محمد ارسلان
خاص رکن
- شمولیت
- مارچ 09، 2011
- پیغامات
- 17,859
- ری ایکشن اسکور
- 41,096
- پوائنٹ
- 1,155
جزاک اللہ خیرا
آخری پیج کی حدیث اور اور کمنٹس:1۔عن عائشة رضی الله عنها أن فاطمة والعباس أتیا أبابکر یلتمسان میراثهما من رسول الله ﷺ وهما یومئذ یطلبان أرضیهما من فدك وسهمه من خیبر فقال لهما أبوبکر سمعت رسول الله ﷺ یقول: «لا نورث ما ترکنا صدقة، إنما یأکل آل محمد من هذا المال» قال أبوبکر: والله لا أدع أمرا رأیت رسول الله ﷺ یصنعه إلا صنعتُه. قال: فهجرته فاطمة فلم تكلمه في ذلك حتي ماتت ۔
’’اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہؓ بیان فرماتی ہیں کہ حضرت فاطمہؓ او رحضرت عباس دونوں(رسول اللہﷺ کی وفات کے بعد) ابوبکر صدیق کے پاس آئے آپﷺ کا ترکہ مانگتے تھے۔ یعنی جو زمین آپؐ کی فدک میں تھی او رجو حصہ خیبر کی اَراضی میں تھا، وہ طلب کررہے تھے۔ حضرت ابوبکر نے جواب دیاکہ میں نےرسول اللہﷺ سے سنا، آپﷺ نے فرمایا: ہم (انبیاء) جو کچھ چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے۔ البتہ بات یہ ہے کہ محمدﷺ کی آل اس مال سے کھاتی پیتی رہے گی۔ ابوبکر نے یہ بھی فرمایا: اللہ کی قسم میں نے رسول اللہﷺ کو جو کام کرتے دیکھا، میں اسے ضرور کروں گا، اُسے کبھی چھوڑنےکا نہیں۔ اس جواب کے بعد حضرت فاطمہؓ نے ملاقات میں انقباض سے کام لیااورچھ ماہ کے بعد وفات پاگئیں۔‘‘([1])
چوتھی حکمت
رسول اللہ ﷺ کا ارشادِ عالی ہے:
«إن هذا الصدقات إنما هي أوساخ الناس لا تَحل لمحمد ولا لآل محمد ﷺ»
’’صدقات لوگوں کے ہاتھوں کی میل کچیل ہے جو میرے لیے اور آلِ محمدﷺ کے لیے حلال نہیں۔‘‘([36])
اور مذکورہ بالا احادیث میں فرمایا : «ماترکنا فهو صدقة» ان دونوں احادیثِ صحیحہ کو باہم ملانے سے ثابت ہواکہ انبیاء کا ترکہ اُن کے ورثا پر حرام ہے کیونکہ وہ صدقہ ہے۔
مت بننا ریت کے محل بن بارش کے ٹوٹ جاتے ھیں ۔انبیاء کا ترکہ اُن کے ورثا پر حرام ہے کیونکہ وہ صدقہ ہے
جی ہاں اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جانتے تھے کہ یہ امت ان کے اہل بیت کے ساتھ کیا سلوک کرنے والی ہے ایسی لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول سے قرآن میں فرمادیا کہانبیا کی حقیقت آگاہ نظر پر غفلت کا پردہ نہیں ہوتا۔ ہر چیز کا دنیا میں مستعار ہونا اور مالک و متصرف حقیقی صرف ذاتِ باری تعالیٰ کا ہونا ہر وقت ان کے ذہن میں ہوتا ہے ۔ جب انبیا کی دوربین نگاہیں دنیا کی کسی چیز کا اپنے نفوسِ قدسیہ کو مالک اورمستحق ہی تصور نہیں کرتیں تو اُن کا ترکہ ان کے ورثا کو دلا کر اُنہیں مطمئن کرنے کی کوئی حاجت تھی اور نہ ضرورت۔ انبیا کو نہ زندگی میں یہ تمنا تھی کہ ہمارے اقارب کا ترکہ ہمیں ملے اور نہ ہی اس دارِفانی سے فوت ہوتے وقت اپنے مال کے چھوٹنے کا کچھ ملال ہوتا تھا۔ پس انبیا کے لیے مذکورہ بالا طریق سے تسلی او راطمینان کی سرے سے کوئی حاجت ہی نہ تھی۔
چاہے تو اشارے سے اپنے کایا ہی پلٹ دے دنیا کی
یہ شان ہے خدمت گاروں کی سردار کا عالم کیا ہو گا