• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ذرائع ابلاغ کا کرداروذمہ داری تعلیمات نبوی کی روشنی میں

شمولیت
دسمبر 09، 2013
پیغامات
68
ری ایکشن اسکور
15
پوائنٹ
37
تحریر: جناب پروفیسر محمد یٰسین ظفر
ارشاد باری تعالیٰ:
ومن الناس من یشتری لھو الحدیث لیضل عن سبیل اللہ بغیر علم ویتخذھا ھزوا ، اولئک لھم عذاب مھین۔

جناب صدر وفضیلت مآب علماء کرام

اللہ تعالیٰ نے کائنات کی تخلیق کے بعد ہر مخلوق کو وحی کے ذریعے ان کی ذمہ داریوں سے اگاہ کر دیا۔ جو قیامت تک اس کی پابند ہے۔ مگر انسان کو عقل جیسی نعمت سے نوازا تاکہ خیراور شر ، نیکی اور بدی میں تمیز کرے۔ اور اسے اختیار دیا کہ وہ جو بہتر ہے اسے اختیار کرلے۔ اللہ تعالیٰ بڑے رحیم وکریم ہیں۔ انسان کو بے یارومددگار نہیں چھوڑا۔ بلکہ اس کی رہنمائی کے لیے انبیاء کرام مبعوث کیے۔ تاکہ وہ عقل کو راہ راست سے نہ ہٹنے دیں۔ جن لوگوں نے انبیاء کی تعلیمات کو اپنا لیا وہ نہ تو گمراہ ہوئے۔ اور نہ ہی بد بخت ٹھہرے۔

اس دنیا میں ہم آخری امت ہیں۔ ہمارے لیے اللہ تعالیٰ نے رحمت اللعالمین کا انتخاب فرمایا۔ جنہوں نے قدم قدم پر امت کی رہنمائی فرمائی۔ آپ کی تعلیمات کا اہم حصہ اخلاقیات پر مبنی ہے۔

حضرات گرامی ! جو آیت میں نے تلاوت کی اس کے پس منظر کا آج کے موضوع سے گہرا تعلق ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اسلام کی دعوت پیش کی۔ اور لوگوں کو قرآن حکیم پڑھ کر سنایا تو وہ لوگ جو اس دعوت کے مخالف تھے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کو دبانا چاہتے تھے۔ انہوں نے بھی مکہ سے ایک خبیث النفس شخص نضر بن حارث کا انتخاب کیا۔ جو اپنے وقت کا نام نہاد دانشور اور قصہ گو ، ادیب تھا۔ اس نے روم وفارس کے لوک داستانیں سن رکھی تھیں۔ رستم ، بہرام ،اسفندیار اور شاھان حیرہ کے واقعات ازبر تھے۔ چنانچہ یہ بھی سرشام مجلسیں لگاتا۔ اس میں مغنیات کو بلاتا ۔ پہلے وہ مجلس کوگرم کرتی ۔ اس کے بعد یہ من گھڑت اور فضول قصے سناتا۔ اور کہتا ’’ ھذا خیرا او ما یدعوک الیہ محمد من الصلاۃ والصیام وان تقاتل بین یدیہ ‘‘ گویا اس نے بھی ایسا ذریعہ اختیار کیا ۔ جس میںنوجوان دلچسپی لیتے۔ اس واقعہ کا موجود دور سے موازنہ کریں۔ تو آپ کو ذرائع ابلاغ کے کردار سے مماثلت نظر آئے گی۔

جناب صدر ! ذرائع ابلاغ صرف خبر رسانی کا ذریعہ نہیں رہا۔ یہ تو لوگوں کی زندگیوں آداب ، رسم ورواج ، اخلاقیات پر بھی بے حد اثر انداز ہوا ہے۔ اور مسلمانوں کی ثقافت میں نئے نئے انداز متعارف کروا رہا ہے۔ چند مثالیں پیش خدمت ہیں۔ آپ تعلیمات نبوی اور موجودہ میڈیا کا موازنہ خود کرلیں۔

1. تعلیم نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ ’’ من کان یؤمن باللہ والیوم الآخر فلیقل خیرا اولیصمت ‘‘ جو اللہ تعالیٰ اور آخرت پر ایمان رکھتا ہے۔ وہ اچھی بات کرے یا خاموشی اختیار کرے۔ اس تعلیم کا مقصد ہے کہ ہمیں فضول اور بے مقصد گفتگو نہیں کرنی چاہیے۔ اور فرمایا دوسروں کو ہنسانے کے لیے جھوٹ مت بولو ۔ لیکن ذرائع ابلاغ میں اچھی گفتگو کا کیا معیار ہے۔ بتانے کی ضرورت نہیں۔

2. ایک طویل حدیث ہے کہ زمانہ آئے کہ علماء کے اٹھ جانے سے علم بھی اٹھ جائے ۔ ان کہ جگہ جھلاء لیں گے۔ جو اپنی جہالت سے فتوے دیں گے۔ خود بھی گمراہ اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے۔ الفاظ ہیں۔ ’’ فافتوا الناس بغیر علم فضلوا وأضلوا ‘‘ آج ذرائع ابلاغ میں ایسے فتوؤں کی کمی نہیں۔

مکمل مضمون
http://www.ahlehadith.org/zaray-iblagh-ka-kirdar-wa-zimma-dari
 
Top