• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

دیوبندیوں اور بریلویوں کا عقائد میں اختلاف مسلک اہل حدیث کے افراد کو کیوں نظر نہیں آتا

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
کسی کتاب میں مصنف کے تحریر کردہ واقعات پڑھ کر کسی مسلک کے عقائد اخذ کرنا ایک غیر مناسب حرکت ہے
اس کو مثال سے واضح کرتا ہوں
صحیح مسلم میں ایک طویل حدیث میں ایک واقعہ نقل ہوا ہے
وَبَيْنَا صَبِيٌّ يَرْضَعُ مِنْ أُمِّهِ ، فَمَرَّ رَجُلٌ رَاكِبٌ عَلَى دَابَّةٍ فَارِهَةٍ وَشَارَةٍ حَسَنَةٍ ، فَقَالَتْ أُمُّهُ : اللَّهُمَّ اجْعَلِ ابْنِي مِثْلَ هَذَا ، فَتَرَكَ الثَّدْيَ وَأَقْبَلَ إِلَيْهِ فَنَظَرَ إِلَيْهِ ، فَقَالَ : اللَّهُمَّ لَا تَجْعَلْنِي مِثْلَهُ ، ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَى ثَدْيِهِ فَجَعَلَ يَرْتَضِعُ ، قَالَ : فَكَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَحْكِي ارْتِضَاعَهُ بِإِصْبَعِهِ السَّبَّابَةِ فِي فَمِهِ ، فَجَعَلَ يَمُصُّهَا ، قَالَ : وَمَرُّوا بِجَارِيَةٍ وَهُمْ يَضْرِبُونَهَا وَيَقُولُونَ زَنَيْتِ سَرَقْتِ وَهِيَ ، تَقُولُ : حَسْبِيَ اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ ، فَقَالَتْ أُمُّهُ : اللَّهُمَّ لَا تَجْعَلِ ابْنِي مِثْلَهَا ، فَتَرَكَ الرَّضَاعَ وَنَظَرَ إِلَيْهَا ، فَقَالَ : اللَّهُمَّ اجْعَلْنِي مِثْلَهَا ، فَهُنَاكَ تَرَاجَعَا الْحَدِيثَ ، فَقَالَتْ حَلْقَى مَرَّ رَجُلٌ حَسَنُ الْهَيْئَةِ ، فَقُلْتُ : اللَّهُمَّ اجْعَلِ ابْنِي مِثْلَهُ ، فَقُلْتَ : اللَّهُمَّ لَا تَجْعَلْنِي مِثْلَهُ ، وَمَرُّوا بِهَذِهِ الْأَمَةِ وَهُمْ يَضْرِبُونَهَا ، وَيَقُولُونَ : زَنَيْتِ سَرَقْتِ ، فَقُلْتُ : اللَّهُمَّ لَا تَجْعَلِ ابْنِي مِثْلَهَا ، فَقُلْت : اللَّهُمَّ اجْعَلْنِي مِثْلَهَا ، قَالَ : إِنَّ ذَاكَ الرَّجُلَ كَانَ جَبَّارًا ، فَقُلْتُ : اللَّهُمَّ لَا تَجْعَلْنِي مِثْلَهُ ، وَإِنَّ هَذِهِ يَقُولُونَ لَهَا زَنَيْتِ ، وَلَمْ تَزْنِ ، وَسَرَقْتِ ، وَلَمْ تَسْرِقْ ، فَقُلْتُ : اللَّهُمَّ اجْعَلْنِي مِثْلَهَا "
.
( تیسرا ) بنی اسرائیل میں ایک بچہ تھا جو اپنی ماں کا دودھ پی رہا تھا کہ اتنے میں ایک بہت عمدہ جانور پر خوش وضع، خوبصورت سوار گزرا۔ تو اس کی ماں اس کو دیکھ کر کہنے لگی کہ یا اللہ ! میرے بیٹے کو اس سوار کی طرح کرنا۔ یہ سنتے ہی اس بچے نے ماں کی چھاتی چھوڑ دی اور سوار کی طرف منہ کر کے اسے دیکھا اور کہنے لگا کہ یااللہ ! مجھے اس کی طرح نہ کرنا۔ اتنی بات کر کے پھر چھاتی میں جھکا اور دودھ پینے لگا۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ گویا میں ( اس وقت ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ رہا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلی کو چوس کر دکھایا کہ وہ لڑکا اس طرح چھاتی چوسنے لگا۔ پھر ایک لونڈی ادھر سے گزری جسے لوگ مارتے جاتے تھے اور کہتے تھے کہ تو نے زنا کیا اور چوری کی ہے۔ وہ کہتی تھی کہ مجھے اللہ تعالیٰ ہی کافی ہے اور وہی میرا وکیل ہے۔ تو اس کی ماں نے کہا کہ یا اللہ ! میرے بیٹے کو اس کی طرح نہ کرنا۔ یہ سن کر بچے نے پھر دودھ پینا چھوڑ دیا اور اس عورت کی طرف دیکھ کر کہا کہ یا اللہ مجھے اسی لونڈی کی طرح کرنا۔ اس وقت ماں اور بیٹے میں گفتگو ہوئی تو ماں نے کہا کہ او سرمنڈے ! جب ایک شخص اچھی صورت کا نکلا اور میں نے کہا کہ یا اللہ ! میرے بیٹے کو ایسا کرنا تو تو نے کہا کہ یا اللہ مجھے ایسا نہ کرنا اور لونڈی جسے لوگ مارتے جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تو نے زنا کیا اور چوری کی ہے تو میں نے کہا کہ یا اللہ ! میرے بیٹے کو اس کی طرح کا نہ کرنا تو تو کہتا ہے کہ یا اللہ مجھے اس کی طرح کرنا ( یہ کیا بات ہے )؟ بچہ بولا، وہ سوار ایک ظالم شخص تھا، میں نے دعا کی کہ یا اللہ مجھے اس کی طرح نہ کرنا اور اس لونڈی پر لوگ تہمت لگاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تو نے زنا کیا اور چوری کی ہے حالانکہ اس نے نہ زنا کیا ہے اور نہ چوری کی ہے تو میں نے کہا کہ یا اللہ مجھے اس کی مثل کرنا۔
اب اگر کوئی شریر النفس یہ واقعہ نقل کرے اور کہے مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ بچہ بھی عالم الغیب ہو سکتا ہے اور بطور دلیل مندرجہ بالا حدیث تحریر کردے تو آپ کیا کہیں گے
آپ یقینا کہیں گے کہ اللہ تبارک و تعالی کے سوا کوئی بھی عالم الغیب نہیں ہو سکتا کیوں کہ یہ بات صراحت کے ساتھ قرآن و احادیث میں موجود ہے اور جہاں تک مذکورہ بچہ کا علم الغیب میں کچھ خبر بیان کرنے کا تعلق ہے تو بطور کرامت ہے نہ کہ یہ واقعہ اس پر دلالت کرتا ہے کہ بچہ بھی عالم الغیب ہو سکتا ہے
اسی طرح بریلوي مسلک اور دیوبندی مسلک کی کتب میں کئی خرق العادہ واقعات درج ہیں ، لیکن دیوبند مسلک کے افراد اس سے کبھی بھی یہ نتیجہ اخذ نہیں کرتے کہ عالم الغیب اللہ تبارک و تعالی کے علاوہ کوئی اور بھی ہوسکتا ہے
ثبوت
دیوبند اپنے فتاوی میں تحریر کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو عالم الغیب ماننا شرک ہے
فتوی کچھ یوں ہے
آپ علیہ السلام نے کبھی اس کا دعویٰ نہیں کیا، کلام اللہ شریف اور بہت سی احادیث میں موجود ہے کہ آپ علیہ السلام عالم الغیب نہ تھے اور یہ عقیدہ رکھنا کہ آپ علیہ السلام عالم الغیب تھے صریح شرک ہے۔
http://darulifta-deoband.org/showuserview.do?function=answerView&all=ur&id=18839
کیا آپ بریلوی حضرات کا اس طرح کا فتوی دکھا سکتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو عالم الغیب مانے وہ مشرک ہے
یہی دیوبندی مسلک اور بریلوی مسلک میں فرق ہے جو آج کل کے اہل حدیث حصرات کو نظر نہیں آتا
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
کسی کتاب میں مصنف کے تحریر کردہ واقعات پڑھ کر کسی مسلک کے عقائد اخذ کرنا ایک غیر مناسب حرکت ہے
اس کو مثال سے واضح کرتا ہوں
صحیح مسلم میں ایک طویل حدیث میں ایک واقعہ نقل ہوا ہے
وَبَيْنَا صَبِيٌّ يَرْضَعُ مِنْ أُمِّهِ ، فَمَرَّ رَجُلٌ رَاكِبٌ عَلَى دَابَّةٍ فَارِهَةٍ وَشَارَةٍ حَسَنَةٍ ، فَقَالَتْ أُمُّهُ : اللَّهُمَّ اجْعَلِ ابْنِي مِثْلَ هَذَا ، فَتَرَكَ الثَّدْيَ وَأَقْبَلَ إِلَيْهِ فَنَظَرَ إِلَيْهِ ، فَقَالَ : اللَّهُمَّ لَا تَجْعَلْنِي مِثْلَهُ ، ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَى ثَدْيِهِ فَجَعَلَ يَرْتَضِعُ ، قَالَ : فَكَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَحْكِي ارْتِضَاعَهُ بِإِصْبَعِهِ السَّبَّابَةِ فِي فَمِهِ ، فَجَعَلَ يَمُصُّهَا ، قَالَ : وَمَرُّوا بِجَارِيَةٍ وَهُمْ يَضْرِبُونَهَا وَيَقُولُونَ زَنَيْتِ سَرَقْتِ وَهِيَ ، تَقُولُ : حَسْبِيَ اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ ، فَقَالَتْ أُمُّهُ : اللَّهُمَّ لَا تَجْعَلِ ابْنِي مِثْلَهَا ، فَتَرَكَ الرَّضَاعَ وَنَظَرَ إِلَيْهَا ، فَقَالَ : اللَّهُمَّ اجْعَلْنِي مِثْلَهَا ، فَهُنَاكَ تَرَاجَعَا الْحَدِيثَ ، فَقَالَتْ حَلْقَى مَرَّ رَجُلٌ حَسَنُ الْهَيْئَةِ ، فَقُلْتُ : اللَّهُمَّ اجْعَلِ ابْنِي مِثْلَهُ ، فَقُلْتَ : اللَّهُمَّ لَا تَجْعَلْنِي مِثْلَهُ ، وَمَرُّوا بِهَذِهِ الْأَمَةِ وَهُمْ يَضْرِبُونَهَا ، وَيَقُولُونَ : زَنَيْتِ سَرَقْتِ ، فَقُلْتُ : اللَّهُمَّ لَا تَجْعَلِ ابْنِي مِثْلَهَا ، فَقُلْت : اللَّهُمَّ اجْعَلْنِي مِثْلَهَا ، قَالَ : إِنَّ ذَاكَ الرَّجُلَ كَانَ جَبَّارًا ، فَقُلْتُ : اللَّهُمَّ لَا تَجْعَلْنِي مِثْلَهُ ، وَإِنَّ هَذِهِ يَقُولُونَ لَهَا زَنَيْتِ ، وَلَمْ تَزْنِ ، وَسَرَقْتِ ، وَلَمْ تَسْرِقْ ، فَقُلْتُ : اللَّهُمَّ اجْعَلْنِي مِثْلَهَا "
.
( تیسرا ) بنی اسرائیل میں ایک بچہ تھا جو اپنی ماں کا دودھ پی رہا تھا کہ اتنے میں ایک بہت عمدہ جانور پر خوش وضع، خوبصورت سوار گزرا۔ تو اس کی ماں اس کو دیکھ کر کہنے لگی کہ یا اللہ ! میرے بیٹے کو اس سوار کی طرح کرنا۔ یہ سنتے ہی اس بچے نے ماں کی چھاتی چھوڑ دی اور سوار کی طرف منہ کر کے اسے دیکھا اور کہنے لگا کہ یااللہ ! مجھے اس کی طرح نہ کرنا۔ اتنی بات کر کے پھر چھاتی میں جھکا اور دودھ پینے لگا۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ گویا میں ( اس وقت ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ رہا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلی کو چوس کر دکھایا کہ وہ لڑکا اس طرح چھاتی چوسنے لگا۔ پھر ایک لونڈی ادھر سے گزری جسے لوگ مارتے جاتے تھے اور کہتے تھے کہ تو نے زنا کیا اور چوری کی ہے۔ وہ کہتی تھی کہ مجھے اللہ تعالیٰ ہی کافی ہے اور وہی میرا وکیل ہے۔ تو اس کی ماں نے کہا کہ یا اللہ ! میرے بیٹے کو اس کی طرح نہ کرنا۔ یہ سن کر بچے نے پھر دودھ پینا چھوڑ دیا اور اس عورت کی طرف دیکھ کر کہا کہ یا اللہ مجھے اسی لونڈی کی طرح کرنا۔ اس وقت ماں اور بیٹے میں گفتگو ہوئی تو ماں نے کہا کہ او سرمنڈے ! جب ایک شخص اچھی صورت کا نکلا اور میں نے کہا کہ یا اللہ ! میرے بیٹے کو ایسا کرنا تو تو نے کہا کہ یا اللہ مجھے ایسا نہ کرنا اور لونڈی جسے لوگ مارتے جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تو نے زنا کیا اور چوری کی ہے تو میں نے کہا کہ یا اللہ ! میرے بیٹے کو اس کی طرح کا نہ کرنا تو تو کہتا ہے کہ یا اللہ مجھے اس کی طرح کرنا ( یہ کیا بات ہے )؟ بچہ بولا، وہ سوار ایک ظالم شخص تھا، میں نے دعا کی کہ یا اللہ مجھے اس کی طرح نہ کرنا اور اس لونڈی پر لوگ تہمت لگاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تو نے زنا کیا اور چوری کی ہے حالانکہ اس نے نہ زنا کیا ہے اور نہ چوری کی ہے تو میں نے کہا کہ یا اللہ مجھے اس کی مثل کرنا۔
اب اگر کوئی شریر النفس یہ واقعہ نقل کرے اور کہے مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ بچہ بھی عالم الغیب ہو سکتا ہے اور بطور دلیل مندرجہ بالا حدیث تحریر کردے تو آپ کیا کہیں گے
آپ یقینا کہیں گے کہ اللہ تبارک و تعالی کے سوا کوئی بھی عالم الغیب نہیں ہو سکتا کیوں کہ یہ بات صراحت کے ساتھ قرآن و احادیث میں موجود ہے اور جہاں تک مذکورہ بچہ کا علم الغیب میں کچھ خبر بیان کرنے کا تعلق ہے تو بطور کرامت ہے نہ کہ یہ واقعہ اس پر دلالت کرتا ہے کہ بچہ بھی عالم الغیب ہو سکتا ہے
اسی طرح بریلوي مسلک اور دیوبندی مسلک کی کتب میں کئی خرق العادہ واقعات درج ہیں ، لیکن دیوبند مسلک کے افراد اس سے کبھی بھی یہ نتیجہ اخذ نہیں کرتے کہ عالم الغیب اللہ تبارک و تعالی کے علاوہ کوئی اور بھی ہوسکتا ہے
اس کا مطلب ہے کہ اگر عقیدے اور بنیا دی مسائل کے بارے حنفی کتابوں میں خرافات لکھی ہیں تو فروعی مسائل میں اس بھی بڑی غلطی ہو سکتی ہے لیکن آپ بنیادی مسائل کی غلطی کو تسلیم کر رہے ہیں مگر فروعی مسائل کے بارے نہیں مانتے کہ اس میں بھی غلطی ہو سکتی ہے چلو خیر ہمیں اچھا لگا کہ غلطی کو آپ نے تسلیم کیا اور تقلید کی روش کے مخالف چل پڑے!!!
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
اس کا مطلب ہے کہ اگر عقیدے اور بنیا دی مسائل کے بارے حنفی کتابوں میں خرافات لکھی ہیں تو فروعی مسائل میں اس بھی بڑی غلطی ہو سکتی ہے لیکن آپ بنیادی مسائل کی غلطی کو تسلیم کر رہے ہیں مگر فروعی مسائل کے بارے نہیں مانتے کہ اس میں بھی غلطی ہو سکتی ہے چلو خیر ہمیں اچھا لگا کہ غلطی کو آپ نے تسلیم کیا اور تقلید کی روش کے مخالف چل پڑے!!!
خرافات نہیں کرامات مذکور ہیں ، اور کون سی غلطی جس کی تسلیم کرنے کی آپ بات کر رہیے ہیں
محترم میرے مضمون کو دوبارہ پڑھیں
 
شمولیت
نومبر 21، 2013
پیغامات
105
ری ایکشن اسکور
35
پوائنٹ
56
یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں کہ دیوبندی اور بریلوی میں فرق ہے ایک امام کے پیرو کار پھر عقائد میں فرق ؟یہ کس طرح ممکن ہے؟
کیا آپ اور بریلوی ایک ہی امام کے مقلد نہیں؟پھر فرق کہاں سے شروع ہوا؟
اصل مسائل کی جڑ تو تقلید ہے جس کو آپ نے اپنے سینے سے لگا رکھا ہے جیسے یہی سارا اسلام ہے ۔
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں کہ دیوبندی اور بریلوی میں فرق ہے ایک امام کے پیرو کار پھر عقائد میں فرق ؟یہ کس طرح ممکن ہے؟
کیا آپ اور بریلوی ایک ہی امام کے مقلد نہیں؟پھر فرق کہاں سے شروع ہوا؟
اصل مسائل کی جڑ تو تقلید ہے جس کو آپ نے اپنے سینے سے لگا رکھا ہے جیسے یہی سارا اسلام ہے ۔
بریلوی حضرات صرف دعوی تقلید کرتے ہیں
حنفی فقہ میں اذان سے پہلے درود کا ذکر نہیں لیکن بریلوی پڑھتے ہیں
فقہ حنفی میں 12 ربیع الاول پر جو خرافات بریلوی کرتے ہیں ان کا ذکر فقہ حنفی میں کہیں نہیں
صرف دعوی پر اعتماد نہیں کیا جاتا عملا بھی دیکھا جاتا ہے کہ فلاں مسلک کیا کر رہا ہے
قادیانی بھی اسلام پر چلنے کا دعوی کرتے ہیں تو کیا وہ بھی مسلم ہیں ؟؟؟؟
 
شمولیت
نومبر 21، 2013
پیغامات
105
ری ایکشن اسکور
35
پوائنٹ
56
کیا ا
بریلوی حضرات صرف دعوی تقلید کرتے ہیں
حنفی فقہ میں اذان سے پہلے درود کا ذکر نہیں لیکن بریلوی پڑھتے ہیں
فقہ حنفی میں 12 ربیع الاول پر جو خرافات بریلوی کرتے ہیں ان کا ذکر فقہ حنفی میں کہیں نہیں
صرف دعوی پر اعتماد نہیں کیا جاتا عملا بھی دیکھا جاتا ہے کہ فلاں مسلک کیا کر رہا ہے
قادیانی بھی اسلام پر چلنے کا دعوی کرتے ہیں تو کیا وہ بھی مسلم ہیں ؟؟؟؟
ٓپ اور بریلوی حضرات میں اتنا ہی فرق ہے جتنا قادیانی اور مسلمان میں اب دونوں میں کون مسلمان یہ بھی بتا دیں؟
دعویٰ تو آپ بھی امام ابو حنیفہؒ کی تقلید کا کرتے ہیں تو کیا عملی زندگی میں جو خرافات فقہ میں ہیں وہ آپ کو امام صاحب نے بتائی ہیں؟
میرے خیال میں ہرگز نہیں ۔امام صاحبؒ قطعاً اس طرح کے نہیں یہ آپ کے رعایتی پیکج ہیں۔
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
اسی طرح بریلوي مسلک اور دیوبندی مسلک کی کتب میں کئی خرق العادہ واقعات درج ہیں ، لیکن دیوبند مسلک کے افراد اس سے کبھی بھی یہ نتیجہ اخذ نہیں کرتے کہ عالم الغیب اللہ تبارک و تعالی کے علاوہ کوئی اور بھی ہوسکتا ہے
ثبوت
دیوبند اپنے فتاوی میں تحریر کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو عالم الغیب ماننا شرک ہے
کیا آپ بریلوی حضرات کا اس طرح کا فتوی دکھا سکتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو عالم الغیب مانے وہ مشرک ہے
یہی دیوبندی مسلک اور بریلوی مسلک میں فرق ہے جو آج کل کے اہل حدیث حصرات کو نظر نہیں آتا
محترم بھائی میں بھی بریلوی سے تبلیغی جماعت میں آیا تھا کافی سہ روزے لگائے احمد علی لاہوری مسجد میں سب میرے دوست ہیں- میں اقرار کرتا ہوں کہ دونوں کے عقائد میں بنیادی طور پر فرق ہے مگر باہم میل جول کی وجہ سے اور شیطان کے جوڑ کے فلسفے کی وجہ سے اور اسی طرح دوسرے محرکات کی وجہ سے یہ فرق کبھی کبھی ختم ہو جاتا ہے یا کر دیا جاتا ہے یہی چیزیں اہل حدیث میں بھی کبھی کبھی آ جاتی ہیں چنانچہ شاہ اسماعیل شہید کی تقویۃ الایمان دیکھیں اور صراط مستقیم دیکھیں تو حیرت ہوتی ہے-
محترم بھائی مجھے آپ سے آپکے بزرگوں کے بارے فتوی نہیں لینا کہ آپ فما بال القرون الاولی کے جواب میں کہ سکتے ہیںقال علمھا عند ربی فی کتاب مگر محترم بھائی جو چیز عقیدہ میں بگاڑ لا چکی ہے یا لا رہی ہے اسکے رد کا لازمی مطالبہ کروں گا

محترم بھائی ایک لحاظ سے آپکی بات سو فیصد ٹھیک ہے کہ آپ میں اور بریلویوں میں فرق ہے کیونکہ یہ دونوں گروہوں کی بنیاد میں واقعی فرق ہے
مگر بھائی میری بات بھی ٹکھرانے کے قابل نہیں کہ باہم میل جول سے یہ فرق ختم ہو رہا ہے یا کہیں کر دیا گیا ہے اور اسکے دو ثبوت ہیں

1۔دیوبندیوں کے بریلویوں سے اس میل جول سے پیدا ہونے والے بگاڑ کے رد عمل میں دیوبندیوں کے بڑے گروہ سے ایک گروہ بنام اشاعت التوحید و السنۃ کا علیحدہ ہونا- ذرا نام پر غور کریں جو اس بگاڑ کی خرابی کو ظاہر کر رہا ہے کہ بگاڑ کس چیز میں تھا- جیسے شیعان علی کے جواب میں اہل السنۃ والجماعۃ کا نام رکھا گیا یا پھر تقلید کے ردعمل میں اہل حدیث کا نام رکھا گیا وغیرہ-پس اس سے بھی لگتا ہے کہ بریلویوں جیسا استدلال کیا جاتا ہے

2۔کرامات سے عقیدہ بنا لینا- محترم بھائی اس میں دو طرح کے لوگ میں نے پچھلے تھریڈ میں بیان کیے ہیں
پہلے وہ جنھوں نے کرامات سے اپنے عقائد بنا لئے جیسے امداد اللہ مکی کے مرید جب ڈوبنے لگے تو انہوں نے فریاد کی کہ اس سے زیادہ مدد کا کون سا وقت ہو گا- اسی طرح غیب کے بارے میں بھی ایسے واقعات ہیں کہ لوگ عقیدہ بنا کر آپکے ولیوں سے غیب پوچھنے آتے اور پھر جواب بھی دیا جاتا-اگرچہ میں آپ کو ان میں سے گمان نہیں کرتا
دوسرے وہ جنہوں نے ابھی عقیدہ بنایا تو نہیں یعنی ابھی مدد مانگنا شروع تو نہیں کی مگر قوی خدشہ ہے کہ وہ بھی اگر پہلے لوگوں کا رد نہیں کریں گے تو اس میں گر سکتے ہیں محترم بھائی اسکے لئے ذات انواط کے واقعے پر ذرا غور کریں کہ اس دور میں نئے صحابہ نے ایک طریقے کا ابھی اس طرح رد نہیں دیکھا تھا تو ذات انواط کی بات کر بہٹھے تو آج اگر آپ اس عمل کا رد نہیں کریں گے جس طرح آپکے اشاعت التوحید والے بھائی کرتے ہیں تو آپ کی گارنٹی کون دے گا جیسے بنی اسرائیل کے علماء کے روکنے سے وہ نہ رکے تو وہ بھی ان میں گھل مل گئے تو اللہ نے انکے دل بدل دیئے

پس میرا مقصد یہ ہے کہ کم از کم ان چیزوں کا کھل کر رد کریں جہاں کوئی تاویل ممکن نہیں جیسے امداد اللہ مکی کے واقعات، ان کے پیر نور محمد کی شرکیہ نعت- اگرچہ بزگوں کو بے شک نکال سکتے ہیں مگر عقیدے کا رد لازمی ہے
اللہ نے فرمایا کونوا قوامین للہ شھداء بالقسط ولا یجرمنکم شنان قوم علی ان لا تعدلوا
یعنی اللہ کے لئے انصاف کی گواہی دینے والے بنو اور کسی قوم سے دشمنی کی وجہ سے انصاف کو نہ چھوڑو
اللہ ہم سب کو حق سمجھنے اور عمل کی توفیق عطا فرمائے امین
تلمیذ

نوٹ: علم غیب پر بھی علیحدہ تفصیل سے ان شاء اللہ صبح بات کروں گا
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
نوٹ: علم غیب پر بھی علیحدہ تفصیل سے ان شاء اللہ صبح بات کروں گا
محترم بھائی اللہ قرآن میں فرماتا ہے کہ ثم تردون الی عالم الغیب کہ تم عالم الغیب کی طرف لوٹائے جاؤ گے اب اگر عالم الغیب اللہ کے علاوہ کوئی اور ہو سکتا ہے تو پھر اسکا مطلب ہے کہ ہم اسکی طرف بھی لوٹائے جا سکتے ہیں جس کے غلط ہونے پر بریلوی دیوبندی اہل حدیث کا اتفاق ہے لیکن اس آیت سے جو دوسری چیز ثابت ہوتی ہے کہ پھر عالم الغیب بھی کوئی اور نہیں ہو سکتا اس پر اتفاق کیوں نہیں
اسکی وجہ میں بتاتا ہوں کہ وہ عالم الغیب کے مفہوم میں اختلاف کرتے ہیں جس کی وجہ سے بریلوی اوپر اتفاق کے باوجود عالم الغیب اوروں کے لئے ثابت کرتے ہیں پس ثابت ہوا کہ خالی نبی کے عالم الغیب نہ ہونے کے نعرہ لگا لینے سے عقیدہ درست نہیں ہو سکتا بلکہ نعرہ کے اندر عالم الغیب کے لفظ کے صحیح مفہوم کا واضح ہونا بھی اشد ضروری ہے
میرے خیال میں ایک ہوتا ہے غیب جاننا اور ایک ہوتا ہے غیب پر مطلع ہونا- غیب جاننے والے کو عالم الغیب کہیں گے مگر غیب پر مطلع ہونے والے کو عالم الغیب نہیں کہیں گے جیسے آپکو پتہ ہے کہ قیامت کون سے دن آئے گی مگر کوئی آپکو عالم الغیب نہیں کہتا کیونکہ ان معلومات پر آپ حدیث کے ذریعے مطلع ہوئے ہیں-آپکو اوباما کا نہیں پتا کہ وہ کیا کر رہا ہے مگر کوئی آپکو فون کر کے بتا دے کہ وہ مر چکا ہے تو پھر بھی آپکو عالم الغیب نہیں کہیں گے- اسی سلسلے میں آیت ہے عالم الغیب فلا یظھر علی غیبہ احدا الا من ارتضی من رسول یعنی اصل عالم الغیب تو وہی ہے مگر اپنی مرضی سے جس پیامبر کو چاہتا ہے بتاتا ہے
پس نبی اکرم صلی اللہ کے غیب پر مطلع ہونے کے معجزات اور ولیوں کی کرامات ثم ترادون الی عالم الغیب کے خلاف نہیں ہیں
اب بریلویوں کی طرف آتے ہیں تو وہ بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عطائی طاقتیں ہی مانتے ہیں یعنی خود غیب نہیں جانتے بلکہ اللہ نے مطلع کیا ہے جو بظاہر تو آپکے اور ہمارے عقیدے کی طرح ہی نظر آتا ہے پھر کون سا فرق ہے جس کی وجہ سے وہ ہم سے جدا ہوتے ہیں لیکن اس پر پہلے آپ سے وضاحت چاہئے تاکہ شروع کیے گئے موضوع کا مناسب فیصلہ کیا جا سکے
تلمیذ
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
خرافات نہیں کرامات مذکور ہیں ، اور کون سی غلطی جس کی تسلیم کرنے کی آپ بات کر رہیے ہیں
محترم میرے مضمون کو دوبارہ پڑھیں
جناب یہ کیا ہے ؟ کیا یہ امام صاحب کا عقیدہ ہے ؟
اللہ تعالیٰ اپنی ذات ،صفات اور وجود کے اعتبار سے اپنی تمام مخلوقات سے الگ اور علیحدہ ہے ۔ جبکہ آل دیوبند اللہ رب العزت کے بارہ میں وحدت الوجود کا شرکیہ عقیدہ رکھتے ہیں ۔ اور وحدت الوجود صوفیوں کی اصطلاح میں تمام موجودات کو (اللہ ) خدا تعالیٰ کا وجود ماننا اور ماسوا کے وجود کو محض اعتباری سمجھنا۔ (علمی اردو لغت ، تصنیف وارث سرہندی، ص:1551)
. اس عقیدہ وحدت الوجود کے بارہ میں حاجی امداد اللہ صاحب رقمطراز ہیں :
''اور اس کے بعد اس کو ہُو ہُو کے ذکر میں اس قدر منہمک ہوجانا چاہیے کہ خود مذکور یعنی (اللہ) ہوجائے اور فنا در فنا کے یہی معنی ہیں اس حالت کے حاصل ہوجانے پر وہ سراپا نور ہوجائے گا۔ ''
(کلیاتِ امدادیہ، ص:18ضیاء القلوب، ص:35-36)
. اور پھر اسی وحدۃالوجود کے عقیدہ کوحق اور صحیح قرا ر دیتے ہیں۔
(کلیات امدادیہ ، ص:218)
. اور پھر اس وحدۃ الوجود کے درجہ کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں :"اس مرتبہ میں خدا کا خلیفہ ہوکرلوگوں کو اس تک پہنچاتا ہے اور ظاہر میں بندہ اور باطن میں خدا ہو جاتا ہے اس مقام کو برزخ البرازخ کہتے ہیں اور اس میں وجوب وامکان مساوی ہیں کسی کو کسی پر غلبہ نہیں مرج البحرين يلتقيان بينهما برزخ لا يبغيان اس مرتبہ پر پہنچ کر عارف عالم پر متصرف ہو جاتا ہے ۔ اور سخر لكم ما في السماوات وما في الأرض کا انکشاف ہوتا ہے اور وہ ذی اختیار ہو جاتا ہے اور خدا کی جس تجلی کو چاہتا ہے اپنے اوپر کر تا ہے اور جس صفت کے ساتھ چاہتا ہے متصف ہو کر اس کا اثر ظاہر کرسکتا ہے چونکہ اس میں خدا کے اوصاف پائے جاتے ہیں اور خدا کے اخلاق سے وہ مزین ہے ۔" (کلیات امدادیہ , ص:۳۶)
. ضامن علی جلال آبادی دیوبندی نے ایک زانیہ عورت کو کہا: ''بی شرماتی کیوں ہو؟ کرنے والا کون اور کرانے والا کون؟ وہ تو وہی ہے۔ (تذکرۃ الرشید، ج:2، ص: 242)
. اس ضامن علی جلال آبادی کے بارے میں رشید احمد گنگوہی نے مسکراکرفرمایا: ''ضامن علی جلال آبادی تو توحید میں غرق تھے۔ (تذکرۃ الرشید، ج:2، ص: 242)
الغرض دیوبندی علماء اس وحدۃ الوجود کے قائل ہیں جس میں خالق ومخلوق ، عابد ومعبود اور اللہ اور بندہ کے درمیان فرق مٹا دیا جاتا ہے۔
کیا یہ لوگ آپ کے بزرگ نہیں نہین ہیں کیا وحدۃ الوجود کا عقیدہ تمہارے بزرگوں نے نہین اپنایا ؟
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
محترم تلمیذ بھائی،
یہ موضوع عقیدہ کا ہے اور بہت اہم ہے۔
اس معاملے میں غلطی دونوں طرف ہی پائی جاتی ہے۔
"زلزلہ"، "زیر و زبر" ہو یا "الدیوبندیہ" ۔۔ ان میں غلطی یہ ہے کہ ہر واقعے سے ہی عقائد اخذ کرنے کی کوشش کی گئی ہے، جب کہ اکثر واقعات وہ ہیں، جنہیں کرامت کے ذیل میں شمار کیا جانا بالکل ممکن ہے۔

اور دیوبندی حضرات کی غلطی یہ ہے کہ وہ ہر ایسے واقعے کا دفاع فرض عین کی طرح کرتے ہیں، چاہے وہ ان کے عقیدہ سے براہ راست متصادم ہو، یا اس کو کرامت کے ذیل میں لینا ممکن ہی نہ ہو یا اس سے عوام الناس کے گمراہ ہونے کا خطرہ ہی کیوں نہ ہو۔

بہرحال، آپ کی یہ بات کسی حد تک درست ہے کہ واقعات سے عقائد اخذ کرنا درست نہیں۔ مکمل طور پر درست اس لئے نہیں کہ مثلاً :
عقیدہ یہ ہو کہ قبروں سے فیوض پہنچنا ممکن نہیں، اور واقعہ یہ ہو کہ قبر سے فیض پہنچ رہا ہے، تو یہاں عقیدہ کا واقعہ سے براہ راست ٹکراؤ ہے، ایسی صورت میں یا عقیدہ یا واقعہ کسی ایک کی تردید ضروری ہوتی ہے۔

عقیدہ یہ ہو کہ غیب کا علم کسی کو نہیں دیا جاتا، ہاں غیب کی بعض خبروں پر مطلع ہو جانا، اس کا کوئی انکار نہیں کرتا۔ اب واقعہ یہ ہو کہ اللہ نے فلاں بزرگ کو ایسا علم دے دیا کہ وہ اپنے پاس حاضر ہونے والوں کے سلام کہتے ہی دل کی باتوں سے آگاہ ہو جاتے تھے، تو یہ کرامت نہیں کہلائی جا سکتی، کیونکہ عقیدہ کے بالکل الٹ ہے۔

عقیدہ یہ ہو کہ مرنے کے بعد ارواح مدد نہیں کر سکتیں یا دنیا میں نہیں آ سکتیں، اور واقعہ یہ ہو کہ فلاں بزرگ مرنے کے بعد تشریف لائے اور لین دین کیا، یا صلح صفائی کروا دی ، وغیرہ تو یہ عقیدہ سے متصادم بات ہے، جو قابل قبول نہیں ہونی چاہئے۔

عقیدہ یہ ہو کہ عطائی طور پر بھی کسی کو کائنات میں تصرف کا اختیار حاصل نہیں، اور واقعہ یہ ہو کہ فوت شدہ بزرگ کائنات میں تصرف کرتے نظر آ رہے ہوں تو واقعہ کو کرامت کیسے مانیں؟

عقیدہ یہ ہو کہ کرامت ولی کے اختیار میں نہیں ہوتی کہ جب چاہیں کرامت دکھا دیں۔ لیکن واقعہ یہ ہو کہ جب بھی کوئی شخص فلاں بزرگ کے پاس جاتا وہ فوری اس کے دل کا حال بتا دیتے، یا خواتین کے پیٹ کی بات بتا دیتے یا ولی دعویٰ کرتے نظر آئیں کسی کرامت کا۔ تو یہ کرامت عقیدہ سے متصادم ہے یا نہیں؟

مجھے معلوم نہیں کہ کتاب و سنت سے فوت شدہ بزرگوں کے دنیا والوں کی امداد کرنے کی کون سی دلیل علمائے دیوبند کے ہاتھ آئی ہے۔ میرے خیال میں اس عقیدہ کی تائید میں یہ علماء کتاب و سنت میں مذکور "واقعات" ہی کو اس عقیدہ کی بنیاد بناتے ہیں۔ واللہ اعلم۔ آپ اس پر روشنی ڈال سکیں تو فبہا۔

یہ تو تھیں، عمومی باتیں۔ ایک خاص واقعہ جس کا جواب حاصل کرنے کی عرصے سے تمنا تھی۔ اس پر اگر آپ تبصرہ کر دیں تو مشکور رہوں گا۔ پہلے واقعہ ملاحظہ کر لیجئے۔


"مولانا اشرف علی تھانوی مولوی نظام الدین صاحب کرانوی سے ، وہ مولوی عبداللہ ہراقی سے روایت کرتے ہیں کہ ایک نہایت معتبر شخص ولائتی بیان کرتے ہیں کہ میرے ایک دوست جو بقیۃ السلف حجۃ الخلف قدوۃ السالکین زہدۃ العارفین شیخ الکل فی الکل حضرت مولانا حاجی امداد اللہ صاحب چشتی صابری تھانوی ثم المکی سلمہ اللہ تعالیٰ سے بیعت تھے، حج خانہ کعبہ کو تشریف لے جاتے تھے۔ بمبئی سے آگبوٹ میں سوار ہوئے۔ آگبوٹ نے چلتے چلتے ٹکر کھائی اور قریب تھا کہ چکر کھا کر غرق ہو جائے یا دوبارہ ٹکرا کر پاش پاش ہو جائے۔ انہوں نے جب دیکھا کہ اب مرنے کے سوا چارہ نہیں، اسی مایوسانہ حالت میں گھبرا کر اپنے پیرِ روشن ضمیر کی طرف خیال کیا اور عرض کیا کہ اس وقت سے زیادہ کون سا وقت امداد کا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ سمیع و بصیر کارساز مطلق ہے۔ اسی وقت ان کا آگبوٹ غرق سے نکل گیا اور تمام لوگوں کو نجات ملی۔
ادھر تو یہ قصہ پیش آیا ، ادھر اگلے روز مخدومِ جہاں اپنے خادم سے بولے ذرا میری کمر تو دباؤ، نہایت درد کرتی ہے۔ خادم نے کمر دباتے پیراہن مبارک جو اٹھایا تو دیکھا کہ کمر چھلی ہوئی ہے اور اکثر جگہ سے کھال اُتر گئی ہے۔ پوچھا حضرت یہ کیا بات ہے، کمر کیوں کر چھلی فرمایا کچھ نہیں۔ پھر پوچھا، آپ خاموش رہے۔ تیسری مرتبہ پھر دریافت کیا، حضرت یہ تو کہیں رگڑ لگی ہے اور آپ تو کہیں تشریف بھی نہیں لے گئے۔ فرمایا ایک آگبوٹ ڈوبا جاتا تھا اس میں تمہارا دینی اور سلسلے کا بھائی تھا اس کی گریہ زاری نے مجھے بے چین کر دیا۔ آگبوٹ کو کمر کا سہارا دے کر اوپر کو اٹھایا۔ جب آگے چلا اور بندگانِ خدا کو نجات ملی، اسی سے چھل گئی ہوگی اور اسی وجہ سے درد ہے مگر اس کا ذکر نہ کرنا"۔ (کرامات امدادیہ ص 36)

سوال تو بہت سارے ہیں۔ لیکن فی الحال مجھے صرف ایک ہی اہم سوال پوچھنا ہے کہ آیا دیوبندی عقیدہ کی رو سے یہ بات جائز و درست ہے کہ ایک شخص جہاز میں سوار ہو اور جہاز ڈوب رہا ہو تو وہ مافوق الاسباب، غیراللہ سے مدد طلب کرے؟
اس واقعہ کی بنیاد پر کوئی عامی دیوبندی مثلاً آپ، اس سے ملتے جلتے حالات میں اپنے "پیر روشن ضمیر" کو مافوق الاسباب مدد کے لئے پکارنا پسند کریں گے؟ جب کہ واقعہ سے ثابت بھی ہے کہ ایسی صورت میں دیوبندی پیر کا اپنے دیوبندی مرید کی مدد کرنا بالکل ممکن ہے۔
 
Top