• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

راجہ گدھ

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
محترمہ بانو قدسیہ کے مطابق راجہ گدھ کا پس منظر
__________________________________________​

دیکھیے میں آپ کو دوسرے ناولوں کی بات تو بعد میں بتاؤں گی، میں ’راجہ گدھ‘ کے متعلق آپ کو بتا سکتی ہوں۔ آج وہ سترہ اٹھارہ سال سے سی ایس ایس کے امتحان میں لگا ہوا ہے۔ ڈاکٹر اجمل آپ کو یاد ہوگا، نفسیات دان تھے گورنمنٹ کالج کے پرنسپل بھی رہے ہیں۔ انہوں نے اسے مقابلہ کے اس امتحان میں لگایا تھا۔ میں یہاں پر بیٹھی تھی اور میرا کوئی ارداہ نہیں تھا کہ میں کوئی ایسا ناول لکھوں گی۔ ’راجہ گدھ‘ کی طرح کا، ان دنوں ہمارے گھر میں ایک امریکن لڑکا ٹھہرا ہوا تھا۔ وہ بہت کوشش کرتا تھا کہ امریکن تہذیب، امریکن زندگی، امریکن اندازِ زیست سب کے بارے میں یہ ثابت کرے کہ وہ ہم سے بہتر ہے۔ مسلمانوں سے بہتر ہے۔ تو ایک روز وہ میرے پاس آیا اور مجھ سے کہا: اچھا مجھے دو لفظوں میں، ایک جملے میں بتائیے، آپ صرف چھوٹی سی بات مجھ سے کیجیے کے اسلام کا ایسنس (جوہر) کیا ہے؟ میں نے اس سے کہا کہ آپ یہ بتائیے کہ عیسائیت کا ایسنس کیا ہے؟ اس نے کہا: عیسائیت کا ایسنسن ہے Love - "Love thy neighbour as thyself" یہ ایسنسن ہے عیسائیت کا۔ میں نے کہا اسلام کا جو ایسنس ہے وہ اخوت ہے، برابری ہے، بھائی چارہ ہے brotherhood ہے۔ کہنے لگا چھوڑیے یہ کس مذہب نے نہیں بتایا کہ برابری ہونی چاہیے۔ یہ تو کوئی ایسنس نہیں ہے یہ کہہ کر وہ تو چلا گیا۔ یقین کیجیے، یہاں پر پہلے ایک بہت بڑا درخت ہوتا تھا سندری کا درخت۔ سندری کا درخت ہوتا ہے جس سے سارنگی بنتی ہے۔ اس کے بڑے بڑے پتے تھے اور وہ یہاں لان کے عین وسط میں لگا ہوا تھا۔ وہ ایک دم سفید ہو گیا اور اس پر مجھے یوں لگا جیسے لکھا ہوا آیا ہو: اسلام کا ایسنس حرام و حلال ہے۔ مجھے معلوم نہیں تھا کہ اسے میں نے کیوں کہا۔ کیونکہ اس ہر ایکشن (عمل) سے دو چیزیں پیدا ہوتی ہیں۔ جتنے کمانڈمنٹس ہیں یا تو وہ حرام ہیں یا حلال ہیں۔حلال سے آپ کی فلاح پیدا ہوتی ہے اور حرام سے آپ کے بیچ میں تشنج پیدا ہوتا ہے۔ آپ میں ڈپریشن پیدا ہوتا ہے آپ میں بہت کچھ پیدا ہوتا ہے۔ میں نے اس امریکی لڑکے کو بلایا اور اسے کہا: یاد رکھنا اسلام حرام و حلال کی تمیز دیتا ہے اور یہی اس کا ایسنس ہے۔ اس کےبعد میں نے یہ کتاب لکھی اور میں آپ کو بتا نہیں سکتی کہ کس طرح اللہ نے میری رہنمائی کی اور میری مدد فرمائی اور مجھے یہ لگتا ہے کہ یہ کتاب میں نے نہیں لکھی مجھ سے کسی نے لکھوائی ہے۔ اس کے بعد آپ کو پتہ کہ میری بہت ساری کتابیں ہیں۔ پچیس کے قریب کتابیں میری ہو چکی ہیں۔ اور جتنا بھی اس پر کام ہوا ہے میں آپ کو بتا ہی نہیں سکتی کہ کس طرح ہوا ہے۔

نوٹ:بانو قدسیہ پاکستان کی مشہور ادیبہ ہیں۔ انہوں نے اردو اور پنجابی زبانوں میں ٹیلی ویژن کے لیے بہت سے ڈرامے بھی لکھے۔ اُن کا سب سے مشہور ناول راجہ گدھ ہے۔ بانو قدسیہ ایک عیسائی گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں۔ اشفاق احمد عرف تلقین شاہ سے بھرپور عشق کے بعد مشرف بہ اسلام ہوئیں اور ان سے شادی کی۔ بانو کی بہت سی تحریریں پڑھ چکا ہوں لیکن راجہ گدھ پڑھنے سے محروم رہا ہوں۔
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
orya.gif

از اوریا مقبول جان
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
گرنہیں کچھ، تو لطیفے ہی سہی
از ابو نثر

خدا اور خانہ خدا کے دشمن یہود نے مسجداقصیٰ میں جب آگ لگائی تو تمام مسلمانانِ عالم کی طرح رحمٰن کیانی بھی تڑپ اُٹھے تھے:
یہ دن دکھا دیا ہمیں چرخِ کبود نے
اقصیٰ میں آکے آگ لگا دی یہود نے
چناں چہ غم و غصے کے عالم میں اُمت مسلمہ کی سیاسی و عسکری قیادتوں کو مخاطب کرکے کہنے لگے:
عبرت کا ہے مقام کہ اِک قومِ مختصر
طامع، بخیل، بزدل و ملعون و فتنہ گر
کچھ مفسدانِ دہر کی شہ پا کے بے خطر
چھینے تمھارا ملک، جلائے خدا کا گھر
اور تم سوائے شور کے، کچھ بھی نہ کر سکو
کیا خوب لڑ رہے ہو کہ مارو نہ مر سکو
مگرلڑنا تو دُور کی بات ہے۔ اب تو عالمِ اسلام کے حکمران ’شور‘ کرنے کی سکت بھی کھو بیٹھے ہیں۔بے بسی کے اِس عالم میں ہم کچھ اور نہیں کر سکتے تو آئیے ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کچھ لطیفے ہی کرتے چلیں اور کہتے چلیں کہ دیکھو! ۔۔۔ ’اِس طرح لیتا ہے اغیار سے بدلہ شاعر‘۔
مولانا صاحب یونیسکو کے وفد میں شامل ہوکر اسرائیل ہو آئے تھے۔ آکر بتایا:’’ جب ہم تل ابیب کے بِن گوریا ں ائر پورٹ پر اُترے تو کیا دیکھتے ہیں کہ یہ ائر پورٹ ’بِن گوریاں‘ نہیں ہے‘‘۔۔۔ہم نے حیران ہوکر پوچھا:’’پھر کون سا ائرپورٹ تھا؟‘‘۔۔۔فرمایا:’’ ارے بھئی ائرپورٹ پر جس طرف بھی نظر جاتی تھی گوریاں ہی گوریاں نظر آتی تھیں، وہ اپنے ستر کی حفاظت نہیں کر پارہی تھیں۔ ہم اپنی نظر کی حفاظت کہاں تک کرتے؟ یہ قطعاً ’بِن گوریاں‘ ائر پورٹ نہیں تھا ۔ہم تو بس لاحول ہی پڑھتے رہے۔اماں بلامبالغہ سینکڑوں بار لاحول کا وظیفہ کرنا پڑا ہوگا۔ خداجانے کیوں یہ کہا جاتا ہے کہ یہ ائرپورٹ بِن گوریاں ہے‘‘۔۔۔ہم نے عرض کیا:’’ مولانا! بِن گوریاں صاحب اسرائیلی یہودیوں کے قومی رہنما تھے۔اُنھی کے نام پراِس ائر پورٹ کانام رکھا گیا ہے۔‘‘
حیرت سے پوچھنے لگے :’’ اچھا؟ اسرائیلیوں کا کوئی قومی لیڈر بھی اپنی زندگی ’بِن گوریاں‘ گذار گیا ہے؟ حیرت ہے صاحب حیرت ہے!‘‘
ہم نے کہا:’’ ارے مولانا! اب تو۔۔۔بِن گوریاں نوں پَرے کرو۔۔۔یہ بتاؤ کہ اگرعالمی سامراجی طاقتوں کی خواہش پر کسی وقت ہمارے بھی اسرائیل سے تعلقا ت قائم ہوگئے تو کیا ہوگا؟‘‘کہنے لگے :’’ہونا کیا ہے؟ لطیفے ہوں گے لطیفے‘‘۔پوچھا:’’کیا مطلب؟‘‘
فرمایا:’’ارے میاں! کیوں سنجیدہ ہوئے جارہے ہو؟یہود کو ذلیل و خوار کرنے کا ذمہ توخود اﷲ نے لیا ہے۔ خدائی کام میں ہمیں مداخلت کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ لطیفے سنو لطیفے!‘‘ یہ کہہ کر مولانا نے وہ لطیفے سنانا شروع کردیے، جو وہ جمع کرکے ساتھ لائے تھے۔ارشاد ہوا: یہ سبت کی دوپہر تھی۔ موشے اپنے ربی کے دارالمطالعہ میں کھڑا کھڑکی سے باہر دیکھ رہا تھا:’’ربی!‘‘موشے نے فکرمندی سے سوال کیا: ’’اگرکوئی شخص سبت کے دِن کسی گائے کو ڈوبتا ہوا دیکھے تو کیا اُسے گائے کی جان بچانے کی اجازت ہے یا اُسے ڈوبنے دے؟‘‘۔۔۔ ربی نے اپنے زیرِمطالعہ کتاب پر سے نظریں اُٹھائیں اور تحکم بھرے لہجہ میں جواب دیا: ’’ایک گائے کی خاطر سبت کی پابندیاں توڑنے کی قطعاً اجازت نہیں دی جاسکتی‘‘۔۔۔ موشے نے تشویش سے کہا:’’یہ تو بہت بُراہوا۔ ربی! ایک گائے جھیل میں گرگئی ہے اوروہ بے چاری ڈوب رہی ہے‘‘۔۔۔ ربی نے اپنی کتاب پر سے نظریں ہٹائے بغیر افسوس کا اظہار کیا:’’ ہاں واقعی بہت بُرا ہوا‘‘۔۔۔ موشے نے گھبرا گھبرا کر بتا نا شروع کیا:’’ ربی !اب تو اُس کا سربھی پانی کے اندر ڈوب رہا ہے‘‘۔
ربی مطالعے میں منہمک رہے توموشے نے رواں تبصرہ شروع کردیا: ’’اوہ ….اوراب تو وہ یقیناًڈوب چکی ہے۔ جی ہاں بالکل ڈوب گئی۔ مجھے اُس بے چاری پر بڑا رحم آرہا ہے‘‘۔۔۔ ربی نے پہلے تو بیزاری سے اظہارِ افسوس کیا:’’ہاں! مجھے بھی اُس بے چاری پر بڑا رحم آرہا ہے‘‘۔۔۔ پھر زیرِلب بڑبڑاتے ہوئے مزید کہا:’’یہ بڑی افسوس ناک بات ہے، مگر بھلا کوئی کیا کر سکتا ہے؟‘‘۔۔۔موشے نے کہا :’’ربی ! مجھے تو آپ پر بھی بڑا رحم آرہا ہے۔‘‘
اب ربی نے اپنا سر اُٹھایا اور گھبر اکر پوچھا:’’کیوں؟ مجھ پر کیوں؟‘‘موشے نے معصومیت سے بتایا :’’کیوں کہ وہ آپ ہی کی گائے تھی!‘‘ یہ کہہ کر مولانا نے اگلا لطیفہ شروع کیاکہ ایک صاحب پر’مذہبی جنونی‘ ہونے اور اسٹیٹ آف اِسرائیل کا باغی ہونے کاشبہ تھا، اِسرائیلی پولیس نے دھر لیا۔ اُن کی حب الوطنی کا امتحان لینے کے لیے تحقیقاتی افسر نے پوچھا:’’مسٹر کوہن!اگر تمھارے پاس انگوروں کا ایک باغ ہو تو اُس کاکیا کروگے؟مسٹر کوہن نے جواب دیا:’’اُس کی آمدنی اسٹیٹ آف اِسرائیل کے لیے وقف کردوں گا‘‘۔
پولیس آفیسر نے پوچھا:’’ اگر تمھارے پاس ایک شاندار محل ہو تو کیا کروگے؟‘‘
جواب ملا:’’جب بھی اسٹیٹ آف اِسرائیل کو اُس کی ضرورت پڑی فی الفور نذر کردوں گا‘‘۔
پوچھا گیا:’’ اگر تمھارے پاس باربرداری کا ٹرک ہو تو کیا کروگے؟‘‘
جواب آیا :’’بوقتِ ضرورت اسٹیٹ آف اسرائیل کی خدمت کے لیے بلا معاوضہ پیش کردوں گا‘‘۔
اگلاسوال یہ تھا کہ :’’اگر تمھارے پاس موٹر کار ہوتو اُس کا کیا استعمال کروگے‘‘۔
اس سوال کے جواب میں گہری خاموشی تھی۔ پولیس آفیسر نے اپنا سوال دوہرایا، مگر پھر وہی گھمبیر خاموشی۔ آخر وہ جھلا کر چیختے ہوئے بولا:
’’ مسٹر کوہن ! تم میرے سوال کا جواب کیوں نہیں دیتے؟ بولو، خاموش کیوں ہوگئے؟‘‘
مری ہوئی آواز میں جواب ملا:’’ان سب چیزوں میں سے بس ایک موٹر کارہی ہے میرے پاس‘‘۔
مولانا کہنے لگے کہ دولت سے محبت کا یہ عالم ہے کہ پیسے کو دانتوں سے پکڑتے ہیں اور خرچ کرنے پر آمادہ نہیں ہوتے۔یروشلم میں ایک ٹیکسی ڈرائیور سے کہا:’’مجھے دیوارِ گریہ دِکھالاؤ‘‘اُس نے حیران ہوکر پوچھا:’’دیوارِگریہ؟ یعنی کیا؟‘‘
اُس کوسمجھایا:’’ارے بھئی وہ جگہ جہاں جاکر یہودی روتے ہیں‘‘۔ڈرائیور بولا:’’تو یوں کہو نا!‘‘
مگر وہ بھی اپنی قسم کا ایک ہی بوجھ بجھکڑ تھا۔ ایک بڑی سی عمارت کے نیچے ٹیکسی لے جاکر کھڑی کردی۔ اوربولا:
’’یہی وہ جگہ ہے جہاں ہر یہودی سسکیاں بھرتا ہوا آتاہے اور دھاڑیں مار مار کر روتا ہوا واپس جاتا ہے۔‘‘
اُتر کر دیکھا تو اوپرایک بہت بڑے جہازی سائز کے بورڈ پر لکھا ہوا تھا:’’محکمۂ انکم ٹیکس‘‘
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
”ادب عالیہ“ اور بانو قدسیہ کا ”راجہ گدھ“​

”ادب عالیہ“ کے بارے میں میرا پہلے بھی یہ گمان تھا کہ یہ ”شیطانی شاہکار تحریریں“ ہوا کرتی ہیں۔ راجہ گدھ کو پڑھ کر یہ گمان اب تو یقین میں بدل گیا ہے۔ اگر آپ کو اردو لکھنا پڑھنا آتا ہے اور آپ کوئی ” لافانی ادبی شاہکار“ تخلیق کرنا چاہتے ہیں تو میں آپ کو اس کا نسخہ بتائے دیتا ہوں۔
  1. سب سے پہلے آپ ایک ایسی کہانی کا پلاٹ تیار کریں، جس کے بیشتر کردار ابنارمل ہوں اور جو معاشرے کے متفقہ اخلاقی اقدار کے برعکس قدروں کا بیان و عمل سے پرچار کرتے ہوں۔ (اردو کے تقریباً تمام عظیم ادیبوں کی یہ متفقہ رائے ہے کہ آپ اس وقت تک ”عظیم ادیب“ نہیں بن سکتے، جب تک آپ کسی حد تک ابنارمل نہ ہوں۔)
  2. پھر آپ ہندو مائیتھالوجی، یونانی قصوں، نصرانی تثلیث، صوفی ازم ، مزارات اور شیعیت مذہب سے حسب ذائقہ و حسب ضرورت تعلیمات و واقعات کو کہانی کے پورے پلاٹ میں ادھر ادھر بکھیر دیں۔ آپ بلا ضرورت و بلاترتیب بھی یہی کام کرسکتے ہیں، جیسا کہ ”آگ کا دریا“ میں قرآۃ العین نے کیا ہے۔
  3. پھر جنسی بھو ک کو اخلاقی قدروں اور لبادوں سے ”پاک“ کرکے اس کا تڑکہ لگاتے رہیں۔ اگر ادب عالیہ تخلیق کرنا ہے تو کہانی کے ماحول میں طوائف، عصمت فروشی کے اڈے اور وہاں کے روز و شب کے واقعات کی منظر نگاری کرنا نہ بھولیں۔ اور اپنے تخلیق کردہ کرداروں سے یہ کہلوانا نہ بھولیں کہ معاشرے کے سفید پوشوں اور دیگر نمایاں کرداروں سے ایک طوائف اور اس کے بزنس سے وابستہ لوگ بہت افضل اور بہتر کیریکٹر کے حامل ہوتے ہیں۔
  4. آپ اپنی کہانی میں جا بجا مختلف ازمون کے نظریات کو بھی تفصیل سے بیان کرتے چلے جائیں۔ اور اس کے “مقابلہ“ میں ”اسلام“ کی جھلک دکھلانے کے لئے مزارات، درگاہوں، محرم کی مجالس وغیرہ کی ”ٹچ“ دینا نہ بھولیں تاکہ کوئی آپ کی ”اسلام پسندی“ پر انگلی نہ اٹھا سکے۔
لیجئے جناب! ”کامیاب“ پاکستانی فلموں کی طرح ”اعلیٰ اردو ادب“ تخلیق کرنے کا فارمولا آپ کے پاس آگیا۔ آپ اس طرح دو چار افسانے لکھ کر کسی بھی ادبی رسالہ کو بھیجیں یا کسی بھی مشہور ادبی پلیٹ فارم سے پیش کریں۔ آپ دیکھتے ہی دیکھتے نامور ادیب بن جائیں گے اور آپ پر شیطان کی کرپا سے دولت عزت اور شہرت کے دروازے کھل جائیں گے۔ گزشتہ چار دہائیوں سے اردو ادب پڑھنے کے بعد میری تو یہی رائے ہے۔ آپ بھی اگر اردو ادب کے قاری ہیں تو اپنا خیال ضرور بتلائیے۔
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
”راجہ گدھ“ بھی ایسا ہی ایک ادبی شاہکار ہے۔ میں بانو قدسیہ کی دیگر تحریروں سے آشنائی کے باعث ان کے بارے میں کوئی اچھی ”رائے“ نہیں رکھتا تھا۔ ان کی کتابوں میں بعض جملے اور خیالات تو ایسے ہیں، جنہیں وہ خود بھی کسی محفل میں بآواز بلند نہیں سنا سکتی اور نہ میں یہان کوٹ کرنے کی ”ہمت“ کرسکتا ہوں۔ بالکل ایسے ہی جیسے ننگی ننگی گالیوں سے ”واقف“ ہونے کے باجود انہیں اپنی زبان یا قلم کی نوک پر نہیں لاسکتا۔

راجہ گدھ ”جنسی بھوک“ کے گرد گھومتی کہانی ہے۔ اس کے کردار فخریہ طور پر محبت کی شدت اور اس کے آفٹر ایفیکٹس کے نام پر ایک دوسرے کے ساتھ بے حیائی و بے شرمی کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کرتے اور اس کا بار بار اعادہ کرکے اسے کسی نہ کسی ”نظریہ“ سے منسلک کرتے رہتے ہیں۔ یہ ناول یوں تو قیام پاکستان کے بعد کے لاہور کے پس منظر میں لکھا گیا ہے لیکن ناول میں بار بار ”کرسمس کی تعطیلات“ کا ذکر ایسے ہوتا ہے جیسے یہ ناول کسی عیسائی معاشرے کے پس منظر میں لکھا گیا ہو۔ پھر ناول میں بلا وجہ و سبب تثلیث اور صلیب کا ذکر بھی بار بار موجود ہے۔ ایسے لگتا ہے جیسے محترمہ اپنے سابقہ مذہب کے حصار سے تا ھال باہر نہیں آئی ہیں۔

پاکستان کے آج کے گئے گذرے اخلاقی دور میں بھی بے حیا عاشق و معشوق پارکوں اور پبلک مقامات پر اخلاقی قدروں کو پامال نہیں کرسکتے۔ لیکن اس ناول میں تو ہیرو اور ہیروئین ایک باغ کے گوشہ میں جنسی روابط کے تمام حدود کو پار کرتے ہوئے بتلائے گئے ہیں۔ شاید مصنفہ پاکستان کو اپنے تخیل میں ایسا ہی دیکھنا چاہتی ہیں۔ یہی ھال ان کے شوہر نامدار کا بھی ہے۔ ایک محبت سو افسانے فیم ”پیر و مرشد“ اشفاق احمد اپنی بیگم سے بھی دو ہاتھ آگے ہیں۔ واہ کیا جوڑی ہے۔ شیطانی کمالات دکھلانے میں ایک سے بڑھ کر ایک۔ اللہ ہمیں ایسے ادب عالیہ سے محفوظ رکھے۔
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
محترمہ بانو قدسیہ کے مطابق راجہ گدھ کا پس منظر
__________________________________________​

دیکھیے میں آپ کو دوسرے ناولوں کی بات تو بعد میں بتاؤں گی، میں ’راجہ گدھ‘ کے متعلق آپ کو بتا سکتی ہوں۔ آج وہ سترہ اٹھارہ سال سے سی ایس ایس کے امتحان میں لگا ہوا ہے۔ ڈاکٹر اجمل آپ کو یاد ہوگا، نفسیات دان تھے گورنمنٹ کالج کے پرنسپل بھی رہے ہیں۔ انہوں نے اسے مقابلہ کے اس امتحان میں لگایا تھا۔ میں یہاں پر بیٹھی تھی اور میرا کوئی ارداہ نہیں تھا کہ میں کوئی ایسا ناول لکھوں گی۔ ’راجہ گدھ‘ کی طرح کا، ان دنوں ہمارے گھر میں ایک امریکن لڑکا ٹھہرا ہوا تھا۔ وہ بہت کوشش کرتا تھا کہ امریکن تہذیب، امریکن زندگی، امریکن اندازِ زیست سب کے بارے میں یہ ثابت کرے کہ وہ ہم سے بہتر ہے۔ مسلمانوں سے بہتر ہے۔ تو ایک روز وہ میرے پاس آیا اور مجھ سے کہا: اچھا مجھے دو لفظوں میں، ایک جملے میں بتائیے، آپ صرف چھوٹی سی بات مجھ سے کیجیے کے اسلام کا ایسنس (جوہر) کیا ہے؟ میں نے اس سے کہا کہ آپ یہ بتائیے کہ عیسائیت کا ایسنس کیا ہے؟ اس نے کہا: عیسائیت کا ایسنسن ہے Love - "Love thy neighbour as thyself" یہ ایسنسن ہے عیسائیت کا۔ میں نے کہا اسلام کا جو ایسنس ہے وہ اخوت ہے، برابری ہے، بھائی چارہ ہے brotherhood ہے۔ کہنے لگا چھوڑیے یہ کس مذہب نے نہیں بتایا کہ برابری ہونی چاہیے۔ یہ تو کوئی ایسنس نہیں ہے یہ کہہ کر وہ تو چلا گیا۔ یقین کیجیے، یہاں پر پہلے ایک بہت بڑا درخت ہوتا تھا سندری کا درخت۔ سندری کا درخت ہوتا ہے جس سے سارنگی بنتی ہے۔ اس کے بڑے بڑے پتے تھے اور وہ یہاں لان کے عین وسط میں لگا ہوا تھا۔ وہ ایک دم سفید ہو گیا اور اس پر مجھے یوں لگا جیسے لکھا ہوا آیا ہو: اسلام کا ایسنس حرام و حلال ہے۔ مجھے معلوم نہیں تھا کہ اسے میں نے کیوں کہا۔ کیونکہ اس ہر ایکشن (عمل) سے دو چیزیں پیدا ہوتی ہیں۔ جتنے کمانڈمنٹس ہیں یا تو وہ حرام ہیں یا حلال ہیں۔حلال سے آپ کی فلاح پیدا ہوتی ہے اور حرام سے آپ کے بیچ میں تشنج پیدا ہوتا ہے۔ آپ میں ڈپریشن پیدا ہوتا ہے آپ میں بہت کچھ پیدا ہوتا ہے۔ میں نے اس امریکی لڑکے کو بلایا اور اسے کہا: یاد رکھنا اسلام حرام و حلال کی تمیز دیتا ہے اور یہی اس کا ایسنس ہے۔ اس کےبعد میں نے یہ کتاب لکھی اور میں آپ کو بتا نہیں سکتی کہ کس طرح اللہ نے میری رہنمائی کی اور میری مدد فرمائی اور مجھے یہ لگتا ہے کہ یہ کتاب میں نے نہیں لکھی مجھ سے کسی نے لکھوائی ہے۔ اس کے بعد آپ کو پتہ کہ میری بہت ساری کتابیں ہیں۔ پچیس کے قریب کتابیں میری ہو چکی ہیں۔ اور جتنا بھی اس پر کام ہوا ہے میں آپ کو بتا ہی نہیں سکتی کہ کس طرح ہوا ہے۔
۔
بانو قدسیہ کے اس ”بھاشن“ کا ان کے ناول سے دور دور کا بھی کوئی واسطہ نہیں ہے۔ وہ لکھتی کچھ ہیں اور بولتی کچھ ہیں۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
بانو قدسیہ کے اس ”بھاشن“ کا ان کے ناول سے دور دور کا بھی کوئی واسطہ نہیں ہے۔ وہ لکھتی کچھ ہیں اور بولتی کچھ ہیں۔
لگتا ہے دونوں میاں بیوی نے سمجھوتہ کرلیا ہوگا کہ ’’ میں آپ کا مذہب قبول کرتی ہوں ، آپ میرے افکار قبول کرلیں ‘‘ ۔
 

makki pakistani

سینئر رکن
شمولیت
مئی 25، 2011
پیغامات
1,323
ری ایکشن اسکور
3,040
پوائنٹ
282
”ادب عالیہ“ اور بانو قدسیہ کا ”راجہ گدھ“​

”ادب عالیہ“ کے بارے میں میرا پہلے بھی یہ گمان تھا کہ یہ ”شیطانی شاہکار تحریریں“ ہوا کرتی ہیں۔ راجہ گدھ کو پڑھ کر یہ گمان اب تو یقین میں بدل گیا ہے۔ اگر آپ کو اردو لکھنا پڑھنا آتا ہے اور آپ کوئی ” لافانی ادبی شاہکار“ تخلیق کرنا چاہتے ہیں تو میں آپ کو اس کا نسخہ بتائے دیتا ہوں۔
  1. سب سے پہلے آپ ایک ایسی کہانی کا پلاٹ تیار کریں، جس کے بیشتر کردار ابنارمل ہوں اور جو معاشرے کے متفقہ اخلاقی اقدار کے برعکس قدروں کا بیان و عمل سے پرچار کرتے ہوں۔ (اردو کے تقریباً تمام عظیم ادیبوں کی یہ متفقہ رائے ہے کہ آپ اس وقت تک ”عظیم ادیب“ نہیں بن سکتے، جب تک آپ کسی حد تک ابنارمل نہ ہوں۔)
  2. پھر آپ ہندو مائیتھالوجی، یونانی قصوں، نصرانی تثلیث، صوفی ازم ، مزارات اور شیعیت مذہب سے حسب ذائقہ و حسب ضرورت تعلیمات و واقعات کو کہانی کے پورے پلاٹ میں ادھر ادھر بکھیر دیں۔ آپ بلا ضرورت و بلاترتیب بھی یہی کام کرسکتے ہیں، جیسا کہ ”آگ کا دریا“ میں قرآۃ العین نے کیا ہے۔
  3. پھر جنسی بھو ک کو اخلاقی قدروں اور لبادوں سے ”پاک“ کرکے اس کا تڑکہ لگاتے رہیں۔ اگر ادب عالیہ تخلیق کرنا ہے تو کہانی کے ماحول میں طوائف، عصمت فروشی کے اڈے اور وہاں کے روز و شب کے واقعات کی منظر نگاری کرنا نہ بھولیں۔ اور اپنے تخلیق کردہ کرداروں سے یہ کہلوانا نہ بھولیں کہ معاشرے کے سفید پوشوں اور دیگر نمایاں کرداروں سے ایک طوائف اور اس کے بزنس سے وابستہ لوگ بہت افضل اور بہتر کیریکٹر کے حامل ہوتے ہیں۔
  4. آپ اپنی کہانی میں جا بجا مختلف ازمون کے نظریات کو بھی تفصیل سے بیان کرتے چلے جائیں۔ اور اس کے “مقابلہ“ میں ”اسلام“ کی جھلک دکھلانے کے لئے مزارات، درگاہوں، محرم کی مجالس وغیرہ کی ”ٹچ“ دینا نہ بھولیں تاکہ کوئی آپ کی ”اسلام پسندی“ پر انگلی نہ اٹھا سکے۔
لیجئے جناب! ”کامیاب“ پاکستانی فلموں کی طرح ”اعلیٰ اردو ادب“ تخلیق کرنے کا فارمولا آپ کے پاس آگیا۔ آپ اس طرح دو چار افسانے لکھ کر کسی بھی ادبی رسالہ کو بھیجیں یا کسی بھی مشہور ادبی پلیٹ فارم سے پیش کریں۔ آپ دیکھتے ہی دیکھتے نامور ادیب بن جائیں گے اور آپ پر شیطان کی کرپا سے دولت عزت اور شہرت کے دروازے کھل جائیں گے۔ گزشتہ چار دہائیوں سے اردو ادب پڑھنے کے بعد میری تو یہی رائے ہے۔ آپ بھی اگر اردو ادب کے قاری ہیں تو اپنا خیال ضرور بتلائیے۔

"قدرت اللہ شھاب،ممتاز مفتی ،اشفاق احمد"کیا یہ ایک ادبی تثلیث تھی؟
 
Top