نماز تراویح میں تکمیل قرآن پر ’بدعتی اعتراض‘
تکمیل قرآن جیسے اچھے کام کی بعض نا سمجھ لوگ مذمت کر رہے ہیں، کچھ تو اسے بدعت بھی قرار دے رہے ہیں۔
حالانکہ یہ سلسلہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے لیکر اب تک امت میں رائج ہے، بلکہ ہمارے برصغیر پاک وہند میں جو رکوعات کی علامات ہیں، وہ بھی غالبا رمضان میں تکمیل قرآن کے پیش نظر لگائی گئی تھیں، اور یہ علامات دو چار سال کی بات نہیں، بلکہ صدیوں سے یہ سلسلہ چلا آرہا ہے، اگر یہ کام بدعت تھأ، تو ہر سال اس مبارک مہینے میں ہونے والے کام کے بدعت ہونے کا انکشاف ابھی ہورہا ہے؟ إنا للہ و إنا الیہ رجعون۔
جس زمانے میں لوگ تین دن میں پورا کا بورا قرآن کریم ختم کرتے تھے، وہاں یہ تصور کیا جاسکتا ہے کہ پورے رمضان کی تراویح گزر جائیں، اور وہاں قرآن ایک مرتبہ بھی ختم نہ ہو؟
بلکہ سلف سے ایسی مثالیں بھی ہیں کہ وہ ایک ہی نماز میں پورے کے پورا قرآن کی تلاوت کرجاتے تھے۔
لیکن ان عظیم الشان اسلاف کے چودھویں صدی کے کم ہمت نکھٹو ہمارے جیسے وارثوں کو رمضان کے تیسن دنوں کی سیکڑوں رکعات میں بھی ایک مرتبہ قرآن کی تکمیل بدعت محسوس ہورہی ہے۔
پستی کا کوئی حد سے گزرنا دیکھے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہر سال جبریل امین سے قرآن کریم کا دور کیا کرتے تھے، آخری سال دو مرتبہ دور کیا، جو بعد میں ’عرضہ اخیرہ‘ کے نام سے معروف ہوا، جس میں حضرت زید بں ثابت رضی اللہ عنہ بھی ساتھ تھے۔
تکمیل قرآن کے حوالے سے تبدیع کی وبا جو بعض لوگوں میں پھیلی ہے، اہل حدیث علما بھی اس سے واقف نہ تھے، حالانکہ مشہور کے تبدیع کا فتوی سب سے زیادہ مسلک اہل حدیث کے لوگ لگاتے ہیں۔
مشہور اہل حدیث عالم دین مولانا عبد السلام بستوی سے کسی نے پوچھأ:
تراویح میں پورا قرآن شریف ختم کرنا ضروری ہے؟
حضرت کا جواب ملاحظہ کیجیے:
تراویح میں پورا قرآن ختم کرنا سنت ہے۔ ضروری نہیں ہے، حافظ قرآن کو اس سنت پر عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اور جو حافظ نہیں ہیں۔ وہ حافظ کی اقتداء میں پورا قرآن سنیں۔ جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں ابی بن کعب اور تمیم داری کی اقتدا میں لوگ نماز تراویح پڑھتے تھے، واللہ اعلم۔
(شیخ الحدیث مولانا عبد السلام بستوی دہلی) (ترجمان دہلی صفر ۱۳۸۲ھ مطابق 1962ئ)
(فتاویٰ علمائے حدیث جلد 06 ص 346)
ایک دفعہ کسی نے ایک گروپ میں یہی سوال کیا، جواب آیا: صرف ایک دفعہ ضروری نہیں، تین چار مرتبہ بھی کرلین، تو کوئی حرج نہیں۔...(ابتسامہ)
رہی بات کہ غور وفکر نہیں اور تدبر نہیں، اور اس قسم کی باتیں، تویہ بجا ہیں، لوگوں میں شعور اور مزاج بیدار کریں، لوگوں کو غور وفکر و تدبر کی دعوت دینا تو درست ہے، لیکن اگر یہ نہیں ہوسکتا تو جو رہی سہی خیر ہے، اس کے خلاف محاذ کھڑا کرنا دین اسلام کی کوئی خدمت نہیں ہے.
آپ فرض کرلیں کہ کسی رمضان میں نماز تراویح میں پورے تیسن دنوں میں صرف پانچ یا دس پارے پڑھے گئے ہیں، جہاں گھنٹے میں تراویح ہوتی تھیں، وہاں آدھے گھنٹے میں ہوئیں، تو تراویح مختصر کرنے سے ’تدبر قرآن‘ کا دور مکمل ہوجائے گا؟ وہی جو باقی 11 مہینوں میں بھی کسی کو ہی نصیب ہوتا ہے۔
سماع، تلاوت، تدبر، عمل، یہ چار قرآن کے بنیادی حقوق ہیں، لوگوں کو تدبر و عمل کی طرف لائیں، نہ کہ سماع وتلاوت پر بم باری کرنا شروع کردیں۔
مالکم کیف تحکمون! أفلا تعقلون!
تراویح میں مشین کی طرح چلنے والے حافظوں اور ان کو چلانے والی انتظامیہ سے بھی گزارش ہے کہ کتاب اللہ کےبارے میں اللہ کا خوف کرنا چاہیے۔
جو ایک سو بیس کی سپیڈ سے پارہ پڑھ کر چالیس منٹ میں تراویح ختم ہوں گی، وہی ٹھہر ٹھہر کر پڑھنے سے ساٹھ ستر منٹ لگ جائیں گے، تو کوئی قیامت آنے والی نہیں ہے۔ عملی مثال دیکھنی ہے، تو حرمین شریفین دیکھ لیں، وہاں قیام یا تراویح کے طویل ہونے سے کبھی کسی کو ہارٹ اٹیک نہیں ہوا، نہ لوگوں کا کاروبار رکا ہے، نہ ان کی سحریاں رہتی ہیں، اور نہ ہی وہ دنیا کی دوڑ میں کسی سے پیچھے رہ گئے ہیں۔
ہاں اگر واقعتا کسی کی استطاعت سے باہر ہے تو اسے واجب و ضروری کسی نے بھی نہیں کہا، آرام سے بیٹھ جائیں، یا گھر جا کر اپنی پڑھ لیں، نہ توفیق تو خاموشی سے موبائل یا ٹی وی والی ضروری عبادت میں مشغول ہوں، لیکن امت میں خیر کے جو سلسلے چل رہے ہیں، ان کے خلاف محاذ نہ چلائیں۔
بعض دفعہ یہ بھی نوٹ کیا گیا کہ مسئلہ کوئی ذاتی یا شخصی مصلحت ہوتی ہے، لیکن اسے پورا کرنے کے لیے شرعی مسئلے کا رخ دینے کی کوشش کی جاتی ہے، مثلا حافظ صاحب نے اپنی منزل پکی کرنی ہے، تو وہ کہیں گے کہ تکمیل قرآن تو فرض ہے، جبکہ مولوی صاحب نے بعد میں درس قرآن دینا ہے، تو وہ کہیں گے کہ حافظ زیادہ وقت لیتا ہے، لہذا میں فتوی جاری کرکے، اس کا وقت کم کرواتا ہوں۔
کچھ لوگوں کو دس منٹ کی نماز پڑھنا موت نظر آتی ہے، وہ دس بیس تراویح کہاں پڑھنا چاہیںگے؟ یہ ذہنیت بھی مسئلے تراشنے پر مجبور کرتی ہے۔ ولا ینبئک مثل خبیر.
اللہ تعالی ہم سب کو ہدایت دے اور صراط مستقیم پر چلائے۔