کلیم حیدر
ناظم خاص
- شمولیت
- فروری 14، 2011
- پیغامات
- 9,747
- ری ایکشن اسکور
- 26,381
- پوائنٹ
- 995
تیسرا مرحلہ۔۔۔ روانگیٔ کوفہ
حضرت حسین جب مدینے سے مکہ تشریف لے گئے اور وہاں چند مہینے قیام رہا، اس دوران اہل کوفہ کی طرف سے آپ کے پاس خطوط آتے رہے جن میں ان کی طرف سے آپ کے ہاتھ پر بیعت خلافت کرنے اور یزید کو کوفے سے نکال باہر کرنے کے عزم کا اظہار کیا جاتا تھا۔ اہل کوفہ کے ان خطوط نے بھی اہل خیر و اہل صلاح کے مشورے اور رائے کو نظر انداز کرنے میں مؤثر کردار ادا کیا اور حضرت حسین نے ان کو اعتناء کے قابل نہیں سمجھا۔
چنانچہ حضرت حسین نے اپنے چچازاد بھائی مسلم بن عقیل کو کوفہ بھیجا تاکہ وہ معلوم کریں کہ وہاں کے لوگ وہی کچھ چاہتے ہیں جس کا اظہار انہوں نے خطوط میں کیا ہے، مسلم بن عقیل مکے سے پہلے مدینے آتے ہیں اور وہاں سے وہ دو اشخاص کو رہنمائی کےلیے ساتھ لیتے ہیں۔ راستے میں ایک شخص تو شدت پیاس اور راستے کی مشکلات کی تاب نہ لا کر فوت ہوجاتا ہے۔ اس سے مسلم بن عقیل کے ارادے میں کچھ تزلزل واقع ہوتا ہے اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے درخواست کرتے ہیں کہ انہیں کوفہ جانے پر مجبور نہ کریں۔ لیکن حضرت حسین ان کی درخواست کو رد کرکے انہیں اپنا سفر جاری رکھنے کی تاکید کرتےہیں۔ بہرحال مسلم بن عقیل کوفہ پہنچ جاتے ہیں اور وہاں لوگوں سے رابطہ کرکے اپنے مشن کا آغاز کرتےہیں۔
ادھر یزید کی طرف سے مقرر گورنر حضرت نعمان بن بشیر کو ان سرگرمیوں کی اطلاع ہوتی ہے تو وہ لوگوں کو تنبیہ کرتے ہیں کہ وہ اس قسم کی سرگرمیوں سے دور رہیں اور امیر المؤمنین یزید کی اطاعت کے دائرے سے نکلنے کی کوشش نہ کریں۔ لیکن ان کے خلاف تادیبی کارروائی کرنے سے انہوں نے گریز کیا، جس سے حامیانِ یزید میں یہ تاثر پیدا ہوا کہ گورنر کی اس نرم پالیسی سے شورش میں اضافہ ہوگا اور اسے روکنا ممکن نہیں ہوگا۔
چنانچہ بعض حضرات نے امر کی اطلاع یزید کو دی کہ اگر وہ اس علاقے کو بدستور اپنے کنٹرول میں رکھنا چاہتا ہے تو اس کا حل سوچے۔ یزید نے مشورے کے بعد کوفے کا انتظام عبیداللہ بن زیاد کو سونپ دیا جو بصرے کا پہلے ہی گورنر تھا اور اسے یہاں سیاسی معاملات سے سختی کے ساتھ نمٹنے کی تاکید کی۔ اب ابن زیاد بیک وقت بصرہ اور کوفہ دونوں شہروں کا حاکم اعلیٰ بن گیا۔
مسلم بن عقیل جب کوفہ آئے، تو ہزاروں لوگوں نے ان کے ہاتھ پر حسین کے لیے بیعت کی اور حضرت حسین کی وہاں آمد کےلیے اپنا اشتیاق ظاہر کیا۔ مسلم بن عقیل نے اس سے یہ تاثر لیا کہ یہاں فضا حضرت حسین کےلیے تیار اور زمین ہموار ہے۔ انہوں نے حضرت حسین کو خط لکھ دیا کہ وہ یہ خط ملتے ہی فوراً کوفے کےلیے روانہ ہوجائیں، یہاں کے لوگ ان کےمشتاق اور منتظر ہیں۔ حضرت حسین یہ خط پڑھ کے مکے سے کوفے کے سفر پر روانہ ہوجاتے ہیں۔ راستے میں کچھ اور لوگ بھی شریک سفر ہوجاتےہیں۔ لیکن صحابہ و تابعین میں سے کوئی بھی آپ کے ساتھ جانے کےلیے تیار نہیں ہوا ، بلکہ ان میں سے جس جس کو بھی آپ کے ارادے اور سفر کا علم ہوا، تو اس نے آپ کو روکا اور اس ارادے اور سفر کو نہایت خطرناک اور اتحاد واتفاق کے خلاف قرار دیا۔ (جیسا کہ اس کی ضروری تفصیل پہلے بیان ہوئی)
جس شخص کے ذمے یہ بات لگائی گئی تھی، اس نے کسی اور شخص کے ذریعے سے مسلم بن عقیل کا یہ پیغام حضرت حسین تک پہنچا دیا۔ راستے میں ملنے والے بعض حضرات نے بھی آپ کو واپس ہوجانے کا مشورہ دیا اور ایک روایت میں ہے کہ قادسیہ سے تین میل پہلے آپ کو حر بن یزید تمیمی نامی شخص ملا (خیال رہے قادسیہ سے کوفے کا فاصلہ تقریباً پچاس میل ہے) اس نے آپ کے سفر کی بابت پوچھا کہ آپ کہاں جارہے ہیں؟ آپ کی وضاحت پراس نے کہا، آپ وہاں نہ جائیں بلکہ لوٹ جائیں ، میں وہیں (کوفہ) سے آرہا ہوں مجھے آپ کےلیے وہاں کسی بھلائی کی امید نہیں ہے۔ادھر کوفے میں جب مسلم بن عقیل کی سرگرمیاں عبیداللہ بن زیاد کے علم میں آئیں تو اس نے سخت اقدامات اختیار کئے اور لوگوں کو ڈرایا دھمکایا، جس کے نتیجے میں مسلم بن عقیل کے گرد جمع ہونے والے لوگ منتشر اور حضرت حسین کا ساتھ دینے سے منکر ہوگئے اور بالآخر مسلم بن عقیل بھی قتل کردیئے گئے۔ قتل سے قبل مسلم بن عقیل کو یہ فکر لاحق ہوئی کہ میرا تو کوفے سے زندہ بچ کر جانا مشکل معلوم ہوتا ہے لیکن حضرت حسین اور ان کے ہمراہیوں کا کیا بنے گا جنہیں میرا خط مل گیا ہوگا اور وہ کوفے کےلیے روانہ ہوگئے ہوں گے ۔ انہوں نے ایک شخص کے ذمے یہ بات لگائی کہ وہ کسی طرح حضرت حسین تک میرا یہ پیغام پہنچا دے کہ وہ ہرگز کوفہ نہ آئیں، اہل کوفہ جھوٹے نکلے ، انہوں نے مجھے بھی دھوکہ دیا ، یہاں حالات اس کے بالکل برعکس ہیں جو میں نے اس سے قبل تحریر کئے تھے اور خط پہنچنے تک شاید میں قتل کردیا جاؤں۔
یہ صورت حال دیکھ کر اور جان کر حضر ت حسین نے تو واپسی کا ارادہ کرلیا، لیکن آپ کے قافلے میں شریک مسلم بن عقیل کے بھائی بولے، اللہ کی قسم! ہم تو واپس نہیں جائیں گے ، بلکہ اپنے بھائی کا انتقام لیں گے یا خود بھی قتل ہوجائیں گے۔ حضرت حسین نے فرمایا، پھر تمہارے بعد میری زندگی بھی بے مزہ ہے اور سفر جاری رکھا۔ تاہم آپ نے ان لوگوں کو ، جو راستے میں آپ کا مقصد سفر معلوم کرکے آپ کے ساتھ ہولئے تھے، جانے کی رخصت دے دی، چنانچہ ایسے سب لوگ قافلے سے علیحدہ ہوگئے اور آپ کے ساتھ صرف وہی لوگ رہ گئے جو ابتدائے سفر یعنی مکے ہی سے آپ کے ساتھ آئے تھے۔