• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

رشید احمد گنگوہی --- وحدت الوجود کا نظریہ / کوئی چیز بھی موجود نہیں بجز حق تعالیٰ کی ذات پاک کے

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,101
ری ایکشن اسکور
1,462
پوائنٹ
344
میری تو سمجھ نہیں آتا کہ آپ ایسا کیوں کرتے ہیں اگر ایک بندہ وحدت الوجود کے عقیدے کا دفاع کر رہا ہے کم از کم اس کو اتنا تو معلوم ہونا چاہیے کہ یہ کس بلا کا نام ہے اسکا معنی مفہوم کیا ہے علما نے اس بارے کیا لکھا ہے جب تردید کرنے والا کوئی جواب نہیں دیتا تب تک آپ کو اس میں حصہ نہیں ڈالنا چاہیے جزاک اللہ
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
میری تو سمجھ نہیں آتا کہ آپ ایسا کیوں کرتے ہیں اگر ایک بندہ وحدت الوجود کے عقیدے کا دفاع کر رہا ہے کم از کم اس کو اتنا تو معلوم ہونا چاہیے کہ یہ کس بلا کا نام ہے اسکا معنی مفہوم کیا ہے علما نے اس بارے کیا لکھا ہے جب تردید کرنے والا کوئی جواب نہیں دیتا تب تک آپ کو اس میں حصہ نہیں ڈالنا چاہیے جزاک اللہ
میں یہ بتا رہا ہوں کہ جو الفاظ ہیں ان سے اور جو ذکر کا طریقہ کار ہے اس سے وحدت الوجود مراد نہیں بلکہ نفی تصور ما سوائے خدا مراد ہے۔
میں نے وحدت الوجود کے عقیدے کا دفاع کب کیا ہے بھائی جان؟
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
میں یہ بتا رہا ہوں کہ جو الفاظ ہیں ان سے اور جو ذکر کا طریقہ کار ہے اس سے وحدت الوجود مراد نہیں بلکہ نفی تصور ما سوائے خدا مراد ہے۔
میں نے وحدت الوجود کے عقیدے کا دفاع کب کیا ہے بھائی جان؟
دفاع نہیں کیا اگرچہ۔ لیکن براءت کا واضح اظہار بھی نہیں کیا ہے۔ اگر واضح الفاظ میں اپنا مؤقف بیان کر دیں تو اچھا رہے گا۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
حضرت مفتی رشید احمد لدهیانوی رح جو بیك وقت تصوف و علم دین دونوں میں كامل تھے (بندہ ذاتی طور پر شرف ملاقات رکھتا ہے) اس بارے میں احسن الفتاوی ج1 ص553 پر فرماتے ہیں جس کا خلاصہ ہے:۔
صوفیائے کرام "ہمہ او ست" جو کہتے ہیں کہ سب کچھ اسی اللہ کی ذات ہے اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ جہاں میں ہر چیز اللہ کی ذات سے ہی متحد ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اللہ کی ذات کامل ہے اور اس کے علاوہ سب کالعدم ہیں یعنی نہ ہونے کے برابر ہیں۔ یہ اس طرح ہے جیسا کہ کسی علامہ کے سامنے معمولی تعلیم یافتہ شخص کو کہا جاتا ہے یہ کچھ بھی نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ دونوں کا وجود ایک ہے بلکہ مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس علامہ کے سامنے اس کا وجود نہ ہونے کے برابر ہے۔
صوفیاء کی اصطلاح میں عینیت کا مطلب احتیاج ہے یعنی ہر چیز باری تعالی کی محتاج ہے نہ کہ ہر چیز اللہ تعالی کی ہی ذات میں موجود ہے۔
آگے فرماتے ہیں کہ جاہل صوفیاء کے فتنہ کے خوف کی وجہ سے اہل ارشاد نے اس کا نام وحدۃ الشہود رکھ دیا ہے تا کہ غلط معنی کا وہم نہ آئے۔
یہ ان کی بات کا خلاصہ ہے۔ اگر کہیں تو اسکین لگا دوں۔

مزید ایک چیز کی طرف توجہ دلانی ہے کہ ہر انسان کے اکثر اوقات ایسے اقوال ہوتے ہیں جن کا ظاہری مطلب کچھ اور نکل رہا ہوتا ہے اور حقیقی مطلب کچھ اور ہوتا ہے۔ کیفیت اور اوقات یا حالات کے بدلنے سے الفاظ اور انداز تبدیل ہو جاتا ہے۔
الباکستانی بھائی نے جو حوالہ دیا ہے اسے غور سے پڑھیں اور کاتب کی کیفیت دیکھیں۔ شروع سے عاجزی اور انکساری کی کیفیت ہے اور آخر میں کہتے ہیں کہ میں کچھ نہیں ہوں جو میں ہوں وہ تو ہے اور میں اور تو خود شرک در شرک ہے۔
ایک تو اوپر بیان کردہ تفصیل کی رو سے اس کا مطلب خود کو کالعدم اور اللہ کی ذات کو ہی باقی و لافانی قرار دینا ہے۔
دوسرا یہاں کیفیت بھی یہی بتا رہی ہے۔ اس سے اوپر کے تمام الفاظ پڑھتے جائیے کیا کہیں بھی اپنے کسی فعل کی نسبت اللہ کی جانب کی ہے؟ اگر وحدۃ الوجود اس معنی میں کہ سب کچھ اللہ کی ہی ذات ہےحضرت کی مراد ہوتا تو اوپر تمام افعال کی نسبت اللہ کی جانب ہوتی۔
پھر مزید اس انداز سے کہا ہے "میں کیا ہوں کچھ نہیں ہوں" اور یہ انداز ابھی تک خود کو حقیر اور مخاطب کو عظیم ظاہر کرنے کے لیے مستعمل ہے۔ آج بھی جب کسی کی تعریف کی جاتی ہے تو کہا جاتا ہے "اجی ہماری کیا حیثیت جو کچھ ہیں آپ ہی ہیں"۔ عموما افسران بالا کی خوشامد کے لیے یا پھر مزاحا یہ الفاظ ابھی بھی مستعمل ہیں۔
لہذا اس قسم کے الفاظ کو جب دیکھیں تو لازمی ہے کہ مکمل باریک بینی اور غور کیا جائے ورنہ یہ ہوگا کہ ہم کسی شخص پر الزام لگا بیٹھیں گے جب کہ وہ اس کا مستحق نہیں ہوگا۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
یہ جواب لکھ کر فارغ ہوا تھا کہ صحیح بخاری کی ایک حدیث قدسی نظر میں آئی
وما يزال عبدي يتقرب إلي بالنوافل حتى أحبه، فإذا أحببته: كنت سمعه الذي يسمع به، وبصره الذي يبصر به، ويده التي يبطش بها، ورجله التي يمشي بها،
"اور میرا بندہ مستقل نوافل کے ذریعے مجھ سے قربت اختیار کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں۔ سو جب میں اس سے محبت کرتا ہوں تو میں اس کا وہ کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے اور وہ آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے اور وہ ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے اور وہ پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے۔"

اس حدیث مبارکہ کی تشریح میں مختلف اقوال لیے گئے ہیں جیسا کہ اس سے مراد ہے کہ اللہ پاک اس بندے کی حفاظت فرماتا ہے یا اللہ پاک اس کے ان اعضاء کو اپنی مرضیات میں ہی استعمال کرتا ہے وغیرہ وغیرہ
اور علامہ انور شاہ کشمیری رح نے اسے تجلی باری تعالی پر محمول کیا ہے اور یہ حقیقی الفاظ سے قریب تر ہے۔
لیکن یہ سب افراد کے اقوال ہیں۔ حافظ ابن حجر رح نے تو اس روایت کے رواۃ کو ضعیف بھی ثابت کیا ہے۔
عقیدہ وحدۃ الوجود (بطلان المعانی) کے ماننے والوں نے اس کے ظاہری الفاظ سے دلیل پکڑی ہے۔ (اب اگر کوئی کہے کہ میاں اس میں تم تو تاویلیں کرتے ہو اور ہم حدیث کے الفاظ سے استدلال کرتے ہیں۔ اللہ کے نبی نے یہ کہا ہے اور اللہ سے روایت کی ہے (یہ حدیث قدسی ہے) تو کیا جواب ہوگا؟)

اس سے عقیدہ وحدت الوجود غلط معنی میں تو ثابت نہیں ہوتا البتہ فنائے ذات ضرور ثابت ہوتا ہے کہ انسان کی ذات تو الگ اور جدا ہوتی ہے لیکن اللہ پاک اسے اپنی مرضی کے اتنا تابع کر دیتا ہے اور اس کی اس طرح حفاظت کرتا ہے اور اس میں اتقوا فراست المومن فانہ ینظر بنور اللہ کے موافق ایسی صفات پیدا فرماتا ہے کہ اس کی نسبت ہی اپنی جانب کر دی ہے گویا کہ ذات باری تعالی انسان کے وہ اعضاء بن گئی ہے۔
اسی طرح صوفیاء کرام ہر چیز کو اگر چہ اپنی جگہ موجود مانتے ہیں لیکن اللہ کی ذات کو وہ حیثیت دیتے ہیں کہ گویا اس کے سامنے کوئی شے بھی موجود نہیں ہے۔
صوفیاء کے اس انداز کلام اور معنی کو ذہن میں رکھتے ہوئے جب ہم ان کے اقوال کا تتبع کریں گے تو بہت سے اشکالات اور غلط فہمیاں رفع ہو جائیں گی ان شاء اللہ۔ اور اگر کہیں مشکل ہو تو بجائے فتوی کفر لگانے اور برا کہنے کے فاسئلوا اہل الذکر ان کنتم لا تعلمون پر عمل کرنا مناسب ہے۔
واللہ اعلم
 
شمولیت
ستمبر 06، 2013
پیغامات
44
ری ایکشن اسکور
47
پوائنٹ
20
حضرت مفتی رشید احمد لدهیانوی رح جو بیك وقت تصوف و علم دین دونوں میں كامل تھے (بندہ ذاتی طور پر شرف ملاقات رکھتا ہے) اس بارے میں احسن الفتاوی ج1 ص553 پر فرماتے ہیں جس کا خلاصہ ہے:۔
صوفیائے کرام "ہمہ او ست" جو کہتے ہیں کہ سب کچھ اسی اللہ کی ذات ہے اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ جہاں میں ہر چیز اللہ کی ذات سے ہی متحد ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اللہ کی ذات کامل ہے اور اس کے علاوہ سب کالعدم ہیں یعنی نہ ہونے کے برابر ہیں۔ یہ اس طرح ہے جیسا کہ کسی علامہ کے سامنے معمولی تعلیم یافتہ شخص کو کہا جاتا ہے یہ کچھ بھی نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ دونوں کا وجود ایک ہے بلکہ مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس علامہ کے سامنے اس کا وجود نہ ہونے کے برابر ہے۔
صوفیاء کی اصطلاح میں عینیت کا مطلب احتیاج ہے یعنی ہر چیز باری تعالی کی محتاج ہے نہ کہ ہر چیز اللہ تعالی کی ہی ذات میں موجود ہے۔
آگے فرماتے ہیں کہ جاہل صوفیاء کے فتنہ کے خوف کی وجہ سے اہل ارشاد نے اس کا نام وحدۃ الشہود رکھ دیا ہے تا کہ غلط معنی کا وہم نہ آئے۔
یہ ان کی بات کا خلاصہ ہے۔ اگر کہیں تو اسکین لگا دوں۔
صوفیاء کے دو گروھوں کے مختلف خیالات:









/quote]
الباکستانی بھائی نے جو حوالہ دیا ہے اسے غور سے پڑھیں اور کاتب کی کیفیت دیکھیں۔ شروع سے عاجزی اور انکساری کی کیفیت ہے اور آخر میں کہتے ہیں کہ میں کچھ نہیں ہوں جو میں ہوں وہ تو ہے اور میں اور تو خود شرک در شرک ہے۔
ایک تو اوپر بیان کردہ تفصیل کی رو سے اس کا مطلب خود کو کالعدم اور اللہ کی ذات کو ہی باقی و لافانی قرار دینا ہے۔
دوسرا یہاں کیفیت بھی یہی بتا رہی ہے۔ اس سے اوپر کے تمام الفاظ پڑھتے جائیے کیا کہیں بھی اپنے کسی فعل کی نسبت اللہ کی جانب کی ہے؟ اگر وحدۃ الوجود اس معنی میں کہ سب کچھ اللہ کی ہی ذات ہےحضرت کی مراد ہوتا تو اوپر تمام افعال کی نسبت اللہ کی جانب ہوتی۔
پھر مزید اس انداز سے کہا ہے "میں کیا ہوں کچھ نہیں ہوں" اور یہ انداز ابھی تک خود کو حقیر اور مخاطب کو عظیم ظاہر کرنے کے لیے مستعمل ہے۔ آج بھی جب کسی کی تعریف کی جاتی ہے تو کہا جاتا ہے "اجی ہماری کیا حیثیت جو کچھ ہیں آپ ہی ہیں"۔ عموما افسران بالا کی خوشامد کے لیے یا پھر مزاحا یہ الفاظ ابھی بھی مستعمل ہیں۔
مناسب ہوتا کہ نوکر یہی کہتا کہ "اجی ہماری کیا حیثیت جو کچھ ہیں آپ ہی ہیں" وہ تو یہ کہہ گیا کہ "جو ہم ہیں وہ آپ ہیں"- پھر فنائیت کے اظہار پر مزید "شرک در شرک" قرآن و سنت سے ثابت زھد، سلوک یا تصوف کے کس اصول کے تحت کہا گیا- پھر یہ حالت سکر ہو یہ بھی مشکل ہے کیونکہ یہ ایک خط ہے-

بھائی تاویل تو کرنی پڑیگی مگر ایسی بات کہنی بہت غلط ہے-
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
صوفیاء کے دو گروھوں کے مختلف خیالات:
ایک گروہ کو جاہلین میں شمار کیا جاتا ہے اور اسی لیے اس کا نام وحدۃ الشہود رکھا گیا ہے تا کہ دوسرے گروہ کے عقائد کا وہم نہ آئے۔

مناسب ہوتا کہ نوکر یہی کہتا کہ "اجی ہماری کیا حیثیت جو کچھ ہیں آپ ہی ہیں" وہ تو یہ کہہ گیا کہ "جو ہم ہیں وہ آپ ہیں"-
تاویل سے قطع نظر یہ حضرت مجدد رح کے بعد کے ہیں اور عقائد سے بخوبی واقف بھی۔ اب آپ میری بیان کردہ عقیدہ وحدت کی تفصیل پڑھئیے اور پھر اوپر کے تمام الفاظ بھی دیکھیے۔

پھر فنائیت کے اظہار پر مزید "شرک در شرک" قرآن و سنت سے ثابت زھد، سلوک یا تصوف کے کس اصول کے تحت کہا گیا-
اس کا سیدھا سا مطلب یہ ہے کہ آپ کے سامنے کچھ بھی نہیں ہوں اور میں اور تو کہنا یعنی خود کو کوئی حیثیت والا سمجھنا اللہ کے سامنے شرک در شرک ہے۔
یہاں ایک بات یاد رکھیے گا کہ میں تاویل نہیں کر رہا بلکہ ان الفاظ کی وضاحت کر رہا ہوں۔ اس لیے کہ گنگوہی رح اور نانوتوی رح دونوں سے ایسا عقیدہ ہم تک نہیں آیا حالاں کہ اگر ایسا عقیدہ ان کا ہوتا تو کتابۃ یا نقلا آ ہی جاتا۔ خود میں سلسلہائے تصوف سے منسلک ہوں۔ صرف محتمل الفاظ سے کسی پر یہ حکم لگانا کہ اس کا فلاں عقیدہ تھا گمراہی ہے۔

پھر یہ حالت سکر ہو یہ بھی مشکل ہے کیونکہ یہ ایک خط ہے-
انداز اظہار عجز اور حالت اظہار عجز اور حالت سکر میں فرق ہے میرے بھائی۔
 
شمولیت
ستمبر 06، 2013
پیغامات
44
ری ایکشن اسکور
47
پوائنٹ
20
ایک گروہ کو جاہلین میں شمار کیا جاتا ہے اور اسی لیے اس کا نام وحدۃ الشہود رکھا گیا ہے تا کہ دوسرے گروہ کے عقائد کا وہم نہ آئے۔


جاھلین کون ؟ ابن عربی اور بقول ابوالحسن علی ندوی مجدد رحمہ اللہ کے زمانے کے بیشتر ھندوستانی صوفیاء ؟

مجدد نے تو ان صوفیاء کی نظریاتی تردید کی ہے-

تاویل سے قطع نظر یہ حضرت مجدد رح کے بعد کے ہیں اور عقائد سے بخوبی واقف بھی۔ اب آپ میری بیان کردہ عقیدہ وحدت کی تفصیل پڑھئیے اور پھر اوپر کے تمام الفاظ بھی دیکھیے۔


گنگوھی رح کے مرشد جنھیں انہوں نے مندرجہ بالا خط لکھا ان کے نظریات ملاحظہ فرمائیں:




اس کا سیدھا سا مطلب یہ ہے کہ آپ کے سامنے کچھ بھی نہیں ہوں اور میں اور تو کہنا یعنی خود کو کوئی حیثیت والا سمجھنا اللہ کے سامنے شرک در شرک ہے۔


انداز اظہار عجز اور حالت اظہار عجز اور حالت سکر میں فرق ہے میرے بھائی۔
اشماریہ بھائی امداد اللہ نے عارف کے عجز و انکساری کے باوجود اسے:
  1. باطن میں خدا
  2. عالم پر متصرف
  3. ذی اختیار
  4. خدا کی جس تجلی کو چاہے اپنے اوپر کرنے والا
  5. جس صفت سے چاہے متصف ہوکر اس کا اثر ظاہر کرنے والا
  6. خدا کے اوصاف کا اس میں پایا جانا
  7. نور علی نور ہوجانے والا

کہا ہے- یہ کوئی کرامت نہیں ہوسکتی-
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
جاھلین کون ؟ ابن عربی اور بقول ابوالحسن علی ندوی مجدد رحمہ اللہ کے زمانے کے بیشتر ھندوستانی صوفیاء ؟

مجدد نے تو ان صوفیاء کی نظریاتی تردید کی ہے-


ثانی الذکر۔


اشماریہ بھائی امداد اللہ نے عارف کے عجز و انکساری کے باوجود اسے:
باطن میں خدا
عالم پر متصرف
ذی اختیار
خدا کی جس تجلی کو چاہے اپنے اوپر کرنے والا
جس صفت سے چاہے متصف ہوکر اس کا اثر ظاہر کرنے والا
خدا کے اوصاف کا اس میں پایا جانا
نور علی نور ہوجانے والا
کہا ہے- یہ کوئی کرامت نہیں ہوسکتی-


جن الفاظ کو ہائی لائٹ کیا ہے ان سے متفق ہوں۔
اس پر تحقیق ہونی چاہیے۔ اطلاع کے لیے جزاک اللہ خیرا
 
Top