• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ذوالحجہ کے دنوں میں مطلق اور مقید تکبیرات

شمولیت
جون 05، 2018
پیغامات
357
ری ایکشن اسکور
16
پوائنٹ
79
.

کیا فرض نمازوں کے بعد اجتماعی طور پر تکبیر پڑھنا جائز ہے یا بدعت ہے؟

نہ تو مرفوعا سنت کہنا صحیح ہے اور نہ ہی مطلقا بدعت کہنا صحیح ہے بلکہ اس میں تفصیل و وسعت ہے بعض صورتوں میں مشروع ہوگا اور بعض صورتوں میں بدعت

اصلا عشرہ ذی الحجہ میں اور ایام تشریق میں مرفوعا ( فعل رسول ﷺ سے ) تکبیرات پڑھنا ان ایام میں ثابت نہیں ہیں ہاں روایات مرفوعہ ضعیفہ ہیں

البتہ آثار صحیحہ و ضعیفہ سے عمل صحابہ یہ ہے کہ عشرہ ذی الحجہ و ایام تشریق میں تکبیرات کہی جائیں

عشرہ ذی الحجہ میـں تکبیرات، حدیثِ فضیلت عشرہ ذی الحجہ میں وارد روایت صحیحہ ( سنن الترمذي ، 757 ) میں " العمل الصالح " کے عموم میں داخل ہو کر بھی مشروع قرار پاتا ہے اور عمل صحابہ سے بھی اور

ایام تشریق میں تکبیرات ” عن نبيشة الهذلي ، قال : قال رسول الله ﷺ : أيام التشريق أيام أكل و شرب و ذكر لله “
”نبیشہ ھذلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا : تشریق کے دن کھانے ، پینے اور اللہ کے ذکر کے دن ہیں“ ( صحيح مسلم ، 1141 ) میں " ذكر لله " کے عموم سے اور عمل صحابہ سے مشروع قرار پاتا ہے فعل رسول سے ثابت نہیں جس کی بناء پر کچھ کم علم قارئین نے اسے بدعت سمجھ لیا

تکبیرات ذو الحجہ کی فضیلت عشرہ کی خصوصی عظیم فضیلت کی بناء پر مقام و درجہ میں ایام تشریق کی تکبیرات سے بڑھ کر ہیں

عشرہ ذی الحجہ میں بھی اور ایام تشریق میں بھی تکبیرات کے اوقات مقید نہیں ہیں کسی بھی وقت پڑھا جا سکتا ہے کوئی مقید کرتا ہے تو بدعت ہو جائے گا کوئی کسی وقت پڑھنے سے منع کرتا ہے تو بھی بدعت ہو جائے گا کیونکہ اصلا ً مطلق کبھی بھی بڑھنا ان ایام میں مشروع ہے

عشرہ ذی الحجہ میں بھی اور ایام تشریق میں بھی تکبیرات کے اوقات مطلق ہیں فرض نمازوں کے بعد بھی پڑھا جا سکتا اور نفلوں کے بعد بھی کیونکہ مطلق اوقات میں یہ بھی شامل ہیں اگر کوئی منع کرتا ہے تو منع کرنا بدعت ہے کیونکہ یہ مطلق کو مقید کر رہا ہے ، عشرہ ذی الحجہ میں بھی اور ایام تشریق میں بھی

اگر کوئی مطلق اوقات میں نہ پڑھتے ہوئے صرف نمازوں کے بعد پڑھتا ہے تو یہ بھی بدعت ہے کیونکہ یہ بھی مطلق کو مقید کر رہا ہے ، عشرہ ذی الحجہ میں بھی اور ایام تشریق میں بھی

ہاں مطلق اوقات میں پڑھنے کے ساتھ ساتھ نمازوں کے بعد بھی پڑھتا ہے تو یہ بدعت نہیں چاہے اذکار سے پہلے ہو یا بعد میں ہو یا دونوں وقت میں ہو حتی کہ نماز سے پہلے بھی ہو اس میں وسعت ہے کیونکہ یہ اسی مطلق اوقات میں داخل ہیں عشرہ ذی الحجہ میں بھی اور ایام تشریق میں بھی

اگر نمازوں کے بعد اذکار مسنونہ کو ترجیح دے کر اس کے پڑھنے کے بعد پڑھتا ہے تو اس کی بھی گنجائش و وسعت ہے

لیکن عشرہ ذی الحجہ میں بھی اور ایام تشریق میں بھی کے بجائے عشرہ ذی الحجہ میں تکبیرات ترک کر صرف ایام تشریق میں ہی کرتا ہے تو یہ بھی بدعت ہوگا اور

عشرہ ذی الحجہ میں ترک نہ کر صرف ایام تشریق میں تکبیرات ترک کرتا ہے تو یہ بھی بدعت ہوگا

دونوں میں بھی ترک کرتا ہے تو ترک طریق و سنت صحابہ ٹھریگا اور یہ واجب و فرض کے حکم میں بھی نہیں ہے کہ جس کے ترک سے کوئی کبیرہ گناہ کا مرتکب ٹھرے

عشرہ ذی الحجہ میں بھی اور ایام تشریق میں بھی صحابہ کی اس سنت کا احیاء کرتے ہوئے تکبیرات مطلقا سبھی کو پڑھنا چاہئے ، مطلق کوئی بھی پڑھ سکتا ہے کوئی تخصیص نہیں ، مرد عورت چھوٹے بڑے مقیم مسافر بیمار و صحت مند ، حائضہ جنبی بے وضوء ، با وضوء گھر میں مسجد میں بازار میں ، شہروں گاؤں و دیہاتوں میں چلتے پھرتے اٹھتے بیٹھتے کام میں لگے رہتے ہوئے اور فرصت میں ، جماعت کے ساتھ ، بغیر جماعت کے نفلوں سے پہلے نفلوں کے بعد فرضوں سے پہلے فرضوں کے بعد دن میں رات میں .

البتہ ابن عمر انفرادی نماز کے بعد نہیں پڑھتے تھے تو ایسا کرنا بھی جائز ہے

اگر کچھ لوگ فرضوں کے بعد نہیں پڑھتے تو یہ بھی جائز ہے کیونکہ پڑھنا حکماً فرض و واجب نہیں

عشرہ ذی الحجہ میں بھی اور ایام تشریق میں بھی چاہے انفرادی طور پر پڑھے یا اجتماعی طور پر پڑھے دونوں طرح جائز ہے بدعت بالکل نہیں کیونکہ ایک دو صحابہ تکبیرات کہتے تو انہیں کہتا دیکھ کر تمام لوگ بھی کہنے لگتے تھے، چاہے کہتے ہوئے ایک ہی آواز بن جائے بدعت نہ ہوگا اسی لئے بہت سے کبار علماء نے اسے جائز کہا بر خلاف بدعت قرار دینے والے کبار علماء کے ، بہر حال آپس میں اس بات کو لیکر جھگڑا کر لینا غلط ہوگا اصل مسئلہ تکبیرات پڑھنا ہے جو کہ اجتماعی و انفرادی طور پر یعنی دونوں طرح سے یا کسی ایک طرح سے پڑھنے سے بھی عمل ادا ہو جائے گا.

نمازوں کے بعد اتفاقا سب کا تکبیرات پڑھنا ایک ساتھ شروع اور ختم ہو جانا ایک ہی آواز بن جانا ایک الگ چیز ہے اور ایک ہی آواز کے لئے اہتمام کرتے ہوئے ایک ساتھ پڑھنا ایک ساتھ ہی شروع و ختم کرنے کا اہتمام کرنا ایک الگ چیز ہے اہتمام کرنا اور اسی طرح کرنے کو ضروری سمجھ لینا بدعت ہوگا بلا اہتمام کے یا بنا ضروری قرار دئے کے ایک ہی آوز بن جاتی ہو اتفاقا سب کا ابتداء و انتہا ایک ہو جاتا ہو تو بدعت نہ ہوگا

صرف ایک ہی قسم کے الفاظ کے تکبیرات کو ضروری سمجھ لینا یا دیگر الفاظ کہنے والے کو برا سمجھنا اسے روکنا ٹوکنا کہ سب لوگ جو ایک ہی طرح کے معروف جو الفاظ کہہ رہیں ہیں وہی الفاظ کہو کہنا دیگر الفاظ کے کہنے سے منع کرنا بدعت ہوگا کیونکہ صحابہ نے ہمارے ہاں صرف ایک ہی طرح کے رائج معروف الفاظ ہی کی تکبیرات کہنا متعین نہیں کر لیا تھا بلکہ مختلف صحابہ مختلف الفاظ پڑھا کرتے تھے جس کی جانکاری بہت کم ہی لوگوں کو ہے، جو عمیق علم رکھتے ہیں انہیں کو معلوم ہے لہذا صحابہ کی متابعت میں مختلف لوگ مختلف الفاظ کے تکبیرات پڑھیں تو ایک ساتھ اجتماعی تکبیرات پڑھنا بدعت ہے یا جائز ہے کی پریشانی ہی نہ رہے گی

نیز تعداد مقرر کر لینا کہ صرف تین مرتبہ ہی پڑھیں گے بدعت ہوگا بناء تعداد متعین کئے جائز و صحیح ہوگا کیونکہ صحابہ سے تعداد مقرر کر کے پڑھنا بھی ثابت نہیں

تکبیرات جہرا و سرا دونوں طرح پڑھا جا سکتا ہے عشرہ ذی الحجہ میں بھی اور ایام تشریق میں بھی

نیز تکبیرات کے الفاظ مرفوعا ثابت ہونے کی روایات میں بھی اختلاف ہے بعض محققین کے نزدیک صحیح ہے تو بعض نے ضعیف قرار دیا ہے اکثر محققین نے ضعیف ہی بتلایا ہے البتہ آثار بھی ہیں تکبیرات کے الفاظ کے ، بعض آثار صحیح ہیں اور بعض ضعیف ، صحیح آثار میں موجود الفاظ کو اختیار کرنا ہہتر ہوگا ویسے بعض محققین کے مطابق مطلق کوئی بھی تکیبرات کے الفاظ کہے جا سکتے ہیں کیوں کہ سلف سے صرف ایک ہی قسم کے الفاظ متعین و منقول نہیں ہیں اور نہ ہی متعین کئے گئے ہیں .
و اللہ اعلم

طالب علم
عزیر ادونوی

.
 
Top