• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

رمضان میں دینی سرگرمیوں پر اختلاف رائے

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
ہر سال رمضان میں کچھ چیزیں ایسی ہیں، اختلاف رائے کا سبب بن جاتی ہیں، اس سے مراد تراویح کی تعداد وغیرہ جیسے مشہور مسائل نہیں، بلکہ حفاظ کرام کے متعلق، نماز کی قصر وطوالت، اور دروس قرآن وغیرہ جیسے نئے مسائل ہیں۔
یہاں اس تھریڈ میں اس کے متعلق اظہار رائے کیا جاسکتا ہے۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
دورہ تفسیر اور درس قرآن پر بڑھتے ہوئے اعتراضات

وعظ و نصیحت اور دین کا درس و تدریس اس کا شمار مباح بلکہ مستحب امور میں ہوتا ہے.
حسب حال اس کے لیے کوئی بھی صورت اختیار کرلی جائے، اس میں کوئی حرج نہیں ہے. کوئی خاص طریقہ اختیار کرنے کی وجہ سے اسے بدعت یا ناجائز نہیں کہا جاسکتا۔ دور صحابہ سے لیکر اب تک اس کے لیے مختلف طریقے اور ذرائع اختیار کیے جاتے رہے ہیں، اور آئندہ بھی یہ ہوتا رہے گا۔
دورہ تفسیر، درس قرآن یا خلاصہ قرآن وغیرہ جیسی چیزوں کے بارے میں اشکال پیدا کرنا کہ یہ بدعت ہے، یہ سوچ جتنے بھی اخلاص سے آئی ہو، اس سے کوئی خیر برآمد ہونے والی نہیں ہے۔ اس سے اہل دین کا بیانیہ بالکل محدود رہ جائے گا، خیر کے سلسلے بند ہوجائیں گے، اور شر نت نئے طریقوں سے پھیلے گا.
نبی کریم صلے اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں قرآن بین الدفتین نہیں تھا، بعد میں کیا گیا، وقتی طور پر اس کے بدعت ہونے کا اشکال پیدا ہوا، لیکن پھر اللہ تعالی نے سب کو اس کی اہمیت و افادیت پر شرح صدر کردیا.
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے حدثنا و أخبرنا والی مجالس حدیث بپا نہیں ہوتی تھیں، بعد میں بالاتفاق یہ سلسلہ جاری رہا، اور سنت کے محفوظ ہونے کا ذریعہ بنا.
عہد نبوی میں تعلیم و تعلیم کا مدارس و جامعات کی طرح کا کوئی سلسلہ موجود نہیں تھا، اب یہ ساری امت میں رائج ہے۔
فہم قرآن، درس قرآن وغیرہ مجالس کا کسی بھی وقت اہتمام کیا جاسکتا ہے، اس میں کسی قسم کا کوئی حرج نہیں ہے، البتہ اس پر لوگوں کو مجبور نہ کیا جائے، جو شرکت کرنا چاہتا ہے، بڑے شوق سے بیٹھے، اورکوئی خود جاکر لمبا قیام اور تفسیر قرآن کا مطالعہ کرنا چاہتا ہو تو اس کی مزید حوصلہ افزائی کریں۔ اور جو شیطان صفت مسجدوں میں سنت بدعت کی اصولی بحثیں کرکے، گھر جاکر ٹی وی دیکھنا چاہتے ہیں، موبائل سے کھیلنا چاہتے ہیں، گپ شپ کی محفل بپا کرنا چاہتے ہیں، ان کے لیے بھی ہدایت کی دعا کی جاسکتی ہے۔
یہ بہت حیرانی کی بات ہے کہ کئی کئی گھنٹوں پر مشتمل فلمیں اور ڈرامے بلا تکان دیکھنے والی قوم میں آدھا گھنٹہ یا گھنٹہ ہونے والا درس قرآن ہدف تنقید بنا ہوا ہے۔
بہر صورت خلاصہ یہ ہے کہ خیر کے ان سلسلوں کی حوصلہ افزائی ہی ہونی چاہیے، ہاں البتہ ان کی وجہ سے کوئی سنت چھوٹ رہی ہو، یا کسی غلط رویے کی ترویج ہورہی ہو تو اس بر تنقید اور مذمت ہونی چاہیے.. واللہ أعلم.​
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
نماز عموما دس منٹ کی ہوتی ہے، کبھی پندرہ یا حد بیس منٹ کی ہوجاتی ہوگی۔
تراویح گھنٹے کی ہوں، تو کبھی سوا یا ڈیڑھ گھنٹے کی ہوجاتی ہوں گی، اگر نیت میں اخلاص اور اللہ تعالی سے ثواب کی امید ہو، تو یہ وقت کوئی زیادہ نہیں۔
قرآن ختم کرنا ضروری نہیں، عشاء کے فورا پڑھنا سنت نہیں وغیرہ... باتیں عموما لوگوں کو عبادات سے دور کرنے کا ذریعہ بنتی ہیں... جو لوگ واقعتا رات کے آخری پہر خود لمبی لمبی رکعتیں پڑھنے کے عادی ہوتے ہیں، وہ نماز کی طوالت، امام صاحب کے قرآن زیادہ یا آہستہ پڑھنے سے کبھی شکوہ کرتے ہوئے نظر نہیں آئیں گے۔
امام جس قدر مخلص ہوگا، محنت اور ذمہ داری سے نماز پڑھائے گا، مقتدی بھی اسی قدر رغبت رکھیں گے، کئی ایک امام اور حفاظ ایسے ہوتے ہیں، نماز کی امامت کو وہ ایک مشینی نوکری سمجھتے ہیں، جو خود دو منٹ نکال کر نماز سے پہلے بعد کی سنتیں ادا نہ کرے، اسے ذہنی طور پر تیار رہنا چاہیے کہ جب میں لوگوں کو لمبی لمبی طرزیں لگا کر تھکاؤں گا، تو اسی جیسے کئی ایک لوگ ناک بھوں بھی چڑھائیں گے، اور موقعہ ملا تو اسے کھری کھری بھی سنائیں گے۔
امامت و اقتدا دونوں مراحل سے گزرے ہوئے لوگ اچھی طرح جانتے ہیں نماز کے ان چند منٹوں یا گھنٹوں میں اللہ کے سامنے ’حضور‘ کی کیفیت پیدا ہوجائے، تو نہ امامت مشکل رہتی ہے، نہ اقتدا۔ اللہ کے سامنے قیام کی لذت سے محروم امام ہو یا مقتدی ان کے لیے نماز اور تراویح کے مبارک لمحات ہمیشہ بوجھ بنے رہتے ہیں۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
نماز تراویح میں تکمیل قرآن پر ’بدعتی اعتراض‘

تکمیل قرآن جیسے اچھے کام کی بعض نا سمجھ لوگ مذمت کر رہے ہیں، کچھ تو اسے بدعت بھی قرار دے رہے ہیں۔
حالانکہ یہ سلسلہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے لیکر اب تک امت میں رائج ہے، بلکہ ہمارے برصغیر پاک وہند میں جو رکوعات کی علامات ہیں، وہ بھی غالبا رمضان میں تکمیل قرآن کے پیش نظر لگائی گئی تھیں، اور یہ علامات دو چار سال کی بات نہیں، بلکہ صدیوں سے یہ سلسلہ چلا آرہا ہے، اگر یہ کام بدعت تھأ، تو ہر سال اس مبارک مہینے میں ہونے والے کام کے بدعت ہونے کا انکشاف ابھی ہورہا ہے؟ إنا للہ و إنا الیہ رجعون۔
جس زمانے میں لوگ تین دن میں پورا کا بورا قرآن کریم ختم کرتے تھے، وہاں یہ تصور کیا جاسکتا ہے کہ پورے رمضان کی تراویح گزر جائیں، اور وہاں قرآن ایک مرتبہ بھی ختم نہ ہو؟
بلکہ سلف سے ایسی مثالیں بھی ہیں کہ وہ ایک ہی نماز میں پورے کے پورا قرآن کی تلاوت کرجاتے تھے۔
لیکن ان عظیم الشان اسلاف کے چودھویں صدی کے کم ہمت نکھٹو ہمارے جیسے وارثوں کو رمضان کے تیسن دنوں کی سیکڑوں رکعات میں بھی ایک مرتبہ قرآن کی تکمیل بدعت محسوس ہورہی ہے۔
پستی کا کوئی حد سے گزرنا دیکھے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہر سال جبریل امین سے قرآن کریم کا دور کیا کرتے تھے، آخری سال دو مرتبہ دور کیا، جو بعد میں ’عرضہ اخیرہ‘ کے نام سے معروف ہوا، جس میں حضرت زید بں ثابت رضی اللہ عنہ بھی ساتھ تھے۔
تکمیل قرآن کے حوالے سے تبدیع کی وبا جو بعض لوگوں میں پھیلی ہے، اہل حدیث علما بھی اس سے واقف نہ تھے، حالانکہ مشہور کے تبدیع کا فتوی سب سے زیادہ مسلک اہل حدیث کے لوگ لگاتے ہیں۔
مشہور اہل حدیث عالم دین مولانا عبد السلام بستوی سے کسی نے پوچھأ:
تراویح میں پورا قرآن شریف ختم کرنا ضروری ہے؟
حضرت کا جواب ملاحظہ کیجیے:
تراویح میں پورا قرآن ختم کرنا سنت ہے۔ ضروری نہیں ہے، حافظ قرآن کو اس سنت پر عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اور جو حافظ نہیں ہیں۔ وہ حافظ کی اقتداء میں پورا قرآن سنیں۔ جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں ابی بن کعب اور تمیم داری کی اقتدا میں لوگ نماز تراویح پڑھتے تھے، واللہ اعلم۔
(شیخ الحدیث مولانا عبد السلام بستوی دہلی) (ترجمان دہلی صفر ۱۳۸۲ھ مطابق 1962ئ)
(فتاویٰ علمائے حدیث جلد 06 ص 346)
ایک دفعہ کسی نے ایک گروپ میں یہی سوال کیا، جواب آیا: صرف ایک دفعہ ضروری نہیں، تین چار مرتبہ بھی کرلین، تو کوئی حرج نہیں۔...(ابتسامہ)
رہی بات کہ غور وفکر نہیں اور تدبر نہیں، اور اس قسم کی باتیں، تویہ بجا ہیں، لوگوں میں شعور اور مزاج بیدار کریں، لوگوں کو غور وفکر و تدبر کی دعوت دینا تو درست ہے، لیکن اگر یہ نہیں ہوسکتا تو جو رہی سہی خیر ہے، اس کے خلاف محاذ کھڑا کرنا دین اسلام کی کوئی خدمت نہیں ہے.
آپ فرض کرلیں کہ کسی رمضان میں نماز تراویح میں پورے تیسن دنوں میں صرف پانچ یا دس پارے پڑھے گئے ہیں، جہاں گھنٹے میں تراویح ہوتی تھیں، وہاں آدھے گھنٹے میں ہوئیں، تو تراویح مختصر کرنے سے ’تدبر قرآن‘ کا دور مکمل ہوجائے گا؟ وہی جو باقی 11 مہینوں میں بھی کسی کو ہی نصیب ہوتا ہے۔
سماع، تلاوت، تدبر، عمل، یہ چار قرآن کے بنیادی حقوق ہیں، لوگوں کو تدبر و عمل کی طرف لائیں، نہ کہ سماع وتلاوت پر بم باری کرنا شروع کردیں۔
مالکم کیف تحکمون! أفلا تعقلون!
تراویح میں مشین کی طرح چلنے والے حافظوں اور ان کو چلانے والی انتظامیہ سے بھی گزارش ہے کہ کتاب اللہ کےبارے میں اللہ کا خوف کرنا چاہیے۔
جو ایک سو بیس کی سپیڈ سے پارہ پڑھ کر چالیس منٹ میں تراویح ختم ہوں گی، وہی ٹھہر ٹھہر کر پڑھنے سے ساٹھ ستر منٹ لگ جائیں گے، تو کوئی قیامت آنے والی نہیں ہے۔ عملی مثال دیکھنی ہے، تو حرمین شریفین دیکھ لیں، وہاں قیام یا تراویح کے طویل ہونے سے کبھی کسی کو ہارٹ اٹیک نہیں ہوا، نہ لوگوں کا کاروبار رکا ہے، نہ ان کی سحریاں رہتی ہیں، اور نہ ہی وہ دنیا کی دوڑ میں کسی سے پیچھے رہ گئے ہیں۔
ہاں اگر واقعتا کسی کی استطاعت سے باہر ہے تو اسے واجب و ضروری کسی نے بھی نہیں کہا، آرام سے بیٹھ جائیں، یا گھر جا کر اپنی پڑھ لیں، نہ توفیق تو خاموشی سے موبائل یا ٹی وی والی ضروری عبادت میں مشغول ہوں، لیکن امت میں خیر کے جو سلسلے چل رہے ہیں، ان کے خلاف محاذ نہ چلائیں۔
بعض دفعہ یہ بھی نوٹ کیا گیا کہ مسئلہ کوئی ذاتی یا شخصی مصلحت ہوتی ہے، لیکن اسے پورا کرنے کے لیے شرعی مسئلے کا رخ دینے کی کوشش کی جاتی ہے، مثلا حافظ صاحب نے اپنی منزل پکی کرنی ہے، تو وہ کہیں گے کہ تکمیل قرآن تو فرض ہے، جبکہ مولوی صاحب نے بعد میں درس قرآن دینا ہے، تو وہ کہیں گے کہ حافظ زیادہ وقت لیتا ہے، لہذا میں فتوی جاری کرکے، اس کا وقت کم کرواتا ہوں۔
کچھ لوگوں کو دس منٹ کی نماز پڑھنا موت نظر آتی ہے، وہ دس بیس تراویح کہاں پڑھنا چاہیںگے؟ یہ ذہنیت بھی مسئلے تراشنے پر مجبور کرتی ہے۔ ولا ینبئک مثل خبیر.
اللہ تعالی ہم سب کو ہدایت دے اور صراط مستقیم پر چلائے۔
 
Last edited:

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
نماز تراویح میں قرآن کریم کی تکمیل

محمد جاوید عبد العزیز مدنی
تراویح افضل ترین عبادت ہے جسے رمضان المبارک کے مہینے میں اس نیت کے ساتھ انجام دیا جاتا ہے کہ اللہ رب العالمین اگلے اور پچھلے تمام گناہوں کو معاف فرمادے گا۔ مگر اس عبادت کے تعلق سے بعض شبہات لوگوں کے ذہن میں پائے جاتے ہیں جیسے اس میں قرآن کا ختم کیا جانا واجب ہے، یا تراویح مختصر ہونی چاہیے نہ کہ اتنی لمبی کہ ہماری ٹانگیں دکھنے لگیں اور پھر وہ دوسرے دن سے شاید دکھائی نہ دیے۔ جب کہ یہ نفلی عبادت ہے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں لوگ تراویح سے جب پلٹتے تھے تو انھیں خدشہ ہوتا تھا کہ کہیں ہماری سحری کا وقت ہی نہ نکل جائے۔ اس مسئلہ پر بے جا شکایتوں سے بچنا چاہیے ان لوگوں کو عبادت کرنے دیجیے جو خلوص اور للہیت کے ساتھ اللہ کے لیے عبادت کرنا چاہتے ہیں۔
ایک عجیب بات جو آج کل لوگوں میں عام ہوچکی ہے کہ قرآن کا مکمل پڑھ کر ختم کرنا واجب نہیں۔ یا قرات لمبی نہیں ہونی چاہیے۔ ٹھیک ہے قرات ایسی بھی نہ ہو کہ لوگ اکتا جائیں اور ایسی بھی نہ ہو کہ کسی تیز رفتاری کا مسابقہ ہوجائے بلکہ متوسط طریقہ سے خوش الحانی کے ساتھ ہمارے حفاظ کرام کو رقت و لذت کے ساتھ قرآن کے پڑھنے اور سننے والوں کو سننے دیجیے۔
تراویح میں قرآن کریم کا ختم کرنا مسلمانوں کی سنت رہی ہے۔ اللہ کے لیے اس سنہرے موقع کو بے لگام مت کیجیے۔ امام احمد بن حنبل ؒ ایسے قاری کو پسند فرماتے تھے جو تراویح میں قرآن ختم کرتا۔ امام کاسانی ؒ لکھتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جس اعتبار سے آیتوں کے پڑھنے کا حکم دیا تھا تین مرتبہ قرآن ختم کیا جاتا ہوگا۔ البتہ جو اس تعلق سے غلط فہمی رکھتے ہیں کہ “قرآن ختم تو تراویح ختم” ، ان کی اس غلط فہمی کو دوسرے انداز (درس اور افہام و تفہیم) سے دور کیا جانا چاہیے کہ صلاۃ التراویح کی اپنی ایک اہمیت و فضیلت ہے۔
تراویح میں قرآن کریم کا ختم کرنا کئی فائدوں سے خالی نہیں۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ جب آپ کوئی سبق کسی کو سنا لیتے ہیں تو اس میں پختگی آجاتی ہے پھر اگر بار بار اسے سنایا جاتا رہے تو وہ اور پختہ ہوتا ہے۔ ہمارے حفاظ کرام نے بڑی محنت اور لگن سے قرآن کو یاد کیا ہے مگر آہستہ آہستہ ان کے ذہن سے محو ہوتا جا رہا ہے وجہ یہی ہے کہ کچھ عرصوں سے یہ بات عام ہوچکی ہے کہ تراویح میں قرآن ختم کرنا واجب نہیں۔ پھر حفاظ کو بھی یہ کہا جاتا ہے کہ ختم نہیں کرنا ہے۔ ٹھیک ہے! مگر مسلمانوں کی ایک سنت تو رہی ہے۔ اور یہ ڈر بھی رہے کہ قرآن کریم قرب قیامت اٹھا لیا جائے گا کہیں اس کی ایک صورت تو نہیں۔ ہاں، ختم کرنا واجب نہیں، اس کا معنیٰ یہ نہیں کہ آپ ختم کرنا ہی چھوڑ دیں، سنن و نفلی عبادات بھی تو واجب نہیں تو کیا اب انھیں بھی ترک کردیا جائے۔ لہذا حفاظ کرام کے لیے رمضان کا مہینہ بہترین موقع ہوتا ہے کہ وہ قرآن کو پختہ کرلیں۔ اور سنانے کے بعد ان کے حفظ میں اور پختگی آجاتی ہے۔
اسی طرح سے قرآن کریم کو سننا بھی ایک سنت نبوی رہی ہے اور عبادت کی ایک شکل ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ابی بن کعب اور عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے قرآن کریم کو سنا، سننے میں فائدہ یہ ہے کہ سننے والے کو صرف ایک ہی کام کرنا ہے یعنی آیتوں پر غور و تدبر کرنا۔ جب کہ پڑھنے والے کو پڑھنا بھی ہے اور سمجھنا بھی ہے اسی لیے رسول اللہ ﷺ کبھی کبھار صحابہ کرام سے سنا کرتے تھے بلکہ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں رسول اللہ ﷺ کے سامنے قرآن پڑھ رہا تھا اور آپ سن رہے تھے جب میں اس آیت کریمہ پر پہنچا کہ ” فَكَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ، وَجِئْنَا بِكَ عَلَى هَؤُلاَءِ شَهِيدًا [النساء: 41] ” تو نبی کریمﷺ نے فرمایا: بس ، بس۔ میں نے نگاہ اٹھا کر دیکھا آپ رو رہے تھے۔ مقتدیوں کو مکمل قرآن کریم پر غور و تدبر کا موقع مل جاتا ہے۔ قرآن کریم سنتے ہوئے کئی ایسے نکات ذہن میں آجاتے ہیں جو پڑھتے وقت نہیں آتے۔ خشیت اور خوف الہی سے آنکھوں سے آنسو جاری ہوجاتے ہیں۔ غیر حافظ علماء اور عربی جاننے والوں کے سامنے ایک خاکہ تیار ہوجاتا ہے کہ کون سی آیت کہاں ہے۔
ضمنا یہ بھی بتلاتا چلوں کہ کئی لوگ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ قرآن کریم رمضان میں ختم کرنا ضروری نہیں، ضروری نہیں لیکن سنت ہے۔ جو لوگ ختم کرنا چاہتے ہیں ان کو یہ کہہ کر ختم کرنے سے روک دیا جاتا ہے کہ” ارے صرف رمضان میں ہی ضروری تھوڑی ہے “۔ نبی کریم ﷺ حضرت جبرئیل علیہ السلام کو ہر رمضان میں تاوقت نازل شدہ قرآن مکمل سنایا کرتے تھے بلکہ آخری رمضان میں نبی کریم ﷺ نے دو مرتبہ مکمل قرآن سنایا۔ معلوم ہوا کہ مکمل قرآن رمضان المبارک میں ختم کیا جانا سنت ہے۔ نبی کریم ﷺ کی ہر سنت قابل اتباع ہے اور حتی المقدور ادا کی جانی چاہیے۔ اللہ ہم سب کو توفیق دے۔ آمین
 

ابو حسن

رکن
شمولیت
اپریل 09، 2018
پیغامات
156
ری ایکشن اسکور
29
پوائنٹ
90
جو خود دو منٹ نکال کر نماز سے پہلے بعد کی سنتیں ادا نہ کرے
اس بات کا آنکھوں دیکھا مشاہدہ ہے کہ لوگوں کو مسائل بتاتے ہوئے خاص طور پر امام و خطیب کے قریب رہنے والے لوگ ایسے جواب سن کر سنت اور خاص طور پر نوافل سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں کہ " ان نوافل سے ضروری ہے کہ دین کا ایک مسئلہ دیکھ لوں "

اسی طرح ایک خطیب صاحب کی بہت عمدہ نصیحت سنی کہ

بدعت بدعت کرتے ہم اصل کو بھی چھوڑ کر بیٹھ جاتے ہیں اور نوافل و اذکار پر بالکل دھیان ختم ہوجاتا ہے اور پھر عبادت کا ذوق و شوق ختم ہونے لگتا ہے اور پھر شیطان ایسا غافل کرتا ہے کہ سنت کے ساتھ ساتھ فرائض سے بھی آنکھیں موندھنے لگتے ہیں ، اللہ تعالی ہمیں ایسا بننے سے محفوظ فرمائے ،آمین
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
دعا کو سمجھ کر مانگیں

مسجد نبوی میں آج تکمیل قرآن کا موقعہ تھا، شیخ صلاح البدیر نے بہت فصیح وبلیغ اور خشوع وخضوع والی دعا کروائی، کیونکہ اکثریت لوگوں کی اہل زبان یعنی عرب تھے، اس لیے لوگوں کی چیخیں نکلنے لگیں۔
آسمان بھی ضبط نہ کرسکا، اور بارش شروع ہوگئی، یوں محسوس ہوتا تھا جیسا دعا قبول ہورہی ہے، اور رب العالمین نے بارش کو حکم دے دیا ہے کہ ان عاصیوں کی میل کچیل صاف کرکے انہیں ’ثوب أبیض‘ کی طرح بنادیا جائے۔
اسی قسم کی دعائیں ہمارے ہاں ائمہ تراویح نے بھی یاد کی ہوتی ہیں، بلکہ بعض دفعہ تو ہوبہو رٹا لگایا ہوا ہوتا ہے، لیکن مصیبت یہ ہے کہ پیچھے کھڑی عوام میں سے اکثریت کو کچھ سمجھ نہیں آرہا ہوتا، امام صاحب مشاری، سدیس، بدیر وغیرہ کے جملوں کی بارش کر رہے ہوتے ہیں، اور مقتدی شرمندے ہورہے ہوتے ہیں ، اس بات پر کہ قاری صاحب تو روتے ہوئے محسوس ہورہے ہیں، جبکہ ہم گناہوں کے مارے اس سوچ میں پڑے ہوئے ہیں کہ قاری صاحب کب’ وصلی اللہ علی النبی‘ کہہ کر سجدہ میں جاتے ہیں۔
اجنبی لوگوں کی امامت کرانے والے قراء کرام کو اس ’رسمی دعا‘ کو فائدہ مند بنانے کے لیے ذرا ہٹ کر محنت کرنا ہوگی۔
1۔ یا تو ایسا کریں کہ وتروں میں مسنون دعا کرکے سلام پھیر دیں، اور بعد میں وہی دعائیں جو عربی میں منگوانی ہیں، انہیں اردو میں منگوائیں، تاکہ عوام سمجھ کر آمین کہے ، انہیں رونا آئے، اللہ کے سامنے آہ و زاری کی کیفیت پیدا ہو۔
2۔ یا پھر جو لمبی چوڑی دعائیں نماز میں منگوانی ہیں، ان کا اردو ترجمہ کی مسجد میں کلاس رکھیں، انہین تمام دعائیں سمجھائیں، ان کا معنی و مفہوم بتائیں، تاکہ نماز میں جب ان کے سامنے یہ دعا آئے تو وہ اس کا معنی سمجھ رہے ہوں۔
عوام دعائیں سمجھ نہیں رہی ہوتی، اس کی واضح مثال یہ ہے کہ جہاں کوئی بھی دعا نہیں ہوتی، لوگ وہاں بھی آمین کہہ رہے ہوتے ہیں، مثلا قنوت وتر میں اللہ کی تعریف ہے کہ فإنک تقضی بالحق ولا یقضی علیک سے لیکر تبارکت ربنا وتعالیت تک کوئی بھی دعا نہیں، لیکن لوگ آمین کہہ رہے ہوتے ہیں، بلکہ بعض امام بھی ان جگہوں پر کرکے گویا لوگوں سے مطالبہ کر رہے ہوتے ہیں کہ یہاں بھی آمین کہو۔
صلاح البدیر کی آج کی دعا سن لیں انہون نے ابتدا میں دو تین منٹ حمد باری تعالی وغیرہ کلمات بولے ہیں، چونکہ دعا نہیں تھی، تو آمین کی آواز نہیں آئی، لیکن جونہی دعا شروع ہوئی، آمین آمین ہونا شروع ہوگیا. یہ اس بات کی دلیل تھی کہ شروع میں چپ رہنے والے اور بعد میں آمین کہنے والے امام کی بات کو سمجھ رہے ہیں۔
دعا اللہ تعالی سے الحاح و گریہ زاری ہوتی ہے، اسے سوچ سمجھ کر اور صدق دل سے مانگنا چاہیے، اور اگر عربی نہیں آتی تو پھر نماز میں مختصر دعا پر اکتفا کرکے نماز کے بعد اپنی زبان میں اللہ تعالی سے دل کی بات کرنی چاہیے، یہ دعا بھی ایک رسم ورواج سے بن گیا، تو پھر اللہ سے مانگنے کا اور کون سا طریقہ ہمارے پاس رہ جائے گا؟
 

غرباء

رکن
شمولیت
جولائی 11، 2019
پیغامات
86
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
46
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔

دورہ قرآن کا اصل مطلب کیا ہے۔؟؟؟

یعنی اس کو شرعی اور اصطلاحی معنوں میں کیا کہیں گے؟؟؟؟
 
Top