاوی اھلحدیث ملاحظہ فرما لیں۔
یہ بات سراسر غلط ہے کہ صوفیاء کے عقیدہ وحدت الوجود کے بارے میں علمائے اہل حدیث نے نرم رویہ رکھا ہے بلکہ اہل حدیث علماء نے ہمیشہ عقیدہ وحدت الوجود کو کفریہ و شرکیہ عقیدہ ہی مانا ہے۔ یہ ضرور ہے کہ وحدت الوجود کی اصطلاح کا ایک لغوی معانی کے بارے میں علمائے اہل حدیث کے کچھ نرم الفاظ ملتے ہیں۔ مگر کوئی بھی شخص ہرگز ثابت نہیں کر سکتا کہ کسی معتبر اہل حدیث عالم نے وحدت الوجود کی اس تشریح کو کہ "ظاہر میں بندہ باطن میں خدا" یا "عابد و معبود ایک ہیں اور ان میں فرق کرنا شرک ہے" کے مفہوم کو صحیح قرار دیا ہو یا اس واضح کفر کو اپنا عقیدہ بنایا ہو۔ جبکہ ہم دیوبندی یا بریلوی اکابرین کے جن عقائد و نظریات کو وحدت الوجود کے نام سے پیش کرتے ہیں اور کفر تسلیم کرتے ہیں ان میں یہ کفریہ و شرکیہ عقائد برملا اور واضح طور پر موجود ہیں۔
مختصر یہ کہ بحث وحدت الوجود کی اصطلاح پر نہیں بلکہ اس عقیدے پر ہے جو اس اصطلاح کے پردے میں پیش کیا جاتا ہے اور الحمدللہ اہل حدیث علماء کا دامن وحدت الوجود کے کفریہ و شرکیہ عقائد سے ہمیشہ دور رہا ہے۔ لہٰذا جو شخص محض وحدت الوجود کی اصطلاح سے علمائے اہل حدیث کو بدنام کرنا چاہتا ہے وہ اس کا کفریہ و شرکیہ مفہوم جو دیوبندی و بریلوی اکابرین کی کتب سے ثابت ہے ویسے ہی اہل حدیث علماء کی کتب سے ثابت کر کے دکھائے۔ ورنہ محض لفاظی ہے حقیقت نہیں۔ والسلام
 

qureshi

رکن
شمولیت
جنوری 08، 2012
پیغامات
235
ری ایکشن اسکور
392
پوائنٹ
88
سوری بھائی! میں عبد اللہ اچکڑالوی سے نام میں دھوکہ کھا گیا۔ روپڑی اور اچکڑالوی سے بھول ہوگئی۔ معذرت چاہتا ہوں۔
بھائی آپ اپنے معملات بھی چیک کر لیں ،اور خود سوچے کہ آپ امت کو توڑ رہے ہیں یا جوڑ رہے ہیں،بھائی آپ کی بھول سے معلوم معلوم ہوتا کہ آُ تحقیق سے نہیں اندھی تقلید سے کام لے رہے ہیں، طالب الرحمن جیسے لوگوں سے اللہ کی پناہ مانگو۔وحدت ولوجود کے مسئلہ پر تو بہت سارے علماء میں اختلاف ہے حتی کے شیخ الکل سید نذیر حسین دہلویؒ بھی۔
 
Top