• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

رد تقلید احادیث کی روشنی میں

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
آٹھویں بات یہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف اپنی سنت اور اپنی احادیث کی اطاعت کا حکم نہیں دیا بلکہ ساتھ میں خلفائے راشدین کی سنت کو مضبوطی سے پکڑنے کا بھی حکم دیا اور اس میں طلب دلیل کا کوئی ذکر نہیں کیا۔ اس سے تقلید ثابت ہوئی۔
اگر یہاں سے تقلید ثابت کرتے ہو تو ان خلفائے راشدین کے تقلید چھوڑ کر امام ابو حنیفہ کی تقلید کیوں!! کرنی یہاں بھی حدیث کی مخالفت ہے!! ہائے رے تقلید ! تیرا بیڑا غرق!!!
پہلا زمانہ نبی ﷺ اور صحابہ رض کا، دوسرا تابعین کا، تیسرا تبع تابعین کا،
امام ابو حنیفہ رح تابعی ابن حجر ہیثمی وغیرہ کی صراحت کے مطابق، امام مالک، امام ابو یوسف، امام محمد تبع تابعی۔
انہوں نے جو مسائل مستنبط کیے ان پر عمل کے بارے میں کیا خیال ہے؟
ابن ججر ہیثمی کے کہنے سے تو امام ابو حنیفہ تابعی ثابت نہیں ہو جاتے!!
باقی رہی ان تمام کے مستنبط مسائل پر عمل کرنے کے بارے میں!! تو مسلم الثبوت یا اس کی شرح فواتح الرحموت سے تقلید کی تعریف پڑھ لیں ، کہ آیا اسے تقلید کہتے بھی ہیں!!
 
Last edited:

جوش

مشہور رکن
شمولیت
جون 17، 2014
پیغامات
621
ری ایکشن اسکور
320
پوائنٹ
127
اولا امام ابو حنیفہ صحیح تحقیق کے مطابق تابعی نہیں تھے اوراگر آپکے بقول انکو تابعی مان بھی لیا جاے تو انکی بات قبول کرلینی چاہئے کیونکہ آپکے بقول وہ تابعی تھے تو یہ بتایئے کہ خود انکے شاگرد امام ابویوسف نے کیوں ایک تہائی مسءلہ میں انکی مخالفت کی۔نیز ابوحنیفہ کے علاوہ اور بہت سے حقیقی تابعی تھے اور اور انکی باتیں احادیث صحیحہ سے کم ٹکراتی ہیں لیکن ابوحنیفہ کی بہت سی باتیں صحیح حدیث سے تکراتی ہیں ایسا کیوں ؟نیز علماءجرحوتعدیل کے نزدیک امام صاحب ضعیف فی الحدیث ہیں ایساکیوں ؟
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

اگر یہاں سے تقلید ثابت کرتے ہو تو ان خلفائے راشدین کے تقلید چھوڑ کر امام ابو حنیفہ کی تقلید کیوں!! کرنی یہاں بھی حدیث کی مخالفت ہے!! ہائے رے تقلید ! تیرا بیڑا غرق!!!
میں نے ایک مرتبہ مطالبہ کیا تھا کہ خلفاء راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اصول و فروع مجھے دکھائیے تاکہ میں ان کی تقلید کروں لیکن کسی نے نہیں دکھائے۔ آپ کوشش کریں اور مجھے ابو حنیفہ کی تقلید کے جال سے نکال لیجیے۔

ابن ججر ہیثمی کے کہنے سے تو امام ابو حنیفہ تابعی ثابت نہیں ہو جاتے!!
پھر کیسے ثابت ہوں گے؟ حسن بصری رح تابعی ہیں؟ کیسے ثابت ہوئے؟
اگر ذہبی نے بھی ان کے حضرت انس رض کو دیکھنے کا اقرار کیا ہو تو؟


باقی رہی ان تمام کے مستنبط مسائل پر عمل کرنے کے بارے میں!! تو مسلم الثبوت یا اس کی شرح فواتح الرحموت سے تقلید کی تعریف پڑھ لیں ، کہ آیا اسے تقلید کہتے بھی ہیں!!
کیا ہی اچھا ہو کہ آپ وہ یہاں نقل فرما دیں!

اولا امام ابو حنیفہ صحیح تحقیق کے مطابق تابعی نہیں تھے اوراگر آپکے بقول انکو تابعی مان بھی لیا جاے تو انکی بات قبول کرلینی چاہئے کیونکہ آپکے بقول وہ تابعی تھے تو یہ بتایئے کہ خود انکے شاگرد امام ابویوسف نے کیوں ایک تہائی مسءلہ میں انکی مخالفت کی۔نیز ابوحنیفہ کے علاوہ اور بہت سے حقیقی تابعی تھے اور اور انکی باتیں احادیث صحیحہ سے کم ٹکراتی ہیں لیکن ابوحنیفہ کی بہت سی باتیں صحیح حدیث سے تکراتی ہیں ایسا کیوں ؟نیز علماءجرحوتعدیل کے نزدیک امام صاحب ضعیف فی الحدیث ہیں ایساکیوں ؟
صحیح تحقیق کس کی ہے اور کب کی ہے؟
ان کے شاگرد نے ان کی مخالفت کیوں کی؟ اس لیے کہ فقط تابعی ہونے سے یہ لازم نہیں ہوتا کہ دوسرا مجتہد اس کی اطاعت ہی کرے ہمیشہ۔ (یعنی اگر آپ بھی مجتہد ہیں تو بے شک تقلید نہ کیجیے۔)
باقی باتوں کے جوابات اور بہت سے تھریڈز میں ہو چکے ہیں۔
والسلام
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
میں نے ایک مرتبہ مطالبہ کیا تھا کہ خلفاء راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اصول و فروع مجھے دکھائیے تاکہ میں ان کی تقلید کروں لیکن کسی نے نہیں دکھائے۔ آپ کوشش کریں اور مجھے ابو حنیفہ کی تقلید کے جال سے نکال لیجیے۔
آپ تو ایسے فرما رہے ہیں کہ آپ کے امام صاحب نے اپنے اصول و فروع مرتب کر کے آپ کو پہنچا دیئے ہیں! آپ کے علم میں ہونا چاہئے کہ فقہ حنفی کے اصول بعد میں آنے والے مقلدین نے مرتب کئے ہیں!!! جیسے اصول الجصاص، اصول الشاشی، اصول السرخسی وغیرہ!! یہ بھی ایک الگ مستقل موضوع ہے کہ ان اصولین فقہ حنفیہ نے کیسے کیسے اصول گڑھے ہیں اور اس کی وجہ کیا ہے!!
یہ بتائیے کہ کیا فقہ حنفی میں مقلد پر یہ کب سے لازم آگیا کہ اصول وفروع جاننے کے بعد وہ فقہ حنفی کی تقلید کرے گا!!!
اعتراض پھر بھی قائم ہے کہ آپ کے بقول یہاں سے تقلید کا اثبات ہوتا ہے، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو خلفاء الراشدین کےحوالے سے حکم دیا!! آپ نے یہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی مخالفت کرتے ہوئے ، خلفاء الراشدین کو چھوڑ کر امام ابو حنیفہ کی تقلید کیوں کی!!
اور ہاں!! خلفائے راشدین کے اجتہاد ، استدلال و استنباط اور قياس کے وہی اصول ہیں جو اہل الحدیث کے ہیں!!
پھر کیسے ثابت ہوں گے؟ حسن بصری رح تابعی ہیں؟ کیسے ثابت ہوئے؟
اگر ذہبی نے بھی ان کے حضرت انس رض کو دیکھنے کا اقرار کیا ہو تو؟
جس طرح جرح و تعدیل کے اصول کی بنیاد پر کسی راوی کے ثقہ یا ضعیف ہونے کا تعین کیا جاتا ہے!! اسی طرح !!!!
کیا ہی اچھا ہو کہ آپ وہ یہاں نقل فرما دیں!
التقليد: العمل بقول الغير من غير حجة كأخذ العامي المجتهد من مثله، فالرجوع إلى النبي عليه الصلاة والسلام أو إلى الاجماع ليس منه وكذا العامي إلى المفتي والقاضي إلى العدول لإ يجاب النص ذلك عليهما لكن العرف على أن العامي مقلد للمجتهد قال الإمام وعليه معظم الاصوليين
تقلید: (نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ) غیر (یعنی امتی) کے قول پر بغیر حجت (دلیل) کے عمل (کا نام) ہے۔ جیسے عامی (جاہل) اپنے جیسے عامی اور مجتہد دوسرے مجتہد کا قول لے لے۔ پس نبی صلی اللہ علیہ الصلاۃ والسلام اور اجماع کی طرف رجوع کرنا اس (تقلید) میں سے نہیں ہے۔ اور اسی طرح عامی کا مفتی کی طرف رجوع کرنا اور قاضی کا گواہوں کی طرف رجوع کرنا (تقلید میں سے نہیں ہے) کیونکہ اسے نص (دلیل) نے واجب کیا ہے، لیکن عرف یہ ہے کہ عامی مجتہد کا مقلد ہے۔ امام (امام الحرمین) نے کہا: اور اسی (تعریف) پر علم اصول کے علماء (متفق) ہیں۔
مجلد 02 صفحه 432
الكتاب: مسلم الثبوت مع فواتح الرحموت
المؤلف: محب الله بن عبدالشكور الهندي البهاري (المتوفى: 1119هـ)
الناشر: دار الكتب العلمية

۔۔۔۔۔۔
(التقليد: العمل بقول الغير من غير حجة) متعلق بالعمل، والمراد بالحجة حجة من الحجج الأربع، وإلا فقول المجتهد دليله وحجته (كأخذ العامي) من المجتهد (و) أخذ (المجتهد من مثله، فالرجوع إلى النبي عليه) وآله وأصحابه (الصلاة والسلام أو إلى الاجماع ليس منه) فإنه رجوع إلى الدليل (وكذا) رجوع (العامي إلى المفتي والقاضي إلى العدول) ليس هذا الرجوع نفسه تقليداً وإن كان العمل بما أخذوا بعده تقليداً (لإ يجاب النص ذلك عليهما) فهو عمل بحجة لا بقول الغير فقط (لكن العرف) دل (على أن العامي مقلد للمجتهد) بالرجوع إليه (قال الإمام) إمام الحرمين (وعليه معظم الاصوليين) وهو المشتهر المعتمد عليه
"تقلید کسی غیر (غیر نبی) کے قول پر بغیر (قرآن و حدیث کی) دلیل کے عمل کو کہتے ہیں۔ یہ عمل سے متعلق ہے، اور حجت سے (شرعی) ادلہ اربعہ ہیں ، ورنہ عامی کے لئے تو مجتہد کا قول دلیل اور حجت ہوتا ہے۔ جیسے عامی (کم علم شخص) اپنے جیسے عامی اور مجتہد کسی دوسرے مجتہد کا قول لے لے۔پس نبی علیہ الصلاة والسلام اور آل و اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، اور اجماع کی طرف رجوع کرنا اس (تقلید) میں سے نہیں، کیونکہ یہ دلیل کی طرف رجوع کرنا ہے۔ اور اسی طرح عامی کا مفتی کی طرف رجوع کرنا اور قاضی کا گواہوں کی طرف رجوع کرنا (تقلید نہیں) یہ رجوع خود تقلید نہیں ہے اگرچہ اس کے بعد جو وہ (ان سے) اخذ کریں اس پر (محض ان کے قول پر)عمل تقلید ہے۔ کیونکہ اسے نص (دلیل) نے واجب کیا ہے، پس وہ دلیل پر عمل کرنا ہے نہ کہ محض غیر کے قول پر، لیکن عرف یہ ہے کہ عامی مجتہد کا مقلد ہے۔امام (امام الحرمین الشافعی) نے کہا کہ” اور اسی تعریف پر علمِ اصول کے عام علماء(متفق)ہیں اور یہ بات قابل اعتماد اور مشہور ہے"۔
جلد 02 صفحه 432
الكتاب: فواتح الرحموت بشرح مسلم الثبوت
المؤلف: عبد العلي محمد بن نظام الدين محمد السهالوي الأنصاري اللكنوي (المتوفى: 1225هـ)
الناشر: دار الكتب العلمية

۔۔۔۔۔۔

التَّقْلِيدِ الْعَمَلُ بِقَوْلِ مَنْ لَيْسَ قَوْلُهُ إحْدَى الْحُجَجِ بِلَا حُجَّةٍ مِنْهَا فَلَيْسَ الرُّجُوعُ إلَى النَّبِيِّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - وَالْإِجْمَاعُ مِنْهُ
تقلید اس شخص کے قول پر بغیر دلیل عمل کو کہتے ہیں جس کا قول (چار) دلائل میں سے نہیں ہے۔پس نبی علیہ الصلاةوالسلام اوراجماع کی طرف رجوع تقلید میں سے نہیں ہے۔
جلد 01 صفحه 547
الكتاب: التحرير في أصول الفقه الجامع بين اصطلاحي الحنفية والشافعية
المؤلف: كمال الدين محمد بن عبد الواحد السيواسي المعروف بابن الهمام (المتوفى: 861هـ)
الناشر: مصطفى البابي الحلبي وأولاده بمصر سنة النشر: 1351 هـ


جلد 03 صفحه 433
الكتاب: التقرير والتحبير
المؤلف: أبو عبد الله، شمس الدين محمد بن محمد بن محمد المعروف بابن أمير حاج ويقال له ابن الموقت الحنفي (المتوفى: 879هـ)
الناشر: دار الكتب العلمية


جلد 04 صفحه 241
الكتاب: تيسير التحرير
المؤلف: محمد أمين بن محمود البخاري المعروف بأمير بادشاه الحنفي (المتوفى: 972هـ)
الناشر: طبعة مصطفى الحلبى، 1351 هـ

الناشر: دار الكتب العلمية 1403 هـ
الناشر: دار الفكر – بيروت
۔۔۔۔۔۔

ایک صاحب نے عرض کیا ؛ تقلید کی حقیقت کیا ہے؟ اور تقلید کس کو کہتے ہیں؟ فرمایا : تقلید کہتے ہیں: ”اُمتی کا قول ماننا بلا دلیل“؛ عرض کیا کہ کیا اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کو ماننا بھی تقلید کہلائے گا؟ فرمایا : اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ماننا تقلید نہ کہلائے گا وہ اتباع کہلاتا ہے ۔ (ملفوظ 228)

جلد 03 صفحہ 153
الكتاب: الافاضات الیومیہ من الافادات القومیہ ملفوضات حکیم الامت
الناشر: ادارۂ تالیفات اشرفیہ ۔ ملتان

ملاحظہ فرمائیں :عکس: مجلد 02 صفحه 432 - فواتح الرحموت بشرح مسلم الثبوت - دار الكتب العلمية
ڈاؤنلوڈ کتاب لنک 01: التحرير في أصول الفقه الجامع بين اصطلاحي الحنفية والشافعية
ڈاؤنلوڈ کتاب لنک 02: التحرير في أصول الفقه الجامع بين اصطلاحي الحنفية والشافعية
ملاحظہ فرمائیں :عکس :مجلد 03 صفحه 433 - التقرير والتحبير - دار الكتب العلمية
ملاحظہ فرمائیں :عکس: مجلد 04 صفحه 241 - تيسير التحرير - طبعة مصطفى الحلبى
ملاحظہ فرمائیں: عکس: جلد 03 صفحہ 153 الافاضات الیومیہ من الافادات القومیہ ملفوضات حکیم الامت

نوٹ:ترجمہ میں ایک جملہ کا ترجمہ رہ گیا تھا، اسے شامل کر دیا گیا ہے
 
Last edited:

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

آپ تو ایسے فرما رہے ہیں کہ آپ کے امام صاحب نے اپنے اصول و فروع مرتب کر کے آپ کو پہنچا دیئے ہیں! آپ کے علم میں ہونا چاہئے کہ فقہ حنفی کے اصول بعد میں آنے والے مقلدین نے مرتب کئے ہیں!!! جیسے اصول الجصاص، اصول الشاشی، اصول السرخسی وغیرہ!! یہ بھی ایک الگ مستقل موضوع ہے کہ ان اصولین فقہ حنفیہ نے کیسے کیسے اصول گڑھے ہیں اور اس کی وجہ کیا ہے!!
یہ بتائیے کہ کیا فقہ حنفی میں مقلد پر یہ کب سے لازم آگیا کہ اصول وفروع جاننے کے بعد وہ فقہ حنفی کی تقلید کرے گا!!!
اعتراض پھر بھی قائم ہے کہ آپ کے بقول یہاں سے تقلید کا اثبات ہوتا ہے، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو خلفاء الراشدین کےحوالے سے حکم دیا!! آپ نے یہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی مخالفت کرتے ہوئے ، خلفاء الراشدین کو چھوڑ کر امام ابو حنیفہ کی تقلید کیوں کی!!
اور ہاں!! خلفائے راشدین کے اجتہاد ، استدلال و استنباط اور قياس کے وہی اصول ہیں جو اہل الحدیث کے ہیں!!

جس طرح جرح و تعدیل کے اصول کی بنیاد پر کسی راوی کے ثقہ یا ضعیف ہونے کا تعین کیا جاتا ہے!! اسی طرح !!!!

التقليد: العمل بقول الغير من غير حجة كأخذ العامي المجتهد من مثله، فالرجوع إلى النبي عليه الصلاة والسلام أو إلى الاجماع ليس منه وكذا العامي إلى المفتي والقاضي إلى العدول لإ يجاب النص ذلك عليهما لكن العرف على أن العامي مقلد للمجتهد قال الإمام وعليه معظم الاصوليين
تقلید: (نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ) غیر (یعنی امتی) کے قول پر بغیر حجت (دلیل) کے عمل (کا نام) ہے۔ جیسے عامی (جاہل) اپنے جیسے عامی اور مجتہد دوسرے مجتہد کا قول لے لے۔ پس نبی صلی اللہ علیہ الصلاۃ والسلام اور اجماع کی طرف رجوع کرنا اس (تقلید) میں سے نہیں ہے۔ اور اسی طرح عامی کا مفتی کی طرف رجوع کرنا اور قاضی کا گواہوں کی طرف رجوع کرنا (تقلید میں سے نہیں ہے) کیونکہ اسے نص (دلیل) نے واجب کیا ہے، لیکن عرف یہ ہے کہ عامی مجتہد کا مقلد ہے۔ امام (امام الحرمین) نے کہا: اور اسی (تعریف) پر علم اصول کے علماء (متفق) ہیں۔
مجلد 02 صفحه 432
الكتاب: مسلم الثبوت مع فواتح الرحموت
المؤلف: محب الله بن عبدالشكور الهندي البهاري (المتوفى: 1119هـ)
الناشر: دار الكتب العلمية

۔۔۔۔۔۔
(التقليد: العمل بقول الغير من غير حجة) متعلق بالعمل، والمراد بالحجة حجة من الحجج الأربع، وإلا فقول المجتهد دليله وحجته (كأخذ العامي) من المجتهد (و) أخذ (المجتهد من مثله، فالرجوع إلى النبي عليه) وآله وأصحابه (الصلاة والسلام أو إلى الاجماع ليس منه) فإنه رجوع إلى الدليل (وكذا) رجوع (العامي إلى المفتي والقاضي إلى العدول) ليس هذا الرجوع نفسه تقليداً وإن كان العمل بما أخذوا بعده تقليداً (لإ يجاب النص ذلك عليهما) فهو عمل بحجة لا بقول الغير فقط (لكن العرف) دل (على أن العامي مقلد للمجتهد) بالرجوع إليه (قال الإمام) إمام الحرمين (وعليه معظم الاصوليين) وهو المشتهر المعتمد عليه
"تقلید کسی غیر (غیر نبی) کے قول پر بغیر (قرآن و حدیث کی) دلیل کے عمل کو کہتے ہیں۔ یہ عمل سے متعلق ہے، اور حجت سے (شرعی) ادلہ اربعہ ہیں ، ورنہ عامی کے لئے تو مجتہد کا قول دلیل اور حجت ہوتا ہے۔ جیسے عامی (کم علم شخص) اپنے جیسے عامی اور مجتہد کسی دوسرے مجتہد کا قول لے لے۔پس نبی علیہ الصلاة والسلام اور آل و اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، اور اجماع کی طرف رجوع کرنا اس (تقلید) میں سے نہیں، کیونکہ یہ دلیل کی طرف رجوع کرنا ہے۔ اور اسی طرح عامی کا مفتی کی طرف رجوع کرنا اور قاضی کا گواہوں کی طرف رجوع کرنا (تقلید نہیں) کیونکہ اسے نص (دلیل) نے واجب کیا ہے، پس وہ دلیل پر عمل کرنا ہے نہ کہ محض غیر کے قول پر، لیکن عرف یہ ہے کہ عامی مجتہد کا مقلد ہے۔امام (امام الحرمین الشافعی) نے کہا کہ” اور اسی تعریف پر علمِ اصول کے عام علماء(متفق)ہیں اور یہ بات قابل اعتماد اور مشہور ہے"۔
جلد 02 صفحه 432
الكتاب: فواتح الرحموت بشرح مسلم الثبوت
المؤلف: عبد العلي محمد بن نظام الدين محمد السهالوي الأنصاري اللكنوي (المتوفى: 1225هـ)
الناشر: دار الكتب العلمية

۔۔۔۔۔۔

التَّقْلِيدِ الْعَمَلُ بِقَوْلِ مَنْ لَيْسَ قَوْلُهُ إحْدَى الْحُجَجِ بِلَا حُجَّةٍ مِنْهَا فَلَيْسَ الرُّجُوعُ إلَى النَّبِيِّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - وَالْإِجْمَاعُ مِنْهُ
تقلید اس شخص کے قول پر بغیر دلیل عمل کو کہتے ہیں جس کا قول (چار) دلائل میں سے نہیں ہے۔پس نبی علیہ الصلاةوالسلام اوراجماع کی طرف رجوع تقلید میں سے نہیں ہے۔
جلد 01 صفحه 547
الكتاب: التحرير في أصول الفقه الجامع بين اصطلاحي الحنفية والشافعية
المؤلف: كمال الدين محمد بن عبد الواحد السيواسي المعروف بابن الهمام (المتوفى: 861هـ)
الناشر: مصطفى البابي الحلبي وأولاده بمصر سنة النشر: 1351 هـ


جلد 03 صفحه 433
الكتاب: التقرير والتحبير
المؤلف: أبو عبد الله، شمس الدين محمد بن محمد بن محمد المعروف بابن أمير حاج ويقال له ابن الموقت الحنفي (المتوفى: 879هـ)
الناشر: دار الكتب العلمية


جلد 04 صفحه 241
الكتاب: تيسير التحرير
المؤلف: محمد أمين بن محمود البخاري المعروف بأمير بادشاه الحنفي (المتوفى: 972هـ)
الناشر: طبعة مصطفى الحلبى، 1351 هـ

الناشر: دار الكتب العلمية 1403 هـ
الناشر: دار الفكر – بيروت
۔۔۔۔۔۔

ایک صاحب نے عرض کیا ؛ تقلید کی حقیقت کیا ہے؟ اور تقلید کس کو کہتے ہیں؟ فرمایا : تقلید کہتے ہیں: ”اُمتی کا قول ماننا بلا دلیل“؛ عرض کیا کہ کیا اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کو ماننا بھی تقلید کہلائے گا؟ فرمایا : اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ماننا تقلید نہ کہلائے گا وہ اتباع کہلاتا ہے ۔ (ملفوظ 228)

جلد 03 صفحہ 153
الكتاب: الافاضات الیومیہ من الافادات القومیہ ملفوضات حکیم الامت
الناشر: ادارۂ تالیفات اشرفیہ ۔ ملتان

ملاحظہ فرمائیں :عکس: مجلد 02 صفحه 432 - فواتح الرحموت بشرح مسلم الثبوت - دار الكتب العلمية
ڈاؤنلوڈ کتاب لنک 01: التحرير في أصول الفقه الجامع بين اصطلاحي الحنفية والشافعية
ڈاؤنلوڈ کتاب لنک 02: التحرير في أصول الفقه الجامع بين اصطلاحي الحنفية والشافعية
ملاحظہ فرمائیں :عکس :مجلد 03 صفحه 433 - التقرير والتحبير - دار الكتب العلمية
ملاحظہ فرمائیں :عکس: مجلد 04 صفحه 241 - تيسير التحرير - طبعة مصطفى الحلبى
ملاحظہ فرمائیں: عکس: جلد 03 صفحہ 153 الافاضات الیومیہ من الافادات القومیہ ملفوضات حکیم الامت
جزاک اللہ خیرا۔ آپ پر اعتماد کرتے ہوئے میں ان کتب کی جانب رجوع نہیں کر رہا۔

آپ تو ایسے فرما رہے ہیں کہ آپ کے امام صاحب نے اپنے اصول و فروع مرتب کر کے آپ کو پہنچا دیئے ہیں! آپ کے علم میں ہونا چاہئے کہ فقہ حنفی کے اصول بعد میں آنے والے مقلدین نے مرتب کئے ہیں!!! جیسے اصول الجصاص، اصول الشاشی، اصول السرخسی وغیرہ!! یہ بھی ایک الگ مستقل موضوع ہے کہ ان اصولین فقہ حنفیہ نے کیسے کیسے اصول گڑھے ہیں اور اس کی وجہ کیا ہے!!
تو آپ مجھے خلفاء اربعہ کے وہ اصول و فروع ہی دکھا دیجیے جو ان کے شاگردوں یا شاگردوں کے شاگردوں نے مرتب کیے ہوں۔

یہ بتائیے کہ کیا فقہ حنفی میں مقلد پر یہ کب سے لازم آگیا کہ اصول وفروع جاننے کے بعد وہ فقہ حنفی کی تقلید کرے گا!!!
اعتراض پھر بھی قائم ہے کہ آپ کے بقول یہاں سے تقلید کا اثبات ہوتا ہے، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو خلفاء الراشدین کےحوالے سے حکم دیا!! آپ نے یہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی مخالفت کرتے ہوئے ، خلفاء الراشدین کو چھوڑ کر امام ابو حنیفہ کی تقلید کیوں کی!!
اور ہاں!! خلفائے راشدین کے اجتہاد ، استدلال و استنباط اور قياس کے وہی اصول ہیں جو اہل الحدیث کے ہیں!!
پہلی بات کا جواب یہ ہے کہ ان اصول و فروع کی روشنی میں مزید مسائل کا استنباط ہوتا ہے جو منصوص نہ ہوں۔
دوسری بات کا جواب یہ ہے کہ آپ خلفاء کے اصول ثابت کر دیجیے تو میں اس بات کا جواب بھی دے دوں گا۔ وگرنہ مجھے وہ حصر کا لفظ دکھائیے جو اتباع میں ان پر اکتفاء پر دلالت کرے۔
تیسری بات کا جواب یہ ہے کہ یہ تو دعوی بلادلیل ہے۔ اس کی دلیل عنایت فرمائیے۔ نیز حضرت عمر رض فرماتے ہیں : لا ندع کتاب ربنا لقول امراۃ۔۔۔۔ الخ۔ اس اصول کو ابو حنیفہ تو مانتے ہیں لیکن میرے محترم اہل حدیث بھائی نہیں مانتے۔ اب اللہ کے نبی کے خلفاء کے اصول کیا ہوئے اور آپ کے کیا؟


جس طرح جرح و تعدیل کے اصول کی بنیاد پر کسی راوی کے ثقہ یا ضعیف ہونے کا تعین کیا جاتا ہے!! اسی طرح !!!!
اچھا جی۔ یہ اصول کس کے بنائے ہوئے ہیں؟ کیا ان کو ماننے سے ان کی تقلید نہیں لازم آتی؟ آخر کیوں؟

لتقليد: العمل بقول الغير من غير حجة كأخذ العامي المجتهد من مثله، فالرجوع إلى النبي عليه الصلاة والسلام أو إلى الاجماع ليس منه وكذا العامي إلى المفتي والقاضي إلى العدول لإ يجاب النص ذلك عليهما لكن العرف على أن العامي مقلد للمجتهد قال الإمام وعليه معظم الاصوليين
تقلید: (نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ) غیر (یعنی امتی) کے قول پر بغیر حجت (دلیل) کے عمل (کا نام) ہے۔ جیسے عامی (جاہل) اپنے جیسے عامی اور مجتہد دوسرے مجتہد کا قول لے لے۔ پس نبی صلی اللہ علیہ الصلاۃ والسلام اور اجماع کی طرف رجوع کرنا اس (تقلید) میں سے نہیں ہے۔ اور اسی طرح عامی کا مفتی کی طرف رجوع کرنا اور قاضی کا گواہوں کی طرف رجوع کرنا (تقلید میں سے نہیں ہے) کیونکہ اسے نص (دلیل) نے واجب کیا ہے، لیکن عرف یہ ہے کہ عامی مجتہد کا مقلد ہے۔ امام (امام الحرمین) نے کہا: اور اسی (تعریف) پر علم اصول کے علماء (متفق) ہیں۔
مجلد 02 صفحه 432
الكتاب: مسلم الثبوت مع فواتح الرحموت
المؤلف: محب الله بن عبدالشكور الهندي البهاري (المتوفى: 1119هـ)
الناشر: دار الكتب العلمية
۔۔۔۔۔۔
(التقليد: العمل بقول الغير من غير حجة) متعلق بالعمل، والمراد بالحجة حجة من الحجج الأربع، وإلا فقول المجتهد دليله وحجته (كأخذ العامي) من المجتهد (و) أخذ (المجتهد من مثله، فالرجوع إلى النبي عليه) وآله وأصحابه (الصلاة والسلام أو إلى الاجماع ليس منه) فإنه رجوع إلى الدليل (وكذا) رجوع (العامي إلى المفتي والقاضي إلى العدول) ليس هذا الرجوع نفسه تقليداً وإن كان العمل بما أخذوا بعده تقليداً (لإ يجاب النص ذلك عليهما) فهو عمل بحجة لا بقول الغير فقط (لكن العرف) دل (على أن العامي مقلد للمجتهد) بالرجوع إليه (قال الإمام) إمام الحرمين (وعليه معظم الاصوليين) وهو المشتهر المعتمد عليه
"تقلید کسی غیر (غیر نبی) کے قول پر بغیر (قرآن و حدیث کی) دلیل کے عمل کو کہتے ہیں۔ یہ عمل سے متعلق ہے، اور حجت سے (شرعی) ادلہ اربعہ ہیں ، ورنہ عامی کے لئے تو مجتہد کا قول دلیل اور حجت ہوتا ہے۔ جیسے عامی (کم علم شخص) اپنے جیسے عامی اور مجتہد کسی دوسرے مجتہد کا قول لے لے۔پس نبی علیہ الصلاة والسلام اور آل و اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، اور اجماع کی طرف رجوع کرنا اس (تقلید) میں سے نہیں، کیونکہ یہ دلیل کی طرف رجوع کرنا ہے۔ اور اسی طرح عامی کا مفتی کی طرف رجوع کرنا اور قاضی کا گواہوں کی طرف رجوع کرنا (تقلید نہیں) کیونکہ اسے نص (دلیل) نے واجب کیا ہے، پس وہ دلیل پر عمل کرنا ہے نہ کہ محض غیر کے قول پر، لیکن عرف یہ ہے کہ عامی مجتہد کا مقلد ہے۔امام (امام الحرمین الشافعی) نے کہا کہ” اور اسی تعریف پر علمِ اصول کے عام علماء(متفق)ہیں اور یہ بات قابل اعتماد اور مشہور ہے"۔
جلد 02 صفحه 432
الكتاب: فواتح الرحموت بشرح مسلم الثبوت
المؤلف: عبد العلي محمد بن نظام الدين محمد السهالوي الأنصاري اللكنوي (المتوفى: 1225هـ)
الناشر: دار الكتب العلمية
۔۔۔۔۔۔

التَّقْلِيدِ الْعَمَلُ بِقَوْلِ مَنْ لَيْسَ قَوْلُهُ إحْدَى الْحُجَجِ بِلَا حُجَّةٍ مِنْهَا فَلَيْسَ الرُّجُوعُ إلَى النَّبِيِّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - وَالْإِجْمَاعُ مِنْهُ
تقلید اس شخص کے قول پر بغیر دلیل عمل کو کہتے ہیں جس کا قول (چار) دلائل میں سے نہیں ہے۔پس نبی علیہ الصلاةوالسلام اوراجماع کی طرف رجوع تقلید میں سے نہیں ہے۔
جلد 01 صفحه 547
الكتاب: التحرير في أصول الفقه الجامع بين اصطلاحي الحنفية والشافعية
المؤلف: كمال الدين محمد بن عبد الواحد السيواسي المعروف بابن الهمام (المتوفى: 861هـ)
الناشر: مصطفى البابي الحلبي وأولاده بمصر سنة النشر: 1351 هـ

جلد 03 صفحه 433
الكتاب: التقرير والتحبير
المؤلف: أبو عبد الله، شمس الدين محمد بن محمد بن محمد المعروف بابن أمير حاج ويقال له ابن الموقت الحنفي (المتوفى: 879هـ)
الناشر: دار الكتب العلمية

جلد 04 صفحه 241
الكتاب: تيسير التحرير
المؤلف: محمد أمين بن محمود البخاري المعروف بأمير بادشاه الحنفي (المتوفى: 972هـ)
الناشر: طبعة مصطفى الحلبى، 1351 هـ
الناشر: دار الكتب العلمية 1403 هـ
الناشر: دار الفكر – بيروت
۔۔۔۔۔۔

ایک صاحب نے عرض کیا ؛ تقلید کی حقیقت کیا ہے؟ اور تقلید کس کو کہتے ہیں؟ فرمایا : تقلید کہتے ہیں: ”اُمتی کا قول ماننا بلا دلیل“؛ عرض کیا کہ کیا اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کو ماننا بھی تقلید کہلائے گا؟ فرمایا : اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ماننا تقلید نہ کہلائے گا وہ اتباع کہلاتا ہے ۔ (ملفوظ 228)

جلد 03 صفحہ 153
الكتاب: الافاضات الیومیہ من الافادات القومیہ ملفوضات حکیم الامت
الناشر: ادارۂ تالیفات اشرفیہ ۔ ملتان
اس سے آپ کے استدلال کی بات تو میں بعد میں کرتا ہوں۔ پہلے جو ہائلائٹ کیا ہے اس کا ترجمہ کیوں نہیں کیا گیا ترجمہ میں؟؟
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
پانچویں یہ کہ بنی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے بعد بڑا اختلاف ہوگا اور ویسا ہی ہوا خیرالقرون (قرون ثلاثہ) کے بعد بہت سے مذاہب محدثہ اور مشارب متفرقہ پھیلے اورہر ایک اپنے اپنے مذہب پر ہی راضی ہوگیا اور ہر ایک نے اپنا ایک امام اور پیشوا ٹھہر الیا کہ اختلاف کے وقت اسی کی طرف رجوع کرے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وصیت بھول گیا حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وصیت کی تھی کہ اس وقت میری سنت اور خلفائے راشدین کی سنت پر چلنا۔
اس ارشاد نبوی سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں حضرت موسیٰ کلیم اللہ علیہ السلام کی پیروی کرنے والا گمراہ ہوگا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث و سنن کی موجودگی میں جو اماموں کی تقلید کو فرض و واجب سمجھے اور ان کے قول کو دستور العمل بنائے اور انہیں حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ترجیح دے تو ایسے شخص کے عمل کے اکارت ہوجانے اور اس کے گمراہ ہونے میں کیا شہبہ باقی رہ جاتا ہے۔
تقلید کی شرعی حیثیت
تالیف: جلال الدین قاسمی
کیا ہی اچھا ہوتا کہ جناب ان احادیث کو اصل کتب میں بغیر ”کسی“ کی انگلی پکڑے پڑھتے اور اللہ تعالیٰ سے خلوصِ نیت سے دعاء کرتے کہ یا بارِ تعالیٰ مجھے صراظِ مستقیم عطا فرما تو میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ آپ واقعی ”غیر مقلد بھی ہوتے اور صحیح راہ بھی پا لیتے۔ مگر ہائے افسوس کہ ”تقیہ“ کیئے ہوئے متکلمین کے ہتھے چڑ کر اپنا دین خراب کر رہے ہو۔

یہ حدیث درحقیقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قوللی معجزات میں سے ہے یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ سے خبر پا کر امت کو یہ تنبیہ کی ہے کہ اس پر ایک پر آشوب زمانہ ایسا آئے گا کہ لوگ کتاب و سنت کی اتباع چھوڑ کر کئی اماموں کی تقلید اپنے اوپر لازم کر کے فرقہ بندی میں گرفتار ہو جائیں گے ۔ آپ نے درمیانی لکیر کو سبیل اللہ ( اللہ کا راستہ ) کہا۔ کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ یہ فرقے اس صراط مستقیم سے علیحدہ ہوئے پھر اسی میں آکر مل گئے ہیں۔ سوال یہ کہ کہ نکلے کیوں تھے؟
کتاب: تقلید کی شرعی حیثیت:
جناب اس قسم کی کتابوں کو چھوڑ کر سب سے پہلے کتاب اللہ کا مطالعہ کریں پھر نبئیِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی شب و روز کی زندگی کا مطالعہ احادیث کی کتب سے بغیر کسی کی رہنمائی کے کریں۔ انشاء اللہ اگر صدق دل سے ایسا کروگے تو سیدھی راہ مل جائے گی کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے؛
ذَلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ فِيهِ هُدًى لِلْمُتَّقِينَ (بقرہ)​
 
شمولیت
مارچ 04، 2015
پیغامات
139
ری ایکشن اسکور
42
پوائنٹ
56
کیا ہی اچھا ہوتا کہ جناب ان احادیث کو اصل کتب میں بغیر ”کسی“ کی انگلی پکڑے پڑھتے اور اللہ تعالیٰ سے خلوصِ نیت سے دعاء کرتے کہ یا بارِ تعالیٰ مجھے صراظِ مستقیم عطا فرما تو میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ آپ واقعی ”غیر مقلد بھی ہوتے اور صحیح راہ بھی پا لیتے۔ مگر ہائے افسوس کہ ”تقیہ“ کیئے ہوئے متکلمین کے ہتھے چڑ کر اپنا دین خراب کر رہے ہو۔
آپ ایک بار اپنی ہی کتب کا مطالعہ کرلیں، اور دیکھیں اور سمجھیں کہ تقلید کیا چیز ہے، کہیں آپ وڈیو شیئر کرنے کو بھی تقلید کہتے ہیں، تو کہیں پر کسی راوی کو ضیعف کہنا بھی تقلید کہتے ہیں۔
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
آپ ایک بار اپنی ہی کتب کا مطالعہ کرلیں، اور دیکھیں اور سمجھیں کہ تقلید کیا چیز ہے، کہیں آپ وڈیو شیئر کرنے کو بھی تقلید کہتے ہیں، تو کہیں پر کسی راوی کو ضیعف کہنا بھی تقلید کہتے ہیں۔
جناب کا دعوی ”قرآن و حدیث“ کا ہے لہٰذا اسی سے حوالہ دینے سے تو نام نہاد غیر مقلدین (حقیقتا ”لا مذہبوں“ کے مقلد ہیں اس لئے ”نام نہاد“ لکھا ہے) اپنے دعویٰ میں سچے ثابت ہونگے وگرنہ جھوٹے۔
دوسرے جناب نے اپنے نام کے ساتھ ”سلفی“ لکھا ہے جس کا مطلب ہے ”پہلے لوگ“ تو اگر آپ کے اباء اسی برّصغیر کے ہیں تو یقیناً یا تو ہندو ہوں گے یا سکھ۔ اور اگر کہیں اور علاقہ سے آکر یہاں آباد ہوئے تو بھی احتمال ہے کہ وہ کیا مسلم تھے یا کہ نہیں۔
اگر آپ کے اباء کی لڑی کسی صحابی سے ملتی ہے تو بھی ان کے آباء مشرک تھے۔
جناب کا ”سلفی“ کہلانا کس لئے؟؟؟

”مسلم“ کیوں نہیں؟؟؟؟؟؟؟؟؟
 
Top