شاہد نذیر
سینئر رکن
- شمولیت
- فروری 17، 2011
- پیغامات
- 2,014
- ری ایکشن اسکور
- 6,264
- پوائنٹ
- 437
بسمہ اللہ الرحمن الرحیم
دیوبندیوں اور بریلویوں میں فرق؟
نجانے کیوں بہت سے لوگوں کو یہ تلخ حقیقت ہضم نہیں ہوتی کہ دیوبندی حضرات بھی بعینہ اسی طرح کفریہ اور شرکیہ عقائد رکھتے ہیں جیسے کہ بریلوی یا رافضی۔طالب الرحمن شاہ صاحب حفظہ اللہ کی کتاب دیوبندیت تاریخ و عقائد کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ دیوبندی حضرات عقائد میں بریلویوں کے ہم قدم اور قدم بہ قدم ہیں بلکہ بعض اوقات توکفر و شرک میں بریلویوں سے بھی دو قدم آگے ہیں۔پھر بھی ایک گروہ مشرک وکافر اور دوسرا گروہ موحدو توحید پرست؟؟؟ان لوگوں پر حیرت اور افسوس ہے جن کے نزدیک جب کفر اور شرک پر بریلوی یا رافضی ٹھپہ لگا ہو تو وہ واقعی کفر اور شرک ہوتا ہے اور ان لوگوں کے پیچھے نہ تو نماز جائز ہوتی ہے اور نہ ان سے محبت لیکن اسی کفر اور شرک پر اگر دیوبندی ٹھپہ لگا ہو توان کا دل اسے قبول نہیں کرتا اور فوراً تاؤیل کی فکر ہوتی ہے اور ان کے پیچھے نماز بھی جائز ہوتی ہے بلکہ جواز پر اصرار ہوتا ہے اور ان سے محبت بھی ضروری ٹھہرتی ہے۔انا اللہ وانا الیہ راجعون
یہ دوہرے پیمانے درست نہیں۔ دیوبندی جو عقائد رکھتے ہیں اگر وہ کفریہ اور شرکیہ نہیں تو ہمیں بریلویوں اور رافضیوں کو بھی کفریہ اور شرکیہ عقائد سے پاک قرار دینا چاہیے۔ ایک ہی طرح کے عقائد پر بریلوی اور رافضی نفرت اور دیوبندی محبت کے مستحق کیوں؟؟؟
دیوبندیت کی حقیقت کو آشکار کرتی کتاب دیوبندیت سے کچھ اقتباسات ملاحظہ فرمائیں:
سبب تالیف
دیوبندی حضرات کے بارے میں عام اہلحدیث اور اکثر علماء کا بھی یہ نظریہ ہے کہ یہ لوگ موحد ہیں۔جیسا کہ حکیم محمود صاحب دیوبندیوں کے خلاف ’’علمائے دیوبند کا ماضی تاریخ کے آئینے میں‘‘ نامی کتاب لکھتے ہوئے وہ اپنا اور دیوبندیوں کا ناطہ ان الفاظ میں جوڑتے ہیں۔’’آج ہم اور دیوبندی ایک دوسرے کے بہت قریب ہیں۔اور الحمداللہ عقائدمیں بھی کوئی ایسا بعد نہیں رہا بلکہ ہمارا اور اس مسلک کا مستقبل بھی دونوں کے اتحاد پر موقوف ہے۔‘‘ ایک جگہ لکھتے ہیں:
’’اہل توحید کے ناطے سے ایک تعلق موجود ہے اور اختلاف کے باوجود وہ باقی ہے اور رہے گا اور یہی دکھ کی بات ہے۔‘‘
حکیم صاحب کا یہ معذرت خواہانہ رویہ شاید مصلحانہ ہو، ورنہ دیوبندیوں کے بارے میں عام اہلحدیثوں کا نظریہ ان کے عقائد سے ناواقفی کی وجہ سے ہے۔اسی لئے یہ ان سے رشتہ ناطہ کرنے اور ان کے پیچھے نماز پرھنے میں کوئی حرج محسوس نہیں کرتے۔
حتیٰ کہ باہمی اختلاف کو فروعی اختلاف گردانتے ہیں لیکن بریلویوں سے رشتہ نہ کرنے یا ان کے پیچھے نمازیں نہ ادا کرنے کی وجہ شرک بتلاتے ہیں۔اس کتاب کے لکھنے کی وجہ یہ ہے کہ اہلحدیث حضرات کو یہ بتلانا مقصود ہے کہ جس وجہ سے تم بریلویوں سے نفرت کرتے ہو وہی وجہ دیوبندیو ں میں بدرجہ اتم موجود ہے۔
ہر چمکتی چیز کو سونا سمجھنا عقل مندی نہیں لہذا دیوبندیوں کے دعوؤں اور تقریروں سے دھوکہ کھا کر ان کو موحد شمار کرنا بے عقلی ہے۔ اس کتاب کی تصنیف کا مقصد دیوبندیوں کے اصلی چہرے کو بے نقاب کرنا ہے۔ شاید کچھ سادہ اور ناسمجھ لوگ اس کتاب کی اشاعت کو اہلحدیث اور دیوبندی حضرات کے درمیان اختلاف کا بیج بونا گردانیں ان حضرات سے ادباً عرض ہے کہ اگر آ پ کی محبت و نفرت کے پیمانے اللہ کے لئے ہیں،یعنی ’’الحب فی اللہ والبغض فی اللہ‘‘ تو پھر یا تو بریلوی اور شیعہ حضرات کے لئے بھی دل کے دریچوں کو وا کردیں اور اگر ایسا ممکن نہیں تو انصاف کے تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ان افراد سے بھی براء ت کا اظہار کریں جو رب کی توحید کو شرک کی ناپاکی سے پلید کرنے کی مذموم کوششوں میں ملوث ہیں لیکن کھل کر سامنے نہیں آتے۔اسی طرح اس کتاب کی تصنیف کا دوسرا مقصد بھولے بھالے دیوبندی عوام کو خبردار کرنا ہے کہ دیوبندی علماء کی چکنی چپڑی باتوں اور توحید کے بلند وبانگ دعوؤں سے مرعوب ہوکر ان کی اتباع کر کے کہیں اپنی آخرت برباد نہ کر لینا۔
اگر آپ اس کتاب کو تعصب و حسد کی نظر کی بجائے اصلاح کی نظر سے پڑھیں اور جانچیں گے تو آپ کو یہ بات معلوم ہو جائے گی کہ بریلی کی طرح دیوبند کی طرف پیش قدمی بھی رب کے قرب کے بجائے رب سے دوری کا سبب بن رہی ہے، ان راستوں پر شرک و کفر کی گھاٹیاں ہیں جس میں گر کر انسان ایسے عمیق اندھیروں میں گم ہوجاتا ہے کہ ہدایت کی روشنی کا حصول ناممکن نہیں تو کم ازکم بے حد مشکل ضرور ہو جاتا ہے۔شرک کے ان تاریک راستوں پر چلنے کے بجائے کتاب وسنت کے روشن راستوں کو اختیار کریں۔اور اپنے علماء کے شرکیہ عقائد سے برات کا اظہار کریں اور اپنے عقیدوں کو کتاب وسنت کی روشنی میں سنواریں نجات کا دارومدار توحید سے وابستگی اور شرک سے علیحدگی پر ہے۔ ہماری ان معروضات کو ٹھنڈے دل سے پڑھیں۔اور آخرت کی فکر کریں۔اللہ ہمیں ہدایت دے اور اپنی توحید کو ہمارے دلوں میں راسخ کردے۔تاکہ ہم جہنم کی دھکتی ہوئی آگ سے بچ سکیں۔آمین
پروفیسر سید طالب الرحمن
اصلی چہرہ
آج کل عام لوگوں کے ذہنوں میں یہ بات بری طرح سمائی ہے کہ دیوبندی علماء توحید کے علمبردار ہیں لیکن حقیقت کچھ اور ہے۔شرک کی جتنی قسمیں بریلویوں میں پائی جاتی ہیں جن پر دیوبندی علماء بڑے برستے اور گرجتے ہیں اس سے زیادہ خود دیوبندی مسلک میں ملتی ہیں۔ عقیدہ وحدۃ الوجودپر یقین رکھ کر یہ اسی صف میں کھڑے ہیں جس میں عزیر علیہ السلام کو اللہ کا حصہ بنانے والوں اور عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا بنانے والوں کو آپ کھڑا پاتے ہیں۔اسی طرح اللہ کی صفات میں اوروں کو شریک کرنے میں یہ لوگ بریلویوں سے دو قدم آگے نظر آتے ہیں۔ آپ ان کے حالات جاننے کے لئے ان کے اپنے حنفی مذہب کے ایک بریلوی مولوی ’’علامہ ارشد القادری‘‘ کا تبصرہ ہی کافی پائیں گے۔وہ لکھتے ہیں:۔’’لوگوں کو دیوبندی علماء کی پرزور تقاریر (جو اللہ کے علاوہ غیب، قدرت و تصرف کے رد میں ہوتی ہیں) اس خوش عقیدگی میں مبتلا کردیں گی کہ یہ لوگ توحید کے سچے علمبردار اور کفر و شرک کے خلاف تیغ بے نیام ہیں۔
لیکن آہ میں کن لفظوں میں اس سر بستہ راز کو بے نقاب کروں اور اس خاموش سطح کے نیچے ایک خوفناک طوفان چھپا ہوا ہے۔تصویر کے اس رخ کی دل کشی اسی وقت تک باقی ہے جب تک کہ دوسرا رخ نگاہوں سے اوجھل ہے۔یقین کرتا ہوں کہ پردہ اٹھ جانے کے بعد توحید پرستی کی ساری گرمجوشیوں کا ایک آن میں بھرم کھل جائے گا۔دیوبندی جماعت دراصل مذہبی تاریخ کا سب سے بڑا اور عجیب طلسم فریب ہے ان کی حرکت رہگذر کے ان ٹھگوں سے کچھ مختلف نہیں جو آنکھوں میں دھول جھونک کر مسافروں کولوٹ لیا کرتے ہیں۔
ورنہ اگر خالص توحید کا جذبہ اس کے پس منظر میں کار فرما ہوتا تو شرک کے سوال پر اپنے اور بیگانے کے درمیان قطعاً کوئی تفریق روا نہ رکھی جاتی۔اسی لئے دیوبندی حضرات کی خود فریبیوں کا جادوتوڑنے کیلئے میرے ذہن میں زیر نظر کتاب کی ترتیب کا خیال پیدا ہوا کہ اصحاب عقل و دانش واضح طور پر محسوس کرلیں کہ جو لوگ دوسروں پر شرک کا الزام عائد کرتے ہیں اپنے نامہ اعمال کے آئینہ میں خود کتنے بڑے مشرک ہیں اور جب میں نے ان اوراق کو پلٹ دیا اور لوگوں نے اسے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا تو توحید کی ساری گرماگرمی یک دم سرد پڑجائے گی۔‘‘(خلاصہ از زلزلہ)
یہ ہے وہ کلام جس سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ جس طرح بریلوی شرک کی پلیدی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ دیوبندی بھی اسی پلیدی میں لت پت ہیں یہ الگ بات ہے کہ وہ مانتے نہیں یعنی ایک چور دوسرا چتر والی بات ہے۔
آئیے اب آپ کو ہم اس وادی کی سیر کراتے ہیں جس میں دیوبندی حضرات کے اپنے کفر کے خار دار اشجار اگے ہوئے ہیں اور وہ اسے دنیا کی نگاہوں سے اوجھل رکھنے کی ناکام سعی کرتے ہیں۔
اللہ پر زنا کی تہمت
نظریہ وحدت الوجود میں ڈوبا ہوا ایک قصہ پڑھیئے جو تذکرۃ الرشیدمیں ص ۲۴۲ پر پیر جیو محمد جعفر صاحب ساڈھوری بیان کرتے ہیں۔(تذکرۃ الرشید ۲۴۲،جلد نمبر۲)ایک روز حضرت مولانا خلیل احمد صاحب زید مجدہ نے دریافت کیا کہ حضرت یہ حافظ لطافت علی عرف حافظ مینڈھو شیخ پوری کیسے شخص تھے؟حضرت نے فرمایا ’’پکا کافر تھا‘‘ اور اس کے بعد مسکرا کر ارشاد فرمایا کہ ’’ضامن علی جلال آبادی تو توحید ہی میں غرق تھے‘‘
ایک بار ارشاد فرمایا کہ ضامن علی جلا ل آبادی کی سہانپور میں بہت سی رنڈیاں مرید تھیں ایک بار یہ سہانپور میں کسی رنڈی کے مکان پر ٹھہرے ہوئے تھے سب مریدنیاں اپنے میاں صاحب کی زیارت کیلئے حاضر ہوئیں مگر ایک رنڈی نہیں آئی میاں صاحب بولے کہ فلانی کیوں نہیں آئی رنڈیوں نے جواب دیا میاں صاحب ہم نے اس سے بہتیرا کہا کہ چل میاں صاحب کی زیارت کو اس نے کہا میں بہت گناہ گارہوں اور بہت روسیاہ ہوں میاں صاحب کو کیا منہ دکھاؤں میں زیارت کے قابل نہیں میاں صاحب نے کہا نہیں جی تم اسے ہمارے پاس ضرور لانا چناچہ رنڈیاں اسے لیکر آئیں جب و ہ سامنے آئی تو میاں صاحب نے پوچھا بی تم کیوں نہیں آئی تھیں؟ اس نے کہا حضرت روسیاہی کی وجہ سے زیارت کو آتی ہوئی شرماتی ہوں۔ میاں صاحب بولے بی تم شرماتی کیوں ہو کرنے والا کون اور کرانے والا کون وہ تو وہی ہے رنڈی یہ سنکر آگ ہوگئی اور خفا ہو کر کہا لاحول ولا قوۃ اگرچہ میں روسیاہ و گنہگار ہوں مگر ایسے پیر کے منہ پر پیشاب بھی نہیں کرتی۔میاں صاحب شرمندہ ہو کر سرنگوں رہ گئے اور وہ اٹھ کر چلدی۔(از پیر جیو محمد جعفر صاحب ساڈھوری)
استغفراللہ من ھذہ الخرافات الکفریۃ
یہ ہے وحدت الوجود کا عروج۔ چلیں ہم یہ اعتراض نہیں کرتے کہ رنڈیاں ان کی مرید اور وہ ان کے پیر رنڈیاں ان کی زیارت کو آئیں اور وہ رنڈیوں کے گھر قیام کریں۔ہمیں اعتراض تو یہ ہے کہ آج تک مختلف امتوں نے اپنے ابنیاء پر تو شراب خوری و بدکاری کا بہتان باندھا لیکن اپنے رب کے بارے میں تو کسی کی زبان سے ایسی بات نہیں نکلی تھی۔
لیکن یہاں تو ضامن علی جلال آبادی جو توحید(وحدت الوجود) میں غرق تھے اس نے نعوذباللہ زنا کرینوالا اور کروانے والا اور جس کے حکم سے زنا ہورہا ہے اللہ کو قرار دیا۔(نعوذباللہ من ھذا الکفر) نقل کفر کفر نباشد۔
یہ ہے دیوبندیوں کی اصل توحید۔
ان الفاظ کے ساتھ ہی میں اپنی معروضات کا اختتام کرتا ہوں۔
اور مجھے قوی امید ہے کہ اس کتاب کو پڑھ کر ایک اہلحدیث یہ سوچنے پر ضرور مجبور ہوگا کہ جب جرم بریلویوں اور دیوبندیوں کا ایک سا ہے تو پھر ان سے سلوک روا رکھنے میں امتیاز کیوں!
ان کے پیچھے نماز ادا کرنا اور رشتہ ناطہ کرنا بھی ویسے ہی غلط ہے، جیسے بریلویوں سے اور ایک دیوبندی کتاب کو پڑھ کر یہ فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں ہوگا کہ علماء دیوبند کے عقائد میں شرک کی ملاوٹ و افر مقدار میں موجود ہے۔
لہذا ا ن کے ساتھ ایک موحد کا چلنا ناممکن ہے اور اسے قرآن و سنت کا راستہ اختیار کرنے میں ذرا دقت پیش نہ آئے۔اللہ ہم سب کو ہدایت نصیب فرمائے۔آمین۔
ٰ
مزید تفصیل اور مکمل کتاب پڑھیں یہاں : دیوبندیت