محترم
تلمیذ بھائی،
یہ موضوع عقیدہ کا ہے اور بہت اہم ہے۔
اس معاملے میں غلطی دونوں طرف ہی پائی جاتی ہے۔
"زلزلہ"، "زیر و زبر" ہو یا "الدیوبندیہ" ۔۔ ان میں غلطی یہ ہے کہ ہر واقعے سے ہی عقائد اخذ کرنے کی کوشش کی گئی ہے، جب کہ اکثر واقعات وہ ہیں، جنہیں کرامت کے ذیل میں شمار کیا جانا بالکل ممکن ہے۔
میری رائے کے مطابق الدیوبندیہ میں نقل ہر واقعہ کو کرامت کے تحت شمار کرنا ممکن ہے ۔ ہوسکتا ہے کوئی ایسا واقعہ جو کرامت کی ذیل میں نہ آتا ہو لیکن مجھے ایسا کوئی واقعہ نہیں ملا
اور دیوبندی حضرات کی غلطی یہ ہے کہ وہ ہر ایسے واقعے کا دفاع فرض عین کی طرح کرتے ہیں، چاہے وہ ان کے عقیدہ سے براہ راست متصادم ہو، یا اس کو کرامت کے ذیل میں لینا ممکن ہی نہ ہو یا اس سے عوام الناس کے گمراہ ہونے کا خطرہ ہی کیوں نہ ہو۔
دیوبندی حضرات نے جو کرامات کے واقعات کا ذکر کیا ہے ، اگر کوئی اس واقعہ کا انکار کرے اور کہے یہ سچا واقعہ نہیں تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں
اصل اعتراض تب ہوتا ہے جب کسی کرامات والے واقعہ کو ذکر کے کہا جاتا ہے کہ
بطور کرامت یہ واقعہ ممکن نہیں اور کوئی شرکیہ عقیدہ ہم پر تھوپ دیا جاتا ہے .
بہرحال، آپ کی یہ بات کسی حد تک درست ہے کہ واقعات سے عقائد اخذ کرنا درست نہیں۔ مکمل طور پر درست اس لئے نہیں کہ مثلاً :
اب آپ نے مثال دیں ہیں ان کو ایک ایک کرکے دیکھتے ہیں
عقیدہ یہ ہو کہ قبروں سے فیوض پہنچنا ممکن نہیں، اور واقعہ یہ ہو کہ قبر سے فیض پہنچ رہا ہے، تو یہاں عقیدہ کا واقعہ سے براہ راست ٹکراؤ ہے، ایسی صورت میں یا عقیدہ یا واقعہ کسی ایک کی تردید ضروری ہوتی ہے۔
عقیدہ یہ ہو کہ مرنے کے بعد ارواح مدد نہیں کر سکتیں یا دنیا میں نہیں آ سکتیں، اور واقعہ یہ ہو کہ فلاں بزرگ مرنے کے بعد تشریف لائے اور لین دین کیا، یا صلح صفائی کروا دی ، وغیرہ تو یہ عقیدہ سے متصادم بات ہے، جو قابل قبول نہیں ہونی چاہئے
فقلنا اضربوه ببعضها كذلك يحيي الله الموتى ويريكم آياته لعلكم تعقلون
القرآن
ایک مسلم (خواہ و اہل حدیث ہو یا دیوبندی ) کا عقیدہ یہ ہے کہ صاحب قبر کسی کو نفع یا نقصان نہیں دے سکتا اور قرآن میں ہے کہ بنی اسرائیل کہ ایک مردہ شخص نے اہل خانہ کو اپنے قاتل کا بتا کر قاتل کو پکڑوانے میں
مدد کی ۔ اب آپ عقیدہ کا انکار کریں گے یا واقعہ کا (دونوں صورت میں دائرہ اسلام سے باہر ہوجائیں گے ) واحد صورت یہ بچتی ہے واقعہ کو بصور کرامت مانا جائے اور عقیدہ میں بھی کوئي تبدیلی نہ کی جائے
جب قرآن میں ایک واقعہ مذکور ہے کہ ایک مردہ نے اپنے قاتلوں کی پہچان کرانے میں اہل خانہ کی
بطور کرامت مدد کی تو اس طرح کے واقعات جو دیوبند کی کتب میں علماء نے تحریر کیے ہیں تو ان کی بنا پر دیوبندیوں پر غلط عقائد تھوپنے کی وجہ ؟؟
جب کہ بریلوی یا غوث الاعظم المدد کہ کر مردوں سے مانگنے کے جواز کے قائل ہیں اور ہم نہیں ، یہی دیوبندی اور بریلوی حضرات میں ایک نمایاں فرق ہے
عقیدہ یہ ہو کہ عطائی طور پر بھی کسی کو کائنات میں تصرف کا اختیار حاصل نہیں، اور واقعہ یہ ہو کہ فوت شدہ بزرگ کائنات میں تصرف کرتے نظر آ رہے ہوں تو واقعہ کو کرامت کیسے مانیں؟
اگر تصرف سے مراد زندہ کو کوئی فائدہ پہنچانا ہے تو اس کی وضاحت اوپر کردی کئی ہے ، اگر کچھ اور ہے تو وضاحت کریں
عقیدہ یہ ہو کہ غیب کا علم کسی کو نہیں دیا جاتا، ہاں غیب کی بعض خبروں پر مطلع ہو جانا، اس کا کوئی انکار نہیں کرتا۔ اب واقعہ یہ ہو کہ اللہ نے فلاں بزرگ کو ایسا علم دے دیا کہ وہ اپنے پاس حاضر ہونے والوں کے سلام کہتے ہی دل کی باتوں سے آگاہ ہو جاتے تھے، تو یہ کرامت نہیں کہلائی جا سکتی، کیونکہ عقیدہ کے بالکل الٹ ہے۔
ہم نے کہیں نہیں کہا یا واقعہ تحریر نہیں کیا فلاں بزرگ
ہمیشہ غیب کی بات بتادیتے تھے ، ہاں یہ ضرور ہوا کہ ایک بزرگ کو کثرت سے کشف ہوتا تھا ، اور کثرت سے کشف ہونا کوئی غیر شرعی امر نہیں ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو بھی کثرت سے کشف ہوا اور کئی حکم ربی بطور کشف سے آگاہ ہوے
مثلا جنگ بدر کی قیدیوں سے متعلق فیصلہ یا اذان کا الفاظ یا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر تہمت کے واقعہ پردہ کے احکامات وغیرہ (ایک تفصیلی لسٹ ہے ) تو کیا حضرت جبرائیل علیہ السلام معاذ اللہ پہلے حضرت عمر رضي اللہ عنہ کو امر ربی بتاتے پھر حکم نازل ہوتا
عقیدہ یہ ہو کہ کرامت ولی کے اختیار میں نہیں ہوتی کہ جب چاہیں کرامت دکھا دیں۔ لیکن واقعہ یہ ہو کہ جب بھی کوئی شخص فلاں بزرگ کے پاس جاتا وہ فوری اس کے دل کا حال بتا دیتے، یا خواتین کے پیٹ کی بات بتا دیتے یا ولی دعویٰ کرتے نظر آئیں کسی کرامت کا۔ تو یہ کرامت عقیدہ سے متصادم ہے یا نہیں؟
مجھے معلوم نہیں آپ نے
جب چاہیں کرامت دکھا دیں ، کہاں سے کشید کیا ہے ، اگر اس مراد کسی ولی کا اپنی کرامت سے پہلے کہنا کہ وہ ایسا کر سکتا ہے تو یہ بلا شبہ ممکن ہے
کرامت بلا شبہ کسی ولی کے اختیار میں نہیں ہوتی ، ہاں یہ ممکن ہے کہ ولی کرامات کے ظھور سے پہلے اس کرامات کا ظاہر ہونا بتادے ، جب سلیمان علیہ السلام نے بلقیس کا محل لانے کی بات تھی تو ایک وزیر نے بطور کرامت وہ محل پلک جھپکنے سے پہلے محل حاضر کردیا اور اس کرامت کے ظھور سے پہلے اس نے خود کہا کہ میں ایسا کردوں گا یہ بھی
دعوی کرامت ہے
مجھے معلوم نہیں کہ کتاب و سنت سے فوت شدہ بزرگوں کے دنیا والوں کی امداد کرنے کی کون سی دلیل علمائے دیوبند کے ہاتھ آئی ہے۔ میرے خیال میں اس عقیدہ کی تائید میں یہ علماء کتاب و سنت میں مذکور "واقعات" ہی کو اس عقیدہ کی بنیاد بناتے ہیں۔ واللہ اعلم۔ آپ اس پر روشنی ڈال سکیں تو فبہا۔
قرآن کے حوالہ سے بتادیا گيا ہے کہ ایک مردہ نے بطور کرامت دنیا میں زندہ فرد کی
بطور کرامت مدد کی
ایک ایک اعتراض پر اوپر روشنی ڈال دی گئی ہے
یہ تو تھیں، عمومی باتیں۔ ایک خاص واقعہ جس کا جواب حاصل کرنے کی عرصے سے تمنا تھی۔ اس پر اگر آپ تبصرہ کر دیں تو مشکور رہوں گا۔ پہلے واقعہ ملاحظہ کر لیجئے۔
"مولانا اشرف علی تھانوی مولوی نظام الدین صاحب کرانوی سے ، وہ مولوی عبداللہ ہراقی سے روایت کرتے ہیں کہ ایک نہایت معتبر شخص ولائتی بیان کرتے ہیں کہ میرے ایک دوست جو بقیۃ السلف حجۃ الخلف قدوۃ السالکین زہدۃ العارفین شیخ الکل فی الکل حضرت مولانا حاجی امداد اللہ صاحب چشتی صابری تھانوی ثم المکی سلمہ اللہ تعالیٰ سے بیعت تھے، حج خانہ کعبہ کو تشریف لے جاتے تھے۔ بمبئی سے آگبوٹ میں سوار ہوئے۔ آگبوٹ نے چلتے چلتے ٹکر کھائی اور قریب تھا کہ چکر کھا کر غرق ہو جائے یا دوبارہ ٹکرا کر پاش پاش ہو جائے۔ انہوں نے جب دیکھا کہ اب مرنے کے سوا چارہ نہیں، اسی مایوسانہ حالت میں گھبرا کر اپنے پیرِ روشن ضمیر کی طرف خیال کیا اور عرض کیا کہ اس وقت سے زیادہ کون سا وقت امداد کا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ سمیع و بصیر کارساز مطلق ہے۔ اسی وقت ان کا آگبوٹ غرق سے نکل گیا اور تمام لوگوں کو نجات ملی۔
ادھر تو یہ قصہ پیش آیا ، ادھر اگلے روز مخدومِ جہاں اپنے خادم سے بولے ذرا میری کمر تو دباؤ، نہایت درد کرتی ہے۔ خادم نے کمر دباتے پیراہن مبارک جو اٹھایا تو دیکھا کہ کمر چھلی ہوئی ہے اور اکثر جگہ سے کھال اُتر گئی ہے۔ پوچھا حضرت یہ کیا بات ہے، کمر کیوں کر چھلی فرمایا کچھ نہیں۔ پھر پوچھا، آپ خاموش رہے۔ تیسری مرتبہ پھر دریافت کیا، حضرت یہ تو کہیں رگڑ لگی ہے اور آپ تو کہیں تشریف بھی نہیں لے گئے۔ فرمایا ایک آگبوٹ ڈوبا جاتا تھا اس میں تمہارا دینی اور سلسلے کا بھائی تھا اس کی گریہ زاری نے مجھے بے چین کر دیا۔ آگبوٹ کو کمر کا سہارا دے کر اوپر کو اٹھایا۔ جب آگے چلا اور بندگانِ خدا کو نجات ملی، اسی سے چھل گئی ہوگی اور اسی وجہ سے درد ہے مگر اس کا ذکر نہ کرنا"۔ (کرامات امدادیہ ص 36)
حضرت عمر رضي اللہ عنہ حضرت ساریہ کو ہزاروں میل فاصلے سے آواز دی ، نہ صرف اواز دی بلکہ خطرہ سے اگاھ بھی کیا اور اس طرح
ہزاروں میل کے فاصلے سے بطور کرامت ان کی مدد کی ۔ تو اگر کسی شیخ نے بطور کرامت اپنے مرید کی مدد کی تو عقیدہ کا بگاڑ کہاں سے آیا ؟؟؟؟؟
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت ساریہ کی ایران میں مدد کی جب کہ وہ خود مدینہ میں تھے تو اس مستند واقعہ کو ہم کرامت کہتے ہیں تو اگر کوئی شیخ بطور کرامت کسی کی مدد کردے تو ہم اس کو کیوں کرامت نہیں کہتے اور کیوں اس کو عقیدہ کا بگاڑ کہتے ہیں اور دیوبندوں کو کیوں شرکیہ عقیدہ سے متھم کرتےہیں
سوال تو بہت سارے ہیں۔ لیکن فی الحال مجھے صرف ایک ہی اہم سوال پوچھنا ہے کہ آیا دیوبندی عقیدہ کی رو سے یہ بات جائز و درست ہے کہ ایک شخص جہاز میں سوار ہو اور جہاز ڈوب رہا ہو تو وہ مافوق الاسباب، غیراللہ سے مدد طلب کرے؟
اس واقعہ کی بنیاد پر کوئی عامی دیوبندی مثلاً آپ، اس سے ملتے جلتے حالات میں اپنے "پیر روشن ضمیر" کو مافوق الاسباب مدد کے لئے پکارنا پسند کریں گے؟ جب کہ واقعہ سے ثابت بھی ہے کہ ایسی صورت میں دیوبندی پیر کا اپنے دیوبندی مرید کی مدد کرنا بالکل ممکن ہے۔
خیال کرنے سے آپ نے مراد کیوں استمداد ہی لی ہے توسل بھی تو لے سکتے تھے ؟؟ چوں کہ آپ نے استمداد کا معنی لیا ہے تو پہلے آپ بتائيں گے کہ آپ نے استمداد کیوں معنی لیا ، اور توسل معنی کیوں نہ لیا ۔۔۔