متن کی نکارت
۳) شدید نکارت والے متن پر مشتمل روایت کا موضوع ہونا۔
ایسی روایت کی سند صحیح نہیں بلکہ مردود ہوتی ہے، نیز محدثین کرام اسے صحیح نہیں بلکہ موضوع کہتے ہیں۔جبکہ أول یغیر سنتي والی روایت کے متن میں کوئی نکارت نہیں، سند بھی حسن لذاتہ یعنی صحیح ہے اور کسی محدث نے اسے ہر گز موضوع قرار نہیں دیا۔نبی ﷺ کا غیب کی خبریں بیان کرنا اللہ تعالیٰ کی وحی سے تھا اور اس بات میں کسی قسم کی نکارت نہیں۔
عرض ہے کہ زیربحث روایت میں شدید نکارت بالکل واضح ہے اوروہ یہ کہ ایک جلیل القدرصحابی اوراسلامی فوج کے کمانڈر یزیدبن ابی سفیان رضی اللہ عنہ پر حسن پرستی اور اسی خاطر دوسرے مجاہد کی لونڈی غصب کرنے کی بے ہودہ تہمت لگائی گئی ہے ، یہ نکارت نہیں تو اور کیا ہے ؟؟؟
واضح رہے کہ محترم زبیرعلی زئی حفظہ اللہ نے ’’اغتصبہا‘‘ کا ترجمہ جان بوجھ کر غلط کرکے نہ صرف یہ کہ اس نکارت پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی ہے بلکہ یہاں آکر اس نکارت کا یک قلم انکار بھی کردیا ۔ فیا للعجب !
اوراس پرمستزاد یہ ہے کہ زیربحث روایت میں یزید بن معاویہ سے متعلق جوغیبی خبر ہے اس سے نکارت کی نفی کرنے بیٹھ گئے ! حالانکہ یہاں پر نکارت کی بات ہم نے سرے سے کی ہی نہیں، بلکہ ہم نے نکارت کی بات تو روایت کے اس حصہ سے متعلق کی ہے جس میں جلیل القدر صحابی رسول یزیدبن ابی سفیان رضی اللہ عنہ پر حسن پرستی اور اسی کی خاطر دوسرے مجاہد کی خوبصورت لونڈی غصب کرنے کی بے ہودہ تہمت ہے ۔
اغتصبہا کے ترجمہ پربحث
ہم نے اپنی پہلی تحریر میں کہا تھا:
اور مجلہ الحدیث کے محولہ صفحہ پر جو یہ ترجمہ کیا گیا ہے کہ ’’لونڈی قبضہ میں لے لی ‘‘ تو یہ ترجمہ کسی بھی صورت میں درست نہیں ، اورشاید مترجم کو بھی معلوم تھا کہ یہ درست ترجمہ نہیں ہے لیکن چونکہ صحیح ترجمہ کرنے کی صورت میں ایک صحابی رسول کا بڑا گھناؤنا کردار سامنے آرہا تھا اس لئے مترجم اس کی جرات نہیں کرسکے، حالانکہ یہ غلط ترجمہ سیاق وسباق سے بالکل کٹ جاتا ہے ۔
ہمیں اس کا جواب دیتے ہوئے کہاگیا:
فاغتصبها کا جو ترجمہ کیا گیاہے وہ لغت کے اعتبار سے غلط نہیں ہے اور یہ ترجمہ بالکل ویسا ہی ہےجیسے بعض صحابہ کا ایک دوسرے کے بارے میں کذب کے الفاظ کہنا اور مترجمین کا کذب کاترجمہ جھوٹ کی بجائے غلط کرنا۔
اس کے جواب میں ہم نے جو کچھ بھی کہا تھا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اسے یہاں بھی نقل کردیا جائے ، چنانچہ ہم نے کہاتھا:
یہاں لغت کی مستندکتاب کا حوالہ نہیں دیا گیا اور بغیر حوالے کے ہم اس ترجمہ کو صحیح ماننے سے معذور ہیں ۔
خطاء پر کذب کا اطلاق عربی زبان میں معروف ہے لسان العرب میں ہے:
حَدِيثِ صلاةِ الوِتْرِ: كَذَبَ أَبو مُحَمَّدٍ
أَي أَخْطأَ؛ سَمَّاهُ كَذِباً، لأَنه يُشْبهه فِي كَوْنِهِ ضِدَّ الصَّوَابِ، كَمَا أَن الكَذِبَ ضدُّ الصِّدْقِ، وإِنِ افْتَرَقا مِنْ حَيْثُ النيةُ والقصدُ، لأَن الكاذبَ يَعْلَمُ أَن مَا يَقُولُهُ كَذِبٌ، والمُخْطِئُ لَا يَعْلَمُ، وَهَذَا الرَّجُلُ لَيْسَ بمُخْبِرٍ، وإِنما قَالَهُ بِاجْتِهَادٍ أَدَّاه إِلى أَن الْوَتْرَ وَاجِبٌ، وَالِاجْتِهَادُ لَا يَدْخُلُهُ الكذبُ، وإِنما يدخله الخطَأُ؛ وأَبو مُحَمَّدٍ صَحَابِيٌّ، وَاسْمُهُ مَسْعُودُ بْنُ زَيْدٍ؛ وَقَدِ اسْتَعْمَلَتِ العربُ الكذِبَ فِي مَوْضِعِ الخطإِ؛ وأَنشد بَيْتَ الأَخطل:
كَذَبَتْكَ عينُكَ أَم رأَيتَ بواسِطٍ
وَقَالَ ذُو الرُّمَّةِ:
وَمَا فِي سَمْعِهِ كَذِبُ
وَفِي حَدِيثِ
عُرْوَةَ، قِيلَ لَهُ: إِنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ يَقُولُ إِن النَّبِيَّ، صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، لَبِثَ بِمَكَّةَ بِضْعَ عَشْرَةَ سَنَةً، فَقَالَ: كَذَبَ
، أَي أَخْطَأَ. وَمِنْهُ
قَوْلُ عِمْرانَ لسَمُرَة حِينَ قَالَ: المُغْمَى عَلَيْهِ يُصَلِّي مَعَ كُلِّ صلاةٍ صَلَاةً حَتَّى يَقْضِيَها، فَقَالَ: كَذَبْتَ وَلَكِنَّهُ يُصَلِّيهن مَعًا
، أَي أَخْطَأْتَ
[لسان العرب:1/ 709 ]۔
لیکن کیا عربی زبان میں غصب کرنا قبضہ میں لینے کے معنی میں مستعمل ہے ؟؟ اگر ایسا ہے تو اولا اہل لغت و اہل عرب کی عبارات اورصحابہ کے استعمال سے متعلق صحیح احادیث سے اس کاثبوت پیش کیا جائے ، ثانیا زیربحث روایت کے سیاق وسباق سے ثابت کیاجائے کہ یہاں غصب اپنے عام معنی میں نہیں ہے ہم نے لکھا تھا:
ہم اب بھی کہتے ہیں کہ سیاق وسباق سے ایسے ترجمہ کی کوئی گنجائش نہیں نکلتی ہے کیونکہ سیاق وسباق کے لحاظ سے صورت حال یہ ہے کہ:
- لڑکی خوبصورت تھی ۔
- پھرنعوذباللہ صحابی رسول رضی اللہ عنہ پر ایک گھناؤنا الزام ہے ۔
- پھرمظلوم شخص کسی اور کے پاس جاکر مدد طلب کرتاہے ۔
- اس کے بعد ایک دوسرے صحابی انہیں سمجھاتے ہیں اور ایک خوفناک حدیث سناتے ہیں ۔
- حدیث سن کو صحابی رسول رضی اللہ عنہ لڑکی واپس کردیتے ہیں ۔
یہ پورا سیاق پکار پکار کر کہہ رہا ہے کہ معاملہ قبضہ میں لینے کا نہیں بلکہ غصب کرنے کا ہے ، ورنہ روایت میں:
- ایک لڑکی کی خوبصورتی کاحوالہ کیوں ؟
- بات صرف قبضہ میں لینے کی تھی تو اس کی وجہ جو خوبصورتی بتائی گئی ہے اس کا قبضہ سے کیا تعلق؟؟
- پھر مظلوم شخص نے ابو ذررضی اللہ عنہ سے فریاد کیوں کی ؟
- پھر ابوذر رضی اللہ عنہ نے ایک خوفناک حدیث کیوں سنائی ؟؟ ظاہر ہے کہ سامنے کوئی خوفناک بات ہوئی تھی تبھی تو !!
یہ سارا سیاق صاف طور سے بتلارہا ہے کہ اغتصبھا مذکورہ روایت میں کس معنی میں مستعل ہے ؟؟ قطع نظر اس کے کہ اس لفظ کا قبضہ کے معنی میں مستعمل ہونا ثابت ہے یا نہیں۔
اس کے برخلاف احادیث میں جہاں کذب خطاء کے معنی میں ہے وہاں سیاق وسباق میں اس کی دلیل موجود ہوتی ہے مثلا لسان العرب میں جس حدیث کو پیش کیا گیا ہے اسے ہی دیکھتے ہیں مکمل حدیث یہ ہے:
امام أبوداؤد رحمه الله (المتوفى275)نے کہا:
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَرْبٍ الْوَاسِطِيُّ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ يَعْنِي ابْنَ هَارُونَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُطَرِّفٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الصُّنَابِحِيّ، قَالَ: زَعَمَ أَبُو مُحَمَّدٍ أَنَّ الْوِتْرَ وَاجِبٌ، فَقَالَ: عُبَادَةُ بْنُ الصَّامِتِ كَذَبَ أَبُو مُحَمَّدٍ أَشْهَدُ أَنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «خَمْسُ صَلَوَاتٍ افْتَرَضَهُنَّ اللَّهُ تَعَالَى مَنْ أَحْسَنَ وُضُوءَهُنَّ وَصَلَّاهُنَّ لِوَقْتِهِنَّ وَأَتَمَّ رُكُوعَهُنَّ وَخُشُوعَهُنَّ كَانَ لَهُ عَلَى اللَّهِ عَهْدٌ أَنْ يَغْفِرَ لَهُ، وَمَنْ لَمْ يَفْعَلْ فَلَيْسَ لَهُ عَلَى اللَّهِ عَهْدٌ، إِنْ شَاءَ غَفَرَ لَهُ وَإِنْ شَاءَ عَذَّبَهُ» [سنن ابي داؤد:1/ 361]۔
اب لسان العرب کے الفاظ ہیں:
حَدِيثِ صلاةِ الوِتْرِ: كَذَبَ أَبو مُحَمَّدٍ أَي أَخْطأَ؛ سَمَّاهُ كَذِباً، لأَنه يُشْبهه فِي كَوْنِهِ ضِدَّ الصَّوَابِ، كَمَا أَن الكَذِبَ ضدُّ الصِّدْقِ، وإِنِ افْتَرَقا مِنْ حَيْثُ النيةُ والقصدُ، لأَن الكاذبَ يَعْلَمُ أَن مَا يَقُولُهُ كَذِبٌ، والمُخْطِئُ لَا يَعْلَمُ،[لسان العرب:1/ 709 ]۔
اس کے بعد لسان العرب دیکھیں کہ کس طرح سیاق وسباق سے دلیل لی جارہی ہے کہ متعلقہ روایت میں کذب خطاء کے معنی میں مستعمل ہے ، ملاحظہ ہوں لسان العرب کے الفاظ:
وَهَذَا الرَّجُلُ لَيْسَ بمُخْبِرٍ، وإِنما قَالَهُ بِاجْتِهَادٍ أَدَّاه إِلى أَن الْوَتْرَ وَاجِبٌ، وَالِاجْتِهَادُ لَا يَدْخُلُهُ الكذبُ، وإِنما يدخله الخطَأُ۔[لسان العرب:1/ 709 ]۔
ہم کہتے ہیں کہ کیا اسی طرح کا معاملہ زیربحث روایت میں بھی ہے ؟ ہرگز نہیں بلکہ معاملہ برعکس ہے یعنی سیاق اس بات پر دال ہے کہ غصب اپنے حقیقی وعام معنی میں مستعمل ہے ۔
ہمارے اس جواب کے بعد الحمدللہ یہ دعوی غائب ہوگیا کہ
’’لفظ ’’اغتصبہا‘‘ کا ترجمہ لغت کے اعتبار سے غلط نہیں ہے‘‘ مگر اس کی جگہ پر یہ کہا گیا کہ :
اگر کوئی کہے کہ آپ نے ’’ فاغتصبھا یزید‘‘ کا ترجمہ و مفہوم ’’قبضے میں لے لیا‘‘ کیوں کیا ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہم تمام صحابہ سے عقیدت و محبت رکھتے ہیں اور ہمارا یہ منہج ہے کہ ہر ممکن طریقے سے اپنے آپ کو صحابہ کی تنقیص یا اشارۂ تنقیص سے بھی بچایا جائے اور ان شاء اللہ اسی منہج میں خیر ہے۔
عرض ہے کہ اگر صحابہ کرام سے عقیدت ومحبت کاثبوت دینا ہے اوراپنے آپ کو صحابہ کی تنقیص یا اشارہ تنقیص سے بچانا ہے تو اس بکواس روایت کو موضوع اور من گھڑت کہیں کیونکہ اس سے موضوع ومن گھڑت کہنا ناممکن نہیں ہے بالخصوص جب کہ امام بخاری رحمہ اللہ جیسے عظیم محدث نے اس پرجرح کی ہے اور امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے اسے موضوع اور من گھڑت کہا ہے۔
اس کے برعکس اگراس روایت کو صحیح باور کیا جائے اورترجمہ میں بکواس پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی جائے تو یہ قطعا بے سود ہے ۔
کیونکہ کوئی بھی ترجمہ کرنے کے لئے لغت نیز سیاق وسباق سے اس کی گنجائش ہونی چاہئے لیکن آن جناب جو ترجمہ کررہے ہیں اس کی نہ تو لغت سے کوئی گنجائش ہے اور نہ ہی سیاق وسباق اس کی اجازت دیتا ہے جیساکہ ہم نے دوسری تحریر ہی میں واضح کیا تھا جسے اوپر نقل کیا گیا ہے ۔
یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے کسی صحابی سے متعلق لوٹ مار کی تہمت والی روایت مل جائے تو اسے صحیح قرار دے کر لوٹ مار والے الفاظ کا ترجمہ صدقہ و خیرات سے کردیا جائے۔
بھائی کچھ بھی ترجمہ کرنے کے لئے لغت اور سیاق وسباق کے اعتبار سے گنجائش نکلنی چاہئے نیز آپ یہ کیوں بھول رہے ہیں عربی جاننے والے دنیا میں بہت سے لوگ موجود ہیں آپ کی طرح سب تو یہ غلط ترجمہ نہیں کریں گے ان کا کیا بنے گا ؟ بالخصوص وہ لوگ جو صحابہ کے خلاف زبان درازیاں کرتے ہیں ، آپ انہیں جذباتی دلیل سے تو قائل نہیں کرسکتے بلکہ وہ تو لغت اور سیاق وسباق سے دلائل طلب کریں گے ، اس طرح کسی رافضی نے اگر بطور الزام آپ کے خلاف یہ روایت پیش کردی تو آپ اسے کیسے قائل کریں گے ، اس کے سامنے غلط ترجمہ کرنے کا کیا جواز پیش کریں گے ؟ اپنے جذبات یا لغت و سیاق کے دلائل ؟؟
علاوہ بریں یہ کہ پوری دنیا میں سب کے سب صرف ترجمہ ہی پر تھوڑی گذارا کرتے بلکہ بہت سارے لوگوں کی مادری زبان ہی عربی ہے ان سے جب کہا جائے گا کہ یہ روایت صحیح تو وہ اس بکواس والے حصہ کا کریں گے ؟؟
الغرض یہ کہ اس روایت میں شدید نکارت ہے ، غلط ترجمہ کرکے اسے چھپایا نہیں جاسکتا ، لہٰذا یہ نکارت بھی اس بات کا قرینہ ہے کی اس روایت کی وہی سند راجح ہے جس سے یہ مردود ثابت ہوتی ہے ۔
نیز محترم نے جو یہ کہا:
اور کسی محدث نے اسے ہر گز موضوع قرار نہیں دیا۔
عرض ہے کہ امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے واضح طورپر اسے موضوع اور من گھڑت کہا ہے ، چنانچہ:
امام ابن كثير رحمه الله (المتوفى774) نے کہا:
وقد أورد ابن عساكر أحاديث فى ذم يزيد بن معاوية كلها موضوعة لا يصح شىء منها
ابن عساکر رحمہ اللہ نے یزید بن معاویہ کی مذمت میں کئی احادیث نقل کی ہیں یہ سب کی سب موضوع اور من گھڑت ہیں ان میں سے ایک بھی صحیح نہیں [البداية والنهاية: 8/ 231]
اورزیربحث روایت ابن عساکر ہی کی ہے جیساکہ خود ابن کثیر رحمہ اللہ نے بھی محولہ مقام پر کہا ہے۔
آں جناب نے ابن کثیر رحمہ اللہ کے کی طرف سے موضوع اور من گھڑت کہے جانے والے اس قول سے متعلق کہا:
یہ قول بھی اپنے عموم کے لحاظ سے اُسی طرح غلط ہے، جیسا کہ ابن حزم نے وضو کے دوران میں داڑھی کے خلال کے بارے میں لکھا : ’’ و ھذا کلہ لا یصح منہ شئي.‘‘ (المحلیٰ ۲/ ۳۶ مسئلہ : ۱۹۰)
عرض ہے کہ اس قول کے غلط ہونے سے صرف یہ ثابت ہوا کہ ابن حزم کی بات غلط ہے لیکن یہ ثابت نہیں ہوا کہ ابن حزم نے ایسا کہا ہی نہیں ۔
یہ معاملہ ابن کثیر رحمہ اللہ کے قول کا ہے اگربالفرض آپ ابن کثیر رحمہ اللہ کے قول کو غلط ثابت کردیں تو اس کا یہ مطلب قطعا نہیں ہوگا کہ ابن کثیر رحمہ اللہ نے ایسا کہاہی نہیں ، آپ ابن کثیر رحمہ اللہ کے قول سے لاکھ اختلاف کریں اور اسے غلط قرار دیں لیکن یہ سب کچھ صرف آپ ہی کا موقف رہے نہ کہ آپ کے اختلاف سے یہ ابن کثیر رحمہ اللہ کا بھی موقف بن جائے گا۔
یہی سے یہ بھی ثابت ہوگیا کہ شدید ترین نکارت کے سبب بھی روایت کو موضوع کہا جاتا ہے گرچہ اس میں کذاب راوی نہ ہو ۔
ہم نے پہلی تحریر میں یہی بات کہی تھی لیکن اس پر ان الفاظ میں اعتراض کیا گیا تھا:
اس کے علاوہ کیا یہ اصول حدیث کا مسئلہ ہے کہ متن کی نکارت کی بنا پر بھی روایت موضوع ہو جاتی ہے جبکہ اس میں کوئی کذاب راوی نہ ہو؟
اس پر ہم نے کہاتھا:
ہم بھی سوال کرسکتے ہیں کہ کیا یہ اصول حدیث کا مسئلہ ہے کہ کسی روایت کی سند میں کذاب راوی ہو تو اس روایت کوموضوع کہتے ہیں ، اگر ایسا ہے تو ہمیں اصول حدیث کی کتب میں یہ مسئلہ دکھایا جائے اوربتایاجائے کہ کس کس محدث نے موضوع حدیث کی یہ تعریف کی ہے کہ جس حدیث میں کذاب راوی ہواسے موضوع کہتے ہیں؟؟؟؟؟؟؟
ہمارے علم کی حدتک تو اصول حدیث کی کسی بھی کتاب میں موضوع حدیث کی یہ تعریف نہیں ملتی کہ موضوع حدیث وہ ہے جس کی سند میں کوئی کذاب راوی ہو ۔
ہاں یہ بات ضرور ہے کہ محدثین کا یہ طرزعمل ہے کہ وہ ایسی احادیث کو موضوع قراردیتے ہیں جن کی اسناد میں کذاب راوی ہو ، اورٹھیک اسی طرح محدثین ایسی روایات کو بھی موضوع و باطل قرار دیتے ہیں جس کی سند ضعیف ہو اور متن میں ناممکن بات ہو اور اس کے لئے میں نے پہلے ہی ابن الجوزی اور حافظ ابن الحجر رحمہ اللہ کا حوالہ دیا ہے کہ ان حضرات نے ترمذی کی ایک ایسی حدیث کو موضوع کہا ہے کہ جس کے سارے راوی نہ صرف ثقہ ہیں بلکہ بخاری ومسلم کے راوی ہیں اورعلامہ البانی رحمہ اللہ نے بھی اسے موضوع قراردیاہے۔
اسی طرح ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے بھی متعدد ضعیف السند احادیث کے متن کو دیکھتے ہوئے اسے موضوع کہا ہے ۔
الغرض یہ کہ محدثین کاجس طرح یہ طرزعمل ملتاہے کہ وہ کذاب راوی سے مروی روایت کو موضوع کہتے ہیں اسی طرح محدثین کا یہ بھی طرزعمل رہا ہے کہ وہ ضعیف رواۃ کے ذریعہ منقول شدید نکارت یا ناممکن باتوں پرمشتمل روایت کو بھی موضوع قرار دیتے ۔
لیکن الحمدللہ یہاں جس اقتباس کا ہم جواب دے رہے ہیں اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ بات تسلیم کرلی گئی ہے کہ شدید نکارت کے سبب بھی حدیث کو موضوع کہا جاتا ہے گرچہ سند میں کوئی کذاب نہ ہو ۔
البتہ یہ اعتراف کرتے ہوئے یہ قید لگائی گئی ہے کہ:
’’ایسی روایت کی سند صحیح نہیں بلکہ مردود ہوتی ہے‘‘ ۔
عرض ہے کہ ہم نے کب اس کا انکار کیا ؟ یہاں بھی توہم یہی بات کہہ رہے کہ یہ روایت مردود ہے اور متن کے نکارت کے پیش نظر یہ موضوع اور من گھڑت ہے جیساکہ ابن کثیر رحمہ اللہ نے کہا، والحمدللہ۔
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔