• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

رمضان سے پہلےپہلے ہرمسلمان دس باتوں کو جان لے!

شمولیت
اگست 28، 2019
پیغامات
61
ری ایکشن اسکور
11
پوائنٹ
56
بسم اللہ الرحمن الرحیم

رمضان سے پہلےپہلے ہرمسلمان

دس باتوں کو جان لے!​



ابومعاویہ شارب بن شاکرالسلفی


الحمد للہ رب العالمین والصلاۃ والسلام علی رسولہ الکریم،اما بعد:

برادران اسلام!

ہم سب اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ بس کچھ ہی دنوں میں خیروبرکت کا مہینہ ،مغفرت ورحمت کا مہینہ،رب کو خوش کرنے کا مہینہ،اپنے آپ کو جہنم سے آزاد کروا کر جنت میں داخل کرانے کا مہینہ،توبہ واستغفار کرنے کا مہینہ، رب کے حضور گڑگڑانے کا مہینہ،گناہوں کو مٹانے کا مہینہ، اپنی دعاؤں کو قبول کرانے کا مہینہ،صدقہ وخیرات کرنے کا مہینہ اور نیکیوں کا موسم بہار شروع ہونے والا ہے تو اسی مناسبت سے ہم سب کی خیروبھلائی اور دنیوی واخروی فائدے ونجات کے لئے آج کے خطبۂ جمعہ کے لئے جس موضوع کا ہم نے انتخاب کیا ہے وہ ہے ’’ رمضان سے پہلےپہلے ہرمسلمان دس باتوں کو جان لیں ‘‘امید کہ آپ ان دس باتوں کو بغور سنیں گے اور عمل کرنے کی کوشش کریں گے،آئیے سب سے پہلے اللہ رب العزت سے یہ دعاکرلیتے ہیں کہ اے بار الہ تو ہم سب کو ان دس باتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرما۔آمین ثم آمین یا رب العالمین۔

میرے دوستو!جیسا کہ میں نے کہا کہ بس کچھ ہی دنوں میں رمضان کے مہینے کا آغاز ہونے والا ہے، تواب ہم میں سے ہر انسان یہ سوچ رہا ہوگا اور یہ منصوبے بنارہاہوگا کہ ان شاء اللہ اس بار خوب عبادت کریں گے،روزے رکھیں گے،تلاوت قرآن کریں گے،تراویح پڑھیں گے،صدقہ وخیرات کریں گے ،اسی طرح سے کچھ لوگ یہ سوچ رہے ہوں گے کہ اس رمضا ن میں عمرہ کرکے حج کے برابر ثواب کمائیں گے وغیرہ وغیرہ، الحمدللہ یہ سوچ بہت اچھی سوچ ہے اور ہرمسلمان کو نیکیوں کی اسی طرح سےہمیشہ فکر ہونی چاہئے،مگرنیکیوں کی اس فکر کے ساتھ ساتھ ایک اور فکر کی ہم سب کو بلکہ ہرمسلمان کو بہت سخت ضرورت ہے،اور وہ فکرہے نیکیوں کو قبول کرانے کی فکراورنیکیوں کو برباد ہونے سے بچانے کی فکر،الحمدللہ آج ہمیں نیکیاں کرنے کی فکر تو ہے مگر ان نیکیوں کی حفاظت کرنے کی فکربالکل بھی نہیں ہے ،ہم یہ سوچتے اور کہتے ہیں کہ بس نیکی کرتے جاؤ ،اللہ قبول کرنے والا ہےجب کہ ایک مومن کی یہ پہچان ہوتی ہے کہ وہ ہمیشہ اپنے نیکیوں کے متعلق فکرمندرہتے ہیں جیسا کہ فرمان باری تعالی ہے ’’ وَالَّذِينَ يُؤْتُونَ مَا آتَوْا وَقُلُوبُهُمْ وَجِلَةٌ ‘‘اور وہ لوگ جنہوں نے کچھ دیا توہ وہ لوگ اس حال میں دیتے ہیں کہ ان کے دل ڈرنے والے ہوتے ہیں۔ (المؤمنون:60)صدیقۂ کائنات اماں عائشہؓ کہتی ہیں کہ میں نے اس آیت کے بارے میں اپنے آقاومحبوب خداﷺ سے پوچھا کہ اے میرے آقاوسرتاجﷺ! یہ ڈرنے والے کون لوگ ہیں ’’ أَهُمُ الَّذِينَ يَشْرَبُونَ الخَمْرَ وَيَسْرِقُونَ ‘‘کیااس سےشراب پینے والے اور چوری کرنے والے(اوردیگر گناہوں کو انجام دینے والے) لوگ مراد ہیں؟ تو آپﷺ نے بڑے پیار سے کہا کہ ’’ لَا يَا بِنْتَ الصِّدِّيقِ ‘‘ نہیں ! نہیں!اے صدیق کی بیٹی ! اس سے وہ مراد نہیں ہے جو توسمجھ رہی ہے ’’ وَلَكِنَّهُمُ الَّذِينَ يَصُومُونَ وَيُصَلُّونَ وَيَتَصَدَّقُونَ وَهُمْ يَخَافُونَ أَنْ لَا تُقْبَلَ مِنْهُمْ ‘‘ بلکہ اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو نماز پڑھتے ہیں،روزہ رکھتے ہیں اور صدقہ وخیرات کرتے ہیں لیکن انہیں یہ خدشہ لگا رہتاہے کہ کہیں یہ نیکیاں نامقبول نہ ہوجائیں،پھرآپﷺ نے اس آیت کے بعد والی آیت کی تلاوت کی کہ ’’ أُولَئِكَ يُسَارِعُونَ فِي الْخَيْرَاتِ وَهُمْ لَهَا سَابِقُونَ ‘‘یہی ہیں جو جلدی جلدی بھلائیاں حاصل کررہے ہیں اور یہی ہیں جو ان کی طرف دوڑ جانے والے ہیں۔(المؤمنون:61)۔(ترمذی:3175،الصحیحۃ:162)

میرے بھائیو اور بہنو!سنا آپ نے کہ رب العزت نے مومن کی پہچان اور کامیاب ہونے والے لوگوں کی نشانی یہ بتائی ہے کہ وہ اپنی نیکیوں کے تعلق سے ہمیشہ فکر مند رہتے ہیں اور اس بات سے ڈرتے رہتے ہیں کہ کہیں ان کی نیکیاں ضائع وبرباد نہ ہوجائیں تو آج اسی سوچ وفکر کو اپنے اندر پیداکرنے کی ضرورت ہے کیونکہ نیکی کرنا تو بہت آسان ہے مگر نیکیوں کی حفاظت کرنی بہت مشکل ہے،ذرا سوچئے کہ ہم اور آپ اتنی ساری نیکیاں کرتے ہیں اورعنقریب ان شاء اللہ رمضان کے مہینے میں بھوک وپیاس کی شدت کو برداشت کریں گے،اپنی گاڑھی خون و پسینے سے کمائی ہوئی رقم سے صدقہ وخیرات کریں گے،نمازیں پڑھیں گے،گھنٹے دوگھنٹے تراویح کی نماز میں کھڑے رہیں گے !لیکن اتنا سب کچھ کرنے کے باوجود بھی اگر ہمیں کچھ نہ ملا اور ہماری نیکیاں ضائع وبرباد ہوگئی تو ہم سے بڑا بدنصیب اور کون ہوگا کہ محنت بھی کیا مگر اس محنت کا ثمرہ و پھل نہ ملا،سوچئے اور باربار سوچئے کہ اگر ہماری نیکیاں نامقبول ہوگئیں توہماری آخرت کا کیاہوگا!اللہ رب العزت نے ایسے ہی لوگوں کے بارے میں یہ اعلان کیا کہ ’’ وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ خَاشِعَةٌ ، عَامِلَةٌ نَاصِبَةٌ ، تَصْلَى نَارًا حَامِيَةً ‘‘اس دن بہت سے چہرے ذلیل ہوں گے،محنت کرنے والے تھکے ہوئے(ہوں گے) وہ دہکتی ہوئی آگ میں جائیں گے۔(الغاشیۃ:2-4)سنا آپ نے کہ عمل کرکرکے تھکنے والے لوگ جہنم کے ایندھن بنیں گےتو آپ کو اسی اخروی نقصان وخسارے سے بچانے کے لئے اور آپ کے اندراپنی نیکیوں کی حفاظت کرنے کی فکر پیداکرنے کے لئے رمضان سے پہلے پہلے ہم آپ کو کچھ ایسی باتیں بتادیتے ہیں جن سے بچنا ہمارے لئے ضروری ہے،ضروری ہی نہیں بلکہ فرض اور واجب ہے کہ ہم سب ان تمام حرکات وسکنات اور اعمال سے اپنے آپ کو دور رکھیں جن سے نیکیاں ضائع وبرباد ہوجاتی ہیں یا پھر نیکیوں کے قبول ہونے میں رکاوٹ پیدا کرتی ہیں،یہ بات اچھی طرح سے اپنے ذہن ودماغ میں بیٹھالیں کہ یہ نیکیاں ہی ہمارا اصلی سرمایہ ہے،رب کی رحمت وعنایت کے بعدیہی نیکیاں ہم کو عذاب قبر اورجہنم کی آگ سے بچا کر جنت میں لے جائیں گی تو اگر ہم اپنی نیکیوں سے مستفید ہوناچاہتے ہیں تو جس طرح سے ایک کسان اپنے کھیت میں بیج ڈالنے سے پہلے اپنے کھیت کی اچھی طرح سے صاف صفائی کرتاہے،جنگلوں او رگھانس پھونس بلکہ ہر اس چیز کو اپنے کھیت سے اکھاڑپھینکتاہے جو بیج کے لئے نقصاندہ ہوتی ہے،اور تمام نقصاندہ چیزوں کودورکرنے کے بعد کسان اپنے کھیت میں بیج ڈالتاہے،اور پھر بیج ڈال کر اپنے کھیت کو بھول نہیں جاتاہے بلکہ وقتاً فوقتاً اپنے کھیت کی حفاظت ونگہبانی بھی کرتاہے،کبھی اس میں پانی ڈالتاہے تو کبھی اس میں کھاد ڈالتاہے تو کبھی اپنے کھیت میں مکھی ومچھر اور چوہوں سے بچانے والی دوائیوں کا چھڑکاؤ کرتاہے تو کبھی چڑیوں اور جانوروں سے اپنے کھیت کو محفوظ رکھنے کے لئے صبح سے شام اور شام سے صبح تک وہاں ڈیرے بھی لگائے رکھتاہے تب جاکراتنی کٹھن محنت ومشقت کرنے کے بعد اسے اچھی فصل ملتی ہےاور وہ اس سے فائدہ اٹھاپاتا ہےٹھیک اسی طرح سے اگرہمیں اپنی نیکیوں کی فصل سے فائدہ اٹھاناہے تو اپنے نیکیوں کو ان تمام چیزوں سے دوررکھناپڑے گا جن سے نیکیاں ضائع وبرباد ہوجاتی ہیں یا پھر نیکیاں قبول ہی نہیں کی جاتی ہے،کسان کی طرح ہی اپنے نیکیوں کی دن ،رات اور صبح شام حفاظت کرنی پڑے گی،ہروقت اور ہرآن وہرلمحہ اپنی نیکیوں پر محافظ ونگراں بننا پڑے گا ،آج اگر ہم نے ایسا کیا تو یقیناً ایک نہ ایک دن ہم اس نیکیوں سے فائدہ اٹھاپائیں گے اور اگرہم نے ایسا نہ کیا تو پھر اس دن ہمیں سوائے حسرت وپشیمانی کے اور کچھ نہ ملے گا،اب آپ یہ سوچ رہے ہوں گے کہ وہ کون کون سی چیزیں ہیں جو ہماری نیکیوں کے لئے ایک ایسی آگ ہیں جو ہماری تمام نیکیوں کو ایک لحظے میں جلا کر راکھ کردیتی ہیں تو آئیے ایک ایک کرکے دس باتوں کو جانتے ہیں:

1۔نمازوں کی ہمیشہ پابندی نہ کرنا:

میرے بھائیو اور بہنو!آج آپ یہ بات اچھی طرح سے اپنے ذہن ودماغ میں بیٹھالیں کہ ہماری تمام نیکیوں کے قبول ہونے یا نہ ہونے کا دارومدار ہماری نماز کے ادا کرنےاور نہ کرنے پر ہے،اگر ہم ہمیشہ پانچوں وقت کی نماز اداکریں گے تو ہماری تمام عبادتیں قبول کی جائیں گی اور اگر ہم نے نماز چھوڑ دی تو ہماری تمام عبادتیں رائیگاں وبے کارہوجائیں گی ، یہ نماز ہی ایک ایسی عبادت ہے جو ہماری تمام عبادتوں کو قبول کراسکتی ہے۔سبحان اللہ کیا طاقت ہے نماز میں کہ نماز تمام عبادتوں کو قبول کراسکتی ہے،چاہے وہ حج ہو یا پھر عمرہ ،قربانی ہو یاپھر نذرونیاز،زکاۃ ہو یا پھر صدقات وخیرات،فرض عبادت ہو یاپھر نفل عبادت،چاہے رمضان میں کی جانے والی عبادت ہویا پھر غیررمضان میں ،ان تمام نیکیوں کے قبول ہونے یا پھرمردود ہونے میں اس نماز کا بہت بڑا دخل ہے،اس لئے اگر آپ اپنی تمام نیکیوں کو محفوظ رکھنا چاہتے ہیں اوراگرآپ یہ چاہتے ہیں کہ آپ کی تمام عبادتیں ونیکیاں قبول کی جائیں تو پھر آپ کبھی نماز کو نہ چھوڑئیے،جیسا کہ جناب محمدعربیﷺ کا یہ فرمان صحیح حدیث میں موجود ہے کہ ’’ الصَّلَاةُ ثَلَاثَةُ أَثْلَاثٍ الطَّهُورُ ثُلُثٌ وَالرُّكُوعُ ثُلُثٌ وَالسُّجُودُ ثُلُثٌ ‘‘نماز تین حصوں پر مشتمل ہوتی ہے،ایک تہائی حصہ توطہارت وپاکیزگی ہے،اور ایک تہائی حصہ رکوع ہے اور ایک تہائی حصہ سجدے ہیں،پھرآگے آپﷺ نے فرمایا کہ ’’ فَمَنْ أَدَّاهَا بِحَقِّهَا قُبِلَتْ مِنْهُ وَقُبِلَ مِنْهُ سَائِرُ عَمَلِهِ ‘‘اب جس نے نماز کو اس کے تمام حقوق کے ساتھ ادا کیا تو اس کی نماز بھی قبول کی جائیں گی اور ساتھ میں دیگر تمام عبادات بھی قبول کی جائیں گی، ’’ وَمَنْ رُدَّتْ عَلَيْهِ صَلَاتُهُ رُدَّ عَلَيْهِ سَائِرُ عَمَلِهِ ‘‘ اور جس کی نماز مردود ہوگئی تو اس کے تمام اعمال ضائع وبرباد ہوجائیں گے۔ (الصحیحۃ:2537)اور ایک دوسری روایت کے اندر حبیب کائنات ومحبوب خداﷺ کا یہ فرمان موجود ہے کہ ’’ إِنَّ أَوَّلَ مَا يُحَاسَبُ بِهِ العَبْدُ يَوْمَ القِيَامَةِ مِنْ عَمَلِهِ صَلَاتُهُ ‘‘بے شک کہ کل قیامت کے دن ایک مسلمان سے اس کے تمام عملوں کے اندر سب سے پہلے نماز کے بارے میں پوچھا جائے گا،’’ فَإِنْ صَلُحَتْ فَقَدْ أَفْلَحَ وَأَنْجَحَ ‘‘تو اگر اس کے نماز کامعاملہ ٹھیک ٹھاک رہے گا تو وہ کامیاب وکامران ہوکر جنت میں جائے گا،’’ وَإِنْ فَسَدَتْ فَقَدْ خَابَ وَخَسِرَ ‘‘اور اگر نماز کا معاملہ ٹھیک ٹھاک نہ رہا تو پھر وہ ہلاک وبرباد ہو کر جہنم میں جائے گا۔ (ترمذی:413،نسائی:265،اسنادہ صحیح)سنا آپ نےکہ تمام اعمال میں سب سے پہلے ہرمسلمان سے نماز کے بارے میں سوال ہوگا کہ بتا تو نے فرض نمازیں ادا کی تھی یا نہیں؟سوال یہ نہیں ہوگا کہ تم نے رمضان کے مہینے میں نماز پڑھی تھی کی نہیں بلکہ سوال یہ ہوگا کہ اپنی پوری زندگی میں نمازوں کا اہتمام کیا تھا کہ نہیں؟آج شیطان نے ہمیں گمراہ کردیا ہے کہ بس ایک مہینہ نماز پڑھو پھر پورے سال مت پڑھو،نعوذ باللہ۔جب کہ نماز تو ہرمسلمان بالغ مرد وعورت پر تادم حیات فرض ہے جو کسی بھی حال اور کسی بھی صورت میں معاف نہیں ہے،آپ یہ بات اچھی طرح سے جان لیں کہ جو مسلمان نمازوں کا اہتمام نہیں کرتاہے اس کادین وایمان تو خطرے میں ہے ہی ،ساتھ میں اس کے تمام نیک اعمال بھی ضائع وبرباد ہوجائیں گے،اس لئے اے میرے بھائیواور بہنو!ہمیشہ نمازوں کا اہتمام کرو اورالحمدللہ کچھ ہی دنوں کے بعدایک مہینے کے لئے رمضان بھی ہمیں نمازی بنانے کے لئے آرہاہے تو میری یہ نصیحت یاد رکھنا کہ نمازی بننے کے بعد پھرسےبے نمازی نہ ہوجانا ورنہ تمہارے سارے نیک اعمال ضائع وبرباد ہوجائیں گے،اورہاں یہ بھی سن لو اور یادرکھ لو کہ تمام نمازوں کے ساتھ ساتھ کبھی عصرکی نماز کو بھی نہ چھوڑنا ورنہ تمہارے سارے اعمال اکارت ہوجائیں گےجیساکہ جناب محمدعربیﷺ کا یہ فرمان موجود ہے ’’ مَنْ تَرَكَ صَلاَةَ العَصْرِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُهُ ‘‘كه جس نے نماز عصر کوچھوڑدیا تو اس کے( تمام) اعمال ضائع وبرباد ہوجائیں گے۔(بخاری:553)

2۔سنت کے مطابق ہرنیکی کو انجام دیں:

میرے دوستو!رمضان کا مہینہ آتے ہیں الحمدللہ لوگ بڑے ہی زور وشور سے نیکیاں کرناشروع کردیتے ہیں،الحمدللہ بڑی خوشی کی بات ہے کہ ہم نیکیاں خوب سے خوب کرتے ہیں،مگر کبھی آپ نے یہ سوچا ہے کہ اللہ کو زیادہ نیکیوں کی ضرورت نہیں ہے اور نہ ہی نیکیوں کی کثرت سے ہم جنت میں جاسکتے ہیں،ابھی میں نے آپ کو سورہ غاشیہ کے حوالے سے یہ بات بتلائی تھی کہ قیامت کے دن تو نیکیاں کرکرکےتھک جانے والے لوگ بالآخر جہنم کے ایندھن بنیں گے،فرمان باری تعالی ہے ’’ وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ خَاشِعَةٌ ، عَامِلَةٌ نَاصِبَةٌ ، تَصْلَى نَارًا حَامِيَةً ‘‘اس دن بہت سے چہرے ذلیل ہوں گے،محنت کرنے والے تھکے ہوئے(ہوں گے) وہ دہکتی ہوئی آگ میں جائیں گے۔(الغاشیۃ:2-4)ذرا سوچئے کہ نیکیاں تو خوب کئے ہوں گے مگر پھربھی جہنم کے اندر جائیں گے آخر کیوں؟تو وہ اس لئے کہ وہ نیکیاں تو خوب کئے ہوں گے مگر وہ نیکیاں اپنی مرضی سے کئے ہوں گے،میرے بھائیو اور بہنو!سن لو!اور یاد رکھ لو!اللہ رب العزت کو بہت زیادہ نیکیاں نہیں چاہئے بلکہ اللہ ر ب العزت کو تو صرف وہ نیکی چاہئے جس کے اندر حسن ہو جیسا کہ فرمان باری تعالی ہے ’’ الَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيَاةَ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا ‘‘جس نے موت اور حیات کو اس لئے پیدا کیا کہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے اچھے کام کون کرتاہے۔(الملک:2)سنا آپ نے کہ اللہ رب العزت نے یہ نہیں کہا کہ اللہ کو زیادہ سے زیادہ نیکیاں مطلوب ومقصود ہے بلکہ اس ذات باری تعالی نے یہ کہا کہ اللہ رب العزت کو تو بس اچھے اعمال چاہئے ، اب آپ یہ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ اچھا عمل کون ساہے جو ضائع نہیں ہوگا!توسنئے اس سوال کا جواب بھی رب العزت نے برسوں پہلے دے دیا ہے کہ اچھا عمل صرف اور صرف وہی ہے جو میرے حکم اور میرےمحبوبﷺ کے حکم وعمل کے مطابق ہو،جی ہاں میرے دوستو!کان کھول کر سن لو اور یادرکھو لوکہ ہر عمل نہ تو اچھا ہوتاہے اور نہ ہی ہرعمل کو اللہ قبول کرے گابلکہ اللہ رب العزت تو صرف انہیں اعمال کو قبول فرمائے گا جو قرآن اوراس کے محبوبﷺ کے قول وفعل کے مطابق ہوگا ،آج کل لوگ اکثر وبیشتر اپنی مرضی سے نیکی کرتے ہیں،اپنی مرضی سے نماز پڑھتے ہیں،اپنی مرضی سے روزہ رکھتے ہیں،اپنی مرضی سے راتوں کو جاگتے ہیں غرضیکہ وہ اپنی مرضی سے یہ عمل کرتے ہیں تو وہ عمل کرتے ہیں تو جولوگ بھی ایسی حرکت کرتے ہیں وہ لوگ اپنی اس قبیح وبری حرکت سے باز آجائیں ورنہ وہ ایک نہ ایک دن بہت پچھتائیں گے اور خون کے آنسوروئیں گےکیونکہ ایسے لوگوں کے تمام اعمال حسنہ کو اللہ رب العزت ضائع وبرباد کردے گا جو اپنے من ومرضی سے نیکیوں کو انجام دیتے ہیں اور پھر بزعم خویش یہ سمجھتے ہیں کہ وہ تو نیکیوں کو انجام دے رہے ہیں جیسا کہ فرمان باری تعالی ہے’’ قُلْ هَلْ نُنَبِّئُكُمْ بِالْأَخْسَرِينَ أَعْمَالًا،الَّذِينَ ضَلَّ سَعْيُهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَهُمْ يَحْسَبُونَ أَنَّهُمْ يُحْسِنُونَ صُنْعًا ‘‘ كهه ديجئے کہ اگر (تم کہو تو)میں تمہیں بتادوں کہ باعتبار اعمال سب سے زیادہ خسارے میں کون ہیں؟وہ ہیں کہ جن کی دنیوی زندگی کی تمام ترکوششیں بیکار ہوگئیں اور وہ اسی گمان میں رہے کہ وہ بہت اچھے کام کررہے ہیں۔(الکہف:103-104)اور اسی نقصان وخسارے سے ہم کو بچانے کے لئے اللہ رب العزت نے یہ اعلان کردیا ہے ’’ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَلا تُبْطِلُوا أَعْمالَكُمْ ‘‘اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسولﷺ کا کہامانو اور اپنے اعمال کو غارت نہ کرو۔(محمد:33)سنا آپ نے کہ جو نبیﷺ کا کہانہ مانے گا اس کے تمام اعمال ضائع وبرباد ہوجائیں گے اوراسی بات کو محبوب خداﷺ نے مزید وضاحت کرتے ہوئے دوٹوک الفاظ کے ساتھ یہ اعلان کردیا ہے کہ ’’ مَنْ عَمِلَ عَمَلًا لَيْسَ عَلَيْهِ أَمْرُنَا فَهُوَ رَدٌّ ‘‘جو انسان ایسا عمل کرے جس پر ہماراحکم نہیں تو وہ مردود اور ناقابل قبول ہے۔(بخاری،مسلم:1718)اے مسلمانوں سن لو!آج تمہیں جو کرنا ہے کرلو!جس بدعت کو چاہو تم سنت سمجھ کر انجام دے لو!جو مرضی میں آئے کر لو!مگر ایک بات یاد رکھنادین میں نہ تو تمہاری مرضی چلے گی اور نہ ہی کسی امام اورپیر وفقیر کی، یہ آج کل لوگوں نے عجیب تماشا بنارکھاہے کہ لوگ اپنی مرضی سے کوئی عمل کرتے ہیں اور پھر یہ کہتے ہیں کہ اس میں غلط کیاہے؟کوئی کہتاہے کہ اس میں حرج کیاہے؟کوئی کہتاہے کہ ہم عبادت ہی تو کررہے ہیں؟تو جو لوگ بھی اس طرح کی باتیں کہتے اور سمجھتے ہیں وہ لوگ یہ جان لیں کہ یہ دین تو صرف ایک اللہ اور اس کے رسولﷺ کا ہے ،جب یہ دین اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا ہےتو اللہ بھی صرف انہیں عملوں پر اجروثواب سے نوازے گا جو اس کے اور اس کے محبوبﷺ کے حکم کے مطابق ہوگا۔اس لئے میرے بھائیو اور بہنو! رمضان سے پہلے پہلے یہ اچھی طرح سے جان لو اورہمیشہ یاد رکھو کہ اللہ رب العزت صرف انہیں عملوں کو قبول کرے گا جواللہ اور اس کے رسولﷺ یعنی قرآن وحدیث کے مطابق ہوگا اور یہ ہرمسلمان کےکسی بھی عمل کے قبول ہونے کے لئے سب سے پہلی اور اولین شرط ہےاورجس عمل کےاندر بھی یہ شرط مفقود ہوگی خواہ وہ کرنے میں کتنا ہی اچھا کیوں نہ ہو، وہ سب کے سب مردود وناقابل قبول ہوں گے۔

3۔ریا کاری سے بچیں:

میرے دوستو!ابھی آپ نے یہ سنا کہ عمل کے قبول ہونے کے لئے سب سے پہلی اور ضروری شرط یہ ہے کہ وہ عمل سنت کے مطابق ادا کی جائے ،اسی طرح سےہر عمل کے قبول ہونے کے لئے ایک دوسری شرط یہ بھی ہے کہ ہرعمل اخلاص کے ساتھ صرف اور صرف ايك الله كي رضاوخوشنودي حاصل کرنے کے لئے انجام دی گئ ہو جیسا کہ جناب محمد عربیﷺ نے یہ اعلان کردیا ہے کہ اللہ رب العزت صرف وہی عمل قبول کرےگا جو صرف اور صرف اس کی رضا اور خوشنودی حاصل کرنے کے لئے کی گئی ہو ،چنانچہ سیدنا ابوامامہ الباہلیؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی آپﷺ کے پاس آیا اور سوال کیا کہ اے اللہ کے نبیٔ اکرم ومکرمﷺ ’’ أَرَأَيْتَ رَجُلًا غَزَا يَلْتَمِسُ الْأَجْرَ وَالذِّكْرَ ‘‘ آپ مجھے یہ بتائیں کہ ایک انسان جہاد تو کرتاہے مگر وہ اس جہاد سے ثواب اور شہرت دونوں کا طلبگار ہے تو ’’ مَالَهُ ‘‘ایسے انسان کو کیا ملے گا؟تو آپﷺ نے فرمایا کہ ’’ لَا شَيْءَ لَهُ ‘‘ایسے انسان کو کچھ بھی نہیں ملے گا،اور ایک دوسری روایت کے اندر ہے کہ آپﷺ نے فرمایا’’ لَا أَجْرَ لَهُ ‘‘ اسے کچھ بھی اجروثواب نہیں ملے گا،جب صحابۂ کرامؓ نے ایسا سنا تو’’فَأَعْظَمَ النَّاسُ ذَلِكَ ‘‘ ہکے بکے رہ گئے بلکہ بہت زیادہ پریشان ہوئے اور سائل سے کہا کہ ’’ عُدْ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَعَلَّهُ لَمْ يَفْهَمْ ‘‘ پھر سے یہ سوال دہراؤ،شاید کہ تمہارے سوال کو حبیب کائناتﷺ سمجھ نہ سکے ہوں! تو انہوں نے تین بار یہی سوال کیا اور تینوں مرتبہ آپﷺ نے یہی جواب دیا کہ ایسے انسان کے لئے کوئی اجروثواب نہیں ہے ،پھر جو آپﷺ نے کہا اس کو اپنے ذہن ودماغ میں بیٹھا کرجاؤ ،فرمایا کہ سنو!’’ إِنَّ اللَّهَ لَا يَقْبَلُ مِنَ الْعَمَلِ إِلَّا مَا كَانَ لَهُ خَالِصًا وَابْتُغِيَ بِهِ وَجْهُهُ ‘‘ بے شک کہ اللہ رب العزت صرف اور صرف اسی عمل کو قبول کرتاہے جو صرف اور صرف اسی کی رضاوخوشنودی حاصل کرنے کے لئے انجام دی گئی ہو۔ (نسائی:3140،الصحیحۃ:52،احمد:7900)اے لوگو!ذرا یہ حدیث ایک بار پھر سے اپنے ذہن ودماغ کے اندر دوڑاؤ اور سوچو کہ آپﷺ نے کیا کہا کہ جو انسان کسی بھی نیک عمل سے اللہ کی رضاوخوشنودی حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ کسی دنیاوی غرض وغایت کی امید رکھتا ہو تو ایسے انسان کے لئے اس میں کچھ بھی اجروثواب نہیں ہے۔اللہ کی پناہ!!بڑے افسوس کے ساتھ مجھے یہ کہنا پڑ رہاہے کہ آج یہ بیماری بہت عام ہوچکی ہے،ہرانسان اپنی نیکی کی تشہیر کرنا چاہتاہے،آپ نے ایک محاورہ سنا ہوگا کہ پہلے زمانے کےلوگ کہا کرتے تھے ’’ نیکی کر دریا میں ڈال ‘‘ یعنی کہ نیکی کرکے بھول جایا کرو اور اب ہمارے زمانے میں صورت حال یہ ہے کہ لوگ کہتے ہیں نیکی کر سوشل میڈیا،فیس بک،واٹس ایپ گروپ،انسٹا گرام وغیرہ پر ڈال،اب رمضان آرہاہے تو آپ بھی یہ دیکھیں گے کہ لوگ اپنے زکاۃ وعطیات کی فوٹو،اپنے سحروافطار کی فوٹو شیئر کرتے ہیں ،اسی طرح سے لوگ جب حج وعمرہ پر جاتے ہیں تو ارکان وغیرہ اداکرتے ہوئے سیلفی لیتے ہیں اورپھر وہ سوشل میڈیا پراپلوڈ کرتے ہیں اور پھر یہ لکھتے ہیں کہ اگرہماری یہ فوٹو اور نیکی اچھی لگی ہو تو پلیز ،براہ کرم لائک اینڈ شیئر اور کمنٹس ضرور کریں،کسی شاعر نہیں کیا ہی خوب کہا ہے :

عبادت میں سیلفی ،تلاوت میں سیلفی

امامت میں سیلفی،خطابت میں سیلفی

عجب مرض ہے عادت خود نمائی

عیادت میں سیلفی،سخاوت میں سیلفی

ریا کیا ہے ہم سے نہ پوچھے کوئی بھی

بنائیں گے ہم دیں کی خدمت میں سیلفی

میرے دوستو!دلوں کا معاملہ توہمارے رب کے سپرد ہے ،ہم کسی کے دلوں پر حملہ نہیں کررہے ہیں اور نہ ہی ہمیں اس کی اجازت وضرورت ہے کہ ہم کسی کے دل پر حکم لگائیں ، مگر آپ ہی خود فیصلہ کرلیں کہ اس طرح سے نیکیوں کی تشہیر کرنا کیا یہ ریاکاری نہیں ہے؟اور کیا یہ اپنے نیکی پر لوگوں کی تعریف سننا نہیں ہے؟آج کل اکثر لوگ ایسے ہیں جو نیکیوں پر اپنی تعریف سننا چاہتے ہیں،وہ یہ چاہتے ہیں کہ اگر وہ کسی کے ساتھ احسان کریں یاپھر کوئی مسجد ومدرسہ بنائیں تو لوگ ان کی تعریف کرتے پھریں ،اور کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو کسی غریب کی مدد کرتے ہوئے یہ کہتے ہیں کہ لو بھائی! ذرا ہمارے لئے دعا کرنا،یعنی نیکی واحسان کے بدلے دعاکرنے کی درخواست کی جارہی ہے،اسی طرح سے آج کل ایک اور ٹرینڈ بڑے زورشور سے چل رہاہے کہ حج یا عمرہ کو جانے والے لوگ حج وعمرہ پر روانہ ہونے سے پہلے پہلےفنکشن ہال میں بڑی بڑی دعوتیں کرتے ہیں،دورونزدیک تمام رشتے داروں سے ملاقات کرکے ان کو یہ خبر دیتے ہیں کہ وہ اب حج وعمرہ کے لئے روانہ ہورہے ہیں،صرف اسی پر بس نہیں کرتے ہیں جب وہ وہاں پہنچ جاتے ہیں تو وہاں سے لوگوں کو سوشل میڈیا کے ذریعے اپنے تمام عبادات کی جانکاری دیتے ہیں ،اپنے ایک ایک نیکیوں کی تشہیر کرتے ہیں، تو اس طرح کے جتنے سارے لوگ ہیں وہ رمضان سے پہلے پہلے یہ جان لیں اور سن لیں کہ جو اپنی نیکیوں پر دنیا کی کسی بھی غرض وغایت کا طالب ہوگا اسے اس کی نیکی کے اجروثواب سے ایک پھوٹی کوڑی بھی نہیں ملے گی، اور جولوگ بھی اپنی اپنی نیکیوں سے دوسروں کو خوش کرنا چاہتے ہیں یاپھر اپنا نام روشن کرنا چاہتے ہیں تو ایسے لوگ یہ حدیث سن لیں اور یاد رکھ لیں ،حبیب کائنات ومحبوب خداﷺ نے فرمایا کہ ’’ يَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِذَا جُزِيَ النَّاسُ بِأَعْمَالِهِمْ ‘‘قیامت کے دن جب نیک اعمال کا بدلہ دیا جارہاہوگا تو اللہ رب العزت ریاکاروں سے کہے گا کہ ’’ اذْهَبُوا إِلَى الَّذِينَ كُنْتُمْ تُرَاءُونَ فِي الدُّنْيَا ‘‘ اے ریاکاروں!دنیا میں جن جن کو خوش کرنے اور دکھانے کے لئے نیکیاں کیاکرتے تھے ،ذرا ان کے پاس جاؤ اور ’’ فَانْظُرُوا هَلْ تَجِدُونَ عِنْدَهُمْ جَزَاءً ‘‘ دیکھو کہ کیا وہ تمہیں کوئی بدلہ دے سکتے ہیں؟۔(مسنداحمد:23630،الصحیحۃ:951) جی ہاں ذرا غورسے سن لیں کہ جو لوگوں کو دکھانے اور خوش کرنے کےلئے نیکیاں کرے گا تو اللہ ر ب العزت ایسے لوگوں کو انہیں کے پاس بھیج دے گا کہ جاؤ اور معلوم کرو کہ کیاتمہارے لئے ان کے پاس کچھ اجروثواب ہے،اللہ کی پناہ!آج جولوگ لائک وکمنٹس اور شیئر کے لئے نیکیاں کرتے ہیں تو وہ لوگ اپنے انجام کی فکرکریں کہ ایسے لوگوں کو اللہ کہے گا کہ جاؤ اپنے فالورس اور اپنے فرینڈس کے پاس جاکر نیکیوں کا اجروثواب لے لو،اللہ کی پناہ!ذرا سوچئے کہ کتنی بڑی ذلت ورسوائی ہوگی،آج تو نیتوں کو کوئی دیکھ نہیں سکتاہے مگر ایک دن ایسا بھی آنے والا ہے جب نیتوں کا اعلان کیا جائے گا،اور ایک انسان کے لئے یہ سب سے بڑی ذلت ورسوائی ہوگی کہ اسے تمام اول تا آخر جن وانس کے روبرو ذلیل ورسوا کیاجائے گا،جیسا کہ جناب محمدعربیﷺ کا یہ فرمان بھی موجود ہے کہ جب قیامت کے دن اللہ رب العزت اول تا آخر تمام انسانوں کو جمع کرے گا تو اس میدان میں ایک اعلان کرنے والا یہ اعلان کرے گا کہ ’’ مَنْ كَانَ أَشْرَكَ فِي عَمَلٍ عَمِلَهُ لِلَّهِ فَلْيَطْلُبْ ثَوَابَهُ مِنْ عِنْدِ غَيْرِ اللَّهِ ‘‘ جس نے اللہ کے لئے کئے ہوئے عمل میں کسی کو شریک کیا تھا وہ اس عمل کا ثواب اسی (انسان )غیراللہ سے جاکرمانگ لے کیونکہ ’’ فَإِنَّ اللَّهَ أَغْنَى الشُّرَكَاءِ عَنِ الشِّرْكِ ‘‘اللہ تعالی شرک سے تمام شریکوں سے سب سے زیادہ بے نیاز اور بیزارہے۔(ابن ماجہ:4023،ترمذی:3154،اسنادہ حسن)میرے دوستو!ریاکاروں کے ساتھ صرف یہی سلوک نہیں کیاجائے گا بلکہ ریاکاروں کو کل بروز محشر کئی طرح سےذلیل ورسوا کیا جائے گا،جس کی ایک صورت تو یہ ہوگی کہ اللہ رب العزت کل بروزمحشر تمام جن وانس کے سامنے میں ایسے لوگوں کی نیتوں کا پردہ چاک کردے گا جیسا کہ جناب محمدعربیﷺ کا یہ فرمان بخاری ومسلم کے اندر موجود ہے کہ ’’ مَنْ سَمَّعَ سَمَّعَ اللَّهُ بِهِ وَمَنْ يُرَائِي يُرَائِي اللَّهُ بِهِ ‘‘جو انسان کسی نیک کام سے شہرت کا طالب ہوگاتو کل قیامت کے دن اللہ رب العزت اس کے اس نیت وارادے کو سب کو سنادے گا اور اسی طرح سے جوکوئی دکھاوے کے لئے کوئی نیک عمل انجام دے گا تو یہ بھی کل قیامت کے دن اللہ رب العزت سب لوگوں کو دکھلادے گا(اور اس طرح سے اس کے عیب کو ظاہروباہر کرکےتمام مخلوق کے روبرو اسے ذلیل ورسوا کیاجائے گا)۔(بخاری:6499،مسلم:2986)اس کا ایک معنی یہ بھی ہے کہ جو لوگ ریاکاری کرتے ہوئے دوسروں کو دکھلانے کے لئے کوئی نیک عمل کرتے ہیں تو اللہ رب العزت اس کی اس بری نیت کو لوگوں کے سامنے میں اسی دنیا میں ظاہر کردیتاہے جس کی وجہ سے وہ بدنام ہوجاتاہے اور اس کی عزت ختم ہوجاتی ہے۔(شرح ابن ماجہ از حافظ زبیرعلی زئیؒ:4207)اور ریاکاروں کو بروزقیامت ذلیل ورسوا کرنے کی دوسری صورت یہ ہوگی کہ ریاکاروں کو اللہ رب العزت بروز محشر سجدہ کرنے سے محروم کردے گاجیسا کہ صحیح بخاری کے اندر یہ حدیث موجود ہے کہ کل بروزقیامت میدان محشر میں ایک لمحہ اور ایک وقت ایسا بھی آئے گا کہ اللہ رب العزت اپنی پنڈلی کو کھول دے گا جس کو دیکھ کر سارے کے سارے مومن مردوعورت اس کے سامنے سجدہ ریز ہوجائیں گے،مگر وہ لوگ سجدہ کرنے سے عاجز ہوجائیں گے جو دکھلاوے اور شہرت وناموری کے لئے سجدے کیا کرتے تھے،وہ سجدہ تو کرنا چاہیں گے مگران کی پیٹھ تختے کی طرح اکڑ جائے گی جس کی وجہ سے ان کے لئے جھکنا ناممکن ہوجائے گا جس کی وجہ سے وہ سجدہ نہیں کرسکیں گے۔(بخاری:4919)۔اللہ کی پناہ۔میرے دوستو!ذرا سوچو کہ تمام مخلوق کے روبرو ریاکاروں کی یہ کتنی بڑی ذلت ورسوائی ہوگی،ریاکاروں کی اسی ذلت ورسوائی کا رب العزت نے اپنے کلام پاک میں کیا ہی خوب نقشہ کھینچا ہے ،فرمایا ’’ يَوْمَ يُكْشَفُ عَنْ ساقٍ وَيُدْعَوْنَ إِلَى السُّجُودِ فَلا يَسْتَطِيعُونَ،خاشِعَةً أَبْصارُهُمْ تَرْهَقُهُمْ ذِلَّةٌ وَقَدْ كانُوا يُدْعَوْنَ إِلَى السُّجُودِ وَهُمْ سالِمُونَ ‘‘جس دن پنڈلی کھول دی جائے گی اور سجدے کے لئے بلائے جائیں گے تو سجدہ نہ کرسکیں گے،ان کی نگاہیں نیچی ہوں گی اور ان پر ذلت وخواری چھارہی ہوگی،حالانکہ یہ سجدے کے لئے اس وقت بھی بلائے جاتے تھے جب کہ صحیح سالم تھے۔(القلم:42-43)ہائے رے!ریاکاروں کی بدبختی وبدنصیبی نیک اعمال بھی کئے مگر پھر بھی ذلیل ورسوا ہوئے۔

ميرےبھائیو اور بہنو!اپنے نیک اعمال کو ضائع وبرباد ہونے سے بچالواور ہمیشہ اپنے دل پر محافظ ونگراں اور چوکیدار بن کے رہو، کہیں ایسا نہ ہوکہ ادھر ہم نیکیاں کرتے رہیں اور ادھر ہماری ان حرکتوں سے ہماری نیکیاں ضائع وبرباد ہوتی رہے اور ہمیں احساس تک نہ ہوں،اورآپ جانتے ہیں ہمارے بارے میں آپﷺ کو اس بات کا بہت ہی ڈر لگارہتاتھا کہ کہیں ہم اور آپ اس بیماری کے اندر ملوث نہ ہوجائیں،جیساکہ جناب محمدعربیﷺ کا یہ فرمان موجود ہے کہ ’’ إِنَّ أَخْوَفَ مَا أَخَافُ عَلَيْكُمُ الرِّيَاءُ وَالشَّهْوَةُ الْخَفِيَّةُ ‘‘یقینا مجھے تمہارے اوپر سب سے زیادہ ڈر اس بات کا ہے کہ تمہارے اندر ریاکاری اور پوشیدہ شہوتیں داخل ہوجائیں گی۔(الصحیحۃ:508) اورآج ایسا ہی کچھ منظر تو ہم اور آپ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ جس بات کا خدشہ آپﷺکو اپنی امت کے تعلق سے تھا آج وہی ہورہاہے کہ ہرکوئی اس شرک کے جال میں پھنس چکا ہے مگر اسے احساس نہیں ہے ،اور لوگوں کو احساس ہوبھی کیسے ؟جب کہ کچھ شرک تو ایسے ہیں جو چیونٹی کی چال سے بھی زیادہ باریک ہوتے ہیں ،جس میں سے ایک شرک یہ ریاکاری بھی ہے،اسی بات کی نصیحت کرتے ہوئے جناب محمدعربیﷺ نے اپنے یارغاراور اپنے حبیب سیدنا ابوبکرؓ کو کہا کہ اے ابوبکر ایک باد یادرکھنا ’’ الشِّرْكُ فِيكُمْ أَخْفَى مِنْ دَبِيبِ النَّمْلِ ‘‘تم میں شرک چیونٹی کی چال سے بھی زیادہ پوشیدہ ہوگا،اس لئے میں تجھے ایک ایسی دعا بتادے رہاہوں کہ اگر تم اس کو ہمیشہ پڑھتے رہوگے تو اللہ تم سے ہرچھوٹے بڑے شرک کو دور کردے گا،اور وہ دعا یہ ہے ’’ اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ أَنْ أُشْرِكَ بِكَ وَأَنَا أَعْلَمُ وَأَسْتَغْفِرُكَ لِمَا لا أَعْلَمُ ‘‘ یعنی کہ اے اللہ! میں کبھی جان بوجھ کر تیرے ساتھ شرک کروں تو اس حرکت سے تیری پناہ پکڑتا ہوں اور اس بات سے تو مجھے معاف فرما دینا کہ میں کبھی نادانی اور لاعلمی میں تیرے ساتھ شرک کربیٹھوں۔(صحیح الجامع للألبانیؒ:3731،صحیح الادب المفرد للألبانیؒ:554)تو میرے دوستو!اگر آپ کو ریاکاری سے بچناہے تو اس دعا کو یادکرلیں اور ہمیشہ پڑھتے رہاکریں ،اورجہاں تک ہوسکے اپنی اپنی نیکیوں کو چھپا کررکھا کریں جیساکہ جناب محمدعربیﷺ نے ہمیں یہ حکم دیا کہ ’’ مَنِ اسْتَطَاعَ مِنْكُمْ أَنْ يَكُونَ لَهُ خَبْءٌ مِنْ عَمَلٍ صَالِحٍ فَلْيَفْعَلْ ‘‘ اگر تم میں سے کوئی شخص اپنی نیکیوں کی چھپانے کی طاقت رکھتاہے تو اسے چاہئے کہ وہ اپنی نیکیوں کو چھپائے،یعنی جہاں تک ہوسکے ہم اپنی طاقت بھر اپنی نیکیوں کو چھپاکررکھیں۔(الصحیحۃ:2313،صحیح الجامع للألبانیؒ:6018)الغرض خلاصۂ کلام یہ کہ ہمارے ہرعمل کا مقصد صرف اور صرف اللہ کی رضا وخوشنودی حاصل کرنا ہوکیونکہ اگر خدانخواستہ اس میں ذرہ برابربھی دنیا کی غرض وغایت آئی تو وہ عمل ضائع وبرباد ہوجائے گا جیسا کہ جناب محمدعربیﷺنےیہ اعلان کردیا ہے ’’ فَمَنْ عَمِلَ مِنْهُمْ عَمَلَ الْآخِرَةِ لِلدُّنْيَا لَمْ يَكُنْ لَهُ فِي الْآخِرَةِ نَصِيبٌ ‘‘كه جو انسان بھی اعمال صالحہ کے ذریعے دنیا کمانے کی آرزو اور خواہش رکھے گا تو وہ آخرت میں اس کے اجروثواب سے محروم رہے گا۔(مسند احمد:21223،صحیح الجامع للألبانیؒ:2825)

4۔اگر کسی کا حق آپ کے پاس ہے تو اسے فوراً لوٹا دیں:

میرے دوستو!اب میں جوبات بتانے جارہاہوں ذرا اس کو اپنے کانوں کے دریچوں کو کھول کرسنیں اور اپنے دل میں بیٹھا لیں اور اس حرکت سے ہمیشہ ہمیش کے لئے باز آ جائیں ورنہ آپ کی سب نیکیاں ضائع وبرباد ہوجائیں گی،ذرا مجھے آپ یہ بتائیں کہ ہم سب یہ نیکیاں کیوں بجالاتےہیں؟ہم بھوک وپیاس کی شدت کو کیوں برداشت کرتے ہیں؟ہم نماز وزکاۃ کیوں اداکرتے ہیں؟ہم حج وعمرہ کیوں اداکرتے ہیں؟اسی لئے نہ کہ ہم قبروجہنم کے عذاب سے بچ جائیں ،ہماری مغفرت ہوجائے اور ہم جنت میں داخل کردئے جائیں،لیکن اگر میں آپ سے یہ کہوں کہ آج یہ جو نیکیاں آپ کررہے ہیں ،یہ کل آپ کی نہیں ہوگی بلکہ کسی اور کی ہوجائےگی تو آپ کی رائے کیا ہوگی؟ اور آپ کیا سوچیں گے؟آپ یہ سوچیں گے کہ مولانا یہ کیا بہکی بہکی باتیں کررہے ہیں،بھلا ہماری نیکیاں دوسروں کےحوالے کیسے ہوجائےگی؟ہم عمل کریں گے تو ہماری ہی ہوگی،جی نہیں!آج آپ یہ جان لیں کہ نیکیاں تو آپ کریں گے مگرآپ کی ایک حرکت سے کل بروز قیامت آپ کی نیکیاں دوسروں کے نام ہوجائےگی اورہوسکتاہے کہ آپ کی نیکیوں سے دوسرا جنت میں داخل ہوجائے اور آپ نیکیاں کرکے بھی جہنم کے ایندھن بن جائیں گے،جانتے ہیں کیسے ؟وہ اس طرح سے کہ اگر آپ نے کسی کا حق رکھ لیاہے،کسی کا روپیہ پیسہ ،زمین وجائدادوغیرہ ہڑپ لیا ہے تو آپ اپنی نیکیاں ان کو دیں گے جن کا حق آج آپ نے رکھ لیاہے،مجھے تو بہت افسوس ہوتاہے کہ لوگ حج وعمرہ کرنے جاتے ہیں تو ایک دوسرے سے معافی وتلافی کرکے جاتے ہیں مگر میں تو یہ کہوں گا کہ رمضان شروع ہونےسے پہلے پہلےاگر آپ نےکسی کا حق رکھ لیاہے تو اس کو ادا کردیں یا پھر رفع دفع کرلیں ورنہ یاد رکھ لیں کہ آپ اپنی ساری نیکیاں دوسروں کو دے دیں گے؟روزے تو آپ رکھیں گے مگر اس کا ثواب دوسرا اڑا لے جائے گا،حج وعمرہ تو آپ کریں گے مگر اس کا ثواب کوئی اور اٹھا لے جائے گا،نماز وزکاۃ تو آپ ادا کریں گے مگر اس کا حقدار کوئی اور ہوجائے گا،جانناچاہتے ہیں کیسے؟تو سنئے حدیث،سیدنا ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ حبیب کائنات ومحبوب خداﷺ نے ہم سے عرض کیا کہ اے میرے جاں نثاروں ’’ أَتَدْرُونَ مَا الْمُفْلِسُ ‘‘کیا تم جانتے ہو کہ مفلس،غریب وفقیر،قلاش وبھکاری کون ہے؟ تو صحابۂ کرام نے کہا کہ ’’ الْمُفْلِسُ فِينَا مَنْ لَا دِرْهَمَ لَهُ وَلَا مَتَاعَ ‘‘ ہم تو غریب وفقیر اسے سمجھتے ہیں جس کے پاس روپئے پیسے اور گھرومکان نہ ہو ،توآپﷺ نے فرمایا کہ سنو!’’ إِنَّ الْمُفْلِسَ مِنْ أُمَّتِي يَأْتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِصَلَاةٍ وَصِيَامٍ وَزَكَاةٍ ‘‘میری امت کا حقیقی مفلس،غریب وفقیر تو وہ انسان ہے جو کل بروز قیامت نمازوروزے اور زکاۃ وغیرہ جیسے بہت سارے نیک اعمال لے کرحاضرہوگا،یعنی اس کے پاس اجروثواب کی کمی نہیں ہوگی ،ابھی اس کا حساب وکتاب ہونے والا ہوگااور ہورہاہوگا کہ ’’ وَيَأْتِي قَدْ شَتَمَ هَذَا ‘‘ ایک انسان آ جائے گا اور کہے گا کہ اے میرے رب اس نےدنیا میں مجھے گالی دی تھی اور برابھلا کہاتھا،’’ وَقَذَفَ هَذَا ‘‘اور ایک انسان آ جائے گا اور کہے گا کہ اے میرے رب یہ نمازی وحاجی انسان نے تو دنیا میں میرے اوپر الزام لگایا تھا اور میری عزت کے ساتھ کھیلاتھا، ’’ وَأَكَلَ مَالَ هَذَا ‘‘ اور ایک انسان آئے گا اور کہے گا کہ اے میرے رب یہ نیک انسان تو ایساہے جس نے میرا پیسہ رکھ لیا تھا،میری جگہ پر قبضہ جمالیاتھا،میری پلاٹ کو ہتھیا لیاتھا،’’ وَسَفَكَ دَمَ هَذَا‘‘ اور ایک انسان آئے گا اور کہے گا کہ اے میرے رب اس نے مجھے تو قتل کردیا تھا، ’’ وَضَرَبَ هَذَا ‘‘ اورایک انسان آئے گا اور کہے گا کہ اے میرے رب یہ روزے دار ونمازی صاحب تو ایسے تھے جنہوں نے مجھے مارا اور پیٹا تھا،جناب محمدعربیﷺ نے فرمایا کہ ’’ فَيُعْطَى هَذَا مِنْ حَسَنَاتِهِ وَهَذَا مِنْ حَسَنَاتِهِ ‘‘پھر کیا ہے، اللہ رب العزت اس کی نیکیوں کو اٹھا اٹھاکر ایک ایک کرکے تمام حقداروں کو دے دے گا،’’ فَإِنْ فَنِيَتْ حَسَنَاتُهُ قَبْلَ أَنْ يُقْضَى مَا عَلَيْهِ أُخِذَ مِنْ خَطَايَاهُمْ فَطُرِحَتْ عَلَيْهِ ‘‘اور اگر لوگوں کا حق ادا ہونے سے پہلے پہلے اس کی نیکیاں ختم ہوگئیں تو حقداروں کے گناہوں کے سزا کا مستحق اسے سمجھاجائے گا اورپھر حقداروں کے گناہوں کا ذمہ داراسے ٹھہرایا جائے گا ’’ ثُمَّ طُرِحَ فِي النَّارِ ‘‘ اور پھر اسے جہنم کے اندرپھینک دیاجائے گا۔(مسلم:2581) اللہ کی پناہ!سنا آپ نے کہ آج جو دوسروں کا حق مارے گا توکل اس کی نیکیوں کا حقدار اہل حق ہوجائیں گے یہی وجہ ہے کہ آپﷺ نے ہمیں یہ حکم دیا ہے کہ ہم کسی بھی صورت میں نہ تو دوسروں کا حق ماریں اور نہ ہی دوسروں کا حق اپنے پاس رکھ لیں، ورنہ ہماری آخرت تباہ وبرباد ہوجائے گی جیسا کہ بخاری شریف کے اندر یہ حدیث موجود ہے،سیدناابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا ’’ مَنْ كَانَتْ لَهُ مَظْلَمَةٌ لِأَخِيهِ مِنْ عِرْضِهِ أَوْ شَيْءٍ فَلْيَتَحَلَّلْهُ مِنْهُ اليَوْمَ قَبْلَ أَنْ لاَ يَكُونَ دِينَارٌ وَلاَ دِرْهَمٌ ‘‘ کہ جس کسی کے پاس اس کے بھائی(بہن) کاحق ہو ،چاہے وہ عزت وناموس کا معاملہ ہو یاپھر کسی اور چیز کا معاملہ ہو،تو وہ آج ہی دنیاکے اندرجیتے جی اس دن کے آنے سے پہلے پہلے اس معاملے کارفع دفع کرلےجس دن معاملات چکانے اورحق اداکرنے کے لئے روپئے پیسے نہ ہوں گے ،بلکہ اس کی صورت یہ ہوگی کہ ’’ إِنْ كَانَ لَهُ عَمَلٌ صَالِحٌ أُخِذَ مِنْهُ بِقَدْرِ مَظْلَمَتِهِ ‘‘اگر اس کے پاس نیکیاں ہوں گی تو اس سے حق کے بقدر اس کی نیکیاں لے لی جائیں گی ،’’ وَإِنْ لَمْ تَكُنْ لَهُ حَسَنَاتٌ أُخِذَ مِنْ سَيِّئَاتِ صَاحِبِهِ فَحُمِلَ عَلَيْهِ ‘‘اوراگر اس کے پاس نیکیاں نہیں ہوں گی تو اہل حق کی برائیوں اور گناہوں کولے کر اس پر ڈال دیا جائے گا۔(بخاری:2449)اور پھر کیاہوگا وہی جو اس سے پہلے آپ نے سنا کہ اسے جہنم کے اندر پھینک دیا جائے گا۔اعاذناللہ۔اب آپ یہ مت سوچئے کہ جولوگ بڑے بڑے گھوٹالے کریں گے ان کے ساتھ ہی ایساہوگا،جی نہیں !یہ معاملہ ایسانہیں ہے بلکہ میں آپ کو بتلاؤں اگر کوئی دس یا پھر بیس روپئے بھی کسی کا رکھ لے گا تو اس کے ساتھ بھی ایسا کیا جائے گا،جولوگ بھی لوگوں کے معمولی چیزوں کو اپنے پاس رکھ لیتے ہیں اور مانگنے پر بھی نہیں دیتے ہیں وہ لوگ یہ جان لیں کہ جو دوسروں کا حق مارکر سجدوں میں روئے گا تو اس کے گناہ دھل نہیں جائیں گے،لوگوں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ ہم سجدے میں رو لیں گے ،رب کے حضورگڑگڑلیں گے تو معاف ہوجائے گا ،جی نہیں یہ حقوق العباد کا معاملہ اتنا آسان نہیں ہے جتنا ہم نے سمجھ لیاہے،لوگوں کے ساتھ کیاگیا فراڈ ،یہ خانۂ کعبہ کا چکرلگانے سے بھی معاف نہیں ہوگابلکہ حقوق رکھنے اور ہڑپ کرجانے والا انسان تمام نیکیاں کرکے بھی جہنم کی آگ میں جلے گا،جیسا کہ فرمان مصطفیﷺ ہے ’’ مَنِ اقْتَطَعَ حَقَّ امْرِئٍ مُسْلِمٍ بِيَمِينِهِ ‘‘ كه جس نے کسی مسلمان کا حق جھوٹی قسم (وکیل وجج کو پیسہ کھلاکریا پھر کسی اور طریقے )کے ذریعے ہڑپ کرلیا تو ’’ فَقَدْ أَوْجَبَ اللهُ لَهُ النَّارَ وَحَرَّمَ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ ‘‘ ایسے انسان کے لئے جہنم کی آگ واجب اور جنت حرام ہوجاتی ہے،یہ سن کرکسی صحابی نے کہا کہ اے اللہ کے نبیﷺ ’’ وَإِنْ كَانَ شَيْئًا يَسِيرًا ‘‘ اگر وہ معمولی چیز ہو؟ تو آپﷺ نے فرمایا ’’ وَإِنْ قَضِيبًا مِنْ أَرَاكٍ ‘‘اگر چہ وہ پیلو کی مسواک کی ایک ٹہنی ہی کیوں نہ ہو۔(مسلم:137)اب آپ ہی خود فیصلہ کرلیں کہ مسواک کی ایک ٹہنی کی کیا قیمت ہوتی ہے،یہی نہ 20/30/40/50 روپئے ،اب اگر کوئی اس کے برابر بھی کسی کا حق رکھ لیا تو اس کے اوپر بھی جنت حرام اور جہنم کی آگ واجب ہوجاتی ہے،کیاحال ہوگا ان لوگوں کا جو لاکھوں روپئے کسی سے قرضہ لیتے ہیں مگر نہیں دیتے ہیں، تو جولوگ بھی قرضہ واپس نہیں کرتے ہیں وہ لوگ ذرا یہ حدیث بھی سن لیں کہ جو انسان مقروض ہوکر مرتاہے یعنی کسی کا روپیہ پیسہ رکھ کر مرجاتاہے تواس کی مغفرت بھی نہیں ہوتی ہے جیسا کہ جناب محمدعربیﷺ نے فرمایا ’’ نَفْسُ الْمُؤْمِنِ مُعَلَّقَةٌ مَا كَانَ عَلَيْهِ دَيْنٌ ‘‘ كه ایک مومن کی مغفرت کا معاملہ اس وقت تک معلق رہتاہے جب تک کہ اس کے قرض کو ادا نہ کردیا جائے۔(ابن ماجہ : 2413،احمد:9679،اسنادہ صحیح)اس لئے میرے دوستو! اگر آپ اپنی نیکیوں سےخود فائدہ اٹھاناچاہتے ہو تو پھرکبھی بھی کسی کا حق اپنے پاس نہ رکھ لیا کریں اور اگرآپ میں سے کسی نے کسی کا حق رکھ لیاہے تو وہ رمضان شروع ہونے سے پہلے پہلے ضروربالضرور اس حق کو لوٹادے یا پھر اس معاملے کا رفع دفع کرلے ۔

5۔اپنے اخلاق کو اچھاکریں:

میرے دوستو! اسلام کی ایک اعلی اور پاکیزہ تعلیم یہ ہے کہ اسلام اپنے ماننے والوں کو اخلاق حسنہ کی تعلیم دیتاہے اور ہربرے اخلاق وکردار سے اپنے آپ کو دور رکھنے کا حکم دیتاہے،مگرافسوس کے ساتھ مجھے یہ کہنا پڑرہاہے کہ جس مذہب کی تعلیم وبنیاد ہی اچھے اخلاق وکردارکو اپنانے کی ہے آج اسی مذہب کو ماننے والے لوگ سب سے زیادہ برے اخلاق وکردار کے حامل بن چکے ہیں، آج ایسی کون سی خرابی وبرائی نہیں ہے جوہم مسلمانوں کے اندر نہ ہو، غیبت وچغلخوری ،جھوٹ وفریب،فراڈ ودھوکا،گالی گلوچ،لڑائی جھگڑے،بغض وعدوات،حسد وجلن،کبروغرور،غرض یہ کہ ہربرےاخلاق وکردار میں آج کا ہرمسلمان مشہورومعروف بن چکا ہے،جس کانتیجہ یہ ہورہاہے کہ دشمنان اسلام مسلمانوں کے برے اخلاق وکردار کو لوگوں کے سامنے میں پیش کرکےاسلام کو نشانہ بنارہے ہیں اور یہ کہہ رہے کہ جیسا مسلمانوں کا اخلاق وکردار ہے وہی اسلام ہے،جب کہ حقیقت بالکل ہی اس کے برعکس ہے،کہاں اسلام کی اعلی اخلاق کی تعلیم اور کہاں آج کل کے مسلمانوں کا گھٹیاکردار وعمل،ایک دورتھا جب لوگ مسلمانوں کے کردار وعمل کو دیکھ کراسلام قبول کرلیتے تھے اورایک آج کل کا دور ہے لوگ مسلمانوں کے کرداروعمل کو دیکھ کر اسلام سے ہی بدظن ہوتے جارہے ہیں ،اس لئے میرے دوستو!اپنے اخلاق وکرداراچھاکرواور ہربرے اخلاق وکردار سے اپنے آپ کو دوررکھو کیونکہ جن حرکتوں کی وجہ سے ایک مسلمان کا نیک عمل ضائع وبرباد ہوجاتاہے اس میں سے ایک چیز برا اخلاق وکردار بھی ہے،یہ برے اخلاق وکردار نیکیوں کے لئے سم قاتل اور زہر قاتل ہے،اچھے اور عمدہ اخلاق سے جہاں ایک طرف ایک انسان بڑے بڑے درجات کو حاصل کرسکتاہے جیسا کہ اماں عائشہؓ کہتی ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا ’’ إِنَّ الْمُؤْمِنَ لَيُدْرِكُ بِحُسْنِ خُلُقِهِ دَرَجَةَ الصَّائِمِ الْقَائِمِ ‘‘کہ بے شک کہ ایک مومن اپنے اچھے اخلاق وکردار کی وجہ سے ایک روزہ رکھنے والے اور قیام کرنے والے کے برابر درجہ حاصل کرلیتاہے۔(ابوداؤد:4798،اسنادہ صحیح)اور ایک دوسری روایت کے الفاط ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا ’’ وَإِنَّ صَاحِبَ حُسْنِ الخُلُقِ لَيَبْلُغُ بِهِ دَرَجَةَ صَاحِبِ الصَّوْمِ وَالصَّلَاةِ ‘‘ کہ ایک اچھے اخلاق والامسلمان اپنے اچھے اخلاق وکردار کی وجہ سے روزہ دار اور نمازی کا درجہ حاصل کرلیتاہے۔(ترمذی:2003،اسنادہ صحیح) وہیں دوسری طرف برے اخلاق وکردار کی نحوست یہ ہے اس کی وجہ سے ایک انسان کے سارے اعمال حسنہ ضائع وبرباد ہوجاتےجیسا کہ فرمان نبویﷺ ہے كه’’ إِنَّ سُوءَ الْخُلُقِ يُفْسِدُ الْعَمَلَ كَمَا يُفْسِدُ الْخَلُّ الْعَسَلَ ‘‘ بے شک بداخلاقی وبدکرداری نیک اعمال کو ایسے ہی ضائع وبرباد کردیتی ہے جس طرح سرکہ شہد میں بگاڑ پیداکردیتاہے۔(الصحیحۃ:906)برے اخلاق کی انہیں ہلاکت خیزیوں کی وجہ سے ہی آپﷺ ہمیشہ اکثروبیشتر برے اخلاق وکردارسے اللہ کی پناہ پکڑا کرتے تھے جیسا کہ قُطْبَہ بن مالکؓ بیان کرتے ہیں کہ آپﷺ یہ دعاکیا کرتے تھے کہ ’’ اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ مُنْكَرَاتِ الأَخْلَاقِ وَالأَعْمَالِ وَالأَهْوَاءِ وَالْأَدْوَاءِ ‘‘اے اللہ! میں برے اخلاق،برے اعمال اور بری خواہشات اور ہرچھوٹی بڑی بیماریوں سے تیری پناہ پکڑتا ہوں۔(ترمذی:3591،صحیح الجامع للألبانیؒ:1298)

6۔جھوٹ،غیبت اورچغل خوری ولڑائی جھگڑا سے بچیں:

میرے دوستو! آپﷺ نے ہمیں یہ حکم دیا ہے کہ ہم روزے کی حالت میں کسی سے لڑائی جھگڑا نہ کریں اور نہ ہی جھوٹ بولیں اور نہ ہی کسی کی غیبت وچغل خوری کرے جیسا کہ فرمان مصطفیﷺ ہے ’’ وَالصِّيَامُ جُنَّةٌ وَإِذَا كَانَ يَوْمُ صَوْمِ أَحَدِكُمْ فَلاَ يَرْفُثْ وَلاَ يَصْخَبْ ‘‘ روزه ڈھال ہے اور اگرکوئی روزہ دار ہوتواسے چاہئے کہ وہ فحش گوئی نہ کرے اور نہ ہی شورمچائے،’’ وفی روایۃ : وَلاَ يَجْهَلْ ‘‘ اور نہ ہی جہالت بھری بیہودہ حرکتیں کریں،’’ وفی روایۃ: وَلَا يُؤْذِي أَحَدًا ‘‘ اور نہ ہی کسی کو تکلیف دے،’’ وفی روایۃ : وَلَا يَفْسُقْ ‘‘ اور نہ ہی کوئی فسق وفجور والا کام کرے، اور اگر ’’ فَإِنْ سَابَّهُ أَحَدٌ أَوْ قَاتَلَهُ ‘‘ کوئی دوسرا اسے گالی دے یا پھر لڑائی جھگڑا پر آمادہ کرے تو وہ انسان بس اتنا کہے کہ ’’ إِنِّي امْرُؤٌ صَائِمٌ ‘‘ میں روزہ کی حالت میں ہوں۔ (بخاری:1904،ابوداؤد:2363،مسلم:1151،احمد:10635)سنا آپ نے کہ آپﷺ نے ہرروزے دار کو یہ نصیحت کی ہے کہ وہ کسی بھی صورت میں روزے کی حالت میں لڑائی وجھگڑا نہ کرے اور نہ ہی کسی کوگالی گلوچ کرے اور نہ ہی روزہ دارجھوٹ بولے اور نہ ہی روزہ دار کسی کی غیبت کرے،مگر دیکھا یہ جاتاہے کہ اکثر وبیشتر لوگ رمضان کے مہینے میں روزہ کی حالت میں جھوٹ بولتے ہیں ،غیبت وچغلخوریاں کرتے ہیں،اور تو اور ہے خاص طور سے لوگ رمضان کے دنوں میں امام ومؤذن اور مساجد کے ذمہ داروں کی غیبت کرتے رہتے ہیں ،تو جو لوگ بھی روزہ کی حالت میں اس طرح کی بری بری حرکتوں کو انجام دیتے ہیں وہ لوگ یہ جان لیں کہ روزے کے اجروثواب کو ضائع وبرباد کردینے والا ایک عمل اور ایک حرکت یہ بھی ہے کہ انسان روزے کی حالت میں لڑائی وجھگڑا کرے،یا پھر جھوٹ بولے یا پھرغیبت وچغل خوری وغیرہ کرے،جیسا کہ سیدنا ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا ’’ مَنْ لَمْ يَدَعْ قَوْلَ الزُّورِ وَالعَمَلَ بِهِ فَلَيْسَ لِلَّهِ حَاجَةٌ فِي أَنْ يَدَعَ طَعَامَهُ وَشَرَابَهُ ‘‘ جس شخص نے روزے کی حالت میں جھوٹ بولنا اور اس پر عمل کرنا نہ چھوڑا (وفی روایۃ: وَالْجَهْلَ یعنی بیہودہ باتیں وفحش گوئی وغیرہ)تو اللہ رب العزت کو کوئی ضرورت نہیں ہے کہ ایسا انسان اپنا کھانا پینا چھوڑدے۔(بخاری:6057،ابن ماجہ:1689)اور ایک دوسری روایت کے اندر ہےکہ آپﷺ نے فرمایا ’’ مَنْ لَمْ يَدَعِ الْخَنَا وَالْكَذِبَ فَلَا حَاجَةَ لِلَّهِ عَزَّ وَجَلَّ فِي أَنْ يَدَعَ طَعَامَهُ وَشَرَابَهُ ‘‘ یعنی جس نے روزے کی حالت میں بدزبانی وفحش گوئی اور جھوٹ کو نہ چھوڑا تو اللہ رب العزت کو اس کے کھانا پینا چھوڑدینے کی کوئی حاجت وضرورت نہیں ہے۔(طبرانی:472،صحیح الترغیب والترھیب:1080)اس لئے میرے بھائیو اور بہنو!ہمیشہ اور بالخصوص روزے کی حالت میں اپنی زبان کی ضروربالضرور حفاظت کیا کرو ورنہ تمہارے روزے کا اجروثواب ضائع وبرباد ہوجائے گا۔

7۔قطع تعلقی کو ختم کرکے رشتے داروں سے صلح وصفائی کرلیں:

میرے دینی بھائیو اور بہنو!رمضان شروع ہونے میں بس کچھ ہی دن بچاہوا ہےاور آپ نے اس کی فضیلت میں یہ سن رکھاہوگا کہ یہ مہینہ وہ مہینہ ہے جس میں رب کی مغفرت عام ہوجاتی ہےیہی وجہ ہے کہ آپﷺ نے اس انسان کو ملعون ومبغوض قراردیا ہے جس کی رمضان میں مغفرت نہ ہوسکی ہو(طبرانی:5922،ٍصحیح ابن حبان:409،صحیح الجامع للألبانیؒ:34)تو یہ مغفرت ورحمت کا مہینہ اور نیکیوں کا موسم بہار بس آنے ہی والا ہےمگرکیا آپ جانتے ہیں کہ کچھ ایسے بدنصیب لوگ بھی ہیں جن کی نہ تومغفرت ہوپاتی ہے اور نہ ہی ایسے لوگوں کے نامۂ اعمال کو شرف قبولیت سے بخشا جاتاہے۔اللہ کی پناہ!سننا اور جاننا چاہتے ہیں کہ وہ کو ن بدنصیب لوگ ہیں جن کے ساتھ ایسا معاملہ کیاجاتاہے تو سنئے ،وہ ایسے لوگ ہیں جو نمازی وحاجی تو ہیں،رمضان کے روزے بھی رکھتے ہیں،صدقہ وخیرات بھی کرتے ہیں مگر ان کی فلاں فلاں رشتے داروں سے سالوں سے بات چیت بندہے،نیکیوں کو تو انجام دیتے ہیں مگر برسوں سے اپنے خاص بھائی سے بات چیت بند کررکھاہے تو اس طرح کے جتنے بھی لوگ ہیں وہ کان کھول کرسن لیں کہ وہ رمضان آنے سے پہلے پہلے اپنے رشتے داروں اور اپنے بھائیوں اور بہنو سے اپنے تمام اختلافات کو ختم کرکےدل سے دل ملاکر گلے گلے مل لیں، ورنہ نہ تو ان کی مغفرت ہوگی اور نہ ہی ان کے نامۂ اعمال کو شرف قبولیت سے بخشا جائے گا،اگرآپ کو میری باتوں پر یقین نہ ہورہاہو تو پھر خود اپنی کانوں سے فرمان مصطفیﷺ کو سن لیجئے،سیدنا ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا ’’ تُفْتَحُ أَبْوَابُ الْجَنَّةِ يَوْمَ الْإِثْنَيْنِ وَيَوْمَ الْخَمِيسِ ‘‘ کہ ہرپیر اور جمعرات کے دن جنت کا دروازہ کھولا جاتاہے،اور ایک دوسری روایت کے اندر ہے کہ ’’ تُعْرَضُ الْأَعْمَالُ فِي كُلِّ يَوْمِ خَمِيسٍ وَاثْنَيْنِ ‘‘ ہرپیر اور جمعرات کے دن اللہ کے حضور نامۂ اعمال کو پیش کیا جاتاہے۔(مسلم:2565) چنانچہ ’’ فَيُغْفَرُ لِكُلِّ عَبْدٍ لَا يُشْرِكُ بِاللهِ شَيْئًا إِلَّا رَجُلًا كَانَتْ بَيْنَهُ وَبَيْنَ أَخِيهِ شَحْنَاءُ ‘‘ہرمسلمان کی مغفرت کردی جاتی ہے سوائے مشرک اور ان دومسلمان آدمیوں کے جن کے درمیان میں دشمنی ہو، ان کی مغفرت نہیں کی جاتی ہے یعنی جن دو اشخاص کے درمیان بغض وعداوت یا پھر دشمنی ہوتی ہے اور بات چیت بند ہوتی ہے تو ایسے لوگوں کی مغفرت نہیں کی جاتی ہے بلکہ ایسے لوگوں کے بارے میں تین مرتبہ یہ بات کہی جاتی ہے کہ ’’ أَنْظِرُوا هَذَيْنِ حَتَّى يَصْطَلِحَا، أَنْظِرُوا هَذَيْنِ حَتَّى يَصْطَلِحَا، أَنْظِرُوا هَذَيْنِ حَتَّى يَصْطَلِحَا ‘‘ ان دونوں کومہلت دی جائے یہاں تک کہ یہ صلح کرلیں ،یعنی کہ ان دونوں کو صلح کرنے تک مغفرت کو ملتوی کردیاجاتاہے۔(مسلم:2565)ميرےبھائیو اور بہنو !سنا آپ نے کہ جن کے درمیان دشمنی ہوتی ہے نہ تو ان کی مغفرت ہوتی ہے اور نہ ہی ان کے نامۂ اعمال کو شرف قبولیت سے بخشاجاتاہے تو ذرا سوچئے کہ کیا حال ہوگا ان لوگوں کا جو نیکیاں تو کرتے ہیں ،حج وعمرہ تو کرتے ہیں،نماز وزکاۃ تو اداکرتے ہیں مگر اپنے بھائیو اور بہنو اور اپنے رشتے داروں سے دشمنی رکھتے ہیں اور برسوں سے بات چیت نہیں کرتے ہیں بلکہ کتنے خاندان تو ایسے ہیں جن کےدرمیان نسل در نسل سے دشمنی چلی آرہی ہے،تو جو لوگ بھی اس بری حرکت کے شکار ہیں اگر وہ اپنی نجات چاہتے ہیں تو رمضان شروع ہونے سے پہلے پہلے نہیں،بلکہ آج اور ابھی جمعہ کے بعدہی جاکر اپنے اپنے رشتے داروں سے گلے مل لیں اور ایک دوسرے کو دل بڑا کرکے معاف کردے،ورنہ رمضان میں بھی ان کی مغفرت نہ ہوگی ۔

8۔حرام کمائی کرنا چھوڑ دیں:

میرے دوستو!اگرآپ اپنی تمام عبادتوں کو قبول کرانا چاہتے ہیں اور اگر آپ یہ چاہتے ہیں کہ آپ کی نیکیاں محفوظ رہے تو پھر آپ ذرا اپنی کمائی کا جائزہ لیں کہ آپ کی کمائی کیسی ہے؟کیونکہ حرام کمائی کرنے اور حرام کھانے والوں کی نہ ہی نماز ،نہ ہی روزے،نہ ہی حج وعمرے،نہ ہی قربانی اور نہ ہی صدقہ وخیرات اور نہ ہی دعا وغیرہ کوئی بھی عبادت قبول نہیں کی جاتی ہےجیسا کہ سیدنا ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایاکہ اے لوگو! ’’ إِنَّ اللَّهَ طَيِّبٌ وَلَا يَقْبَلُ إِلَّا طَيِّبًا ‘‘ اللہ پاک ہے اور پاک چیزوں کو ہی قبول کرتاہے،’’ وَإِنَّ اللَّهَ أَمَرَ المُؤْمِنِينَ بِمَا أَمَرَ بِهِ المُرْسَلِينَ ‘‘اور اللہ رب العزت نے ایمان والوں کو وہی حکم دیا ہےجو اس نے تمام نبیوں اوررسولوں کو دیا تھا،جیسا کہ فرمان باری تعالی ہے’’ يَا أَيُّهَا الرُّسُلُ كُلُوا مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَاعْمَلُوا صَالِحًا إِنِّي بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ ‘‘اے رسولو!حلال چیزیں کھاؤ اور نیک عمل کرو،تم جوکچھ کررہے ہو اس سے میں بخوبی واقف ہوں۔(المومنون:51)اس آیت کی تفسیرکرتے ہوئے حافظ صلاح الدین یوسفؒ لکھتے ہیں کہ ’’اکل حلال کے ساتھ عمل صالح کی تاکید سے معلوم ہوتاہے کہ ان کا آپس میں گہرا تعلق ہے اور یہ ایک دوسرے کے معاون ہیں،اکل حلال سے عمل صالح آسان ہوجاتاہے اور عمل صالح انسان کو اکل حلال پر آمادہ اور اسی پر قناعت کرنے کا سبق دیتاہے اسی لئے اللہ نے تمام پیغمبروں کو ان دونوں باتوں کا حکم دیا‘‘۔(احسن البیان:783)پھرآگے آپﷺ نےفرمایا کہ یہی رزق حلال کا حکم اللہ رب العزت نے ایمان والوں کو دیتے ہوئے کہا کہ ’’ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُلُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ ‘‘اے ایمان والو!جوپاکیزہ چیزیں ہم نے تمہیں دے رکھی ہیں انہیں کھاؤ اور پیو۔(البقرۃ:172) ان دونوں آیتوں کی تلاوت کرنے کے بعدآپﷺ نے ایک ایسے آدمی کا ذکر کیا جس کے بال لمبے سفر کی وجہ سے بکھرے ہوئے ہیں اورکپڑے گردوغبار سے اٹے ہوئے ہیں،یہ مسافر انسان ’’ يَمُدُّ يَدَيْهِ إِلَى السَّمَاءِ يَا رَبِّ يَا رَبِّ ‘‘اپنے دونوں ہاتھوں کو آسمان کی طرف پھیلا کردعائیں کرتاہے اور کہتاہے کہ اے میرے رب!اے میرے رب !یعنی دعائیں کرتاہے،مگر اس کا حال یہ ہے کہ ’’ وَمَطْعَمُهُ حَرَامٌ وَمَشْرَبُهُ حَرَامٌ وَمَلْبَسُهُ حَرَامٌ ‘‘ اس کا کھانا وپینا اور لباس حرام کا ہے،صرف یہی نہیں بلکہ ’’ وَغُذِيَ بِالْحَرَامِ ‘‘اور حرام ہی سے وہ پلابڑھا ہے ’’ فَأَنَّى يُسْتَجَابُ لِذَلِكَ ‘‘تو اس کی دعا کیسے قبول ہوگی؟(مسلم:1015،ترمذی:2989)اللہ کی پناہ!ذرا سوچئے میرے بھائیو اوربہنو!جب حرام کھانے وپینے اورحرام پہننے سے دعاقبول نہیں ہوتی ہے تو پھر یہ نماز وروزے ،حج وعمرے،زکاۃ اور صدقات وخیرات وغیرہ کیسے قبول ہوگی،اس لئے آپ رمضان سے پہلے پہلے اپنی کمائی وغیرہ کا بخوبی جائزہ لے لیں کہ آپ کی کمائی کیسی ہے اور آپ اپنے بچوں کو کیا کھلاپلا رہے ہیں کیونکہ جو حرام کمائی کرتاہے اس کی تو عبادتیں رائیگاں وبرباد تو ہوتی ہی ہیں ،ساتھ میں جن جن لوگوں کی پرورش حرام کمائی سے ہوتی ہے ان کی بھی کوئی عبادت قبول نہیں کی جاتی ہے۔

9۔ٹخنے سے نیچے کپڑا لٹکانا چھوڑ دیں:

میرے دینی بھائیو!اب میں جس بات کا تذکرہ کرنے جارہاہوں اس سے صرف مردحضرات ہی مراد ہیں ،اس حکم سے خواتین بالکل ہی مستثنیٰ ہیں،یعنی یہ بات صرف اور صرف مردحضرات کے لئےہے اسی لئے میرے سامنے میں جو مرد حضرات بیٹھے ہیں وہ ذرا میری طرف متوجہ ہوجائیں،اور اگر کسی کو نیندآرہی ہو تو وہ ذرا ہوش میں آکر میری اس بات کو سنیں کہ جن حرکتوں سے آپ کی نیکیاں ضائع وبرباد ہوجائیں گی اس میں سے اب ایک ایسی چیز کا تذکرہ کرنے جارہاہوں جس کے اندر بہت سارےنمازی و حاجی مرد حضرات شامل ہیں بلکہ بہت سارے اہل علم بھی ملوث نظر آتے ہیں،مگر انہیں اس بات کی خبرنہیں ہے کہ اس حرکت سے ان کی ساری نیکیاں ضائع وبرباد ہورہی ہیں،لوگوں کو یہ فیشن نظرآتاہے مگر ہمارے اورآپ کے حبیبﷺ نے اسے عذاب دلانے والا اور جہنم میں لے جانے والاعمل قرار دیاہے،ہماری نظر میں یہ عمل مرغوب ومحبوب ہے مگر ہمارے رب کے نزدیک وہی عمل قابل نفرت ہے،صرف قابل نفرت نہیں بلکہ ایساانسان رب کی رحمت وعنایات اور مغفرت سے محروم رہے گا،اللہ کی پناہ! یہ اتنا برا عمل ہے مگر نیکیوں کو انجام دینے والے نمازی اور روزے رکھنے والے لوگ بڑے شوق سے انجام دیتے ہیں،سننا چاہتے ہیں وہ کیا عمل ہے؟تو سنئے وہ ہے اپنا کپڑا اور اپناازار ولنگی ،پینٹ وپائجامہ وغیرہ ٹخنے سے نیچے لٹکانا،جی ہاں !میرے دوستو!آپ نے بالکل ہی صحیح سنا ،یہ ٹخنے سے نیچے اپنے کپڑے کو لٹکانا یہ اتنا بڑا جرم ہے کہ اس کی وجہ سے ایک انسان کی سب نیکیاں ضائع وبرباد ہوجائیں گی،آپ اسے معمولی نہ سمجھیں بلکہ آج اور ابھی سے ہی اپنی اس حرکت سے باز آ جائیں ورنہ نمازوروزہ ،حج وعمرے،زکاۃ اورصدقات وخیرات وغیرہ یہ سب کے سب دھرے رہ جائیں گے اور آپ بروز قیامت خدائے بزرگ وبرتر کے غیظ وغضب کے شکار ہوجائیں گے،اگر آپ کو میری باتوں پر یقین نہ ہورہاہو توپھر ذرا اپنے نبیﷺ کا یہ فرمان سن لیں ! سیدنا ابوذرؓ بیان کرتے ہیں کہ آپﷺ نےتین مرتبہ یہ فرمایا کہ’’ ثَلَاثَةٌ لَا يُكَلِّمُهُمُ اللهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا يَنْظُرُ إِلَيْهِمْ وَلَا يُزَكِّيهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ‘‘تین آدمی ایسے ہیں جن سے کل قیامت کے دن رب العزت نہ تو بات کرے گا اور نہ ہی ان کی طرف نظر رحمت سے دیکھے گا اور نہ ہی ان کو پاک وصاف کرے گا بلکہ ان سب کو سخت سے سخت سزائیں بھی دے گا،تو ابوذرؓ نے کہا کے اے اللہ کے حبیبﷺ ایسے لوگ ہلاک وبرباد ہوں او ر ایسے لوگوں کا ستیاناس ہوجائے ،وہ کون لوگ ہیں تو آپﷺ نے فرمایا کہ ’’ أَلْمُسْبِلُ وَالْمَنَّانُ وَالْمُنَفِّقُ سِلْعَتَهُ بِالْحَلِفِ الْكَاذِبِ ‘‘ نمبر ایک اپنا کپڑا ٹخنوں سے نیچے رکھنے والا اور نمبر دو احسان جتلانے والا اور نمبر تین جھوٹی قسم کھا کر اپنا مال بیچنے والا۔(مسلم:106،ابن ماجہ:2208) اب آپ ہی بتائیں کہ جو انسان نمازی ہے ،رمضان میں روزے بھی رکھتاہے اور تراویح کی نماز بھی ادا کرتاہے،دوچارعمرہ وحج بھی کرلیاہےزکاۃ بھی ادا کرتاہےاوردیگر طرح طرح کے نیک اعمال کو بھی انجام دیتا ہے مگر اپنا کپڑا ٹخنوں سے نیچے رکھتاہے،لوگوں پر احسان جتلاتاہے اور اپنا مال جھوٹی قسم کھاکر بیچتاہے تو جب اللہ رب العزت ایسے لوگوں کی طرف نظر رحمت سے ہی نہیں دیکھے گا اور نہ ہی بات کرے گااور ایسے انسانوں کو سخت سے سخت سزائیں بھی دے گا تو ظاہرسی بات ہے کہ ایسے لوگوں کے سارے اعمال حسنہ ضائع وبرباد ہی ہوجائیں گے۔اللہ کی پناہ!اس لئے میرے بھائیو! ان تینوں حرکتوں سے باز آ کر اپنے نیک اعمال کو بچالو ورنہ کل قیامت کے دن بہت پچھتاؤگے۔

10۔اپنے اپنے تنہائیوں کی حفاظت کرو:

میرے دوستواور نوجوان ساتھیو!اگرآپ اپنی نیکیوں کو ضائع وبرباد ہونے سے بچاکر اپنی نیکیوں سے فائدہ اٹھاناچاہتے ہیں تو پھر اپنے اپنے تنہائیوں کی حفاظت کرو،اب آپ یہ سوچ رہے ہوں گے کہ نیکیوں کا تنہائیوں سے کیا لینا دینا ہے؟تو آپ کو میں یہ بتادوں کہ ہماری نیکیوں کا ہماری تنہائیوں سے بہت ہی گہرا رشتہ ہے،اگرہم اپنی تنہائیوں کی حفاظت کریں گے تو ہماری نیکیاں محفوظ رہیں گی ورنہ ہماری تمام نیکیاں ضائع وبرباد ہوجائیں گی،جیسا کہ سیدنا ثوبانؓ بیان کرتے ہیں کہ حبیب کائناتﷺ نے فرمایا ’’ لَأَعْلَمَنَّ أَقْوَامًا مِنْ أُمَّتِي يَأْتُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِحَسَنَاتٍ أَمْثَالِ جِبَالِ تِهَامَةَ بِيضًا ‘‘میں اپنی امت کے ان افراد کو ضروربالضرورپہچان لوں گا یا پھر جانتا اور پہچانتاہوں جو قیامت کے دن تہامہ کے پہاڑوں جیسی سفید اور روشن نیکیاں لے کر حاضر ہوں گے ،مگر ’’ فَيَجْعَلُهَا اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ هَبَاءً مَنْثُورًا ‘‘اللہ رب العالمین اس کی تمام نیکیوں کو ہوا میں اڑتے ہوئے چھوٹے چھوٹے ذرات کی مانند بے وقعت کردے گا یعنی اس کو شرف قبولیت سے نہیں بخشے گا،یہ سن کر ثوبانؓ نے کہا کہ اے اللہ کے نبیﷺ ’’ صِفْهُمْ لَنَا جَلِّهِمْ لَنَا أَنْ لَا نَكُونَ مِنْهُمْ وَنَحْنُ لَا نَعْلَمُ ‘‘ذرا ان کی صفات تو بیان کردیجئے،ان کے عادات واطوار کو ہمارے لئے واضح کردیجئے کہیں ایسا نہ ہوکہ ہم بھی ان میں شامل ہوجائیں اور ہمیں اس کا احساس تک نہ ہو۔اللہ اکبر۔آگے بڑھنے سے پہلے یہاں ذرا رک کراور اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر سوچئے کہ یہ سوال کرنے والے کون ہیں؟یہ وہ انسان ہے جن کا لقب ہی ہے رضی اللہ عنہ ورضوا عنہ،یعنی جنتی ہے ،مغفورومرحوم ہیں مگر پھر بھی اپنی نیکیوں کی حفاظت کی فکر اور اپنی نیکیوں کی بربادی کاڈر وخوف دیکھئے کہ سوال پر سوال کئے جارہے ہیں اور کہہ رہے کہ اے اللہ کے نبیٔ اکرم ومکرمﷺ ذرا واضح کرکے بتادیجئے کہیں ایسا نہ ہوکہ انجانے میں ہم بھی انہیں بدبختوں میں شامل ہوجائیں اور ہمیں پتہ بھی نہ چلےتو حبیب کائنات ومحبوب خداﷺ نے فرمایا کہ سنو !’’ أَمَا إِنَّهُمْ إِخْوَانُكُمْ وَمِنْ جِلْدَتِكُمْ وَيَأْخُذُونَ مِنَ اللَّيْلِ كَمَا تَأْخُذُونَ ‘‘وہ تمہارے بھائی ہیں اور تمہارے ہی جنس سے ہیں یعنی وہ کلمہ گومسلمان ہوں گےاور جس طرح سے راتوں میں تم عبادت کرتے ہوٹھیک اسی طرح سے وہ لوگ بھی راتوں میں قیام کرنے والے لوگ ہوں گے، مگر ان کی عادت وخصلت یہ ہوگی کہ وہ موقع دیکھ کر چوکا اور چھکا مارنے والے لوگ ہوں گے،فرمایا’’ وَلَكِنَّهُمْ أَقْوَامٌ إِذَا خَلَوْا بِمَحَارِمِ اللَّهِ انْتَهَكُوهَا ‘‘وہ اس طرح سے کہ جب انہیں تنہائی میں اللہ کے حرام کردہ گناہوں کاچانس وموقع ملے گا تو وہ ان کا بلاجھجھک ارتکاب کرلیں گے ۔(ابن ماجہ:4245،الصحیحۃ:505)اللہ کی پناہ!اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے مولانا عطاء اللہ ساجدحفظہ اللہ لکھتے ہیں کہ بہت سے گناہ نیکیوں کو ضائع کردیتے ہیں،نمبر دو یہ کہ لوگوں کے سامنے نیک بنے رہنا اور تنہائی میں گناہ کا ارتکاب بے تکلف کرلینا،یہ بھی ایک قسم کی منافقت ہے جس کی وجہ سے اعمال ضائع ہوجاتے ہیں،نمبر تین یہ کہ تہجد پڑھنا بڑی نیکی ہے لیکن اس سے زیادہ ضروری تنہائی میں تقوی پر قائم رہنا ہے اور نمبر چار یہ کہ اصل تقوی یہی ہے کہ انسان اس وقت بھی گناہ سے باز رہے جب اسے دیکھنے والا کوئی نہ ہو۔۔۔(شرح ابن ماجہ ترجمہ وفوائداز مولانا عطاء اللہ ساجدحفظہ اللہ:5/496)

میرے دینی وملی بھائیو اور بہنو!ذرا اپنے تنہائیوں کےبارے میں ہوشیار وچوکنا رہنا،کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہارا بھی شمار وحشر انہیں لوگوں جیساہوجن کے بارے میں آپ ﷺ نے خبر دی ہے کیونکہ پہلے دور کی بنسبت اب کے دور میں اپنے تنہائیوں کی حفاظت کرنی بہت مشکل ہے مگر ناممکن نہیں ہے،اللہ سے ڈرنے والوں کے لئے یہ کوئی مشکل معاملہ نہیں ہے،آج اکثر وبیشتر لوگ تنہائی میں کچھ اور اور محفل ومجلس میں کچھ اور نظر آتے ہیں،جلوت میں تو لوگ بڑے پارسا اور متقی نظرآتے ہیں مگر خلوت میں اللہ کے تمام حدوں کو توڑنے والے اور تمام محرمات کا ارتکاب کرنے والے ہوتے ہیں، اور خاص طور سے جب سے یہ موبائل شریف آیا ہے تب سے تو کسی کی تنہائیاں محفوظ نہیں ہے۔الا ماشاء اللہ۔آج اسی موبائل کی وجہ سے ہی عوام وخواص مرد وعورت اوربالخصوص نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کی تنہائیوں کا تو جنازہ نکل چکا ہے،آپ تصوربھی نہیں کر سکتے ہیں کہ وہ اس کا اپنی تنہائیوں میں کتناغلط استعمال کرتے ہیں،اب آپ یہ مت کہیں کہ میری اولاد پرمجھے بہت بھروسہ ہے وہ ایساویساکچھ نہ کرے گی تو آپ کو یہ بات معلوم ہونی چاہئے اور آپ خود اس عمر کے دور سے گذر چکے ہیں کہ یہ عمر کا ایک ایسا پڑاؤ ہوتاہے جہاں پر اکثر لوگوں کےپاؤں ڈگمگاجاتے ہیں ،اس لئے اپنی اولاد کو چاہے وہ لڑکا ہو یا پھر لڑکی اس موبائل کے غلط استعمال سے ہونے والے نقصانات سے ہمیشہ متنبہ کرتے رہا کریں،آج ہرکوئی تنہائی میں اس موبائل کا غلط استعمال کرتے نظرآتاہے اور وہ یہ سوچتاہے کہ کوئی تھوڑی دیکھ رہاہے!مگر ایسا انسان یہ بھول رہاہے کہ کوئی دیکھے یا نہ دیکھے،ماں باپ دیکھے یا نہ دیکھے مگر اللہ تو ضرور بالضرور دیکھ رہاہےاور ساتھ میں اللہ کے فرشتے اور خود اس انسان کے اعضاء وجوارح بھی تو دیکھ رہے ہیں جو کل بروز قیامت اس کے اس حرکت کی گواہی دیں گے،آج انسان یہ سمجھ رہاہے کہ اس کی تنہائیاں بہت سیکریٹ(چھپا ہوا) ہیں ،اسے کوئی نہیں جانتاہے مگر وہ یہ بھول رہاہے کہ ایک دین ایسا بھی آنے والا ہے جس دن ’’ يَوْمَ تُبْلَى السَّرَائِرُ ‘‘ جس دن پوشیدہ بھیدوں کی جانچ پڑتال ہوگی۔(الطارق:9)یعنی کہ سب کے سب راز کھل جائیں گے۔اس لئے میرے بھائیو اور بہنو! تنہائیوں میں اپنے موبائل کا غلط استعمال نہ کرواور یہ اچھی طرح سے جان لو کہ اس دورمیں اس جزو لاینفک موبائل کے ذریعے ہمارے ایمان کی آزمائش کی جارہی ہے ’’ مَنْ يَخَافُهُ بِالْغَيْبِ ‘‘ تاکہ اللہ معلوم کرلے کہ کون شخص اس سے بن دیکھے ڈرتاہے۔(المائدہ:94)جی ہاں !سن لیجئے!اللہ اس موبائل کے ذریعے ہماری تنہائیوں کا امتحان لے رہاہے ،اب ہمارے ہاتھ میں ہے کہ اپنی تنہائیوں کو میلاوکچیلا کرکے اپنے آپ کو ہلاک وبرباد کرلیں یا پھر اپنے تنہائیوں کو پاک وصاف رکھ کر کامیابی سے ہمکنارہوجائیں ۔

محترم سامعین وسامعات! افسوس کے ساتھ مجھے یہ کہنا پڑرہاہے کہ بہت سارے لوگ رمضان کے مہینے میں اور روزے کی حالت میں بھی ٹائم پاس کے نام پر بے حیائیوں ،گانے وڈانس پر مشتمل ریلس دیکھتے نظر آتے ہیں۔اعاذنااللہ۔ذرا آپ ہی خود فیصلہ کرلیں کہ کیا ایسے لوگوں کے روزوں کوقبول کیاجائے گا جو عین روزے کی حالت میں برائیوں میں مشغول رہتے ہیں،ہرگز نہیں !کبھی نہیں !ایسے لوگوں کے روزوں کی اللہ کو بالکل بھی ضرورت نہیں ہے اور یہ روزہ صرف کھانے پینے سے رک جانے کا نام تھوڑی ہے بلکہ اصل روزہ تو یہ ہے کہ انسان تمام بیہودہ لغویات وفضولیات سے اپنے آپ کو بچا کررکھے،اور یہ میں نہیں کہہ رہاہوں بلکہ یہ بات تو ہمارے اور آپ کے مشفق نبی جناب محمدعربیﷺ نے فرمایا ہے کہ ’’ لَيْسَ الصِّيَامُ مِنَ الْأَكْلِ وَالشُّرْبِ ‘‘روزہ یہ کھاناپینا چھوڑدینے کا نام نہیں ہے ’’ إِنَّمَا الصِّيَامُ مِنَ اللَّغْوِ وَالرَّفَثِ ‘‘بلکہ اصلی روزہ تو ہر لغو وبے ہودہ کام اور جنسی خواہشات پر مشتمل بات وحرکات وسکنات سے بچنے کا نام ہے۔(صحیح ابن خزیمہ:1996،صحیح الجامع للألبانیؒ:5376)سنا آپ نے کہ روزہ اصل کس چیز کا نام ہے؟ مگر افسوس !لوگ روزے کی حالت میں ڈانس وسونگس اور میوزک پر مشتمل حیا سوز مناظرکو ٹائم پاس کے نام پر دیکھتے رہتے ہیں اور پھر یہ سمجھتے ہیں کہ ان کا روزہ قبول کیا جائے گا،تو جولوگ بھی اس طرح کی حرکت کرتے ہیں اور کرتے تھے وہ ہمیشہ اس بری حرکت سے بچ کے رہیں اور باز آجائیں ورنہ ان کے روزے کا اجروثواب ضائع ہوجائے گااور پھر ان کا شمار انہیں لوگوں میں سے ہوگا جن کاذکرکرتے ہوئے حبیب کائنات ومحبوب خداﷺ نے کہا کہ ’’ رُبَّ صَائِمٍ لَيْسَ لَهُ مِنْ صِيَامِهِ إِلَّا الْجُوعُ ‘‘کتنے ایسے روزے دار ہیں جنہیں بھوک وپیاس کی شدت وتکلیف کو برداشت کرنے کے علاوہ کچھ بھی نہ ملے گا۔(ابن ماجہ:1690،صحیح الجامع للألبانیؒ:3488)اللہ کی پناہ! اللہ ہم سب کو ایسے لوگوں میں شامل ہونے سے محفوظ رکھے۔آمین۔ تو جولوگ بھی اپنی اپنی تنہائیوں میں اپنے موبائل کا غلط استعمال کرتے ہیں وہ لوگ رمضان سے پہلے پہلے اپنی اس حرکت سے باز آکر توبہ واستغفار کرلیں ورنہ ان کی ساری نیکیاں ضائع وبرباد ہوجائیں گی۔

میرے پیارے پیارے اسلامی بھائیو اور بہنو!یہ جتنی باتیں بھی آپ نے سنی ہیں یہ سب کے سب ہماری نیکیوں کے لئے زہرقاتل اور سم قاتل ہے،اگرہم نے اپنے آپ کوان ساری باتوں اور حرکات وسکنات سے دورنہیں رکھا تو یاد رکھ لیجئے کہ ادھر ہم نیکیاں کرتے رہیں گے اور ادھر ایک ایک کرکے ہماری نیکیاں ضائع وبرباد ہوتی رہیں گی،آئیے اسی بات کو میں ایک مثال کے ذریعےآپ کو سمجھاکراپنی بات کو ختم کردیتاہوں،مثال کے طور پر آپ نے بازار سے ایک سامان خریدا سمجھ لیجئے کہ آپ نے چینی خریدا ،دوکاندار نے اسے ایک کَوَروکیری بیگ میں ڈال کردیا،اورآپ بھی اس کوروکیری بیگ کو لے کراپنے گھرکے لئے روانہ ہوئے مگراس کور وکیری بیگ میں سوراخ تھا جو آپ نے دیکھا ہی نہیں تھا،اب آپ ہی بتائیں کہ اس کوروکیری بیگ کے سوراخ کو نہ دیکھنے کا نتیجہ کیا ہوگا ؟یہی نہ کہ آپ کے گھر آتے آتےاس سوراخ سےچینی وشکر تھوڑی تھوڑی کرکےگرتی جائے گی مگر آپ کو احساس نہ ہوگا،یہاں تک کہ جب آپ گھرپہنچیں گے تو وہ چیز پوری کی پوری گرچکی ہوگی یا پھر وہ چیز تو ہوگی مگر بہت قلیل مقدار میں جو آپ کی ضرورت کے لئے ناکافی ہوگی!دیکھئے آپ کی ایک غلطی یعنی کور یا وکیری بیگ کو بغورنہ دیکھنا نے آپ کے سامان کو بھی ضائع وبربادکردیا اور آپ کے پیسے اور وقت کو بھی ضائع وبرباد کردیا تو ٹھیک اسی طرح سے آپ یہ سمجھ لیں کہ آج جوہم نیکیاں کررہے ہیں یہ ہمارے لئے توشۂ آخرت ہے جسے ہم ایک جگہ جمع کررہے ہیں مگر جب ہم نیکیاں جمع کررہے ہیں تو اس توشہ دان میں اس طرح کے چھوٹے بڑے سوراخ ہیں،جس کا آج ہمیں احساس نہیں ہے مگر جب ہمارایہ توشۂ آخرت کھولا جائے گا تو وہ ان ہماری بری حرکتوں واعمال کی وجہ سےبالکل ہی خالی ہوجائے گا اورپھر اس وقت سوائے کف افسوس اور اپنے آپ کو لعنت وملامت کرنے کے کچھ اورہمارے پاس نہیں رہے گا،آج اگر دنیا کی کوئی چیز ضائع وبرباد ہوگئی تو آپ اسے دوبارہ حاصل کرسکتے ہیں مگر توشۂ آخرت اگر ضائع وبربادہوگیا تو یاد رکھ لیجئے کہ اسے دوبارہ کسی بھی صورت میں حاصل نہیں کرسکتے ہیں۔



اب آخر میں رب العزت سے دعاگوہوں کہ اے الہ العالمین تو ہم سب کی نیکیوں کی حفاظت فرمااور ہم سب کو تو ان تمام حرکات وسکنات سے دور رکھ جس سے نیکیاں ضائع وبرباد ہوجاتی ہیں۔آمین ثم آمین یارب العالمین۔

طالب دعا

ابومعاویہ شارب بن شاکرالسلفی​
 

اٹیچمنٹس

Top