یزید سے متعلق اعتراضات اور ان کے جوابات
۴) خود ساختہ عقلی قرائن کا اصل جواب یہ ہے کہ صحیح حدیث کے بارے میں ہر قسم کے ڈھکوسلے مردود ہوتے ہیں۔
یہ کہنا کہ فلاں موقع پر کیوں حدیث پیش نہیں کی؟ تو اس طرح سے بہت سی صحیح احادیث کا انکار کیا جا سکتا ہے۔ مثلاً:سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ ایک حدیث میں آیا ہے کہ ایک عورت نے نبی ﷺ سے کہا : اگر میں آپ کو نہ پاؤں تو؟ مراد یہ ہے کہ اگر آپ فوت ہو گئے تو میں کس کے پاس (اپنے کام کے بارے میں ) جاؤں گی؟
آپ نے فرمایا: ’’ إن لم تجدیني فأتي أبا بکر. ‘‘ اگر تو مجھے نہ پائے تو ابو بکر کے پاس جانا۔ (صحیح البخاری : ۳۶۵۹،صحیح مسلم : ۲۳۸۶)
اس حدیث میں یہ اشارہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوں گے۔
اگر کوئی کہے کہ یہ حدیث موضوع ہے، اگر یہ صحیح ہوتی تو سقیفہ بنی ساعدہ کے موقع پر اسے کیوں پیش نہ کیا گیا؟ تو کیا اس عقلی ڈھکوسلے سے اس حدیث کو موضوع قرار دیا جائے گا؟!
اس طرح کے عقلی اعتراضات اہلِ حدیث کا منہج نہیں بلکہ اہل الرائے کا وطیرہ ہے۔
عرض ہے کہ دونوں روایات کے پس منظر میں بعد المشرقین ہے ۔
خلافت کی طرف اشارہ کرنے والی بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف ایک خاتون سے بتلائی اورکسی ایسے پس منظر میں نہیں بتلائی کہ یہ حدیث بہت زیادہ عام ہوجائے نیز صحابہ کے بیچ میں ابوبکر رضی اللہ عنہ کی افضیلت کا مسئلہ بھی متفق علیہ تھا اس لئے اس لئے اس حدیث میں کوئی چونکا دینے والی بات نہیں دی کہ زبان زد عام وخاص ہوجائے۔
اس برخلاف زیربحث حدیث کا پس منظر یہ ہے کہ فوج میں یہ حدیث سنائی گئی ، اورجس وقت سنائی گئی اس وقت کافی بحث تکرار ہوئی اور دوسرے مجاہد کی لونڈی غصب کرنے کا واقعہ بھی پیش ۔
یہ پوری صورت حال اس بات کی متقاضی ہے کہ یہ بات مشہور ہوجائے ، مزید یہ کہ یزیدبن ابی سفیان رضی اللہ عنہ خاندان بنوامیہ کے فرد تھے اب انہیں کے خاندان سے متعلق یزید نامی شخص کی مذمت ہوئی ایسی صورت میں تو انہیں اپنے خاندان میں بھی سب کو اتنی خوفناک بات سے باخبیر کرناچاہئے لیکن ایسا کچھ بھی نہیں یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ روایت بعد کی پیداوار ہے اور سبائی ذہنیت کے تحت گھڑی گئی ہے۔
اور ہم محض اس چیز کو قرینہ بناکر اس روایت کو موضوع نہیں کہہ رہے ہیں بلکہ اس روایت کی سند باقاعدہ علت موجود اوراب ثابت ہونے کے بعد مزید تائید کے لئے یہ باتیں کررہے ہیں۔
یزید بن معاویہ کے بادشاہ بننے سے بہت پہلے ۳۲ھ میں سیدنا ابو ذر الغفاری رضی اللہ عنہ وفات پا گئے تھے، جبکہ اس وقت یزید پیدا بھی نہیں ہوا تھا۔
کیا سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ اپنی وفات کے بعد ساٹھ ہجری میں دوبارہ زندہ ہو گئے تھے کہ یزید کے دربار میں یہ حدیث سناتے ؟
ابو مسلم الجذمی کا بھی دربارِ یزید میں حاضر ہونا کسی سند سے ثابت نہیں اور کیا یہ ضروری ہے کہ ہر صحیح حدیث ہر متعلقہ موقع پر ضرور پر ضرور بیان کی گئی ہو؟
عرض ہے کہ سب سے پہلے ہم اپنے الفاظ نقل کردینا مناسب سمجھتے ہیں۔ہم نے دومناسبتوں سے یہ بات کہی تھی ۔
پہلی مناسبت سے ہمارے الفاظ یہ ہیں:
امام بيهقي رحمه الله (المتوفى458) فرماتے ہیں:
قلت: يزيد بن أبي سفيان كان من أمراء الأجناد بالشام في أيام أبي بكر وعمر. لكن سميه يزيد بن معاوية يشبه أن يكون هو- والله أعلم- وفي هذا الإسناد إرسال بين أبي العالية وأبي ذر.[دلائل النبوة للبيهقي/ 467]۔
یعنی صحابی رسول یزیدبن سفیان رضی اللہ عنہ تو ابو بکر اور عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں لشکر شام کے امیر ہواکرتے تھے (اوراس دور میں ابوذر رضی اللہ عنہ شام آئے ہی نہیں) ۔
اور امام بیہقی رحمہ اللہ نے اس اشکال کو رفع کرنے کا یہ حل پیش کیا ہے کہ زیربحث روایت میں یزید بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ کے بجائے ان کے ہمنام یزید بن معاویہ رضی اللہ عنہ کا واقعہ ہوگا ، چنانچہ:
امام بيهقي رحمه الله (المتوفى458)نے کہا:
لكن سميه يزيد بن معاوية يشبه أن يكون هو- والله أعلم- [دلائل النبوة للبيهقي/ 467]۔
عرض ہے کہ یہ ناممکن ہے کیونکہ تمام تر روایات میں یزیدبن ابی سفیان رضی اللہ عنہ ہی کی صراحت ہے ، نیز اگر یہ تسلیم کرلیا جائے کہ اس حدیث میں لونڈی غصب کرنے کا جو واقعہ ہے وہ یزیدبن معاویہ رحمہ اللہ کا واقعہ ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یزید نے جب ایک لونڈی غصب کی تو ابوذر رضی اللہ عنہ نے انہیں حدیث سنادی لیکن جب انہوں نے مسندخلافت غصب کی کما یقال تو اس وقت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی یہ حدیث لوگوں کوکیوں نہ سنائی گئی کیونکہ ظاہر ہے یہ واقعہ پیش آنے کے بعد یہ حدیث کئ لوگوں کے علم میں آچکی ہوگی ۔
نیز اسی حدیث میں ہے کہ یزید نے جب ابوذ رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ کیا وہ میں ہوں تو ابو ذر رضی اللہ عنہ نے کہا نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لہٰذا اگر یہ واقعہ یزید بن معاویہ کا ہے تب تو بتصریح ابو ذر رضی اللہ عنہ یزید بن معاویہ رحمہ اللہ اس کے مصداق ہیں ہی نہیں۔
دوسری مناسبت سے ہمارے الفاظ یہ ہیں:
امام بخاری رحمہ اللہ کی تحقیق کے علاوہ اور بھی ایسے قرائن ہیں جو بتلاتے ہیں کہ یہ روایت مکذوب ہے ۔
مثلا یہ کہ جب یزید بن معاویہ رحمہ اللہ کو ولیعہدی کے لئے نامزد کیا گیا تو اس وقت بعض لوگوں نے اس آئین کی مخالفت کی لیکن اس موقع پر کسی نے بھی اس حدیث کو پیش نہیں کیا ، جبکہ مذکورہ واقعہ پیش آنے کے بعد اس حدیث کا عام ہوجانا ظاہر ہے ، غور کیا جائے کہ زیربحث روایت کے مطابق ایک جلیل القدر صحابی یزید بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ ایک لونڈی غصب کرتے ہیں اور اس ایک غلطی پر انہیں یہ حدیث فورا سنادی گئی جبکہ آپ صحابی رسول تھے تو پھر یزید بن معاویہ تو تابعی تھے انہوں نے ایک لونڈی ہی نہیں بلکہ مخالفین کے بقول مسندخلافت ہی کو غصب کرلیا آخر انہیں کسی نے یہ حدیث کیوں نہ سنائی ؟؟؟؟؟؟؟؟
۔
قارئین ہم نے اپنی پوری بات اوپر نقل کردی ہے ا سے پڑھیں اور بتلائیں کہ :
ہم نے کب اورکہاں کہا کہ ابوذر رضی اللہ عنہ کو یزید کی نامزدگی کے وقت یہ حدیث سنانا چاہئے ؟؟؟
نیز ہم نے یہ بھی کب کہا کہ ابومسلم کو دربار یزید میں یہ حدیث سنانا چاہئے ؟؟؟
ہم تو یہ کہہ رہے ہیں کہ زیربحث روایت میں جس اندار کا واقعہ پیش آیا ہے اس کے بعد تو اس حدیث کو عام ہوجاناچاہئے اور عام ہونے کے بعد بہت سارے لوگوں کی زبان پریہ رویات ہونی چاہئے اور یزید کی ولیعہدی کے وقت اسے پیش کیا جانا چاہئے ۔
۵) ایک حدیث میں آیا ہے کہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
میں نے رسول اللہ سے دو برتن یاد کئے، ایک تو پھیلا دیا اور اگر دوسرا پھیلاؤں تو میرا حلق کاٹ دیا جائے ۔ (صحیح بخاری : ۱۲۰)
اس حدیث سے باطنیہ کسی علم لدنی وغیرہ اباطیل پر استدلال کرتے ہیں ، جبکہ حافظ ابن حجر نے علماء سے نقل کیا کہ اس سے مراد بُرے حکمرانوں کے نام، احوال اور زمانہ ہے۔ حافظ ابن حجر نے لکھا ہے:’’ و قد کان أبو ہریرۃ یکني عن بعضہ ولا یصرح بہ خوفًا علٰی نفسہ منھم ‘‘ ابو ہریرہ (رضی اللہ عنہ) بعض کے بارے میں اشارہ کرتے تھے اور اپنی جان کے خوف کے وجہ سے صراحت نہیں کرتے تھے۔
اس حدیث سے یزید کی قطعت مذمت ثابت نہیں ہوتی تفصیل کے دیکھے میرا مضمون ۔
حافظ صاحب نے مزید لکھا ہے: ’’ کقولہ أعوذ باللّٰہ من رأس الستین واِمارۃ الصبیان یشیر إلٰی خلافۃ یزید بن معاویۃ لأنھا کانت سنۃ ستین من الہجرۃ و استجاب اللّٰہ دعاء أبي ھریرۃ فمات قبلھا بسنہ...‘‘ جس طرح کہ اُن ( ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ) کا ارشاد ہے کہ اے اللہ ! میں ساٹھ ( ہجری ) کے شروع اور لونڈوں کی حکمرانی سے پناہ چاہتا ہوں۔وہ یزید بن معاویہ کی خلافت کی طرف اشارہ کر رہے تھے کیونکہ وہ ساٹھ ہجری میں تھی اور اللہ تعالیٰ نے ابو ہریرہ (رضی اللہ عنہ) کی دعا قبول فرمائی اور آپ اس سے ایک سال پہلے فوت ہو گئے۔ ( فتح الباری ج۱ص ۲۱۶)
اس حدیث کا مذاق اڑاتے ہوئے معترض نے جو کچھ لکھا ہے ہم اس کا معاملہ اللہ کے سپرد کرتے ہیں۔
ہم نے اس حدیث مذاق قطعا نہیں اڑایا ہے بلکہ ان معاصرین فہم پر ماتم کیا ہے جو تحقیق کے اس دور میں سارے حقائق جاننے کے باوجود بھی اس سے یزید کی مذمت کشید کرتے ہیں۔حلانکہ اس حدیث سے یزید کی قطعا مذمت ثابت نہیں ہوتی قارئین تفصیل کے لئے دیکھئے ہمارا مضمون :
(ختم شد)