السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! مجھے مشرک کے ذبیحہ کے متعلق مفصل معلومات چاہئے، مشرک (ہندو، سکھ، پارسی، مجوسی، شیعہ) وغیرہ کے متعلق تو یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ یہ لوگ کافر و مشرک ہیں اور اِن کا ذبیحہ بھی مسلمانوں پر حرام ہے۔ لیکن میرا سوال بریلویوں کے متعلق ہے کہ بریلویوں اور اس طرح وہ دیوبندی جن کا عقیدہ درست نہیں ہے، اُن کے ذبیحے کے متعلق چند پوائنٹس پر مفصل معلومات چاہئے۔
1۔ بریلوی کا ذبیحہ حلال ہے یا حرام، اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب کا ذبیحہ حلال کیا ہے، کچھ لوگ کہتے ہیں کہ چونکہ اہل کتاب کا ذبیحہ حلال ہے اور اُن کے عقائد بھی شرکیہ ہیں لیکن بریلوی اہل کتاب کی نسبت کچھ بہتر ہیں کہ یہ اگرچہ مشرکانہ عقیدہ رکھتے ہیں لیکن کلمہ گو ہیں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر بھی ایمان رکھتے ہیں، نیز آخرت کے دن پر بھی ایمان رکھتے ہیں، لہذا اگر اہل کتاب کا ذبیحہ کھایا جا سکتا ہے تو بریلویوں کا ذبیحہ بھی کھایا جا سکتا ہے، بشرطیکہ وہ اللہ کا نام لے کر ذبح کریں۔
2۔ دوسری بات یہ کہ اگر بریلویوں کا ذبیحہ حلال نہیں ہے تو پاکستان میں کس طرح اِس سے بچا جائے، اکثر کھانے پینے کی اشیاء میں گوشت ہوتا ہے، اور معلوم نہیں ہوتا کہ یہ جس جانور کا گوشت ہے اُس کو ذبح کرنے والا کون ہے، اور کس عقیدے کا حامل ہے؟ اسی مجہول صورتحال میں کیا کیا جانا چاہئے؟
3۔ اگر بریلویوں کا ذبیحہ حلال نہیں تو اِن میں اکثر ایسے ہوتے ہیں جن کو دین اسلام کا بنیادی علم بھی نہیں ہوتا، یعنی وہ جاہل ہوتے ہیں، تو کیا جہالت کی عذر کی بنا پر ان کا ذبیحہ کھایا جا سکتا ہے، کیونکہ جہالت موانع تکفیر بھی ہے۔ ان پوائنٹس پر تفصیلی معلومات چاہئے۔
@اسحاق سلفی بھائی
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ۔
اس مسئلہ پر ایک تھریڈ میں گفتگو ہوچکی ہے ۔پہلے وہ ملاحظہ کر لیں :درج ذیل ہے ،
مشرک اور مرتد کے ذبیحہ کا حکم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور اس موضوع ذیل کے فتاوی بھی دیکھ لیں :
ان میں پہلی تحریر شیخ مکرم حافظ زبیر علی رحمہ اللہ کی ہے ۔جو توحید ڈاٹ کام پر شائع ہوئی ہے ۔لیکن مجھے یہ تحریر شیخ رحمہ اللہ کی کسی کتاب میں نہیں مل رہی ،گو ان کا یہ موقف مجھے ذاتی طور پر معلوم ہے ۔
لنک تحریر
تحریر:حافظ زبیر علی زئی
سوال: ‘‘ اہل کتاب کے علاوہ مشرکین کا ذبیحہ حرام ہے؟
پاکستان کے قصابوں کے ذبیحہ کے متعلق کیا حکم ہے؟
جبکہ اکثریت قصابوں کی بے دین ہے۔ ان آثار کی سند کیسی ہے؟
۱: سعید بن منصور نے عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت کی ہے، کہتے ہیں:سوائے مسلمانوں اور اہلِ کتاب کے کسی اور کا ذبیحہ مت کھاؤ۔ (کشاف القناع۶؍۲۰۵)
۲: ابن عباس ؓ سے سوال کیا گیا کہ اگر ایک مسلمان آدمی ذبیحہ کرتے وقت بسم اللہ بھول جائے تو ؟ ابن عباس نے کہا کہ ‘‘ وہ ذبیحہ کھایا جائے گا’’۔
سوال ہوا: ‘‘اگر مجوسی بسم اللہ پڑھ کر ذبح کرے تو؟’’ انہوں نے فرمایا کہ ‘‘ وہ ذبیحہ نہیں کھایا جائے گا۔’’ (المستدرک للحاکم ۴؍۲۳۳ح ۷۵۷۲)
۳: ابن مسعود ؓ نے کہا: تم ایسے علاقے میں آ گئے ہو جہاں مسلمان قصاب نہیں ہیں بلکہ نبطی یا مجوسی ہیں لہٰذا جب گوشت خریدو تو معلوم کیا کرو، اگر وہ یہودی یا نصرانی کا ذبح کیا ہوا ہو تو کھاؤ، ان کا ذبیحہ اور کھانا تمھارے لئے حلال ہے۔(مصنف عبدالرزاق ۴؍۴۸۷ح۸۵۷۸)
کیا رسول اللہ ﷺ کے صحابہ یا تابعین میں سے کوئی بھی مشرکین کے ذبیحے کے جواز کا قائل ہے؟
براہِ مہربانی اس مسئلے کی تفصیلاً راہنمائی فرمائیں۔اہلِ کتاب کے علاوہ مشرکین کے ذبیحے کو حرام قرار دینے والوں کے دلائل درج ذیل ہیں:
۱: ذبیحہ کرنا عبادت ہے اور اللہ تعالیٰ مشرک کی عبادت قبول نہیں کرتا۔۲: اہلِ کتاب کے علاوہ مشرکین کے ذبیحے کے حرام ہونے پر اجماع ہے۔ (یہ) امام احمد اور ابن تیمیہ نے کہا ہے۔۳: قرآن مجید میں اہلِ کتاب کے ذبیحہ کو جائز قرار دیا گیا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ باقیوں کا حرام ہے۔
(سید عبدالسلام زیدی، عبدالحکیم ضلع خانیوال)
الجواب: الحمد للہ رب العالمین و الصلوٰۃ والسلام علیٰ رسولہ الأمین، أما بعد:
ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ
‘‘ فَکُلُوْا مِمَّا ذُکِرَ اسْمُ اللہِ عَلَیْہِ’’ جس پر (ذبح کرتے وقت ) اللہ کا نام لیا جائے تو اس میں سے کھاؤ۔ (الانعام : ۱۱۸)
اس آیتِ کریمہ اور دیگر دلائل کی رُو سے اس پر اتفاق ہے کہ صحیح العقیدہ مسلمان کا ذبح شدہ حلال جانور حلال ہے بشرطیکہ وہ ذبح کرتے وقت اس پر اللہ کا نام لے اور کوئی شرعی مانع (رکاوٹ) نہ ہو۔ دیکھئے موسوعۃ الاجماع فی الفقہ الاسلامی(۲؍۴۴۸)
سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ لوگوں نے کہا: یا رسول اللہ !یہاں ایسے لوگ ہیں جو شرک سے تازہ تازہ مسلمان ہوئے ہیں، وہ ہمارے پاس گوشت لے کر آتے ہیں اور یہ معلوم نہیں ہوتا کہ انہوں نے ذبح کرتے وقت اس پر اللہ کا نام لیا ہے یا نہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ‘‘ سمو اللہ علیہ وکلوا’’ اس پر اللہ کا نام لے لو اور کھاؤ۔ (صحیح بخاری: ۲۰۵۷، ۷۳۹۸)
اس سے معلوم ہوا کہ اہلِ اسلام کے ذبیحے کو حسنِ ظن کی بنیاد پر کھایا جائے گا اور یہ ضروری نہیں ہے کہ آدمی ہر قصاب سے پوچھتا پھرے کہ آپ نے اس پر اللہ کا نام لیا تھا یا نہیں ؟اگر یہ ثابت ہو جائے کہ ذبح شدہ جانور پر اللہ کا نام نہیں لیا گیا تو یہ ذبیحہ حرام ہے۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے ‘‘وَلَا تَاْ کُلُوْا مِمَّا لَمْ یُذْکَرِاسْمُ اللہِ عَلَیْہِ وَاِنَّہ لَفِسْقٌ’’اور جس پر اللہ کا نام نہ لیا جائے اسے نہ کھاؤ اور بے شک یہ فسق ہے۔ (الانعام: ۱۲۱)
اہلِ کتاب(یہود و نصاریٰ) اگر حلال جانور پر اللہ (خدا) کا نام لے کر ذبح کریں تو یہ جانور حلال ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے (وَطَعَامُ الَّذِیْنَ اُوْتُو الْکِتٰبَ حِلٌّ لَّکُمْ’’ اور اہلِ کتاب کا کھانا تمھارے لئے حلال ہے۔ (المآئدۃ : ۵)
اس آیت کی تشریح میں اہلِ سنت کے مشہور امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اور اہلِ کتاب، یہود و نصاریٰ کے ذبیحے تمھارے لئے حلال ہیں۔ (تفسیر طبری۶؍۶۴)
امام ابن شہاب الزہری نے عرب کے نصاریٰ کے بارے میں فرمایا کہ ان کے ذبیحے کھائے جاتے ہیں کیونکہ وہ اہلِ کتاب میں سے ہیں اور اللہ کا نام لیتے ہیں۔تفسیر طبری (۶؍۶۵و سندہ صحیح) نیز دیکھئے صحیح بخاری(قبل ح ۵۵۰۸)
اس پر اجماع ہے کہ ہر یہودی اور ہر نصرانی کا ذبیحہ حلال ہے۔ (بشرطیکہ وہ اللہ کا نام لے) دیکھئے تفسیر ابن جریر طبری(۶؍۶۶)
اس پر اجماع ہے کہ اہلِ اسلام، یہود اور نصاریٰ کے علاوہ تمام ادیان مثلاً ہندو، بدھ مذہب اور سکھ وغیرہ کفار و مشرکین کا ذبیحہ حرام ہے اور اس پر بھی اجماع ہے کہ مرتد اور زندیق کا ذبیحہ حرام ہے لہٰذا مرزائی ، بہائی، نُصیری اور درُوز وغیرہ مرتدین کے ذبائح حرام ہیں۔
کلمہ گو اور اسلام کے دعویداروں کے دو بڑے گروہ ہیں:
اول: اہلِ سنت(صحیح العقیدہ لوگ)
دوم: اہل بدعت (بدعقیدہ لوگ)
عقیدے کے لحاظ سے اہلِ سنت کے دو گروہ ہیں:
۱: صالح اعمال والے
۲: فاسق و فاجر
اس سلسلے میں ایک بڑا مسئلہ ترکِ صلوٰۃ ہے۔ بعض علماء کے نزدیک تارک الصلوٰۃ کافر ہے اور بعض اسے فاسق و فاجر کہتے ہیں۔ حافظ ابن القیم رحمہ اللہ نے کتاب الصلوٰۃ میں فریقین کے دلائل جمع کر دیئے ہیں۔ محدث البانی رحمہ اللہ اور بعض علماء کی تحقیق یہ ہے کہ تارک الصلوٰۃ کافر نہیں ہے۔
محدث عبداللہ روپڑی رحمہ اللہ سے پوچھا گیا: ‘‘ بے نماز کا ذبیحہ مسلمانوں کو کھانا جائز ہے یا نہیں؟’’ تو انہوں نے جواب دیا:‘‘ بے نماز بے شک کافر ہے خواہ ایک نماز کا تارک ہو یا سب نمازوں کا کیونکہ (مَنْ تَرَکَ الصَّلٰوۃَ مُتَعَمَّدًا فَقَدْکَفَرَ) عام ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ ہر تارکِ صلوٰۃ کافر ہے رہا بے نماز کے ذبیحہ کا حکم سووہ اہلِ کتاب کے حکم میں ہونے کی وجہ سے درست ہو سکتا ہے خواہ نیک زبح کرنے والا پاس موجود ہو یا نہ، ہاں نیک ہر طرح سے بہتر ہے اور بے نماز جب کافر ہوا تو اس کا کھانا مثل عیسائی کے کھانے کے سمجھ لینا چاہیئے ۔ حتی الوسع اس سے پرہیز رکھے عند الضرورۃ کھا لے ’’ (فتاویٰ اہلِ حدیث ج ۲ص ۶۰۴)
ہمارے استاد محترم حافظ عبدالمنان نور پوری حفظہ اللہ سے پوچھا گیا: ‘‘ بے نماز کے متعلق اکثر کہا جاتا ہے کہ وہ کافر ہے اگر یہ بات درست ہے تو کیا بے نماز کا ذبیحہ حلال ہے یا حرام؟’’ تو انہوں نے جواب دیا: ‘‘ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : (اَلْیَوْمَ اُحِلَّ لَکُمُ الطَّیِّبَاتُ وَطَعَامُ الَّذِیْنَ اُوْتُو الْکِتٰبَ حِلٌّ لَّکُمْ وَطَعَامُکُمْ حِلُّ لَّھُمْ) [آج حلال ہوئی تم کو سب پاک چیزیں اور اہلِ کتاب کا کھانا تم کو حلال ہے اور تمھارا کھانا ان کو حلال ہے۔]عام مفسرین نے اس مقام پر طعام کی تفسیر ذبیحہ فرمائی ہے تو جب اہلِ کتاب کا ذبیحہ حلال ہے تو کلمہ پڑھنے والوں کا ذبیحہ بھی حلال ہے خواہ وہ نماز نہ پڑھتے ہوں کیونکہ وہ اہلِ کتاب تو ہیں ہی۔ ہاں اگر بوقت ذبح غیر اللہ کا نام لیا گیا ہو تو وہ ذبیحہ حرام ہے خواہ ذبح کرنے والا پکا نمازی ہی ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: (وَلَا تَاْ کُلُوْا مِمَّا لَمْ یُذْکَرِاسْمُ اللہِ عَلَیْہِ وَاِنَّہٗ لَفِسْقٌ) [اور اس میں سے نہ کھاؤ جس پر نام نہیں لیا گیا اللہ کا اور یہ کھانا گناہ ہے]نیز فرمایا: (وَمَآ اُھِلَّ لِغِیْرِ اللہِ بِہٖ) [اور جس جانور پر نام پکارا جائے اللہ کے سوا کسی اور کا ]۱ ؍۴؍۱۴۱۸ھ’’ (احکام و مسائل ج ۱ص ۴۵۲)
حافظ عبدالمنان حفظہ اللہ سے کسی شخص نے پوچھا: ‘‘ بازاری گوشت کیسا ہے حلال یا حرام؟ جیسا کہ پاکستان کے اکثر قصاب نماز اور دین کے بارہ میں بالکل صفر ہیں اور ان کا عقیدہ تو ماشا ء اللہ اور بھی نگفتہ بہ ہوتا ہے کیا ان کا ذبیح مشرک کے زمرہ میں آتا ہے؟’’حافظ صاحب نے جواب دیا: ‘‘ حلال ہے کیونکہ اہلِ کتاب کا ذبیحہ حلال ہے اور معلوم ہے کہ اہلِ کتاب کافر بھی ہیں اور مشرک بھی۔ پاکستان کے قصاب بہر حال اہلِ کتاب سے اچھے ہی ہیں پھر یہ کلمہ بھی پڑھتے ہیں مگر ایک شرط ہے کہ بوقت ذبح وہ بِسْمِ اللہِ وَاللہُ اَکْبَرُ پڑھتے ہوں غیر اللہ کے نام پر ذبح نہ کرتے ہوں ۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: (وَلَا تَأْ کُلُوْا مِمَّا لَمْ یُذْکَرِاسْمُ اللہِ عَلَیْہِ) [اور اس میں سے نہ کھاؤ جس پر نام نہیں لیا گیا اللہ کا] ۲۱؍۵؍۱۴۱۷ھ’’(احکام و مسائل۱؍۴۵۲)
اس مسئلے میں راجح یہی ہے کہ جو شخص مطلقاً ہمیشہ کے لئے تارک الصلوٰۃ ہے تو اس کا ذبیحہ نہ کھایا جائے۔
اہلِ بدعت: بدعت کی دو بڑی قسمیں ہیں:
۱: بدعتِ صغریٰ (غیر مُکَفِّرَو وغیر مُفَسِّقَہ) مثلاً سیدنا علی ؓ کو سیدنا عثمان ؓ سے افضل سمجھنا۔
۲: بدعتِ کبریٰ (مکفرہ و مفسقہ)
اس کی دو قسمیں ہیں:
۱۔ بدعتِ مکفرہ مثلاً یہ عقیدہ رکھنا کہ قرآن مجید مخلوق ہے۔
۲: بدعتِ مفسقہ مثلاً صحابہ کرام ؓ کو بُرا کہنا۔
بدعتِ کبریٰ کے تحت تمام خوارج ، روافض ، معتزلہ، جہمیہ اور منکرینِ حدیث آتے ہیں۔ اس تمہید کے بعد آپ کے سوالات کے جوابات پیشِ خدمت ہیں:
۱: جو مشرکین ہندو مذہب یا بدھ مزہب وغیرہما سے تعلق رکھتے ہیں ان کا ذبیحہ حرام ہے۔
۲: پاکستان میں جو ہندو یا بدھ وغیر ہما قصائی ہیں تو ان کا ذبیحہ حرام ہے۔ جو مسلمان صحیح العقیدہ قصائی ہیں ان کا ذبیحہ حلال ہے۔ جو مرتدین و کفار ہیں ان کا ذبیحہ حرام ہے اور جو مبتدعین (اہلِ بدعت) ہیں، اگر وہ اللہ کا نام لے کر حلال جانور ذبح کریں تو یہ گوشت حلال ہے۔
اہلِ بدعت کی روایات صحیحین میں موجود ہیں مثلاً:
۱: خالد بن مخلد: صحیحین کا راوی خالد بن مخلد ثقہ و صدوق ہے، جمہور محدثین نے اس کی توثیق کی ہے۔ ابن سعد نے کہا: ‘‘ وکان منکر الحدیث، فی التشیع مفرطاً ’’
وہ تشیع میں افراط کرنے والا، منکر حدیثیں بیان کرنے والا تھا۔ (طبقات ابن سعد ۶؍۴۰۶)
جوز جانی نے کہا: ‘‘کان شتاماً معلناً بسوء مذھبہ’’ وہ (صحابہ کو) گالیاں دینےو الا تھا، اپنے بُرے مذہب کا اعلان کرنے والا تھا۔ (احوال الرجال : ۱۰۸)
۲: علی بن الجعد: صحیح بخاری کا راوی اور ثقہ عند الجمہور (صحیح الحدیث) تھا۔ اس نے سیدنا عثمان بن عفان ؓ کے بارے میں کہا: ‘‘ أخذ من بیت المال مائۃ ألف درھم بغیر حق’’ اس نے بیت المال سے ایک لاکھ درہم نا حق لئے۔ اس پر یہ قسم بھی کھاتا تھا۔(تاریخ بغداد ۱۱؍۳۶۴ و سندہ حسن)
۳: عباد بن یعقوب: صحیح البخاری کا راوی اور موثق عند الجمہور (حسن الحدیث) تھا۔
امام ابن خزیمہ نے فرمایا: ‘‘ ناعباد بن یعقوب ۔ المتھم فی رأیہ، الثقۃ فی حدیثہ’’ ہمیں عباد بن یعقوب نے حدیث سنائی، وہ اپنی رائے میں مہتم تھا اور اپنی حدیث میں ثقہ تھا۔ (صحیح ابن خزیمہ: ۱۴۹۷)
یہ تشیع میں غالی تھا اور سلف (صحابہ و تابعین ) کو گالیاں دیتا تھا۔
دیکھئے الکامل لابن عدی(۴؍۱۶۵۳[۵؍۵۵۹])
حافظ ابن حبان نے کہا: ‘‘وکان رافضیاً داعیۃ إلی الرفض۔۔’’ اور وہ رافضی تھا (اور) رافضیت کی طرف دعوت دیتا تھا۔(المجروحین ۲؍۱۷۲)
حافظ ابن حجر نے کہا: ‘‘صدوق رافضی’’ (تقریب التہذیب : ۳۱۵۳)
جب اہلِ بدعت (ثقۃ و صدوق عند الجمھور ) کی روایات مقبول ہیں تو ان کا ذیحہ بھی حلال ہے۔ حافظ ذہبی رحمہ اللہ کیا خوب فرماتے ہیں: ‘‘فلنا صدقہ و علیہ بدعتہ’’ پس اس کی سچائی ہمارے لئے ہے اور اس کی بدعت اسی پر وبال ہے۔ (میزان الاعتدال ۱؍۵ترجمۃ ابان بن تغلب)
۳: جس قصاب کو آپ مرتد، کار یا مشرک سمجھتے ہیں اور اس کا آپ کے پاس واضح ثبوت بھی ہے تو اس کا ذبیحہ نہ کھائیں۔ رہے اہلِ بدعت تو دلائلِ مذکورہ کی رو سے ان کا ذبیحہ حلال ہے۔
۴: سیدنا ابن مسعود ؓ کا اثر، سعید بن منصور سے باسند صحیح متصل نہیں ملا۔ بے سندروایتیں مردود ہوتی ہیں۔ سعید بن منصور سے لے کر ابن مسعود ؓ تک سند بھی نامعلوم ہے۔ نیز دیکھئے : ۶
۵: اس روایت کی سند ضعیف ہے۔ اسے ابن جریح نے عمر و بن دینار سے ‘‘عن’’ کے ساتھ روایت کیا ہے اور ابن جریح مشہور مدلس ہیں۔
۶۔ حدیثِ ابن مسعود ؓ ؍مصنف عبدالرزاق: اس روایت کی سند میں ابو اسحاق السَّبِیعی مدلس ہیں اور روایت ‘‘عن’’ سے ہے لہٰذا یہ سند بھی ضعیف ہے۔
۷: میرے علم کے مطابق صحابہ کرام و تابعین میں سے کوئی بھی ہندو مشرکین وغیرہ کے ذبیحے کے جواز کا قائل نہیں ہے۔ رہا مسئلہ اہلِ بدعت کا تو سیدنا ابن عمر ؓ خارجیوں اور خشبیوں کے پیچھے نماز پڑھ لیتے تھے۔ (دیکھئے طبقات ابن سعد ۱؍۱۶۹، ۱۷۰، حلیۃ الاولیاء۱؍۳۰۹ وسندہ صحیح)آپ انہیں سلام بھی کہتے تھے۔ (السنن الکبریٰ للبیہقی ۳؍۱۲۲، وسندہ صحیح)
آپ مشہور ظالم حجاج بن یوسف جیسے بدعتی کے پیچھے بھی نماز پڑھ لیتے تھے۔(دیکھئے السنن الکبری للبیہقی ۳؍۱۲۱، ۱۲۲ ، وسندہ حسن)
حجاج بن یوسف کے بارے میں حافظ ذہبی نے کہا: ‘‘وکان ظلوماً جبارًا ناصیبًا خبیثًا۔۔۔’’ اور وہ ظالم جبار (اور) ناصبی خبیث تھا۔ (سیر اعلام النبلاء ۴؍۳۴۳)
تنبیہ: واضح رہے کہ راجح یہی ہے کہ بدعتِ کبریٰ کے مرتکب کے پیچھے نماز نہیں ہوتی۔ تفصیلی تحقیق کے لئے دیکھئے راقم الحروف کی کتاب‘‘ بدعتی کے پیچھے نماز کا حکم’’
۸: ذبیحہ کرنا ایک عمل ہے جس کی مشروعیت کتاب و سنت سے ثابت ہے۔ بعض الناس کا یہ کہنا کہ ‘‘ ذبیحہ کرنا عبادت ہے’’ اس کی دلیل مجھے معلوم نہیں ہے۔
۹: اہلِ کتاب اور اہلِ سلام کے سوا تمام مشرکین و مرتدین و کفار کا ذبیحہ بلا شک و شبہ حرام ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اہلِ اسلام (کلمہ گو مدعیانِ اسلام) میں سے اہلِ بدعت کا ذبیحہ بھی حرام ہے۔
۱۰: یہود کے اکہتر اور نصاریٰ کے بہتر فرقے ہوئے جنہیں اہلِ کتاب سے خارج نہیں کیا گیا اور اسی طرح امتِ مسلمہ کے تہتر فرقے ہیں جن میں سے بہت فرقوں کی تکفیر کرنا اور امتِ مسلمہ سے خارج قرار دینا غلط ہے۔ بس صرف یہ کہہ دیں کہ یہ فرقے گمراہ ہیں اور اہلِ بدعت میں سے ہیں یا ان کے عقائد کفریہ و شرکیہ ہیں ۔ ان تمام فرقوں کے ہر شخص کو متعین کر کے ، بغیر اقامتِ حجت کے کافر ، مشرک یا مرتد قرار دینا غلط ہے۔
اس ساری بحث کا خلاصہ درج ذیل ہے:
۱: کفار و مرتدین مثلاً ہندو، بدھ مذہب والوں، مرزائیوں اور تحریفِ قرآن کا عقیدہ رکھنےو الوں کا ذبیحہ حرام ہے۔
۲: اہلِ بدعت کلمہ گو فرقوں کا ذبیحہ حلال ہے بشرطیکہ وہ دینِ اسلام کے کسی ایسے عقیدے یا عمل کا انکار نہ کریں جو ضروریاتِ دین میں سے ہے۔
۳: جس طرح اہلِ کتاب کے اکہتر یا بہتر فرقے اہلِ کتاب کے عمومی حکم میں شامل ہیں، اسی طرح اہل، اسلام کے تہتر فرقے ( جن میں فرقہ ناجیہ طائفہ منصورہ بھی شامل ہے) اہلِ اسلام کے عمومی حکم میں شامل ہیں، اسی طرح اہلِ اسلام کے تہتر فرقے (جن میں فرقہ ناجیہ طائفہ منصورہ بھی شامل ہے) اہلِ اسلام کے عمومی حکم میں شامل ہیں۔
۴: اہلِ بدعت سے محدثین کرام کا اپنی کتبِ صحاح میں روایات لینا اس بات کی دلیل ہے کہ ان لوگوں کا ذبیحہ حلال ہے۔
۵: بہتر یہی ہے کہ کسی صحیح العقیدہ مسلمان بھائی کا ذبیحہ کھایا جائے۔
۶: موجودہ دور میں اہلِ سنت کی طرف منسوب دو بڑے فرقوں آلِ دیوبند اور آلِ بریلی کے عام عقائد ایک جیسے ہیں۔ ان میں سے ایک فرقے کا ذبیحہ کھانا اور دوسرے کا ذبیحہ نہ کھانا کسی واضح دلیل سے ثابت نہیں ہے۔
محمد یوسف لدھیانوی دیوبندی لکھتے ہیں: ‘‘ میرے لئے دیوبندی بریلوی اختلاف ، کا لفظ ہی موجبِ حیرت ہے۔ آپ سن چکے ہیں کہ شیعہ سنی اختلاف تو صحابہ کرام ؓ کو ماننے یا نہ ماننے کے مسئلے پر پیدا ہوا، اور حنفی وہابی اختلاف ائمہ ہدیٰ کی پیروی کرنے نہ کرنے پر پیدا ہوا۔ لیکن دیوبندی بریلوی اختلاف کی کوئی بنیاد میرے علم میں نہیں ہے۔’’(اختلافِ اُمت اور صراطِ مستقیم ص۲۵)
۷: جس شخص کا اہلِ بدعت کے ذبیحے پر دل مطمئن نہیں ہے تو نہ کھائے مگر خوارج کی طرح تکفیری فتوے جاری کرتا نہ پھرے۔ ان اہلِ بدعت میں سے ایسے سادہ ہیرے بھی ملتے ہیں جنہیں جب کتاب و سنت کی دعوت پہنچتی ہے تو والہانہ انداز میں لبیک کہتے ہوئے دینِ اسلام کے لئے اپنی جانیں اور مال قربان کر دیتے ہیں۔
۸: اس امت میں سب سے بُرے لوگ خوارج اہلِ تکفیر ہیں، ان سے ہر وقت اجتناب کرنا چاہیئے۔ مرجئہ اور جہمیہ سے بھی دور رہیں۔
۹۔ صحیح العقیدہ اہلِ حدیث (اہل سنت) علماء سے ہر مسئلے میں مکمل رابطہ رکھیں۔
۱۰: سیدنا عیسیٰ بن مریم ؑ اور عزیر کو اللہ کا بیٹا کہنے والوں کا ذبیحہ حلال ہے تو ان کلمہ گو اہلِ اسلام کا ذبیحہ کیوں حلال نہیں ہے جنہیں علمائے حق نے متفقہ طور پر کفار و مرتدین اور مشرکین کے حکم میں شامل نہیں کیا؟ وما علینا إلا البلاغ (۲۲دسمبر ۲۰۰۲ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مشرک کے ذبیحہ کے متعلق شرعی حکم
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
مشرک کے ذبیحہ کےمتعلق کیا حکم ہے ، یعنی اس کا ذبح کیا ہوا جانور حلال ہے،نیز جو شخص خود کو مسلمان کہلائےاور شرک کا ارتکاب بھی کرے اس کے ذبیحہ کا کیا حکم ہے؟
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ذبح کرنا بھی ایک عبادت ہے، جو مشرک سے قبول نہیں کی جاتی۔ اس لئے جو بنیادی طور پر مشرک ہیں ، مثلاً: ہندو،سکھ اور بدھ مت وغیرہ ان کا ذبیحہ حرام ہے، البتہ اہل کتاب جو سماوی شریعت کے قائل ہیں۔ قرآنی صراحت کےمطابق ان کا ذبیحہ جائز قرار دیا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
‘‘اہل کتاب کا کھانا تمہارے لئے حلال ہے اور تمہارا کھانا ان کےلئے جائز ہے۔’’ (۵/المائدہ:۵)
ا س آیت کریمہ میں کھانے سےمرادذبیحہ ہے لیکن اس کےلئے بھی شرط ہے کہ حلال جانور کو اللہ کے نام لے کر ذبح کیا جائے،نزول قرآن کےوقت اہل کتاب کی دو اقسام میں شرک پایا جاتا ہے، جیسا کہ قرآن میں ہے کہ یہودی حضرت عزیرؑ اور نصاریٰ حضرت عیسیٰ ؑ کو اللہ کا بیٹا قرار دیتے تھے، ان کےباوجود ان کے ذبیحہ کو مشروط طور پر ہمارے لئے حلال قرار دیا گیا ہے۔ اسی طرح دور حاضر کےمسلمان جو معیاری نہیں ہیں، البتہ کلمہ گو، نماز و روزہ کے قائل و فاعل ہیں،اگر بظاہر کوئی شرکیہ کام کریں تو ان ذبح کردہ جانور حرام نہیں ہوگا۔ ہاں، اگر شرک و بدعت کو اپنے لئے حلال سمجھتے ہوں، ضد اور ہٹ دھرمی کے طورپر شرک کا ارتکاب کرتےہیں تو ایسے لوگوں کے ذبیحہ سے اجتناب کرنا چاہیے۔ واضح رہے کہ اگر کسی انسان میں شرک کے اسباب موجود ہوں تو اسے مشرک قرار دینے کے لئے ضروری ہے کہ وہاں کوئی موانع نہ ہوں۔ اگر اسباب کےساتھ کوئی رکاوٹ یا مانع موجود ہوتو انہیں مشرک نہیں قرار دیا جاسکتا ہے۔ اس موضوع پر راقم نے مورخہ ۲۷جولائی بمقام دفتر‘‘محدث’’ماڈل ٹاؤن لاہور میں ایک درس دیا تھا اور وہ دفتر محدث سے مل سکتا ہے۔ اس میں وضاحت کی تھی کہ کسی کو مشرک یا کافر قرار دینے کے اسباب ،ضوابط ، شرائط اور موانع کیا ہیں۔
قرآن و حدیث میں ہمیں اس بات کا پابند بنایا گیا ہے کہ ہم حلال اور طیب مال استعمال کریں ، اس سلسلہ میں (انی کنت من الظالمین)کثرت سے پڑھا کریں ، اس میں بہت خیر و برکت ہے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
فتاویٰ اصحاب الحدیث (حافظ عبد الستار الحماد حفظہ اللہ )
ج2ص451
محدث فتویٰ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فتاویٰ جات فتویٰ نمبر : 2122
بازاری گوشت کا حکم
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
بازاری گوشت کیسا ہے حلال یا حرام ؟ جیسا کہ پاکستان کے اکثر قصاب نماز اور دین کے بارہ میں بالکل صفر ہیں اور انکا عقیدہ تو ماشاء اللہ اور بھی نگفتہ بہ ہوتا ہے کیا ان کا ذبیح مشرک کے زمرہ میں آتا ہے؟
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
حلال ہے کیونکہ اہل کتاب کا ذبیحہ حلال ہے اور معلوم ہے کہ اہل کتاب کافر بھی ہیں اور مشرک بھی۔ پاکستان کے قصاب بہرحال اہل کتاب سے اچھے ہی ہیں پھر یہ کلمہ بھی پڑھتے ہیں مگر ایک شرط ہے کہ بوقت ذبح وہ بسم اللہ واللہ اکبر پڑھتے ہوں غیر اللہ کے نام پر ذبح نہ کرتے ہوں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے
﴿وَلَا تَأۡكُلُواْ مِمَّا لَمۡ يُذۡكَرِ ٱسۡمُ ٱللَّهِ عَلَيۡهِ﴾--انعام121
’’اور اس میں سے نہ کھائو جس پر نام نہیں لیا گیا اللہ کا‘‘
وباللہ التوفیق
احکام و مسائل (حافظ عبد المنان نور پوری رحمہ اللہ )
کھانے پینے کے احکام ج1ص 445
محدث فتویٰ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فتاویٰ جات فتویٰ نمبر : 2121
بے نمازی کے ساتھ کھاناپینا
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
بے نماز کے متعلق اکثر کہا جاتا ہے کہ وہ کافر ہے اگر یہ بات درست ہے تو کیا بے نماز کا ذبیحہ حلال ہے یا حرام؟
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
﴿ٱلۡيَوۡمَ أُحِلَّ لَكُمُ ٱلطَّيِّبَٰتُۖ وَطَعَامُ ٱلَّذِينَ أُوتُواْ ٱلۡكِتَٰبَ حِلّٞ لَّكُمۡ وَطَعَامُكُمۡ حِلّٞ لَّهُمۡۖ﴾--مائدة5
’’آج حلال ہوئیں تم کو سب پاک چیزیں اور اہل کتاب کا کھانا تم کو حلال ہے اور تمہارا کھانا ان کو حلال ہے‘‘ عام مفسرین نے اس مقام پر طعام کی تفسیر ذبیحہ فرمائی ہے تو جب اہل کتاب کا ذبیحہ حلال ہے تو کلمہ پڑھنے والوں کا ذبیحہ بھی حلال ہے خواہ وہ نماز نہ پڑھتے ہوں کیونکہ وہ اہل کتاب تو ہیں ہی۔ ہاں اگر بوقت ذبح غیر اللہ کا نام لیا گیا ہو تو وہ ذبیحہ حرام ہے خواہ ذبح کرنے والا پکا نمازی ہی ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :
﴿وَلَا تَأۡكُلُواْ مِمَّا لَمۡ يُذۡكَرِ ٱسۡمُ ٱللَّهِ عَلَيۡهِ وَإِنَّهُۥ لَفِسۡقٞۗ﴾--انعام121
’’اور اس میں سے نہ کھائو جس پر نام نہیں لیا گیا اللہ کا اور یہ کھانا گناہ ہے‘‘ نیز فرمایا :
﴿وَمَآ أُهِلَّ لِغَيۡرِ ٱللَّهِ بِهِۦ﴾--مائدة3
’’اور جس جانور پر نام پکارا جائے اللہ کے سوا کسی اور کا‘‘
وباللہ التوفیق
احکام و مسائل :(حافظ عبد المنان نور پوری رحمہ اللہ )
کھانے پینے کے احکام ج1ص 445
محدث فتویٰ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجہول العقیدہ اور شرک سے ناواقف شخص کا ذبیحہ
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا اس شخص کا ذبیحہ کھایا جا سکتا ہے جس کا عقیدہ معلوم نہ ہو اور جو گناہوں کا ارتکاب کرتا ہو اور اسے معلوم بھی ہو کہ یہ حرام ہیں اور جس کے بارے میں یہ معلوم ہو کہ وہ قصد و ارادہ کے بغیر جن کو پکارتا ہے؟
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اگر وہ شرک نہ کرتا ہو تو اس کا ذبیحہ حلال ہے بشرطیکہ وہ مسلمان ہو اور گواہی دیتا ہو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور حضرت محمدﷺ اللہ کے رسول ہیں اور نہ اس کے بارے میں کوئی اور ایسی بات معلوم ہو جس سے کفر لازم آتا ہو تو اس کا ذبیحہ حلال ہے۔ ہاں البتہ اگر یہ معلوم ہو جائے کہ اس نے شرک کا ارتکاب کیا ہے مثلاً یہ کہ کسی جن کو پکارا ہے یا مردوں سے دعا اور استغاثہ کیا ہے تو یہ شرک اکبر ہے‘ اس کے مرتکب انسان کا ذبیحہ نہیں کھایا جائیگا۔ جنوں کو پکارنے کی مثال یہ ہے کہ ان سے کہے کہ یہ کام کرو یا یہ کام نہ کرو یا مجھے یہ دو یا فلاں شخص کے ساتھ یہ کرو‘ اس طرح جو شخص قبروں میں مدفون لوگوں یا فرشتوں کو پکارے‘ ان سے استغاثہ کرے یا ان کیلئے نذر مانے تو یہ سب شرک اکبر ہے۔ ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں شرک سے محفوظ رکھے۔
گناہوں کے ارتکاب سے ذبیحہ کھانا حرام نہیں ہوتا بشرطیکہ وہ انہیں حلال نہ سمجھے بلکہ انہیں حرام ہی سمجھے اور پھر اس نے جانورکو شرعی طریقے سے ذبح کیا ہو اور جو شخص گناہوں کو حلال سمجھے تو وہ کافر شمار ہوگا۔ مثلاً: اگر کوئی شخص زنا یا شراب یا سود یا والدین کی نارمانی یا جھوٹی گواہی وغیرہ ایسے گناہوں کو حلال سمجھے‘ جن کی حرمت پر تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے تو وہ کافر ہے۔ ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ہر اس کام سے بچائے جو اسے ناراض کرنے کا سبب نہیں۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
فتاویٰ اسلامیہ
ج3ص457
محدث فتویٰ