• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ذوالحجہ کے دنوں میں مطلق اور مقید تکبیرات

شمولیت
جون 05، 2018
پیغامات
302
ری ایکشن اسکور
16
پوائنٹ
79
.


فرض نماز کے بعد تکبیراتِ ذوالحج کو مقید کرنے کا حکم

فضیلة الشیخ محمد ناصر الدین البانی ﴿رحمہ اللہ علیہ﴾ المتوفی سن 1420ھ
﴿محدث دیار شام﴾

پیشکش: توحیدخالص ڈاٹ کام


سوال: ﴿عید الاضحیٰ﴾ میں ﴿فرض﴾ نمازوں کے بعد مقید تکبیروں کا کیا حکم ہے؟ اور کیا انسان انہیں﴿ نماز کے بعد کے﴾ مشروع اذکار سے پہلے ادار کرے ، یا پھر اذکار کو پہلے ادا کرے؟

جواب: جہاں تک ہمیں علم ہے ایام عید میں نمازوں کے بعد تکبیرات مخصوص نہیں۔ سنت میں ان کا کوئی محدود وقت نہیں۔ یہ تکبیرات تو ان ایام کے شعار میں سے ہے۔ بلکہ میں تو یہ اعتقاد رکھتا ہوں کہ ان کو نماز کے بعد مقید کرنا ایک امر حادث ﴿نیا کام﴾ ہے جو عہد نبوی﴿صلی اللہ علیہ وسلم ﴾ میں موجود نہ تھا۔

لہذا اس کا بد یہی جواب یہی ہوگا کہ نماز کے بعد کے معروف اذکار کو پہلے اد اکرنا ہی سنت ہے۔ اور جہاں تک تکبیرات کا تعلق ہے تو وہ ہر وقت ادا کرنا جائز ہے۔

﴿"سلسلة الھدی والنور"، کیسٹ: 392، 46:27 منٹ پر﴾


سائل: کیا ایام تشریق میں تکبیرات کو نماز کے بعد مقید کرنا صحیح ہے؟١

جواب: نہیں، انہیں نماز کے بعد مقید یا مخصوص نہیں کرنا چاہیے ، بلکہ انہیں مقید کرنا بدعت ہے۔ ایام تشریق میں ہر وقت تکبیرات ادا کرنی چاہیے۔

سائل: اور پورے عشرہ ذو الحج میں؟

جواب: اور پورے عشرہ ذوالحج میں بھی﴿تکبیرات ادا کرنی چاہیے﴾۔

﴿"سلسلة الھدی والنور"، کیسٹ : 410، 36:12 منٹ پر﴾

http://www.urdumajlis.net/index.php?threads/25339/

.
 
شمولیت
جون 05، 2018
پیغامات
302
ری ایکشن اسکور
16
پوائنٹ
79
.

تکبیرات ایامِ تشریق


سوال
تکبیرات ایام تشریق کی امام و مقتدی کو باآواز بلند کہنا چاہیے یا پوشیدہ ۔ بینوا توجروا ۔


جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

امام و مقتدی دونوں کو تکبیرات ایام تشریق باآواز بلند سے کہنا چاہیے ہکذا یستفاد من کتب الاحادیث و الفقہ .
و اللہ اعلم بالصواب
حررہ السید ابو الحسن عفی عنہ ۔ ( سید محمد نذیر حسین )


ہوالموفق : ۔

تکبیرات تشریق کے متعلق امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی صحیح میں اور حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے فتح الباری میں جو کچھ لکھا ہے اس کو مع ترجمہ یہاں لکھ دینا مفید معلوم ہوتا ہے ۔

" باب التكبير أيام منى ، و إذا غدا إلى عرفة و كان عمر يكبر في قبته بمنى فيسمع أهل المسجد فيكبرون ، و يكبر أهل الأسواق حتَّى ترتج منى تكبيرا و كان ابن عمر يكبر بمنى تلك الأيام ، و خلف الصلوات، و على فراشه ، و في فسطاطه و مجلسه و ممشاه ، تلك الأيام جمعا و كانت ميمونة تكبر يوم النحر . و كان النساء يكبرن خلف أبان بن عثمان و عمر عبد العزيز ليالي التشريق مع الرجال في المسجد "

حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فتح الباری میں لکھتے ہیں :

( وَ قَدِ اشْتَمَلَتْ هَذِهِ الْآثَارُ عَلَى وُجُودِ التَّكْبِيرِ فِي تِلْكَ الْأَيَّامِ عَقِبَ الصَّلَوَاتِ وَ غَيْرِ ذَلِكَ مِنَ الْأَحْوَالِ وَفِيهِ اخْتِلَافٌ بَيْنَ الْعُلَمَاءِ فِي مَوَاضِعَ فَمِنْهُمْ مَنْ قَصَرَ التَّكْبِيرَ عَلَى أَعْقَابِ الصَّلَوَاتِ وَ مِنْهُمْ مَنْ خَصَّ ذَلِكَ بِالْمَكْتُوبَاتِ دُونَ النَّوَافِلِ وَ مِنْهُمْ مَنْ خَصَّهُ بِالرِّجَالِ دُونَ النِّسَاءِ وَ بِالْجَمَاعَةِ دُونَ الْمُنْفَرِدِ وَ بِالْمُؤَدَّاةِ دُونَ الْمَقْضِيَّةِ وَ بِالْمُقِيمِ دُونَ الْمُسَافِرِ وَ بِسَاكِنِ الْمِصْرِ دُونَ الْقَرْيَةِ وَ ظَاهِرُ اخْتِيَارِ الْبُخَارِيِّ شُمُولُ ذَلِكَ لِلْجَمِيعِ وَ الْآثَارُ الَّتِي ذَكَرَهَا تُسَاعِدُهُ وَ لِلْعُلَمَاءِ اخْتِلَافٌ أَيْضًا فِي ابْتِدَائِهِ وَ انْتِهَائِهِ فَقِيلَ مِنْ صُبْحِ يَوْمِ عَرَفَةَ وَ قِيلَ مِنْ ظُهْرِهِ وَ قِيلَ مِنْ عَصْرِهِ وَ قِيلَ مِنْ صُبْحِ يَوْمِ النَّحْرِ وَ قِيلَ مِنْ ظُهْرِهِ وَ قِيلَ فِي الِانْتِهَاءِ إِلَى ظُهْرِ يَوْمِ النَّحْرِ وَ قِيلَ إِلَى عَصْرِهِ وَ قِيلَ إِلَى ظُهْرِ ثَانِيهِ وَ قِيلَ إِلَى صُبْحِ آخِرِ أَيَّامِ التَّشْرِيقِ وَ قِيلَ إِلَى ظُهْرِهِ وَ قِيلَ إِلَى عَصْرِهِ حَكَى هَذِهِ الْأَقْوَالَ كُلَّهَا النَّوَوِيُّ إِلَّا الثَّانِيَ مِنَ الِانْتِهَاءِ وَ قَدْ رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ عَن أَصْحَاب بن مَسْعُودٍ وَ لَمْ يَثْبُتْ فِي شَيْءٍ مِنْ ذَلِكَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ حَدِيثٌ وَأَصَحُّ مَا وَرَدَ فِيهِ عَنِ الصَّحَابَةِ قَوْلُ على و بن مَسْعُود إِنَّه من صبح يَوْم عَرَفَة إِلَى آخر أَيَّام منى أخرجه بن الْمُنْذِرِ وَ غَيْرُهُ . وَ اللَّهُ أَعْلَمُ )

" یعنی صحیح بخاری میں ہے باب ایام منی کے تکبیر کے بیان میں اور جب کہ عرفہ کو جائے اور عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ مقام منی میں اپنے قبہ میں تکبیر کہتے تھے پس مسجد کے لوگ سن کر تکبیر کہتے اور بازار کے لوگ تکبیر کہتے یہاں تک کہ مقام منیٰ تکبیر سے گونج اُٹھتا ۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما منیٰ میں ان دنوں میں نمازوں کے بعد ، بستر پر ، خیمہ میں ، مجلس میں ، راستے میں اور دن کے تمام ہی حصوں میں تکبیر کہتے تھے اور ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا دسویں تاریخ میں تکبیر کہتی تھیں اور عورتیں ابان بن عثمان اور عبد العزیز کے پیچھے مسجد میں مردوں کے ساتھ تکبیر کہا کرتی تھیں۔فتح الباری میں ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے جو یہ آثار نقل کئے ہیں سو ان آثار سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ان دنوں میں تکبیر تشریق کا وجود تھا ۔نمازوں کے پیچھے بھی اور نمازوں کے علاوہ اور وقتوں میں بھی اور تکبیر تشریق کے متعلق علماء کے درمیان کئی مقام میں اختلاف ہے سو بعض علماء نے تکبیر تشریق کو نمازوں کے ساتھ خاص کر دیا ہے ( یعنی وہ کہتے ہیں کہ تکبیر تشریق کو فقط نمازوں کے بعد کہنا چاہئے اور دوسرے وقتوں میں نہیں ) اور بعض نے فرض نمازوں کے ساتھ خاص کر دیا ہے ۔ (یعنی وہ کہتے ہیں کہ صرف فرض نمازوں کے بعد تکبیر تشریق کہنا چاہئے اور نوافل کے بعد نہیں ) اور بعض نے کہا صرف مردوں کو کہنا چاہئے اور عورتوں کو نہیں اور جماعت سے نماز پڑھنے والے کو چاہئے تنہا پڑھنے والے کو نہیں اور جو نماز ادا کی جاوے اس کے بعد چاہئے قضا کے بعد نہیں اور مقیم کو چاہئے مسافر کو نہیں اور شہر کے رہنے والے کو چاہئے دیہات کے رہنے والے کو نہیں اور *امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک مختار یہ ہے کہ ان تمام لوگوں کو اور ان تمام وقتوں میں اور ان تمام جگہوں میں تکبیر تشریق کہنا چاہیے اور امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے اس مختار کی تائید آثار مذکورہ سے ہوتی ہے* اور علماء کے درمیان تکبیر تشریق کے ابتدا و انتہا میں بھی اختلاف ہے ۔ بعض کہتے ہیں یوم عرفہ کی صبح سے شروع کرنا چاہئے ۔ اور بعض نے کہا اس کی ظہر سے اور بعض نے کہا اس کی عصر سے اور بعض نے کہا کہ دسویں تاریخ کو صبح سے اور بعض نے کہا اس کی ظہر سے اور اس کا آخری وقت بعض نے دسویں تاریخ کی ظہر تک بتایا ہے اور بعض نے اس کی عصر تک اور بعض نے گیارہویں تاریخ ظہر تک اور بعض نے آخر ایام تشریق کی صبح تک اور بعض نے اس کی ظہر تک اور بعض نے اس کی عصر تک اور ان باتوں میں سے کسی بات کے متعلق کوئی حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے ثابت نہیں ہے ۔ اور اقوال صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین میں زیادہ صحیح قول حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ہے اور وہ یہ ہے کہ تکبیر تشریق یوم عرفہ کی صبح سے آخر ایام منی تک ہے اس کو ابن المنذر وغیرہ نے روایت کیا ہے ۔
و اللہ اعلم ۔

( کتبہ محمد عبد الرحمن المبارکفوری عفا اللہ عنہ )

ھذا ما عندی و الله اعلم بالصواب

فتاوی نذیریہ
جلد : 2 ، کتاب الاذکار و الدعوات و القراءۃ
صفحہ : 4
محدث فتویٰ

https://telegram.me/salafitehqiqikutub/3799

.
 
شمولیت
جون 05، 2018
پیغامات
302
ری ایکشن اسکور
16
پوائنٹ
79
.

السؤال

هل يجوز في هذه الأيام التكبير بعد الصلوات المكتوبة أو أنه لا يجوز؟
لأن ناسا قالوا لي إن التكبير بعد الصلوات في هذه الأيام بدعة لا يجوز لأنه لم يرد عن الرسول صلى الله عليه وسلم وهو إشغال للمصلين عن الأذكار المخصصة؟


الإجابــة

الحمد لله والصلاة والسلام على رسول الله وعلى آله وصحبه، أما بعد:

فالتكبير على نوعين فمنه مطلق ومنه مقيد، فابتداء المطلق يكون برؤية هلال ذي الحجة، والمقيد يبدأ من صبح يوم عرفة إلى عصر آخر أيام التشريق على الراجح، كما يشرع التكبير مطلقا ليلة عيد الفطر، وانظر للتفصيل الفتوى رقم : 101030 ، فإن كان إنكار صاحبك على من يأتي بالتكبير المقيد في وقته فهو مخطئ في ذلك، والسنة مع من يأتي بالتكبير، ولا ينافي هذا التكبير المقيد الأذكار المشروعة بعد الصلاة؛ إذ الجمع بينهما ممكن، وأما إن كان ينكر على من يكبر تكبيرا مقيدا في زمن لا يشرع فيه التكبير المقيد فهو مصيب في ذلك، فإن المواظبة على التكبير دبر الصلاة في وقت لا يسن فيه ذلك تشبيه لغير المسنون بالمسنون وهذا يدخل في حد البدعة الإضافية، وانظر الفتوى رقم: 55065.

و الله أعلم .

جميع الحقوق محفوظة © 2023 - 1998 لشبكة إسلام ويب

.
 
شمولیت
جون 05، 2018
پیغامات
302
ری ایکشن اسکور
16
پوائنٹ
79
.

السؤال
ذكرتم في إحدى الفتاوى أن التكبير المقيد في عيد الأضحى بعد الصلاة جائز, لكن أقوال العلماء على خلاف ذلك, وهناك من أفتى من العلماء بأن التكبير المقيد بعد الصلوات لم يثبت عن النبي صلى الله عليه وسلم, وقالوا بأنه مخالف لعادة السلف - التكبير المقيد - حتى في عيد الأضحى, وقد أفتى بها الأئمة: الألباني, وابن باز, وابن عثيمين, فأرجو مراجعة الفتاوى, وتوضيح قولكم وأقوال العلماء - جزاكم الله خيرا -.


الإجابــة

الحمد لله, والصلاة والسلام على رسول الله, وعلى آله وصحبه، أما بعد:

فالتكبير المقيد دبر الصلوات في عيد النحر مشروع، ووقت ابتدائه على الراجح من فجر يوم عرفة إلى عصر آخر أيام التشريق، قال العلامة ابن باز - رحمه الله -: وروي عن النبي صلى الله عليه وسلم, وعن جماعة من الصحابة - رضي الله عنهم - التكبير في أدبار الصلوات الخمس من صلاة الفجر يوم عرفة إلى صلاة العصر من يوم الثالث عشر من ذي الحجة, وهذا في حق غير الحاج، أما الحاج فيشتغل في حال إحرامه بالتلبية حتى يرمي جمرة العقبة يوم النحر، وبعد ذلك يشتغل بالتكبير. انتهى.

وإنما ذكرنا كلامه - رحمه الله - لتعلم أن ما نسبته إليه, وكذا إلى الشيخ ابن عثيمين - رحم الله الجميع - غير صحيح، بل هما كعامة أهل العلم يريان مشروعية التكبير المقيد دبر الصلوات؛ لآثار وردت عن الصحابة في ذلك، قال الحافظ في الفتح بعد ذكر خلاف العلماء في وقت ابتداء التكبير المقيد, وانتهائه ما لفظه: ولم يثبت في شيء من ذلك عن النبي صلى الله عليه وسلم حديث, وأصح ما ورد فيه عن الصحابة قول علي, وابن مسعود: إنه من صبح يوم عرفة إلى آخر أيام منى. انتهى، وعلي - رضي الله عنه - هو من الأئمة المهديين الذين أمرنا باتباع سنتهم.

و الله أعلم .

جميع الحقوق محفوظة © 2024 - 1998 لشبكة إسلام ويب

https://telegram.me/salafitehqiqikutub/3802

.
 
Top