حق تلفیوں کا ازالہ اور گناہوں سے اجتناب کریں!
یہ مہینہ توبہ و استغفار اور اللہ کی رحمت و مغفرت کا مہینہ ہے۔ یعنی اس میں ایک مسلمان کثرت سے توبہ و استغفار کرتاہے، اور توبہ و استغفار سے حقوق اللہ میں روا رکھی گئی کوتاہیاں تو شاید اللہ معاف فرما دے لیکن حقوق ُالعباد سے متعلق کوتاہیاں اس وقت تک معاف نہیں ہوں گی، جب تک دنیا میں ان کا اِزالہ نہ کر لیا جائے۔مثلا کسی کا حق غصب کیا ہے تو اسے واپس کیا جائے۔ کسی کو سب و شتم یا الزام و بہتان کا نشانہ بنایا ہے تو اس سے معافی مانگ کر اسے راضی کیا جائے، کسی کی زمین یا کوئی اور جائیداد ہتھیائی ہے تو وہ اسے لوٹا دے۔ جب تک ایک مسلمان اس طرح تلافی اور اِزالہ نہیںکرے گا، ا س کی توبہ کی کوئی حیثیت نہیں۔ اسی طرح وہ کسی اور معاملے میں اللہ کی نافرمانیوں کاارتکاب کر رہا ہے۔ مثلاً رشوت لیتا ہے، سود کھاتا ہے، حرام اور ناجائز چیزوں کا کاروبار کرتا ہے، یا کاروبار میں جھوٹ اور دھوکے سے کام لیتا ہے، تو جب تک ان گناہوں اور حرکتوں سے بھی انسان باز نہیں آئے گا ،اس کی توبہ بے معنی اور مذاق ہے
اسی طرح اس مہینے میں یقینا اللہ کی رحمت و مغفرت عام ہوتی ہے۔ لیکن اس کے مستحق وہی مؤمن قرار پاتے ہیں جنہوں نے گناہوں کو ترک کرکے اور حقوق العباد ادا کرکے خالص توبہ کر لی ہوتی ہے۔ دوسرے لوگ تو اس مہینے میں بھی رحمت و مغفرت الٰہی سے محروم رہ سکتے ہیں۔
اپنے دلوں کوباہمی بغض و عناد سے پاک کریں!
اللہ کی رحمت و مغفرت کا مستحق بننے کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ ہم آپس میں اپنے دِلوں کو ایک د وسرے کی بابت بغض و عناد سے پاک کریں، قطع رحمی سے اجتناب کریں اور اگر ایک دوسرے سے دنیوی معاملات کی وجہ سے بول چال بند کی ہوئی ہے تو آپس میں تعلقات بحال کریں۔ ورنہ یہ قطع رحمی، ترکِ تعلق اور باہمی بغض و عناد بھی مغفرتِ الٰہی سے محرومی کاباعث بن سکتا ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
’’تفتح أبواب الجنة یوم الإثنین و یوم الخمیس فیغفر لکل عبد لا یشرک باللہ شیئا إلا رجلا کانت بینہ و بین أخیہ شحناء فیقال أنظروا ھٰذین حتی یصطلحا، أنظروا ھذین حتی یصطلحا، أنظروا ھذین حتی یصطلحا‘‘ (صحیح مسلم، کتاب البرّ والصلۃ والاٰداب، باب النھی عن الشحناء والتھاجر)
’’پیر اور جمعرات کے دن جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور ہر اس بندے کو معاف کردیا جاتا ہے جو اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیںٹھہراتا، سوائے اس آدمی کے کہ اس کے اور اس کے بھائی کے درمیان دشمنی اور بغض ہو۔ ان کی بابت کہا جاتا ہے کہ جب تک یہ باہم صلح نہ کرلیں اس وقت تک ان کی مغفرت کے معاملے کو مؤخر کر دو۔ صلح کرنے تک ان کے معاملے کو مؤخر کردو۔ ان کے باہم صلح کرنے تک ان کے معاملے کو مؤخر کردو‘‘
اس حدیث سے اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ آپس میں بغض و عناد اور ترک ِتعلق کتنا بڑا جرم ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ نبیﷺ نے تین دن سے زیادہ بول چال بند رکھنے اور تعلق ترک کئے رکھنے کی اجازت نہیں دی ہے۔ چنانچہ ایک حدیث میں فرمایا:
’’لا یحل لمسلم أن یھجر أخاہ فوق ثلاث، فمن ھَجَر فوق ثلاث فمات دخل النار‘‘ (رواہ أحمد و أبوداود وقال الألبانی، إسنادہ صحیح تعلیق المشکوٰۃ ۳؍۱۴۰۰)
’’کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے کسی بھائی سے تین دن سے زیادہ تعلق منقطع کئے رکھے اور جس نے تین دن سے زیادہ تعلق توڑے رکھا اور اسی حال میں اس کو موت آگئی، تو وہ جہنمی ہے‘‘
اسی طرح قطع رحمی کا جرم ہے یعنی رشتے داروں سے رشتے ناطے توڑ لینا، ان سے بدسلوکی کرنا اور ان سے تعلق قائم نہ رکھنا۔ ایسے شخص کے بارے میں رسول اللہﷺ نے فرمایا:
’’لا یدخل الجنة قاطع رحم‘‘ (صحیح مسلم، البر والصلۃ، باب صلۃ الرحم… رقم: ۲۵۵۶)
’’قطع رحمی کرنے والا جنت میں نہیں جائے گا‘‘
اللہ تعالیٰ ہمیں ان تمام اعمال سے بچائے جو جنت میں جانے سے رکاوٹ بن سکتے ہیں اور ایسے اعمال کرنے کی توفیق سے نوازے جو ہمیں رحمت و مغفرت الٰہی کا مستحق بنا دیں۔ آمین !
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭