عبدہ بھائی! آپ مجھے زبردستی قائل کرنا چاہ رہے تھے؟
میں جس بات کو درست سمجھتا ہوں اس کی وضاحت اور اس پر دلائل دے رہا ہوں اور ظاہر ہے یہ علمی بحث ہے مجلس وعظ تو نہیں۔ اگر آپ حجت ہی پوری کر رہے تھے تو اس طرح تو میں نے بھی مقدور بھر پوری کوشش کی سمجھانے کی۔ لیکن بہتر یہ ہے کہ آپ میری بات کا جہاں آپ کو درست نہ لگے وہاں رد فرماتے اور میں اس کی وضاحت عرض کرتا۔
اشماریہ بھائی پہلے میرے بات آپس میں سمجھنے سمجھانے کی بھی تھی مگر اب قارئین کے لئے ہے قارئین میری اور آپکی یہاں پر اور باقی موضوعات پر پوسٹ پڑھ کر دیکھ سکتے ہیں کہ ہم میں سے کوئی ایسا بھی ہے جس نے کبھی تعصب دکھاتے ہوئے حق قبول نہ کیا ہو
کیا آپ اس کے ما تحت الاسباب ہونے کے امکانات کی نفی کرتے ہیں؟
میری بات چھوڑیں میں تو آپ سے کم از کم یہ چاہتا ہوں کہ اگر یہ اپنے پیروں کے لئے ماتحت السباب بنائے جا سکتے ہیں تو بریلوی پیروں مریدوں کو بھی چھوٹ دینی چاہئے
شرط یہ ہے کہ امکان بھی ہو۔
محترم قارئین آپ فیصلہ کریں کہ اگر بیچ سمندر ڈوبتے انسان کا اپنی فریاد ہزاروں میل دور دوسرے انسان کو پہنچانا اور پھر اسکا خود آ کر جہاز کو کندھا دینا اگر اسکا امکان ماتحت الاسباب موجود ہے تو پھر میرے خیال میں اس سے بڑھ کر بریلویوں کا کوئی کام تو دکھا دیں جس کا ماتحت الاسباب امکان نہ ہو سکتا ہو
اگر کوئی فاسق جاہل آ کر کہے کہ میں جب بھی پکارتا ہوں پیر صاحب سن لیتے ہیں
آپ جاہلوں کی بات کو چھوڑیں بریلوی علماء کی بات کو لیں وہ اپنے جن بزرگوں کے واقعات بیان کرتے ہیں ان میں کوئی فاسق جاہل تو دکھا دیں یا پھر فاسق اور جاہل کی اصطلاح کا صرف بریلویوں کے لئے ہونے پر آپ کے پاس اللہ کی طرف سے کوئی برھان
تو ہم کیسے کہ سکتے ہیں کہ یہ اتنی ذہنی اور عملی بلندی پر پہنچ گیا ہے کہ اپنے خیالات پہنچا دیتا ہے؟
یعنی بات وہیں پر آ کر رکتی ہے کہ جو بریلوی کہتے ہیں کہ ہمارا پیر اتنا پہنچا ہوا ہے تو آپ کے ہاں بھی اگر کوئی مرید اتنا ذینی اور علمی بلندی کو پینچ جائے تو وہ بات ہر جگہ پہنچا سکتا ہے تو پھر آپ کے پیر کی طاقتیں تو واقعی ٹائیٹینک بھی نکال سکتی ہیں
ہاں ماضی کا کوئی واقعہ کسی اور کا سنائے اور تحقیق کا طریقہ بھی نہ ہو تو ہم یہی سوچیں گے کہ ماتحت الاسباب ہونا ممکن ہے۔
بھائی یہ تحقیق کا طریقہ کس چیز سے کی تحقیق سے متعلق ہے ذرا بریلویوں کے غوث پاک یا غریب نواز وغیرہ کے شرکیہ گھڑے واقعات میں تحقیق کا طریقہ تو اپلائی کر کے دکھا دیں مثالوں سے اچھا سمجھ آتا ہے پھر اسکو امداد للہ مکی کی بات سے موازنہ بھی کر دیں
ویسے آپ نے یہ بات درست نہیں کی کہ مانگنے کا فرق نہیں صرف عقیدہ بنا لینے کا فرق ہے۔ اس لیے کہ عقیدہ بنانے پر ہی مانگنے کی بنیاد ہے۔
میرا قارئین سے سوال ہے کہ اوپر انھوں نے میری کون سئ بات کو غلط کہا ہے آپ پڑھیں اور سر پیٹیں کہ میں نے انکے امداد اللہ کو بچانے کے لئے انکو سمجھانے کے لئے غلط بات لکھ دی تھی جس کو انھوں نے ٹھیک تو کر دیا مگر اس پر عمل نہیں دوسرا یہاں ماتحت الاسباب والی تاویلیں بالکل بھول گئے ذرا نیچے دیکھ لیں
عبدہ کی بات
دیوبندیوں اور بریلویوں میں مانگنے کا فرق نہیں صرف عقیدہ بنا لینے کا فرق ہے
اشماریہ کا رد
عبدہ کی بات غلط ہے کیونکہ عقیدہ بنانے پر ہی مانگنے کی بنیاد ہے یعنی مانگتا ہی وہ ہے جس کا عقیدہ ہو دسرا مانگتا ہی نہیں
نتیجہ
جس نے مانگا سمجھو کہ اسکا عقیدہ ہے کہ مانگا جا سکتا ہے تو امداد اللہ کے پیر کا عقیدہ کیا ہوا
ہم کہتے ہیں کہ جس نے مانگ لیا اور ایسا معاملہ ہو گیا تو ہو گیا۔ باقی یہ کام نہیں کرسکتے یہ سوچ کر کہ جناب مدد کریں گے۔ اور وہ کہتے ہیں کہ حضرت مدد کرتے ہیں لہذا خوب مانگو۔
جہاں تک یہ لکھا ہے کہ جس نے مانگ لیا وہ ہو گیا تو ہو گیا باقی اسکو عقیدہ بنانا ٹھیک نہیں تو پہلے سن لیں کہ لوگ ماضی سے ہی تو عقیدہ بناتے ہیں اگر انکو پتا چلے کہ ہمارے صحیح العقیدہ بزرگوں نے ایسا کیا تھا تو ہم کیوں نہیں کر سکتے
میرا اعتراض
یہ ایسا اعتراض ہے کہ جس کو نہ تسلیم کرتے چارہ ہے نہ رد کرتے چارہ
اوپر ابھوں نے لکھا ہے کہ امداد اللہ والا واقعہ ماتحت الاسباب ہے جیسے بیوی سے پانی مانگنا ماتحت الاسباب ہے پس شرک نہیں
پس بیوی سے جتنی دفعہ پانی مانگیں شرک نہیں آئے گا پھر اس پر اعتراض لگانے اور اسکو عقیدہ نہ بنانے پر آپ کیوں مصر ہیں اور اوپر اب یہ کیوں لکھ دیا کہ جو ہو گیا وہ ہو گیا اور ماضی کے واقعہ کا سہارا کیوں لے رہے ہیں سیدھا کہیں کہ جیسے بیوی سے پانی مانگا جاتا ہے اسی طرح یہاں امدادا للہ سے مدد مانگنا ماتحت الاسباب ہے اور اسکو زیادہ سے زیادہ عقیدہ بناؤ کیوں کہ اللہ نے جس سے منع فرمایا وہ ان سے مانگنا ہے جو ما لا یضرھم ولا ینفعھم یعنی جو نفع نہیں دے سکتے پس جو نفع دے سکتے ہیں ان سے مانگنا کیوں منع کرنے لگے آپ
فرق دیکھیں نا دونوں میں
ایک تو وہ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ جس سے ہم مانگ رہے ہیں وہ خود ہمیشہ مدد پر قدرت رکھتا ہے۔ جب کہ ہم ایسا عقیدہ نہیں رکھتے۔ اور جو روح کے الگ ہونے کے قائل ہیں وہ بھی ہر جگہ ہر وقت کے قائل نہیں ہیں۔
دوسرے وہ خود اس قابل ہوں نا پہلے کہ اپنی بات پہنچا سکیں۔
تیسرے وہ عموما اولاد وغیرہ مانگتے ہیں اور یہ اللہ کے سوا کوئی دے ہی نہیں سکتا۔
چوتھے وہ کبھی بھی یہ نہیں کہتے کہ ہم اپنی بات پہنچا رہے ہیں بلکہ وہ کہتے ہیں کہ ہم سمیت سب پکارنے والوں کی بات ہمارا پیر سن رہا ہے۔ کرامۃ تو شاید کبھی کبھار ہو جائے کہ اللہ پاک سنوا دے لیکن ہمیشہ تو ایسا نہیں ہو سکتا۔ ہم نے اوپر جتنی اسباب کے تحت بات کی ان سب میں مرید اپنی ذاتی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر یہ کام کرے گا نہ کہ پیر صاحب عالم الغیب بن کر چہار سو کی خبریں سن اور نشر کر رہے ہوں گے۔
پہلا:
محترم جان لیں کہ وہ بھی عطائی طاقتیں مانتے ہیں
دوسرا:
جب ایک مرید بیچ سمند اپنی بات ماتحت الاسباب پہنچا سکتا ہے تو وہ اسباب انکو کیوں حاصل نہیں ہو سکتے دلیل دیں
تیسرا:یعنی صرف اولاد مانگنا شرک ہوا مالکم کیف تحکمون
چوتھا:
آپ کے مرید نے یہ کیاں کہا کہ میں اپنی بات پہنچا رہا ہوں وہ تو وکالت کا حق آپ ادا کر رہے ہیں پس بریلوی اپنے واقعات میں خود تو یہ نہیں کہتے بلکہ انکے وکیل ہی ایسا کرتے ہیں اور آپ پھر یہاں کرامتا لکھ رہے ہیں جب کہ اوپر اسکو ماتحت الاسباب لکھا ہے یہ جا بجا تضاد کیا شو کرتا ہے قا رئیں فیصلہ کر دیں
باقی کچھ جلدی میں رہ گیا ہو تو نشاندہی کر دیں دفتر جانے لگا ہوں