محترم! قصّہ ابلیس وآدم قرآن میں بہت سے مقامات پر مذکور ہے ۔اللہ تعالی نے آدم کے جنّت سے نکالے جانے کا واقعہ مختاف انداز میں پیش کیا ہے۔ ان تمام مقامات میں ایک چیز مشترک ہے اور یہ کہ اللہ تعالی نے اس سارے معاملے کا ملبہ ابلیس پر ڈالا ہے کیونکہ آدم نے فی الفور اپنی غلطی پر رجوع کر لیا تھا ۔حدیث مبارکہ ہے
التائب من الذنب کمن لا ذنب لہ
چنانچہ ارشاد ہوتا ہے
فوسوس لھما الشیطا ن(الاعراف)
فازلھما الشیطان عنھا فاخرجھما مما کانا فیہ(البقرۃ)
فوسوس الیہ الشیطان (طہ)
درج بالا آیات شاہد ہیں کہ اس غلطی کا ذمّہ دار ابلیس ہے۔ پورے قرآن میں صرف ایک مقام پر اللہ نے انسان کو اس معاملے میں خطا کار کہاارشاد باری تعالی ہے
وعصی آدم ربہ فغوی(طہ)
اور آدم نے اپنے رب کی نافرمانی کی پس وہ بھٹک گیا
آپ نے ملاحظہ کیا اللہ نے کس کو نافرمان کہا ؟کیا حوا نے آدم کو بہکایا تھا ؟؟؟؟اگر ایساتھا تو اللہ نے ہمیں کیوں نہ بتایا؟؟؟؟
حافظ عمران الہی صاحب ! آپ نے ہم خواتین کی دلآزاری کی ہے۔ ہم فورم پر موجود تمام خواتین آپ سے گذارش کرتی ہیں کہ اپنے کافرانہ عقیدے کی اصلاح کریں اور اپنا بیان واپس لیں
جزاکم اللہ
انا للہ وانا الیہ رجعون
نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے، اراکین ایسی باتیں لکھ دیتے ہیں کہ مجھے نا چاہتے ہوئے بھی کچھ نہ کچھ لکھنا پڑ جاتا ہے، محترمہ سب سے پہلے تو آپ کے نظریے کو دیکھتے ہیں، آپ نے عمران بھائی کے عقائد کو یہاں "
کافرانہ" قرار دیا، نہ تو یہ لکھتے ہوئے آپ کو ذرا جھجھک محسوس ہوئی نہ کسی قسم کی شرمندگی اور نہ کسی قسم کا خوف، بلکہ ذرا اس سے آگے میں یہ کہوں کہ آپ کو اللہ کا خوف نہیں تو بے جا نہ ہو گا۔ کیونکہ آپ نے ایک موحد مسلمان شخص کی تکفیر جیسے گھناؤنے جرم کی مرتکب ہوئی ہیں، جس کے لئے آپ کو اللہ کی بارگاہ میں سچی توبہ کرنی چاہئے۔ حدیث کا مفہوم ہے کہ جو اپنے مسلمان بھائی کو کافر کہے اور وہ کافر نہ ہو تو یہ کفر کہنے والے کی طرف پلٹ آتا ہے۔ (او کما قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم)
یہ تھا آپ کے لئے ابتدائیہ چند الفاظ میں، اب مجموعی طور پر میرا اس مکمل تھریڈ میں ہونے والی گفتگو پر تجزیہ بھی ملاحظہ کرتے چلیں کہ اوپر کی گئی گفتگو سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ مجھ سمیت آپ سب کو اپنی اپنی اصلاح کرنی چاہئے، ہم غیر ضروری اور غیر اہم واقعات و تجزیات پر تو اپنا قلم اس طرح اٹھاتے ہیں گویا ہم سے بڑھ کر دنیا میں کوئی دانشور نہیں، لیکن انتہائی اہم موضوعات پر جب بولنے کا وقت آتا ہے تب ہم موضوع کے قریب نہیں پھٹکتے۔
کیا اسلامی تعلیمات میں زوجین کے حقوق نہیں بیان کر دئیے جو یہاں تبصروں پر تبصرے کرنے کی نوبت پیش آئی رہی ہے؟ اس گفتگو سے کیا حاصل ہوا ہے، محض ایک دوسرے کے لئے نفرت آمیز رویہ اور قابل مذمت جذبات دیکھنے کے؟ اوپر کی گفتگو کو ملاحظہ کریں تو ایسا لگتا ہے جیسے بدگمانیوں کا سیلاب اُمڈ آیا ہو۔
لوگ جہالت اور لاعلمی کی اس حد کو پہنچ چکے ہیں کہ نعوذباللہ ثم نعوذباللہ اللہ کی ذات کو بھی جھٹلانے میں کوئی عار محسوس نہیں کر رہے، مذہب کو بات بات میں تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، مذہبی لوگوں کو عوام الناس میں انتشار و فساد فی الارض میں ملوث گردانا جا رہا ہے، الحادی نظریات کا دور دورہ ہے، لوگوں کو مذہب کے نام سے چڑ ہے، اور چند لوگ جو مذہب سے اگر ریلیٹڈ ہو بھی جائیں تو آگے غیر اسلامی نظریات و افکارات کی اس قدر بھرمار ہے کہ اللہ کی پناہ۔
کیا اس صورت حال میں ہم کوئی ایسا لائحہ عمل تیار نہیں کر سکتے، جس سے ہماری صلاحتیں کسی اہم اور ضروری بلکہ از حد ضروری کاموں کی طرف خرچ ہو سکیں، کیا ہمیں عقیدہ توحید پر اہل باطل کے شہبات کا ازالہ نہیں کرنا چاہئے؟ کیا ہمیں الحاد و زندیقیت کو جڑ سے اُکھاڑ پھینکنے کی جدوجہد نہیں کرنی چاہئے؟ کیا ہمیں بدعات کے کانٹوں سے سنت کے پھولوں کو الگ کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے؟ ان اہم اور از حد ضروری کاموں کی طرف سے ہماری توجہ ختم ہو کر رہ گئی ہے، اور محض اپنے نام نہاد فلسفیانہ نظریات کا پرچار ہماری نظروں میں گھر کر گیا ہے۔
میری انتظامیہ (
شاکر خضر حیات) بھائی سے گزارش ہے کہ ایسے تمام موضوعات پر کڑی نظر رکھی جائے، اور ایسی غیر ضروری گفتگو کو جس میں محض ممبران ایک دوسرے سے ناحق الجھتے نظر آئیں، ان پر پابندی عائد کی جانی چاہیے۔
یہ تمام باتیں میرا اپنا فہم ہیں، اگر کسی کو کوئی بات بری لگی ہو تو معافی چاہتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی اصلاح کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین
والسلام