• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

رمضان المبارک میں کرنے والے کام

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
آخری عشرے میں نبیﷺ کا معمول

یہ بات واضح ہے کہ رمضان کے آخری عشرے میں ہی اعتکاف کیا جاتا ہے اور اسی عشرے کی طاق راتوں میں سے ایک رات لیلۃ القدربھی ہے، جس کی تلاش و جستجو میں ان راتوں کو قیام کرنے اور ذکر و عبادت میں رات گزارنے کی تاکید ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نبیﷺ اس عشرۂ اخیر میں عبادت کے لئے خود بھی کمر کس لیتے اور اپنے گھروالوں کو بھی حکم دیتے۔ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں:
’’إذا دخل العشرُ أحیا اللیل وأیقظ أھلہ وجد وشد المئزر‘‘ (صحیح مسلم، الصیام، الإعتکاف، باب الإجتہاد فی العشر الأواخر من رمضان رقم: ۱۱۷۴)
’’رسول اللہﷺ کامعمول تھا کہ جب رمضان کا آخری عشرہ شروع ہوتا تو رات کا بیشتر حصہ جاگ کر گزارتے اور اپنے گھر والوں کو بھی بیدار کرتے اور (عبادت میں) خوب محنت کرتے اور کمر کس لیتے‘‘
ایک دوسری روایت میں حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں:
’’کان رسول اللہﷺ یجتھد فی العشر الأواخر مالا یجتھد فی غیرہ‘‘ (حوالہ مذکور)
’’رسول اللہﷺ آخری عشرے میں جتنی محنت کرتے تھے، اور دنوں میں اتنی محنت نہیںکرتے تھے‘‘
اس محنت اور کوشش سے مراد، ذکر و عبادت کی محنت اور کوشش ہے۔ اس لئے ہمیں بھی ان آخری دس دنوں میں اللہ کو راضی کرنے کیلئے ذکر و عبادت اور توبہ و استغفار کا خوب خوب اہتمام کرنا چاہئے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
رمضان المبارک میں عمرہ کرنا

رمضان المبارک میں عمرہ کرنے کی بھی بڑی فضیلت ہے۔ نبیﷺ نے ایک عورت سے فرمایا:
’’فإذا کان رمضان اعتمری فیہ فإن عمرة فی رمضان حجة‘‘ (صحیح بخاری، الحج، کتاب العمرۃ باب عمرۃ فی رمضان، رقم: ۱۷۸۲)
اور بخاری کی دوسری روایت میں یہ الفاظ ہیں:
’’حجة مَعِی‘‘ (بخاری، فضائل المدینۃ رقم: ۱۸۲۶۳)
اس مقام پر اس عورت کا نام بھی اُمّ سنان انصاریہ بیان کیا گیا ہے۔ آپؐ نے اس سے فرمایا:
’’جب رمضان آئے تو اس میں عمرہ کرنا، اس لئے کہ رمضان میں عمرہ کرنا، حج کے یا میرے ساتھ حج کرنے کے برابر ہے‘‘
نبی ﷺ کا ایک معمول یہ بھی تھا کہ آپﷺ اکثر فجر کی نماز پڑھ کر اپنے مصلیٰ پر تشریف رکھتے یہاں تک کہ سورج خوب چڑھ آتا۔
’’أن النبیﷺ کان إذا صلّی الفجر جلس فی مصلاہ حتی تطلع الشمس حسنا‘‘ (صحیح مسلم، کتاب المساجد، باب فضل الجلوس فی مصلاہ بعد الصبح و فضل المساجد ۷ رقم:۶۷۰)
ایک اور حدیث میں نبی ﷺ نے فرمایا:
’’من صلّی الفجر فی جماعة ثم قعد یذکر اللہ حتی تطلع الشمس ثم صلی رکعتین کانت لہ کأجر حجة و عمرة قال: قال رسول اللہﷺ تامة تامة تامة‘‘ (رواہ الترمذی، حسَّنَہ الألبانیؒ فی تعلیق المشکوۃ ۱؍۳۰۶، باب الذکر بعد الصلوٰۃ)
’’جس نے فجر کی نماز جماعت کے ساتھ پڑھی، پھر (مسجد میں) بیٹھا اللہ کا ذکرکرتا رہا، یہاں تک کہ سورج نکل آیا، پھر اس نے دو رکعت نماز پڑھی، تو اس کو ایک حج اور عمرے کی مثل اجر ملے گا۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: پورے حج و عمرے کا، پورے حج و عمرے کا، پورے حج و عمرے کا‘‘
یہ فضیلت عام ہے، رمضان اور غیر رمضان دونوں حالت میں مذکورہ دو رکعتوں کی وہ فضیلت ہے جو اس میں بیان کی گئی ہے۔ اسے اعمالِ رمضان میں بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ عام دنوں میں تو ہر مسلمان کے لئے اس فضیلت کا حاصل کرنا مشکل ہے۔ تاہم رمضان میں، جب کہ نیکی کرنے کا جذبہ زیادہ قوی اور ثواب کمانے کا شوق فراواں ہوتا ہے، اس لئے رمضان میں تو یہ فضیلت حاصل کرنے کی کوشش ضرور کرنی چاہئے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
کثرتِ دعا کی ضرورت

قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے رمضان المبارک کے اَحکام و مسائل کے درمیان دعا کی ترغیب بیان فرمائی ہے:
"وَإِذَا سَأَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَإِنِّیْ قَرِیْبٌ اُجِیْبُ دَعْوَة الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ وَلْیُؤْمِنُوْا بِیْ" (البقرۃ: ۲؍۱۸۶)
’’جب میرے بندے آپ سے میری بابت پوچھیں، تو میں قریب ہوں، پکارنے والے کی پکار کو قبول کرتا ہوں جب بھی وہ مجھ کو پکارے، لوگوں کو چاہئے کہ وہ بھی میری بات مانیں اور مجھ پر ایمان لائیں‘‘
اس سے علماء اور مفسرین نے استدلال کیا ہے کہ اس انداز بیان سے اللہ تعالیٰ کی یہ منشا معلوم ہوتی ہے کہ رمضان المبارک میں دعائوں کا بھی خصوصی اہتمام کیا جائے، کیونکہ روزہ ایک تو اخلاصِ عمل کا بہترین نمونہ ہے، دوسرے، روزے کی حالت میں انسان نیکیاں بھی زیادہ سے زیادہ کرتا ہے، راتوں کو اٹھ کر اللہ کی عبادت کرتا اور توبہ و استغفار بھی کرتا ہے اور یہ سارے عمل انسان کو اللہ کے قریب کرنے والے ہیں۔
اس لئے اس مہینے میں اللہ تعالیٰ سے دعائیں بھی خوب کی جائیں، خصوصاً افطاری کے وقت اور رات کے آخری پہر میں، جب اللہ تعالیٰ خود آسمانِ دنیا پر نزول فرما کر لوگوں سے کہتا ہے کہ مجھ سے مانگو، میں تمہاری دعائیں قبول کروں گا۔ تاہم قبولیت ِدعا کے لئے ضروری ہے کہ دعا کے آداب و شرائط کا بھی اہتمام کیا جائے جیسے:
1۔اللہ کی حمد و ثنا اور نبیﷺ پر درود کا اہتمام۔
2۔حضور ِقلب اور خشوع کا اظہار۔
3۔اللہ کی ذات پراعتماد و یقین۔
4۔تسلسل و تکرار سے دعا کرنا اور جلد بازی سے گریز۔
5۔صرف حلال کمائی پر قناعت اور حرام کمائی سے اجتناب وغیرہ۔
اس سلسلے میں چند ارشادات ملاحظہ ہوں۔ نبیﷺ نے فرمایا:
’’ادعوا اللہ وأنتم موقنون بالإجابة واعلموا أن اللہ لا یستجیب دعاء من قلب غَافِلٍ لَاہٍ ‘‘ (ترمذی)
’’اللہ سے اس طرح دعا کرو کہ تمہیں یہ یقین ہو کہ وہ ضرور دعا قبول فرمائے گا اور یہ بھی جان لو کہ اللہ تعالیٰ غافل، بے پروا دِل سے نکلی ہوئی دعا قبول نہیں فرماتا‘‘
ایک اور حدیث میں فرمایا:
’’لا یقولن أحدکم اللھم اغفرلي إن شئتَ اللھم ارحمنی إن شئتَ، لیعزم المسألة فإنہ لا مستکرہ لہ‘‘ (صحیح بخاری، الدعوات رقم: ۶۳۳۹… مسلم، کتاب الذکر و الدعاء رقم:۲۶۷۹)
’’جب تم میں سے کوئی دعا کرے، تو اس طرح دعا نہ کرے: ’’اے اللہ اگر تو چاہے تو مجھے معاف کردے، اگر تو چاہے تو رحم فرما‘‘ بلکہ پورے یقین، اذعان اور اِلحاح و اصرار سے دعا کرے، اس لئے کہ اسے کوئی مجبور کرنے والا نہیں‘‘
ایک اور حدیث میں فرمایا:
’’لا یزال یستجاب للعبد ما لم یَدْعُ بإثم أو قطیعة رحم مالم یستعجل قیل یارسول اللہ ما الاستعجال، قال یقول قد دعوت ، وقد دعوت، فلم اَرَ یستجیب لی، فیستحسر عند ذلک و یَدَع الدعائ‘‘ (صحیح بخاری، الدعوات، باب ۱۲ رقم:۶۳۴۰، صحیح مسلم، الذکر والدعائ، باب ۲۵ رقم:۲۷۳۵، واللفظ لمسلم)
’’بندے کی دعا ہمیشہ قبول ہوتی ہے، جب تک وہ گناہ یا قطع رحمی کی دعا نہ ہو اور جلد بازی بھی نہ کی جائے۔ پوچھا گیا: اے اللہ کے رسولؐ! جلد بازی کا مطلب کیا ہے؟ آپؐ نے فرمایا: وہ کہتا ہے، میں نے دعا کی اور بار بار دعا کی۔ لیکن ایسا نظر آتا ہے کہ میری دعا قبول نہیں ہوئی۔ چنانچہ اس کے نتیجے میں وہ سست اور مایوس ہوجاتا اور دعا کرنا چھوڑ بیٹھتا ہے‘‘
نبیﷺ نے ایک آدمی کا ذکر فرمایا جو لمبا سفر کرتا ہے، پراگندہ حال، گردوغبار میں اَٹا ہوا اپنے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف بلند کرتا اور کہتا ہے:
’’یاربِّ یاربِّ! ومطعَمہ حرام و مشرَبہ حرام و ملبَسہ حرام وغُذي بالحرام فأنّیٰ یُستجاب لذلک‘‘ (صحیح مسلم، الزکاۃ، باب قبول الصدقۃ من الکسب الطیب و تربیتھا رقم: ۱۰۱۵)
’’اے رب! اے رب! کرتے ہوئے دعا کرتا ہے، حالانکہ اس کا کھانا حرام کا ہے، اس کا پینا حرام کا ہے اور اس کا لباس بھی حرام کا ہے، حرام کی غذا ہی اس کی خوراک ہے، تو ایسے شخص کی دعا کیونکر قبول ہوسکتی ہے؟‘‘
مذکورہ احادیث سے ان آداب و شرائط کی وضاحت ہوجاتی ہے جو اس عنوان کے آغاز میں بیان کئے گئے ہیں۔ ان آداب و شرائط کو ملحوظ رکھتے ہوئے دعا کی جائے تو یقینا وہ دعا قبول ہوتی ہے یا اس کے عوض کچھ اور فوائد انسان کو حاصل ہوجاتے ہیں۔ جیسے ایک حدیث میں نبیﷺ نے فرمایا:
’’ما من مسلم یدعو بدعوة لیس فیھا إثم ولا قطیعة رحم إلا أعطاہ اللہ بھا إحدی ثلاث، إما أن تعجّل لہ دعوتہ وإما أن یدخرھا لہ فی الاٰخرة وإما أن یصرف عنہ من السوء مثلھا قالوا إذن نُکْثِر ، قال: اللہُ أکْثَرُ ‘‘ (رواہ أحمد)
’’جو مسلمان بھی کوئی دعا کرتا ہے۔ بشرطیکہ وہ گناہ اور قطع رحمی کی نہ ہو تو اللہ تعالیٰ اسے دعا کی وجہ سے تین چیزوں میں سے ایک چیز ضرور عطا کرتا ہے ، یا تو فی الفور اس کی دعا قبول کر لی جاتی ہے ، یا اس کو اس کے لئے ذخیرۂ آخرت بنا دیا جاتا ہے یا اس سے اس کی مثل اس کو پہنچنے والی برائی کو دور کردیا جاتا ہے۔ یہ سن کر صحابہؓ نے کہا: تب تو ہم خوب دعائیں کیا کریں گے۔ آپؐ نے فرمایا: اللہ کے پاس بھی بہت خزانے ہیں‘‘
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
ایک دوسرے کے حق میں غائبانہ دعا کی فضیلت

انسان کو صرف اپنے لئے ہی دعا نہیں کرنی چاہئے، بلکہ اپنے دوست احباب اور خویش و اقارب کے حق میں پرخلوص دعائیں کرنی چاہئیں۔ نبی ﷺ نے فرمایا:
’’دعوة المرء المسلم لأخیہ بظھر الغیب مستجابة، عند رأسہ ملک موکل، کلما دعا لأخیہ بخیر قال الملک الموکل بہ آمین، ولک بمثل‘‘ (مسلم، کتاب الذکر والدعائ… باب فضل الدعاء بظھر الغیب، رقم: ۲۷۳۳)
’’مسلمان کی اپنے (مسلمان) بھائی کے حق میں غائبانہ دعا قبول ہوتی ہے۔ اس کے سر پر ایک مقررہ فرشتہ ہوتا ہے، جب بھی وہ اپنے بھائی کے لئے دعائے خیر کرتا ہے، تو اس پر مقررہ فرشتہ کہتا ہے :’’آمین (اے اللہ! اس کی دعا قبول فرما لے) اور اللہ تجھے بھی اس کی مثل دے‘‘
بددعا دینے سے اجتناب کیا جائے!
انسان فطرۃً کمزور اور جلد باز ہے، اس لئے جب وہ کسی سے تنگ آجاتا ہے تو فورا ً بددعائیں دینی شروع کر دیتا ہے حتیٰ کہ اپنی اولاد کو اور اپنے آپ کو بھی بددعائیں دینے سے گریز نہیں کرتا۔ اس لئے نبیﷺ نے فرمایا:
’’لا تَدْعُوا علی أنفسکم ولا تَدْعُوا علی أولادکم، ولا تَدْعوا علی أموالکم، لا توافقوا من اللہ ساعة یسأل فیھا عطاء فیستجیب لکم‘‘
(صحیح مسلم، کتاب الزھد والرقائق، رقم: ۳۰۰۹)
’’اپنے لئے بددعا نہ کرو، اپنی اولاد کے لئے بددعا نہ کرو، اپنے مال و کاروبار کے لئے بددعا نہ کرو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہاری بددعا ایسی گھڑی کے موافق ہوجائے جس میں اللہ تعالیٰ انسان کو وہ کچھ عطا فرما دیتا ہے جس کا وہ سوال کرتا ہے، اور یوں وہ تمہاری بددعائیں تمہارے ہی حق میں قبول کر لی جائیں‘‘
مظلوم کی آہ سے بچو!
یہ بھی ضروری ہے کہ مسلمان، دوسرے مسلمان بلکہ کسی بھی انسان پر ظلم نہ کرے۔ اس لئے کہ مظلوم کی بددعا فوراً عرش پرپہنچتی ہے۔ نبیﷺ نے فرمایا:
’’اتق دعوة المظلوم فإنہ لیس بینھا و بین اللہ حجاب‘‘ (بخاری، الزکاۃ، باب أخذ الصدقۃ من الأغنیا، رقم:۱۴۹۶، مسلم، رقم:۲۹)
’’مظلوم کی بددعا سے بچو، اس لئے کہ اس کے اور اللہ کے درمیان کوئی آڑ نہیں ہوتی‘‘
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
حق تلفیوں کا ازالہ اور گناہوں سے اجتناب کریں!

یہ مہینہ توبہ و استغفار اور اللہ کی رحمت و مغفرت کا مہینہ ہے۔ یعنی اس میں ایک مسلمان کثرت سے توبہ و استغفار کرتاہے، اور توبہ و استغفار سے حقوق اللہ میں روا رکھی گئی کوتاہیاں تو شاید اللہ معاف فرما دے لیکن حقوق ُالعباد سے متعلق کوتاہیاں اس وقت تک معاف نہیں ہوں گی، جب تک دنیا میں ان کا اِزالہ نہ کر لیا جائے۔مثلا کسی کا حق غصب کیا ہے تو اسے واپس کیا جائے۔ کسی کو سب و شتم یا الزام و بہتان کا نشانہ بنایا ہے تو اس سے معافی مانگ کر اسے راضی کیا جائے، کسی کی زمین یا کوئی اور جائیداد ہتھیائی ہے تو وہ اسے لوٹا دے۔ جب تک ایک مسلمان اس طرح تلافی اور اِزالہ نہیںکرے گا، ا س کی توبہ کی کوئی حیثیت نہیں۔ اسی طرح وہ کسی اور معاملے میں اللہ کی نافرمانیوں کاارتکاب کر رہا ہے۔ مثلاً رشوت لیتا ہے، سود کھاتا ہے، حرام اور ناجائز چیزوں کا کاروبار کرتا ہے، یا کاروبار میں جھوٹ اور دھوکے سے کام لیتا ہے، تو جب تک ان گناہوں اور حرکتوں سے بھی انسان باز نہیں آئے گا ،اس کی توبہ بے معنی اور مذاق ہے
اسی طرح اس مہینے میں یقینا اللہ کی رحمت و مغفرت عام ہوتی ہے۔ لیکن اس کے مستحق وہی مؤمن قرار پاتے ہیں جنہوں نے گناہوں کو ترک کرکے اور حقوق العباد ادا کرکے خالص توبہ کر لی ہوتی ہے۔ دوسرے لوگ تو اس مہینے میں بھی رحمت و مغفرت الٰہی سے محروم رہ سکتے ہیں۔
اپنے دلوں کوباہمی بغض و عناد سے پاک کریں!
اللہ کی رحمت و مغفرت کا مستحق بننے کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ ہم آپس میں اپنے دِلوں کو ایک د وسرے کی بابت بغض و عناد سے پاک کریں، قطع رحمی سے اجتناب کریں اور اگر ایک دوسرے سے دنیوی معاملات کی وجہ سے بول چال بند کی ہوئی ہے تو آپس میں تعلقات بحال کریں۔ ورنہ یہ قطع رحمی، ترکِ تعلق اور باہمی بغض و عناد بھی مغفرتِ الٰہی سے محرومی کاباعث بن سکتا ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
’’تفتح أبواب الجنة یوم الإثنین و یوم الخمیس فیغفر لکل عبد لا یشرک باللہ شیئا إلا رجلا کانت بینہ و بین أخیہ شحناء فیقال أنظروا ھٰذین حتی یصطلحا، أنظروا ھذین حتی یصطلحا، أنظروا ھذین حتی یصطلحا‘‘ (صحیح مسلم، کتاب البرّ والصلۃ والاٰداب، باب النھی عن الشحناء والتھاجر)
’’پیر اور جمعرات کے دن جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور ہر اس بندے کو معاف کردیا جاتا ہے جو اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیںٹھہراتا، سوائے اس آدمی کے کہ اس کے اور اس کے بھائی کے درمیان دشمنی اور بغض ہو۔ ان کی بابت کہا جاتا ہے کہ جب تک یہ باہم صلح نہ کرلیں اس وقت تک ان کی مغفرت کے معاملے کو مؤخر کر دو۔ صلح کرنے تک ان کے معاملے کو مؤخر کردو۔ ان کے باہم صلح کرنے تک ان کے معاملے کو مؤخر کردو‘‘
اس حدیث سے اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ آپس میں بغض و عناد اور ترک ِتعلق کتنا بڑا جرم ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ نبیﷺ نے تین دن سے زیادہ بول چال بند رکھنے اور تعلق ترک کئے رکھنے کی اجازت نہیں دی ہے۔ چنانچہ ایک حدیث میں فرمایا:
’’لا یحل لمسلم أن یھجر أخاہ فوق ثلاث، فمن ھَجَر فوق ثلاث فمات دخل النار‘‘ (رواہ أحمد و أبوداود وقال الألبانی، إسنادہ صحیح تعلیق المشکوٰۃ ۳؍۱۴۰۰)
’’کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے کسی بھائی سے تین دن سے زیادہ تعلق منقطع کئے رکھے اور جس نے تین دن سے زیادہ تعلق توڑے رکھا اور اسی حال میں اس کو موت آگئی، تو وہ جہنمی ہے‘‘
اسی طرح قطع رحمی کا جرم ہے یعنی رشتے داروں سے رشتے ناطے توڑ لینا، ان سے بدسلوکی کرنا اور ان سے تعلق قائم نہ رکھنا۔ ایسے شخص کے بارے میں رسول اللہﷺ نے فرمایا:
’’لا یدخل الجنة قاطع رحم‘‘ (صحیح مسلم، البر والصلۃ، باب صلۃ الرحم… رقم: ۲۵۵۶)
’’قطع رحمی کرنے والا جنت میں نہیں جائے گا‘‘
اللہ تعالیٰ ہمیں ان تمام اعمال سے بچائے جو جنت میں جانے سے رکاوٹ بن سکتے ہیں اور ایسے اعمال کرنے کی توفیق سے نوازے جو ہمیں رحمت و مغفرت الٰہی کا مستحق بنا دیں۔ آمین !

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭​
 
Top