عمران اسلم
سینئر رکن
- شمولیت
- مارچ 02، 2011
- پیغامات
- 333
- ری ایکشن اسکور
- 1,609
- پوائنٹ
- 204
دین اسلام میں ذکر الٰہی کی بہت زیادہ فضیلت و اہمیت ہے۔ بہت ساری نصوص میں ذاکرین کی تعریف اور ان کے لیے بہت سے سارے دنیوی و اخروی انعامات کا وعدہ کیا گیا ہے۔ ذکر کرنے کے سلسلے میں دین اسلام نے ہمیں کچھ اصول بھی دئیے ہیں جن کا لحاظ رکھنا از حد ضروری ہے۔ لیکن اس سلسلہ میں بدقسمتی یہ ہے کہ مسلمانوں میں صاحبان جبہ و دستار ذکر کے نام پر بدعات کے فروغ میں مصروف عمل ہیں۔ کوئی روزانہ اکتالیس بار سورۃ یٰسین پڑھنے کو امتحان میں کامیاب ہونے کی ضمانت قرار دے رہا ہوتا ہے تو کوئی ایک ہزار مرتبہ روزانہ درود پڑھنے پر گھر بسنے کے نوید سنا رہا ہوتا ہے۔اور تو اور کئی دفعہ ایسے ذکر بھی سننے کو مل جاتے ہیں جن میں ایسے الفاظ شامل ہوتے ہیں جن کا عربی میں وجود ہی نہیں ہے۔ ذکر و اذکار میں گنتی متعین کر لینے سے متعلق حافظ ثناء اللہ مدنی حفظہ اللہ کا ایک فتویٰ نقل کر رہا ہوں جو اگرچہ مختصر سا ہے لیکن قابل غور ہے۔
حافظ صاحب سے سوال کیا گیا کہ ذکر میں اپنی طرف سے گنتی متعین کرنےکا کیا حکم ہے؟
تو آپ کا جواب تھا:
ذکر و اذکار اور ورد و وظائف کے سلسلہ میں اصل یہ ہے کہ کتاب و سنت کی نصوص میں جہاں کہیں تعداد اور وقت کا تعین ہے، وہاں ان کا اہتمام ہونا چاہیےاور جس جگہ ان کو مطلق چھوڑا گیا ہے وہاں اپنی طرف سے متعین کرنا بدعت کے زمرہ میں شامل ہے۔ صحیح حدیث میں ہے:
’’من أحدث في أمرنا هذا ما ليس منه فهو رد‘‘
’’جو دین میں اضافہ کرے وہ اضافہ ناقابل قبول ہے۔‘‘
مسنون وِرد و وظائف میں گنتی سو سے زیادہ منقول نہیں ہے۔ علامہ البانی نے سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ میں اس امر کی تصریح کی ہے۔
حافظ صاحب سے سوال کیا گیا کہ ذکر میں اپنی طرف سے گنتی متعین کرنےکا کیا حکم ہے؟
تو آپ کا جواب تھا:
ذکر و اذکار اور ورد و وظائف کے سلسلہ میں اصل یہ ہے کہ کتاب و سنت کی نصوص میں جہاں کہیں تعداد اور وقت کا تعین ہے، وہاں ان کا اہتمام ہونا چاہیےاور جس جگہ ان کو مطلق چھوڑا گیا ہے وہاں اپنی طرف سے متعین کرنا بدعت کے زمرہ میں شامل ہے۔ صحیح حدیث میں ہے:
’’من أحدث في أمرنا هذا ما ليس منه فهو رد‘‘
’’جو دین میں اضافہ کرے وہ اضافہ ناقابل قبول ہے۔‘‘
مسنون وِرد و وظائف میں گنتی سو سے زیادہ منقول نہیں ہے۔ علامہ البانی نے سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ میں اس امر کی تصریح کی ہے۔
[ماہنامہ محدث : اگست 1999]