• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

روئے زمین میں سب سے پسندیدہ شہر

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
روئے زمین میں سب سے پسندیدہ شہر
مکہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ کے متعلق فرمایا:
وَاللّٰہِ إِنَّکِ لَخَیْرُ أَرْضِ اللّٰہِ وَأَحَبُّ أَرْضِ اللّٰہِ، إِلَی اللّٰہِ، وَلَوْلَا أَنِّی أُخْرِجْتُ مِنْکِ مَا خَرَجْتُ (صحیح سنن الترمذي، رقم : ۳۰۸۲۔)
''اللہ کی قسم! تو اللہ تعالیٰ کی بہترین زمین ہے اور اللہ کے ہاں محبوب ترین زمین ہے اگر مجھے تیرے یہاں سے نکالا نہ جاتا تو میں تجھے چھوڑ کر نہ جاتا۔''
مکہ: اس کے کئی نام ہیں: مکہ مکرمہ، ام القریٰ، بکہ، البلد الامین، البلد الحرام۔
مکہ کو اللہ تعالیٰ نے کعبہ کی وجہ سے شرف بخشا اور یہ ایسا گھر ہے جو سب سے پہلے لوگوں کے لیے تیار کیا گیا تاکہ اللہ کی عبادت اور اس کی توحید بیان کی جائے۔
مکہ ہر مسلمان کی آرزو ہے کیونکہ اس میں آکر بیت اللہ کا حج اور اسلام کا پانچواں رکن ادا ہوتا ہے۔
اس شہر نے جلیل القدر اور عظمت والی رحمت کی بارشیں دیکھیں، یعنی کعبہ کی تعمیر، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت اور اسلام کا ظہور، اور یہ شہر روزانہ، ہفتہ بعد، سال بعد، انسانوں کی ایسی بھیڑ دیکھتا ہے جس کی نظیر دنیا میں کہیں بھی نہیں ملتی، یہ ہجوم پانچوں نمازوں، جمعہ، رمضان اور حج کے ایام میں ہوتا ہے۔
چھوٹا شہر ہونے کے باوجود اگر اس میں کوئی واقعہ رونما ہو تو زمین کے تمام کناروں پر رہنے والے مسلمان متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتے بلکہ آخر زمانہ میں جب اس میں واقعہ رونما ہوگا تو تمام کی تمام دنیا اس سے متاثر ہو گی۔
ایسا کیوں نہ ہو جبکہ یہ اللہ تعالیٰ کا حرمت والا شہر اور اللہ کی بہترین زمین اور سب سے زیادہ محبوب زمین ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
{وَإِذْ يَرْفَعُ إِبْرَاهِيمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَيْتِ وَإِسْمَاعِيلُ رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا ۖ إِنَّكَ أَنتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ ‎﴿١٢٧﴾‏ رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَكَ وَمِن ذُرِّيَّتِنَا أُمَّةً مُّسْلِمَةً لَّكَ وَأَرِنَا مَنَاسِكَنَا وَتُبْ عَلَيْنَا ۖ إِنَّكَ أَنتَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ ‎﴿١٢٨﴾‏ } [البقرہ]
''ابراہیم علیہ السلام اور اسماعیل علیہ السلام کعبہ کی بنیادیں اور دیواریں اٹھاتے جاتے تھے اور کہتے جا رہے تھے کہ اے ہمارے پروردگار! تو ہم سے قبول فرما، تو ہی سننے والا اور جاننے والا ہے۔ اے ہمارے رب! ہمیں اپنا فرمانبردار بنا لے اور ہماری اولاد میں سے بھی ایک جماعت کو اپنی اطاعت گزار رکھ اور ہمیں اپنی عبادتیں سکھا اور ہماری توبہ قبول فرما اور تو توبہ قبول فرمانے والا اور رحم کرنے والا ہے۔''
رب تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام کو کعبہ بنانے کا حکم دیا تو انہوں نے اور ان کے بیٹے اسماعیل علیہ السلام دونوں نے مل کر کعبہ کو بنانا شروع کیا اور ساتھ ساتھ کہتے جا رہے تھے۔ ''ہمارے پروردگار! تو ہم سے قبول فرما تو ہی سننے والا اور جاننے والا ہے۔دونوں بیت اللہ کو بناتے اور اس کے اردگرد گھومتے ہوئے کہہ رہے تھے:{رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا ۖ إِنَّكَ أَنتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ}
ابراہیم علیہ السلام اور ان کے بیٹے اسماعیل علیہ السلام سے اللہ تعالیٰ نے اپنے گھر کو طواف، رکوع، اعتکاف اور سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھنے کا عہد لیا اور ابراہیم علیہ السلام نے رب تعالیٰ سے اس شہر کو حرمت والا اور امن والا بنانے کی دعا کی اور اس کے رہنے والے کے لیے پھلوں کا رزق مانگا۔ یہ باتیں قرآن میں یوں بیان ہوئیں:
{وَإِذْ جَعَلْنَا الْبَيْتَ مَثَابَةً لِّلنَّاسِ وَأَمْنًا وَاتَّخِذُوا مِن مَّقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى ۖ وَعَهِدْنَا إِلَىٰ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ أَن طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ ‎﴿١٢٥﴾‏ وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّ اجْعَلْ هَٰذَا بَلَدًا آمِنًا وَارْزُقْ أَهْلَهُ مِنَ الثَّمَرَاتِ مَنْ آمَنَ مِنْهُم بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ} [البقرہ: ۱۲۵۔ ۱۲۶]
''ہم نے بیت اللہ کو لوگوں کے لیے ثواب اور امن و امان کی جگہ بنایا، تم مقام ابراہیم کو جائے نماز مقرر کرلو، ہم نے ابراہیم علیہ السلام اور اسماعیل علیہ السلام سے وعدہ لیا کہ تم میرے گھر کو طواف کرنے والوں، اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھو اور جب ابراہیم علیہ السلام نے کہا: اے پروردگار! تو اس جگہ کو امن والا شہر بنا اور یہاں کے باشندوں کو جو اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھنے والے ہوں، پھلوں کی روزیاں دے۔ ''
ابراہیم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے لوگوں میں اعلان کرنے کا حکم دیا کہ بیت اللہ کا حج کرنے اور اپنے منافع کے لیے دور دراز کے تمام راستوں سے آئیں چنانچہ قرآن فرماتا ہے:
{وَأَذِّن فِي النَّاسِ بِالْحَجِّ يَأْتُوكَ رِجَالًا وَعَلَىٰ كُلِّ ضَامِرٍ يَأْتِينَ مِن كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ ‎﴿٢٧﴾‏ لِّيَشْهَدُوا مَنَافِعَ لَهُمْ وَيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ فِي أَيَّامٍ مَّعْلُومَاتٍ عَلَىٰ مَا رَزَقَهُم مِّن بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ ۖ فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْبَائِسَ الْفَقِيرَ ‎﴿٢٨﴾‏ ثُمَّ لْيَقْضُوا تَفَثَهُمْ وَلْيُوفُوا نُذُورَهُمْ وَلْيَطَّوَّفُوا بِالْبَيْتِ الْعَتِيقِ ‎﴿٢٩﴾ } [الحج]
''اور لوگوں میں حج کی منادی کر دے، لوگ تیرے پاس پیادہ بھی آئیں گے اور دبلے پتلے اونٹوں پر بھی، دور دراز کی تمام راہوں سے آئیں۔ اپنے فائدے حاصل کرنے کو آ جائیں اور ان مقررہ دنوں میں اللہ کا نام یاد کریں، ان چوپایوں پر جو پالتو ہیں پس تم بھی کھاؤ اور بھوکے فقیروں کو بھی کھلاؤ پھر وہ اپنا میل کچیل دور کریں اور اپنی نذریں پوری کریں اور اللہ کے قدیم گھر کا طواف کریں۔''
مکہ اسی طرح بسایا گیا اور تمام لوگوں کے لیے پہلا گھر اللہ کی عبادت اور توحید بیان کرنے کے لیے بنایا گیا، فرمایا:
{إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِي بِبَكَّةَ مُبَارَكًا وَهُدًى لِّلْعَالَمِينَ ‎﴿٩٦﴾‏ فِيهِ آيَاتٌ بَيِّنَاتٌ مَّقَامُ إِبْرَاهِيمَ ۖ وَمَن دَخَلَهُ كَانَ آمِنًا ۗ وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا ۚ وَمَن كَفَرَ فَإِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ عَنِ الْعَالَمِينَ ‎﴿٩٧﴾ } [آل عمران]
''اللہ تعالیٰ کا پہلا گھر جو لوگوں کے لیے مقرر کیا گیا، وہی ہے جو مکہ (شریف) میں ہے جو تمام دنیا کے لیے برکت و ہدایت والا ہے، جس میں کھلی کھلی نشانیاں ہیں، مقام ابراہیم ہے، اس میں جو آ جائے امن والا ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں پر جو اس کی طرف راہ پا سکتے ہوں، اس گھر کا حج فرض کر دیا اور جو کوئی کفرکرے تو اللہ تعالیٰ (اس سے بلکہ) تمام دنیا سے بے پروا ہے۔''
لوگ دور دراز کے راستوں سے بیت اللہ کا حج کرنے اور اس کا طواف کرنے کے لیے آتے ہیں اور ہدایت، برکت کے حصول اور ایسے اجر عظیم کے پانے کے لیے اس کے پاس نماز پڑھتے ہیں اس کے برابر اجر و ثواب اور برکت کسی دوسری مسجد میں حاصل نہیں ہوتی۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
صَلَاۃٌ فِی مَسْجِدِی أَفْضَلُ مِنْ أَلْفِ صَلَاۃٍ فِیمَا سِوَاہُ، إِلاَّ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ وَصَلَاۃٌ فِی الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ أَفْضَلُ مِنْ مِائَۃِ أَلْفِ صَلَاۃٍ فِیمَا سِوَاہُ (صحیح سنن ابن ماجہ، رقم : ۱۱۵۵۔)
''میری اس مسجد (مسجد نبوی) میں نماز دوسری کسی بھی مسجد میں نماز سے ہزار گنا افضل ہے سوائے مسجد حرام کے۔ اور مسجد حرام میں نماز دیگر مساجد کے مقابلہ میں ایک لاکھ نماز سے افضل ہے۔ ''
یعنی مسجد حرام میں ایک نماز کی ادائیگی کا ثواب دوسری مساجد کے مقابلہ میں ایک لاکھ نمازوں سے زیادہ ہے اور مدینہ طیبہ کی مسجد نبوی میں سو نماز پڑھنے سے بھی زیادہ ثواب ہے۔اللہ تعالیٰ نے مکہ کو شرف بخشا، یہ شہر محمد کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سے زیادہ پیارا لگتا ہے اور اگر نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم نے آپ کو یہاں سے نہ نکالا ہوتا تو آپ ہرگز اسے نہ چھوڑتے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
چنانچہ آنحضور علیہ السلام نے مکہ مکرمہ کے متعلق فرمایا:
مَا أَطْیَبَکِ مِنْ بَلَدٍ، وَأَحَبَّکِ إِلَیَّ، وَلَوْلَا أَنَّ قَوْمِی أَخْرَجُونِی مِنْکِ مَا سَکَنْتُ غَیْرَکِ (صحیح سنن الترمذي، رقم : ۳۰۸۳۔)
''تو کس قدر پاکیزہ اور میرا محبوب ترین شہر ہے، اگر تیری قوم مجھے تیرے ہاں سے نہ نکالتی تو میں تیرے علاوہ کہیں دوسری جگہ سکونت اختیار نہ کرتا۔''
جب سے اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کو بنایا ہے اس وقت سے ہی مکہ کو حرمت والا قرار دیا ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے دن فرمایا:
إِنَّ ہَذَا الْبَلَدَ حَرَّمَہُ اللَّہُ یَوْمَ خَلَقَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ، فَہُوَ حَرَامٌ بِحُرْمَۃِ اللَّہِ إِلَی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ، وَإِنَّہُ لَمْ یَحِلَّ الْقِتَالُ فِیہِ لِأَحَدٍ قَبْلِی، وَلَمْ یَحِلَّ لِی إِلاَّ سَاعَۃً مِنْ نَہَارٍ، فَہُوَ حَرَامٌ بِحُرْمَۃِ اللَّہِ إِلَی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ: لَا یُعْضَدُ شَوْکُہُ، وَلَا یُنَفَّرُ صَیْدُہُ، وَلَا یَلْتَقِطُ لُقَطَتَہُ إِلاَّ مَنْ عَرَّفَہَا، وَلَا یُخْتَلَی خَلَاہُ'' فَقَالَ الْعَبَّاسُ یَا رَسُولَ اللَّہِ إِلاَّ الْاِذْخِرَ فَإِنَّہُ لِقَیْنِہِمْ وَلِبُیُوتِہِمْ قَالَ إِلاَّ الْاِذْخِرَ (أخرجہ البخاري في کتاب الجزیۃ والموادعۃ، باب: إثم الغادر للبرِّ والفاجر۔ رقم : ۳۱۸۹۔)
''بے شک اللہ تعالیٰ نے اس شہر کو آسمانوں اور زمین کی پیدائش کے دن سے ہی حرمت والا قرار دیا ہے۔ چنانچہ یہ قیامت کے دن تک اللہ کی حرمت کے ساتھ حرام ہے اور مجھ سے پہلے کسی کے لیے بھی اس میں لڑائی کرنا حلال نہیں کی گئی اور میرے لیے بھی دن کی صرف ایک گھڑی ہی حلال کی گئی تھی چنانچہ یہ اللہ کی حرمت کے ساتھ قیامت کے دن تک حرام ہے اس کا کانٹا نہ کاٹا جائے اور نہ ہی اس کا شکار بھگایا جائے اور نہ ہی اس کی گری ہوئی چیز کوئی اٹھا سکتا ہے ہاں صرف اس کا اعلان کرنے والا (اٹھا سکتا ہے) اور نہ ہی اس کی گھاس کاٹی جائے۔ عباس رضی اللہ عنہ نے (لقمہ دیتے ہوئے) عرض کیا: ''اے اللہ کے رسول! مگر اذخر گھاس۔ بیشک یہ لوگوں کی بھٹیوں اور گھروں کی ضرورت ہے آپ نے فرمایا: ''ہاں! اذخر گھاس (کی اجازت ہے)۔"
اس کے باوجود اس بلد حرام میں کئی عظیم فتنے پیش آئے اور بہت زیادہ قتل و غارت ہوئی نیز بیت اللہ کو بھی بڑے بڑے نقصان اٹھانا پڑے، اسے گرایا اور جلایا جاتا رہا۔ چنانچہ یہی بلد حرام اور بیت حرام اللہ اور اس کے دین کے دشمنوں کا نشانہ بن جائے گا اور قیامت کے قریب ان کا ہدف ہو گا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
ابرہہ اشرم حبشی بیت اللہ کی اینٹ سے اینٹ بجانے کے لیے آیا لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کے جسم کو ایک ایک پور کر کے گرا دیا لہٰذا جس جگہ سے پورا گرتا وہاں پھوڑا بن جاتا جس سے پیپ اور خون بہنا شروع ہو جاتا کیونکہ بدلہ عمل کی جنس سے ہے اور یہ سزا اس پر گروہ در گروہ پرندے بھیجنے کے بعد دی گئی اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
{أَلَمْ تَرَ كَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِأَصْحَابِ الْفِيلِ ‎﴿١﴾‏ أَلَمْ يَجْعَلْ كَيْدَهُمْ فِي تَضْلِيلٍ ‎﴿٢﴾‏ وَأَرْسَلَ عَلَيْهِمْ طَيْرًا أَبَابِيلَ ‎﴿٣﴾‏ تَرْمِيهِم بِحِجَارَةٍ مِّن سِجِّيلٍ ‎﴿٤﴾‏ فَجَعَلَهُمْ كَعَصْفٍ مَّأْكُولٍ ‎﴿٥﴾‏ } [الفیل]
''کیا تو نے نہیں دیکھا تیرے رب نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیا کیا؟ کیا ان کے مکر کو بے کار نہیں کر دیا؟ اور ان پر پرندوں کے جھرمٹ بھیج دیے جو انہیں مٹی اور پتھر کی کنکریاں مار رہے تھے پس انہیں کھائے ہوئے بھوسے کی طرح کر دیا۔''
عنقریب پھر بیت اللہ کے مقابلہ کے لیے ایک لشکر نکلے گا جس کا مقابلہ خود رب کائنات کی ذات کرے گی اور انہیں زمین میں دھنسا دیا جائے گا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لَیَؤُمَّنَّ ہٰذَا الْبَیْتَ جَیْشٌ یَغْزُونَہٗ، حَتّٰی اِذَا کَانُوا بِبَیْدَآءَ مِنَ الْاَرْضِ یُخْسَفُ بِاَوْسَطِہِمْ وَیُنَادِی اَوَّلُہُمْ آخِرَہُمْ ثُمَّ یُخْسَفُ بِہِمْ، فَـلَا یَبْقی اِلاَّ الشَّرِیدُ الَّذِی یُخْبِرُ عَنْہُمْ (أخرجہ مسلم في کتاب الفتن وأشراط الساعۃ: باب الخسف بالجیش الذی یوم البیت۔ رقم : ۷۲۴۱۔)
''ایک لشکر اس خانہ کعبہ کی لڑائی کا ضرور قصد کرے گا جب زمین کے صاف میدان میں پہنچیں گے تو لشکر کا قلب دھنس جائے گا اور مقدمہ (یعنی آگے والا گروپ) پیچھے والوں کو پکارے گا پھر سب دھنس جائیں گے اور کوئی بھی باقی نہ رہے گا سوائے ایک بے گھر آدمی کے جو ان کی خبر دے گا۔''
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
لیکن جب اس قیامت کا وقت قریب آئے گا جو بدترین لوگوں پر قائم ہو گی جن میں کوئی بھی اللہ، اللہ کہنے والا باقی نہ ہو گا تو حبشہ سے ایک آدمی اٹھے گا اور کعبہ کو گرا دے گا جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشین گوئی فرمائی:
یُخَرِّبُ الْکَعْبَۃَ ذُو السُّوَیْقَتَیْنِ مِنَ الْحَبَشَۃِ (أخرجہ البخاري في کتاب الحج، باب: ھدم الکعبۃ۔ رقم :۱۵۹۶۔)
''کعبہ کو ایک چھوٹی چھوٹی پنڈلیوں والا حبشی خراب کرے گا۔''

اللہ تعالی کی پسند اور ناپسند
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
جزاکم اللہ خیرا!
 
Top