• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

رمضان المبارک اور گناہوں کی مغفرت کے مواقع

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,400
ری ایکشن اسکور
463
پوائنٹ
209
رمضان المبارک اور گناہوں کی مغفرت کے مواقع
تحریر: مقبول احمد سلفی


رمضان سراپا بخشش ومغفرت کامہینہ ہے ، اس میں ہر قسم کی خیروبرکت کی انتہاء ہے ۔بلاشبہ یہ ماہ مبارک صیام وقیام پہ اجرجزیل اور گناہوں کی مغفرت کے ساتھ اپنے اندر نیکیوں پہ بے حدوحساب اجروثواب رکھتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اسلاف کرام چھ مہینے پہلے سے ہی رمضان پانے کی رب سے دعائیں کرتے ، جب رمضان پالیتے تو اس میں اجتہاد کرتے، ہر قسم کی طاعت وبھلائی پر ذوق وشوق اور اللہ سے اجر کی امید کرتے ہوئے محنت کرتے ۔ جب رمضان گزرجاتا تو بقیہ چھ مہینے رمضان میں کئے گئے اعمال صالحہ کی قبولیت کے لئے دعا کرتے ۔گویا سلف صالحین کا پورا سال رمضان کی خوشبوؤں سے معطر رہتا ۔ آج ہم ہیں کہ نہ رمضان کی عظمت کا احساس ، نہ اس کی خیروبرکات سے سروکار ہےحتی کہ اپنے گناہوں کی مغفرت کا بھی خیال دل میں نہیں گزرتاجبکہ رمضان پاکر اس میں مغفرت نہ پانے والا نہایت ہی بدنصیب ہے ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے :
شقِيَ عبدٌ أدركَ رمضانَ فانسلخَ منهُ ولَم يُغْفَرْ لهُ(صحيح الأدب المفرد:500)
ترجمہ: بدبخت ہے وہ جس نے رمضان پایا اوریہ مہینہ اس سے نکل گیا اور وہ اس میں( نیک اعمال کرکے) اپنی بخشش نہ کرواسکا۔
الفاظ کے اختلاف کے ساتھ اس معنی کی کئی صحیح احادیث وارد ہیں جن سےرمضان المبارک میں محروم ہونے والوں کی محرومی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔
ایک جگہ ہے :رَغِمَ أنفُ امرئٍ أدرك رمضانَ فلم يُغْفَرْ له(فضل الصلاۃ للالبانی:15، صحیح بشواھدہ)
ترجمہ: اس شخص کی ناک خاک آلود ہو جس نے رمضان پایا اور اس کی بخشش نہ ہوئی۔
دوسری جگہ ارشاد ہے:بَعُدَ من أدرك رمضانَ فلم يُغْفَرْ له(صحيح الترغيب:1677)
ترجمہ: دوری ہو اس کے لئے جس نے رمضان پایا اور وہ نہیں بخشا گیا۔
تیسری جگہ وارد ہے:منْ أدركَ شهرَ رمضانَ ، فلم يُغفرْ له ، فدخلَ النارَ ؛ فأَبعدهُ اللهُ(صحيح الترغيب:1679)
ترجمہ: جس نے رمضان کا مہینہ پایا ، اس کی مغفرت نہ ہوئی اور وہ جہنم میں داخل ہوا اسے اللہ دور کرے گا ۔
چوتھی جگہ مذکور ہے:مَن أدرك شهرَ رمضانَ فماتَ فلم يُغْفَرْ لهُ فأُدْخِلَ النَّارَ فأبعدَه اللهُ(صحيح الجامع:75)
ترجمہ: جس نے رمضان کا مہینہ پایا ، مرگیا ، اس کی مغفرت نہیں ہوئی اور وہ جہنم میں داخل کردیا گیا اسے اللہ اپنی رحمت سے دور کردے گا۔
کہیں ہم کلمہ گوہوکر رمضان کے روزوں کا انکار کرکے اللہ کی رحمت سے دور نہ ہو جائیں ،اس کے لئے روزوں کی عظمت اپنے دل میں بحال کرنی ہوگی ، رمضان نصیب ہونے پر رب کا شکریہ بجالانا ہوگا اور اس ماہ مبارک کو غنیمت جانتے ہوئے گناہوں کی مغفرت کے واسطے نمازوروزہ ،صدقہ وخیرات ،ذکر الہی، قیام وسجود اور عمل صالح کرکے رب کو راضی کرنا ہوگا اور اس سے اس بات کی توفیق طلب کرنی ہوگی کہ وہ ہمیں اپنے فضل وکرم سے جنت میں داخل کردے۔
بلاشبہ بنی آدم گناہگار ہے لیکن ہمیں رب کی رحمت ومغفرت سے کبھی بھی مایوس نہیں ہونا چاہئے، اللہ اپنے بندوں کی نیکیوں کے بدلے گناہ معاف کرتا ہے ، توبہ قبول کرتا ہے اور درجات بلند کرکے کامیابیوں سے دامن بھر دیتا ہے ۔ یاد رہے مغفرت کے لئے ہمارا عقیدہ درست ہونا چاہئے، ہم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک وساجھی نہ ٹھہرائیں ورنہ پھر نہ عبادت کام آئےگی اور نہ رمضان کے قیام وصیام کام آئیں گے ۔ رب کا فرمان ہے :
إِنَّ اللَّهَ لَا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَنْ يَشَاءُ(النساء: 48)
ترجمہ: بےشک اللہ اس (گناہ)کو نہیں بخشے گاکہ (کسی کو)اس کا شریک ٹھہرایا جائے اور اس کے علاوہ دوسرے گناہ جسے چاہے معاف کردے گا۔
اگر مسلمان کا عقیدہ درست ہے تو اس کے سارے اعمال اللہ کے یہاں مقبول ہیں ،اسے اللہ بخش دیتا ہے ۔ فرمان الہی ہے :
إِلَّا الَّذِينَ صَبَرُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ أُولَئِكَ لَهُمْ مَغْفِرَةٌ وَأَجْرٌ كَبِيرٌ (هود: 11)
ترجمہ: سوائے ان کے جو صبر کرتے ہیں اور نیک کاموں میں لگے رہتے ہیں ، انہیں لوگوں کے لئے بخشش بھی ہے اور بہت بڑا نیک بدلہ بھی ۔
اس مضمون میں اختصار کے ساتھ ہم رمضان المبارک میں اللہ کی جانب سے بخشش کے سنہرے مواقع کا ذکر کریں گے اوربخوف طوالت ان مواقع سے صرف نظر کریں گے جو عام دنوں میں بخشش کے باعث ہیں گوکہ وہ بھی رمضان میں بھی شامل ہیں الا یہ کہ کسی خاص موقع ومناسبت سے ہو۔

آئیے ان اعمال ومواقع کا ذکر کرتے ہیں جو رمضان میں مغفرت کا سبب ہیں ۔
پہلا موقع :
رمضان پانااور گناہ کبیرہ سے بچتے رہنا: عموما لوگ رمضان پانے کو خاص اہمیت نہیں دیتے ، یوں سمجھاجاتا ہے کہ ماہ وسال کی گردش سے رمضان آگیاحالانکہ اس مہینے کا پانا بڑی سعادت کی بات ہے ، جس کی قسمت میں رمضان نہ ہو وہ کبھی اسے نہیں پاسکتالہذا ہمیں اس ماہ کی حصولیابی پر بیحد رب کا شکریہ بجالانا چاہئے اور اس کی عظمت کا خیال کرتے ہوئے اس کے آداب وتقاضے کو نبھانا چاہئے اور جوبندہ نماز قائم کرتا رہا اور گناہ کبیرہ سے بچتا رہا اس کے لئے اس ماہ مقدس میں سال بھرکے گناہوں کی بخشش کا وعدہ ہے ۔نبی ﷺ کا فرمان ہے :
الصَّلواتُ الخمسُ والجمُعةُ إلى الجمعةِ ورمضانُ إلى رمضانَ مُكفِّراتٌ ما بينَهنَّ إذا اجتنَبَ الْكبائرَ(صحيح مسلم:233)
ترجمہ: پانچوں نمازیں ، ہر جمعہ دوسرے جمعہ تک اور رمضان دوسرے رمضان تک ، درمیانی مدت کے گناہوں معاف کردئے جاتے ہیں بشرطیکہ کبیرہ گناہوں سے اجتناب کیا جائے۔

دوسرا موقع: ایمان کے ساتھ اجروثواب کی امید سے روزہ رکھناگزشتہ تمام خطاؤں کی بخشش کا ذریعہ ہے۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے :
مَن صامَ رمضانَ إيمانًا واحتسابًا ، غُفِرَ لَهُ ما تقدَّمَ من ذنبِهِ (صحيح البخاري:2014)
ترجمہ: جس نے رمضان کا روزہ ایمان کے ساتھ ،اجر وثواب کی امید کرتے ہوئے رکھا اسکے گزشتہ سارے گناہ معاف کردئے جاتے ہیں۔
ایک حدیث میں روزہ ، نمازاور صدقہ کو فتنے سے نجات اور گناہوں کا کفارہ بتلایا گیا ہے ،نبیﷺ کا فرمان ہے :
فِتنَةُ الرجلِ في أهلِه ومالِه وجارِه، تُكَفِّرُها الصلاةُ والصيامُ والصَدَقَةُ(صحيح البخاري:1895)
ترجمہ: انسان کے لیے اس کے بال بچے، اس کا مال اور اس کے پڑوسی باعث آزمائش ہیں جس کاکفارہ نماز پڑھنا ،روزہ رکھنا اور صدقہ دینا بن جاتا ہے۔

تیسرا موقع: رمضان میں قیام کرنا غیررمضان میں قیام کرنے سے افضل ہے اور اس کا ثواب روزے کے مثل ہے اگر ایمان واحتساب کے ساتھ کیا جائے ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے : من قام رمضانَ إيمانًا واحتسابًا ، غُفِرَ له ما تقدَّم من ذنبِه( صحيح مسلم:759)
ترجمہ: جو رمضان میں ایمان اور اجر کی امید کے ساتھ قیام کرتا ہے اس کے سارے گناہ معاف کردئے جاتے ہیں ۔

چوتھا موقع: رمضان المبارک کی راتوں میں قیام کی فضیلت آخری عشرے میں بڑھ جاتی ہے کیونکہ اس میں لیلۃ القدر(شب قدر) ہے، نبی ﷺ اس عشرے میں شب بیداری کرتے اور خوب خوب اجتہاد کرتے ۔ شب قدر میں قیام کی فضیلت بیان کرتے ہوئے نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
مَن قام ليلةَ القدرِ إيمانًا واحتسابًا، غُفِرَ له ما تقدَّمَ من ذنبِه(صحيح البخاري:1901)
ترجمہ: جو شب قدر میں ایمان و خالص نیت کے ساتھ قیام کرتا ہے اس کے سابقہ گناہ معاف کردئے جاتے ہیں ۔

پانچواں موقع: افطار کے وقت اللہ بندوں کو آزاد کرتا ہے اس وجہ سے بطور خاص افطار کے وقت روزے کی قبولیت، گناہوں کی مغفرت، بلندی درجات ، جہنم سے رستگاری اور جنت میں دخول دعا کی جائے ۔ "للہ عند کل فطرعتقاء " (رواہ احمد وقال الالبانی ؒ : حسن صحیح )
ترجمہ : اللہ تعالی ہرافطار کے وقت (روزہ داروں کوجہنم سے ) آزادی دیتاہے ۔
ترمذی اور ابن ماجہ کی ایک روایت جسے علامہ البانی ؒ نے حسن قرار دیاہے اس میں مذکور ہے کہ ہررات اللہ تعالی اپنے بندوں کو جہنم سے آزادی دیتا ہے ۔
روایت اس طرح ہے : إنَّ للَّهِ عندَ كلِّ فِطرٍ عتقاءَ وذلِك في كلِّ ليلةٍ ( صحيح ابن ماجه:1340)
ترجمہ: اللہ تعالی ہرافطار کے وقت (روزہ داروں کوجہنم سے ) آزادی دیتاہے، یہ آزادی ہررات ملتی ہے۔

چھٹواں موقع: مومن کو رمضان کےدن میں روزہ رکھنا چاہئے،بحالت روزہ بکثرت اعمال صالحہ انجام دینا چاہئے اوراس کی ہر رات میں شب بیداری کرکے قیام،دعا، استغفار اور اذکار میں مصروف رہنا چاہئے کیونکہ ہررات اللہ تعالی کی جانب سے خیر کے طالب کو ندا لگائی جاتی اور جہنم سے رستگاری کی بشارت سنائی جاتی ہے ۔ ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
إذا كانَ أوَّلُ ليلةٍ من شَهْرِ رمضانَ : صُفِّدَتِ الشَّياطينُ ومرَدةُ الجنِّ ، وغُلِّقَت أبوابُ النَّارِ فلم يُفتَحْ منها بابٌ ، وفُتِّحَت أبوابُ الجنَّةِ فلم يُغلَقْ منها بابٌ ، ويُنادي مُنادٍ يا باغيَ الخيرِ أقبِلْ ، ويا باغيَ الشَّرِّ أقصِرْ وللَّهِ عُتقاءُ منَ النَّارِ ، وذلكَ كلُّ لَيلةٍ(صحيح الترمذي:682)
ترجمہ: جب ماہ رمضان کی پہلی رات آتی ہے، تو شیطان اورسرکش جن جکڑدیئے جاتے ہیں،جہنم کے دروازے بند کردیئے جاتے ہیں، ان میں سے کوئی بھی دروازہ کھولا نہیں جاتا۔اورجنت کے دروازے کھول دئے جاتے ہیں ، ان میں سے کوئی بھی دروازہ بندنہیں کیاجاتا، پکارنے والا پکارتاہے: خیر کے طلب گار!آگے بڑھ ، اور شرکے طلب گار! رُک جا اور آگ سے اللہ کے بہت سے آزادکئے ہوئے بندے ہیں (توہوسکتاہے کہ تو بھی انہیں میں سے ہو) اور ایسا(رمضان کی) ہررات کو ہوتا ہے۔

ساتواں موقع: صدقہ گناہوں کی مغفرت کا اہم ذریعہ ہے ، نبی ﷺکا فرمان ہے : والصَّدَقةُ تُطفي الخطيئةَ كما يُطفئُ الماءُ النَّارَ(صحيح الترمذي:2616)
ترجمہ: صدقہ گناہ کوایسے بجھا دیتا ہے جس طرح پانی آگ کو بجھاتا ہے۔
اس لئے نبی ﷺ رمضان میں خیر اور سخاوت کے کام تیز ہوا سے بھی زیادہ کرتے البتہ وہ روایت جس میں افضل صدقہ رمضان کاصدقہ بتلایا گیا ہے ضعیف ہے۔

رمضان میں مغفرت سے متعلق بعض روایات
پہلی روایت :
رمضان میں بخشش سے متعلق ایک بہت ہی مشہور حدیث ہے جو تقریبا رمضان میں نشر ہونے والے اکثر رسالے، کلینڈر اور پمفلیٹ وغیرہ میں لکھی ہے وہ اس طرح سے ہے :أولُ شهرِ رمضانَ رحمةٌ، وأَوْسَطُهُ مغفرةٌ، وآخِرُهُ عِتْقٌ من النارِ۔(السلسلة الضعيفة:1569)
ترجمہ: اس ماہ كا ابتدائى حصہ رحمت ہے، اور درميانى حصہ بخشش اور آخرى حصہ جہنم سے آزادى كا باعث ہے۔
اس حدیث کو امام نسائی، حافظ ابن حجراور علامہ سیوطی نے ضعیف کہا ہے اور ابوحاتم، علامہ عینی حنفی اور علامہ البانی نے منکر کہا ہے ۔

دوسری روایت : رمضان میں اللہ کا ذکر کرنے والا بخشش دیا جاتا ہے اوراللہ سے مانگنے والامحروم نہیں ہوتا ۔ روایت دیکھیں ۔
ذاكِرُ اللهِ في رمضانَ مغفورٌ له، وسائِلُ اللهِ فيه لا يَخِيبُ۔
اوپر والا جملہ ترجمہ ہے۔ اس روایت کو علامہ البانی نے موضوع کہا ہے ۔ (السلسلة الضعيفة:3621)

تیسری روایت : اسی طرح مندرجہ ذیل روایت بھی ضعیف ہے ۔
يَغْفِرُ لأمتِهِ في آخِرِ ليلةٍ في رمضانَ، قيل : يا رسولَ اللهِ ! أَهِيَ ليلةُ القدرِ ؟ ! قال : لا، ولكنَّ العاملَ إنما يُوَفَّى أجرُهُ إذا قَضَى عملَه۔
ترجمہ: رمضان کی آخری رات میں امت معاف کردی جاتی ہے ، کہا گیا اے اللہ کے رسول! کیا یہ قدر کی رات ہے تو آپ نے فرمایا: نہیں ، جب مزدور اپنے کام سے فارغ ہوتا ہے تو اسے پورا اجر دیا جاتا ہے۔
اس روایت کو علامہ البانی نے ضعیف کہا ہے (تخريج مشكاة المصابيح:1909)
اسی روایت میں یہ بھی وارد ہے کہ روزہ داروں کے لئے فرشتے افطار تک استغفار کرتے ہیں ، بعض میں مچھلیوں کے استغفار کا ذکر ہے جوکہ ضعیف ہے ۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ رمضان میں ہر قسم کی نیکی سے گناہ معاف ہوتے ہیں ،اس لئے دعا، نماز، ذکر، توبہ، استغفار، تلاوت، دعوت،صدقہ،زکوۃ وغیرہ ہر قسم کی بھلائی انجام دی جائے ایسا نہیں ہے کہ رمضان میں صرف اوپر مذکور اعمال ہی انجام دئے جانے کے قابل ہیں اور صرف انہیں سے مغفرت ہوتی ہے، یہ تو وہ اعمال واسباب ہیں جن میں خصوصیت کے ساتھ رمضان میں مغفرت کی جاتی ہے ان پہ زیادہ توجہ دی جانی چاہئے ۔
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کی عبادتوں کوقبول فرمائے اور رمضان میں ساری خطاؤں کو بخش کر جنت الفردوس میں داخل کردے ۔ آمین
 

قاری مصطفی راسخ

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 07، 2012
پیغامات
679
ری ایکشن اسکور
743
پوائنٹ
301
رمضان المبارک کی فضیلت و اہمیت

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ (البقرہ، آیت 183)
"اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں جیسے ان پر فرض کیے گئے تھے جو تم سے پہلے تھے تاکہ تم پرہیز گار ہو جاؤ۔"

عربی زبان میں روزے کے لئے صوم کا لفظ استعمال ہوا ہے جس کے معنی رک جانا کے ہیں یعنی انسانی خواہشات اور کھانے پینے سے صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے صبح صادق سے لے کر غروب آفتاب تک رک جاتا ہے اور اپنے جسم کے تمام اعضاءکو برائیوں سے روکے رکھتا ہے۔
رمضان کا لفظ ”رمضا“ سے نکلا ہے اور رمضا اس بارش کو کہتے ہیں جو کہ موسم خریف سے پہلے برس کر زمین کو گردوغبار سے پاک کر دیتی ہے۔ مسلمانوں کے لئے یہ مہینہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے رحمت کی بارش کا ہے جس کے برسنے سے مومنوں کے گناہ دھل جاتے ہیں۔

رمضان المبارک اسلامی تقویم (کیلنڈر) میں وہ بابرکت مہینہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم نازل فرمایا۔ رمضان المبارک کی ہی ایک بابرکت شب آسمانِ دنیا پر پورے قرآن کا نزول ہوا لہٰذا اس رات کو اﷲ رب العزت نے تمام راتوں پر فضیلت عطا فرمائی اور اسے شبِ قدر قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا :
لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَهْرٍo
القدر، 97 : 3
’’شبِ قدر (فضیلت و برکت اور اَجر و ثواب میں) ہزار مہینوں سے بہتر ہےo‘‘

امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
(انہ سمع من یتق بہ۔۔۔۔خیر من الف شہر)
(موطا امام مالک، الاعتکاف، باب ماجاء فی لیلة القدر ۳۲۱/۱ طبع مصر)
’’انہو ں نے بعض معتمد علماء سے یہ بات سنی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ سے پہلے لوگوں کی عمریں دکھلائی گئیں تو آپ کو ایسا محسوس ہوا کہ آپ کی ا مت کی عمریں ان سے کم ہیں اور اس وجہ سے وہ ان لوگوں سے عمل میں پیچھے رہ جائے گی، جن کو لمبی عمریں دی گئیں۔ تو اللہ تعالیٰ نے اس کا ازالہ اس طرح فرما دیا کہ امت محمدیہ کے لیے لیلة القدر عطا فرما دی۔‘‘

رمضان المبارک کی فضیلت و عظمت اور فیوض و برکات کے باب میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چند احادیث مبارکہ درج ذیل ہیں :

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
إِذَا دَخَلَ رَمَضَانُ فُتِّحَتْ أَبْوَابُ الْجَنَّةِ وَغُلِّقَتْ أَبْوَابُ جَهَنَّمَ، وَسُلْسِلَتِ الشَّيَاطِيْنُ.
بخاری، الصحيح، کتاب بدء الخلق، باب صفة إبليس و جنوده، 3 : 1194، رقم : 3103
’’جب ماہ رمضان آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اور شیطانوں کو پابہ زنجیر کر دیا جاتا ہے۔‘‘

رمضان المبارک کے روزوں کو جو امتیازی شرف اور فضیلت حاصل ہے اس کا اندازہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس حدیث مبارک سے لگایا جا سکتا ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
مَنْ صَامَ رَمَضَانَ إِيْمَانًا وَّإِحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّم مِنْ ذَنْبِهِ.
بخاری، الصحيح، کتاب الصلاة التراويح، باب فضل ليلة القدر، 2 : 709، رقم : 1910
’’جو شخص بحالتِ ایمان ثواب کی نیت سے رمضان کے روزے رکھتا ہے اس کے سابقہ گناہ بخش دیے جاتے ہیں۔‘‘
رمضان المبارک کی ایک ایک ساعت اس قدر برکتوں اور سعادتوں کی حامل ہے کہ باقی گیارہ ماہ مل کر بھی اس کی برابری و ہم سری نہیں کر سکتے۔

قیامِ رمضان کی فضیلت سے متعلق حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
مَنْ قَامَ رَمَضَانَ، إِيْمَاناً وَاحْتِسَابًا، غُفِرَلَهُ ما تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ.
بخاری، الصحيح، کتاب الايمان، باب تطوع قيام رمضان من الايمان، 1 : 22، رقم : 37
’’جس نے رمضان میں بحالتِ ایمان ثواب کی نیت سے قیام کیا تو اس کے سابقہ تمام گناہ معاف کر دیے گئے۔‘‘

(الصوم جنۃ یسجن بھا العبد من النار) (صحیح الجامع، ح:۳۸۶۷)
’’روزہ ایک ڈھال ہے جس کے ذریعے سے بندہ جہنم کی آگ سے بچتا ہے۔‘‘

ایک دوسری روایت کے الفاظ اس طرح ہیں:
(الصوم جنة من عذاب الله ) (صحیح الجامع، ح:۳۸۶۶)
’’روزہ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے (بچاؤ کی ) ڈھال ہے۔‘‘

ایک حدیث میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(من صام يوما في سبيل الله، بعد الله وجهه عن النار سبعين خريفا) (صحیح البخاری، الجھاد والسیر ، باب فضل الصوم فی سبیل اللہ، ح:۲۸۴۰ وصحیح مسلم، الصیام، فضل الصیام فی سبیل اللہ۔۔۔ح:۱۱۵۳)
’’جس نے اللہ تعالیٰ کے راستے میں ایک دن روزہ رکھا، تو اللہ تعالیٰ اس کے چہرے کو جہنم سے ستر سال (کی مسافت کے قریب) دور کر دیتا ہے۔‘‘

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(ان فی الجنة بابا یقال لہ۔۔۔۔۔۔۔۔فلم یدخل منہ احد) (صحیح البخاری، الصوم، باب الریان للصائمین، ح:۱۸۹۶ وکتاب بدء الخلق، ح: ۳۲۵۷ وصحیح مسلم، باب فضل الصیام، ح۱۱۵۲)
’’جنت (کے آٹھ دروازوں میں سے) ایک دروازے کا نام ’’ رَیّان‘‘ ہے، جس سے قیامت کے دن صرف روزے دار داخل ہوں گے، ان کے علاوہ اس دروازے سے کوئی داخل نہیں ہوگا، کہا جائے گا روزے دار کہاں ہیں؟ تو وہ کھڑے ہو جائیں گے اور (جنت میں داخل ہوں گے) ان کے علاوہ کوئی اس دروازے سے داخل نہیں ہوگا۔ جب وہ داخل ہو جائیں گے، تو وہ دروازہ بند کر دیا جائے گا اور کوئی اس سے داخل نہیں ہوگا۔‘‘

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(الصیام والقرآن یشفعان۔۔۔۔۔۔ فیشفعان) (صحیح الجامع، بحوالہ مسند احمد، طبرانی کبیر، مستدرک حاکم وشعب الایمان، ح:۳۸۸۲، ۷۲۰/۲)
’’روزہ اور قرآن قیامت کے دن بندے کی سفارش کریں گے۔ روزہ کہے گا : اے میرے رب! میں نے اس بندے کو دن کے وقت کھانے (پینے) سے اور جنسی خواہش پوری کرنے سے روک دیا تھا، پس تو اس کے بارے میں میری سفارش قبول فرما۔ قرآن کہے گا: میں نے اس کو رات کے وقت سونے سے روک دیا تھا، پس تو اس کے بارے میں سفارش قبول فرما۔ چنانچہ ان دونوں کی سفارش قبول کی جائے گی۔‘‘

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(فتنة الرجل فی اھلہ ومالہ۔۔۔۔۔۔والصدقة) (صحیح البخاری، الصوم، باب الصوم کفارة، ح:۱۸۹۵ وصحیح مسلم، الایمان باب رفع الامانة والایمان من بعض القلوب۔۔۔۔ الخ، ح:۱۴۴)
’’آدمی کی آزمائش ہوتی ہے اس کے بال بچوں کے بارے میں، اس کے مال میں اور اس کے پڑوسی کے سلسلے میں۔ ان آزمائشوں کا کفارہ نماز روزہ اور صدقہ ہیں۔‘‘
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:﴿ اِنَّ الْحَسَنٰتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّاٰتِ ﴾ (ھود:۱۱۴)’’نیکیاں برائيوں کو دور کر دیتی ہیں۔‘‘ اس حدیث و آیت سے معلوم ہوا کہ ایک مسلمان کو نماز، روزہ اور صدقہ و خیرات اور دیگر نیکیوں کا اہتمام کرتے رہنا چاہیے، تاکہ یہ نیکیاں اس کی کوتاہیوں اور گناہوں کا کفارہ بنتی رہیں۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(للصائم فرحتان یفرحہما۔۔۔۔۔فرح بصومہ) (صحیح البخاری، الصوم، باب ھل یقول انی صائم اذا شتم، ح:۱۹۰۴، وصحیح مسلم، الصیام، باب فضل الصیام، ح:۱۱۵۱)
’’روزے دار کے لیے دو خوشیاں ہیں جن سے وہ خوش ہوتا ہے۔ ایک جب وہ روزہ کھولتا ہے تو خوش ہوتا ہے اور (دوسری خوشی) جب وہ اپنے رب سے ملے گا تو اپنے روزے سے خوش ہوگا۔‘‘

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(والذی نفس محمد بیدہ!۔۔۔۔۔۔ من ریح المسک) (صحیح البخاری، الصوم، باب ھل یقول: انی صائم اذا شتم، ح:۱۹۰۴ وصحیح مسلم، الصیام، باب فضل الصیام، ح:۱۱۵۱)
’’قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی جان ہے، روزے دار کے منہ کی بدلی ہوئی بو اللہ کے ہاں کستوری کی خوشبو سے زیادہ پاکیزہ ہے۔‘‘

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

(الصیام لی وانا اجزی بہ) (صحیح البخاری، باب فضل الصوم، ح:۱۸۹۴ وصحیح مسلم، باب ورقم مذکور)
’’روزہ میرے لیے ہے اور میں اس کی جزا دوں گا۔‘‘

یعنی دیگر نیکیوں کے لیے تو اللہ تعالیٰ نے یہ ضابطہ بیان فرمایا ہے کہ ﴿الحسنة بعشر امثالھا﴾(حوالہ ہائے مذکورہ) نیکی کم از کم دس گنا اور زیادہ سے زیادہ سات سو گناہ تک ملے گا۔ لیکن روزے کو اللہ تعالیٰ نے اس عام ضابطے اور کلیے سے مستثنیٰ فرما دیا اور یہ فرمایا کہ قیامت والے دن اس کی وہ ایسی خصوصی جزاء عطا فرمائے گا، جس کا علم صرف اسی کو ہے اور وہ عام ضابطوں سے ہٹ کر خصوصی نوعیت کی ہوگی۔

رمضان المبارک کے آخری دس دنوں میں اعتکاف بیٹھنا مسنون ہے۔ حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے :
أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم کَانَ يَعْتَکِفُ الْعَشْرَ الاوَاخِرَ مِنْ رَمَضَانَ.
ابن ماجه، السنن، کتاب الصيام، باب فی المعتکف يلزم مکانًا من المسجد، 2 : 373، رقم : 1773
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف بیٹھا کرتے تھے۔‘‘

اعتکاف بیٹھنے کی فضیلت پر کئی احادیث مبارکہ وارد ہوئی ہیں۔ اِن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں :

حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے معتکف کے بارے میں ارشاد فرمایا : ’’وہ (یعنی معتکف) گناہوں سے کنارہ کش ہو جاتا ہے اور اُسے عملاً نیک اعمال کرنیوالے کی مثل پوری پوری نیکیاں عطا کی جاتی ہیں۔‘‘
ابن ماجه، السنن، کتاب الصيام، باب فی ثواب الاعتکاف، 2 : 376، رقم : 21781

حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اللہ عنہ سے ہی ایک اور حدیث مروی ہے کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
مَنِ اعْتَکَفَ يَوْمًا ابْتغَاءَ وَجْهِ اﷲ جَعَلَ اﷲُ بَيْنَهُ وَ بَيْنَ النَّارِ ثَلَاثَ خَنَادِقَ، کُلُّ خَنْدَقٍ أَبْعَدُ مِمَّا بَيْنَ الْخَافِقَيْنِ.
1.طبرانی، المعجم الاوسط، 7 : 221، رقم : 7326
2. بيهقی، شعب الإيمان، 3 : 425، رقم : 3965
3. هيثمی، مجمع الزوائد، 8 : 192
’’جو شخص اﷲ کی رضا کے لئے ایک دن اعتکاف کرتا ہے، اﷲ تبارک و تعالیٰ اس کے اور دوزخ کے درمیان تین خندقوں کا فاصلہ کردیتا ہے۔ ہر خندق مشرق سے مغرب کے درمیانی فاصلے سے زیادہ لمبی ہے۔‘‘

حضرت علی (زین العابدین) بن حسین اپنے والد امام حسین رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
مَنِ اعْتَکَفَ عَشْرًا فِی رَمَضَانَ کَانَ کَحَجَّتَيْنِ وَ عُمْرَتَيْنِ.
بيهقی، شعب الإيمان، باب الاعتکاف، 3 : 425، رقم : 3966
’’جس شخص نے رمضان المبارک میں دس دن کا اعتکاف کیا، اس کا ثواب دو حج اور دو عمرہ کے برابر ہے۔‘‘

خوش قسمت ہیں وہ مسلمان جن کی زندگی میں یہ مہینہ آیا اور وہ اللہ تعالیٰ کی رحمتیں حاصل کرنے میں اپنی تمام تر توانائیاں صرف کر رہے ہیں۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔
 
Top