• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

رسم عثمانی اور قراء ات کے درمیان تعلق

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٥) مثلاً : لفظ ’’ کَانُوْا ھُمْ أَشَدَّ مِنْھُمْ قُوَّۃً ‘‘ (غافر: ۲۱)
اس میں دو قراء ات ہیں:
(١) ابن عامر شامی﷫ کی قراء ت ’کَانُوْا ھُمْ أَشَدَّ مِنْکُمْ قُوَّۃً ‘ ہے۔
(٢) باقی تمام قراء کی قراء ت ’کَانُوْا ھُمْ أَشَدَّ مِنْھُمْ قُوَّۃً‘ ہے۔
اسی طرح اس میں رسم بھی دو طرح ہے:
(١) مصحف شامی میں’کَانُوْا ھُمْ أَشَدَّ مِنْکُمْ قُوَّۃً ‘ہے۔
اس بارے میں امام شاطبی﷫ ’العقیلۃ‘ کے شعر نمبر ۱۰۷ میں فرماتے ہیں۔
أشد منکم لہ أو أن لکوفیۃ
یعنی شامی کے لیے منکم ہے۔
(٢) باقی تمام مصاحف میں ’کَانُوْا ھُمْ أَشَدَّ مِنْھُمْ قُوَّۃً ‘ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٦) مثلاً : لفظ ’’ فَاِنَّ اللّٰہَ ھُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِیْدُ‘‘ (الحدید: ۲۴)ہے۔
اس میں دو قراء ات ہیں:
(١) امام نافع﷫ ،امام ابو جعفر﷫ اور ابن عامر شامی﷫ کی قراء ت’فَاِنَّ اللّٰہَ الْغَنِيُّ الْحَمِیْدُ‘ہے۔
(٢) باقی تمام قراء کی قراء ت ’فَاِنَّ اللّٰہَ ھُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِیْدُ‘ہے۔
اسی طرح اس میں رسم بھی دو طرح ہے:
(١) مصحف مدینہ و شام میں’فَاِنَّ اللّٰہَ الْغَنِيُّ الْحَمِیْدُ‘ہے۔
اسی بارے میں امام شاطبی﷫ ’العقیلۃ‘ کے شعر نمبر ۱۱۴ میں فرماتے ہیں:
دع للشام والمدنی ھو المنیف ذرا
یعنی شامی و مدنی مصاحف میں بغیر’ھو‘ کے لکھاہے۔
ان تمام مثالوں سے یہ بات سمجھ آتی ہے کہ ان الفاظ کو دو طرح لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ دونوں قراء ات سمجھ آجائیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
تیسری فصل
اَب ہم ان کلماتِ قرآنیہ کا تذکرہ کرتے ہیں۔ جن میںدو قراء ات ہیں۔ایک اثبات الف کے ساتھ اور دوسری حذف الف کے ساتھ لیکن ان دونوں کا رسم حذف الف کے ساتھ ہے۔
اگر کوئی یہ اعتراض کرے کہ جس لفظ کا رسم حذف الف کے ساتھ ہے وہاں سے اثبات الف کی قراء ت کیسے نکلتی ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ الف محذوفہ کے اوپر چھوٹا الف اسی لیے ڈالا جاتا ہے تاکہ اثبات الف کی طرف اِشارہ ہوجائے۔جس طرح علامہ خراز اپنی کتاب ’دلیل الحیران شرح مورد الظمان‘ میں فرماتے ہیں:
وألحقن ألفا توسطا
مما من الخط اختصارا اسقطا​
’’یعنی جس لفظ سے اختصاراً الف حذف کردیا گیا ہو اس پر چھوٹا الف (جسے ہم کھڑا زبر کہتے ہیں) لگا دو۔ (مثلاً العٰلمین)‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(١) مثلاً لفظ ’’ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ ‘‘ (الفاتحۃ: ۴)
تمام علماء رسم کا اس بات پر اجما ع ہے کہ اس لفظ میں میم کے بعد الف حذف کیا جائے گا۔جس طرح امام شاطبی﷫ اپنی کتاب (العقیلۃکے شعر ۴۶) میں فرماتے ہیں:
’وقل بالحذف ملک یوم الدین مقتصرا‘​
یعنی ملک یوم الدین میں حذف الف ہے۔
اس لفظ میں دو قراء ات ہیں۔
(١) امام نافع﷫، ابن کثیر﷫، ابوعمرو﷫، ابن عامر﷫، حمزہ﷫ اور ابوجعفر﷫ کی قراء ت ’مَلِکِ‘ ہے۔ اس قراء ت کے مطابق یہ اسم فاعل مبالغہ کا صیغہ بنتا ہے۔
امام ابوزرعہ﷫ فرماتے ہیں :
اللہ تعالیٰ کے متعلق ’مَلِکِ‘(یعنی بادشاہ) کہنا زیادہ بہتر ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں متعدد مواقع پر اپنے آپ کے بارے میں یہ لفظ استعمال کیا ہے۔مثلاً ’’ لِمَنِ الْمُلْکُ الْیَوْمَ ‘‘ ’آج کس کی بادشاہی ہے‘ اسی طرح ’’الْمَلِکُ الْقُدُّوْسُ‘‘ (الحشر: ۲۳) اسی طرح ’’مَلِکِ النَّاسِ‘‘ (الناس:۲) ’لوگوں کے بادشاہ‘
(٢) باقی تمام قراء کی قراء ت ’مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ‘ ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ امام شافعی اپنی کتاب ’الشاطبیۃ‘ میں فرماتے ہیں:
’وَمٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ راویہ ناصر‘ (یعنی اس کو الف کے ساتھ عاصم اور کسائی نے پڑھا ہے)
اور امام ابن الجزری﷫ اپنی ’الدرۃ‘ میں فرماتے ہیں:
’وَمٰلِکِ حُزْ فُزْ‘ (یعنی اس کو الف کے ساتھ یعقوب اور خلف العاشر نے پڑھا ہے۔)
اس لفظ کو الف کے ساتھ پڑھنے سے یہ اسم فاعل کا صیغہ بن جائے گا۔جس کا معنی یہ ہے کہ (وہ اللہ) قیامت کے دن کا مالک ہے۔ (پوری کائنات میں جیسے چاہے تصرف کرسکتا ہے۔ اسی معنی میں قرآن کی درج ذیل آیت ہے: ’’قُلِ اللّٰھُمَّ مٰلِکَ الْمُلْکِ تُؤْتِی الْمُلْکَ مَنْ تَشَآئُ‘‘ (آل عمران:۲۶)
’’اے اللہ تو بادشاہی کا مالک ہے، جس کو چاہے بادشاہی دے…‘‘
اس مثال سے یہ بات سمجھ آتی ہے کہ اگر یہ لفظ الف کے ساتھ یعنی ’مَالِکِ‘ لکھ دیاجاتا، تو حذف الف والی قراء ت کیسے نکلتی۔ اس لیے اس کو حذف الف کے ساتھ لکھا ہے تاکہ حذف و اثبات والی دونوں قراء ات نکالی جاسکیں۔ڈاکٹر سالم محیسن اپنی کتاب ’الفتح الربانی‘ (صفحہ نمبر ۱۳۶) میں فرماتے ہیں کہ محذوف الفاظ کی تین قسمیں ہیں:
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
پہلی قسم
بعض قراء ات کی طرف اشارہ کرنے کے لیے الف حذف کرنا۔یعنی الف کو حذف صرف اس لیے کیا جاتا ہے تاکہ دوسری قراء ات بھی نکالی جاسکیں۔ مثلاً ’وَمَایَخْدَعُوْنَ‘ کا الف اس لیے حذف کیا گیا تاکہ ’وَمَایُخٰدِعُوْنَ‘ کی قراء ت نکالی جاسکے۔ (اس طرح ’مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ‘ کی مثال ہے)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
دوسری قسم
بعض کلمات کا دوسرے کلمات سے فرق کرنے کے لیے الف حذف کرنا۔ یعنی صرف اس لیے الف حذف کرنا تاکہ دوسری جگہ سے اس کا فرق ہوجائے۔ مثلاً لفظ ’کِتٰب‘ہے،اس کا الف صرف فرق کے لیے محذوف ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
تیسری قسم
بعض کلمات سے اختصار کی وجہ سے الف حذف کرنا۔یعنی صرف اس لیے الف حذف کرنا تاکہ اختصار ہوجائے۔مثلاً ’ الرَّحْمٰن‘ میں میم کے بعد والا الف پورے قرآن میں صرف اختصار کی وجہ سے حذف ہے۔
(٢) مثلا :لفظ ’’وَلَا تُقٰتِلُوْ ھُمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ حَتّٰی یُقٰتِلُوْ کُمْ فِیْہِ فَاِنْ قٰتَلُوْکُمْ‘‘ (البقرۃ: ۱۹۱)
اس مثال میں تین افعال ہیں اور ان تینوں افعال سے الف حذف کیا گیا ہے۔ جس طرح امام شاطبی﷫ اپنی کتاب ’العقیلۃ‘ کے شعر نمبر ۴۸ میں فرماتے ہیں:
وقٰتلوھم وأفعال القتال بھا
ثلاثۃ قبلہ تبدو لمن نظرا​
یعنی وَقٰتِلُوْھُمْ اور اس کے ساتھ باقی دو افعال ان تینوں سے الف کا حذف واضح ہے۔
ان کلمات میں دو قراء ات ہیں:
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(١) امام حمزہ﷫، کسائی﷫ اور خلف العاشر﷫کی قراء ت ہے۔ ’’ وَلَا تَقْتُلُوْھُمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ حَتّٰی یَقْتُلُوْکُمْ فِیْہِ فَاِنْ قَتَلُوْکُمْ ‘‘(یعنی ان افعال کو باب قَتَلَ یَقْتُلُ سے بنایا گیا ہے۔)
(٢) باقی تمام قراء کی قراء ت ہے: ’’ وَلَا تُقٰتِلُوْھُمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ حَتّٰی یُقٰتِلُوْکُمْ فِیْہِ فَاِنْ قٰتَلُوْکُمْ‘‘(یعنی ان افعال کو باب قَاتَلَ یُقَاتِلُ سے بنایا گیا ہے۔)
سالم محیسن اپنی کتاب (الفتح الرباني: ۱۵۰) میں فرماتے ہیں:
ان کلمات میں الف اس لیے حذف کیاگیا تاکہ حذف الف والی قراء ت بھی نکل آئے حالانکہ رسم قیاسی کا تقاضا یہ تھا کہ ان کلمات کو الف کے ساتھ لکھا جاتا۔لیکن الف کے ساتھ لکھنے میں حذف الف والی قراء ت نہیں نکل سکتی۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٣) مثلاً: لفظ ’’ أَوْ لٰمَسْتُمُ النِّسَآئَ ‘‘ (النساء: ۴۳)
بعض علماء رسم نے اس لفظ میں حذف الف کی باقاعدہ صراحت کی ہے۔
جس طرح امام شاطبی﷫ ’العقیلۃ‘ کے شعر نمبر ۵۸ میں فرماتے ہیں:
’مراغما قاتلوا لامستم بھما‘
یعنی نافع نے حذف الف روایت کیا ہے۔
اسی طرح امام دانی﷫ اپنی کتاب (التیسیر کے صفحہ نمبر ۹۶) میں لکھتے ہیں:
’’قرأ حمزۃ والکسائی ’أَوْ لَمَسْتُمُ النِّسَآئَ‘ في النساء والمائدۃ بغیر ألف والباقون بالألف‘‘
یعنی اس لفظ میں دو قراء ات ہیں:
(١) امام حمزہ﷫ اور کسائی کی قراء ت ’ أَوْ لَمَسْتُمُ النِّسَآئَ ‘(بغیر الف)
(٢) باقی تمام قراء کی قراء ت ’ أَوْ لٰمَسْتُمُ النِّسَآئَ ‘ (بالالف)
امام ابوزرعۃ﷫ اپنی کتاب (الحجۃکے صفحہ نمبر ۲۰۵ ) میں فرماتے ہیں :
’’حذف الف والی قراء ت کے مطابق معنی یہ ہے کہ عورتوں کو جماع کے علاوہ چھونا یعنی بوس و کنار کرنا اور یہ ابن عمر﷜ کی قراء ت ہے۔ جبکہ اثبات الف والی قراء ت کا معنی یہ ہے کہ عورتوں کے ساتھ جماع کرنا اور یہ ابن عباس﷜ کی قراء ت ہے۔
اسی طرح امام ابوزرعۃ﷫ فرماتے ہیں کہ اس لفظ کو حذف الف کے ساتھ لکھنے میں یہ بتانا مقصود ہے کہ اس میں حذف والی قراء ت بھی ہے۔ اس طرح کے الفاظ تو قرآن میں بہت زیادہ ہیں۔ اسی کثرت وقوع کی وجہ سے ان کا الف حذف کردیا جاتا ہے۔‘‘
 
Top